[٦١] حضرت ابراہیم نے بڑھاپے کی عمر اولاد کے لئے دعا کی تو اللہ نے حضرت اسحاق عطا فرمایا پھر حضرت ابراہیم نے بیٹے حضرت اسحاق کے ہاں حضرت یعقوب پیدا ہوئے اور تینوں ہی تھے اور یہ تو واضح ہے کہ نبی اپنے دور کا صالح ترین فرد ہوتا ہے اور ان سب انبیاء کی شریعتوں میں نماز اور زکوٰۃ ایسے ہی فرض تھی جیسے شریعت محمدیہ میں فرض کی گئی ہے البتہ جزئیات کا اختلاف ہوتا ہی رہا ہے۔
وَجَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً يَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا : یعنی وہ صرف خود ہی ہر لحاظ سے درست اور ہمارے مکمل فرماں بردار نہ تھے، بلکہ وہ اپنی قوم کے پیشوا بھی تھے جو ہماری وحی کے مطابق دوسروں کو بھی حق کی طرف دعوت دیتے تھے۔ معلوم ہوا اصل ہدایت وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہو اور جو ائمہ اللہ کے حکم کے بغیر حکم دیں تو وہ ہدایت کے امام نہیں، گمراہی کے امام ہیں۔ - وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرٰتِ ۔۔ : یعنی صالحیت اور امامت کے علاوہ ہم نے انھیں اپنی وحی سے بھی سرفراز فرمایا۔ ” فِعْلَ الْخَيْرٰتِ “ میں اگرچہ تمام نیک اعمال آجاتے ہیں مگر اسلام لانے کے بعد اللہ کے حقوق میں سے سب سے اہم عمل نماز اور بندوں کے حقوق میں سے سب سے اہم حق زکوٰۃ کا ذکر خاص طور پر فرمایا، کیونکہ اگر یہ نہیں تو اسلام بھی معتبر نہیں۔ دیکھیے سورة توبہ (٥) ۔- وَكَانُوْا لَنَا عٰبِدِيْنَ : ” لَنَا “ پہلے آنے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا، یعنی وہ صرف ہماری عبادت کرنے والے تھے، کسی اور کو ہمارے ساتھ شریک کرنے والے نہ تھے۔
وَجَعَلْنٰہُمْ اَىِٕمَّۃً يَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْہِمْ فِعْلَ الْخَيْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَاِيْتَاۗءَ الزَّكٰوۃِ ٠ۚ وَكَانُوْا لَنَا عٰبِدِيْنَ ٧٣ۙۚ- إِمام :- المؤتمّ به، إنسانا كأن يقتدی بقوله أو فعله، أو کتابا، أو غير ذلک محقّا کان أو مبطلا، وجمعه : أئمة . وقوله تعالی: يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِمْ [ الإسراء 71] أي : بالذي يقتدون به، - الامام - وہ ہے جس کی اقتداء کی جائے خواہ وہ انسان ہو یا اس کے قول وفعل کی اقتداء کی جائے یا کتاب وغیرہ ہو اور خواہ وہ شخص جس کی پیروی کی جائے حق پر ہو یا باطل پر ہو اس کی جمع ائمۃ افعلۃ ) ہے اور آیت :۔ يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ( سورة الإسراء 71) جس دن ہم سب لوگوں کو ان کے پیشواؤں کے ساتھ بلائیں گے ۔ میں امام سے وہ شخص مراد ہے جس کی وہ اقتداء کرتے تھے ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة 43] ، في غير موضع وَالْمُقِيمِينَ الصَّلاةَ [ النساء 162] . وقوله : وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] فإنّ هذا من القیام لا من الإقامة، وأمّا قوله : رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] أي : وفّقني لتوفية شرائطها، وقوله : فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] فقد قيل : عني به إقامتها بالإقرار بوجوبها لا بأدائها، والمُقَامُ يقال للمصدر، والمکان، والزّمان، والمفعول، لکن الوارد في القرآن هو المصدر نحو قوله : إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً- [ الفرقان 66] ، والمُقَامةُ : لإقامة، قال : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] نحو : دارُ الْخُلْدِ [ فصلت 28] ، وجَنَّاتِ عَدْنٍ [ التوبة 72] وقوله : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] ، من قام، أي : لا مستقرّ لكم، وقد قرئ : لا مقام لَكُمْ- «1» من : أَقَامَ. ويعبّر بالإقامة عن الدوام . نحو : عَذابٌ مُقِيمٌ- [هود 39] ، وقرئ : إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] ، أي : في مکان تدوم إقامتهم فيه، وتَقْوِيمُ الشیء : تثقیفه، قال : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4]- الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے اسی بنا پر کئی ایک مقام پر اقیموالصلوۃ اور المتقین الصلوۃ کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] اوت جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر ۔ میں قاموا اقامتہ سے نہیں بلکہ قیام سے مشتق ہے ( جس کے معنی عزم اور ارادہ کے ہیں ) اور آیت : ۔ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] اے پروردگار مجھ کو ( ایسی توفیق عنایت ) کر کہ نماز پڑھتا رہوں ۔ میں دعا ہے کہ الہٰی مجھے نماز کو پورے حقوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے ۔۔۔۔۔۔۔ لگیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں اقامۃ سے نماز کا ادا کرنا مراد نہیں ہے بلکہ اس کے معنی اس کی فرضیت کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ المقام : یہ مصدر میمی ، ظرف ، مکان ظرف زمان اور اسم مفعول کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن قرآن پاک میں صرف مصدر میمی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً [ الفرقان 66] اور دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور مقامتہ ( بضم الیم ) معنی اقامتہ ہے جیسے فرمایا : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ کے رہنے کے گھر میں اتارا یہاں جنت کو دارالمقامتہ کہا ہے جس طرح کہ اسے دارالخلد اور جنات عمدن کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] یہاں تمہارے لئے ( ٹھہرنے کا ) مقام نہیں ہے تو لوٹ چلو ۔ میں مقام کا لفظ قیام سے ہے یعنی تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اور ایک قرات میں مقام ( بضم المیم ) اقام سے ہے اور کبھی اقامتہ سے معنی دوام مراد لیا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ عَذابٌ مُقِيمٌ [هود 39] ہمیشہ کا عذاب ۔ اور ایک قرات میں آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ مقام بضمہ میم ہے ۔ یعنی ایسی جگہ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ تقویم الشی کے معنی کسی چیز کو سیدھا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4] کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ۔ اس میں انسان کے عقل وفہم قدوقامت کی راستی اور دیگر صفات کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعہ انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے اور وہ اس کے تمام عالم پر مستولی اور غالب ہونے کی دلیل بنتی ہیں ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - زكا - أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة .- يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] ،- إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] ، وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] ، أي :- مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله :- «للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد .- وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان :- أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی 14] .- والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه .- ( زک و ) الزکاۃ - : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ - وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔
(٧٣) اور ہم نے ان سب کو مقتدا بنایا کہ ہمارے حکم و اطاعت کی طرف مخلوق کو دعوت دیا کرتے تھے ،- اور ہم نے ان کے پاس نیک کاموں کے کرنے کا یا یہ کہ توحید کی طرف دعوت دینے کا خصوصا نماز کی پابندی کا اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم بھیجا اور وہ لوگ ہماری خوب اطاعت کیا کرتے تھے۔
آیت ٧٣ (وَجَعَلْنٰہُمْ اَءِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا) ” - یعنی لوگوں کی راہنمائی اور راہبری کرتے تھے۔- (وَکَانُوْا لَنَا عٰبِدِیْنَ ) ” - یہاں آپ کو کچھ انبیاء کا تذکرہ اور ان کے اوصاف پر مشتمل آیات کا گلدستہ دیکھنے کو ملے گا۔ اس ضمن میں یہ بھی مد نظر رہے کہ اس سورة میں تمام ابنیاء کا ذکر انباء الرسل کی بجائے قصص النبیینّ کے انداز میں ہوا ہے۔
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :66 حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کے اس اہم واقعے کا بائیبل میں کوئی ذکر نہیں ہے ۔ بلکہ ان کی زندگی کے عراقی دور کا کوئی واقعہ بھی اس کتاب میں جگہ نہیں پاسکا ہے ۔ نمرود سے ان کی مڈ بھیڑ ، باپ اور قوم سے ان کی کشمکش ، بت پرستی کے خلاف ان کی جد و جہد ، آگ میں ڈالے جانے کا قصہ ، اور بالآخر ملک چھوڑنے پر مجبور ہونا ، ان میں سے ہر چیز بائیبل کی کتاب پیدائش کے مصنف کی نگاہ میں ناقابل التفات تھی ۔ وہ صرف ان کی ہجرت کا ذکر کرتا ہے ، مگر وہ بھی اس انداز سے کہ جیسے ایک خاندان تلاش معاش میں ایک ملک چھوڑ کر دوسرے ملک میں جا کر آباد ہو رہا ہے ۔ قرآن اور بائیبل کا اس سے بھی زیادہ دلچسپ اختلاف یہ ہے کہ قرآن کے بیان کی رو سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مشرک باپ ان پر ظلم کرنے میں پیش پیش تھا ، اور بائیبل کہتی ہے کہ ان کا باپ خود اپنے بیٹوں ، پوتوں اور بہوؤں کو لے کر حاران میں جا بسا ( باب 11 ۔ آیات 27 تا 32 ) ۔ اس کے بعد یکایک خدا حضرت ابراہیم سے کہتا ہے کہ تو حاران کو چھوڑ کر کنعان میں جا کر بس جا اور میں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا اور برکت دوں گا اور تیرا نام سر فراز کروں گا ، سو تو باعث برکت ہو ، جو تجھے مبارک کہیں ان کو میں برکت دوں گا اور جو تجھ پر لعنت کرے اس پر میں لعنت کروں گا اور زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلے سے برکت پائیں گے ( باب 12 ۔ آیت 1 ۔ 3 ) ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اچانک حضرت ابراہیم پر یہ نظر عنایت کیوں ہو گئی ۔ تَلْمود میں البتہ سیرت ابراہیمی کے عراقی دور کی وہ بیشتر تفصیلات ملتی ہیں جو قرآن کے مختلف مقامات پر بیان ہوئی ہیں ۔ مگر دونوں کا تقابل کرنے سے نہ صرف یہ کہ قصے کے اہم اجزاء میں بین تفاوت نظر آتا ہے ، بلکہ ایک شخص صریح طور پر یہ محسوس کر سکتا ہے کہ تلمود کا بیان بکثرت بے جوڑ اور خلاف قیاس باتوں سے بھرا ہوا ہے اور اس کے برعکس قرآن بالکل منقح صورت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اہم واقعات زندگی کو پیش کرتا ہے جن میں کوئی لغو بات آنے نہیں پائی ہے ، توضیح مدعا کے لیے ہم یہاں تلمود کی داستان کا خلاصہ پیش کرتے ہیں تاکہ ان لوگوں کی غلطی پوری طرح کھل جائے جو قرآن کو بائیبل اور یہودی لٹریچر کا خوشہ چیں قرار دیتے ہیں ۔ تلمود کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم کی پیدائش کے روز نجومیوں نے آسمان پر ایک علامت دیکھ کر نمرود کو مشورہ دیا تھا کہ تارح کے ہاں جو بچہ پیدا ہوا ہے اسے قتل کر دے ۔ چنانچہ وہ ان کے قتل کے درپے ہوا ۔ مگر تارح نے اپنے ایک غلام کا بچہ ان کے بدلے میں دے کر انہیں بچا لیا ۔ اس کے بعد تارح نے اپنی بیوی اور بچے کو ایک غار میں لے جا کر چھپا دیا جہاں 10 سال تک وہ رہے ۔ گیارھویں سال حضرت ابراہیم کو تارح نے حضرت نوح علیہ السلام کے پاس پہنچا دیا اور 39 سال تک وہ حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے بیٹے سام کی تربیت میں رہے ۔ اسی زمانے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بھتیجی تھیں ۔ نیز وہ دونوں کے درمیان عمر کا فرق بھی صرف 10 سال بتاتی ہے ۔ پیدائش ۔ باب 11 ۔ آیت 29 ۔ اور باب 17 ۔ آیت 17 ) ۔ پھر تلمود کہتی ہے کہ حضرت ابراہیم پچاس سال کی عمر میں حضرت نوح کا گھر چھوڑ کر اپنے باپ کے ہاں آ گئے ۔ یہاں انہوں نے دیکھا کہ باپ بت پرست ہے اور گھر میں سال کے بارہ مہینوں کے حساب سے 12 بت رکھے ہیں ۔ انہوں نے پہلے تو باپ کو سمجھانے کی کوشش کی ، اور جب اس کی سمجھ میں بات نہ آئی تو ایک روز موقع پاکر اس گھریلو بت خانے کے بتوں کو توڑ ڈالا ۔ تارح نے آ کر اپنے خداؤں کا یہ حال جو دیکھا تو سیدھا نمرود نے بلا کر حضرت ابراہیم سے باز پرس کی ۔ انہوں نے سخت جوابات دیے ۔ نمرود نے ان کو تو فوراً جیل بھیج دیا اور پھر معاملہ اپنی کونسل میں پیش کیا تاکہ صلاح مشورے سے اس مقدمے کا فیصلہ کیا جائے ۔ کونسل کے ارکان نے مشورہ دیا کہ اس شخص کو آگ میں جلا دیا جائے ۔ چنانچہ آگ کا ایک بڑا الاؤ تیار کرایا گیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اس میں پھینک دیے گئے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ان کے بھائی اور خسر ، حاران کو بھی پھینکا گیا ، کیونکہ نمرود نے تارح سے جب پوچھا کہ تیرے اس بیٹے کو تو میں پیدائش ہی کے روز قتل کرنا چاہتا تھا ، تو نے اس وقت اسے بچا کر دوسرا بچہ کیوں اس کے بدلے قتل کرایا ، تو اس نے کہا کہ میں نے حاران کے کہنے سے یہ حرکت کی تھی ۔ اس لیے خود اس فعل کے مرتکب کو تو چھوڑ دیا گیا اور مشورہ دینے والے کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ آگ میں پھینکا گیا ۔ آگ میں گرتے ہی حاران فوراً جل بھن کر کوئلہ ہو گیا مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو لوگوں نے دیکھا کہ اندر اطمینان سے ٹہل رہے ہیں ، نمرود کو اس معاملے کی الطاع دی گئی ۔ اس نے آکر جب خود اپنی آنکھوں سے یہ ماجرا دیکھ لیا تو پکار کر کہا کہ آسمانی خدا کے بندے ، آگ سے نکل آ اور میرے سامنے کھڑا ہو جا ۔ حضرت ابراہیم باہر آ گئے ۔ نمرود ان کا معتقد ہو گیا اور اس نے بہت سے قیمتی نذرانے ان کو دے کر رخصت کر دیا ۔ اس کے بعد تلمود کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام دو سال تک وہاں رہے ۔ پھر نمرود نے ایک ڈراؤنا خواب دیکھا اور اس کے نجومیوں نے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ ابراہیم تیری سلطنت کی تباہی کا موجب بنے گا ، اسے قتل کرا دے ۔ اس نے ان کے قتل کے لیے آدمی بھیجے ، مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خود نمرود ہی کے عطا کیے ہوئے ایک غلام ، الیعزر نے قبل از وقت اس منصوبے کی اطلاع دے دی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھاگ کر حضرت نوح کے ہاں پناہ لی ۔ وہاں تارح آکر ان سے خفیہ طور پر ملتا رہا اور آخر باپ بیٹوں کی یہ صلاح ہوئی کہ ملک چھوڑ دیا جائے ۔ حضرت نوح اور سام نے بھی اس تجویز کو پسند کیا ۔ چنانچہ تارح اپنے بیٹے ابراہیم اور پوتے لوط اور پوتی اور بہو سارا کو لے کر اُر سے حارن چلا گیا ۔ ( منتخبات تلمود از ایچ پولونو ، لندن ۔ صفحہ 30 تا 42 ۔ ) ۔ کیا اس داستان کو دیکھ کر کوئی معقول آدمی یہ تصور کر سکتا ہے کہ یہ قرآن کا ماخذ ہو سکتی ہے ؟