Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلُوْطًا اٰتَيْنٰهُ حُكْمًا وَّعِلْمًا ۔۔ : لوط (علیہ السلام) کا ذکر الگ کرنے سے ظاہر ہو رہا ہے کہ انھیں پہلے تینوں انبیاء کے علاقے اور قوم کے علاوہ کسی دوسرے علاقے اور قوم کی طرف بھیجا گیا تھا۔ لوط (علیہ السلام) کا قصہ سورة اعراف (٨٠) ، ہود (٨١) اور حجر (٦١) میں گزر چکا ہے۔ ان کی بستی کے خبیث اعمال کا ذکر گزشتہ سورتوں کے علاوہ سورة عنکبوت (٢٨ تا ٣٥) اور سورة قمر (٣٣ تا ٣٧) وغیرہ میں بھی موجود ہے۔ اس بستی کا نام سدوم مشہور ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور لوط (علیہ اسلام) کو ہم نے حکمت اور علم (مناسب شان انبیاء) عطا فرمایا اور ہم نے ان کو اس بستی سے نجات دی جس کے رہنے والے گندے گندے کام کیا کرتے تھے (جن میں سے سب سے بدتر لواطت تھی اور بھی بہت سے بیہودہ اور برے افعال کے یہ لوگ عادی تھی۔ شراب خوری، گانا بجانا، داڑھی کٹانا، مونچھیں بڑھانا، کبوتر بازی، ڈھیلے پھینکنا، سیٹی بجانا، ریشمی لباس پہننا، اخرجہ اسحاق بن بشر والخطیب وابن عساکر عن الحسن مرفوعا کذا فی الروح) بلاشبہ وہ لوگ بڑے بد ذات بدکار تھے اور ہم نے لوط کو اپنی رحمت میں (یعنی جن بندوں پر رحمت ہوتی ہے ان میں) داخل کیا (کیونکہ) بلاشبہ وہ بڑے (درجہ کے) نیکوں میں سے تھے (بڑے درجہ کے نیک سے مراد معصوم ہے جو نبی کی خصوصیت ہے۔ )- معارف و مسائل :- حضرت لوط (علیہ السلام) کو جس بستی سے نجات دینے کا ذکر ان آیات میں آیا ہے اس بستی کا نام سَدُوم تھا اس کے تابع سات بستیاں اور تھیں جن کو جبرئیل نے الٹ کر تہہ وبالا کر ڈالا تھا صرف ایک بستی باقی چھوڑ دی تھی جس میں لوط (علیہ السلام) مع اپنے متعلقین مومنین کے رہ سکیں (قالہ ابن عباس۔ قرطبی) - تَّعْمَلُ الْخَـبٰۗىِٕثَ ، خبائث خبیثہ کی جمع ہے۔ بہت سی خبیث اور گندی عادتوں کو خبائث کہا جاتا ہے۔ یہاں ان کی سب سے بڑی خبیث اور گندی عادت جس سے جنگلی جانور بھی پرہیز کرتے ہیں لواطت تھی، یعنی مرد کا مرد کے ساتھ شہوت پوری کرنا۔ یہاں اسی ایک عادت کو اس کے بڑے جرم ہونے کے سبب خبائث کہہ دیا گیا ہو تو یہ بھی بعید نہیں جیسا کہ بعض مفسرین نے فرمایا ہے اور اس کے علاوہ دوسری خبیث عادتیں ان میں ہونا بھی روایات میں مذکور ہے جیسا کہ خلاصہ تفسیر میں بحوالہ روح المعانی گزر چکا ہے اس لحاظ سے مجموعہ کو خبائث کہنا تو ظاہری ہے۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلُوْطًا اٰتَيْنٰہُ حُكْمًا وَّعِلْمًا وَّنَجَّيْنٰہُ مِنَ الْقَرْيَۃِ الَّتِيْ كَانَتْ تَّعْمَلُ الْخَـبٰۗىِٕثَ۝ ٠ۭ اِنَّہُمْ كَانُوْا قَوْمَ سَوْءٍ فٰسِقِيْنَ۝ ٧٤ۙ- حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔- نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔- وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔- قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - خبث - الخُبْثُ والخَبِيثُ : ما يكره رداءة وخساسة، محسوسا کان أو معقولا، وأصله الرّديء الدّخلة الجاري مجری خَبَثِ الحدید، وذلک يتناول الباطل في الاعتقاد، والکذب في المقال، والقبیح في الفعال، قال عزّ وجلّ : وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف 157] ، أي : ما لا يوافق النّفس من المحظورات، وقوله تعالی: وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم 26] ، فإشارة إلى كلّ كلمة قبیحة من کفر وکذب ونمیمة وغیر ذلك، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «المؤمن أطيب من عمله، والکافر أخبث من عمله» «1» ويقال : خبیث مُخْبِث، أي : فاعل الخبث .- ( خ ب ث )- المخبث والخبیث ۔ ہر وہ چیز جو دری اور خسیں ہونے کی وجہ سے بری معلوم ہو خواہ وہ چیز محسوسات سے ہو یا معقولات ( یعنی عقائد و خیالات ) سے تعلق رکھتی ہو اصل میں خبیث روی اور ناکارہ چیز کو کہتے ہیں جو بمنزلہ لو ہے کی میل کے ہو ۔ اس اعتبار سے یہ اعتقاد باطل کذب اور فعل - قبیح سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف 157] اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں ۔ یعنی محظورات جو طبیعت کے ناموافق ہیں ۔ آیت :۔ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم 26] اور ناپاک بات کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے ۔ میں کفر ، جھوٹ ، چغلی ہر قسم کی قبیح باتیں داخل ہیں حدیث میں ہے :۔ المومن اطیب من عملہ والکافر اخبث من عملہ ۔ کہ مومن اپنے عمل سے پاک اور کافر اپنے عمل سے ناپاک ہے ۔ اور خبیث ومخبث خبث کے مرتکب کو بھی کہا جاتا ہے ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٤) اور لوط (علیہ السلام) کو بھی ہم نے عقل سلیم اور نبوت عطا کی اور سدوم بستی سے نجات دی جس کے رہنے والے برے برے کام کیا کرتے تھے یعنی لواطت بیشک وہ لوگ اپنے کفر میں بڑے بد ذات اور ان افعال لواطت وغیرہ میں بہت ہی بدکار تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٤ (وَلُوْطًا اٰتَیْنٰہُ حُکْمًا وَّعِلْمًا) ” - حکم سے حکمت ‘ فہم اور قوت فیصلہ مراد ہے۔- (وَّنَجَّیْنٰہُ مِنَ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ تَّعْمَلُ الْخَبآءِثَ ط) ” - یعنی اس بستی کے لوگ گندے کاموں میں مبتلا تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :67 حکم اور علم بخشنا بالعموم قرآن مجید میں نبوت عطا کرنے کا ہم معنی ہوتا ہے ۔ حکم سے مراد حکمت بھی ہے ، صحیح قوت فیصلہ بھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سند حکمرانی ( ) حاصل ہونا بھی ۔ رہا علم تو اس سے مراد وہ علم حق ہے جو وحی کے ذریعہ عطا کیا گیا ہو ۔ حضرت لوط کے متعلق مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو ۔ الاعراف ، آیات 80 تا 84 ۔ ھود ۔ آیات 69 تا 83 ۔ الحجر ، آیات 57 تا 76 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

30: ) یوں تو یہ قوم بہت سے گندے کاموں میں مبتلا تھی، لیکن ان کی جس گھناؤنی حرکت کا قرآن کریم نے خاص طو رپر ذکر کیا ہے وہ ہم جنس پرستی یعنی مردوں کا مردوں سے جنسی لذت حاصل کرنا ہے، اس کا مفصل تذکرہ سورۂ ہود (١١۔ ٧٧، ٨٣) میں گزرچکا ہے۔