Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٩] یعنی مشرک تو اپنے معبودوں کی گستاخی کا اس صورت میں بدلہ لینے چاہتے تھے کہ ابراہیم کو اذیت دہ موت سے دوچار کرکے صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردیں۔ لیکن آپ کا آگ کے درمیان رہ کر کئی دنوں کے بعد زندہ سلامت نکل آنا ساری قوم کے لئے ایک نیا چیلنج بن گیا اور انھیں معلوم ہوگیا کہ ابراہیم کو نقصان پہنچانا ان کے بس سے باہر ہے۔ اور یہ بات ان کے لئے اور بھی زیادہ دل شکنی کا باعث بن گئی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاَرَادُوْا بِهٖ كَيْدًا ۔۔ : ” الْاَخْسَرِيْنَ “ اگرچہ اسم تفضیل ہے، مگر یہاں کسی سے زیادہ خسارا اٹھانے والے مراد نہیں، بلکہ یہ خاسرین میں مبالغہ ہے، اس لیے ترجمہ ” انتہائی خسارے والے “ کیا گیا ہے۔ اگر تفضیل کا معنی لیں تو ” أَخْسَرِیْنَ مِنْ کُلِّ خَاسِرٍ “ مراد ہوگا، یعنی ہر خسارے والے سے زیادہ خسارے والے۔ ” كَيْدًا “ خفیہ تدیبر کو کہتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ کفار نے ابراہیم (علیہ السلام) کو جلانے کی سازش ان سے خفیہ رکھی تھی۔ شاید ان کا مقصد یہ ہو کہ ابراہیم (علیہ السلام) ہاتھ سے نہ نکل جائیں۔ (ابن عاشور) ” فَجَعَلْنٰهُمُ الْاَخْسَرِيْنَ “ میں ” ھُمْ “ اور ” الْاَخْسَرِيْنَ “ دونوں کے معرفہ ہونے سے قصر کا فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ بس وہی انتہائی خسارے والے ہوئے، ابراہیم (علیہ السلام) کو ذرہ بھر خسارا نہیں ہوا۔ انھیں خسارے والے (ناکام) اس لیے قرار دیا کہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کی کسی بھی دلیل کا جواب نہ دے سکے جس کے ساتھ انھوں نے سورج، چاند اور ستاروں کو بےبس ثابت کیا، یا جس کے ساتھ انھوں نے بادشاہ کا بےاختیار ہونا ثابت کیا، یا بتوں کا معبود نہ ہونا ثابت کیا۔ پھر نہ ان سے بت توڑنے کا انتقام لے سکے اور نہ انھیں آگ میں جلا سکے، بلکہ وہ سب کچھ جو انھوں نے انھیں سزا دینے کے لیے تیار کیا تھا ان کے لیے معجزہ اور ان کی عظمت شان کا باعث بن گیا اور انتہائی خسارا یہ کہ اس واقعہ کے بعد اس قوم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آگیا، جیسا کہ سورة حج میں ان قوموں کا ذکر فرمایا جن پر اللہ کا عذاب آیا، تو ان میں قوم ابراہیم کا بھی ذکر ہے، آخر میں فرمایا : (فَاَمْلَيْتُ لِلْكٰفِرِيْنَ ثُمَّ اَخَذْتُهُمْ ۚ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيْرِ ) [ الحج : ٤٤ ] ” تو میں نے ان کافروں کو مہلت دی، پھر میں نے انھیں پکڑ لیا تو میرا عذاب کیسا تھا ؟ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَرَادُوْا بِہٖ كَيْدًا فَجَعَلْنٰہُمُ الْاَخْسَرِيْنَ۝ ٧٠ۚ- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - كيد - الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76]- ( ک ی د ) الکید - ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔ - خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٠) ان لوگوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جلانے کی کارروائی کی تھی سو ہم نے ان ہی لوگوں کو ذلیل ورسوا کردیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٠ (وَاَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا ) ” - ان الفاظ پر میں ایک طویل عرصے تک غور کرتارہا کہ اس سارے منصوبے میں ان کی ” چال “ آخر کون سی تھی مگر مجھے کچھ سمجھ نہ آیا۔ پھر یکایک ذہن اس خیال کی طرف منتقل ہوگیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو وہ لوگ درحقیقت ڈرانا چاہتے تھے ‘ جلانا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے آپ ( علیہ السلام) کو آپ ( علیہ السلام) کے موقف سے ہٹانے کے لیے انتہائی خوفناک دھمکی دی تھی (حَرِّقُوہُ ) کہ اسے جلا ڈالو ان کا خیال تھا کہ ابھی تو یہ بڑے بہادر بنے ہوئے ہیں ‘ بڑھ چڑھ کر باتیں کر رہے ہیں ‘ مگر جب انہیں آگ کے ہیبت ناک الاؤ کے سامنے لے جا کر کھڑا کیا جائے گا تو ان کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے ‘ اور آپ ( علیہ السلام) جان بچانے کے لیے توبہ پر آمادہ ہوجائیں گے۔ یوں انہوں نے آپ ( علیہ السلام) کے خلاف چال چلی مگر یہ چال انہیں الٹی پڑگئی۔ ؂- بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق - عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی - (فَجَعَلْنٰہُمُ الْاَخْسَرِیْنَ ) ” - وہ اپنی چال میں ناکام ہوگئے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani