Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

63۔ 1 چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مجمع عام میں لایا گیا اور ان سے پوچھا گیا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ یہ کام تو اس بڑے بت نے کیا ہے، اگر یہ (ٹوٹے ہوئے بت) بول کر بتلا سکتے ہیں تو ذرا ان سے پوچھو تو سہی۔ یہ بطور اپنے مطلب کے بات کی یا انہوں نے کہا تاکہ وہ یہ بات جان لیں کہ جو نہ بول سکتا ہو نہ کسی چیز سے آگاہی کی صلاحیت رکھتا ہو، وہ معبود نہیں ہوسکتا۔ نہ اس پر الہ کا اطلاق ہی صحیح ہے ایک حدیث صحیح میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس قول بل فعلہ کبیرھم کو لفظ کذب سے تعبیر کیا گیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے تین جھوٹ بولے دو اللہ کے لیے ایک (انی سقیم) اور دوسرا یہی اور تیسرا حضرت سارہ اپنی بیوی کو بہن کہنا (صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب واتخذاللہ ابراہیم خلیلا) زمانہ حال کے بعض مفسرین نے اس حدیث صحیح کو قرآن کے خلاف باور کر کے اس کا انکار کردیا ہے اور اس کی صحت پر اصرار غلو اور روایت پرستی قرار دیا ہے لیکن ان کی یہ رائے صحیح نہیں یقینا حقیقت کے اعتبار سے انھیں جھوٹ نہیں کہا جاسکتا لیکن ظاہری شکل کے لحاظ سے ان کو کذب سے خارج بھی نہیں کیا جاسکتا ہے گو یہ کذب اللہ کے ہاں قابل مواخذہ نہیں ہے کیونکہ وہ اللہ ہی کے لیے بولے گئے ہیں درآنحالیکہ کوئی گناہ کا کام اللہ کے لیے نہیں ہوسکتا اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے کہ ظاہری طور پر کذب ہونے کے باوجود وہ حقیقتا کذب نہ ہو جیسے حضرت آدم (علیہ السلام) کے لیے عصی اور غوی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں حالانکہ خود قرآن میں ہی ان کے فعل اکل شجر کو نسیان اور ارادے کی کمزوری کا نتیجہ بھی بتلایا گیا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کسی کام کے دو پہلو بھی ہوسکتے ہیں من وجہ اس میں استحسان اور من وجہ ظاہری قباحت کا پہلو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ قول اس پہلو سے ظاہری طور پر کذب ہی ہے کہ واقعے کے خلاف تھا بتوں کو انہوں نے خود توڑا تھا لیکن اس کا انتساب بڑے بت کی طرف کیا لیکن چونکہ مقصد ان کا تعریض اور اثبات توحید تھا اس لیے حقیقت کے اعتبار ہم اسے جھوٹ کے بجائے اتمام حجت کا ایک طریق اور مشرکین کی بےعقلی کے اثبات واظہار کا ایک انداز کہیں گے علاوہ ازیں حدیث میں ان کذبات کا ذکر جس ضمن میں آیا ہے وہ بھی قابل غور ہے اور وہ ہے میدان محشر میں اللہ کے روبرو جاکر سفارش کرنے سے اس لیے گریز کرنا کہ ان سے دنیا میں تین موقعوں پر لغزش کا صدور ہوا ہے درآنحالیکہ وہ لغزشیں نہیں یعنی حقیقت اور مقصد کے اعتبار وہ جھوٹ نہیں ہیں مگر وہ اللہ کی عظمت وجلا کیوجہ سے اتنے خوف زدہ ہوں گے کہ یہ باتیں جھوٹ کے ساتھ مماثلت کی وجہ سے قابل گرفت نظر آئیں گی گویا حدیث کا مقصد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جھوٹا ثابت کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کیفیت کا اظہار ہے جو قیامت والے دن خشیت الہی کی وجہ سے ان پر طاری ہوگی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٥] چناچہ حضرت ابراہیم کو سب لوگوں کے سامنے برسر میدان لایا گیا اور ان سے پہلا سوال جو ہوا تو وہ اعتراف جرم سے متعلق تھا۔ کیونکہ جب تک مجرم کا جرم ہی ثابت نہ ہو سزا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حضرت ابراہیم سے پوچھا یہ گیا کہ : آیا ہمارے مشکل کشاو وں کو تم ہی نہ توڑا پھوڑا ہے ؟ اس سوال کا جواب حضرت ابراہیم نے یہ دیا کہ قرینہ کی شہادت تو یہ ہے کہ یہ سب کارستانی بڑے بت کی ہے۔ جس نے کلہاڑا اپنے کندھے پر اٹھا رکھا ہے۔ ممکن ہے بڑے خدا کو تمہارے جانے کے بعد چھوٹے خداؤں پر غصہ آگیا ہو اور اس نے انھیں تہس نہس کردیا ہو۔ اور اس سوال کا اصل حل یہ ہے کہ ان مظلوم اور ٹوٹے پھوٹے مشکل کشاؤں سے ہی پوچھ لو کہ ان پر کس نے یہ ظلم روا رکھا ہے اور یقین جانو کہ اگر وہ بولتے ہیں تو یقیناً تم کو اس سوال کا جواب دے دیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قول جھوٹ نہیں بلکہ ایک کنایہ تھا اس کی تفصیل و تحقیق :- بَلْ فَعَلَه ٗٗ ڰ كَبِيْرُهُمْ ھٰذَا فَسْـَٔــلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ یعنی جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کی برادری نے گرفتار کرکے بلایا اور ان سے اقرار لینے کے لئے سوال کیا کہ کیا آپ نے ہمارے بتوں کے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے تو ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ بلکہ ان کے بڑے نے یہ کام کیا ہے تم خود ان سے دریافت کرلو اگر یہ بول سکتے ہوں۔- یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خود کیا تھا پھر اس سے انکار اور ان کے بڑے کی طرف منسوب کرنا بظاہر خلاف واقعہ ہے جس کو جھوٹ کہا جاتا ہے حضرت خلیل اللہ کی شان اس سے بالا و برتر ہے۔ اس کے جواب کے لئے حضرات مفسرین نے بہت سے احتمالات بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک وہ بھی ہے جس کو خلاصہ تفسیر بیان القرآن میں اختیار کیا گیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ قول بطور فرض کے تھا یعنی تم یہ کیوں نہیں فرض کرلیتے کہ یہ کام بڑے بت نے کیا ہوگا اور بطور فرض کے کوئی خلاف واقعہ بات کہنا جھوٹ میں داخل نہیں جیسے خود قرآن میں ہے اِنْ كَان للرَّحْمٰنِ وَلَدٌ ڰ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ یعنی اگر اللہ رحمن کے کوئی لڑکا ہوتا تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والوں میں داخل ہوتا۔ لیکن بےغبار اور بےتاویل وہ توجیہ ہے جس کو بحر محیط، قرطبی، روح المعانی وغیرہ میں اختیار کیا ہے کہ یہ اسناد مجازی ہے جو کام ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ سے کیا تھا اس کو بڑے بت کی طرف بطور اسناد مجازی کے منسوب کردیا کیونکہ اس کام پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آمادہ کرنے ولا یہی بت تھا اور اس کی تخصیص شاید اس وجہ سے ہو کہ ان کی برادری اس بت کی تعظیم سب سے زیادہ کرتی تھی اس کی مثال ایسی ہوگی جیسے کوئی چور کی سزا میں اس کا ہاتھ کاٹ دے اور پھر کہے کہ یہ میں نے نہیں کاٹا بلکہ تیرے عمل اور تیری کجروی نے ہاتھ کاٹا ہے کیونکہ ہاتھ کاٹنے کا سبب اس کا عمل ہے۔- حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عملی طور پر بھی بتوں کے توڑنے کو بڑے بت کی طرف منسوب کیا تھا جیسا کہ روایات میں ہے کہ جس تبر یا کلہاڑے سے ان کے بت توڑے تھے یہ کلہاڑا بڑے بت کے مونڈھے پر یا اس کے ہاتھ میں رکھ دیا تھا کہ دیکھنے والے کو یہ خیال پیدا ہو کہ اس نے ہی یہ کام کیا ہے اور قولاً بھی اس کی طرف منسوب فرمایا تو یہ ایک اسناد مجازی ہے جیسے عربی کا مشہور مقولہ انبت الربیع البقلۃ اس کی معروف مثال ہے (یعنی موسم ربیع کی بارش نے کھیتی اگائی ہے) کہ اگرچہ اگانے والا درحقیقت حق تعالیٰ ہے مگر اس کے ایک ظاہری سبب کی طرف منسوب کردیا گیا ہے اور اس کو کوئی جھوٹ نہیں کہہ سکتا اسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بڑے بت کی طرف اس فعل کو عملاً اور قولاً منسوب کردینا جھوٹ ہرگز نہیں۔ البتہ بہت سی مصالح دینیہ کے لئے یہ توریہ اختیار فرمایا ان میں ایک مصلحت تو یہی تھی کہ دیکھنے والوں کو اس طرف توجہ ہوجائے کہ شاید اس بڑے بت کو اس پر غصہ آ گیا ہو کہ میرے ساتھ عبادت میں ان چھوٹے بتوں کو کیوں شریک کیا جاتا ہے۔ اگر یہ خیال ان کے دلوں میں پیدا ہو تو توحید حق کا راستہ کھل جاتا ہے کہ جب ایک بڑا بت اپنے ساتھ چھوٹے بتوں کی شرکت گوارا نہیں کرتا تو رب العالمین ان پتھروں کی شرکت اپنے ساتھ کیسے گوارا کرے۔- دوسرے یہ کہ ان کو یہ خیال اس وقت پیدا ہونا قرین عقل ہے کہ جن کو ہم خدا اور مختار کل کہتے ہیں اگر یہ ایسے ہی ہوتے تو کوئی ان کے توڑنے پر کیسے قادر ہوتا۔ تیسرے یہ کہ اگر اس فعل کو وہ بڑے بت کی طرف منسوب کردیں تو جو بت یہ کام کرسکے کہ دوسرے بتوں کو توڑ دے اس میں گویائی کی طاقت بھی ہونی چاہئے اس لئے فرمایا فَسْـَٔــلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ ، خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قول مذکور کو بلا تاویل کے اپنے ظاہر پر رکھ کر یہ کہا جائے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اس فعل کو بڑے بت کی طرف منسوب فرمایا اور یہ اسناد مجازی کے طور پر فرمایا تو اس میں کوئی جھوٹ اور خلاف واقعہ کا شبہ نہیں رہتا صرف ایک قسم کا توریہ ہے۔- حدیث میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف تین جھوٹ منسوب کرنے کی حقیقت :- ایک سوال اب یہ رہ جاتا ہے کہ صحیح احادیث میں خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے ان ابراہیم (علیہ السلام) لم یکذب غیر ثلاث (رواہ البخاری و مسلم) یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کبھی جھوٹ نہیں بولا بجز تین جگہوں کے پھر ان تینوں کی تفصیل اسی حدث میں اس طرح بیان فرمائی کہ ان میں سے دو جھوٹ تو خالص اللہ کے لئے بولے گئے ایک یہی جو اس آیت میں بَلْ فَعَلَه ٗٗ ڰ كَبِيْرُهُمْ فرمایا ہے، دوسرا عید کے روز برادری سے یہ عذر کرنا کہ اِنِّىْ سَقِيْمٌ میں بیمار ہوں اور تیرا اپنی زوجہ کی حفاظت کے لئے بولا گیا) وہ یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی اہلیہ محترمہ حضرت سارہ کے ساتھ سفر میں تھے کہ ایک ایسی بستی پر گزر ہوا جہاں کا رئیس ظالم بدکار تھا جب کسی شخص کے ساتھ اس کی بیوی کو دیکھتا تو بیوی کو پکڑ لیتا اور اس سے بدکاری کرتا۔ مگر یہ معاملہ اس صورت میں نہ کرتا تھا جبکہ کوئی بیٹی اپنے باپ کے ساتھ یا بہن اپنے بھائی کے ساتھ ہو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس بستی میں مع اہلیہ کے پہنچنے کی مخبری اس ظالم بدکار کے سامنے کردی گئی تو اس نے حضرت سارہ کو گرفتار کر کے بلوا لیا۔ پکڑنے والوں نے ابراہیم (علیہ السلام) سے پوچھا کہ یہ عورت رشتہ میں تم سے کیا تعلق رکھتی ہے ابراہیم (علیہ السلام) نے ظالم کے خوف سے بچنے کے لئے یہ فرما دیا کہ یہ میری بہن ہے (یہی وہ چیز ہے جس کو حدیث میں تیسرے جھوٹ سے تعبیر کیا گیا ہے) مگر اس کے باوجود وہ پکڑ کرلے گئے اور ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت سارہ کو بھی بتلا دیا کہ میں نے تم کو اپنی بہن کہا ہے تم بھی اس کے خلاف نہ کہنا اور وجہ یہ ہے کہ اسلامی رشتہ سے تم میری بہن ہو کیونکہ اس وقت اس زمین میں ہم دو ہی مسلمان ہیں اور اسلامی اخوت کا تعلق رکھتے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو مقابلے پر قدرت نہ تھی۔ اللہ کے سامنے الحاح وزاری کے لئے نماز پڑھنا شروع کردیا۔ حضرت سارہ اس کے پاس پہنچیں یہ ظالم بری نیت سے ان کی طرف بڑھا تو قدرت نے اس کو اپاہج و معذور کردیا اس پر اس نے حضرت سارہ سے درخواست کی کہ تم دعا کردو کہ میری یہ معذوری دور ہوجاوے میں تمہیں کچھ نہ کہوں گا۔ ان کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے پھر اس کو صحیح سالم کردیا مگر اس نے عہد شکنی کی اور پھر بری نیت سے ان پر ہاتھ ڈالنا چاہا پھر اللہ نے اس کے ساتھ وہی معاملہ کیا اسی طرح تین مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا تو اس نے حضرت سارہ کو واپس کردیا (یہ خلاصہ مضمون حدیث کا ہے) بہرحال اس حدیث میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف تین جھوٹ کی نسبت صراحۃً کی گئی ہے جو شان نبوت و عصمت کے خلاف ہے مگر اس کا جواب خود اسی حدیث کے اندر موجود ہے وہ یہ کہ دراصل ان میں سے ایک بھی حقیقی معنی جھوٹ نہ تھا یہ توریہ تھا جو ظلم سے بچنے کے لئے جائز و حلال ہوتا ہے وہ جھوٹ کے حکم میں نہیں ہوتا اس کی دلیل خود حدیث مذکور میں یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت سارہ سے کہا تھا کہ میں نے تمہیں اپنی بہن بتلایا ہے تم سے پوچھا جائے تو تم بھی مجھے بھائی بتلانا اور بہن کہنے کی وجہ بھی ان کو بتلا دی کہ ہم دونوں اسلامی برادری کے اعتبار سے بہن بھائی ہیں اسی کا نام توریہ ہے کہ الفاظ ایسے بولے جائیں جن کے دو مفہوم ہو سکیں، سننے والا اس سے ایک مفہوم سمجھے اور بولنے والے کی نیت دوسرے مفہوم کی ہو اور ظلم سے بچنے کے لئے یہ تدبیر توریہ کی باتفاق فقہاء جائز ہے یہ شیعوں کے تقیہ سے بالکل مختلف چیز ہے۔ تقیہ میں صریح جھوٹ بولا جاتا ہے اور اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے توریہ میں صریح جھوٹ نہیں ہوتا بلکہ جس معنے سے متکلم بول رہا ہے وہ بالکل صحیح اور سچ ہوتے ہیں جیسے اسلامی برادری کے لحاظ سے بھائی بہن ہونا۔ یہ وجہ تو خود حدیث مذکور کے الفاظ میں صراحۃً مذکور ہے جس سے معلوم ہوا کہ یہ درحقیقت کذب نہ تھا بلکہ ایک توریہ تھا۔ ٹھیک اسی طرح کی توجیہ پہلے دونوں کلاموں میں ہو سکتی ہے، بَلْ فَعَلَه ٗٗ ڰ كَبِيْرُهُمْ کی توجیہ ابھی اوپر لکھی گئی ہے کہ اس میں بطور اسناد مجازی اس فعل کو بڑے بت کی طرف منسوب کیا ہے۔ اسی طرح اِنِّىْ سَقِيْمٌ کا لفظ ہے کیونکہ سقیم کا لفظ جس طرح ظاہری طور پر بیمار کے معنے میں آتا ہے اسی طرح رنجیدہ و غمگین اور مضمحل ہونے کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے، ابراہیم (علیہ السلام) نے اسی دوسرے معنے کے لحاظ سے اِنِّىْ سَقِيْمٌ فرمایا تھا مخاطبوں نے اس کو بیماری کے معنے میں سمجھا اور اسی حدیث میں جو یہ الفاظ آئے ہیں کہ ان تین کذبات میں دو اللہ کی ذات کے لئے تھے یہ خود قرینہ قویہ اس کا ہے کہ یہ کوئی گناہ کا کام نہ تھا ورنہ گناہ کا کام اللہ کے لئے کرنے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہوسکتا اور گناہ کا کام نہ ہونا جبھی ہوسکتا ہے جبکہ وہ حقیقتہ کذب نہ ہو بلکہ ایسا کلام ہو جس کے دو معنی ہو سکتے ہوں، ایک کذب اور دوسرا صحیح ہو۔ - حدیث کذبات ابراہیم (علیہ السلام) کو غلط قرار دینا جہالت ہے :- مرزا قادیانی اور کچھ دوسرے مستشرقین سے مغلوب مسلمانوں نے اس حدیث کو باوجود صحیح السند ہونے کے اس لئے غلط اور باطل کہہ دیا کہ اس سے حضرت خلیل اللہ کی طرف جھوٹ کی نسبت ہوتی ہے اور سند کے سارے راویوں کو جھوٹا کہہ دینا اس سے بہتر ہے کہ خلیل اللہ کو جھوٹا قرار دیا جائے کیونکہ وہ قرآن کے خلاف ہے اور پھر اس سے ایک کلیہ قاعدہ یہ نکال لیا کہ جو حدیث قرآن کے خلاف ہو خواہ وہ کتنی ہی قوی اور صحیح اور معتبر اسانید سے ثابت ہو وہ غلط قرار دی جائے یہ بات اپنی جگہ تو بالکل صحیح اور ساری امت کے نزدیک بطور فرض محال کے مسلم ہے مگر علماء امت نے تمام ذخیرہ احادیث میں اپنی عمریں صرف کر کے ایک ایک حدیث کو چھان لیا ہے جس حدیث کا ثبوت قوی اور صحیح اسانید سے ہوگیا ان میں ایک بھی ایسی نہیں ہو سکتی کہ جس کو قرآن کے خلاف کہا جاسکے بلکہ وہ اپنی کم فہمی یا کج فہمی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ جس حدیث کو رد اور باطل کرنا چاہا اس کو قرآن سے ٹکرا دیا اور یہ کہہ کر فارغ ہوگئے کہ یہ حدیث خلاف قرآن ہونے کے سبب غیر معتبر ہے جیسا کہ اسی حدیث میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ الفاظ کذبات سے توریہ مراد ہونا خود حدیث کے اندر موجود ہے رہا یہ معاملہ کہ پھر حدیث میں توریہ کو کذبات کے لفظ سے کیوں تعبیر کیا گیا تو اس کی وجہ وہی ہے جو حضرت آدم (علیہ السلام) کی بھول اور لغزش کو عصی اور غوی کے الفاظ سے تعبیر کرنے کی ابھی سورة طلہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ میں گزر چکی ہے کہ مقربان بارگاہ حق تعالیٰ کے لئے ادنی کمزوری اور محض رخصت اور جائز پر عمل کرلینا اور عزیمت کو چھوڑ دینا بھی قابل مواخذہ سمجھا جاتا ہے اور ایسی چیزوں پر قرآن میں حق تعالیٰ کا عتاب انبیاء کے بارے میں بکثرت منقول ہے حدیث شفاعت جو مشہور و معروف ہے کہ محشر میں ساری مخلوق جمع ہو کر حساب جلد ہونے کے متعلق انبیاء سے شفاعت کے طالب ہوں گے۔ آدم (علیہ السلام) سے لے کر خاتم الانبیاء سے پہلے تک تمام انبیاء کے پاس پہنچیں گے ہر پیغمبر اپنے کسی قصور اور کوتاہی کا ذکر کر کے شفاعت کی ہمت نہ کرے گا، آخر میں سب خاتم الانبیاء (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور آپ اس شفاعت کبری کے لئے کھڑے ہوں گے۔ اس حدیث میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ ان کلمات کو جو بطور توریہ کے کہے گئے تھے حقیقۃً کذب نہ تھے مگر پیغمبرانہ عزیمت کے خلاف تھے اپنا قصور اور کوتاہی قرار دے کر عذر کردیں گے۔ اسی کوتاہی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے حدیث میں ان کو بلفظ کذبات تعبیر کردیا گیا جس کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق تھا اور آپ کی حدیث روایت کرنے اور بیان کرنے کی حد تک ہمیں بھی حق ہے مگر اپنی طرف سے کوئی حضرت ابراہیم کے بارے میں یوں کہے کہ انہوں نے جھوٹ بولا یہ جائز نہیں جیسا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے قصہ کے ساتھ سورة طہ کی تفسیر میں قرطبی اور بحر محیط کے حوالہ سے بیان ہوچکا ہے کہ قرآن یا حدیث میں جو اس طرح کے الفاظ کسی پیغمبر کے بارے میں آئے ہیں ان کا ذکر بطور تلاوت قرآن یا تعلیم قرآن یا روایت حدیث کے تو کیا جاسکتا ہے خود اپنی طرف سے ان الفاظ کا کسی پیغمبر کی طرف منسوب کرنا بےادبی ہے جو کسی کے لئے جائز نہیں۔- حدیث مذکور میں ایک اہم ہدایت اور اخلاص عمل کی باریکی کا بیان :- حدیث میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں جن کذبات ثلثہ کا ذکر آیا ہے حدیث میں ان میں سے پہلے دو کے بارے میں تو یہ آیا کہ اللہ کے لئے تھے، مگر تیسری بات جو حضرت سارہ کے بارے میں کہی گئی اس کو اللہ کے لئے نہیں فرمایا حالانکہ بیوی کی آبرو کی حفاظت بھی عین دین ہے اس پر تفسیر قرطبی میں قاضی ابوبکر بن عربی سے ایک بڑا نکتہ نقل کیا ہے جس کے متعلق ابن عربی نے فرمایا کہ یہ صلحاء و اولیاء کی کمر توڑ دینے والی بات ہے وہ یہ کہ تیسری بات بھی اگرچہ کام دین ہی کا تھا مگر اس میں کچھ اپنا حظ نفس بیوی کی عصمت اور حرم کی حفاظت کا بھی تھا، اتنی سی غرض دنیوی شامل ہوجانے کی بناء پر اس کو فی اللہ اور للہ کی فہرست سے الگ کردیا گیا کیونکہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے اَلَا لِلّٰهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ ، یہ معاملہ بیوی کی عصمت کی حفاظت کا اگر ہماری یا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو بلاشبہ اس کو بھی للہ فی اللہ ہی میں شمار کیا جاتا مگر انبیاء (علیہم السلام) کی عظمت شان کا مقام سب سے بلند ہے ان کے لئے اتنا سا حظ نفس شامل ہونا بھی اخلاص کامل کے منافی سمجھا گیا۔ واللہ اعلم وفقنا اللہ للاخلاص فی کل عمل۔ - حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر نار نمرود کے گلزار بن جانے کی حقیقت :- جو لوگ معجزات اور خوارق عادات کے منکر ہیں انہوں نے تو اس میں عجیب و غریب تحریفات کی ہیں۔ بات یہ ہے کہ فلسفہ کا یہ ضابطہ کہ جو چیز کسی چیز کے لئے لازم ذات ہو وہ اس سے کسی وقت جدا نہیں ہو سکتی خود ایک باطل اور بےدلیل ضابطہ ہے حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں اور تمام مخلوقات میں کوئی چیز کسی کے لازم ذات نہیں بلکہ صرف عادة اللہ یہ جاری ہے کہ آگ کے لئے حرارت اور جلانا لازم ہے، پانی کے لئے ٹھنڈا کرنا اور بجھانا لازم ہے۔ مگر یہ لازم صرف عادی ہے عقلی نہیں کیونکہ فلاسفہ بھی اس کے عقلی ہونے کی کوئی معقول دلیل نہیں پیش کرسکے اور جب یہ لازم عادی ہوا تو جب اللہ تعالیٰ کسی خاص حکمت سے کسی عادت کو بدلنا چاہتے ہیں بدل دیتے ہیں اس کے بدلنے میں کوئی عقلی محال لازم نہیں آتا جب اللہ تعالیٰ چاہے تو آگ بجھانے اور ٹھنڈا کرنے کا کام کرنے لگتی ہے اور پانی جلانے کا حالانکہ آگ اپنی حقیقت میں آگ ہی ہوتی ہے اور پانی بھی پانی ہی ہوتا ہے مگر کسی خاص فرد یا جماعت کے حق میں بحکم خداوندی وہ اپنی خاصیت چھوڑ دیتی ہے۔ انبیاء (علیہم السلام) کی نبوت کے ثبوت میں جو معجزات حق تعالیٰ ظاہر فرماتے ہیں ان سب کا حاصل یہی ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس آگ کو حکم دے دیا کہ ٹھنڈی ہوجا وہ ٹھنڈی ہوگئی اور اگر بَرْدًا کے ساتھ وَّسَلٰمًا کا لفظ نہ ہوتا تو آگ برف کی طرح ٹھنڈی ہو کر سبب ایذا بن جاتی اور قوم نوح جو پانی میں ڈوبی تھی ان کے بارے میں قرآن نے فرمایا اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا یعنی یہ لوگ پانی میں غرق ہو کر آگ میں داخل ہوگئے۔ حرقوة یعنی پوری برادری اور نمرود نے یہ فیصلہ کرلیا کہ ان کو آگ میں جلا دیا جائے۔ تاریخی روایات میں ہے کہ ایک مہینہ تک سارے شہر کے لوگ اس کام کے لئے لکڑی وغیرہ سوختہ کا سامان جمع کرتے رہے پھر اس میں آگ لگا کر سات دن تک اس کو ڈھونکتے اور بھڑکاتے رہے یہاں تک کہ اس کے شعلے فضائی آسمان میں اتنے اونچے ہوگئے کہ اگر کوئی پرندہ اس پر گزرے تو جل جائے۔ اس وقت ارادہ کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو اس میں ڈالا جائے تو فکری ہوئی کہ ڈالیں کیسے اس کے پاس تک جانا کسی کے بس میں نہیں تھا شیطان نے ان کو منجنیق (گوپیا) میں رکھ کر پھینکنے کی ترکیب بتلائی۔ جس وقت اللہ کے خلیل منجنیق کے ذریعہ اس آگ کے سمندر میں پھینکے جا رہے تھے تو سب فرشتے بلکہ زمین و آسمان اور ان کی مخلوقات سب چیخ اٹھے کہ یا رب آپ کے خلیل پر کیا گزر رہی ہے حق تعالیٰ نے ان سب کو ابراہیم کی مدد کرنے کی اجازت دیدی۔ فرشتوں نے مدد کرنے کے لئے حضرت ابراہیم سے دریافت کیا تو ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کافی ہے وہ میرا حال دیکھ رہا ہے۔ جبرئیل امین نے عرض کیا کہ آپ کو میری کسی مدد کی ضرورت ہے تو میں خدمت انجام دوں، جواب دیا کہ حاجت تو ہے مگر آپ کی طرف نہیں بلکہ اپنے رب کی طرف۔ (مظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ بَلْ فَعَلَہٗ۝ ٠ۤۖ كَبِيْرُہُمْ ھٰذَا فَسْـَٔــلُوْہُمْ اِنْ كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ۝ ٦٣- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- نطق - [ النُّطْقُ في التّعارُف : الأصواتُ المُقَطّعة التي يُظْهِرُها اللسّانُ وتَعِيهَا الآذَانُ ] . قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَنْطِقُونَ [ الصافات 92] ولا يكاد يقال إلّا للإنسان، ولا يقال لغیره إلّا علی سبیل التَّبَع .- نحو : النَّاطِقُ والصَّامِتُ ، فيراد بالناطق ما له صوت، وبالصامت ما ليس له صوت، [ ولا يقال للحیوانات ناطق إلّا مقيَّداً ، وعلی طریق التشبيه کقول الشاعر :- 445-- عَجِبْتُ لَهَا أَنَّى يَكُونُ غِنَاؤُهَا ... فَصِيحاً وَلَمْ تَفْغَرْ لِمَنْطِقِهَا فَماً ]- «1» والمنطقيُّون يُسَمُّون القوَّةَ التي منها النّطقُ نُطْقاً ، وإِيَّاهَا عَنَوْا حيث حَدُّوا الإنسانَ ، فقالوا :- هُوَ الحيُّ الناطقُ المَائِتُ «2» ، فالنّطقُ لفظٌ مشترکٌ عندهم بين القوَّة الإنسانيَّة التي يكون بها الکلامُ ، وبین الکلامِ المُبْرَزِ بالصَّوْت، وقد يقال النَّاطِقُ لما يدلُّ علی شيء، وعلی هذا قيل لحكيم : ما الناطقُ الصامتُ ؟ فقال : الدَّلائلُ المُخْبِرَةُ والعِبَرُ الواعظةُ. وقوله تعالی: لَقَدْ عَلِمْتَ ما هؤُلاءِ يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء 65] إشارة إلى أنّهم ليسوا من جِنْس النَّاطِقِينَ ذوي العقول، وقوله : قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت 21] فقد قيل : أراد الاعتبارَ ، فمعلومٌ أنَّ الأشياءَ كلّها ليستْ تَنْطِقُ إلّا من حيثُ العِبْرَةُ ، وقوله : عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] فإنه سَمَّى أصواتَ الطَّيْر نُطْقاً اعتباراً بسلیمان الذي کان يَفْهَمُهُ ، فمن فَهِمَ من شيء معنًى فذلک الشیء بالإضافة إليه نَاطِقٌ وإن کان صامتاً ، وبالإضافة إلى من لا يَفْهَمُ عنه صامتٌ وإن کان ناطقاً. وقوله : هذا كِتابُنا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِ [ الجاثية 29] فإن الکتابَ ناطقٌ لکن نُطْقُهُ تُدْرِكُهُ العَيْنُ كما أنّ الکلام کتابٌ لکن يُدْرِكُهُ السَّمْعُ. وقوله : وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ- [ فصلت 21] فقد قيل : إن ذلك يكونُ بالصَّوْت المسموعِ ، وقیل : يكونُ بالاعتبار، واللهُ أعلمُ بما يكون في النَّشْأَةِ الآخرةِ. وقیل :- حقیقةُ النُّطْقِ اللَّفْظُ الّذي هو كَالنِّطَاقِ للمعنی في ضَمِّهِ وحصْرِهِ. وَالمِنْطَقُ والمِنْطَقَةُ : ما يُشَدُّ به الوَسَطُ وقول الشاعر :- 446-- وَأَبْرَحُ مَا أَدَامَ اللَّهُ قَوْمِي ... بِحَمْدِ اللَّهِ مُنْتَطِقاً مُجِيداً- «1» فقد قيل : مُنْتَطِقاً : جَانِباً. أي : قَائِداً فَرَساً لم يَرْكَبْهُ ، فإن لم يكن في هذا المعنی غيرُ هذا البیت فإنه يحتمل أن يكون أراد بِالمُنْتَطِقِ الذي شَدَّ النِّطَاقَ ، کقوله : مَنْ يَطُلْ ذَيْلُ أَبِيهِ يَنْتَطِقْ بِهِ «2» ، وقیل : معنی المُنْتَطِقِ المُجِيدِ : هو الذي يقول قولا فَيُجِيدُ فيه .- ( ن ط ق )- عرف میں نطق ان اصات مقطعہ کو کیا جاتا ہے جو زبان سے نکلتی ہیں اور کان انہیں سنکر محفوظ کرلیتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ ما لَكُمْ لا تَنْطِقُونَ [ الصافات 92] تمہیں کیا ہوا کہ تم بولتے نہیں ۔ یہ لفط بالذات صرف انسان کے متعلق بولا جاتا ہے دوسرے حیوانات کے لئے بالتبع استعمال ہوات ہے جیسے المال الناطق والصامت کا محاورہ ہے جس میں ناطق سے حیوان اور صامت سے سونا چاندی مراد ہے ان کے علاوہ دیگر حیوانات پر ناطق کا لفظ مقید یا بطور تشبیہ استعمال ہوتا ہے جسیا کہ شاعر نے کہا ہے ( 430 ) عجبت لھا انی یکون غناؤ ھا فصیحا ولم تفعلو لنطقھا فما مجھے تعجب ہو ا کہ وہ کتنا فصیح گانا گاتی ہے حالانکہ اس نے گویائی کے لئے منہ نہیں کھولا ۔ اہل منطق قوت گو یائی کو نطق کہتے ہیں جب وہ انسان کی تعریف کرتے ہوئے الحی الناطق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتے ہیں ناطق سے ان کی یہی مراد ہونی ہے ۔ معلوم ہوا کہ نطق کا لفظ مشترک ہے جو قوت نطیقہ اور کلام ملفوظ دونوں پر بولا جاتا ہے کبھی ناطق کے معنی الدال علی الشئی کے بھی آتے ہیں اسی بنا پر ایک حکیم جب پوچھا گیا کہ الناطق الصامت کسے کہتے ہیں تو اس نے جواب دیا لادلائل المخبرۃ والعبر ولوا عظۃ اور آیت کریمہ : ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما هؤُلاءِ يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء 65] کہ تم جانتے ہو یہ بولتے نہیں ۔ میں اس بات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ کہ وہ ذوی النطق اور ذوی العقول کی جنس سے نہیں ہیں اور آیت کریمہ : ۔ قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت 21] جس خدا نے سب چیزوں کو نطق بخشا اس نے ہم کو بھی گویائی دی ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نطق اعتبار ی مراد ہے کیونکہ یہ بات بالکل بد یہی ہے کہ تمام چیزیں حقیقتا ناطق نہیں ہیں اور آیت کریمہ : ۔ عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ہمیں خدا کی طرف سے جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے میں پرندوں کی آواز کو محض حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لحاظ سے نطق کہا ہے ۔ کیونکہ وہ ان کی آوازوں کو سمجھتے تھے اور جو شخص کسی چیز سے کوئی معنی سمجھا ہو تو وہ چیزخواہ صامت ہی کیوں نہ ہو ۔ اس کے لحاظ سے تو ناطق کا حکم رکھتی ہے اور آیت کریمہ : هذا كِتابُنا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِ [ الجاثية 29] یہ ہماری کتاب تمہارے بارے میں سچ سچ بیان کردے گی ۔ میں کتاب کو ناطق کہا ہے لیکن اس کے نطق کا ادراک صرف آنکھ ہی کرسکتی ہے ۔ جیسا کہ کلام بھی ا یک کتاب ہے لیکن اس کا ادراک حاسہ سماعت سے ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت 21] اور وہ اپنے چمڑوں یعنی اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی وہ کہیں گے جس خدا نے سب چیزوں کو نطق بخشا اسی نے ہم کو بھی گویائی دی ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نطق صوقی مراد ہے ۔ اور بعض نے نطق اعتباری مراد لیا ہے ۔ اور عالم آخرت کی اصل حقیقت تو خدا ہی جانتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ نطق درحقیقت لفظ کو کہتے ہیں ۔ کیونکہ وہ معنی کو لپیٹنے اور محصور کرنے میں بمنزلہ نطاق کے ہوتا ہے ۔ المنطق والمنطقۃ کمر بند کو کہتے ہیں اور شاعر کے قول ۔ (431) وابرح ما ادام اللہ قومی بحمداللہ منتطقا مجیدا جب تک میری قوم زندہ ہے ۔ میں بحمداللہ عمدگی شاعر رہوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے منتطقا کے معنی جانبا کے ہیں یعنی میں گھوڑے کو آگے سے پکڑ کر کھینچتا رہوں گا اور اس پر سوار نہیں ہوں گا ہاں یہ اگر اس معنی میں کوئی دوسرا شعر نہ آیا تو یہاں منطق سے مراد وہ شخص بھی ہوسکتا ہے جس نے کمرپر نطاق باندھا ہوا ہو ۔ جیسا کہ مقولہ مشہو رہے ۔ ومن یطل ذیل ابیہ ینتطق بہ یعنی جس کے باپ کے فرزند زیادہ ہوں گے ۔ تو وہ ان کی وجہ سے طاقت ور اور توانا ہوجائے گا ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ منتطق کے معنی عمدگو کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٣) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا میں نے نہیں بلکہ اس بڑے گرو نے یہ حرکت کی ہے جس کی گردن میں یہ کدال لٹکی ہوئی ہے سو ان ہی سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں تاکہ یہ تمہیں خود بتادیں کہ کس نے ان کی پٹائی کی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٣ (قَالَ بَلْ فَعَلَہٗق کَبِیْرُہُمْ ہٰذَا فَسْءَلُوْہُمْ اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ ) ” - یہ جھوٹ نہیں بلکہ ” توریہ “ کا ایک انداز ہے۔ یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہ نہیں سمجھتے تھے کہ میری اس بات کو وہ لوگ سچ سمجھ لیں گے اور وہ لوگ بھی خوب سمجھ رہے تھے کہ ان سے ایسے کیوں کہا جا رہا ہے۔ بہر حال آپ ( علیہ السلام) کا مقصد انہیں اپنے گریبانوں میں جھانکنے اور سوچنے پر مجبور کرنا تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :60 یہ آخری فقرہ خود ظاہر کر رہا ہے کہ پہلے فقرے میں حضرت ابراہیم نے بت شکنی کے اس فعل کو بڑے بت کی طرف جو منسوب کیا ہے اس سے ان کا مقصد جھوٹ بولنا نہ تھا ، بلکہ وہ اپنے مخالفین پر حجت قائم کرنا چاہتے تھے ۔ یہ بات انہوں نے اس لیے کہی تھی کہ وہ لوگ جواب میں خود اس کا اقرار کریں کہ انکے یہ معبود بالکل بے بس ہیں اور ان سے کسی فعل کی توقع تک نہیں کی جا سکتی ۔ ایسے موقع پر ایک شخص استدلال کی خاطر جو خلاف واقعہ بات کہتا ہے اس کو جھوٹ قرار نہیں دیا جا سکتا ، کیونکہ نہ وہ خود جھوٹ کی نیت سے ایسی بات کہتا ہے اور نہ اس کے مخاطب ہی اسے جھوٹ سمجھتے ہیں ۔ کہنے والا اسے حجت قائم کرنے کے لیے کہتا ہے اور سننے والا بھی اسے اسی معنی میں لیتا ہے ۔ بدقسمتی سے حدیث کی ایک روایت میں یہ بات آ گئی ہے کہ حضرت ابراہیم اپنی زندگی میں تین مرتبہ جھوٹ بولے ہیں ۔ ان میں سے ایک جھوٹ تو یہ ہے ، اور دوسرا جھوٹ سورہ صافات میں حضرت ابراہیم کا قول : اِنِی سَقِیْمٌ ہے ، اور تیسرا جھوٹ ان کا اپنی بیوی کو بہن کہنا ہے جس کا ذکر قرآن میں نہیں بلکہ بائیبل کی کتاب پیدائش میں آیا ہے ۔ ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کر کے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اسے بخاری و مسلم کے چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اور اس بات کی پروا نہیں کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ کا الزام عائد ہوتا ہے دوسرا گروہ اس ایک روایت کو لے کر پورے ذخیرہ حدیث پر حملہ آور ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ساری ہی حدیثوں کو اٹھا کر پھینک دو کیونکہ ان میں ایسی ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں ۔ حالانکہ نہ ایک یا چند روایات میں کسی خرابی کے پائے جانے سے یہ لازم آتا ہے کہ ساری ہی روایات ناقابل اعتماد ہوں اور نہ فن حدیث کے نقطۂ نظر سے کسی روایت کی سند کا مضبوط ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کا متن خواہ کتنا ہی قابل اعتراض ہو مگر اسے ضرور آنکھیں بند کر کے صحیح مان لیا جائے ۔ سند کے قوی اور قابل اعتماد ہونے کے باوجود بہت سے اسباب ایسے ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے ایک متن غلط صورت میں نقل ہو جاتا ہے اور ایسے مضامین پر مشتمل ہوتا ہے جن کی قباحت خود پکار رہی ہوتی ہے کہ یہ باتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی نہیں ہو سکتیں ۔ اس لیے سند کے ساتھ ساتھ متن کو دیکھنا بھی ضروری ہے ، اور اگر متن میں واقعی کوئی قباحت ہو تو پھر خواہ مخواہ اس کی صحت پر اصرار کرنا صحیح نہیں ہے ۔ یہ حدیث ، جس میں حضرت کے تین جھوٹ بیان کیے گئے ہیں ، صرف اسی وجہ سے قابل اعتراض نہیں ہے ۔ کہ یہ ایک نبی کو جھوٹا قرار دے رہی ہے ۔ بلکہ اس بنا پر بھی غلط ہے کہ اس میں جن تین واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ تینوں ہی محل نظر ہیں ۔ ان میں سے ایک جھوٹ کا حال ابھی آپ دیکھ چکے ہیں کہ کوئی معمولی عقل و خرد کا آدمی بھی اس سیاق و سباق میں حضرت ابراہیم کے اس قول پر لفظ جھوٹ کا اطلاق نہیں کر سکتا ، کجا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے معاذ اللہ اس سخن نا شناسی کی توقیر کریں ۔ رہا : اِنِّی سَقِیْمٌ والا واقعہ تو اس کا جھوٹ ہونا ثابت نہیں ہو سکتا جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ حضرت ابراہیم فی الواقع اس وقت بالکل صحیح و تندرست تھے اور کوئی ادنیٰ سی شکایت بھی ان کو نہ تھی ۔ یہ بات نہ قرآن میں کہیں بیان ہوئی ہے اور نہ اس زیر بحث روایت کے سوا کسی دوسری معتبر روایت میں اس کا ذکر آیا ہے ۔ اب رہ جاتا ہے بیوی کو بہن قرار دینے کا واقعہ تو وہ بجائے خود ایسا مہمل ہے کہ ایک شخص اس کو سنتے ہی یہ کہہ دے گا کہ یہ ہرگز واقعہ نہیں ہو سکتا ۔ قصہ اس وقت کا بتایا جاتا ہے جب حضرت ابراہیم اپنی بیوی حضرت سارہ کے ساتھ مصر گئے ہیں بائیبل کی رو سے اس وقت حضرت ابراہیم کی عمر 75 اور حضرت سارہ کی عمر 65 برس سے کچھ زیادہ ہی تھی اور اس عمر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ شاہ مصر اس خوبصورت خاتون کو حاصل کرنے کی خاطر مجھے قتل کر دے گا ۔ چنانچہ وہ بیوی سے کہتے ہیں کہ جب مصری تمہیں پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے جانے لگیں تو تم بھی مجھے اپنا بھائی بتانا اور میں بھی تمہیں اپنی بہن بتاؤں گا تاکہ میری جان تو بچ جائے ( پیدائش ، باب 12 ) حدیث کی زیر بحث روایت میں تیسرے جھوٹ کی بنیاد اسی صریح لغو اور مہمل اسرائیلی روایت پر ہے ۔ کیا یہ کوئی معقول بات ہے کہ جس حدیث کا متن ایسی باتوں پر مشتمل ہو اس کو بھی ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے پر صرف اس لیے اصرار کریں کہ اس کی سند مجروح نہیں ہے ؟ اسی طرح کی افراط پسندیاں پھر معاملے کو بگاڑ کر اس تفریط تک نوبت پہنچا دیتی ہیں جس کا مظاہرہ منکرین حدیث کر رہے ہیں ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب رسائل و مسائل ، جلد دوم ، ص 35 تا 39 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

26: یہ درحقیقت ان کے عقیدے پر ایک طنز تھا، وہ لوگ چونکہ بتوں کو بڑے اختیارات کا مالک سمجھتے تھے، اور بڑا بت بنانے کا مقصد یہی تھا کہ یہ چھوٹے چھوٹے خداؤں کے لیے سردار کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے اس طنز سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مقصد یہ تھا کہ جب تم اس بڑے بت کو بتوں کا سردار سمجھتے ہو اور سردار اپنے ماتحتوں کا محافظ ہوا کرتا ہے، اس لیے اگر کسی اور شخص نے چھوٹے بتوں کو توڑا ہوتا تو تمہارے اعتقاد کے مطابق یہ سردار اسے ایسا کرنے نہ دیتا، لہذا یہ احتمال تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی اور شخص بتوں کی یہ گت بنائے، اور ان کا یہ سردار چپ چاپ دیکھتا رہے، اب تمہارے اعتقاد کے مطابق ایک ہی احتمال رہ جاتا ہے کہ خود یہ سردار ہی ان سے ناراض ہوگیا ہو، اور اسی نے ان کو توڑ پھوڑ ڈالا ہو۔ چونکہ یہ واضح طور پر ایک طنز تھا، اس لیے اس میں غلط بیان کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ دوسری طرف یہ چھوٹے بت بھی ان کے عقیدے کے مطابق چھوٹے ہونے کے باوجود خدا ہی تھے، اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ان میں اتنی طاقت تو ہونی چاہئے کہ جو واقعہ ان کے ساتھ پیش آیا ہے، کم از کم وہ تمہیں بتا سکیں، اس لیے انہی سے پوچھ کر دیکھ لو کہ کیا قصہ ہوا تھا۔