Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

52۔ 1 تَمَاثِیْل، تِمْثَالُ کی جمع ہے۔ یہ اصل میں کسی چیز کی ہوبہو نقل کو کہتے ہیں۔ جیسے پتھر کا مجسمہ یا کاغذ اور دیوار پر کسی کی تصویر۔ یہاں مراد وہ مورتیاں ہیں جو قوم ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے معبودوں کی بنا رکھی تھیں اور جن کی وہ عبادت کرتے تھے عاکف۔ عکوف سے اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کے معنی کسی چیز کو لازم پکڑنے اور اس پر جھک کر جم کر بیٹھ رہنے کے ہیں۔ اسی سے اعتکاف ہے جس میں انسان اللہ کی عبادت کے لیے جم کر بیٹھتا ہے اور یکسوئی اور انہماک سے اس کی طرف لو لگاتا ہے یہاں اس سے مراد بتوں کی تعظیم و عبادت اور ان کے تھانوں پر مجاور بن کر بیٹھنا ہے یہ تماثیلیں (مورتیاں اور تصویریں) قبر پرستوں اور پیر پرستوں میں بھی آجکل عام ہیں اور ان کو بڑے اہتمام سے گھروں اور دکانوں میں بطور تبرک آویزاں کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں سمجھ عطا فرمائے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٧] یہ حضرت ابراہیم کی ہوش مندی کا تقاضا تھا کہ جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں کو بےجان اور ساکت و صامت بتوں کے سامنے سجدہ ریز دیکھا تو فوراً دل میں سوچنے لگے کہ ان بےجان پتھروں کے سامنے، جو نہ حرکت کرسکتے ہیں، نہ سنتے ہیں، نہ بولتے ہیں۔ سجدہ کرنے کا فائدہ کیا ہے ؟ ایسی چیزوں کو سجدہ کرنا تو سراسر انسانیت کی توہین اور تذلیل ہے۔ قوم کی اس انسانیت سوز حرکت پر وہ مدتوں دل ہی دل میں کڑہتے اور نفرت کرتے رہے۔ بالآخر انہوں نے اپنے طبیعت کے تقاضا سے مجبور ہو کر اپنے باپ اور اپنی قوم سے یہ سوال کر ہی دیا کہ مجھے بھی تو کچھ بتلاؤ کہ جن بےجان مورتیوں کے سامنے تم بیٹھ کر ان کی عبادت میں مشغول رہتے ہو اس کا فائدہ کیا ہے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ وَقَوْمِهٖ ۔۔ : ” التَّـمَاثِيْلُ “ ” تِمْثَالٌ“ کی جمع ہے، اللہ تعالیٰ کی کسی مخلوق کی مثل بنائی ہوئی صورت، مجسمہ۔ بت پرست عموماً انسانوں کے مجسموں کی پوجا کرتے ہیں۔ یہ ہے وہ سمجھ بوجھ جو موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو عطا فرمائی تھی، یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید کا حق ہونا اور بتوں اور دوسرے تمام معبودوں کا باطل ہونا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم بت پرست بھی تھی، ستارے، چاند اور سورج کی پرستش بھی کرتی تھی اور بادشاہ کو بھی رب مانتی تھی۔ ستارے، چاند اور سورج کے معبود نہ ہونے کے لیے ابراہیم (علیہ السلام) کی نہایت مدلل، مؤثر اور لاجواب دعوت سورة انعام (٧٦ تا ٨٣) میں ملاحظہ فرمائیں۔ بادشاہ کے رب نہ ہونے کی دعوت سورة بقرہ (٢٥٨) میں ملاحظہ فرمائیں۔ یہاں بتوں کے بےاختیار ہونے کی تبلیغ اور اس کا عملی اظہار فرمایا ہے۔- مَا هٰذِهِ التَّـمَاثِيْلُ ۔۔ : ” هٰذِهِ “ کا اشارہ بتوں کی تحقیر کے لیے ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے نادان بنتے ہوئے اپنے باپ اور اپنی قوم سے بتوں کا تذکرہ نہایت تحقیر کے ساتھ کرتے ہوئے پوچھا : ” یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو، کیا چیز ہیں ؟ “ گویا ابراہیم (علیہ السلام) ان کو کوئی چیز ماننے ہی پر تیار نہ تھے، کیونکہ وہ نہ سنتے تھے اور نہ کوئی فائدہ یا نقصان پہنچا سکتے تھے۔ دیکھیے سورة مریم (٤٢) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِذْ قَالَ لِاَبِيْہِ وَقَوْمِہٖ مَا ہٰذِہِ التَّـمَاثِيْلُ الَّتِيْٓ اَنْتُمْ لَہَا عٰكِفُوْنَ۝ ٥٢- أب - الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6]- ( اب و ) الاب - ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - تِّمْثَالُ- : الشیء المصوّر، وتَمَثَّلَ كذا : تصوّر . قال تعالی: فَتَمَثَّلَ لَها بَشَراً سَوِيًّا[ مریم 17] التمثال : تصویر۔ کسی چیز کو مجسمہ تمثل کذا کسی کی شکل بن جانا ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ فَتَمَثَّلَ لَها بَشَراً سَوِيًّا[ مریم 17] تو وہ ان کے سامنے ٹھیک آدمی ( کی شکل ) بن گیا ۔- عكف - العُكُوفُ : الإقبال علی الشیء وملازمته علی سبیل التّعظیم له، والاعْتِكَافُ في الشّرع : هو الاحتباس في المسجد علی سبیل القربة ويقال : عَكَفْتُهُ علی كذا، أي : حبسته عليه، لذلکقال : سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج 25] ، وَالْعاكِفِينَ [ البقرة 125] ، فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء 71] ، يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف 138] ، ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه 97] ، وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة 187] ، وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح 25] ، أي : محبوسا ممنوعا .- ( ع ک ف ) العکوف - کے معنی ہیں تعظیما کسی چیز پر متوجہ ہونا اور اس سئ وابستہ رہنا ۔ اور اصطلاح شریعت میا الاغتکاف کے معنی ہیں عبادت کی نیت سے مسجد میں رہنا اور اس سے باہر نہ نکلنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة 187] جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو ۔ سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج 25] خواہ وہ دہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے ۔ وَالْعاكِفِينَ [ البقرة 125] اور اعتکاف کرنے والوں ۔ فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء 71] اور اس کی پوجا پر قائم رہیں۔ عکفتہ علٰی کذا کسی چیز پر روک رکھنا يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف 138] یہ اپنے بتوں کی عبادت کے لئے بیٹھے رہتے تھے ۔ ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه 97] جس معبود کی پوجا پر تو قائم اور معتکف تھا ۔ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح 25] اور قربانی کے جانوروں کو بھی روک دئے گئے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٢) جب کہ انہوں نے اپنے باپ آذر اور نمرود بن کنعان اور اس کے لوگوں سے کہا یہ کیا بیہود مورتیاں ہیں جن کی تم لوگ عبادت کر رہے ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٢ (اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ وَقَوْمِہٖ مَا ہٰذِہِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْٓ اَنْتُمْ لَہَا عٰکِفُوْنَ ) ” - ذرا ان پتھر کی خود تراشیدہ مورتیوں کی اصلیت اور حقیقت تو بیان کرو جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو اور جن کے گیان دھیان میں لگے رہتے ہو

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :54 جس واقعہ کا آگے ذکر کیا جا رہا ہے اس کو پڑھنے سے پہلے یہ بات اپنے ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ قریش کے لوگ حضرت ابراہیم کی اولاد تھے ، کعبہ ان ہی کا تعمیر کردہ تھا ، سارے عرب میں کعبے کی مرکزیت ان ہی کی نسبت کے سبب سے تھی اور قریش کا سارا بھرم اسی لیے بندھا ہوا تھا کہ یہ اولاد ابراہیم ہیں اور کعبہ ابراہیمی کے مجاور ہیں ۔ آج اس زمانے اور عرب سے دور دراز کے ماحول میں تو حضرت ابراہیم کا یہ قصہ صرف ایک سبق آموز تاریخی واقعہ ہی نظر آتا ہے ، مگر جس زمانے اور ماحول میں اول اول یہ بیان کیا گیا تھا ، اس کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیے تو محسوس ہو گا کہ قریش کے مذہب اور ان کی برہمنیت پر یہ ایک ایسی کاری ضرب تھی جو ٹھیک اس کی جڑ پر جا کر لگتی تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani