65۔ 1 پھر اے ابراہیم (علیہ السلام) تو ہمیں یہ کیوں کہہ رہا ہے کہ ان سے پوچھو اگر یہ بول سکتے ہیں، جب کہ تو اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ بولنے کی طاقت سے محروم ہیں۔
ثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰي رُءُوْسِهِمْ ۔۔ : ” نَکَسَ “ کا معنی سر کے بل الٹا کرنا ہے، یعنی سر نیچے اور پاؤں اوپر کردینا، یہ کسی بھی شخص کی بدترین حالت ہے۔ ” نُکِسَ الْوَلَدُ “ جب بچے کی ٹانگیں سر سے پہلے باہر آئیں۔ ” نُکِسَ فِی الْمَرْضِ “ تندرست ہو کر پھر بیمار ہوجانا۔ یعنی اگرچہ ابراہیم (علیہ السلام) کا جواب سنتے ہی ان کے دلوں نے فیصلہ کردیا کہ ظالم تم خود ہو جو ایسے بےحس اور بےبس بتوں کو معبود بنا بیٹھے ہو جو بول کر یہ بھی نہیں بتاسکتے کہ ان پر کیا گزری، مگر پھر حق تسلیم کرنے کے بجائے ان پر ضد اور جہالت سوار ہوگئی، جس سے ان کی عقل الٹی ہوگئی اور وہ بغیر کسی حیا کے وہ بات کہنے لگے جس سے ان کی بےوقوفی اور حماقت بالکل واضح ہو رہی تھی۔ ” نُكِسُوْا “ الٹے کردیے گئے، جیسے کسی چیز نے زبردستی انھیں سر کے بل اوندھا کردیا ہو، چناچہ کہنے لگے : (لَــقَدْ عَلِمْتَ مَا هٰٓـؤُلَاۗءِ يَنْطِقُوْنَ ) ” بلاشبہ یقیناً تو جانتا ہے کہ یہ بولتے نہیں۔ “
ثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰي رُءُوْسِہِمْ ٠ۚ لَــقَدْ عَلِمْتَ مَا ہٰٓـؤُلَاۗءِ يَنْطِقُوْنَ ٦٥- نكس - النَّكْسُ : قَلْبُ الشیءِ عَلَى رَأْسِهِ ، ومنه : نُكِسَ الوَلَدُ : إذا خَرَجَ رِجْلُهُ قَبْلَ رَأْسِهِ ، قال تعالی: ثُمَّ نُكِسُوا عَلى رُؤُسِهِمْ [ الأنبیاء 65] والنُّكْسُ في المَرَضِ أن يَعُودَ في مَرَضِهِ بعد إِفَاقَتِهِ ، ومن النَّكْسِ في العُمُرِ قال تعالی: وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس 68] وذلک مثل قوله : وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُرِ [ النحل 70] وقرئ : ننكسه «3» ، قال الأخفش : لا يكاد يقال نَكَّسْتُهُ بالتَّشْدِيدِ إلّا لما يُقْلَبُ فيُجْعَلُ رأسُهُ أسْفَلَهُ «4» . والنِّكْسُ :- السَّهْمُ الذي انكَسَرَ فوقُه، فجُعِلَ أَعْلَاهُ أسْفَلُه فيكون رديئاً ، ولِرَدَاءَتِهِ يُشَبَّهُ به الرَّجُلُ الدَّنِيءُ.- ( ن ک س ) النکس ( ن ) کے معنی کسی چیز کو الٹا کردینے کے ہیں اور اسی سے نکس الولد ہے ۔۔ یعنی ولات کے وقت بچے کے پاؤں کا سر سے پہلے باہر نکلنا ۔ ثُمَّ نُكِسُوا عَلى رُؤُسِهِمْ [ الأنبیاء 65] پھر شرمندہ ہوکرسر نیچا کرلیا ۔ النکس صحت یابی کے بعد مرض کا عود کر آنا۔ اور نکس فی العسر العمر کے متعلق فرمایا : وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس 68] اور جس کو ہم بڑی عمر دیتے ہیں ۔ اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُرِ [ النحل 70] اور تم میں بعض ایسے ہوتے ہیں کہ نہایت خراب عمر کو پہنچ جاتے ہیں ۔ اور ایک قرات میں ننکسہ ہے ۔ اخفش کا قول ہے ۔ کہ ننکسہ وبتشدید الکاف ) کے معنی کسی چیز کو سرنگوں کردینے کے ہوتے ہیں ۔ اور نکس اس تیرے کو کہتے ہیں جس کا فوتہ ٹوٹ گیا ہو اور اس کے اوپر کے حصہ کو نیچے لگا دیا گیا ہو ۔ ایسا تیر چونکہ روی ہوجاتا ہے ۔ اس لئے تشبیہ کے طور پر کمینے آدمی کو بھی نکس کہاجاتا ہے ۔ ( ن ک ص ) النکوص ( ن ض ) کسی چیز سے پیچھے ہٹنا ۔ قرآن پاک میں ہے : نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] تو پسپاہوکر چل دیا ۔- رأس - الرَّأْسُ معروف، وجمعه رُؤُوسٌ ، قال : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم 4] ، وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة 196] ، ويعبّر بِالرَّأْسِ عن الرَّئِيسِ ، والْأَرْأَسُ : العظیم الرّأس، وشاة رَأْسَاءُ : اسودّ رأسها . ورِيَاسُ السّيف : مقبضه .- ( ر ء س ) الراس - سر کو کہتے ہیں اور اس کی جمع رؤوس آتی ہے ۔ قرآم میں ہے : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم 4] اور سر بڑاھاپے ( کی آگ ) سے بھڑک اٹھا ہے ۔ وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة 196] اپنے سر نہ منڈاؤ اور کبھی راس بمعنی رئیس بھی آتا ہے اور ارء س ( اسم تفصیل ) کے معنی بڑے سر والا کے ہیں اور سیاہ سر والی بکری کو شاۃ راساء کہتے ہیں اور ریاس السیف کے معنی دستہ شمشیر کے ہیں ۔
(٦٥) پھر شرم کے مارے اپنے سروں کو جھکا لیا اور پھر اپنی پچھلی بات پر آگئے اور نمرود کہنے لگا اے ابراہیم (علیہ السلام) تمہیں تو اچھی طرح معلوم ہی ہے کہ بت کچھ بولتے نہیں تو ان سے کیا پوچھیں کہ کس نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے۔
آیت ٦٥ (ثُمَّ نُکِسُوْا عَلٰی رُءُ وْسِہِمْ ج) ” - ایک لمحے کے لیے دلوں میں یہ خیال تو آیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی بات درست ہے اور ہم غلط ہیں ‘ مگر جاہلانہ حمیت و عصبیت کے ہاتھوں ان کی عقلیں پھر سے اوندھی ہوگئیں اور پھر سے وہ ان بےجان بتوں کا دفاع کرنے کی ٹھان کر بولے کہ ان سے ہم کیا پوچھیں :
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :61 اصل میں : نُکِسُوْا عَلیٰ رُءُوْسِھِمْ ( اوندھا دیے گئے اپنے سروں کے بل ) فرمایا گیا ہے ۔ بعض لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ انہوں نے خجالت کے مارے سر جھکا لیے ۔ لیکن موقع و محل اور اسلوب بیان اس معنی کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے ۔ صحیح مطلب ، جو سلسلہ کلام اور انداز کلام پر نظر کرنے سے صاف سمجھ میں آ جاتا ہے ، یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جواب سنتے ہی پہلے تو انہوں نے اپنے دلوں میں سوچا کہ واقعی ظالم تو تم خود ہو ، کیسے بے جس اور بے اختیار معبودوں کو خدا بنائے بیٹھے ہو جو اپنی زبان سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ان پر کیا بیتی اور کون انہیں مار کر رکھ گیا ، آخر یہ ہماری کیا مدد کریں گے جب کہ خود اپنے آپ کو بھی نہیں بچا سکتے ۔ لیکن اس کے بعد فوراً ہی ان پر ضد اور جہال سوار ہو گئی اور ، جیسا کہ ضد کا خاصہ ہے ، اس کے سوار ہوتے ہی ان کی عقل اوندھ گئی ۔ دماغ سیدھا سوچتے سوچتے یکایک الٹا سوچنے لگا ۔
27: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بتوں کی حقیقت بتانے کے لیے جو طریقہ اختیار فرمایا، اس نے انہیں کم از کم اپنے دل میں سوچنے پر مجبور کردیا، اور ان کے دل نے گواہی دی کہ قصور در اصل ہمارا ہی ہے۔ لیکن مدتوں سے جمے ہوئے عقیدے کو چھوڑنے کی جرات نہ ہوئی، لاجواب ہو کر سر تو جھکا دیا، لیکن کہا یہ کہ یہ بات تو تم بھی جانتے ہو، اور ہم بھی پہلے سے جانتے ہیں کہ یہ بت بولتے نہیں ہیں۔