قَالَ لَقَدْ كُنْتُمْ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ : اس کا یہ معنی نہیں کہ تم اور تمہارے باپ دادا ماضی میں گمراہی میں مبتلا تھے اب نہیں، بلکہ ” کَانَ “ دوام اور استمرار کے لیے ہے اور ” فِيْ “ ان کے گمراہی میں بری طرح پھنسے ہونے کے اظہار کے لیے ہے، جیسا کہ ابوالسعود نے فرمایا : ” وَ مَعْنٰی ” كُنْتُمْ “ مُطْلَقُ اِسْتَقْرَارِھِمْ عَلَی الضَّلاَلِ لاَ اسْتِقْرَارُہُمُ الْمَاضِيْ الْحَاصِلِ قَبْلَ زَمَانِ الْخَطَابِ الْمُتَنَاوِلِ لَھُمْ وَلِآبَاءِھِمْ “ خلاصہ یہ کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے واشگاف الفاظ میں فرما دیا کہ بلاشبہ یقیناً تم اور تمہارے باپ دادا پہلے بھی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے اور اب بھی مسلسل ایسے ہی چلے آرہے ہو۔ کیونکہ بت پرستی سے بڑھ کر کھلی گمراہی اور کیا ہوسکتی ہے ؟
قَالَ لَقَدْ كُنْتُمْ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ٥٤- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔
(٥٤) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا بیشک تم اور تمہارے آباؤ ادجداد کھلی غلطی اور کفر میں مبتلا ہیں۔
آیت ٥٤ (قَالَ لَقَدْ کُنْتُمْ اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُکُمْ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ) ” - آپ ( علیہ السلام) نے علی الاعلان حق بات سب کے سامنے کہہ دی۔