یہودی روایتوں سے بچو فرمان ہے کہ خلیل اللہ علیہ صلوات اللہ کو اللہ تعالیٰ نے ان کے بچپن سے ہی ہدایت عطافرمائی تھی ۔ انہیں اپنی دلیلیں الہام کی تھیں اور بھلائی سمجھائی تھی جیسے آیت میں ہے وتلک حجتنا اتیناہا ابراہیم علی قومہ ۔ یہ ہیں ہماری زبردست دلیلیں جو ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو دی تھیں تاکہ وہ اپنی قوم کو قائل کرسکیں ۔ یہ جو قصے مشہور ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دودھ پینے کے زمانے میں ہی انہیں ان کے والد نے ایک غار میں رکھا تھا جہاں سے مدتوں بعد وہ باہر نکلے اور مخلوقات الٰہی پر خصوصا ًچاند تاروں وغیرہ پر نظر ڈال کر اللہ کو پہچانا یہ سب بنی اسرائیل کے افسانے ہیں ۔ قاعدہ یہ ہے کہ ان میں سے جو واقعہ اس کے مطابق ہو جو حق ہمارے ہاتھوں میں ہے یعنی کتاب وسنت وہ تو سچا ہے اور قابل قبول ہے اس لئے کہ وہ صحت کے مطابق ہے اور جو خلاف ہو وہ مردود ہے ۔ اور جس کی نسبت ہماری شریعت خاموش ہو ، موافقت ومخالفت کچھ نہ ہو ، گو اس کا روایت کرنا بقول اکثر مفسرین جائز ہے لیکن نہ تو ہم اسے سچاکرسکتے ہیں نہ غلط ۔ ہاں یہ ظاہر ہے کہ وہ واقعات ہمارے لئے کچھ سند نہیں ، نہ ان میں ہمارا کوئی دینی نفع ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو ہماری جامع نافع کامل و شامل شریعت اس کے بیان میں کوتاہی نہ کرتی ۔ ہمارا اپنا مسلک تو اس تفسیر میں یہ رہا ہے کہ ہم ایسی بنی اسرائیلی روایتوں کو وارد نہیں کرتے کیونکہ اس میں سوائے وقت ضائع کرنے کے کہ کوئی نفع نہیں ہاں نقصان کا احتمال زیادہ ہے ۔ کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ بنی اسرائیل میں روایت کی جانچ پڑتال کا مادہ ہی نہ تھا وہ سچ جھوٹ میں تمیز کرنا جانتے ہی نہ تھے ان میں جھوٹ سرایت کر گیا تھا جیسے کہ ہمارے حفاظ ائمہ نے تشریح کی ہے ۔ غرض یہ ہے کہ آیت میں اس امر کا بیان ہے کہ ہم نے اس سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہدایت بخشی تھی اور ہم جانتے تھے کہ وہ اس کے لائق ہے بچپنے میں ہی آپ نے اپنی قوم کی غیر اللہ پرستی کو ناپسند فرمایا ۔ اور نہایت جرات سے اس کا سخت انکار کیا اور قوم سے برملا کہا کہ ان بتوں کے اردگرد مجمع لگا کر کیا بیٹھے ہو؟ حضرت اصبح بن بناتہ راہ سے گزر رہے تھے جو دیکھا کہ شطرنج باز لوگ بازی کھیل رہے ہیں ۔ آپ نے یہی تلاوت فرما کر فرمایا کہ تم میں سے کوئی اپنے ہاتھ میں جلتا ہوا انگارا لے لے یہ اس شطرنج کے مہروں کے لینے سے اچھا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس کھلی دلیل کا جواب ان کے پاس کیا تھا جو دیتے؟ کہنے لگے کہ یہ تو پرانی روش ہے ، باپ دادوں سے چلی آتی ہے ۔ آپ نے فرمایا واہ یہ بھی کوئی دلیل ہوئی ؟ ہمارا اعتراض جو تم پر ہے وہی تمہارے اگلوں پر ہے ایک گمراہی میں تمہارے بڑے مبتلا ہوں اور تم بھی اس میں مبتلا ہوجاؤ تو وہ بھلائی بننے سے رہی ؟ میں کہتا ہوں تم اور تمہارے باپ دادا سبھی راہ حق سے برگشتہ ہوگئے ہو اور کھلی گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہو ۔ اب تو ان کے کان کھڑے ہوئے کیونکہ انہوں نے اپنے عقل مندوں کی توہین دیکھی ، اپنے باپ دادوں کی نسبت نہ سننے والے کلمات سنے ۔ اپنے معبودوں کی حقارت ہوتی ہوئی دیکھی تو گھبراگئے اور کہنے لگے ابراہیم کیا واقعی تم ٹھیک کہہ رہے ہو یا مذاق کررہے ؟ ہم نے تو ایسی بات کبھی نہیں سنی ۔ آپ کو تبلیغ کا موقعہ ملا اور صاف اعلان کیا کہ رب تو صرف خالق آسمان وزمین ہی ہے ۔ تمام چیزوں کا خالق مالک وہی ہے ، تمہارے یہ معبود کسی ادنیٰ سی چیز کے بھی خالق ہیں نہ مالک ۔ پھر معبود مسجود کیسے ہوگئے ؟ میری گواہی ہے کہ خالق ومالک اللہ ہی لائق عبادت ہے نہ اسکے سوا کوئی رب نہ معبود ۔
51۔ 1 مِنْ قَبْلُ سے مراد تو یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو رشد و ہدایت (یا ہوشمندی) دینے کا واقع، موسیٰ (علیہ السلام) کو ابتدائے تورات سے پہلے کا ہے یہ مطلب ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو نبوت سے پہلے ہی ہوش مندی عطا کردی تھی۔ 51۔ 2 یعنی ہم جانتے تھے کہ وہ اس رشد کا اہل ہے اور وہ اس کا صحیح استعمال کرے گا۔
[٤٦] رُشد سے مراد ایسی ہوش مندی ہے۔ جس سے انسان اپنے فائدہ و نقصان، نیک و بد اور خیر و شر میں امتیاز کرنے اور فائدہ کی بات کو قبول کرنے اور نقصان کی بات کو رد کرنے کے قابل ہوجائے۔ خواہ یہ نفع و نقصان دنیوی ہو یا اخروی ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے بہت مدت پہلے ہم نے حضرت ابراہیم کو ہوش مندی اور عقل سلیم عطا کی تھی۔ وہ فرمانے کے رسم و رواج کے پیروکار نہیں تھے۔ بلکہ ہر بات کے نفع و نقصان کو خود سوچنے کے عادی تھے۔ اور ہم ان کے حالات سے خوب واقف تھے اور جانتے تھے کہ وہ فی الواقعہ رسالت الٰہی کے مستحق ہیں۔ لہذا ہم نے انھیں نبوت عطا فرمائی۔ اگرچہ یہ ہوش مندی بھی ہم نے ہی انھیں عطا کی تھی۔
وَلَـقَدْ اٰتَيْنَآ اِبْرٰهِيْمَ رُشْدَهٗ ۔۔ : ” رُشْدٌ“ ہدایت اور سیدھا راستہ، یہ لفظ ” غَیٌّ“ کے مقابلے میں آتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ) [ البقرۃ : ٢٥٦ ] ” بلاشبہ ہدایت گمراہی سے صاف واضح ہوچکی۔ “ اور سمجھ بوجھ اور ہوش مندی کے معنی میں بھی، جیسا کہ فرمایا : (فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا ) [ النساء : ٦ ] ” پھر اگر تم ان سے کچھ سمجھ داری معلوم کرو۔ “ ” رُشْدَهٗ “ یعنی وہ سمجھ بوجھ جو اس کے لائق تھی۔- مِنْ قَبْلُ : یعنی موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) سے پہلے یا نبوت عطا کرنے سے پہلے۔ بعض نے کہا غار سے نکلنے کے بعد۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة انعام (٧٥ تا ٧٩) ۔- وَكُنَّا بِهٖ عٰلِمِيْنَ : یعنی ہم اسے جانتے تھے کہ ہم نے اس میں کیا کیا خوبیاں اور صلاحیتیں رکھی تھیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی جتنی بھی خوبیاں بیان کرلی جائیں اللہ تعالیٰ کی یہ شہادت ان سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ منصب عطا ہی اسے ہوتا ہے جو اللہ کے علم میں اس کا اہل ہو، فرمایا : (اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ) [ الأنعام : ١٢٤ ] ” اللہ زیادہ جاننے والا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھتا ہے۔ “
خلاصہ تفسیر - اور ہم نے اس (زمانہ موسوی) سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کی (شان کے مناسب) خوش فہمی عطا فرمائی تھی اور ہم ان (کے کمالات علمیہ و عملیہ) کو خوب جانتے تھے (یعنی وہ بڑے کامل تھے ان کا وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے) جبکہ انہوں نے اپنے باپ سے اور اپنی برادری سے (ان کو بت پرستی میں مشغول دیکھ کر) فرمایا کہ کیا (واہیات) مورتیں ہیں جن (کی عبادت) پر تم جمے بیٹھے ہو (یعنی یہ ہرگز قابل عبادت نہیں) وہ لوگ (جواب میں) کہنے لگے کہ ہم نے اپنے بڑوں کو ان کی عبادت کرتے ہوئے دیکھا ہے، (اور وہ لوگ عاقل تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مورتیں لائق عبادت کے ہیں) ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ بیشک تم اور تمہارے باپ دادے ( ان کو لائق عبادت سمجھنے میں) صریح غلطی میں (مبتلا) ہو۔ (یعنی خود ان ہی کے پاس ان کی معبودیت کی کوئی دلیل اور سند نہیں ہے وہ تو اس لئے ضلال میں ہیں اور تم ایسوں کی تقلید کرتے ہو جو بےدلیل بےثبوت اوہام کے پیچھے چلنے والے ہیں اس لئے تم ضلال میں ہو چونکہ ان لوگوں نے ایسی بات سنی نہ تھی نہایت متعجب ہو کر) وہ لوگ کہنے لگے کہ کیا تم (اپنے نزدیک) سچی بات (سمجھ کر) ہمارے سامنے پیش کر رہے ہو یا (یوں ہی) دل لگی کر رہے ہو، ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ نہیں (دل لگی نہیں بلکہ سچی بات ہے اور صرف میرے ہی نزدیک نہیں بلکہ واقع میں بھی سچی بات یہی ہے کہ یہ عبادت کے قابل نہیں) بلکہ تمہارا رب (حقیقی جو لائق عبادت ہے) وہ ہے جو تمام آسمانوں کا اور زمین کا رب ہے جس نے (علاوہ تربیت کے) ان سب (آسمانوں اور زمین اور ان میں جو مخلوق ہے جس میں یہ اصنام بھی داخل ہیں سب) کو پیدا کیا اور میں اس (دعوی) پر دلیل بھی رکھتا ہوں (تمہاری طرح کو رانہ تقلید سے کام نہیں کرتا) اور خدا کی قسم میں تمہارے ان بتوں کی گت بناؤں گا جب تم (ان کے پاس سے) چلے جاؤ گے ( تاکہ ان کا عاجز اور درماندہ ہونا زیادہ مشاہدے میں آ جاوے، ان لوگوں نے یہ سمجھ کر کہ یہ اکیلے ہمارے مخالف کارروائی کیا کرسکتے ہیں کچھ التفات نہ کیا ہوگا اور چلے گئے) تو (ان کے چلے جانے کے بعد) انہوں نے ان بتوں کو (تبر وغیرہ سے توڑ پھوڑ کر) ٹکڑے ٹکڑے کردیا بجز ان کے ایک بڑے بت کے (جو جثے میں یا ان لوگوں کی نظر میں معظم ہونے میں بڑا تھا کہ اس کو چھوڑ دیا جس سے ایک قسم کا استہزاء مقصود تھا کہ ایک کے سالم اور دوسروں کے قطع و برید سے ایہام ہوتا ہے کہ کہیں اسی نے تو سب کو نہیں توڑا، پس ابتداء تو ایہام ہے پھر جب وہ لوگ قطع و برید کرنے والے کی تحقیق کریں گے اور اس بڑے بت پر احتمال بھی نہ کریں گے تو ان کی طرف سے اس کے عجز کا بھی اعتراف ہوجاوے گا اور جحت اور لازم تر ہوجاوے گی۔ پس انتہاءً یہ الزام و افحام ہے یعنی لاجواب کرنا ہے اور مقصود مشترک اثبات عجز ہے، بعض کا انکار سے اور ایک کا ان کے اقرار سے، غرض ایک کو اس مصلحت سے چھوڑ کر سب کو توڑ دیا) کہ شاید وہ لوگ ابراہیم کی طرف (دریافت کرنے کے طور پر) رجوع کریں (اور پھر وہ تقریر جواب سے مکرر پوری طرح احقاق حق کرسکیں۔ غرض وہ لوگ جو بت خانہ میں آئے تو بتوں کی بری گت بنی دیکھی آپس میں) کہنے لگے کہ یہ (بےادبی کا کام) ہمارے بتوں کے ساتھ کس نے کیا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے بڑا ہی غضب کیا (یہ بات ایسے لوگوں نے پوچھی جن کو اس قول کی اطلاع نہ تھی تاللّٰهِ لَاَكِيْدَنَّ الخ یا تو اس وجہ سے کہ وہ اس وقت موجود نہ ہوں گے کیونکہ اس مناظرہ کے وقت تمام قوم کا مجتمع ہونا ضرور نہیں اور یا موجود ہوں مگر سنا نہ ہو اور بعضوں نے سن لیا ہو، کذا فی الدر المنثور عن ابن مسعود نحوا منہ) بعضوں نے کہا (جن کو اس قول کا علم تھا) کہ ہم نے ایک نوجوان آدمی کو جس کو ابراہیم کر کے پکارا جاتا ہے ان بتوں کا (برائی کے ساتھ) تذکرہ کرتے سنا ہے (پھر) وہ (سب) لوگ (یا جنہوں نے اول استفسار کیا تھا) بولے کہ (جب یہ بات ہے) تو اچھا اس کو سب آدمیوں کے سامنے حاضر کرو تاکہ (شاید وہ اقرار کرلے اور) وہ لوگ (اس کے اقرار کے) گواہ ہوجائیں (پھر اتمام حجت کے بعد سزا دی جائے جس پر کوئی ملامت نہ کرسکے، غرض سب کے روبرو وہ آئے اور ان سے) ان لوگوں نے کہا کہ کیا ہمارے بتوں کے ساتھ تم نے یہ حرکت کی ہے اے ابراہیم، انہوں نے (جواب میں) فرمایا کہ (تم یہ احتمال کیوں نہیں فرض کرتے کہ یہ حرکت میں نے) نہیں کی، بلکہ ان کے اس بڑے (گرو) نے کی (اور جب اس کبیر میں فاعل ہونے کا احتمال ہوسکتا ہے تو ان صغار میں ناطق ہونے کا احتمال بھی ہوگا) سو ان (ہی) سے پوچھ لو (نا) اگر یہ بولتے ہوں (اور اگر بڑے بت کا فاعل اس عمل کا ہونا اور دوسرے بتوں میں بولنے کی طاقت ہونا باطل ہے تو عجز ان کا تمہارے نزدیک مسلم ہوگیا پھر اعتقاد الوہیت کی کیا وجہ ہے) اس پر وہ لوگ اپنے جی میں سوچے پھر (آپس میں) کہنے لگے کہ حقیقت میں تم ہی لوگ ناحق پر ہو (اور ابراہیم حق میں جو ایسا عاجز ہو وہ کیا معبود ہوگا) پھر (شرمندگی کے مارے) اپنے سروں کو جھکا لیا (ابراہیم (علیہ السلام) سے نہایت مغلوبانہ لہجہ میں بولے کہ) اے ابراہیم تم کو تو معلوم ہی ہے کہ یہ بت (کچھ) بولتے نہیں (ہم ان سے کیا پوچھیں اور اس سے فاعلیت کبیر کی نفی بدرجہ اولی ہوگی اس وقت) ابراہیم (علیہ السلام) نے (خوب خبر لی اور) فرمایا کہ (افسوس جب یہ ایسے ہیں) تو کیا خدا کو چھوڑ کر تم ایسی چیز کی عبادت کرتے ہو جو تم کو نہ کچھ نفع پہنچا سکے اور نہ (بالمباشرة) کچھ نقصان پہنچا سکے تف ہے تم پر (کہ باوجود وضوح حق کے باطل پر مصر ہو) اور ان پر (بھی) جن کو تم خدا کے سوا پوجتے ہو کیا تم (اتنا بھی) نہیں سمجھتے (اس تمام تقریر سے خصوص اس سے کہ توڑنے پھوڑنے سے انکار نہیں فرمایا باوجودیکہ احتمال انتقام مقتضی انکار کو تھا ان کو ثابت ہوگیا کہ یہ کام ان ہی کا ہے اور تقریر کا کچھ جواب بن نہ آیا تو بمقضائے اس قول کے کہ - چو حجت نماند جفا جوئے را بہ پرخاش درہم کشد روئے را - یعنی جب جاہل جواب نہ رکھتا ہو اور قدرت رکھتا ہو تو برسر پیکار آجاتا ہے، آپس میں) وہ لوگ کہنے لگے کہ ان (ابراہیم) کو آگ میں جلا دو اور اپنے معبودوں کا (ان سے) بدلا لو اگر تم کو کچھ کرنا ہے (تو یہ کام کرو ورنہ بالکل ہی بات ڈوب جاوے گی۔ غرض سب نے متفق ہو کر اس کا سامان کیا اور ان کو آتش سوزاں میں ڈال دیا اس وقت) ہم نے (آگ کو) حکم دیا کہ اے آگ تو ٹھنڈی اور بےگزند ہوجا، ابراہیم کے حق میں (یعنی نہ ایسی گرم رہ جس سے جلنے کی نوبت آوے اور نہ بہت ٹھنڈی برف ہوجا کہ اس کی ٹھنڈک سے تکلیف پہنچے بلکہ مثل ہوائے معتدل کے بن جا چناچہ ایسا ہی ہوگیا) اور ان لوگوں نے ان کے ساتھ برائی کرنا چاہا تھا (کہ ہلاک ہوجائیں گے) سو ہم نے ان ہی لوگوں کو ناکام کردیا (کہ ان کا مقصود حاصل نہ ہوا بلکہ اور بالعکس حقانیت ابراہیم (علیہ السلام) کا زیادہ ثبوت ہوگیا) اور ہم نے ابراہیم کو اور (ان کے برادر زادہ کذا فی الدر المنثور عن ابن عباس) لوط (علیہ السلام) کو (کہ انہوں نے برخلاف قوم کے ابراہیم (علیہ السلام) کی تصدیق کی تھی قال تعالیٰ فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ اور اس وجہ سے لوگ ان کے بھی مخالف اور درپے تھے) ایسے ملک (یعنی شام) کی طرف بھیج کر (کافروں کے شر و ایذا سے) بچا لیا جس میں ہم نے دنیا جہان والوں کے واسطے (خیر و) برکت رکھی ہے (دنیوی بھی کہ ہر قسم کے عمدہ پھل پھول بکثرت پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی اس سے منتفع ہو سکتے ہیں اور دینی بھی کہ بکثرت انبیاء (علیہم السلام) وہاں ہوئے جن کے شرائع کی برکت دور دور عالم میں پھیلی یعنی انہوں نے ملک شام کی طرف باذن الٰہی ہجرت فرمائی) اور (ہجرت کے بعد) ہم نے ان کو اسحاق (بیٹا) اور یعقوب پوتا عطا کیا اور ہم نے ان سب (باپ بیٹے پوتے) کو (اعلیٰ درجہ کا) نیک کیا (اعلی درجہ کی نیکی کا مصداق عصمت ہے جو بشریت میں خواص نبوت سے ہے پس مراد یہ ہے کہ ان سب کو نبی بنایا) اور ہم نے ان (سب) کو مقتدا بنایا (جو کہ لوازم نبوت سے ہے) کہ ہمارے حکم سے (خلق کو) ہدایت کیا کرتے تھے (جو کہ مناصب نبوت سے ہے) اور ہم نے ان کے پاس نیک کاموں کے کرنے کا اور (خصوصاً ) نماز کی پابندی کا اور زکوة ادا کرنے کا حکم بھیجا (یعنی یہ حکم بھیجا کہ ان کاموں کو کیا کرو) اور وہ (حضرات) ہماری (خوب) عبادت کیا کرتے تھے (یعنی ان کو جو حکم ہوا تھا اس کو اچھی طرح بجا لاتے تھے پس صالحین میں کمال نبوت کی طرف اور اَوْحَيْنَآ اِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرٰتِ میں کمال علم کی طرف اور کانُوْا لَنَا عٰبِدِيْنَ میں کمال عمل کی طرف اور اَىِٕمَّةً يَّهْدُوْنَ میں دوسروں کی ہدایت و تربیت کی طرف اشارہ کافیہ ہے۔
وَلَـقَدْ اٰتَيْنَآ اِبْرٰہِيْمَ رُشْدَہٗ مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا بِہٖ عٰلِمِيْنَ ٥١ۚ- رشد - الرَّشَدُ والرُّشْدُ : خلاف الغيّ ، يستعمل استعمال الهداية، يقال : رَشَدَ يَرْشُدُ ، ورَشِدَ «5» يَرْشَدُ قال : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة 186] - ( ر ش د ) الرشد - والرشد یہ غیٌ کی ضد ہے اور ہدایت کے معنی استعمال ہوتا ہے اور یہ باب نصرعلم دونوں سے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة 186] تاکہ وہ سیدھے رستے پر لگ جائیں ۔ - إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا
(٥١) اور ہم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بالغ ہونے سے پہلے ان کو علم اور خوش فہمی عطا کی تھی یا یہ کہ ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) و حضرت ہارون (علیہ السلام) کے زمانہ سے پہلے ان کو نبوت کے ساتھ سرفراز فرمایا تھا یا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے قبل ہم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نبوت عطا کی تھی اور ہم ان کے کمالات کو اور یہ کہ وہ اس چیز کے اہل ہیں، خوب جانتے تھے۔
آیت ٥١ (وَلَقَدْ اٰتَیْنَآ اِبْرٰہِیْمَ رُشْدَہٗ مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا بِہٖ عٰلِمِیْنَ ) ” - ان آیات میں بڑی عمدگی سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ ( علیہ السلام) کی قوم کے درمیان ہونے والی کش مکش کی تفصیل بیان ہو رہی ہے :
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :53 ہوشمندی ہم نے رشد کا ترجمہ کیا ہے جس کے معنی ہیں صحیح و غلط میں تمیز کر کے صحیح بات یا طریقے کو اختیار کرنا اور غلط بات یا طریقے سے احتراز کرنا ۔ اس مفہوم کے لحاظ سے رشد کا ترجمہ راست روی بھی ہو سکتا ہے ، لیکن چونکہ رشد کا لفظ محض راست روی کو نہیں بلکہ اس راست روی کو ظاہر کرتا ہے جو نتیجہ ہو فکر صحیح اور عقل سلیم کے استعمال کا ، اس لیے ہم نے ہوش مندی کے لفظ کو اس کے مفہوم سے اقرب سمجھا ہے ۔ ابراہیم کو اس کی ہوش مندی بخشی یعنی جو ہوش مندی اس کو حاصل تھی وہ ہماری عطا کردہ تھی ۔ ہم اس کو خوب جانتے تھے ، یعنی ہماری یہ بخشش کوئی اندھی بانٹ نہ تھی ۔ ہمیں معلوم تھا کہ وہ کیا آدمی ہے ، اس لیے ہم نے اس کو نوازا : اللہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہ اللہ خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کس کے حوالے کرے ( الانعام ، آیت 124 ) ۔ اس میں ایک لطیف اشارہ ہے سرداران قریش کے اس اعتراض کی طرف جو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے تھے ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ آخر اس شخص میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں کہ اللہ ہم کو چھوڑ کر اسے رسالت کے منصب پر مقرر کرے ۔ اس کا جواب مختلف مقامات پر قرآن مجید میں مختلف طریقوں سے دیا گیا ہے ۔ یہاں صرف اس لطیف اشارے پر اکتفا کیا گیا کہ یہی سوال ابراہیم کے متعلق بھی ہو سکتا تھا ، پوچھا جا سکتا تھا کہ سارے ملک عراق میں ایک ابراہیم ہی کیوں اس نعمت سے نوازا گیا ، مگر ہم جانتے تھے کہ ابراہیم میں کیا اہلیت ہے ، اس لیے ان کی پوری قوم میں سے ان کو اس نعمت کے لیے منتخب کیا گیا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت پاک کے مختلف پہلو اس سے پہلے سورہ بقرہ آیات 124 تا 141 ۔ 258 ۔ 260 الانعام ، آیات 74 تا 81 جلد دوم ۔ التوبہ آیت 114 ۔ ھود ۔ آیات 69 تا 76 ۔ ابراہیم آیات 35 تا 41 ۔ الحجر آیات 15 تا 60 ۔ النحل ، آیات 120 تا 133 میں گزر چکے ہیں جن پر ایک نگاہ ڈال لینا مفید ہو گا ۔