Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 ان سرگوشی کرنے والے ظالموں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ کہا کہ یہ قرآن تو پریشان خواب کی طرح حیران کن افکار کا مجموعہ، بلکہ اس کا اپنا گھڑا ہوا ہے، بلکہ یہ شاعر ہے اور یہ قرآن کتاب ہدایت نہیں، شاعری ہے۔ یعنی کسی ایک بات پر ان کو قرار نہیں ہے۔ ہر روز ایک نیا پینترا بدلتے اور نئی سے نئی الزام تراشی کرتے ہیں۔ 5۔ 2 یعنی جس طرح ثمود کے لئے اونٹنی، موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے عصا اور ید بیضا وغیرہ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦] اصل بات یہ ہے کہ آپ کی مخالفت کی حد تک سارے قریشی سردار متفق تھے لیکن انھیں یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آپ کو کہیں تو کیا کہیں۔ جادوگر کہیں، آسیب شدہ کہیں، کاہن کہیں یا شاعر کہیں۔ لوگوں کو کیا کہہ کر اس ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے باز رکھیں۔ چناچہ اسی غرض کے لئے قریشی سردار والید بن مغیرہ کے پاس گئے جو ابو جہل کا چچا تھا اور حرب بن امیہ کی وفات کے بعد قریش کی سیادت اسی کے ہاتھ میں آئی تھی۔ سوال یہ سامنے آیا کہ اس نبی کی دعوت کو کیونکر غیر موثر بنایا جاسکتا ہے تاکہ باہر سے آنے والے حجاج اس شخص کے شر سے محفوظ رہ سکیں۔ ولید بن مغیرہ سمجھدار آدمی تھی۔ بولا اس سلسلہ میں اپنی اپنی تجاویز پیش کرو - ایک شخص نے کہا : ہم کہیں گے کہ یہ شخص کاہن ہے ولید کہنے لگا : واللہ یہ شخص کاہن نہیں۔ اس کے کلام میں نہ کاہنوں جیسی گنگناہٹ ہے، نہ قاغیہ نہ کوئی اور تک بندی، وہ کاہن کیسے ہوسکتا ہے ؟- دوسرے نے کہا : ہم کہیں گے وہ دیوانہ ہے ولید کہنے لگا، بخدا وہ پاگل بھی نہیں۔ ہم نے پاگلوں کو بھی دیکھا ہے۔ اس کے اندر نہ پاگلوں جیسی دم گھٹنے کی کیفیت ہے، نہ الٹی سیدھی حرکتیں ہیں اور نہ ان جیسی بہکی بہلی باتیں ہیں - تیسرے نے کہا : ہم کیں گے وہ شاعر ہے ولید کہنے لگا، وہ شاعر بھی نہیں۔ ہمیں رجز، حجز، قریض، مقبوض، مبسوط سارے ہی اصناف سخن معلوم ہیں۔ اس کی بات بہرحال شعر نہیں ہے - چوتھے نے کہا : ہم کہیں گے کہ وہ جادوگر ہے ولید نے کہا، وہ جادوگر بھی نہیں۔ یہ شخص نہ تو کی طرح جھاڑ پھونک کرتا ہے اور نہ گرہ لگاتا ہے - تب لوگوں نے جھنجھلا کر کہا : پھر تم ہی اپنی بےداغ رائے پیش کرو وہ کہنے لگا۔ مجھے ذرا سوچ لینے دو ۔ بڑی سوچ بچار کے بعد اس نے اپنی رائے پیش کی کہ تم لوگ یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ شخص ایسا کلام پیش کرتا ہے جو ایسا جادو ہے جس سے بھائی بھائی سے، باپ بیٹے سے، شوہر بیوی سے جدا ہوجاتا ہے۔ اور کنبے، قبیلے میں پھوٹ پڑجاتی ہے چناچہ اس تجویز پر متفق ہو کر سب لوگ رخصت ہوگئے۔- چناچہ اس تجویز پر عمل درآمد کے لئے قریش نے ایک گیارہ رکنی کمیٹی تشکیل دی جس کا سربراہ ابو لہب تھا۔ جہاں کہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبلیغ کے لئے پہنچتے، وہاں ابو لہب بھی پیچھے پیچھے پہنچ جاتا اور کہتا : لوگو اس شخص کی بات پر کان نہ دھرنا، یہ بےدین ہے اور ایسا کلام پیش کرتا ہے جس سے کنبے قبیلے میں دشمنی پڑجاتی ہے۔ ان لوگوں کی معاندانہ سرگرمیوں کا نتیجہ ان کے خواہش کے بالکل برعکس نکلا۔ اسلام اور پیغمبر اسلام کا نام ان کے ذریعہ عرب کے گوشے گوشے میں پہنچ گیا اور لوگوں میں جستجو پیدا ہوگئی کہ آخر ایسے شخص کی بات تو ضرور سننا چاہئے۔ اس طرح دشمنوں نے وہ کام تھوڑے ہی عرصہ میں کرکے دکھلا دیا جو مسلمان شائد مدت تک نہ کرسکتے۔ کافروں کی ایسی معاندانہ سرگرمیوں سے ہی اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے خیر کا پہلو پیدا کردیا۔- ابو لہب کے علاوہ ایک دوسرا شخص نضر بن حارث تھا جس کا طریق کار ابو لہب سے بالکل جداگانہ تھا۔ ایک دفعہ وہ سرداران قریش سے کہنے لگا : اے قریشیو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے سب سے زیادہ پسندیدہ، سچے اور امانت دار آدمی تھے، اب اگر وہ اللہ کا پیغام لے کر آئے ہیں تو تم کبھی انھیں شاعر کہتے ہو، کبھی کاہن، کبھی پاگل اور کبھی جادوگر کہتے ہو۔ حالانکہ وہ نہ شاعر ہے نہ کاہن ہے، نہ پاگل ہے اور نہ جادوگر ہے۔ کیونکہ ہم ایسے لوگوں کو خوب جانتے ہیں۔ اے اہل قریش سوچو، تم پر یہ کیسی افتاد آپڑی ہے پھر اس افتاد کا حل جو نضر بن حارث نے سوچا وہ یہ تھا کہ خود حیرہ گیا۔ وہاں سے بادشاہوں کے حالات اور ستم و اسفندیار کے قصے سیکھے۔ پھر یہ بھی ابو لہب کی طرح ہر اس مقام پر جا پہنچتا۔ جہاں پیغمبراسلام تبلیغ کے لئے جاتے۔ وہاں پہنچ کر یہ اپنے قصے سنا کر لوگوں سے پوچھتا کہ آخر کس بنا پر محمد کا کلام مجھ سے بہتر ہے ؟ اس کی سرگرمیوں کا بھی وہی اثر ہوا جو ابو لہب کی سرگرمیوں کا ہوا تھا۔- [٧] یعنی وہ معجزہ کا مطالبہ تو اس طرح کرتے ہیں کہ جیسے وہ ایمان لانے کو بالکل تیار بیٹھے ہیں بس صرف ایک معجزہ دیکھنے کی ہی کسر باقی رہ گئی ہے۔ حالانکہ اقوام سابقہ کی ہلاکت کا سبب ہی یہ بنا تھا کہ انہوں نے معجزہ کا مطالبہ کیا۔ جو انھیں دیا گیا مگر وہ پھر بھی ایمان نہ لائے تھے۔ اب اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ معجزہ دیکھ کر ایمان لے ہی آئیں گے ؟ یہ بھی سابقہ اقوام کی طرح اپنی ہلاکت کے درپے ہوچکے ہیں ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

بَلْ قَالُـوْٓا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ ۔۔ : ” اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ “ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة یوسف (٤٤) ۔- اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو جھٹلانے والے کفار کے مختلف اقوال ذکر کرکے ثابت کیا کہ یہ خوب جانتے ہیں کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، مگر ضد اور عناد کی وجہ سے اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، اس لیے سخت بدحواس اور مذبذب ہیں کہ قرآن کو کیا کہہ کر جھٹلائیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ یہ خوابوں کی پریشان باتیں ہیں، پھر کہتے ہیں کہ نہیں، بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے خود تصنیف کرکے اللہ کے ذمے لگا دیا ہے۔ پھر اس پر تسلی نہیں ہوتی تو کہتے ہیں کہ نہیں، اصل یہ ہے کہ آپ شاعر ہیں اور یہ قرآن آپ کے شاعرانہ تخیل کا نتیجہ ہے۔ سورة مدثر (١٨ تا ٢٥) میں کفار کے ایک کھڑپینچ کی اسی طرح کی پریشان خیالی کا ذکر فرمایا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی ایسی تمام باتوں کا جواب دے رکھا تھا کہ اگر تمہیں اس قرآن کے اللہ کا کلام ہونے میں شک ہے تو اس جیسی کتاب بنا کرلے آؤ، یا دس سورتیں بنا کرلے آؤ، چلو یہ بھی نہیں تو اس جیسی ایک سورت بنا کرلے آؤ۔ اگر یہ بھی نہ کرو اور کر بھی نہیں سکو گے، تو جہنم کی آگ سے ڈر کر اس پر ایمان لے آؤ۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کیا گیا سب سے بڑا معجزہ ہے۔ کفار کے پاس اس کا کوئی جواب نہ اس وقت تھا اور نہ قیامت تک اس کا جواب لاسکتے ہیں۔ مگر وہ ماننے کے لیے تیار ہی نہ تھے، اس لیے کہنے لگے کہ اس معجزے کو دیکھ کر ہم ایمان نہیں لائیں گے، ہمارے پاس تو یہ رسول وہ معجزے لے کر آئے جو پہلے رسولوں کو دیے گئے تھے، مثلاً صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی، موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا، عیسیٰ (علیہ السلام) کا مردہ کو زندہ کرنا، نابینا کو بینا کرنا وغیرہ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

بَلْ قَالُـوْٓا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍۢ، اضغاث احلام ان خوابوں کو کہا جاتا ہے جن میں کچھ نفسانی یا شیطانی خیالات شامل ہوجاتے ہیں اس لئے اس کا ترجمہ پریشان خیالات سے کیا گیا ہے۔ یعنی ان منکرین نے اول تو قرآن کو جادو کہا پھر اس سے آگے بڑھے تو پریشان خواب کہنے لگے پھر اس سے بھی آگے بڑھے تو کہنے لگے یہ تو اللہ تعالیٰ پر افتراء اور بہتان ہے کہ یہ اس کا کلام ہے پھر کہنے لگے کہ اصل بات یہ ہے کہ یہ کوئی شاعر آدمی ہے شاعرانہ خیالات اس کے کلام میں ہوتے ہیں۔- فَلْيَاْتِنَا بِاٰيَةٍ یعنی اگر یہ واقعی نبی و رسول ہیں تو ہمارے مانگے ہوئے خاص معجزات دکھلائیں اس کے جواب میں حق تعالیٰ نے فرمایا کہ پچھلی امتوں میں اس کا بھی تجربہ اور مشاہدہ ہوچکا ہے کہ جس طرح کا معجزہ انہوں نے خود طلب کیا اللہ کے رسول کے ہاتھوں وہی معجزہ سامنے آ گیا مگر وہ پھر بھی ایمان نہ لائے اور منہ مانگے معجزے کو دیکھنے کے بعد بھی جو قوم ایمان سے گریز کرے اس کے لئے اللہ کا قانون یہ ہے کہ دنیا ہی میں عذاب نازل کر کے ختم کردی جاتی ہے اور چونکہ امت مرحومہ کو حق تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعزاز میں دنیا کے عذاب عام سے محفوظ کردیا ہے اس لئے ان کو ان کے مانگے ہوئے معجزات دکھلانا مصلحت نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

بَلْ قَالُـوْٓا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍؚبَلِ افْتَرٰىہُ بَلْ ہُوَشَاعِرٌ۝ ٠ۚۖ فَلْيَاْتِنَا بِاٰيَۃٍ كَـمَآ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ۝ ٥- ضغث - الضِّغْثُ : قبضةُ ريحانٍ ، أو حشیشٍ أو قُضْبَانٍ ، وجمعه : أَضْغَاثٌ. قال تعالی: وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثاً- [ ص 44] ، وبه شبّه الأحلام المختلطة التي لا يتبيّن حقائقها، قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ- [يوسف 44] : حزم أخلاط من الأحلام .- ( ض غ ث) الضغث - ۔ ریحان ۔ خشک گھاس یا شاخیں جو انسان کی مٹھی میں آجائیں اس کی جمع اضغاث آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثاً [ ص 44] اپنے ہاتھ میں مٹھی پھر گھاس لو ۔ اسی سے ایسے خواب کو جو ملتبس سا ہو اور اس کا مطلب واضح نہ ہو ، اضغاث احلام کہاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ [يوسف 44] انہوں نے کہا یہ تو پریشان سے خواب ہیں ۔ یعنی پریشان اور بےمعنی خوابوں کے پلندے ہیں ۔- حلم ( خواب)- ويقال : حَلَمَ «1» في نومه يَحْلُمُ حُلْماً وحُلَماً ، وقیل : حُلُماً نحو : ربع، وتَحَلَّمَ واحتلم، وحَلَمْتُ به في نومي، أي : رأيته في المنام، قال اللہ تعالی: قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ [يوسف 54] ، - ( ح ل م ) الحلم - حلم ( ن ) فی نومہ خواب دیکھنا مصدر حلم اور حلم مثل ربع بھی کہا گیا ہے ۔ اور ۔ یہی معنی تحلم واحتلم کے ہیں ۔ حلمت بہ فی نومی ۔ میں نے اسے خواب میں دیکھا ۔ قرآن میں ہے : ۔ قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ [يوسف 54] انہوں نے کہا یہ تو پریشان سے خواب ہیں ۔- فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) القری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ - شعر ( شاعر)- الشَّعْرُ معروف، وجمعه أَشْعَارٌ قال اللہ تعالی: وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها وَأَشْعارِها [ النحل 80] ، وشَعَرْتُ : أصبت الشَّعْرَ ، ومنه استعیر : شَعَرْتُ كذا، أي علمت علما في الدّقّة كإصابة الشَّعر،- وسمّي الشَّاعِرُ شاعرا لفطنته ودقّة معرفته، فَالشِّعْرُ في الأصل اسم للعلم الدّقيق في قولهم : ليت شعري، وصار في التّعارف اسما للموزون المقفّى من الکلام، والشَّاعِرُ للمختصّ بصناعته، وقوله تعالیٰ حكاية عن الکفّار : بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء 5] ، وقوله : لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات 36] ، شاعِرٌ نَتَرَبَّصُ بِهِ [ الطور 30] ، وكثير من المفسّرين حملوه علی أنهم رموه بکونه آتیا بشعر منظوم مقفّى، حتی تأوّلوا ما جاء في القرآن من کلّ لفظ يشبه الموزون من نحو : وَجِفانٍ كَالْجَوابِ وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] ، وقوله : تَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد 1] . وقال بعض المحصّلين : لم يقصدوا هذا المقصد فيما رموه به، وذلک أنه ظاهر من الکلام أنّه ليس علی أسالیب الشّعر، ولا يخفی ذلک علی الأغتام من العجم فضلا عن بلغاء العرب، وإنما رموه بالکذب، فإنّ الشعر يعبّر به عن الکذب، والشَّاعِرُ : الکاذب حتی سمّى قوم الأدلة الکاذبة الشّعريّة، ولهذا قال تعالیٰ في وصف عامّة الشّعراء : وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء 224] ، إلى آخر السّورة، ولکون الشِّعْرِ مقرّ الکذب قيل : أحسن الشّعر أكذبه . وقال بعض الحکماء : لم ير متديّن صادق اللهجة مفلقا في شعره . - ( ش ع ر )- الشعر بال اس کی جمع اشعار آتی ہے قرآن میں ہے ۔ وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها وَأَشْعارِها [ النحل 80] اون اور ریشم اور بالوں سے شعرت کے معنی بالوں پر مارنے کے ہیں ۔ اور اسی سے شعرت کذا مستعار ہے جس کے معنی بال کی طرح باریک علم حاصل کرلینے کے ہیں اور شاعر کو بھی اس کی فطانت اور لطافت نظر کی وجہ سے ہی شاعر کہا جاتا ہے تو لیت شعری کذا کے محاورہ میں شعر اصل میں علم لطیف کا نام ہے پھر عرف میں موزوں اور مقفیٰ کلام کو شعر کہا جانے لگا ہے اور شعر کہنے والے کو شاعر کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء 5] بلکہ اس نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے ۔ نہیں بلکہ ( یہ شعر ہے جو اس ) شاعر کا نتیجہ طبع ہے ۔ نیز آیت کریمہ : ۔ لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات 36] ایک دیوانے شاعر کے کہنے سے ۔ اور آیت شاعِرٌ نَتَرَبَّصُ بِهِ [ الطور 30] شاعر ہے اور ہم اس کے حق میں ۔۔۔ انتظار کر رہے ہیں ۔ بہت سے مفسرین نے یہ سمجھا ہے کہ انہوں نے آنحضرت پر شعر بمعنی منظوم اور مقفیٰ کلام بنانے کی تہمت لگائی تھی ۔ حتی کہ وہ قران میں ہر اس آیت کی تاویل کرنے لگے جس میں وزن پایا جاتا ہے جیسے وَجِفانٍ كَالْجَوابِ وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] لیکن بعض حقیقت شناس لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے ان کا مقصد منظوم اور مقفیٰ کلام بنانے تہمت لگانا نہیں تھا ۔ کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ قرآن اسلوب شعری سے مبرا ہے اور اس حقیقت کو عوام عجمی بھی سمجھ سکتے ہیں پھر فصحاء عرب کا کیا ذکر ہے ۔ بلکہ وہ آپ پر ( نعوذ باللہ ) جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے کیونکہ عربی زبان میں شعر بمعنی کذب اور شاعر بمعنی کاذب استعمال ہوتا ہے ۔ حتی کہ جھوٹے دلائل کو ادلۃ شعریۃ کہا جاتا ہے اسی لئے قرآن نے شعراء کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے :۔ وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء 224] اور شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کیا کرتے ہیں ۔ اور شعر چونکہ جھوٹ کا پلندہ ہوتا ہے ۔ اس لیے مقولہ مشہور ہے کہ احسن الشعر اکذبہ سب سے بہتر شعروہ ہے جو سب سے زیادہ جھوٹ پر مشتمل ہوا اور کسی حکیم نے کہا ہے کہ میں نے کوئی متدین اور راست گو انسان ایسا نہیں دیکھا جو شعر گوئی میں ماہر ہو ۔ المشاعر حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- رسل ( ارسال)- والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] - ( ر س ل ) الرسل - الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥) بلکہ بعض نے یوں بھی کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو ہمارے پاس لے آکر آئے ہیں یہ منتشر خیالات ہیں، بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان قرآن کریم کو اپنی طرف سے بنالیا بلکہ بعض نے کہا یہ تو شاعر ہیں، شاعروں کی باتیں ایسی ہی ہوتی ہیں، ان کو چاہیے کہ ہمارے پاس کوئی بڑی نشانی لائیں جیسا کہ پہلے رسول اپنی اپنی قوم کے انکار کے وقت نشانیاں لائے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥ (بَلْ قَالُوْٓا اَضْغَاثُ اَحْلاَمٍ م) ” - کبھی وہ کہتے کہ یہ اللہ کا کلام تو ہرگز نہیں ہے ‘ بلکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوتے میں خواب دیکھتے ہیں اور خوابوں کے پراگندہ خیالات پر مبنی باتیں لوگوں کو سناتے رہتے ہیں۔- (بَلِ افْتَرٰٹہُ ) ” - کبھی کہتے کہ یہ کلام تو خود ان کا اپنا گھڑا ہوا ہے مگر یہ غلط طور پر اسے اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔- (بَلْ ہُوَ شَاعِرٌ ج ) ” - کبھی کہتے کہ خدا داد شاعرانہ صلاحیت کی بنا پر ان پر آمد ہوتی ہے اور یوں یہ کلام ترتیب پاتا ہے۔- (فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَۃٍ کَمَآ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ ) ” - اور کبھی کہتے کہ اگر یہ واقعتا اللہ کے رسول ہیں تو پھر پہلے رسولوں کی طرح ہمیں کوئی معجزہ دکھائیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :7 اس کا پس منظر یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا اثر جب پھیلنے لگا تو مکہ کے سرداروں نے آپس میں مشورہ کر کے یہ طے کیا کہ آپ کے مقابلے میں پروپیگنڈا کی ایک مہم شروع کی جائے اور ہر اس شخص کو ، جو مکہ میں زیارت کے لیے آئے آپ کے خلاف پہلے ہی سے اتنا بد گمان کر دیا جائے کہ وہ آپ کی بات سننے کے لیے آمدہ ہی نہ ہو ۔ یہ مہم ویسے تو بارہ مہینے جاری رہتی تھی ، مگر خاص طور پر حج کے زمانے میں کثرت سے آدمی پھیلا دیے جاتے تھے جو تمام بیرونی زائرین کے خیموں میں پہنچ کر ان کو خبردار کرتے پھرتے تھے کہ یہاں ایسا ایسا ایک آدمی ہے ، اس سے ہوشیار رہنا ۔ ان گفتگوؤں میں طرح طرح کی باتیں بنائی جاتی تھیں ۔ کبھی کہا جاتا کہ یہ شخص جادوگر ہے ۔ کبھی کہا جاتا کہ ایک کلام اس نے خود گھڑ رکھا ہے ، اور کہتا ہے خدا کا کلام ہے ۔ کبھی کہا جاتا کہ اجی وہ کلام کیا ہے ، دیوانوں کی بڑ اور پراگندہ خیالات کا پلندا ہے ۔ کبھی کہا جاتا کہ شاعرانہ تخیلات اور تک بندیاں ہیں جن کا نام اس نے کلام الہٰی رکھا ہے ۔ مقصد یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح لوگوں کو بہکایا جائے ۔ صداقت کا ان کے سامنے سرے سے کوئی سوال ہی نہ تھا کہ جم کر کوئی ایک قطعی اور جچی تُلی رائے ظاہر کرتے ۔ لیکن اس جھوٹے پروپیگنڈے کا حاصل جو کچھ ہوا وہ یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام انہوں نے خود ملک کے گوشے گوشے میں پہنچا دیا ۔ آپ کی جتنی شہرت مسلمانوں کی کوششوں سے سالہا سال میں بھی نہ ہو سکتی تھی وہ قریش کی اس مخالفانہ مہم سے تھوڑی مدت ہی کے اندر ہو گئی ۔ ہر شخص کے دل میں ایک سوال پیدا ہو گیا کہ آخر معلوم تو ہو وہ کون ایسا آدمی ہے جس کے خلاف یہ طوفان برپا ہے ، اور بہت سے سوچنے والوں نے سوچا کہ اس شخص کی بات سنی تو جائے ۔ ہم کوئی بچے تو نہیں ہیں کہ خواہ مخواہ بہک جائیں گے ۔ اس کی ایک دلچسپ مثال طُفَیل بن عَمرو دَوسی کا قصہ ہے جسے ابن اسحاق نے خود ان کی روایت سے بڑی تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں قبیلہ دوس کا ایک شاعر تھا ۔ کسی کام سے مکہ گیا ۔ وہاں پہنچتے ہی قریش کے چند لوگوں نے مجھے گھیر لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف خوب میرے کان بھرے یہاں تک کہ میں آپ سے سخت بد گمان ہو گیا اور میں نے طے کر لیا کہ آپ سے بچ کر ہی رہوں گا ۔ دوسرے روز میں نے حرم میں حاضری دی تو آپ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے ۔ میرے کانوں میں چند جملے جو پڑے تو میں نے محسوس کیا کہ یہ تو کوئی بڑا اچھا کلام ہے ۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں شاعر ہوں ، جوان مرد ہوں ، عقل رکھتا ہوں ، کوئی بچہ نہیں ہوں کہ صحیح اور غلط میں تمیز نہ کر سکوں ۔ آخر کیوں نہ اس شخص سے مل کر معلوم کروں کہ یہ کیا کہتا ہے ۔ چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو کر واپس چلے تو میں آپ کے پیچھے پیچھے ہو لیا اور آپ کے مکان پر پہنچ کر میں نے عرض کیا کہ آپ کی قوم نے آپ کے متعلق مجھ سے یہ یہ کچھ کہا تھا ، اور میں آپ سے اس قدر بد گمان ہو گیا تھا کہ میں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی تاکہ آپ کی آواز نہ سننے پاؤں ۔ لیکن ابھی جو چند کلمے میں نے آپ کی زبان سے سنے ہیں وہ مجھے کچھ اچھے معلوم ہوئے ۔ آپ مجھے ذرا تفصیل سے بتائیے ، آپ کیا کہتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں مجھ کو قرآن کا ایک حصہ سنایا اور میں اس سے اس قدر متاثر ہوا کہ اسی وقت ایمان لے آیا ۔ پھر واپس جا کر میں نے اپنے باپ اور بیوی کو مسلمان کیا ۔ اس کے بعد اپنے قبیلے میں مسلسل اشاعت اسلام کرتا رہا ، یہاں تک کہ غزوہ خندق کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے میرے قبیلے کے ستر اسی گھرانے مسلمان ہو گئے ۔ ( ابن ہشام جلد 2 ، ص 22 ۔ 24 ) ایک اور روایت جو ابن اسحاق نے نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سرداران قریش اپنی محفلوں میں خود اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ جو باتیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بناتے ہیں وہ محض جھوٹ ہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ ایک مجلس میں نَضر بن حارث نے تقریر کی کہ تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ جس طرح کر رہے ہو اس سے کام نہ چلے گا ۔ وہ جب تمہارے درمیان نو عمر جوان تھا تو تمہارا سب سے زیادہ خوش اطوار آدمی تھا ۔ سب سے زیادہ سچا اور سب سے بڑھ کر امین سمجھا جاتا تھا ۔ اب کہ اس کے بال سفید ہونے کو آ گئے ، تم کہتے ہو یہ ساحر ہے ، کاہن ہے ، شاعر ہے ، مجنون ہے ۔ بخدا وہ ساحر نہیں ہے ، ہم نے سحروں کو دیکھا ہے اور ان کی جھاڑ پھونک سے ہم واقف ہیں ۔ بخدا وہ کاہن بھی نہیں ہے ، ہم نے کاہنوں کی تک بندیاں سنی ہیں اور جیسی گول مول باتیں وہ کیا کرتے ہیں انکا ہمیں علم ہے ۔ بخدا وہ شاعر بھی نہیں ہے ، شعر کی تمام اصناف سے ہم واقف ہیں اور اس کا کلام ان میں سے کسی صنف میں نہیں آتا ۔ بخدا وہ مجنون بھی نہیں ہے ، مجنون کی جو حالت ہوتی ہے اور جیسی بے تکی بڑ وہ ہانکتا ہے کیا اس سے ہم بے خبر ہیں ؟ اے سرداران قریش ، کچھ اور بات سوچو ، جس چیز کا مقابلہ تمہیں درپیش ہے وہ اس سے زیادہ بڑی ہے کہ یہ باتیں بنا کر تم اسے شکست دے سکو ۔ اس کے بعد اس نے یہ تجویز پیش کی کہ عجم سے رستم و اسفندیار کے قصے لا کر پھیلائے جائیں تاکہ لوگ ان میں دلچسپی لینے لگیں اور وہ انہیں قرآن سے زیادہ عجیب معلوم ہوں ۔ چنانچہ کچھ دنوں اس پر عمل کیا گیا اور خود نضر نے داستان گوئی شروع کر دی ۔ ( ابن ہشام جلد اول ، ص 32 ۔ 321 )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani