45۔ 1 یعنی قرآن سنا کر انھیں وعظ و نصیحت کر رہا ہوں اور یہی میری ذمہ داری ہے اور منصب ہے۔ لیکن جن لوگوں کے کانوں کو اللہ نے حق کے سننے سے بہرا کردیا، آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور دلوں پر مہر لگا دی، ان پر اس قرآن کا اور وعظ و نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
[٤١] اصل بات یہ ہے کہ یہ ابھی تک اندھے اور بہرے بنے ہوئے ہیں۔ نہ وقت کی آواز کو سنتے ہیں اور نہ ہی وقت کی رفتار دیکھنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں اور اگر انھیں اللہ کا پیغام سنایا جائے اور اخروی انجام سے ڈرایا جائے تو سننے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتے۔ یہ لوگ دراصل لاتوں کے بھوت ہیں۔ جب تک انہوں نے اللہ کے عذاب کا مزا نہ چکھا، اپنی خواب غفلت سے کبھی بیدار نہ ہوں گے۔ اس وقت وہ اپنی خطاؤں اور کوتاہیوں کا اعتراف تو کرنے لگیں گے۔ مگر اس وقت ان کے اعتراف کا کچھ فائد نہ ہوگا۔
قُلْ اِنَّمَآ اُنْذِرُكُمْ بالْوَحْيِ : یعنی آپ ان سے کہہ دیں کہ میرا کام تو وحی کے مطابق تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈرانا ہے، عذاب لانا نہیں۔ وہ صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور فوراً عذاب لانا اس کی کونی اور شرعی حکمتوں کے خلاف ہے، کیونکہ اس سے آزمائش کا مقصد فوت ہوتا ہے۔- وَلَا يَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَاۗءَ : بہروں سے مراد کفار ہیں جنھیں حق سنائی ہی نہیں دیتا۔ الف لام عہد کا ہے، اس لیے ترجمہ ” یہ بہرے “ کیا گیا ہے۔ آیت کے شروع میں کفار کو مخاطب فرمایا کہ ” میں تو تمہیں وحی کے ساتھ ڈراتا ہوں “ پھر فرمایا ” یہ بہرے پکار نہیں سنتے “ ، بعد میں انھیں غائب کے صیغے سے ذکر فرمایا کہ یہ لوگ مخاطب کرنے کے اہل ہی نہیں، یہ التفات ہے۔- اِذَا مَا يُنْذَرُوْنَ : ” جب ڈرائے جاتے ہیں “ کے الفاظ سے ان کے بہرے پن کی شدت بیان کرنا مقصود ہے، کیونکہ بہرہ تو کوئی بھی بات نہیں سنتا، خواہ ڈرانے کی ہو یا خوش خبری کی، مگر عام دستور ہے کہ ڈرانے کے وقت زیادہ سے زیادہ اونچی آواز کے ساتھ پکارا جاتا ہے۔ تو جو بہرہ اتنی بلند پکار نہ سنے وہ کوئی اور آواز کیا سنے گا ؟
قُلْ اِنَّمَآ اُنْذِرُكُمْ بِالْوَحْيِ ٠ۡۖ وَلَا يَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَاۗءَ اِذَا مَا يُنْذَرُوْنَ ٤٥- نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔- وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - صمم - الصَّمَمُ : فقدانُ حاسّة السّمع، وبه يوصف من لا يُصغِي إلى الحقّ ولا يقبله . قال تعالی:- صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] ،- ( ص م م ) الصمم - کے معنی حاصہ سماعت ضائع ہوجانا کے ہیں ( مجاز) اس کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوتا ہے جو نہ تو حق کی آواز سنے اور نہ ہی اسے قبول کرے ( بلکہ اپنی مرضی کرتا چلا جائے ) قرآن میں ہے : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔
(٤٥) آپ ان سے فرما دیجیے کہ میں تو صرف وحی یعنی قرآن کریم کے ذریعے سے تمہیں ڈراتا ہوں اور ان بہروں کو جس وقت حق کی دعوت دی جاتی ہے اور اس سے ان کو ڈرایا جاتا ہے تو یہ سنتے ہی نہیں یا یہ کہ آپ ان بہروں کو حق کی بات کہاں سنا سکتے ہیں۔
(وَلَا یَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَآءَ اِذَا مَا یُنْذَرُوْنَ ) ” - اگر آپ ایک بہرے کو چلا چلا کر خبردار کر رہے ہوں کہ تمہارے پیچھے سے ایک شیر تم پر حملہ آور ہونے جا رہا ہے تو وہ کہاں خود کو اس خطرے سے بچائے گا۔ یہی مثال ان منکرین کی ہے جو دعوت حق کی آواز سننے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں۔