6۔ 1 یعنی ان سے پہلے جتنی بستیاں ہم نے ہلاک کیں، یہ نہیں ہوا کہ ان کی حسب خواہش معجزہ دکھلانے پر ایمان لے آئی ہوں، بلکہ معجزہ دیکھ لینے کے باوجود وہ ایمان نہیں لائیں، جس کے نتیجے میں ہلاکت ان کا مقدر بنی تو کیا اگر اہل مکہ کو ان کی خواہش کے مطابق کوئی نشانی دکھلا دی جائے، تو وہ ایمان لے آئیں گے ؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ یہ بھی تکذیب وعناد کے راستے پر ہی بدستور گامزن رہیں گے۔
مَآ اٰمَنَتْ قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْيَةٍ ۔۔ : اس آیت میں تین باتیں نہایت اختصار کے ساتھ بیان فرمائی ہیں۔ پہلی یہ کہ ایمان لانے کی شرط کے طور پر تم نے پہلے رسولوں جیسا معجزہ لانے کا مطالبہ کیا ہے، سو پہلی امتوں کو ایسے معجزات دکھائے گئے، وہ ان پر ایمان نہیں لائے، تو تم جو ان سے کہیں بڑھ کر سرکش اور ضدی ہو، کیسے ایمان لاؤ گے ؟ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٥٩) دوسری یہ کہ جو قومیں معجزات دیکھ کر ایمان نہیں لائیں انھیں ہلاک کردیا گیا، کیونکہ صریح معجزہ آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ایمان نہ لانے والی قوم ہلاک کردی جاتی ہے، تو تم ایسا مطالبہ کیوں کرتے ہو جس کا نتیجہ تمہاری ہلاکت ہے ؟ تیسری یہ کہ تمہیں معجزہ نہ دکھانا اللہ تعالیٰ کی تم پر رحمت ہے کہ اس نے تمہیں مہلت دے رکھی ہے اور اس کے علم میں تمہاری کئی نسلوں کا مسلمان ہونا مقدر ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة عنکبوت (٤٨ تا ٥١) کی تفسیر۔
آگے۔ اَفَهُمْ يُؤ ْمِنُوْنَ میں اسی طرف اشارہ ہے کہ کیا منہ مانگے معجزہ کو دیکھ کر یہ ایمان لے آئیں گے مراد یہ ہے کہ ان سے اس کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی اس لئے مطلوبہ معجزہ نہیں دکھایا جاتا۔
مَآ اٰمَنَتْ قَبْلَہُمْ مِّنْ قَرْيَۃٍ اَہْلَكْنٰہَا ٠ۚ اَفَہُمْ يُؤْمِنُوْنَ ٦- أمن - والإِيمان - يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان - قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم،- ( ا م ن ) الامن - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ - قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار :- وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔
(٦) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کی قوم سے پہلے نشانیوں پر ایمان نہیں لائی جن کو ہم نے ان نشانیوں کی تکذیب کے وقت ہلاک کیا ہے سو کیا آپ کی قوم نشانیوں اور معجزات پر ایمان لے آئے گی بلکہ ہرگز یہ ایمان نہیں لائیں گے۔- شان نزول : ( آیت) ” مآامنت قبلہم من قریۃ “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے قتادہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ مکہ والوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اگر آپ اپنے دعوی میں سچے ہیں اور آپ کو ہمارے ایمان لانے پر خوشی ہوگی، تو آپ ہمارے لیے صفا پہاڑی کو سونے کی پہاڑی میں تبدیل کردیجیے۔- چناچہ جبریل امین آپ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اگر آپ چاہیں تو آپ کی قوم نے جو آپ سے سوال کیا ہے اس کو پورا کردیا جائے گا لیکن اگر ان کے سوال کو پورا کردیا جائے اور پھر بھی یہ ایمان نہ لائیں تو نزول عذاب کے متعلق میں ان کو پھر مہلت نہیں دی جائے گی، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی ان سے پہلے کوئی بستی والے جن کو ہم نے ہلاک کیا ہے ایمان نہیں لائے سو کیا یہ لوگ ایمان نہیں لے آئیں گے۔
آیت ٦ (مَآ اٰمَنَتْ قَبْلَہُمْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَہْلَکْنٰہَا ج) ” - ان سے پہلے بہت سے رسولوں کو حسی معجزات دیے گئے تھے جو انہوں نے اپنی قوموں کو دکھائے ‘ مگر ان میں سے کوئی ایک قوم یا کوئی ایک بستی بھی ایسی نہیں تھی جو ان معجزات کو دیکھ کر ایمان لائی ہو۔ چناچہ وہ لوگ واضح معجزات کو دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے اور آخر کار ہلاکت ہی ان کا مقدر بنی۔
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :8 اس مختصر سے جملے میں نشانی کے مطالبے کا جو جواب دیا گیا ہے وہ تین مضمونوں پر مشتمل ہے ۔ ایک یہ کہ تم پچھلے رسولوں کی سی نشانیاں مانگتے ہو ، مگر یہ بھول جاتے ہو کہ ہٹ دھرم لوگ ان نشانیوں کو دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے تھے ۔ دوسرے یہ کہ تم نشانی کا مطالبہ تو کرتے ہو ، مگر یہ یاد نہیں رکھتے کہ جس قوم نے بھی صریح معجزہ آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ایمان لانے سے انکار کیا ہے وہ پھر ہلاک ہوئے بغیر نہیں رہی ہے ۔ تیسرے یہ کہ تمہاری منہ مانگی نشانی نہ بھیجنا تو تم پر خدا کی ایک بڑی مہربانی ہے ۔ اب تک تم انکار پر انکار کیے جاتے رہے اور مبتلائے عذاب نہ ہوئے ۔ کیا اب نشانی اس لیے مانگتے ہو کہ ان قوموں کا سا انجام دیکھو جو نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں اور تباہ کر دی گئیں ؟
2: نشانی سے مراد معجزہ ہے۔ اگرچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہت سے معجزات ان کے سامنے آچکے تھے، لیکن وہ نت نئے معجزوں کے مطالبات کرتے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ پچھلی قوموں نے بھی ایسے مطالبات کیے تھے لیکن جب ان کو ان کی فرمائش کے مطابق معجزات دکھائے گئے تب بھی وہ ایمان نہیں لائے جس کے نتیجے میں انہیں ہلاک کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ یہ لوگ بھی اپنے فرمائشی معجزے دیکھنے کے بعد ایمان نہیں لائیں گے، اور اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جب کوئی قوم اپنے فرمائشی معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے تو اسے ہلاک کردیا جاتا ہے اور ابھی اللہ تعالیٰ کو ان کی فوری ہلاکت منظور نہیں ہے۔