Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

46۔ 1 یعنی عذاب کا ایک ہلکا سا چھٹا اور تھوڑا حصہ بھی پہنچے گا تو پکار اٹھیں گے اور اعتراف جرم کرنے لگ جائیں گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَىِٕنْ مَّسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ ۔۔ : ” نَفْحَةٌ“ کسی چیز کا ایک دفعہ کا تھوڑا سا حصہ، مثلاً ہوا کا ہلکا سا جھونکا، آگ یا گرمی کی معمولی سی لپٹ، خوشبو کی ہلکی سی لپٹ۔ یعنی آج تو یہ لوگ تکبر کی وجہ سے بہرے ہو رہے ہیں مگر جلد ہی ان کی یہ حالت بدل جائے گی اور عذاب کا تو ذکر ہی کیا، اگر صرف ایک مرتبہ اس کی ذرا سی لپٹ انھیں چھو بھی گئی تو ساری شیخی ختم ہوجائے گی اور واویلا کرنے لگیں گے، مگر اس وقت چیخ پکار کچھ فائدہ نہ دے گی۔ کفار کا عذاب دیکھتے ہی اپنے ظالم ہونے کا اقرار قرآن مجید میں کئی جگہ مذکور ہے۔ دیکھیے سورة مومن (٨٤، ٨٥) ۔- ہلکے سے ہلکے عذاب سے ان کی یہ حالت ہونے کی تصویر کشی کے لیے تین مبالغے استعمال کیے گئے۔ لفظ ” مَسّ “ (چھونا) اور ” نَفْحَةٌ“ کا لفظ، جس کا معنی کسی بھی چیز کا کم از کم ہونا ہے اور ” نَفْحَةٌ“ میں ” تاء “ جو ایک مرتبہ کے مفہوم کو واضح کرتی ہے۔ (زمحشری)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَىِٕنْ مَّسَّتْہُمْ نَفْحَۃٌ مِّنْ عَذَابِ رَبِّكَ لَيَقُوْلُنَّ يٰوَيْلَنَآ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِيْنَ۝ ٤٦- مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - نفح - نَفَحَ الرِّيحُ يَنْفُحُ نَفْحاً ، وله نَفْحَةٌ طَيِّبة . أي : هُبُوبٌ مِنَ الخیرِ ، وقد يُسْتَعارُ ذلک للشرِّ. قال تعالی: وَلَئِنْ مَسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِنْ عَذابِ رَبِّكَ [ الأنبیاء 46] ونَفَحَتِ الدَّابَّةُ : رَمَتْ بحافرها، ونَفَحَهُ بالسَّيْفِ : ضَرَبَهُ به، والنَّفُوحُ من النُّوق : التي يخرُج لَبَنُهَا من غير حَلْبٍ ، وقَوْسٌ نَفُوحٌ: بعیدةُ الدَّفْعِ للسَّهْم، وأَنْفِحَةُ الجَدْيِ معروفةٌ.- ( ن ف ح ) نفح - ( ن ) نفحا الریح ہوا کا چلنا لہ نفحۃ طیبۃ ۔ وہ سخی ہے ۔ اور کبھی بطور استعارہ شر کے لئے بھی نفحۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَلَئِنْ مَسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِنْ عَذابِ رَبِّكَ [ الأنبیاء 46] اور اگر ان کو تمہارے پروردگار کا تھوڑا سا عذاب بھی پہنچے ۔ نفحت الدابۃ جانور کا سم سے مارنا ۔ نفحہ بالسیف ہلکی سی تلوار مارنا ۔ النفوخ ( من لنوق ) وہ اونٹنی جس کے تھنوں سے بغیر دوہنے کے دودھ نکل پڑے من القسی دور تک پھینکنے والی کمان ۔ انفحۃ الجدی بکری کے شیر خواری بچے کے پیٹ سے ایک زور دسی چیز نکالتے ہیں اور اسے پشم کے لتہ میں لپیٹ کر پنیر کی طرح خشک کرلیتے ہیں عوام اسے مجنبۃ کہتے ہیں ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - ويل - قال الأصمعيّ : وَيْلٌ قُبْحٌ ، وقد يستعمل علی التَّحَسُّر .- ووَيْسَ استصغارٌ. ووَيْحَ ترحُّمٌ. ومن قال : وَيْلٌ وادٍ في جهنّم، قال عز وجل : فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة 79] ، وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم 2]- ( و ی ل ) الویل - اصمعی نے کہا ہے کہ ویل برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر ویل اور تحقیر کے لئے ویس اور ترحم کے ویل کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی کا نام ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة 79] ان پر افسوس ہے اس لئئے کہ بےاصل باتیں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور پھر ان پر افسوس ہے اس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم 2] اور کافروں کے لئے سخت عذاب کی جگہ خرابی ہے ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٦) اور اگر ان کو آپ کے رب کے عذاب کا ایک جھونکا بھی لگ جائے تو یوں کہنے لگیں گے کہ ہائے ہماری کم بختی ہم نے ہی اللہ تعالیٰ کا کفر کرکے اپنے اوپر ظلم کیا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٦ (وَلَءِنْ مَّسَّتْہُمْ نَفْحَۃٌ مِّنْ عَذَابِ رَبِّکَ لَیَقُوْلُنَّ یٰوَیْلَنَآ اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیْنَ ) ” - یہی لوگ جو اب اکڑ اکڑ کر باتیں کرتے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر طنز و استہزاء کے تیر برساتے ہیں ‘ عذاب الٰہی کا ایک جھٹکا بھی نہیں سہہ سکیں گے اور دہائی مچانا شروع کردیں گے کہ قصور وار ہم خود ہی تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :47 وہی عذاب جس کے لیے یہ جلدی مچاتے ہیں اور مذاق کے انداز میں کہتے ہیں کہ لاؤ نا وہ عذاب کیوں نہیں وہ ٹوٹ پڑتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani