Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٨] مفسرین کہتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم کو الاؤ میں ڈالا جانے لگا تو جبرئیل حاضر ہوئے اور کہا کہ کہو تو آپ کی مدد کروں ؟ حضرت ابراہیم نے کہا : مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں۔ مجھے میرا اللہ کافی ہے پھر جبرئیل نے کہا : اچھا اپنے اللہ سے دعا ہی کرو حضرت ابراہیم نے فرمایا : میرا اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور مجھے یہی کافی ہے اب اللہ تعالیٰ نے اپنے اس مخلص بندے کی یوں مدد فرمائی کہ آگ کو حکم دے دیا کہ ابراہیم کے لئے ٹھنڈی ہوجا مگر اتنی ٹھنڈی بھی نہیں کہ ٹھنڈک کی وجہ سے حضرت ابراہیم کو تکلیف پہنچے بلکہ صرف اس حد تک ٹھنڈی ہو کہ حضرت ابراہیم آگے کے درمیان صحیح وسالم رہ سکیں۔ یہ آگ جو کئی دنوں میں بنائی گئی تھی اور حضرت ابراہیم کو بھی کئی دن اس آگ میں رکھا گیا مگر آپ کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔ جو رسیاں آپ کی مشکیں باندھنے کے لئے استعمال کی گئی وہ تو جل گئیں مگر آپ کے جسم کو کچھ گزند نہ پہنچا۔ مفسرین کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم بعد میں فرمایا کرتے تھے کہ وہ دن کیا آرام و راحت کے دن تھے جب میں آگ میں رہا تھا۔- اب یہ تو ظاہر ہے کہ یہ واقعہ خوق عادت یا عام معمول ( ) کے خلاف ہے جس میں حاوی سبب اور مسبب کے درمیانی رشتہ کو منقطع کردیا گیا ہو۔ آگ کا خاصہ ہر چیز کو جلا دینا اور بھسم کردینا ہے اور یہ خاصہ آگ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سلب کرلیا تھا۔ اب جن لوگوں کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے لئے بھی کوئی خوق عادت کام کرنا یا معجزہ رونما کرنا یا مسبب اور مسبب کے درمیانی تعلق کو منقطع کردینا ممکن نہیں ہے۔ اور اسی بنا پر وہ ایسے واقعات کی دور اذکار تاویلیں کرنے لگتے ہیں تاآنکہ انھیں طبعی امور کے تابع بنا کے چھوڑیں تو ہم ان سے یہ پوجتے ہیں کہ آخر وہ اللہ تعالیٰ کو ماننے کی بھی زحمت کیوں گوارا کرتے ہیں۔ طبعی امور پر تو نیچری، دہریے اور وجود باری تعالیٰ کے منکر سب ہی یقین رکھتے ہیں۔ اور اگر وہ ایسا کام تھا کہ ہر زمانہ کے نظریات کے مطابق ڈھال لیا جایا کرے۔ قرآن نے اللہ تعالیٰ کا جو تعارف کرایا ہے وہ یہ ہے کہ طبعی قوانین کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے ان میں استثناء کا بھی اور بوقت ضرورت وہ اپنے ان بنائے ہوئے قوانین میں تبدیلی بھی کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ لہذا اللہ اور قرآن پر ایمان لانے والوں پر قطعاً یہ فرض نہیں کیا گیا کہ وہ ہر دور کے لوگوں سے قرآن کے مضامین کو منور کرکے چھوڑیں۔ خواہ اس کام کے لئے انھیں کسی غیر معقول اور دور اذکار تاویلیں کرنی پڑیں۔ سرسید احمد خان نے اس واقعہ کے متعلق لکھا کہ یہ کفار کا فقط ابراہیم کو جلانے یا مارنے کا ارادہ تھا لیکن اس پر عمل نہیں ہوا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اتنی ہی بات تھی تو اللہ تعالیٰ کو یہ فرمانے کی کیا ضرورت تھی۔ ( قُلْنَا يٰنَارُكُـوْنِيْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ 69؀ۙ ) 21 ۔ الأنبیاء :69) اب اس سے آگے چلئے حافظ عنایت اللہ اثری صاحب چونکہ حدیث کو بھی مانتے ہیں اور بخاری کی مرفوع حدیث حِیْنَ اُلْقِیَ فِیْ النَّارِ کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ مگر پھر بھی ان کی طبیعت اس واقعہ کو ماننے پر آمادہ نہیں ہوتی اور سخت گرانبار نظر آتی ہے۔ چناچہ وہ خود ہی ایک سوال اٹھا کر اس کا جواب دیتے ہیں۔ جسے ہم ناظرین کی دلچسپی کے لئے یہاں درج کر رہے ہیں :- سوال : کیا ابراہیم کو سچ مچ آگ میں ڈالا گیا تھا یا وہ صرف کفار کے فتنہ و فساد کی آگ تھی۔ جسے اللہ پاک نے ٹھنڈا کردیا۔ قرآن میں اگرچہ ارادہ القاء آیا ہے مگر بخاری میں مرفوعاً حِیْنَ اُلْقِیَ فِیْ النَّار آیا ہے ؟ (بیان المختار ص ١١٥)- جواب : ہوسکتا ہے وہ فتنہ و فساد کی آگ ہو جسے اللہ پاک نے ٹھنڈا کردیا ہو جیسا کہ وہ فرماتا ہے (كُلَّمَآ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّـلْحَرْبِ اَطْفَاَهَا اللّٰهُ ۙوَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا ۭوَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ 64؀) 5 ۔ المآئدہ :64) یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف فتنہ و فساد کی آگ بھڑکانے اور سلگاتے رہتے ہیں۔ جسے ہم ہی بجھاتے اور ٹھنڈا کرتے رہتے ہیں (حوالہ ایضاً )- اس آیت اور اس کے ترجمہ میں اثری صاحب نے مندرجہ ذیل مغالطے دیئے ہیں :- (١) اس آیت میں اوقدوا کا استعمال کیا یہ محاورۃ ہے ورنہ لڑائی کی آگ حقیقتاً ایسی نہیں ہوتی جس میں لکڑی وغیرہ جل جائیں یا وہ دوسری چیزوں کو جلا کر راکھ بنا ڈالے۔- (٢) قرآن کریم نے حدقوۃ کا لفظ استعمال فرمایا ہے یعنی ابراہیم کو آگ میں ڈال کر جلا دو ۔ - (٣) المفا کے معنی بجھانا تو ٹھیک ہے مگر ٹھنڈا کرنا نہیں ہے۔ آپ نے اس کا اضافہ کرکے اشتباہ پیدا کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔- (٤) قرآن کریم کے الفاظ ( بَرْدًا وَّسَلاَمًا) (یعنی ٹھنڈی بھی ہوجا اور سلامتی والی بھی) اس سے بجھنے کا ذکر تک نہیں۔ کہ سرے سے آگ ہی بجھ جائے اور ابراہیم جلنے سے بچ جائیں۔ اور یہی وہ الفاظ ہیں جو ان حضرات کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر ابراہیم آگ میں ڈالے ہی نہیں گئے تھے تو پھر اللہ کا یہ حکم کیا معنی رکھتا ہے ؟- اب اثری صاحب کے جواب کا دوسرا حصہ سنیئے جو حدیث سے متعلق ہے۔ فرماتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سچ مچ انہوں نے آگ میں جلا دینے کا ارادہ کرلیا اور القی فی النار الحدیث سے بھی پیدا شدہ خطرناک حالات سے مصاوقت مراد ہے کہ کام بالکل تیار تھا۔ مگر اللہ پاک نے آپ کو بال بال بچا لیا (حوالہ ایضاً )[ کچھ سمجھے آپ کہ عصا وقت سے کیا مراد ہے ؟ یعنی ابراہیم آگ سے بچے اور ہٹے رہے اور آگ ابراہیم سے بچی اور ہٹی رہی یعنی آگ میں پڑنے کے باوجود دونوں نے ایک دوسرے کو چھوا نہیں اب سوال یہ ہے کہ یہ تو پھر معجزہ کی صورت بن گئی۔ کہ آگ کے الاؤ میں پڑنے کے باوجود نہ آگ نے آپ کو چھوا اور نہ آپ نے آگ کو چھوا اور یہی کچھ ہم کہتے ہیں۔ آپ کی مثال تو آسمان سے گرا اور کھجور میں اٹکا والی بن گئی اور ایک معجزہ کی تاویل کرتے کرتے ایک دوسرے معجزہ میں جا پھنسے۔ البتہ اثری صاحب کے خیال میں یہ ناممکن ہے کہ ابراہیم آگ میں پڑے اور آگ اپنا جلانے کا کام نہ کرے اور یہی بات اللہ کی قدرت سے بھی انکار ہے اور قرآن و حدیث کو تسلیم کرنے سے بھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْنَا يٰنَارُكُـوْنِيْ بَرْدًا۔ : ” بَرْدًا “ ٹھنڈک، ” وَّسَلٰمًا “ سلامتی۔ مبالغہ کے طور پر مصدر بمعنی اسم فاعل ہے۔ یہاں کچھ عبارت محذوف ہے جو خود بخود سمجھ میں آرہی ہے کہ اپنے فیصلے کے مطابق انھوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو جلانے کا زبردست انتظام کیا، چناچہ لکڑیاں جمع کرنے کے لیے باقاعدہ ایک چار دیواری بنائی گئی، جیسا کہ فرمایا : (قَالُوا ابْنُوْا لَهٗ بُنْيَانًا فَاَلْقُوْهُ فِي الْجَــحِيْمِ ) [ الصافات : ٩٧ ] ” انھوں نے کہا، اس کے لیے ایک عمارت بناؤ، پھر اسے بھڑکتی آگ میں پھینک دو ۔ “ پھر جب آگ خوب بھڑک اٹھی اور اس کی تپش چاروں طرف پھیل گئی تو انھوں نے منجنیق کے ذریعے سے یا جیسے بھی ہوسکا، ابراہیم (علیہ السلام) کو اس میں پھینک دیا تو ہم نے حکم دیا کہ اے آگ ابراہیم پر سراسر ٹھنڈک ہوجا، مگر تکلیف دینے والی ٹھنڈک نہیں، بلکہ ایسی کہ سراسر سلامتی ہو۔ اگر اللہ تعالیٰ صرف ” بَرْداً “ (سراسر ٹھنڈک) فرماتے تو شدید ٹھنڈک ابراہیم (علیہ السلام) برداشت نہ کرسکتے، اس لیے آگ کو ٹھنڈک کے ساتھ سلامتی والی بن جانے کا حکم دیا۔ - یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے معجزہ یعنی فطرت کے عام قوانین کے برعکس معاملہ تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو سمندر پر اپنی لاٹھی مارنے کا حکم دیا تو سمندر پھٹ گیا اور پانی کا ہر حصہ ایک بہت بڑے پہاڑ کی طرح اپنی جگہ کھڑا رہا، فرمایا : (فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيْمِ ) [ الشعراء : ٦٣ ] ” پس وہ پھٹ گیا تو ہر ٹکڑا بہت بڑے پہاڑ کی طرح ہوگیا۔ “ جب کہ پانی کی فطرت بہنا ہے، ایسے ہی آگ کی فطرت جلانا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے حکم کے بعد وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے گلزار بن گئی۔ اگر کسی کی سمجھ میں یہ بات نہ آتی ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پڑھ لے : ( اِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ) [ آل عمران : ٤٧ ] ” جب وہ کسی کام کا فیصلہ کرلیتا ہے تو اس سے یہی کہتا ہے کہ ہوجا، تو وہ ہوجاتا ہے۔ “ اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے آگ کو ” کونی “ (ہو جا) سے خطاب فرمایا، پھر آگ کی کیا مجال تھی کہ ٹھنڈی اور سلامتی والی نہ ہوتی۔ (ثنائی) اگر کسی کو پھر بھی اصرار ہے کہ آگ کا کام جلانا ہی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے بھی ٹھنڈی نہیں ہوسکتی تو اسے قرآن مجید پر ایمان کے دعوے کا تکلف نہیں کرنا چاہیے۔ - 3 ام شریک (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چھپکلی کو مار دینے کا حکم دیا اور فرمایا : ( وَکَانَ یَنْفُخُ عَلٰی إِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ ) ” یہ ابراہیم (علیہ السلام) پر پھونکیں مارتی تھی۔ “ [ بخاري، الأنبیاء، باب قولہ تعالیٰ : ( واتخذ اللہ إبراہیم خلیلا۔۔ ) : ٣٣٥٩ ] محدث عبد الرزاق نے اپنی مصنف (٨٣٩٢) میں معمر عن الزہری عن عروہ عن عائشہ (رض) روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کَانَتِ الضِّفْدَعُ تُطْفِئُ النَّارَ عَنْ إِبْرَاھِیْمَ وَکَانَ الْوَزَغُ یَنْفُخُ فِیْہِ فَنَھَی عَنْ قَتْلِ ھٰذا وَ أَمَرَ بِقَتْلِ ھٰذَا ) ” مینڈک ابراہیم (علیہ السلام) سے آگ بجھاتے تھے اور چھپکلی اس میں پھونکیں مارتی تھی، سو انھیں قتل کرنے سے منع فرمایا اور اسے قتل کرنے کا حکم دیا۔ “ مسند احمد کے محقق نے لکھا ہے کہ یہ سند شیخین کی شرط پر صحیح ہے۔ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ عائشہ (رض) نے فرمایا : ( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلْوَزَغِ اَلْفُوَیْسِقُ وَلَمْ أَسْمَعْہٗ أَمَرَ بِقَتْلِہٖ ) ” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چھپکلی کو ” فویسق “ (بہت نافرمان) فرمایا اور میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسے قتل کرنے کا حکم دیتے ہوئے نہیں سنا۔ “ اور سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں : ( أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِہِ ) [ بخاري : ٣٣٠٦ ] ” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ “ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عائشہ (رض) نے چھپکلی کو قتل کرنے کی حدیث کسی صحابی کے واسطے سے سنی ہے، اس صورت میں بھی حدیث صحیح ہے، کیونکہ تمام صحابہ روایت حدیث میں معتبر ہیں۔ - 3 ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا آخری قول، جب انھیں آگ میں پھینکا گیا ” حَسْبِيَ اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ “ تھا، یعنی مجھے اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے۔ [ بخاري، التفسیر، باب : ( الذین قال لھم الناس۔۔ ) : ٤٥٦٤ ]- 3 بغوی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ کعب احبار سے روایت کی گئی ہے کہ جب انھوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو منجنیق میں رکھ کر آگ کی طرف پھینکا تو جبریل (علیہ السلام) آپ کے سامنے آئے اور کہا : ” ابراہیم تمہیں کوئی حاجت ہے ؟ “ فرمایا : ” تمہاری طرف تو نہیں۔ “ انھوں نے کہا : ” پھر اپنے رب سے سوال کرو۔ “ فرمایا : ( حَسْبِيْ مِنْ سُؤَالِيْ عِلْمُہُ بِحَالِيْ ) ” مجھے میرے سوال کرنے سے اس کا میری حالت کو جاننا ہی کافی ہے۔ “ بغوی نے یہ کہہ کر اس کے ضعف کی طرف اشارہ کردیا ہے : ” رُوِیَ عَنْ کَعْبٍ “ کہ کعب سے روایت کی گئی ہے۔ معلوم ہوا کہ اس روایت کا کوئی سر پیر نہیں، اس لیے شیخ البانی (رض) نے فرمایا : ” لَا أَصْلَ لَہُ “ [ سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ : ٢١ ] اور ابن عراق نے ” تنزیۃ الشریعۃ المرفوعۃ عن الأخبار الشنیعۃ الموضوعۃ “ میں یہ روایت ذکر کرکے فرمایا : ” ابن تیمیہ (رض) نے فرمایا، یہ روایت موضوع ہے۔ “ علاوہ ازیں یہ روایت ان آیات و احادیث کے بھی خلاف ہے جن میں دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، فرمایا : (وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ ) [ المؤمن : ٦٠ ] ” اور تمہارے رب نے فرمایا، مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ بیشک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ “ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ لَمْ یَدْعُ اللّٰہَ یَغْضَبْ عَلَیْہِ ) [ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ٦؍١٥٣، ح : ٢٦٥٤۔ ترمذی : ٣٣٧٣۔ ابن ماجہ : ٣٨٢٧ ] ” جو اللہ تعالیٰ سے دعا نہ کرے اللہ تعالیٰ اس پر غصے ہوجاتا ہے۔ “ - کعب احبار والی باطل روایت صحیح بخاری کی اس حدیث کے بھی خلاف ہے جو اوپر گزری کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے آگ میں پھینکے جانے کے وقت آخری الفاظ ” حَسْبِيَ اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ “ کہے تھے۔ قرآن میں ابراہیم (علیہ السلام) کی بہت سی دعائیں مذکور ہیں، اگر دعا کے بجائے اللہ تعالیٰ کا علم ہی کافی ہو تو اللہ تعالیٰ کو تو ہر شخص کی ہر حالت کا علم ہے، پھر اس سے دعا اور سوال کا معاملہ تو سرے سے ختم ہے، حالانکہ دعا اس لیے نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ کو ہماری حالت کا علم نہیں بلکہ دعا خود ایک عبادت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلدُّعَاءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ ) [ ترمذی، التفسیر، باب ومن سورة البقرۃ : ٢٩٦٩ ] ” دعا ہی عبادت ہے۔ “ اسی حدیث میں ہے کہ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی : (وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ ) [ المؤمن : ٦٠ ] ” اور تمہارے رب نے فرمایا مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ بیشک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ “ بعض صوفیاء نے جو اس باطل روایت کو دلیل بنا کر کہا ہے کہ تمہارا اس سے سوال کرنا تمہاری طرف سے اس پر تہمت لگانا ہے، یہ ان کی بہت بڑی گمراہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کو اللہ تعالیٰ پر تہمت لگانا قرار دے رہے ہیں۔ (خلاصہ سلسلہ صحیحہ) شیخ محمد امین شنقیطی (رض) ” اضواء البیان “ میں فرماتے ہیں : ” ابوالعالیہ سے روایت ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ” سلٰماً “ نہ فرماتے تو اس کی سردی ان کے لیے اس کی گرمی سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی اور اگر ” عَلیٰ ابْراھیم “ نہ فرماتے تو اس کی ٹھنڈک ہمیشہ تک باقی رہتی۔ اور سدی سے ہے کہ اس دن جو آگ بھی تھی بجھ گئی۔ اور کعب اور قتادہ سے ہے کہ آگ نے صرف ابراہیم (علیہ السلام) کو باندھنے والی رسیاں جلائیں۔ اور نہال بن عمرو سے ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا : ” میں ان ایام جیسا خوش حال کبھی نہیں رہا جن دنوں میں آگ میں تھا۔ “ اور شعیب حمانی سے ہے کہ انھیں آگ میں ڈالا گیا تو ان کی عمر سولہ (١٦) سال تھی۔ اور ابن جریج سے ہے کہ اس وقت وہ چھبیس (٢٦) برس کے تھے۔ اور کلبی سے ہے کہ جتنی آگیں تھیں سب ٹھنڈی ہوگئیں، چناچہ کسی آگ نے ایک کھری تک نہیں پکائی۔ اور بعض نے قصے میں ذکر کیا ہے کہ نمرود نے اپنے محل میں سے جھانکا تو دیکھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) تخت پر ہیں اور سایوں کا فرشتہ ان کا دل لگا رہا ہے، تو اس نے کہا، تیرا رب بہت اچھا رب ہے، میں اس کے لیے چار ہزار گائیں قربانی کروں گا اور پھر اس نے ابراہیم (علیہ السلام) کو کچھ نہیں کہا۔ “- شیخ شنقیطی (رض) یہ سب کچھ لکھنے کے بعد فرماتے ہیں : ” یہ سب اسرائیلیات ہیں اور مفسرین اس قصے میں اور دوسرے بہت سے قصوں میں ایسی بہت سی باتیں بیان کردیتے ہیں۔ “ یہاں تھوڑا سا غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ سب تابعین اور راوی اس وقت تو موجود ہی نہ تھے جب ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینکا گیا، نہ ان پر وحی اتری اور نہ وہ درمیان کی کوئی سند بیان کرتے ہیں، پھر انھیں ان باتوں کا پتا کیسے چلا ؟ ظاہر ہے یہ وہی سنی سنائی باتیں ہیں جنھیں تفسیر قرآن میں کسی طرح بھی قبول نہیں کیا جاسکتا۔ مزید دیکھیے اس تفسیر کا مقدمہ۔ - 3 یہ واقعہ حق کی طرف دعوت اور اس پر استقامت کا عجیب و غریب واقعہ ہے۔ اس میں ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور پوری امت مسلمہ کے لیے حق کی خاطر جان کی بازی لگا دینے کا سبق ہے اور یہ بھی کہ جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو تمام اسباب ختم ہونے کے باوجود اپنے بندے کا بال بھی بیکا نہیں ہونے دیتا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

قُلْنَا يٰنَارُكُـوْنِيْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ ، اوپر گزر چکا ہے کہ آگ کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر برد وسلام ہونے کی یہ صورت بھی ممکن ہے کہ آگ آگ ہی نہ رہی ہو بلکہ ہوا میں تبدیل ہوگئی ہو مگر ظاہر یہ ہے کہ آگ اپنی حقیقت میں آگ ہی رہی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے آس پاس کے علاوہ دوسری چیزوں کو جلاتی رہی بلکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جن رسیوں میں باندھ کر آگ میں ڈالا گیا تھا ان رسیوں کو بھی آگ ہی نے جلا کر ختم کیا مگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بدن مبارک تک کوئی آنچ نہیں آئی (کما فی بعض الروایات)- تاریخی روایات میں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس آگ میں سات روز رہے اور وہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے عمر میں کبھی ایسی راحت نہیں ملی جتنی ان سات دنوں میں حاصل تھی (مظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْنَا يٰنَارُ كُـوْنِيْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓي اِبْرٰہِيْمَ۝ ٦٩ۙ- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - برد - أصل البرد خلاف الحر، فتارة يعتبر ذاته فيقال : بَرَدَ كذا، أي : اکتسب بردا، وبرد الماء کذا، أي : أكسبه بردا، نحو :- 48-- ستبرد أکبادا وتبکي بواکيا - «4» ويقال : بَرَّدَهُ أيضا، وقیل : قد جاء أَبْرَدَ ، ولیس بصحیح «5» ، ومنه البَرَّادَة لما يبرّد الماء، ويقال : بَرَدَ كذا، إذا ثبت «6» ثبوت البرد، واختصاص للثبوت بالبرد کا ختصاص الحرارة بالحرّ ، فيقال : بَرَدَ كذا، أي : ثبت، كما يقال :- بَرَدَ عليه دين . قال الشاعر :- 49-- الیوم يوم بارد سمومه - «7» وقال الآخر : 50-- .... قد برد المو ... ت علی مصطلاه أيّ برود - «1» أي : ثبت، يقال : لم يَبْرُدْ بيدي شيء، أي :- لم يثبت، وبَرَدَ الإنسان : مات .- وبَرَدَه : قتله، ومنه : السیوف البَوَارِد، وذلک لما يعرض للمیت من عدم الحرارة بفقدان الروح، أو لما يعرض له من السکون، وقولهم للنوم، بَرْد، إمّا لما يعرض عليه من البرد في ظاهر جلده، أو لما يعرض له من السکون، وقد علم أنّ النوم من جنس الموت لقوله عزّ وجلّ : اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنامِها [ الزمر 42] ، وقال : لا يَذُوقُونَ فِيها بَرْداً وَلا شَراباً [ النبأ 24] أي : نوما . بارد، أي : طيّب، اعتبارا بما يجد الإنسان في اللذة في الحرّ من البرد، أو بما يجد من السکون .- والأبردان : الغداة والعشي، لکونهما أبرد الأوقات في النهار، والبَرَدُ : ما يبرد من المطر في الهواء فيصلب، وبرد السحاب : اختصّ بالبرد، وسحاب أَبْرَد وبَرِد : ذو برد، قال اللہ تعالی:- وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّماءِ مِنْ جِبالٍ فِيها مِنْ بَرَدٍ [ النور 43] . والبرديّ : نبت ينسب إلى البرد لکونه نابتا به، وقیل : «أصل کلّ داء البَرَدَة» «2» أي : التخمة، وسمیت بذلک لکونها عارضة من البرودة الطبیعية التي تعجز عن الهضم .- والبَرُود يقال لما يبرد به، ولما يبرد، فيكون تارة فعولا في معنی فاعل، وتارة في معنی مفعول، نحو : ماء برود، وثغر برود، کقولهم للکحل : برود . وبَرَدْتُ الحدید : سحلته، من قولهم : بَرَدْتُهُ ، أي : قتلته، والبُرَادَة ما يسقط، والمِبْرَدُ : الآلة التي يبرد بها .- والبُرُد في الطرق جمع البَرِيد، وهم الذین يلزم کل واحد منهم موضعا منه معلوما، ثم اعتبر فعله في تصرّفه في المکان المخصوص به، فقیل - لكلّ سریع : هو يبرد، وقیل لجناحي الطائر :- بَرِيدَاه، اعتبارا بأنّ ذلک منه يجري مجری البرید من الناس في كونه متصرفا في طریقه، وذلک فرع علی فرع حسب ما يبيّن في أصول الاشتقاق .- ( ب ر د ) البرد ( ٹھنڈا ) اصل میں یہ حر کی ضد ہے ۔ محاورہ میں کبھی اس کی ذات کا اعتبار کرکے کہا جاتا ہے : برد ( ن ک ) کذا اس نے ٹھند حاصل کی برد ( ن) الماء کذا پانی نے اسے ٹھنڈا کردیا ۔ جیسے ع ( الطویل ) ( 47 ) ستبرد اکباد وتبلی بو کیا تو بہت سے کلیجوں کو ٹھنڈا کیا اور بہت سی رونے والیوں کو رلا ڈالے گی اور برد تفعیل ) بھی اس معنی میں استعمال ہوتا ہے بعض کے نزدیک ابردر ( افعال ) بھی اس معنی میں آجاتا ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے اسی سے البرادۃ ہے جس کے معنی پانی ٹھنڈا کرنے والی چیز کے ہیں اور محاورہ میں برد کذا کے معنی کسی چیز کے البرد ا ولے کی طرح جامد اور ثابت ہونا بھی آتے ہیں جس طرح حر کو حرکت لازم ہی اسی طرح برد کے ساتھ کسی چیز کا ثبات مختص ہوتا ہے چناچہ محاورہ ہے ۔ برد علیہ دین ۔ اس پر قرض ٹھہر گیا ۔ شاعر نے کہا ہے ( رجز ) ( 48 ) الیوم باردسمومہ ۔ آج باد سموم جامد ہے ۔ اور دوسرے شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) ( 49 ) ۔۔۔۔۔۔ قدبرد الموت ۔۔ ت علی مصطلاہ ۔۔۔۔ کہ اس کے ہاتھ اور چہرہ پر موت طاری ہوگئی ۔ لم یبرد بیدی شیئ میرے ہاتھ میں کوئی چیز قرار نہیں پکڑتی ۔ برد الانسان مرجانا فوت ہوجانا ۔ بردہ اسے قتل کر ڈالا اسی سے سیوف کو بوارد کہا جاتا ہے کیونکہ ہیت بھی فقدان روح سے سرد پڑجاتی ہے اور اسے سکون کا حق ہوتا ہے ۔ یا ظاہری طور پر جلد میں خنکی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور یہ معلوم ہے کہ نیند بھی ایک طرح کی موت ہے ۔ جیسا کہ قران میں ہے : اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنامِها [ الزمر 42] خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں ان کی دو روحیں ) سوتے میں ( قبض کرلیتا ہے ؟ اور آیت کریمہ : لا يَذُوقُونَ فِيها بَرْداً وَلا شَراباً [ النبأ 24] میں بھی برد بمعنی نیند ہے یعنی ہاں کسی قسم کی راحت اور زندگی کی خوشگواری نصیب ہیں ہوگی اور اس اعتبار سے کہ گرمی میں سردی سے احت اور سکون حاصل ہوتا ہے خوشگوار زندگی لے لئے عیش بارد کا محاورہ استعمال ہوتا ہے الابردان صبح وشام کیونکہ یہ دونوں وقت ٹھنڈ ہی ہوتے ہیں ۔ البرد کے معنی اولے کے ہیں اور برد السحاب کے معنی ہیں بادل نے ژالہ باری کی سحاب ابرد وبرد ۔ اور اولے برسانے والے بادل قرآن میں ؟ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّماءِ مِنْ جِبالٍ فِيها مِنْ بَرَدٍ [ النور 43] اور آسمان کے پہاڑوں سے اولے نازل کرتا ہے ۔ لبرد دی نرکل کی قسم کا ایک پونا ۔ یہ برد کی طرف منسوب ہے کیونکہ یہ بھی پانی میں پیدا ہوتا ہے غل مشہور ہے اصل کل داء البردۃ کہ بدہضمی الا مراض ہے بدہضمی کو بردۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس برودت طبعی کی وجہ سے عارض ہوتی ہے س سے قوت ہضم ناقابل ہوجاتی ہے ۔ البردود ٹھنڈا پہنچانے والی چیز کو کہتے ہیں اور کبھی ٹھنڈی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں کیونکہ فعول کبھی بمعنی فاعل ہوتا ہے اور کبھی بمعنی مفعول آتا ہے ۔ جیسے ماء برود ( ٹھنڈا پانی ) ثغر یرود ( خنک دانت ) جیسا کہ آنکھ کو ٹھنڈک پہنچانے والے سرمہ کو برود کہا جاتا ہے بردت الحدید میں نے لو ہے ریتی سے رگڑ یہ بردتہ بمعنی قتلتہ سے مشتق ہے اور لوہ چون کو برادۃ کہا جاتا ہے ۔ المبرۃ ( آلہ ) ریتی جس سے لوہے کو ریتتے بیں ۔ ۔ ا البرد یہ البرید کی جمع ہے اور محکمہ مواصلات کی صطلاح میں برد ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو کسی جگہ پر پیغام رسانی کے لئے متعین رہتے ہیں ۔ وہ ہر کارے چونکہ سرعت سے پیغام رسانی کا کام کرتے تھے اس لئے ہر تیز رو کے کے لئے ھو یبرد کا محاورہ استعمال ہونے لگا ہے ۔ اور پرند گے ہر وں کو برید ان کہا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی اسے برید کا کام دیتے ہیں تو یہ بناء الفرح علی الفرع کے قبیل سے ہے جیسا کہ علم الا شتقا ا میں بیان کیا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٩) ہم نے آگ کو حکم دیا کہ گرمی سے ٹھنڈی اور ٹھنڈک سے بےضرر ہوجا، ابراہیم (علیہ السلام) کے حق میں اور اگر اللہ تعالیٰ زیادہ ٹھنڈک سے بےضرر ہونے کا حکم نہ فرماتا تو ٹھنڈک کی شدت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو تکلیف پہنچاتی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٩ (قُلْنَا یٰنَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَآٰی اِبْرٰہِیْمَ ) ” - یہاں یہ نکتہ ذہنوں میں تازہ کرنے کی ضرورت ہے کہ فطرت کے قوانین اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں اور اللہ جب چاہے انہیں تبدیل کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور مشیت ان قوانین سے بالاتر ہے ‘ ان کی پابند نہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ قوانین بہت محکم ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں روز روز تبدیل نہیں کرتا۔ اگر یہ محکم اور مستقل نہ ہوتے تو نہ سائنس کا کوئی تصور ہوتا ‘ نہ کوئی ٹیکنالوجی وجود میں آسکتی۔ تمام سائنسی ایجادات اور ٹیکنالوجیز طبیعی اور کیمیائی تبدیلیوں ( ) کے قوانین کے محکم اور مستقل ہونے کے باعث ہی وجود میں آئی ہیں۔ البتہ یہ سمجھنا کہ اللہ خود بھی ان قوانین کو نہیں توڑ سکتا ایک کھلی حماقت ہے ‘ اور پچھلی صدی میں ہمارا پڑھا لکھا طبقہ اسی حماقت کا شکار ہوا۔ سر سید احمد خان نے اسی سوچ کے تحت ہر معجزے کی کوئی نہ کوئی سائنٹفک توجیہہ کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ معجزے کے بجائے فطری عمل کا حصہ ( ) نظر آئے۔ مثلاً انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے سمندر کے پھٹنے کا انکار کرتے ہوئے اس کی تعبیر اس طرح کی کہ یہ سب کچھ مدو جزر کے عمل کے سبب ہوا تھا۔ ’ جزر ‘ کے سبب جب سمندر کا پانی پیچھے ہٹا ہوا تھا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے ساتھیوں کو لے کر نکل گئے ‘ مگر جب فرعون اپنے لشکر کے ساتھ گزررہا تھا تو اس وقت سمندر ’ مد ‘ پر آگیا جس کی وجہ سے وہ سب غرق ہوگئے۔ اس سوچ کے پس منظر میں بہر حال یہ غلط عقیدہ کارفرما ہے کہ قوانین فطرت اٹل ہیں اور وہ تبدیل نہیں ہوتے۔ اس کے مقابلے میں درست عقیدہ یہ ہے کہ قوانین فطرت محکم ‘ مستقل اور مضبوط ہیں مگر اٹل نہیں ہیں۔ اللہ جب چاہے کسی قانون کو ختم کر دے یا تبدیل کر دے ۔۔ اور اسی کا نام معجزہ ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :62 الفاظ صاف بتا رہے ہیں ، اور سیاق و سباق بھی اس مفہوم کی تائید کر رہا ہے کہ انہوں نے واقعی اپنے اس فیصلے پر عمل کیا ، اور جب آگ کا الاؤ تیار کر کے انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس میں پھینکا تب اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ وہ ابراہیم کے لیے ٹھنڈی ہو جائے اور بے ضرر بن کر رہ جائے ۔ پس صریح طور پر یہ بھی ان معجزات میں سے ایک ہے جو قرآن میں بیان کیے گئے ہیں ۔ اگر کوئی شخص ان معجزات کی اس لیے تاویلیں کرتا ہے کہ اس کے نزدیک خدا کے لیے بھی نظام عالم کے معمول ( ) سے ہٹ کر کوئی غیر معمولی کام کرنا ممکن نہیں ہے ، تو آخر وہ خدا کو ماننے ہی کی زحمت کیوں اٹھاتا ہے ۔ اور اگر وہ اس طرح کی تاویلیں اس لیے کرتا ہے کہ جدید زمانے کے نام نہاد عقلیت پرست ایسی باتوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ، تو ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ بندہ خدا ، تیرے اوپر یہ فرض کس نے عائد کیا تھا کہ تو کسی نہ کسی طرح انہیں منوا کر ہی چھوڑے ؟ جو شخص قرآن کو ، جیسا کہ وہ ہے ، ماننے کے لیے تیار نہیں ہے ، اسے اس کے حال پر چھوڑو ۔ اسے منوانے کی خاطر قرآن کو اس کے خیالات کے مطابق ڈھالنے کی کو شش کرنا ، جبکہ قرآن کے الفاظ قدم قدم پر اس ڈھلائی کی مزاحمت کر رہے ہوں ، آخر کس قسم کی تبلیغ ہے اور کون معقول آدمی اسے جائز سمجھ سکتا ہے ۔ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ عنکبوت ، حاشیہ 39 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

28: اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا یہ معجزہ دکھایا کہ آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے ٹھنڈک اور سلامتی کا سبب بن گئی۔ جو لوگ معجزات کو ماننے سے انکار کرتے ہیں، ان کا موقف در حقیقت اﷲ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر شک کرنے کے مرادف ہے۔ حالانکہ اگر اﷲ تعالیٰ پر ایمان ہے تو یہ ماننا پڑے گا کہ آگ میں جلانے کی خاصیت اسی نے پیدا فرمائی ہے، اگر وہ اپنے ایک جلیل القدر پیغمبر کو دُشمنوں کے ظلم سے بچانے کے لئے اس کی یہ خاصیت ختم کردے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟