اپنی حماقت سے پریشان کافر بیان ہو رہا ہے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کی باتیں سن کر انہیں خیال تو پیدا ہوگیا ۔ اپنے آپ کو اپنی بیوقوفی پر ملامت کرنے لگے ۔ سخت ندامت اٹھائی اور آپس میں کہنے لگے کہ ہم نے بڑی غلطی کی ، اپنے معبودوں کے پاس کسی کو حفاظت کیلئے نہ چھوڑا اور چل دئیے ۔ پھر غور وفکر کرکے بات بنائی کہ آپ جو کچھ ہم سے کہتے ہیں کہ ان سے ہم پوچھ لیں کہ تمہیں کس نے توڑا ہے تو کیا آپ کو علم نہیں کہ یہ بت بےزبان ہیں ؟ عاجزی حیرت اور انتہائی لاجوابی کی حالت میں انہیں اس بات کا اقرار کرنا پڑا اب حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کو خاصا موقعہ مل گیا اور آپ فوراً فرمانے لگے کہ بےزبان بےنفع وضرر چیز کی عبادت کیسی؟ تم کیوں اس قدر بےسمجھ رہے ہو؟ تف ہے تم پر اور تمہارے ان جھوٹے خداؤں پر آہ کس قدر ظلم وجہل ہے کہ ایسی چیزوں کی پرستش کی جائے اور اللہ واحد کو چھوڑ دیا جائے ؟ یہی تھی وہ دلیلیں جن کا ذکر پہلے ہوا تھا کہ ہم نے ابراہیم کو دلیلیں سکھا دیں جن سے قوم حقیقت تک پہنچ جائے ۔
64۔ 1 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس جواب سے وہ سوچ میں پڑگئے اور ایک دوسرے کو لاجواب ہو کر، کہنے لگے، واقع ظالم تو تم ہی ہو، جو اپنی جان کو بچانے پر اور نقصان پہنچانے والے کا ہاتھ پکڑنے پر قادر نہیں وہ مستحق عبادت کیونکر ہوسکتا ہے ؟ بعض نے یہ مفہوم بیان کیا کہ معبودوں کی عدم حفاظت پر ایک دوسرے کو ملامت کی اور ترک حفاظت پر ایک دوسرے کا ظالم کہا۔
فَرَجَعُوْٓا اِلٰٓى اَنْفُسِهِمْ ۔۔ : ابراہیم (علیہ السلام) کی اس زبردست چوٹ نے انھیں سوچنے پر مجبور کردیا۔ سب نے اپنے دل میں غور کیا تو کہہ اٹھے کہ تم اس جوان کو خواہ مخواہ ظالم کہہ رہے ہو، ظالم تو تم خود ہو جو ایسی بےحقیقت چیزوں کو اپنا معبود قرار دے کر پوجتے پکارتے اور انھیں اپنا حاجت روا اور مشکل کشا قرار دیتے ہو، جن کی بےبسی اور بےچارگی کا حال یہ ہے کہ وہ خود اپنے اوپر آنے والی مصیبت کو بھی دفع نہیں کرسکتے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ اپنے آپ پر گزری ہوئی مصیبت کسی دوسرے کے سامنے بیان بھی نہیں کرسکتے، تو پھر اس سے بڑھ کر ظلم اور حماقت کیا ہوسکتی ہے ؟ سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے : (اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ ) [ لقمان : ١٣ ] ” بیشک شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے۔ “ بعض نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ تم ہی ظالم ہو کہ تم نے اپنے بتوں کی حفاظت کا خاطر خواہ بندوبست نہیں کیا، مگر پہلا معنی ہی صحیح اور مقام کے مناسب ہے۔
فَرَجَعُوْٓا اِلٰٓى اَنْفُسِہِمْ فَقَالُوْٓا اِنَّكُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَ ٦٤ۙ- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے
(٦٤) اس پر وہ لوگ خود کو ملامت کرنے لگے اور ان کے سردار نمرود نے ان سے کہا کہ حقیقت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مقابلہ میں تم ہی ناحق ہو اور وہ حق پر ہیں۔
آیت ٦٤ (فَرَجَعُوْٓا الآی اَنْفُسِہِمْ فَقَالُوْٓا اِنَّکُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَ ) ” - یہ گویا ان کے ضمیر کی آواز تھی کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی بات ہے تو درست ظالم تو تم خود ہو جو ان بےجان مجسموں کو معبود سمجھتے ہو ‘ جو خود اپنا دفاع بھی نہ کرسکے اور اب یہ بتانے سے بھی معذور ہیں کہ ان کی یہ حالت کس نے کی ہے ؟