Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

58۔ 1 چناچہ وہ جس دن اپنی عید یا کوئی جشن مناتے تھے، ساری قوم اس کے لئے باہر چلی گئی اور ابراہیم (علیہ السلام) نے موقع غنیمت جان کر انھیں توڑ پھوڑ کر رکھ دیا صرف ایک بڑا بت چھوڑ دیا، بعض کہتے ہیں کہ کلہاڑی اس کے ہاتھ میں پکڑا دی تاکہ وہ اس سے پوچھیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٢] حضرت ابراہیم کی قوم سیارہ پرست لوگ تھے۔ اور انسانی زندگی پر سیاروں کے اثرات کے انتہائی معتقد تھے۔ انھیں سیاروں مثلاً سورج، چاند، زہرہ، عطارد، مشتری، مریخ اور زحل وغیرہ کی ارواح کی ایک مخصوص شکل انہوں نے متعین کر رکھی تھی۔ اور اسی شکل کے مجسمے بنائے جاتے تھے۔ جن کی یہ لوگ پوجا کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم نے اپنی ہوش مندی کی ابتداء میں پہلا تجربہ اپنی ذات پر کیا تھا اور دیکھا تھا کہ یہ سیارے یہ چاند اور یہ سورج کیا میری زندگی پر کچھ اثر انداز ہوتے ہیں یا نہیں۔ اور تجربہ نے انھیں یہی بتلایا تھا کہ ایسی باتیں سب انسانی توہمات ہیں۔ اسی بنا پر قلبی یقین کے ساتھ وہ اپنی قوم سے مجادلہ اور و قابلہ پر اتر آئے تھے۔ ان لوگوں کو جشن نوروز اس دن ہوتا تھا جب سورج برج حمل میں داخل ہوتا تھا اور آج کل کے حساب سے یہ دن یکم اپریل کا دن بنتا ہے اور یہ موسم بہار ہوتا ہے اور مبتدل موسم ہوتا ہے۔ جشن نوروز پر جب سب لوگ جانے لگے تو پہلے اپنے بتوں کے سامنے نذر و نیاز کی مٹھائیاں رکھیں۔ پھر بت خانہ کو جانے لگے تو حضرت ابراہیم کو بھی اس میلہ میں شمولیت کی دعوت دی تو آپ نے آسمان پر طرف نگاہ دوڑائی جیسے سیاروں کی چال دیکھ رہے ہوں اور کہہ دیا کہ میں تو بیمار ہونے والا ہوں لہذا مجھے ساتھ لے جاکر اپنے رنگ میں بھنگ نہ ڈالو۔ اور مجھے یہیں رہنے دو ۔ حضرت ابراہیم نے سیاروں کی طرف نگاہ اس لئے نہیں کی تھی کہ آپ ان کے اثرات پر یقین رکھتے تھے جبکہ اس لئے دورائی تھی کہ آپ کی ستارہ پرست قوم آپ کے اس عذر کو معقول سمجھ لے۔- جب یہ سب لوگ میلہ پر چلے گئے تو حضرت ابراہیم کے لئے یہی سنہری موقع تھا۔ آپ نے ایک تبر یا کلہاڑا لیا بت خانہ کا دروازہ کھولا اور انکے بتوں کو مار مار کر ان کے ٹکرے ٹکڑے کردیئے۔ التبہ بڑے بت کو چھوڑ دیا۔ اور کلہاڑا اس کے کندھے پر رکھ دیا تاکہ یہ معلوم ہو کہ یہ سب کارستانی اس بڑے بت کی ہے۔- آیت کے الفاظ ہیں (فَجَــعَلَهُمْ جُذٰذًا اِلَّا كَبِيْرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ اِلَيْهِ يَرْجِعُوْنَ 58؀) 21 ۔ الأنبیاء :58) (تاکہ وہ لوگ اس کی طرف رجوع کریں) الیہ کی ضمیر اس بڑے بت کی طرف بھی ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہے اور حضرت ابراہیم کے بڑے بت کے کندھے پر کلہاڑا رکھنے سے بھی ان کا اپنا یہی مقصود تھا نیز یہ لوگ سخت مشکل کے وقت بڑے بت ہی کی طرف رجوع کرتے تھے اور الیہ کی ضمیر خود حضرت ابراہیم کی طرف بھی ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ مابعد کی دو آیات سے معلوم ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَجَــعَلَهُمْ جُذٰذًا : ” جُذٰذًا “ ” جَذَّ یَجُذُّ “ (قطع کرنا اور ریزہ ریزہ کرنا) میں سے ” فُعَالٌ“ بمعنی مفعول (مَجْذُوْذٌ) ہے، یعنی ریزہ ریزہ، ٹکڑے ٹکڑے۔ اسی کے ہم وزن اور ہم معنی ” حُطَامٌ“ اور ” فُتَاتٌ“ ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ اپنے خاص جشن کے موقع پر گھروں سے باہر نکلتے اور سارا دن جشن مناتے، چناچہ انھوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی مگر انھوں نے بیماری کا عذر کرلیا۔ (صافات : ٨٨ تا ٩٠) ابراہیم (علیہ السلام) موقع پا کر بت خانے کے اندر داخل ہوگئے، پہلے ان سے کچھ خطاب کیا، جس کا تذکرہ سورة صافات میں ہے، جواب نہ پا کر پوری قوت سے انھیں توڑنا شروع کردیا اور ایک کے سوا سب کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ یہاں اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے سب کو توڑ کر کلہاڑا بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا، مگر یہ محض اسرائیلی روایت ہے، قرآن یا حدیث میں اس کا کہیں ذکر نہیں۔ پھر پتھر کے بت توڑنے کے لیے کلہاڑے کے بجائے ہتھوڑا استعمال ہوتا ہے۔ ہاں اگر لکڑی کے بت ہوں تو الگ بات ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے ابراہیم (علیہ السلام) نے ان بتوں کو کیسے ٹکڑے ٹکڑے کیا اور اس کے لیے صرف ایک ہتھیار استعمال کیا یا جس جس اوزار کی ضرورت تھی سب استعمال فرمائے۔- اِلَّا كَبِيْرًا لَّهُمْ :” كَبِيْرًا “ نکرہ ہے، سوائے ان کے ایک بڑے کے۔ معلوم ہوا کہ ان کے بڑے بت کئی تھے، مگر ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک بڑے کے سوا چھوٹے بڑے تمام بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ اس کی تائید آئندہ آیت (٦٣) ” َ بَلْ فَعَلَه ٗٗ ڰ كَبِيْرُهُمْ “ سے بھی ہوتی ہے کہ ” یہ کام ان کے اس بڑے نے کیا ہے۔ “ معلوم ہوا کہ اس بڑے کے سوا اور بھی بڑے بت تھے جو اپنے انجام کو پہنچ چکے تھے۔ (بقاعی) جو لوگ اسے ان کے سب بتوں سے بڑا بت قرار دیتے ہیں قرآن کے الفاظ ان کا ساتھ نہیں دیتے۔ - ” سوائے ان کے ایک بڑے کے “ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں یا ان کے معبودوں کو ” کبیر “ نہیں فرمایا، ہاں ” ان کے ہاں کبیر “ فرمایا ہے، کیونکہ وہ اسے کبیر مانتے تھے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسلام کی دعوت کا خط بھیجتے ہوئے لکھا : ( اِلٰی ھِرَقْلَ عَظِیْمِ الرُّوْمِ ) دیکھیے ہرقل کو صرف رومیوں کے ہاں عظیم فرمایا ہے، کافر کو مطلقاً عظیم نہیں فرمایا۔ (سعدی)- لَعَلَّهُمْ اِلَيْهِ يَرْجِعُوْنَ : ان کے ایک بڑے بت کو کچھ نہیں کہا، تاکہ جب وہ سب بتوں کو ٹوٹا ہوا اور اسے صحیح سلامت دیکھیں تو اس سے پوچھیں کہ جناب آپ کے غصے کا باعث کیا ہوا کہ آپ نے ان سب خداؤں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور اگر آپ نے یہ کام نہیں کیا تو آپ کے ہوتے ہوئے کوئی ظالم یہ کام کیسے کر گیا ؟ ایک معنی اس کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک بڑے کے سوا تمام بت ٹکڑے ٹکڑے کردیے کہ وہ لوگ جب یہ ماجرا دیکھیں گے تو فوراً ان کا ذہن ابراہیم (علیہ السلام) ہی کی طرف جائے گا، پھر جب وہ ان سے پوچھیں گے تو انھیں شرک کی تردید کا بہترین موقع مل جائے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فَجَــعَلَهُمْ جُذٰذًا، جذاد جِذٌّ بکسر الجیم کی جمع ہے جس کے معنی ٹکڑے کے ہیں مراد یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے توڑ کر ان سب بتوں کے ٹکڑے کردیئے۔- اِلَّا كَبِيْرًا لَّهُمْ ، یعنی صرف بڑے بت کو بغیر توڑے ہوئے چھوڑ دیا، اس کا بڑا ہونا یا تو حسی اعتبار سے ہو کہ اپنے جسم اور جثے کے اعتبار سے یہ دوسرے بتوں سے بڑا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جسم اور جثے میں سب کے برابر ہونے کے باوجود یہ بت ان بت پرستوں کے عقیدہ میں سب سے بڑا مانا جاتا ہو۔ - لَعَلَّهُمْ اِلَيْهِ يَرْجِعُوْنَ ، اس میں الیہ کی ضمیر میں دو احتمال ہیں۔ ایک یہ کہ ضمیر ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے جیسا کہ خلاصہ تفسیر میں ایسا ہی بیان کیا گیا اور اس کے مناسب آیت کی یہ تشریح کی گئی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مقصد اس عمل سے خود ہی یہ تھا کہ یہ لوگ میری طرف رجوع کریں مجھ سے پوچھیں کہ تم نے ایسا کیوں کیا تو میں ان کو ان کی بیوقوفی پر مطلع کروں اور اِلَيْهِ يَرْجِعُوْنَ کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عمل اس امید پر کیا کہ شاید اپنے بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے دیکھ کر ان میں عقل آجائے کہ یہ پرستش کے قابل نہیں پھر وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کی طرف رجوع ہوجاویں۔ اور کلبی نے فرمایا کہ الیہ کی ضمیر کبیر کی طرف راجع ہے اور معنی یہ ہیں کہ جب یہ لوگ واپس آ کر سارے بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے اور بڑے بت کو صحیح سالم اور اس کے مونڈھے پر کلہاڑا رکھا ہوا دیکھیں گے تو شاید اس بڑے بت کی طرف رجوع ہوں اور اس سے پوچھیں کہ ایسا کیوں ہوا وہ کوئی جواب نہ دے گا تو اس کا بھی عاجز ہونا ان پر واضح ہوجاوے گا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَجَــعَلَہُمْ جُذٰذًا اِلَّا كَبِيْرًا لَّہُمْ لَعَلَّہُمْ اِلَيْہِ يَرْجِعُوْنَ۝ ٥٨- جذ - الجَذُّ : کسر الشیء وتفتیته، ويقال لحجارة الذهب المکسورة ولفتات الذهب : جذاذ، ومنه قوله تعالی: فَجَعَلَهُمْ جُذاذاً [ الأنبیاء 58] ، عَطاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ [هود 108] ، أي : غير مقطوع عنهم ولا محترم وقیل : ما عليه جذّة، أي : متقطع من الثیاب .- ( ج ذ ذ) الجذو - ( ن ) کے معنی کسی چیز کو توڑنے اور ریزہ ریزہ کرنے کے ہیں اور پتھر یا سونے کے ریزوں کو جذاذ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ فَجَعَلَهُمْ جُذاذاً [ الأنبیاء 58] پھلان کو توڑ کر ریزہ ریزہ کردیا ۔ عَطاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ [هود 108] یہ ( خدا کی ) بخشش ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگی ۔ محاورہ ہے ۔ یعنی اس کے بدن پر چیتھڑا بھی نہیں ہے ۔ - لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٨۔ ٥٩) چناچہ جب وہ سب لوگ شہر کے باہر عید منانے گئے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) شہر میں اکیلے رہ گئے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان کے بت خانہ میں گئے تو انہوں نے بڑے بت کے علاوہ سب کو توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا کہ شاید وہ لوگ اپنی عید سے واپسی پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے دریافت کریں، چناچہ جب وہ لوگ واپس آئے اور اپنے بت خانہ میں داخل ہوئے تو کہنے لگے کہ یہ بےادبی کا کام ہمارے بتوں کے ساتھ کس نے کیا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٨ (فَجَعَلَہُمْ جُذَاذًا اِلَّا کَبِیْرًا لَّہُمْ لَعَلَّہُمْ اِلَیْہِ یَرْجِعُوْنَ ) ” - آپ ( علیہ السلام) نے سب سے بڑے ُ بت کو چھوڑ کر باقی تمام بتوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ اس کے بعد آپ ( علیہ السلام) نے اپنا تیشہ بھی اس بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا تاکہ وہ آکر دیکھیں تو سب سے بڑا بت صحیح سالم کھڑا ہو ‘ باقی سب کے سب تیشے کا شکار ہوئے پڑے ہوں ‘ آلۂ واردات بھی اسی بڑے کے پاس سے برآمد ہو اور یوں واقعاتی شہادت ( ) کی حد تک اس کے خلاف اتمام حجت بھی ہوجائے۔ چناچہ انہوں نے واپس آکر اپنے بتوں کا حال دیکھا تو :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :57 یعنی موقع پاکر جبکہ پجاری اور مجاور موجود نہ تھے ، حضرت ابراہیم ان کے مرکزی بت خانے میں گھس گئے ، اور سارے بتوں کو توڑ ڈالا ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :58 اس کی طرف کا اشارہ بڑے بت کی طرف بھی ہو سکتا ہے اور خود حضرت ابراہیم کی طرف بھی ۔ اگر پہلی بات ہو تو یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے ان کے عقائد پر ایک طنز کا ہم معنی ہے ۔ یعنی اگر ان کے نزدیک واقعی یہ خدا ہیں تو انہیں اپنے بڑے خدا کے متعلق یہ شبہ ہونا چاہیے کہ شاید بڑے حضرت ان چھوٹے حضرتوں سے کسی بات پر بگڑ گئے ہوں اور سب کا کچومر بنا ڈالا ہو ۔ یا پھر بڑے حضرت سے یہ پوچھیں کہ حضور ۔ آپ کی موجودگی میں یہ کیا ہوا ؟ کون یہ کام کر گیا ؟ اور آپ نے اسے روکا کیوں نہیں ؟ اور اگر دوسرا مفہوم مراد لیا جائے تو حضرت ابراہیم کا منشا اس کارروائی سے یہ تھا کہ اپنے بتوں کا یہ حال دیکھ کر شاید ان کا ذہن میری ہی طرف منتقل ہو گا اور یہ مجھ سے پوچھیں گے تو مجھ کو پھر ان سے صاف صاف بات کرنے کا موقع مل جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

25: جیسا کہ سورۂ صافات :88 میں آنے والا ہے وہ کوئی جشن کا دن تھا جس میں ساری قوم شہر چھوڑ کر کہیں جایا کرتی تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے ساتھ جانے سے معذرت کرلی تھی۔ اور جب سارے لوگ چلے گئے تو بت خانے میں جا کر سارے بتوں کو توڑ ڈالا، صرف ایک بڑے بت کو چھوڑ دیا اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنی کلہاڑ بھی اس کی گردن میں لٹکا کر چھوڑ دی۔ اس عمل سے ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ لوگ اپنی آنکھوں سے ان بتوں کی بے بسی کا منظر دیکھ سکیں۔ اور یہ سوچیں کہ جو بت خود اپنا دفاع نہیں کرسکتے، وہ دوسروں کی کیا مدد کریں گے۔ بڑے بت کو چھوڑنے کی مصلحت اس سوال وجواب سے واضح ہوگی جو آیت نمبر 63 میں آگے آ رہا ہے۔