کفر سے بیزاری طبیعت میں اضمحلال پیدا کرتی ہے اوپر ذکر گزرا کہ خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنی قوم کو بت پرستی سے روکا ۔ اور جذبہ توحید میں آکر آپ نے قسم کھالی کہ میں تمہارے ان بتوں کا ضرور کچھ نہ کچھ علاج کرونگا ۔ اسے بھی قوم کے بعض افراد نے سن لیا ۔ ان کی عید کا دن جو مقرر تھا حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب تم اپنی رسوم عید ادا کرنے کے لئے باہر جاؤ گے میں تمہارے بتوں کو ٹھیک کردوں گا ۔ عید کے ایک آدھ دن پیشتر آپ کے والد نے آپ سے کہا کہ پیارے بیٹے تم ہمارے ساتھ ہماری عید میں چلو تاکہ تمہیں ہمارے دین کی اچھائی اور رونق معلوم ہوجائے ۔ چنانچہ یہ آپ کو لے چلا ۔ کچھ دور جانے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والتسلیم گر پڑے اور فرمانے لگے ابا میں بیمار ہوگیا ۔ باپ آپ کو چھوڑ کرمراسم کفر بجا لانے کے لئے بڑھ گئے اور جو لوگ راستے سے گزرتے آپ سے پوچھتے کیا بات ہے راستے پر کیسے بیٹھے ہو؟ جواب دیتے کہ میں بیمار ہوں ۔ جب عام لوگ نکل گئے اور بڈھے بڑے لوگ رہ گئے تو آپ نے فرمایا تم سب کے چلے جانے کے بعد آج میں تمہارے معبودوں کی مرمت کردوں گا ۔ آپ نے جو فرمایا کہ میں بیمار ہوں تو واقعی آپ اس دن کے اگلے دن قدرے علیل بھی تھے ۔ جب کہ وہ لوگ چلے گئے تو میدان خالی پا کر آپ نے اپنا ارادہ پورا کیا اور بڑے بت کو چھوڑ کر تمام بتوں کا چورا کردیا ۔ جیسے اور آیتوں میں اس کا تفصیلی بیان موجود ہے کہ اپنے ہاتھ سے ان بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے ۔ اس بڑے بت کے باقی رکھنے میں حکمت ومصلحت یہ تھی کہ اولاً ان لوگوں کے ذہن میں خیال آئے کہ شاید اس بڑے بت نے ان چھوٹے بتوں کو غارت کردیا ہوگا ؟ کیونکہ اسے غیرت معلوم ہوئی ہوگی کہ مجھ بڑے کے ہوتے ہوئے یہ چھوٹے خدائی کے لائق کیسے ہوگئے ۔ چنانچہ اس خیال کی پختگی ان کے ذہنوں میں قائم کرنے کے لئے آپ نے کلہاڑا بھی اس کی گردن پر رکھ دیا تھا ۔ جیسے مروی ہے ۔ جب یہ مشرکین اپنے میلے سے واپس آئے تو دیکھا کہ ان کے سارے معبود منہ کے بل اوندھے گرے ہوئے ہیں ۔ اور اپنی حالت سے وہ بتا رہے ہیں کہ وہ محض بےجان بےنفع ونقصان ذلیل وحقیر چیزہیں ۔ اور گویا اپنی اس حالت سے اپنے پجاریوں کی بےوقوفی پر مہرلگا رہے تھے ۔ لیکن ان بیوقوفوں پر الٹا اثر ہوا کہنے لگے یہ کون ظالم شخص تھا جس نے ہمارے معبودوں کی ایسی اہانت کی؟ اس وقت جن لوگوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وہ کلام سنا تھا ، انہیں خیال آگیا اور کہنے لگے وہ نوجوان جس کا نام ابراہیم ہے اسے ہم نے اپنے معبودوں کی مذمت کرتے ہوئے سنا ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کو پڑھتے اور فرماتے جو نبی آیا جوان ۔ جو عالم بنا جوان ۔ شان الٰہی دیکھئے جو مقصد حضرت خلیل اللہ علیہ صلوات اللہ کا تھا وہ اب پورا ہورہا ہے ۔ قوم کے یہ لوگ مشورہ کرتے ہیں کہ آؤ سب کو جمع کرو اور اسے بلاؤ اور پھر اس کو سزا دو ۔ حضرت خلیل اللہ یہی چاہتے تھے کہ کوئی ایسا مجمع ہو اور میں اس میں ان کی غلطیاں ان پر واضع کروں اور ان میں توحید کی تبلیغ کرو ۔ اور انہیں بتلاؤں کہ یہ کیسے ظالم وجاہل ہیں؟ کہ ان کی عبادتیں کرتے ہیں جو نفع نقصان کے مالک نہیں بلکہ اپنی جان کا بھی اختیار نہیں رکھتے ۔ چنانچہ مجمع ہوا ۔ سب چھوٹے بڑے آگئے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ملزم کی حیثیت سے موجود ہوئے اور آپ سے سوال ہوا کہ ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ لغو حرکت تم نے کی ہے ؟ اس پر آپ نے انہیں قائل معقول کرنے کے لئے فرمایا کہ یہ کام تو ان کے اس بڑے بت نے کیا ہے ۔ اور اس کی طرف اشارہ کیا جسے آپ نے توڑا نہ تھا پھر فرمایا کہ مجھ سے کیا پوچھتے ہو؟ اپنے ان معبودوں سے ہی کیوں دریافت نہیں کرتے کہ تمہارے ٹکڑے اڑانے والا کون ہے؟ اس سے مقصود خلیل اللہ علیہ السلام کا یہ تھا کہ یہ لوگ خودبخود ہی سمجھ لیں کہ یہ پتھر کیا بولیں گے ؟ اور جب وہ اتنے عاجز ہیں تو یہ لائق عبادت کیسے ٹھیر سکتے ہیں؟ چنانچہ یہ مقصد بھی آپ کا بفضل الٰہی پورا ہوا اور یہ دوسری ضرب بھی کاری لگی ۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ خلیل اللہ نے تین جھوٹ بولے ہیں دو تو راہ اللہ میں ۔ ایک تو انکا یہ فرمانا کہ ان بتوں کو ان کے بڑے نے توڑا ہے ۔ دوسرا یہ فرمانا کہ میں بیمار ہوں ۔ اور ایک مرتبہ حضرت سارہ کے ساتھ سفر میں تھے ۔ اتفاق سے ایک ظالم کی حدود سے آپ گزر رہے تھے آپ نے وہاں منزل کی تھی ۔ کسی نے بادشاہ کو خبر کردی کہ ایک مسافر کے ساتھ بہترین عورت ہے اور وہ اس وقت ہماری سلطنت میں ہے ۔ بادشاہ نے جھٹ سپاہی بھیجا کہ وہ حضرت سارہ کو لے آئے ۔ اس نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ یہ کون ہے ؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا میری بہن ہے اس نے کہا اسے بادشاہ کے دربار میں بھیجو ۔ آپ حضرت سارہ کے پاس گئے اور فرمایا سنواس ظالم نے تمہیں طلب کیا ہے اور میں تمہیں اپنی بہن بتاچکاہوں اگر تم سے بھی پوچھا جائے تو یہی کہنا اس لئے کہ دین کے اعتبار سے تم میری بہن ہو ، روئے زمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مسلمان نہیں ۔ یہ کہہ کر آپ چلے آئے حضرت سارہ وہاں سے چلیں آپ نماز میں کھڑے ہوگئے ۔ جب حضرت سارہ کو اس ظالم نے دیکھا اور ان کی طرف لپکا اسی وقت اللہ کے عذاب نے اسے پکڑلیا ہاتھ پاؤں اینٹھ گئے ۔ گھبرا کر عاجزی سے کہنے لگا اے نیک عورت اللہ سے دعا کر کہ وہ مجھے چھوڑ دے میں وعدہ کرتا ہوں کہ تجھے ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا ۔ آپ نے دعا کی اسی وقت وہ اچھا ہوگیا لیکن اچھا ہوتے ہی اس نے پھر قصد کیا اور آپ کو پکڑنا چاہا وہی پھر عذاب الٰہی آپہنچا اور یہ پہلی دفعہ سے زیادہ سخت پکڑ لیا گیا پھر عاجزی کرنے لگا غرض تین دفعہ پے درپے یہی ہوا ۔ تیسری دفعہ چھوٹتے ہی اس نے اپنے قریب کے ملازم کو آواز دی اور کہا تو میرے پاس کسی انسان عورت کو نہیں لایا بلکہ شیطانہ کو لایا ہے جا اسے نکال اور ہاجرہ کو اس کے ساتھ کردے ۔ اسی وقت آپ وہاں سے نکال دی گئیں اور حضرت ہاجرہ آپ کے حوالے کی گئیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی آہٹ پاتے ہی نماز سے فراغت حاصل کی اور دریافت فرمایا کہ کہو کیا گزری؟ آپ نے فرمایا اللہ نے اس کافر کے مکر کو اسی پر لوٹا دیا اور حاجرہ میری خدمت کے لئے آگئیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حدیث کو بیان فرما کر فرماتے کہ یہ ہیں تمہاری اماں اے آسمانی پانی کے لڑکو ۔
57۔ 1 یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے دل میں عزم کیا، بعض کہتے ہیں کہ آہستہ سے کہا جس سے مقصود بعض لوگوں کو سنانا تھا۔ مراد یہی وہ عملی کوشش ہے جو وہ زبانی وعظ کے بعد عملی اہتمام کی شکل میں کرنا چاہتے تھے۔ یعنی بتوں کی توڑ پھوڑ۔
[٥١] حضرت ابراہیم نے دل میں سوچا کہ یہ لوگ باتوں سے تو اپنی گمراہی کو سمجھتے نہیں۔ اب انھیں کسی عملی تجربہ سے سمجھائے بغیر چارہ نہیں۔ لہذا اللہ کی قسم کھالی۔ کہ جب یہ لوگ اپنے بتوں کے پاس سے غیر حاضر ہوئے تو پھر میں ان کے مشکل کشاؤں کی خبر لوں گا۔ اب اتفاق کی بات کہ ان کے جشن نوروز یعنی قومی میلہ کا دن قریب آگیا تو یہ سب لوگ اس میلہ پر چلے گئے۔ اور حضرت ابراہیم کو ایسا موقع میسر آگیا جس کی انھیں انتظار تھی۔
وَتَاللّٰهِ لَاَكِيْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ ۔۔ : ابراہیم (علیہ السلام) نے زبان سے بتوں کی تردید کے بعد سمجھا کہ ان لوگوں کو زبانی سمجھانا کافی نہیں بلکہ ان کے دماغوں میں ان بتوں کی خدائی اور مشکل کشائی کا جما ہوا عقیدہ ختم کرنا ایک زبردست عملی کارروائی کے بغیر ممکن نہیں، جس سے ان کی بےبسی صاف واضح ہوجائے۔ چونکہ ان تک پہنچنا اور کارروائی کرنا آسان نہ تھا، تو اس کام کے لیے انھوں نے اس دن کا انتخاب فرمایا جب سب لوگوں کے جشن پر جانے سے کارروائی کا موقع مل سکتا تھا۔ دیکھیے سورة صافات (٨٨ تا ٩٠) ۔- 3 ابراہیم (علیہ السلام) نے بتوں کے باطل ہونے کو عمل سے ثابت کرنے سے پہلے اللہ کی قسم کھا کر اپنے ارادے کا اعلان فرمایا۔ کچھ لوگ پختہ قبروں یا آستانوں اور بتوں کو خفیہ طریقے سے توڑ دیتے ہیں اور روپوش ہوجاتے ہیں اور اپنے اس عمل کو سنت ابراہیمی قرار دیتے ہیں، لیکن اگر واقعی وہ سنت ابراہیمی کے پیروکار ہیں تو انھیں چاہیے کہ اعلان کرکے یہ کام کریں، تاکہ اس کے نتیجے کے ذمہ دار بھی خود بنیں اور ابراہیم (علیہ السلام) جیسی استقامت دکھائیں۔ یہ نہیں کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی۔- 3 بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ بات دل میں کہی۔ بعض نے لکھا ہے کہ جب سب لوگ چلے گئے تو انھوں نے ایک آدھ آدمی کی موجودگی میں یہ بات کہی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب اسرائیلیات ہیں۔ قرآن مجید نے صاف الفاظ میں ان کے اپنے والد اور قوم کے سامنے یہ بات کہنے کا ذکر فرمایا ہے۔ مگر قوم کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے، اس لیے انھوں نے اس کی پروا نہیں کی۔
معارف و مسائل - وَتَاللّٰهِ لَاَكِيْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ ، الفاظ آیت سے ظاہر یہی ہے کہ یہ بات ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی برادری کے سامنے کہی تھی مگر اس پر شبہ یہ ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے اِنِّىْ سَقِيْمٌ (میں بیمار ہوں) کا عذر کر کے ان کے ساتھ عید کے اجتماع میں جانے سے گریز کیا تھا اور جب بتوں کو توڑنے کا واقعہ پیش آیا تو برادری اس تلاش میں پڑی کہ یہ کس نے کیا۔ اگر ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ کلام پہلے ہی برادری کو معلوم تھا تو یہ سب باتیں کیسے ہوئیں اس کا جواب اوپر خلاصہ تفسیر میں یہ دیا گیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) اس خیال کے اکیلے آدمی تھے پوری برادری کے مقابلے میں ان کی کوئی حیثیت نہ سمجھ کر ممکن ہے کہ ان کے کلام کی طرف التفات نہ کیا ہو اور بھول بھی گئے ہوں (بیان القرآن) اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تلاش و تحقیق کرنے والے دوسرے لوگ ہوں جن کو ابراہیم (علیہ السلام) کی اس گفتگو کا علم نہیں تھا اور مفسرین میں سے مجاہد اور قتادہ کا قول یہ ہے کہ یہ کلام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے برادری کے سامنے نہیں کیا بلکہ اپنے دل میں کہا یا برادری کے جانے کے بعد ایک دو ضعیف آدمی جو رہ گئے تھے ان سے کہا پھر جب بت شکنی کا واقعہ پیش آیا اور برادری کو ایسا کرنے والے کی تلاش ہوئی تو ان لوگوں نے مخبری کردی (قرطبی)
وَتَاللہِ لَاَكِيْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِيْنَ ٥٧- كيد - الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76]- ( ک ی د ) الکید - ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔ - صنم - الصَّنَمُ : جُثَّةٌ متّخذة من فضّة، أو نحاس، أو خشب، کانوا يعبدونها متقرّبين به إلى اللہ تعالی، وجمعه : أَصْنَامٌ. قال اللہ تعالی: أَتَتَّخِذُ أَصْناماً آلِهَةً [ الأنعام 74] ، لَأَكِيدَنَّ أَصْنامَكُمْ- [ الأنبیاء 57] ، قال بعض الحکماء : كلّ ما عبد من دون الله، بل کلّ ما يشغل عن اللہ تعالیٰ يقال له : صَنَمٌ ، وعلی هذا الوجه قال إبراهيم صلوات اللہ عليه : اجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ [إبراهيم 35] ، فمعلوم أنّ إبراهيم مع تحقّقه بمعرفة اللہ تعالی، واطّلاعه علی حکمته لم يكن ممّن يخاف أن يعود إلى عبادة تلک الجثث التي کانوا يعبدونها، فكأنّه قال : اجنبني عن الاشتغال بما يصرفني عنك .- ( ص ن م ) الصنم - کے معنی بت کے ہیں جو کہ چاندی پیتل یا لکڑی وغیرہ کا بنا ہوا ہو ۔ عرب لوگ ان چیزوں کے مجم سے بناکر ( ان کی پوچا کرتے اور انہیں تقرب الہیٰ کا ذریعہ سمجھتے تھے صنم کی جمع اصنام آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : أَتَتَّخِذُ أَصْناماً آلِهَةً [ الأنعام 74] کہ تم بتوں کو کیوں معبود بناتے ہو۔ لَأَكِيدَنَّ أَصْنامَكُمْ [ الأنبیاء 57] میں تمہارے بتوں سے ایک چال چلو نگا ۔ بعض حکماء نے کہا ہے کہ ہر وہ چیز جسے خدا کے سوا پوجا جائے بلکہ ہر وہ چیز جو انسان کو خدا تعالیٰ سے بیگانہ بنادے اور اس کی توجہ کو کسی دوسری جانب منعطف کردے صنم کہلاتی ہے چناچہ ابراہیم اعلیہ السلام نے دعا مانگی تھی کہ : اجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ [إبراهيم 35] بازرکھنا کہ ہم اصنام کی پرستش اختیار کریں ۔ تو اس سے بھی واپسی چیزوں کی پرستش مراد ہے کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو معرفت الہی کے تحقق اور اسکی حکمت پر مطلع ہونے کے بعد یہ اندیشہ نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ اور ان کی اولاد بت پرستی شروع کردے گی ۔- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - دبر ( پيٹھ)- دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل «3» ، وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ- دُبُرَهُ [ الأنفال 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] ، أي :- قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ- «1» ( وأَدْبَار النّجوم) «2» ، فإدبار مصدر مجعول ظرفا،- ( د ب ر ) دبر ۔- بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔
(٥٧) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے دل میں کہا، اللہ کی قسم میں تمہارے ان بتوں کی اچھی طرح درگت بناؤں گا جب تم ان کے پاس سے اپنی عید منانے چلے جاؤ گے۔
آیت ٥٧ (وَتَاللّٰہِ لَاَکِیْدَنَّ اَصْنَامَکُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ ) ” - جیسے ہندوؤں کے ہاں جنم اشٹمی کا میلہ ہوتا ہے ایسے ہی ان لوگوں کا بھی کوئی تہوار تھا جس میں وہ سب کسی کھلے میدان میں جا کر پوجا پاٹ کرتے تھے۔ جب وہ دن آیا تو ان کے چھوٹے بڑے ‘ مرد عورتیں سب مقررہ مقام پر چلے گئے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان کے ساتھ نہیں گئے : (فَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْمٌ ) (الصّٰفٰت) ” انہوں ( علیہ السلام) نے کہا کہ میری طبیعت نا ساز ہے “۔ میں تمہارے ساتھ نہیں جاسکتا۔ چناچہ جب شہر خالی ہوگیا تو آپ ( علیہ السلام) ایک تیشہ ہاتھ میں لے کر ان کے بت خانے میں گھس گئے :
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :56 یعنی اگر تم استدلال سے بات نہیں سمجھتے ہو تو میں عملاً تمہیں مشاہدہ کرا دوں گا کہ یہ بے بس ہیں ، ان کے پاس کچھ بھی اختیارات نہیں ہیں ، اور ان کو خدا بنانا غلط ہے ۔ رہی یہ بات کہ عملی تجربے اور مشاہدے سے یہ بات وہ کس طرح ثابت کریں گے ، تو اس کی کوئی تفصیل حضرت ابراہیم نے اس موقع پر نہیں بتائی ۔