Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

آگ گلستان بن گئی یہ قاعدہ ہے کہ جب انسان دلیل سے لاجواب ہوجاتا ہے تو یا نیکی اسے گھسیٹ لیتی ہے یا بدی غالب آجاتی ہے ۔ یہاں ان لوگوں کی بدبختی نے گھیرلیا اور دلیل سے عاجز آکر قائل معقول ہو کر لگے اپنے دباؤ کا مظاہرہ کرنے آپس میں مشورہ کیا کہ ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال کر اس کی جان لے لو تاکہ ہمارے ان معبودوں کی عزت رہے ۔ اس بات پر سب نے اتفاق کرلیا اور لکڑیاں جمع کرنی شروع کردیں یہاں تک کہ بیمار عورتیں بھی نذر مانتی تھیں تو یہی کہ اگر انہیں شفا ہوجائے تو ابراہیم علیہ السلام کے جلانے کو لکڑیاں لائیں گی ۔ زمین میں ایک بہت بڑا اور بہت گہرا گڑھا کھودا لکڑیوں سے پر کیا اور انبار کھڑا کرکے اس میں آگ لگائی روئے زمین پر کبھی اتنی بڑی آگ دیکھی نہیں گئی ۔ جب أگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے اس کے پاس جانا محال ہوگیا اب گھبرائے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کو آگ میں ڈالیں کیسے؟ آخر ایک کردی فارسی اعرابی کے مشورے سے جس کا نام ہیزن تھا ایک منجنیق تیار کرائی گئی کہ اس میں بیٹھا کر جھولا کر پھنک دو ۔ مروی ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے اسی وقت زمین میں دھنسا دیا اور قیامت تک وہ اندر اترتا جاتا ہے ۔ جب آپکوآگ میں ڈالا گیا آپ نے فرمایا حسبی اللہ ونعم الوکیل ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے پاس بھی جب یہ خبر پہنچی کہ تمام عرب لشکر جرار لے کر آپ کے مقابلے کے لئے آرہے ہیں تو آپ نے بھی یہی پڑھا تھا ۔ یہ بھی مروی ہے کہ جب آپ کو آگ میں ڈالنے لگے تو آپ نے فرمایا الٰہی تو آسمانوں میں اکیلا معبود ہے اور توحید کے ساتھ تیرا عابد زمین پر صرف میں ہی ہوں ۔ مروی ہے کہ جب کافر آپ کو باندھنے لگے تو آپ نے فرمایا الٰہی تیرے سوا کوئی لائق عبادت نہیں تیری ذات پاک ہے تمام حمدوثنا تیرے ہی لئے سزاوار ہے ۔ سارے ملک کا تو اکیلاہی مالک ہے کوئی بھی تیرا شریک وساجھی نہیں ۔ حضرت شعیب جبائی فرماتے ہیں کہ اس وقت آپ کی عمر صرف سولہ سال کی تھی ۔ واللہ اعلم ۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے سامنے آسمان وزمین کے درمیان ظاہر ہوئے اور فرمایا کیا آپ کو کوئی حاجت ہے؟ آپ نے جواب دیا تم سے تو کوئی حاجت نہیں البتہ اللہ تعالیٰ سے حاجت ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بارش کا داروغہ فرشتہ کان لگائے ہوئے تیار تھا کہ کب اللہ کا حکم ہو اور میں اس آگ پر بارش برسا کر اسے ٹھنڈی کردوں لیکن براہ راست حکم الٰہی آگ کو ہی پہنچا کہ میرے خلیل پر سلامتی اور ٹھنڈک بن جا ۔ فرماتے ہیں کہ اس حکم کے ساتھ ہی روئے زمین کی آگ ٹھنڈی ہوگئی ۔ حضرت کعب احبار رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس دن دنیا بھر میں آگ سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکا ۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جوتیاں تو آگ نے جلا دیں لیکن آپ کے ایک رونگٹے کو بھی آگ نہ لگی ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اگر آگ کو صرف ٹھنڈا ہونے کا ہی حکم ہوتا تو پھر ٹھنڈک بھی آپ کو ضرر پہنچاتی اس لئے ساتھ ہی فرمادیا گیا کہ ٹھنڈک کے ساتھ ہی سلامتی بن جا ۔ ضحاک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بہت بڑا گڑھا بہت ہی گہرا کھودا تھا اور اسے آگ سے پر کیا تھا ہر طرف آگ کے شعلے نکل رہے تھے اس میں خلیل اللہ کو ڈال دیا لیکن آگ نے آپ کو چھوا تک نہیں یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے اسے بالکل ٹھنڈا کردیا ۔ مذکور ہے کہ اس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے ساتھ تھے آپ کے منہ پر سے پسینہ پونچھ رہے تھے بس اس کے سوا آپ کو آگ نے کوئی تکلیف نہیں دی ۔ سدی فرماتے ہیں سایہ یافرشتہ اس وقت آپ کے ساتھ تھا ۔ مروی ہے کہ آپ اس میں چالیس یا پچاس دن رہے فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اس زمانے میں جو راحت وسرور حاصل تھا ویسا اس سے نکلنے کے بعد حاصل نہیں ہوا کیا اچھا ہوتا کہ میری ساری زندگی اسی میں گزرتی ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد نے سب سے اچھا کلمہ جو کہا ہے وہ یہ ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام آگ سے زندہ صحیح سالم نکلے اس وقت آپ کو پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے دیکھ کر آپ کے والد نے کہا ابراہیم تیرا رب بہت ہی بزرگ اور بڑا ہے ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس دن جو جانور نکلا وہ آپ کی آگ کو بجھانے کی کوشیش کرتا رہا سوائے گرگٹ کے ۔ حضرت زہری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گرگٹ کے مار ڈالنے کا حکم فرمایا ہے اور فاسق کہا ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں ایک نیزہ دیکھ کر ایک عورت نے سوال کیا کہ یہ کیوں رکھ چھوڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا گرگٹوں کو مار ڈالنے کے لئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے اس وقت تمام جانور اس آگ کو بجھا رہے تھے سوائے گرگٹ کے ۔ یہ پھونک رہا تھا پس آپ نے اس کے مار ڈالنے کا حکم فرمایا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ان کا مکر ہم نے ان پر الٹ دیا ۔ کافروں نے اللہ کے نبی علیہ السلام کو نیچا کرنا چاہا اللہ نے انہیں نیچا دکھایا ۔ حضرت عطیہ عوفی کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں جلائے جانے کا تماشا دیکھنے کے لئے ان کافروں کا بادشاہ بھی آیا تھا ۔ ادھر خلیل اللہ کو آگ میں ڈالا جاتا ہے ادھر آگ میں سے ایک چنگاری اڑتی ہے اور اس کافربادشاہ کے انگوٹھے پر آپڑتی ہے اور وہیں کھڑے کھڑے سب کے سامنے اس طرح اسے جلا دیتی ہے جسے روئی جل جائے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

68۔ 1 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب یوں اپنی حجت تمام کردی اور ان کی ضلالت و حماقت کو ایسے طریقے سے ان پر واضح کردیا کہ وہ لاجواب ہوگئے۔ تو چونکہ وہ توفیق ہدایت سے محروم تھے اور کفر و شرک نے ان کے دلوں کو بےنور کردیا تھا۔ اس لئے بجائے اس کے کہ وہ شرک سے بعض آجاتے، الٹا ابراہیم (علیہ السلام) کے خلاف سخت اقدام کرنے پر آمادہ ہوگئے اور اپنے معبودوں کی دہائی دیتے ہوئے انھیں آگ میں جھونک دینے کی تیاری شروع کردی، چناچہ آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ تیار کیا گیا اور اس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کہا جاتا ہے کہ منجنیق (جس سے بڑے پتھر پھینکے جاتے ہیں) کے ذریعے سے پھینکا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے ٹھنڈی اور سلامتی بن جا علماء کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ ، ٹھنڈی کے ساتھ سلامتی نہ فرماتا تو اس کی ٹھنڈک ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے ناقابل برداشت ہوتی۔ بہرحال یہ ایک بہت بڑا معجزہ ہے جو آسمان سے باتیں کرتی ہوئی دہکتی آگ کے گل و گلزار بن جانے کی صورت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے اللہ کی مشیت سے ظاہر ہوا۔ اس طرح اللہ نے اپنے بندے کو دشمنوں کی سازش سے بچا لیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٧] عقلی میدان میں جب قوم حضرت ابراہیم کے سامنے نادم اور لاجواب ہوگئی تو اب ڈنڈے کے استعمال کی باتیں ہونے لگیں۔ اور جہلاء کا ہمیشہ سے یہی دستور رہا ہے کہ جب دلیل و حجت کے میدان میں پٹ جائیں تو ضد بازی پر اتر آتے ہیں اور انہی اکثریت کے بل بوتے پر قوت کے استعمال پر اتر آتے ہیں۔ اب صورت حال یہ تھی کہ حضرت ابراہیم کا باپ آزر خود بت تراش، بت فروش اور عراق کے بادشاہ نمرود کا درباری مہنت تھا۔ اب اگر وہ حضرت ابراہیم کی بات مانتا تو اس کا روزگار۔ اس کی آمدنی کے ذرائع اور دربار میں اس کا مرتبہ و مقام سب کچھ ختم ہوتا تھا۔ لہذا قوم کے لوگوں سے بڑھ کر آزر ہی حضرت ابراہیم اور آپ کے دین کا دشمن بن گیا تھا۔ اب ان لوگوں نے متفقہ طور پر یہ طے کیا کہ جیسے بھی ہوسکے اپنے مشکل کشاؤں کی عزت اور بھرم کو بچاؤ اور اس کا بہتر حل ہے کہ ابراہیم کو بھڑکتی آگ میں جلا کر اسے صفحہ ہستی سے ختم کردو۔ چناچہ اس غرض کے لئے سرکاری سطح پر ایک بہت بڑا الاؤ تیار کیا گیا اور ایک فلاخن کے ذریعہ حضرت ابراہیم کو اس کے اندر پھینک دیا گیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا حَرِّقُـوْهُ وَانْصُرُوْٓا اٰلِهَتَكُمْ : یہ قاعدہ ہے کہ جب انسان دلیل سے لاجواب ہوجاتا ہے تو یا تو نیکی اسے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے یا بدی غالب آجاتی ہے۔ بدی کے غلبے کی صورت میں جب اس کے پاس کوئی دلیل نہیں رہتی اور وہ مکمل طور پر لاجواب ہوجاتا ہے تو اپنے مخالف کو دھمکیاں دیتا ہے۔ دیکھیے نوح (علیہ السلام) کی قوم (شعراء : ١١٦) ، ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے والد کی دھمکی (مریم : ٤٦) ، لوط (علیہ السلام) کی قوم (شعراء : ١٦٧) ، شعیب (علیہ السلام) کی قوم (اعراف : ٨٨) ، فرعون کی موسیٰ (علیہ السلام) کو دھمکی (شعراء : ٢٩) اور جادوگروں کو دھمکی (شعراء : ٤٩) ۔ پھر اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اپنے لاجواب کردینے والے حریف کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم بھی جب دلیل میں ہر طرح لاجواب ہوگئی تو ابراہیم (علیہ السلام) کی جان کے درپے ہوگئی۔ مشورہ ہوا کہ اسے قتل کر دو یا جلا دو ۔ دیکھیے سورة عنکبوت (٢٤) آخر فیصلہ یہ ٹھہرا کہ اپنے معبودوں کا انتقام لینے کی اور ان کی نصرت کی یہی صورت ہے کہ اسے جلا کر راکھ بنادو ۔- اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ : یہ الفاظ ان کے ضمیر کی کشمکش کا اظہار کر رہے ہیں کہ اول تو ابراہیم کو نقصان پہنچانے والے تمہارے کسی اقدام کا کوئی جواز نہیں۔ دلیل کا جواب دلیل ہے، مار ڈالنا نہیں، لیکن اگر تمہارے پاس اس کا کوئی علاج نہیں اور تم نے ضرور ہی اس کے خلاف کچھ کرنا ہے تو پھر معمولی سزا مت سوچو۔ اپنے معبودوں کی مدد کرتے ہوئے اس کا قصہ نہایت عبرت ناک سزا کے ساتھ ختم کرو، تاکہ آئندہ کوئی اس بحث کی جرأت ہی نہ کرے۔ (بقاعی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا حَرِّقُـوْہُ وَانْصُرُوْٓا اٰلِہَتَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ۝ ٦٨- حرق - يقال : أَحْرَقَ كذا فاحترق، والحریق : النّار، وقال تعالی: وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج 22] ، وقال تعالی: فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة 266] ، وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء 68] ، لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه 97] ، و ( لنحرقنّه) «3» ، قرئا معا، فَحَرْقُ الشیء :- إيقاع حرارة في الشیء من غير لهيب، کحرق الثوب بالدّق «4» ، وحَرَقَ الشیء : إذا برده بالمبرد، وعنه استعیر : حرق الناب، وقولهم : يحرق عليّ الأرّم «5» ، وحرق الشعر : إذا انتشر، وماء حُرَاق : يحرق بملوحته، والإحراق : إيقاع نار ذات لهيب في الشیء، ومنه استعیر : أحرقني بلومه : إذا بالغ في أذيّته بلوم .- ( ح ر ق )- احرق کذا ۔ کسی چیز کو جلانا ) احترق ( جلنا ) الحریق ( آگ) قرآن میں ہے :۔ وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج 22] کہ عذاب ( آتش ) سوزاں کے مزے چکھتے رہو ۔ فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة 266] تو ( ناگہاں ) اس باغ پر آگ کا بھرا ہوا بگولا چلے اور وہ جل ( کر راکھ کا ڈھیرہو ) جائے ۔ وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء 68] ( تب ) وہ کہنے لگے ۔۔۔۔ تو اس کو جلادو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو ۔ لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه 97] ہم اسے جلا دیں گے ۔ ایک قرآت میں لنحرقنہ ہے ۔ پس حرق الشئ کے معنی کسی چیز میں بغیر اشتعال کے جلن پیدا کرنے کے ہیں جیسے دھوبی کے پٹخنے سے کپڑے کا پھٹ جانا ۔ حرق ( ن ) الشئی ریتی سے رگڑنا اسی سے حرق الناب کا محاورہ ہے جس کے معنی دانت پیسنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ یحرق علی الارم یعنی وہ مجھ پر دانت پیستا ہے ۔ حرق الشعر ۔ بالوں کا منتشر ہونا ۔ ماء حراق بہت کھاری پانی جو کھا ری پن سے جلا ڈالے ۔ الاحراق کسی چیز کو جلانا اسی سے استعارۃ جب کہ بہت زیادہ ملامت کرکے اذیت پہنچائے تو کہا جاتا ہے ۔ احرقبی بلومہ یعنی اس نے مجھے ملامت سے جلا ڈالا ۔- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٨) ان کا سردار نمرود یہ سن کر کہنے لگا کہ نعوذ باللہ ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں جلا دو اور ان سے اپنے معبودوں کا بدلہ لینے لیے اگر تمہیں کچھ کرنا ہو تو بس ان کو آگ میں ڈال دو ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٨ (قَالُوْا حَرِّقُوْہُ وَانْصُرُوْٓا اٰلِہَتَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ ) ” - چنانچہ انہوں نے آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ تیار کیا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس میں ڈال دیا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani