نوح علیہ السلام کی دعا نوح نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کی قوم نے ستایا تکلیفیں دیں تو آپ نے اللہ کو پکارا کہ باری تعالیٰ میں عاجز آگیا ہوں تو میری مدد فرما ۔ زمین پر ان کافروں میں کسی ایک کو بھی باقی نہ رکھ ورنہ یہ تیرے بندوں کو بہکائیں گے ۔ اور ان کی اولادیں بھی ایسی ہی فاجر کافر ہوں گی ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دعا قبول فرمائی اور آپ کو اور مومنوں کو نجات دی اور آپ کے اہل کو بھی سوائے ان کے جن کے نام برباد ہونے والوں میں آگئے تھے ۔ آپ پر ایمان لانے والوں کی بہت ہی کم مقدار تھی ۔ قوم کی سختی ، ایذاء دہی ، اور تکلیف سے اللہ عالم نے اپنے نبی کو بچالیا ۔ ساڑھے نوسو سال تک آپ ان میں رہے اور انہیں دین اسلام کی طرف بلاتے رہے مگر سوائے چند لوگوں کے اور سب اپنے شرک وکفر سے باز نہ آئے بلکہ آپ کو سخت ایذائیں دیں اور ایک دوسرے کو اذیت دینے کے لیے بھڑکاتے رہے ۔ ہم نے ان کی مدد فرمائی اور عزت آبرو کے ساتھ کفار کی ایذاء رسانیوں سے چھٹکارا دیا اور ان برے لوگوں کوٹھکانے لگادیا ۔ اور نوح علیہ السلام کی دعا کے مطابق روئے زمین پر ایک بھی کافر نہ بچا سب ڈبودئے گئے ۔
[٦٣] حضرت نوح (علیہ السلام) کا قصہ بھی سورة اعراف اور سورة ہود میں گزر چکا ہے وہ حواشی بھی سامنے رکھے جائیں۔
ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ سے نجات دینے کے بعد نوح (علیہ السلام) کو پانی کے طوفان سے نجات دینے کا ذکر فرمایا۔ - وَنُوْحًا اِذْ نَادٰي مِنْ قَبْلُ ۔۔ : نوح (علیہ السلام) کی اس دعا کا ذکر سورة نوح (٢٦ تا ٢٨) میں تفصیل سے مذکور ہے، اسی طرح سورة قمر میں ہے : (فَدَعَا رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ ) [ القمر : ١٠] ” تو اس نے اپنے رب کو پکارا کہ میں مغلوب ہوں سو تو بدلہ لے۔ “- فَنَجَّيْنٰهُ وَاَهْلَهٗ : ” اَهْلَهٗ “ سے مراد ان کے مشرک بیٹے اور بیوی کے سوا باقی گھر والے ہیں۔ بیٹے کے متعلق دیکھیے سورة ہود (٤٠ تا ٤٣) اور بیوی کے متعلق سورة تحریم (١٠) ۔- مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيْمِ : ” الْكَرْبِ “ کا معنی ہے ” أَقْصَی الْغَمِّ “ یعنی آخری حد کو پہنچا ہوا غم۔ ” الْكَرْبِ الْعَظِيْمِ “ سے مراد کفار کی نوح (علیہ السلام) سے ساڑھے نو سو برس کی مسلسل مخالفت، بدسلوکی، ایذا رسانی، استہزا اور سنگسار کرنے کی دھمکیاں بھی ہیں، جن کا شکوہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور کیا، جو سورة نوح کی آیت (٥) سے آیت (٢٤) تک میں مذکور ہے اور جن کا ذکر سورة ہود (٣٨) اور شعراء (١١٦) میں ہے۔ پہاڑوں جیسی موجوں والا طوفان بھی مراد ہے، جس نے اللہ کے حکم سے زمین پر بسنے والا ایک مشرک بھی باقی نہ چھوڑا۔- فَاَغْرَقْنٰهُمْ اَجْمَعِيْنَ : اس کی تفصیل سورة ہود (٣٧ تا ٤٩) میں ملاحظہ فرمائیں۔
خلاصہ تفسیر - اور نوح (علیہ السلام کے قصہ) کا تذکرہ کیجئے جبکہ اس (زمانہ ابراہیمی) سے پہلے انہوں نے (اللہ تعالیٰ سے) دعا کی ( کہ ان کافروں سے میرا بدلہ لے لیجئے) سو ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ان کو اور ان کے متبعین کو بڑے بھاری غم سے نجات دی (یہ غم کفار کی تکذیب اور اس کے ساتھ طرح طرح کی اذائیں پہنچانے پیش آتا تھا) اور (نجات اس طرح دی کہ) ہم نے ایسے لوگوں سے ان کا بدلہ لیا جنہوں نے ہمارے حکموں کو (جو کہ حضرت نوح (علیہ السلام) لائے تھے) جھوٹا بتلایا تھا بلاشبہ وہ لوگ بہت برے تھے اس لئے ہم نے ان سب کو غرق کردیا۔- معارف و مسائل - وَنُوْحًا اِذْ نَادٰي مِنْ قَبْلُ ، من قبل سے مراد ابراہیم و لوط (علیہما السلام) سے پہلے ہونا ہے۔ جن کا ذکر اوپر کی آیات میں آیا ہے اور نوح (علیہ السلام) کی جس نداء کا ذکر اس جگہ مجملاً آیا ہے اس کا بیان سورة نوح میں یہ ہے کہ نوح (علیہ السلام) نے قوم کے لئے بد دعا کی رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَي الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا یعنی اے پروردگار روئے زمین پر کافروں میں کسی بسنے والے کو نہ چھوڑ اور ایک جگہ یہ ہے کہ جب نوح (علیہ السلام) کی قوم نے کسی طرح ان کا کہنا نہ مانا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا، اَنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ ، یعنی میں مغلوب اور عاجز ہوچکا ہوں آپ ہی ان لوگوں سے انتقام لے لیجئے۔- فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَنَجَّيْنٰهُ وَاَهْلَهٗ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيْمِ ، کرب عظیم سے مراد یا تو طوفان میں غرق ہونا ہے جس میں پوری قوم مبتلا ہوئی، یا اس قوم کی ایذائیں مراد ہیں جو وہ طوفان سے پہلے حضرت نوح اور ان کے خاندان کو پہنچاتے تھے۔
وَنُوْحًا اِذْ نَادٰي مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ فَنَجَّيْنٰہُ وَاَہْلَہٗ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيْمِ ٧٦ۚ- نوح - نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس .- ( ن و ح ) نوح - ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔- استجاب - والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24] ، وقال : ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر 60] ، فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة 186] ، فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران 195] ، وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری 26] وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری 38] ، وقال تعالی: وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي[ البقرة 186] ، الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران 172] .- ( ج و ب ) الجوب - الاستحابتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر 60] کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری ( دعا ) قبول کرونگا ۔ فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران 195] تو ان کے پرور گار نے ان کی دعا قبول کرلی ۔ وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری 26] اور جو ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کی ( دعا) قبول فرماتا وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری 38] اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة 186] اور اے پیغمبر جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو ( کہہ دو کہ ) میں تو ( تمہارے پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیئے کہ میرے حکموں کو مانیں ۔ الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران 172] جنهوں نے باوجود زخم کھانے کے خدا اور رسول کے حکم کو قبول کیا ۔- نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔- وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔- أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- كرب - الكَرْبُ : الغمّ الشّديد . قال تعالی: فَنَجَّيْناهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ- [ الأنبیاء 76] . والکُرْبَةُ کا لغمّة، وأصل ذلک من : كَرْبِ الأرض، وهو قَلْبُها بالحفر، فالغمّ يثير النّفس إثارة ذلك، وقیل في مَثَلٍ : الكِرَابُ علی البقر «1» ، ولیس ذلک من قولهم : ( الکلاب علی البقر) في شيء . ويصحّ أن يكون الكَرْبُ من : كَرَبَتِ الشمس : إذا دنت للمغیب . وقولهم : إناء كَرْبَانُ ، أي : قریب . نحو : قَرْبانَ ، أي : قریب من الملء، أو من الكَرَبِ ، وهو عقد غلیظ في رشا الدّلو، وقد يوصف الغمّ بأنه عقدة علی القلب، يقال : أَكْرَبْتُ الدّلوَ.( ک ر ب ) الکرب ۔ کے ہم معنی سخت غم کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَنَجَّيْناهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ [ الأنبیاء 76] تو ان کو اور ان کے ساتھیوں کو بڑی گھبراہٹ سے نجات دی ۔ اور کر بۃ عمۃ کی طرح ہے یہ اصل میں کرب الارض سے مشتق ہے جس کے معنی زمین میں قلبہ رانی کے ہیں ۔ اور غم سے بھی چونکہ طبیعت الٹ پلٹ جاتی ہے ۔ اس لئے اسے کرب کہاجاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ الکراب علی البقر یعنی ہر آدمی کو اس کا کام کرنے دو اور یہ الکلاب علی ا لبقر کے قبیل سے نہیں ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کر اب ( سخت غم ) کر بت الشمس سے ماخوذ ہو ۔ جس کے معنی ہیں سورج غروب ہونا کے قریب ہوگیا ۔ اور اناء کر بان میں کر بان بمعنی قربان ہے ۔ یعنی تقریبا بھرا ہوا برتن اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کرب ( غم ) الکرب سے مشتق ہو جس کے معنی سخت گرہ کے ہیں جو ڈول کے ساتھ رسی میں لگی رہتی ہے ۔ اور تم بھی دل پ ربمنزلہ گرہ کے بیٹھ جاتا ہے ۔ اس لئے اسے کرب کہاجاتا ہو ۔ اکربت الدلول ڈول کے دستہ میں چھوٹی سی رسی باندھنا ۔- عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔
(٧٦) اور حضرت نوح (علیہ السلام) کو بھی ہم نے نبوت کے ساتھ سرفراز فرمایا ان کا وہ واقعہ بھی بیان کیجیے جب کہ انہوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کے زمانہ سے پہلے اپنی قوم کی ہلاکت کے لیے اپنے رب سے دعا کی، سو ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ان کو اور ان پر ایمان لانے والوں کو غرق ہونے سے نجات دی۔
آیت ٧٦ (وَنُوْحًا اِذْ نَادٰی مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ ) ” - یہ اس دعا کی طرف اشارہ ہے جو سورة القمر میں نقل ہوئی ہے : (فَدَعَا رَبَّہٗٓ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ ) کہ پروردگار میں تو مغلوب ہوگیا ہوں ‘ اب تو میری مدد فرما اور تو ہی ان کافروں سے انتقام لے۔ آپ ( علیہ السلام) کی یہ دعا قبول فرمائی گئی اور اس نافرمان قوم کو غرق کردیا گیا۔
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :68 اشارہ ہے حضرت نوح کی اس دعا کی طرف جو ایک مدت دراز تک اپنی قوم کی اصلاح کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہنے کے بعد آخر کار تھک کر انہوں نے مانگی تھی : اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانتَصِرْ ، پروردگار ، میں مغلوب ہو گیا ہوں ، اب میری مدد کو پہنچ ( القمر ۔ آیت 10 ) ۔ اور : رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْ ض مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّاراً ہ پرور دگار ، زمین پر ایک کافر باشندہ بھی نہ چھوڑ ( نوح ۔ آیت 26 ) ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :69 کرب عظیم سے مراد یاتو ایک بد کردار قوم کے درمیان زندگی بسر کرنے کی مصیبت ہے ، یا پھر طوفان ۔ حضرت نوح کے قصے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو ۔ الاعراف ، آیات 59 تا 64 ۔ یونس ، آیات 71 تا 73 ۔ ھود ۔ آیات 25 تا 48 ، بنی اسرائیل ، آیت 3 ۔