جس طرح آج بھی جہالت و خرافات میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کو بدعات و رسومات جاہلیہ سے روکا جائے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم انھیں کس طرح چھوڑیں جب کہ ہمارے آباواجداد بھی یہی کچھ کرتے رہے ہیں اور یہی جواب وہ حضرات دیتے ہیں جو نصوص کتاب و سنت سے اعراض کر کے علماء ومشائخ کے آراء وافکار سے چمٹے رہنے کو ضروری خیال کرتے ہیں۔
[٤٨] اب اگر بتوں کے سامنے عبادت کرنے کا کوئی عملی فائدہ ہوتا یا ان کے پاس کوئی معقول جواب ہوتا تو قوم کے لوگ یقیناً حضرت ابراہیم کو بتلا کر انھیں مطمئن کردیتے۔ لیکن انھیں حضرت ابراہیم کے اس سوال کا اس بات کے سوا کوئی جواب میسر نہ آیا کہ چونکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو بھی ایسا ہی کرتے دیکھا ہے، لہذا ہم بھی ان کی اتباع میں یہی کچھ کر رہے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ یہ حضرت ابراہیم کے سوال کا معقول جواب نہیں تھا۔ اور اس مقام پر سوال کی اہمیت یہ ہے کہ قریش مکہ بھی بتوں کی پرستش کرتے تھے۔ اور جب ان سے یہی سوال کیا جاتا تو ان کا جواب بھی بعینہ یہی کچھ ہوتا تھا۔ مزید برآں وہ اپنے آپ کو حضرت ابراہیم کے پیروکار بھی کہتے تھے۔ گویا یہ سوال گفتہ آید در حدیث دیگراں کے مصداق قریش مکہ سے بھی تھا۔
قَالُوْا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا ۔۔ : ابراہیم (علیہ السلام) کے والد اور ان کی قوم کے پاس بتوں کی عبادت کی کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہ تھی، اس لیے انھوں نے تقلید کا سہارا لیا اور کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرنے والے پایا ہے، حالانکہ باپ دادا سیدھے راستے پر ہوں تو بیشک ان کے پیچھے چلو، لیکن اگر وہ غلط راستے پر ہوں تو غلط راستے پر چلتے جانا کہاں کی دانش مندی ہے ؟
قَالُوْا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا لَہَا عٰبِدِيْنَ ٥٣- وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔
(٥٣) وہ لوگ کہنے لگے، ہم نے اپنے بڑوں کو ان کی عبادت کرتے ہوئے دیکھا ہے اس لیے ہم بھی ان کی عبادت کرتے ہیں۔