Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ہجرت خلیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے اپنے خلیل کو کافروں کی آگ سے بچا کر شام کے مقدس ملک میں پہنچا دیا ۔ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تمام میٹھا پانی شام کے صخرہ کے نیچے سے نکلتا ہے ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں آپ کو عراق کی سرزمین سے اللہ نے نجات دی اور شام کے ملک میں پہنچایا ۔ شام ہی نبیوں کا ہجرت کدہ رہا ۔ زمین میں سے جو گھٹتا ہے وہ شام میں بڑھتا ہے اور شام کی کمی فلسطین میں زیادتی ہوتی ہے ۔ شام ہی محشر کی سرزمین ہے ۔ یہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے ، یہیں دجال قتل کیا جائے گا ۔ بقول کعب آپ حران کی طرف گئے تھے ۔ یہاں آکر آپ کو معلوم ہوا کہ یہاں کے بادشاہ کی لڑکی اپنی قوم کے دین سے بیزار ہے اور اس سے نفرت رکھتی ہے بلکہ ان کے اوپر طعنہ زنی کرتی ہے تو آپ نے ان سے اس قرار پر نکاح کرلیا کہ وہ آپ کے ساتھ ہجرت کرکے یہاں سے نکل چلے انہی کا نام حضرت سارہ ہے رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔ یہ روایت غریب ہے اور مشہور یہ ہے کہ حضرت سارہ آپ کے چچا کی صاحبزادی تھیں ، اور آپ کے ساتھ ہجرت کرکے چلی آئی تھیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ ہجرت مکے شریف میں ختم ہوئی مکے ہی کی نسبت جناب باری فرماتا ہے کہ یہ اللہ کا پہلا گھر ہے جو برکت وہدایت والا ہے ، جس میں علاوہ اور بہت سی نشانیوں کے مقام ابراہیم بھی ہے ۔ اس میں آجانے والا امن وسلامتی میں آجاتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے اسے اسحاق دیا اور یعقوب کا عطیہ بھی کیا ۔ یعنی لڑکا اور پوتا جیسے فرمان ہے آیت ( فَبَشَّرْنٰهَا بِاِسْحٰقَ ۙ وَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ يَعْقُوْبَ 71؀ ) 11-ھود:71 ) چونکہ خلیل اللہ علیہ السلام کے سوال میں ایک لڑکے ہی کی طلب تھی دعا کی تھی کہ آیت ( رب ہب لی من الصالحین ) اللہ تعالیٰ نے یہ دعا بھی قبول فرمائی اور لڑکے کے ہاں بھی لڑکا دیا جو سوال سے زائد تھا اور سب کو نیکو کاربنایا ۔ ان سب کو دنیا کا مقتدا اور پیشوا بنادیا کہ بحکم الٰہی خلق اللہ کو راہ حق کی دعوت دیتے رہے ۔ ان کی طرف ہم نے نیک کاموں کی وحی فرمائی ۔ اس عام بات پر عطف ڈال کر پھر خاص باتیں یعنی نماز اور زکوٰۃ کا بیاں فرمایا ۔ اور ارشاد ہوا کہ وہ علاوہ ان نیک کاموں کے حکم کے خود بھی ان نیکیوں پر عامل تھے ۔ پھر حضرت لوط علیہ السلام کا ذکرشروع ہوتا ہے ۔ لوط بن ہاران بن آزر علیہ السلام ۔ آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لائے تھے اور آپ کی تابعداری میں آپ ہی کے ساتھ ہجرت کی تھی ۔ جیسے کلام اللہ شریف میں ہے آیت ( فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ ۘ وَقَالَ اِنِّىْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّيْ 26؀ ) 29- العنكبوت:26 ) حضرت لوط علیہ السلام آپ پر ایمان لائے اور فرمایا کہ میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں ، پس اللہ تعالیٰ نے انہیں حکمت وعلم عطا فرمایا اور وحی نازل فرمائی اور نبیوں کے پاک زمرے میں داخل کیا ۔ اور سدوم اور اس کے آس پاس کی بستیوں کی طرف آپ کو بھیجا ۔ انہوں نے نہ مانا مخالفت پر کمربستگی کرلی ۔ جس کے باعث عذاب الٰہی میں گرفتار ہوئے اور فناکردئیے گئے ، جن کی بربادی کے واقعات اللہ تعالیٰ کی کتاب عزیز میں کئی جگہ بیان ہوئے ہیں یہاں فرمایا کہ ہم نے انہیں بدترین کام کرنے والے فاسقوں کی بستی سے نجات دے دی اور چونکہ وہ اعلیٰ نیکوکار تھے ہم نے انہیں اپنی رحمت میں داخل کرلیا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71۔ 1 اس سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک ملک شام ہے۔ جسے شادابی اور پھلوں اور نہروں کی کثرت نیز انبیاء (علیہم السلام) کا مسکن ہونے کے لحاظ سے بابرکت کہا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٠] یہ واقعہ دیکھ کر بھی حضرت لوط کے سوا کوئی شخص بھی حضرت ابراہیم پر ایمان نہ لایا۔ حضرت لوط حضرت ابراہیم کے بھائی ہماران کے بیٹے یعنی حضرت ابراہیم کے بھتیجے تھے۔ جب قوم سے دشمنی چھن گئی تو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو عراق سے شام کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ شام کا علاقہ بابرکت اس لئے ہے کہ دنیوی لحاظ سے یہ بہت زرخیز اور شاداب خطہ زمین ہے۔ اور روحانی لحاظ سے اس لئے کہ یہی خطہ دو ہزار سال تک انبیاء کا مسکن و مدفن رہا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَنَجَّيْنٰهُ وَلُوْطًا ۔۔ : اس واقعہ کو دیکھ کر لوط (علیہ السلام) ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے۔ دیکھیے سورة عنکبوت (٢٦) اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں جلنے سے محفوظ رکھا تھا اسی طرح ابراہیم اور لوط (علیہ السلام) دونوں کو ان ظالموں کے پنجے سے بحفاظت نکال کر شام کی طرف ہجرت کرنے کی آسانی عطا فرمائی۔ یہ بھی عظیم احسان تھا، کیونکہ وہاں سے ان کا نکلنا آسان نہ تھا۔ شام کی طرف ہجرت سے معلوم ہوا کہ ابراہیم (علیہ السلام) عراق کے رہنے والے تھے۔ برکت والی زمین کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بنی اسرائیل (١) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَنَجَّيْنٰهُ وَلُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا لِلْعٰلَمِيْنَ ، یعنی حضرت ابراہیم اور ان کے ساتھ لوط (علیہما السلام) کو ہم نے اس زمین سے جس پر نمرود کا غلبہ تھا (یعنی عراق کی زمین) نجات دے کر ایک ایسی زمین میں پہنچا دیا جس میں ہم نے تمام جہان والوں کے لئے برکت رکھی ہے مراد اس سے ملک شام کی زمین ہے کہ وہ اپنی ظاہری اور باطنی حیثیت سے بڑی برکتوں کا مجموعہ ہے باطنی برکت تو یہ ہے کہ یہ زمین مخزن انبیاء ہے بیشتر انبیاء (علیہم السلام) اسی زمین میں پیدا ہوئے اور ظاہری برکات آب و ہوا کا اعتدال، نہروں اور چشموں کی فراوانی پھل پھول اور ہر طرح کی نباتات کا غیر معمول نشو و نما وغیرہ ہے جس کے فوائد صرف اس زمین کے رہنے والوں کو نہیں بلکہ عام دنیا کے لوگوں تک پہنچتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَنَجَّيْنٰہُ وَلُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْہَا لِلْعٰلَمِيْنَ۝ ٧١- نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔- وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔- لوط - لُوطٌ: اسم علم، واشتقاقه من لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، وفي الحدیث : «الولد أَلْوَطُ- أي : ألصق۔ بالکبد» وهذا أمر لا يَلْتَاطُ بصفري . أي : لا يلصق بقلبي، ولُطْتُ الحوض بالطّين لَوْطاً : ملطته به، وقولهم : لَوَّطَ فلان : إذا تعاطی فعل قوم لوط، فمن طریق الاشتقاق، فإنّه اشتقّ من لفظ لوط الناهي عن ذلک لا من لفظ المتعاطین له .- ( ل و ط ) لوط - ( حضرت لوط (علیہ السلام) ) یہ اسم علم ہے لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، سے مشتق ہے جس کے معنی کسی چیز کی محبت دل میں جاگزیں اور پیوست ہوجانے کے ہیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (115) الولد الوط بالکید ۔ کہ اولاد سے جگری محبت ہوتی ہے ۔ ھذا امر لایلنا ط بصفری ۔ یہ بات میرے دل کو نہیں بھاتی ۔ لطت الحوض بالطین لوطا ۔ میں نے حوض پر کہگل کی ۔ گارے سے پلستر کیا ۔۔۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے نام سے اشتقاق کرکے تولط فلان کا محاورہ ستعمال ہوتا ہے جس کے معنی خلاف فطرت فعل کرنا ہیں حالانکہ حضرت لوط (علیہ السلام) تو اس فعل سے منع کرتے تھے اور اسے قوم لوط س مشتق نہیں کیا گیا جو اس کا ارتکاب کرتے تھے ۔- برك - أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء .- قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96]- ( ب رک ) البرک - اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات - ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧١) اور ہم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ سے اور لوط (علیہ السلام) کو خسف سے بچا کر ان دونوں کو سرزمین مقدس فلسطین اور اردن کی طرف بھیج دیا جس میں ہم نے دنیا جہان والوں کے لیے پانی اور پھلوں کی بھی برکت رکھی تھی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧١ (وَنَجَّیْنٰہُ وَلُوْطًا اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْہَا لِلْعٰلَمِیْنَ ) ” - حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔ وہ ( علیہ السلام) آپ ( علیہ السلام) پر ایمان لے آئے۔ پھر جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عراق سے شام کی طرف ہجرت کی تو حضرت لوط (علیہ السلام) بھی آپ ( علیہ السلام) کے ساتھ تھے۔ آپ ( علیہ السلام) لوگ عراق کے مشرقی علاقے کے راستے سے ہوتے ہوئے شام پہنچے۔ درمیان میں چونکہ شرق اردن وغیرہ کا علاقہ ناقابل عبور صحرا پر مشتمل تھا اس لیے شام کے شمالی علاقے سے ہوتے ہوئے اور پھر نیچے کی طرف سفر کرتے ہوئے فلسطین پہنچے اور وہاں مستقل طور پر سکونت اختیار کی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :63 بائیبل کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیم کا جو تذکرہ آیا ہے اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ انکی قوم میں سے صرف ایک حضرت لوط ہی ان پر ایمان لائے تھے ( ملاحظہ ہو آیت 26 ) ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :64 یعنی شام و فلسطین کی سر زمین ۔ اس کی برکتیں مادی بھی ہیں اور روحانی بھی ۔ مادی حیثیت سے وہ دنیا کے زرخیز ترین علاقوں میں سے ہے ۔ اور روحانی حیثیت سے وہ 2 ہزار برس تک انبیاء علیہم السلام کا مہبط رہی ہے ۔ دنیا کے کسی دوسرے خطے میں اتنی کثرت سے انبیاء مبعوث نہیں ہوئے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

29: لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے، اور سورۃ عنکبوت آیت 29 سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی قوم میں سے تنہا وہی ان پر ایمان لائے تھے۔ تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انہیں آگ میں ڈالنے کی سازش ناکام ہوگئی تو نمرود نے مرعوب ہو کر ان سے تعرض نہیں کیا۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے بھتیجے کو لے کر عراق سے شام کے علاقے میں تشریف لے گئے۔ قرآن کریم نے کئی مقامات پر شام اور فلسطین کے علاقے کو برکتوں والا علاقہ قرار دیا ہے۔