Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

47۔ 1 ‏موازین، میزان (ترازو) کی جمع ہے وزن اعمال کے لئے قیامت والے دن یا تو کئی ترازو ہونگے یا ترازو تو ایک ہی ہوگی انسان کے اعمال تو بےوزن ہیں یعنی ان کا کوئی ظاہری وجود یا جسم تو ہے نہیں پھر وزن کس طرح ہوگا ؟ یہ سوال آج سے قبل تک شاید کوئی اہمیت رکھتا ہو۔ لیکن آج سائنسی ایجادات نے اسے ممکن بنادیا ہے۔ اب ان ایجادات کے ذریعے سے بےوزن چیزوں کا وزن بھی تولا جانے لگا ہے۔ جب انسان اس بات پر قادر ہوگیا ہے، تو اللہ کے لئے ان اعمال کا، جو بےوزن کو دکھلانے کے لئے ان بےوزن اعمال کو وہ اجسام میں بدل دے گا اور پھر وزن کرے، جیسا کہ حدیث میں بعض اعمالوں کے مجسم ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلا صاحب قرآن کے لئے ایک خوش شکل نوجوان کی شکل میں آئے گا۔ اور پوچھے گا، تو کون ہے ؟ وہ کہے گا میں قرآن ہوں جسے تو راتوں کو (قیام اللیل) بیدار رہ کر اور دن کو پیاسا رہ کر پڑھا کرتا تھا، اسی طرح مومن کی قبر میں عمل صالح ایک خوش رنگ اور معطر نوجوان کی شکل میں آئے گا اور کافر اور منافق کے پاس اس کی برعکس شکل میں (مسند احمد 5۔ 287) ۔ اس کی مذید تفصیل کے لیے دیکھئے سورة الاعراف 7 کا حاشیہ القسط مصدر اور الموازین کی صفت ہے معنی ہیں ذوات قسط انصاف کرنے والی ترازو یا ترازوئیں

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٢] اس آیت میں مَوَازِیْنُ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو میزان بمعنی ترازو کی جمع ہے۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ ہر شخص کے لئے الگ الگ ترازو رکھا جائے اور دوسرا یہ کہ مختلف اعمال کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف ترازو ہوں۔ یہ حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اعمال کی حقیقت کا صحیح صحیح اندازہ کرنے کے لئے کس قسم کا ترازو استعمال ہوگا۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک شخص پورے خشوع و خضوع کے ساتھ وقت پر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے۔ دوسرا بھی جماعت میں شامل ہوتا ہے مگر گرانبار طبیعت کے ساتھ اور اللہ کی یاد کی بجائے دوسرے ہی خیالات میں مستغرق رہتا ہے اور اس کی نماز ایسے ہوتی ہے جیسے کوئی خود کار آلہ ہو جس کا سوئچ دبا گیا ہو۔ اب ظاہر ہے کہ اجر کے لحاظ سے ان دونوں کی نمازوں میں نمایاں فرق ہے اگرچہ ظاہری شکل و صورت ایک ہی جیسی ہے۔ پھر یہ باطنی معاملات ایسے ہیں جن کا صحیح علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہوسکتا کہ فلاں شخص کے فلاں عمل میں حقیقت کتنی ہے اور وزن تو اعمال کے حقائق کا ہوگا جیسے ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ( وَالْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۝) 7 ۔ الاعراف :8) اور اس بات کی تائید اس حدیث سے بھی ہوجاتی ہے جو حدیث بطاقہ کے کام سے مشہور ہے۔ یعنی قیامت کے دن ایک شخص کو پکارا جائے گا جس کے ننانوے گناہوں کے دفتر ہوں گے اور اس سے پوچھا جائے گا کہ دیکھو کہ ان دفتروں کے مندرجات درست ہیں اور میرے کراماً کاتبین نے تجھ پر کچھ زیادتی تو نہیں کی ؟ وہ کہے گا اے پروردگار یہ سب کچھ درست ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا تمہاری کچھ نیکیاں بھی ہیں ؟ وہ کہے گا، کوئی نہیں۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہاری نیکیاں بھی نہیں اور آج کے دن کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔ پھر اس کے لئے ایک پرچی نکالی جائے گا جس پر اشہد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ درج ہوگا۔ وہ کہے گا اے پروردگار ان ننانوے گناہ کے دفتر کے مقابلہ میں اس پرچی کی کیا حقیقت ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : آج تجھ پر کچھ زیادتی نہیں ہوگی۔ چناچہ میزان الاعمال کے ایک پلڑے میں گناہوں کے ننانوے دفتر رکھیں جائیں گے اور دوسرے میں یہ پرچی تو گناہوں کا پلڑا اوپر اٹھ جائے گا اور پرچی والا نیکیوں کا پلڑا بھاری نکلے گا۔ (ابن ماجہ، ابو اب الزھد، باب مایرحی من (رح) یوم القیامہ) اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اعمال کے حقائق کو تولنے میں ہر ایک کے ساتھ پورا پورا عدل و انصاف ہوگا۔ پھر اس کے مطابق ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔- یہاں یہ بات بھی ملحوظ رکھنی چاہئے لفظ عدل یا قسط کی ضد ظلم ہے اور ظلم اللہ تعالیٰ کی شان کے منافی ہے۔ لہذا نہ تو یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کے چھوٹے سے چھوٹے عمل کا بھی بدلہ نہ دے اور نہ یہ ممکن ہے کہ عمل کے لحاظ سے اجر کم عطا فرمائے۔ اور یہ دونوں ظلم کی صورتیں ہیں۔ لیکن یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کے عمل کا اجر عدل سے بڑھ کر عطا فرمائے اور اس صفت کا نام احسان ہے۔ جو عدل سے بھی برتر صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس معاملہ میں جو چاہے کرسکتا ہے۔ وہ کسی کو عمل سے زیادہ اجر دے۔ کسی کی خطائیں معاف ہی کردے۔ اور اگر حقوق العباد کا معاملہ ہو تو بندوں کو اپنی طرف سے ان کے حق عطا کرکے مجرم کو معاف کردے۔ یہ تو سب کچھ ممکن ہے لیکن اللہ سے ظلم ممکن نہیں۔- اور تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمیں حساب لینا آتا ہے۔ ہم اعمال کے حقائق کی تعیین کو بھی خوب جانتے ہیں اور کسی کے رائی بھر عمل کو بھی اور اس سلسلہ میں ہمیں کسی مددگار کی بھی ضرورت نہیں اور کَفٰی بِنَا حَاسِیِنْ َکا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہمارا لیا ہوا حساب آخری اور فیصلہ کن ہوگا۔ جس کی نہ کوئی پڑتال کرنے کا حق رکھتا ہے اور نہ ہی کہیں اپیل ہوسکے گی۔ کوئی دوسرا اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی کی کچھ بھی مدد نہ کرسکے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ ۔۔ : پچھلی آیات میں ذکر ہوا ہے کہ کفار کے پاس جب تک قدرت رہتی ہے وہ عدل و انصاف سے کنارہ کش اور ظلم و جور پر تلے رہتے ہیں اور اختیار ختم ہوتے ہی حق کا اعتراف کرنے لگتے ہیں، اس آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا معاملہ اس طرح نہیں، وہ ہمیشہ ” قَاءِمًا بالْقِسْطِ “ انصاف پر قائم ہے، حتیٰ کہ قیامت کے دن بھی وہ انصاف کے ترازو قائم فرمائے گا، پھر کسی جان پر کچھ ظلم نہیں ہوگا۔ (بقاعی)- ” الْمَوَازِيْنَ “ ” مِیْزَانٌ“ کی جمع ہے۔ ” الْقِسْطَ “ مصدر ہے جو اسم فاعل ” مُقْسِطٌ“ کے معنی میں ہے اور ” الْمَوَازِيْنَ “ کی صفت ہے، جیسے مبالغے کے لیے عادل آدمی کو ” رَجُلٌ عَدْلٌ“ کہہ لیتے ہیں، یعنی اتنا عادل آدمی کہ سراپا عدل ہے۔ یعنی ہم ایسے ترازو رکھیں گے جو اتنے انصاف والے ہیں گویا عین انصاف ہیں۔ موصوف واحد ہو یا تثنیہ یا جمع، مذکر ہو یا مؤنث، اگر اس کی صفت مصدر ہو تو وہ سب کے لیے ایک جیسی ہوتی ہے۔ ” الْقِسْطَ “ مفعول لہ بھی ہوسکتا ہے، یعنی ہم انصاف کے لیے بہت سے ترازو رکھیں گے۔- ” الْمَوَازِيْنَ “ سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن متعدد ترازو ہوں گے، جن کے ساتھ اعمال کا وزن کیا جائے گا، پھر یا تو ہر آدمی کے لیے الگ ترازو ہوگا یا ہر عمل کے لیے۔ نیز دیکھیے سورة اعراف (٧) ۔- فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا : ” پھر کسی شخص پر کچھ ظلم نہیں کیا جائے گا “ یعنی نہ نیکیوں میں کچھ کمی آئے گی اور نہ برائیوں میں کوئی اضافہ ہوگا۔- وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ 3 ۔۔ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة زلزال (٧، ٨) اور لقمان (١٦) ۔- وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِيْنَ : ہم حساب لینے والے کافی ہیں، ہمیں کسی مدد گار کی ضرورت نہیں، پھر نہ ہمارے حساب کے بعد کسی پڑتال کی گنجائش ہے اور نہ کہیں اپیل ہوسکتی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

قیامت میں وزن اعمال اور اس کی میزان :- وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ لفظ مَوَازِيْنَ میزان کی جمع ہے جو ترازو کے معنے میں آتا ہے اس جگہ میزان کے لئے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے بعض حضرات مفسرین نے یہ قرار دیا ہے کہ وزن اعمال کے لئے بہت سی میزانیں استعمال کی جائیں گی خواہ ہر شخص کے لئے الگ الگ میزان ہو یا خاص خاص اعمال کے لئے الگ الگ میزانیں ہوں مگر جمہوری علماء اس پر متفق ہیں کہ میزان ایک ہی ہوگی اس کو بصیغہ جمع اس لئے تعبیر کردیا ہے کہ وہ بہت سی موازین کا کام دے گی کیونکہ ساری مخلوقات آدم (علیہ السلام) سے قیامت تک جن کی تعداد اللہ ہی جانتا ہے ان سب کے اعمال کو یہی ترازو تولے گی۔ اور قسط کے معنی عدل و انصاف کے ہیں معنے یہ ہیں کہ یہ میزان عدل و انصاف کے ساتھ وزن کرے گی ذرا کمی بیشی نہ ہوگی۔ مستدرک حاکم میں بروایت حضرت سلمان روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز جو میزان وزن اعمال کے لئے رکھی جائے گی اتنی بڑی اور وسیع ہوگی کہ اس میں آسمان و زمین کو تولنا چاہیں تو وہ بھی اس میں سما جائیں۔ (مظہری)- حافظ ابوالقاسم لالکائی نے اپنی سنن میں حضرت انس سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میزان پر ایک فرشتہ مقرر ہوگا اور ہر انسان کو اس میزان کے سامنے لایا جائے گا۔ اگر اس کی نیکیوں کا پلہ بھاری ہوگیا تو فرشتہ منادی کرے گا جس کو تمام اہل محشر سنیں گے کہ فلاں شخص کامیاب ہوگیا اب کبھی اس کو محرومی نہیں ہوگی، اور اگر نیکیوں کا پلہ ہلکا رہا تو یہ فرشتہ منادی کرے گا کہ فلاں شخص شقی اور محروم ہوگیا اب کبھی کامیاب بامراد نہیں ہوگا، اور حافظ مذکور نے حضرت حذیفہ سے روایت کیا ہے کہ یہ فرشتہ جو میزان پر مقرر ہوگا حضرت جبریل امین ہیں۔ (قرطبی)- حاکم اور بیہقی اور آجری نے حضرت صدیقہ عائشہ سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ کیا قیامت کے روز بھی آپ اپنے اہل و اولاد کو یاد رکھیں گے تو فرمایا کہ قیامت میں تین مقام تو ایسے ہوں گے کہ ان میں کوئی کسی کو یاد نہ کرے گا۔ ایک وہ وقت جب میزان عدل کے سامنے وزن اعمال کے لئے حاضر ہوں گے جب تک یہ نتیجہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس کا پلہ نیکیوں کا بھاری ہوا یا ہلکا رہا کسی کو کسی کی یاد نہ آوے گی اور دوسرام مقام وہ ہے جب نامہائے اعمال اڑائے جاویں گے جب تک یہ متعین نہ ہوجائے کہ نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں آیا (جو نجات کی علامت) یا بائیں ہاتھ یا پشت کی طرف آیا (جو عذاب کی علامت ہے) اور تیسرا مقام پل صراط سے گزرنے کا وقت ہے جب تک پار نہ ہوجاویں کوئی کسی کو یاد نہ کرے گا۔ (مظہری)- وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَا بِهَا، یعنی یوم حساب اور میزان اعمال کے وقت انسان کے سارے چھوٹے بڑے اچھے برے اعمال حاضر کئے جائیں گے تاکہ حساب اور وزن میں شامل ہوں۔- وزن اعمال کی صورت :- یہ بھی ہو سکتی ہے کہ فرشتوں کے لکھے ہوئے اعمال نامے تولے جائیں جیسا کہ حدیث بطاقہ سے اس طرف اشارہ نکلتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عین اعمال کو وہاں جواہر مستقلہ کی شکل دے دیجائے اور ان کا وزن کیا جائے عام طور سے روایات اسی پر شاہد ہیں اور جمہور علماء نے اسی صورت کو اختیار کیا ہے۔ قرآن مجید میں وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا وغیرہ آیات اور بہت سی روایات حدیث سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔- اعمال کا محاسبہ :- ترمذی نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آ کر بیٹھا اور بیان کیا یا رسول اللہ میرے دو غلام ہیں جو مجھے جھوٹا کہتے ہیں اور معاملات میں خیانت کرتے ہیں اور میرے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں میں ان کو زبان سے بھی برا بھلا کہتا ہوں اور ہاتھ سے مارتا بھی ہوں، تو میرا اور ان غلاموں کا انصاف کس طرح ہوگا ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ان کی نافرمانی اور خیانت اور سرکشی کو تولا جائے گا، پھر تمہارے سب و شتم اور مار پیٹ کو تولا جائے گا۔ اگر تمہاری سزا اور ان کا جرم برابر ہوئے تو معاملہ برابر ہوجائے گا اور اگر تمہاری سزا ان کے جرم سے کم رہی تو وہ تمہارا احسان شمار ہوگا اور اگر ان کے جرم سے بڑھ گئی تو جتنی تم نے زیادتی کی ہی اس کا تم سے انتقام اور قصاص لیا جاوے گا۔ یہ شخص یہاں سے اٹھ کر الگ بیٹھ گیا اور رونے لگا آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ اس نے عرض کیا کہ اب تو میرے لئے اس کے سوا کوئی راہ نہیں کہ میں ان کو آزاد کر کے اس حساب کے غم سے بےفکر ہوجاؤں۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا۝ ٠ۭ وَاِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَابِہَا۝ ٠ۭ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِيْنَ۝ ٤٧- وضع - الوَضْعُ أعمّ من الحطّ ، ومنه : المَوْضِعُ. قال تعالی: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ- [ النساء 46] ويقال ذلک في الحمل والحمل، ويقال : وَضَعَتِ الحملَ فهو مَوْضُوعٌ. قال تعالی: وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] ، وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] فهذا الوَضْعُ عبارة عن الإيجاد والخلق، ووَضَعَتِ المرأةُ الحمل وَضْعاً. قال تعالی: فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] فأما الوُضْعُ والتُّضْعُ فأن تحمل في آخر طهرها في مقبل الحیض . ووَضْعُ البیتِ : بناؤُهُ. قال اللہ تعالی:- إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] ، وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] هو إبراز أعمال العباد نحو قوله : وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] ووَضَعَتِ الدابَّةُ تَضَعُ في سيرها وَضْعاً : أسرعت، ودابّة حسنةُ المَوْضُوعِ ، وأَوْضَعْتُهَا : حملتها علی الإسراع . قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] والوَضْعُ في السیر استعارة کقولهم : ألقی باعه وثقله، ونحو ذلك، والوَضِيعَةُ : الحطیطةُ من رأس المال، وقد وُضِعَ الرّجلُ في تجارته يُوضَعُ : إذا خسر، ورجل وَضِيعٌ بيّن الضعَةِ في مقابلة رفیع بيّن الرّفعة .- ( و ض ع ) الواضع - ( نیچے رکھ دینا ) یہ حطه سے عام ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] اور آبخورے ( قرینے سے ) رکھے ہوئے ۔ اور اسی سے موضع ہے جس کی جمع مواضع آتی - ہے جس کے معنی ہیں جگہیں یا موقعے جیسے فرمایا : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب ) کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ۔ اور وضع کا لفظ وضع حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں آتا ہے چناچہ محاورہ ہے وضعت لمرءۃ الحمل وضعا عورت نے بچہ جنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار میرے تو لڑکی ہوئی ہے ۔ لیکن الوضع والتضع کے معنی عورت کے آخر طہر میں حاملہ ہونے کے ہیں ۔ وضعت الحمل میں نے بوجھ اتار دیا اور اتارے ہوئے بوجھ کو موضوع کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی ۔ میں وضع سے مراد خلق وایجا د ( یعنی پیدا کرنا ) ہے اور وضع البیت کے معنی مکان بنانے کے آتے ہیں چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے بنایا کیا گیا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] اور عملوں کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی ۔ میں وضع کتاب سے قیامت کے دن اعمال کے دفتر کھولنا اور ان کی جزا دینا مراد ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] اور قیامت کے دن وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا ۔ وضعت ( ف ) الدابۃ فی سیر ھا : سواری تیز رفتاری سے چلی اور تیز رفتار سواری کو حسنتہ المواضع ( وحسن المواضع کہا جاتا ہے ۔ اوضع تھا میں نے اسے دوڑایا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] اور تم میں ( فساد دلوانے کی غرض ) سے دوڑے دوڑے پھرتے ۔ اور وضع کا لفظ سیر یعنی چلنے کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ القی باعہ وثقلہ : میں قیام کرنے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ الوضیعۃ :( رعایت ) کمی جو اصل قمیت میں کی جائے اس نے تجارت میں نقصان اٹھایا رجل وضیع : نہایت خسیس آدمی ( باب کرم ) یہ رفیع کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بلند قدر کے ہیں ۔ - وزن - الوَزْنُ : معرفة قدر الشیء . يقال : وَزَنْتُهُ وَزْناً وزِنَةً ، والمتّعارف في الوَزْنِ عند العامّة : ما يقدّر بالقسط والقبّان . وقوله : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء 182] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] إشارة إلى مراعاة المعدلة في جمیع ما يتحرّاه الإنسان من الأفعال والأقوال . وقوله تعالی: فَلا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ وَزْناً- [ الكهف 105] وقوله : وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر 19] فقد قيل : هو المعادن کالفضّة والذّهب، وقیل : بل ذلک إشارة إلى كلّ ما أوجده اللہ تعالی، وأنه خلقه باعتدال کما قال : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر 49] - ( و زن ) الوزن )- تولنا ) کے معنی کسی چیز کی مقدار معلوم کرنے کے ہیں اور یہ وزنتہ ( ض ) وزنا وزنۃ کا مصدر ہے اور عرف عام میں وزن اس مقدار خاص کو کہتے جو ترا زو یا قبان کے ذریعہ معین کی جاتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء 182] ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تو لو ۔ میں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اپنے تمام اقوال وافعال میں عدل و انصاف کو مد نظر رکھو اور آیت : ۔ وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر 19] اور اس میں ہر ایک سنجیدہ چیز چیز اگائی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کہ شی موزون سے سونا چاندی وغیرہ معد نیات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی مو جو دات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی موجادت مراد لی ہیں اور آیت کے معنی یہ کے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو اعتدال اور تناسب کے ساتھ پید ا کیا ہے جس طرح کہ آیت : ۔ إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر ہ کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ سے مفہوم ہوتا ہے - قسط - الْقِسْطُ : هو النّصيب بالعدل کالنّصف والنّصفة . قال تعالی: لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] ،- ( ق س ط ) القسط ( اسم )- نصف ونصفۃ کی طرح قسط بھی مبنی بر عدل حصہ کو کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] تاکہ ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے ۔- قِيامَةُ- والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ- [ الروم 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] ،- القیامتہ - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔- شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- مِثْقَال - : ما يوزن به، وهو من الثّقل، وذلک اسم لکل سنج قال تعالی: وَإِنْ كانَ مِثْقالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنا بِها وَكَفى بِنا حاسِبِينَ [ الأنبیاء 47] ، وقال تعالی: فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ [ الزلزلة 7- 8] ، وقوله تعالی: فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة 6- 7] ، فإشارة إلى كثرة الخیرات، وقوله تعالی: وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ [ القارعة 8] ، فإشارة إلى قلّة الخیرات .- والثقیل والخفیف يستعمل علی وجهين :- أحدهما علی سبیل المضایفة، وهو أن لا يقال لشیء ثقیل أو خفیف إلا باعتباره بغیره، ولهذا يصحّ للشیء الواحد أن يقال خفیف إذا اعتبرته بما هو أثقل منه، و ثقیل إذا اعتبرته بما هو أخفّ منه، وعلی هذه الآية المتقدمة آنفا .- والثاني أن يستعمل الثقیل في الأجسام المرجّحة إلى أسفل، کالحجر والمدر، والخفیف يقال في الأجسام المائلة إلى الصعود کالنار والدخان، ومن هذا الثقل قوله تعالی: اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة 38] .- المثقال ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے کسی چیز کا وزن کیا جائے چناچہ ہر باٹ کو مثقال کہہ سکتے ہیں قرآن میں ہے ؛۔ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ [ الزلزلة 7- 8] ، وقوله تعالی: فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة 6- 7] تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لیگا تو جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور آیت کریمہ :۔ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ [ القارعة 8] اور جس کے وزن ہلکے نکلیں گے ۔ میں وزن کے ہلکا نکلنے سے اعمال حسنہ کے کم ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ ثقیل اور خفیف کے الفاظ دو طرح استعمال ہوتے ہیں ایک بطور مقابلہ کے یعنی ایک چیز کو دوسری چیز کے اعتبار سے ثقیل یا خفیف کہہ دیا جاتا ہے چناچہ مذکورہ بالا آیت میں نہی معنی مراد ہیں اور دوسرے یہ کہ جو چیزیں ( طبعا) نیچے کی طرف مائل ہوتی ہیں انہیں ثقیل کہا جاتا ہے جیسے حجر مدر وغیرہ اور جو چیزیں ( طبعا) اوپر کو چڑھتی ہیں جیسے آگ اور دہواں انہیں حفیف کہا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ ؛ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة 38] تو تم زمین پر گر سے جاتے ہو ۔ میں زمین پر گرنا دوسرے معنی کے اعتبار سے ہے ۔- حبة- الحَبُّ والحَبَّة يقال في الحنطة والشعیر ونحوهما من المطعومات، والحبّ والحبّة في بزور الریاحین، قال اللہ تعالی: كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ [ البقرة 261] ، وقال : وَلا حَبَّةٍ فِي ظُلُماتِ الْأَرْضِ [ الأنعام 59] ، وقال تعالی: إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام 95] ، وقوله تعالی: فَأَنْبَتْنا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ [ ق 9] ، أي : الحنطة وما يجري مجراها ممّا يحصد، وفي الحدیث : «كما تنبت الحبّة في حمیل السیل» - ( ج ب ب ) الحب والحبۃ ( فتحہ حاء ) گندم ۔ جو وغیرہ مطعومات کے دانہ کو کہتے ہیں ۔ اور خوشبو دار پودوں اور پھولوں کے بیج کو حب وحبۃ کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ [ البقرة 261]( ان کے دلوں ) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بالی میں سو سودانے ہوں ۔ وَلا حَبَّةٍ فِي ظُلُماتِ الْأَرْضِ [ الأنعام 59] اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ ایسا نہیں ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام 95] بیشک خدا ہی دانے اور گھٹلی کو پھاڑ کر ( ان سے درخت اگاتا ہے ۔ ) اور آیت کریمۃ ؛۔ فَأَنْبَتْنا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ [ ق 9] اور اس باغ سے دلبستان اگائے اور اناج ۔ میں حب الحصید سے گندم وغیرہ مراد ہے جو کاٹا جاتا ہے اور حدیث میں ہے ۔ کما تنبت الحبۃ فی جمیل السیل ۔ جیسے گھاس پات کے بیج جو سیلاب کے بہاؤ میں آگ آتے ہیں ۔- خردل۔ رائی۔ مثقال حبۃ من خردل۔ رائی کے دانہ کے ہم وزن - كفى- الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ- [ الأحزاب 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل .- ( ک ف ی ) الکفایۃ - وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ :- ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔- حسب - الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] - ( ح س ب ) الحساب - کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٧) بلکہ ہم قیامت کے روز میزان عدل قائم کریں گے اس میزان کے دو پلڑے ہوں گے اور اس کی زبان بھی ہوگی اس میں نیکیوں اور برائیوں کے علاوہ اور کسی چیز کا وزن نہیں کیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا یعنی ایسا ہرگز نہیں ہوگا کہ کسی کی نیکیوں میں سے کچھ کمی کردی جائے اور کسی کی برائیوں میں اضافہ کردیا جائے۔ بلکہ اگر کسی کا کوئی عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا تو ہم اسے وہاں حاضر کردیں گے یا یہ کہ اس کا بدلہ دے دیں گے اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں یا یہ کہ ہم حفاظت کرنے والے اور جاننے والے کافی ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَکَفٰی بِنَا حٰسِبِیْنَ ) ” - اس سلسلے میں ہمیں کسی مدد گار کی ضرورت نہیں ہوگی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :48 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ 8 ۔ 9 ۔ ہمارے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اس ترازو کی نوعیت کیا ہو گی ۔ بہرحال وہ کوئی ایسی چیز ہوگی جو مادی چیزوں کو تولنے کے بجائے انسان کے اخلاقی اوصاف و اعمال اور اس کی نیکی و بدی کو تولے گی ۔ اور ٹھیک ٹھیک وزن کر کے بتا دے گی کہ اخلاقی حیثیت سے کس شخص کا کیا پایہ ہے ۔ نیک ہے تو کتنا نیک ہے اور بد ہے تو کتنا بد ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ہماری زبان کے دوسرے الفاظ کو چھوڑ کر ترازو کا لفظ یا تو اس وجہ سے انتخاب فرمایا ہے کہ اس کی نوعیت ترازو سے اشبہ ہو گی ، یا اس انتخاب کا مقصد یہ تصور دلانا ہے کہ جس طرح ایک ترازو کے پلڑے دو چیزوں کے وزن کا فرق ٹھیک ٹھیک بتا دیتے ہیں ، اسی طرح ہماری میزان عدل بھی ہر انسان کے کارنامہ زندگی کو جانچ کر بےکم و کاست بتا دے گی کہ اس میں نیکی کا پہلو غالب ہے یا بدی کا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

23: اس آیت نے واضح فرمایا ہے کہ قیامت کے دن صرف یہی نہیں کہ تمام لوگوں سے انصاف ہوگا ؛ بلکہ اس بات کا بھی اہتمام کیا جائے گا کہ انصاف سب لوگوں کو آنکھوں سے نظر آئے، اس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ ایسی ترازویں برسر عام نصب فرمائیں گے جن میں انسانوں کے اعمال کو تولا جائے گا اور اعمال کے وزن کے حساب سے انسانوں کے انجام کا فیصلہ ہوگا، انسان جو عمل بھی کرتا ہے اس دنیا میں اگرچہ ان کا نہ کوئی جسم نظر آتا ہے اور نہ ان میں کسی وزن کا احساس ہوتا ہے، لیکن آخرت میں اللہ تعالیٰ ان کا وزن کرنے کی ایسی صورت پیدا فرمائیں گے جن سے ان اعمال کی حقیقت واضح ہوجائے، اگر انسان سردی گرمی جیسی چیزوں کو تولنے کے لئے نئے نئے آلات ایجاد کرسکتا ہے تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ ان اعمال کو تولنے کا عملی مظاہرہ فرمادیں۔