ایک ہی مقدمہ میں داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کے مختلف فیصلے ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ کھیتی انگور کی تھی جس کے خوشے لٹک رہے تھے نفشت کے معنی ہیں رات کے وقت جانوروں کے چرنے کے ۔ اور دن کے وقت چرنے کو عربی میں ہمل کہتے ہیں ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس باغ کو بکریوں نے بگاڑ دیا ، حضرت داؤد علیہ السلام نے یہ فیصلہ کیا کہ باغ کے نقصان کے بدلے یہ بکریاں باغ والے کو دے دی جائیں ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ فیصلہ سن کر عرض کی کہ اے اللہ کے نبی علیہ السلام اس کے سوا بھی فیصلے کی کوئی صورت ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ کیا ؟ جواب دیا کہ بکریاں باغ والے کے حوالے کردی جائیں وہ ان سے فائدہ اٹھاتا رہے اور باغ بکری والے کو دے دیا جائے یہ اس میں انگور کی بیلوں کی خدمت کرے یہاں تک کہ بیلیں ٹھیک ٹھاک ہوجائیں انگور لگیں اور پھر اسی حالت پر آجائیں جس پر تھے تو باغ والے کو اس کا باغ سونپ دے اور باغ والا اسے اس کی بکریاں سونپ دے ۔ یہی مطلب اس آیت کا ہے کہ ہم نے اس جھگڑے کا صحیح فیصلہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو سمجھا دیا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضرت داؤد علیہ السلام کا یہ فیصلہ سن کر بکریوں والے اپنا سا منہ لے کر صرف کتوں کو اپنے ساتھ لئے ہوئے واپس جا رہے تھے حضرت سلیمان علیہ السلام نے انہیں دیکھ کر دریافت کیا کہ تمہارا فیصلہ کیا ہوا ؟ انہوں نے خبردی تو آپ نے فرمایا اگر میں اس جگہ ہوتا تو یہ فیصلہ نہ دیتا بلکہ کچھ اور فیصلہ کرتا حضرت داؤد علیہ السلام کو جب یہ بات پہنچی تو آپ نے انہیں بلوایا اور پوچھا کہ بیٹے تم کیا فیصلہ کرتے ؟ آپ نے وہی اوپر والا فیصلہ سنایا ۔ حضرت مسروق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ان بکریوں نے خوشے اور پتے سب کھالئے تھے ۔ تو حضرت داؤد علیہ السلام کے فیصلے کے خلاف حضرت سلیمان علیہ السلام نے فیصلہ دیا کہ ان لوگوں کی بکریاں باغ والوں کو دے دی جائیں اور یہ باغ انہیں سونپا جائے جب تک باغ اپنی اصلی حالت پر آئے تب تک بکریوں کے بچے اور ان کا دودھ اور ان کا کل نفع باغ والوں کا ۔ پھر ہر ایک کو ان کی چیز سونپ دی جائے ۔ قاضی شریح رحمتہ اللہ علیہ کے پاس بھی ایک ایسا ہی جھگڑا آیا تو آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر دن کو بکریوں نے نقصان پہنچایا ہے تب تو کوئی معاوضہ نہیں ۔ اور اگر رات کو نقصان پہنچایا ہے تو بکریوں والے ضامن ہیں ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضرت برا بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اونٹنی کسی باغ میں چلی گئی اور وہاں باغ کا بڑا نقصان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ باغ والوں پر دن کے وقت باغ کی حفاظت ہے اور جو نقصان جانوروں سے رات کو ہو اس کا جرمانہ جانور والوں پر ہے اس حدیث میں علتیں نکالی گئی ہیں اور ہم نے کتاب الاحکام میں اللہ کے فضل سے اس کی پوری تفصیل بیان کردی ہے ۔ مروی ہے کہ حضرت ایاس بن معاویہ رحمتہ اللہ علیہ سے جب کہ قاضی بننے کی درخواست کی گئی تو وہ حسن رحمتہ اللہ علیہ کے پاس آئے اور روئے ۔ پوچھا گیا کہ ابو سعید آپ کیوں روتے ہیں ؟ فرمایا مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ اگر قاضی نے اجتہاد کیا پھر غلطی کی وہ جہنمی ہے اور جو خواہش نفس کی طرف جھک گیا وہ بھی جہنمی ہے ہاں جس نے اجتہاد کیا اور صحت پر پہنچ گیا وہ جنت میں پہنچا ۔ حضرت حسن یہ سن کر فرمانے لگے سنو اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی قضاۃ کا ذکر فرمایا ہے ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام اعلیٰ منصب پر ہوتے ہیں ، ان کے قول سے ان لوگوں کی باتیں رد ہوسکتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کی تعریف تو بیان فرمائی ہے لیکن حضرت داؤد علیہ السلام کی مذمت بیان نہیں فرمائی ۔ پھر فرمانے لگے سنو تین باتوں کا عہد اللہ تعالیٰ نے قاضیوں سے لیا ہے ۔ ایک تو یہ کہ وہ منصفین شرع دینوی نفع کی وجہ سے بدل نہ دیں ، دوسرے یہ کہ اپنے دلی ارادوں اور خواہشوں کے پیچھے نہ پڑجائیں ، تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈریں ۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ( يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ 26ۧ ) 38-ص:26 ) یعنی اے داؤد ہم نے تجھے زمین کا خلیفہ بنایا ہے تو لوگوں میں حق کے ساتھ فیصلے کرتا رہ خواہش کے پیچے نہ پڑ کہ اللہ کی راہ سے بہک جائے ۔ اور ارشاد ہے آیت ( فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِيْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا ۭوَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ 44 ) 5- المآئدہ:44 ) لوگوں سے نہ ڈرو مجھی سے ڈرتے رہا کرو اور فرمان ہے آیت ( وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِىْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا وَاِيَّاىَ فَاتَّقُوْنِ 41 ) 2- البقرة:41 ) میری آیتوں کو معمولی نفع کی خاطر بیچ نہ دیا کرو ۔ میں کہتا ہوں انبیاء علیہم السلام کی معصومیت میں اور ان کی منجانب اللہ ہر وقت تائید ہوتے رہنے میں تو کسی کو بھی اختلاف نہیں ۔ رہے اور لوگ تو صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب حاکم اجتہاد اور کوشش کرے پھر صحت تک بھی پہنچ جائے تو اسے دوہرا اجر ملتا ہے اور جب پوری کوشش کے بعد بھی غلطی کرجائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے ۔ یہ حدیث صاف بتلا رہی ہے کہ حضرت ایاس رحمتہ اللہ علیہ کو جو وہم تھا کہ باوجود پوری جدوجہد کے بھی خطا کرجائے تو دوزخی ہے یہ غلط ہے ، واللہ اعلم ۔ سنن کی اور حدیث میں ہے قاضی تین قسم کے ہیں ایک جنتی دو جہنمی اور جس نے حق کو معلوم کرلیا اور اسی سے فیصلہ کیا وہ جنتی ۔ اور جس نے جہالت کے ساتھ فیصلہ کیا وہ جہنمی اور جسنے حق کو جانتے ہوئے اس کے خلاف فیصلہ دیا وہ بھی جہنمی ۔ قرآن کریم کے بیان کردہ اس واقعے کے قریب ہی وہ قصہ ہے جو مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دو عورتیں تھیں جن کے ساتھ ان کے دو بچے بھی تھے بھیڑیا آکر ایک بچے کو اٹھا لے گیا اب ہر ایک دوسری سے کہنے لگی کہ تیرا بچہ گیا اور جو ہے وہ میرا بچہ ہے ۔ آخر یہ قصہ حضرت داؤد علیہ السلام کے سامنے پیش ہوا ۔ آپ نے بڑی عورت کو ڈگری دے دی کہ یہ بچہ تیرا ہے یہ یہاں سے نکلیں راستے میں حضرت سلیمان علیہ السلام تھے آپ نے دونوں کو بلایا اور فرمایا چھری لاؤ میں اس لڑکے کے دو ٹکڑے کرکے آدھا آدھا دونوں کو دے دیتا ہوں اس پر بڑی تو خاموش ہوگئی لیکن چھوٹی نے ہائے واویلا شروع کردیا کہ اللہ آپ پر رحم کرے آپ ایسا نہ کیجئے یہ لڑکا اسی بڑی کا ہے اسی کو دے دیجئے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام معاملے کو سمجھ گئے اور لڑکا چھوٹی عورت کو دلادیا ۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ نے اس پر باب باندھا ہے کہ حاکم کو جائز ہے کہ اپنا فیصلہ اپنے دل میں رکھ کر حقیقت کو معلوم کرنے کے لئے اس کے خلاف کچھ کہے ۔ ایسا ہی ایک واقعہ ابن عساکر میں ہے کہ ایک خوبصورت عورت سے ایک رئیس نے ملنا چاہا لیکن عورت نے نہ مانا اسی طرح تین اور شخصوں نے بھی اس سے بدکاری کا ارادہ کیا لیکن وہ باز رہی ۔ اس پر وہ رؤسا خار کھا گئے اور آپس میں اتفاق کرکے حضرت داؤد علیہ السلام کی عدالت میں جاکر سب نے گواہی دی کہ وہ عورت اپنے کتے سے ایسا کام کرتی ہے چاروں کے متفقہ بیان پر حکم ہوگیا کہ اسے رجم کردیا جائے ۔ اسی شام کو حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ بیٹھ کر خود حاکم بنے اور چار لڑکے ان لوگوں کی طرح آپ کے پاس اس مقدمے کو لائے اور ایک عورت کی نسبت یہی کہا ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے حکم دیا ان چاروں کو الگ الگ کردو ۔ پھر ایک کو اپنے پاس بلایا اور اس سے پوچھا کہ اس کتے کا رنگ کیسا تھا ؟ اس نے کہا سیاہ ۔ پھر دوسرے کو تنہا بلایا اس سے بھی یہی سوال کیا اس نے کہا سرخ ۔ تیسرے نے کہا خاکی ۔ چوتھے نے کہا سفید آپ نے اسی وقت فیصلہ دیا کہ عورت پر یہ نری تہمت ہے اور ان چاروں کو قتل کردیا جائے ۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس بھی یہ واقعہ بیان کیا گیا ۔ آپ نے اسی وقت فی الفور ان چاروں امیروں کو بلایا اور اسی طرح الگ الگ ان سے اس کتے کا رنگ کی بابت سوال کیا ۔ یہ گڑبڑا گئے کسی نے کچھ کہا کسی نے کچھ کہا ۔ آپ کو ان کا جھوٹ معلوم ہوگیا اور حکم فرمایا کہ انہیں قتل کردیا جائے ۔ پھر بیان ہو رہا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کو وہ نورانی گلا عطا فرمایا گیا تھا اور آپ ایسی خوش آوازی اور خلوص کے ساتھ زبور پڑھتے تھے کہ پرند بھی اپنی پرواز چھوڑ کر تھم جاتے تھے اور اللہ کی تسبیح بیان کرنے لگتے تھے اسی طرح پہاڑ بھی ۔ ایک روایت میں ہے کہ رات کے وقت حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلاوت قرآن کریم کررہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی میٹھی رسیلی اور خلوص بھری آواز سن کر ٹھہر گئے اور دیر تک سنتے رہے پھر فرمانے لگے یہ تو آل داؤد کی آوازوں کی شیرینی دیئے گئے ہیں ۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب معلوم ہوا تو فرمانے لگے کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میری قرأت سن رہے ہیں تو میں اور بھی اچھی طرح پڑھتا ۔ حضرت ابو عثمان نہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے تو کسی بہتر سے بہتر باجے کی آواز میں بھی وہ مزہ نہیں پایا جو حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز میں تھا ۔ پس اتنی خوش آوازی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت داؤد علیہ السلام کی خوش آوازی کا ایک حصہ قرار دیا ۔ اب سمجھ لیجئے کہ خود داؤد علیہ السلام کی آواز کیسی ہوگی؟ پھر اپنا ایک اور احسان بتاتا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کو زرہیں بنانی ہم نے سکھا دی تھیں ۔ آپ کے زمانے سے پہلے بغیر کنڈلوں اور بغیر حلقوں کی زرہ بنتی تھیں ۔ کنڈلوں دار اور حلقوں والی زرہیں آپ نے ہی بنائیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ ہم نے حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے لوہے کو نرم کردیا تھا کہ وہ بہترین زرہ تیار کریں اور ٹھیک انداز سے ان میں حلقے بنائیں ۔ یہ زرہیں میدان جنگ میں کام آتی تھیں ۔ پس یہ نعمت وہ تھی جس پر لوگوں کو اللہ کی شکرگزاری کرنی چاہے ۔ ہم نے زورآور ہوا کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع کردیا تھا جو انہیں ان کے فرمان کے مطابق برکت والی زمین یعنی ملک شام میں پہنچا دیتی تھی ۔ ہمیں ہر چیز کا علم ہے ۔ آپ اپنے تخت پر مع اپنے لاؤ لشکر اور سامان اسباب کے بیٹھ جاتے تھے ۔ پھر جہان جانا چاہتے ہوا آپ کو آپ کے فرمان کے مطابق گھڑی بھر میں وہاں پہنچا دیتی ۔ تخت کے اوپر سے پرند پر کھولے آپ پرسایہ ڈالتے جیسے فرمان ہے آیت ( فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيْحَ تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖ رُخَاۗءً حَيْثُ اَصَابَ 36ۙ ) 38-ص:36 ) یعنی ہم نے ہوا کو ان کا تابع کردیا کہ جہان پہنچنا چاہتے ان کے حکم کے مطابق اسی طرف نرمی سے لے چلتی ۔ صبح شام مہینہ مہینہ بھر کی راہ کو طے کرلیتی ۔ حضرت سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ چھ ہزار کرسی لگائی جاتی ۔ آپ کے قریب مومن انسان بیٹھتے ان کے پیچھے مومن جن ہوتے ۔ پھر آپ کے حکم سے سب پر پرند سایہ کرتے پھر حکم کرتے تو ہوا آپ کو لے چلتی ۔ عبداللہ بن عبید بن عمیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں حضرت سلیمان علیہ السلام کو حکم دیتے وہ مثل بڑے تودے کے جمع ہوجاتی گویا پہاڑ ہے پھر اس کے سب سے بلند مکان پر فرش افروز ہونے کا حکم دیتے پھر پہردار گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے فرش پر چڑھ جاتے پھر ہوا کو حکم دیتے وہ آپ کو بلندی پر لے جاتی آپ اس وقت سرنیچا کرلیتے دائیں بائیں بالکل نہ دیکھتے اس میں آپ کی تواضع اور اللہ کی شکر گزاری مقصود ہوتی تھی ۔ کیونکہ آپ کو اپنی فروتنی کا علم تھا ۔ پھر جہاں آپ حکم دیتے وہیں ہوا آپ کو اتار دیتی ۔ اسی طرح سرکش جنات بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کے قبضے میں کردیئے تھے جو سمندروں میں غوطے لگا کرموتی اور جواہر وغیرہ نکال لایا کرتے تھے اور بھی بہت سے کام کاج کرتے تھے جیسے فرمان ہے آیت ( وَالشَّيٰطِيْنَ كُلَّ بَنَّاۗءٍ وَّغَوَّاصٍ 37ۙ ) 38-ص:37 ) ہم نے سرکش جنوں کو ان کا ماتحت کردیا تھا جو معمار تھے اور غوطہ خور ۔ اور ان کے علاوہ اور شیاطین بھی ان کے ماتحت تھے جو زنجیروں میں بندھے رہتے تھے اور ہم ہی سلیمان کے حافظ ونگہبان تھے کوئی شیطان انہیں برائی نہ پہنچا سکتا تھا بلکہ سب کے سب ان کے ماتحت فرماں بردار اور تابع تھے کوئی ان کے قریب بھی نہ پھٹک سکتا تھا کی آپ کی حکمرانی ان پر چلتی تھی جسے چاہتے قید کرلیتے جسے چاہتے آزاد کردیتے اسی کو فرمایا کہ اور جنات تھے جو جکڑے رہا کرتے تھے ۔
[٦٥] اس آیت میں نفش کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنی رات کے وقت بکریوں کے بغیر چرواہے کے چرنے کے لئے منتشر ہونا ہے۔ (مفردات القرآن) ہوا یہ تھا کہ کچھ لوگوں کی بکریاں کسی کھیتی کو رات کے وقت چر کر اجاڑ گئی تھیں۔ کھیتی والے نے داؤد (علیہ السلام) کی عدالت میں دعویٰ دائر کردیا۔ آپ نے مدعا علیہ کو بلایا تو اس نے واقعہ کا اعتراف کرلیا۔ اب از روئے انصاف و قانون پورا ہر جانہ بکریوں کے مالک پڑتا تھا۔ اس سلسلہ میں شرعی قاعدہ یا قانون درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔- حضرت براء بن عازب کی اونٹنی ایک باغ میں گھس گئی اور اسے خراب کیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ دن کو باغوں کی نگہبانی باغ والوں کے ذمہ ہے۔ اور رات کو جو مویشی خراب کریں تو ان کے مالک ان کا ہر جانہ دیں۔ (مالک، ابو داؤد، ابن ماجہ بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب البیوع، باب الغصب والناریہ فصل ثانی)- اور یہی شرعی دعوہ اس دور میں بھی تھا اب یہ اتفاق کی بات تھی کہ جتنا کھیتی کا نقصان ہوا تھا اس کی قیمت کے لگ بھگ بکریوں کی قیمت بنتی تھی۔ چناچہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے یہ فیصلہ کیا کہ بکریوں والا اپنی بکریاں کھیتی والے کو دے دے۔ تاکہ اس کے نقصان کی تلافی ہوجائے۔ حضرت سلیمان بھی پاس موجود تھے انہوں نے اس فیصلہ سے اختلاف کیا اور کہا کہ میرے خیال میں یہ فیصلہ یوں ہونا چاہئے کہ بکریوں والا اپنی بکریاں کھیتی کو دے دے مگر یہ بکریاں کھیتی والے کے پاس بطور رہن ہوں گی۔ کھیتی والا ان کی پرورش بھی کرے اور ان سے دودھ اور اون وغیرہ کے فوائد بھی حاصل کرے۔ اور اس دوران بکریوں والا کھیتی کی نگہداشت کرکے اور اس کی آبپاشی کرے تاآنکہ وہ کھیتی اپنی پہلی سی حالت پر آجائے اور جب کھیتی پہلی حالت پر آجائے تو بکریوں والے کو اس کی بکریاں واپس کردی جائیں۔ اس فیصلہ سے کھیتی والے کے نقصان کی بھی تلافی ہوجاتی تھی اور بکریوں والے کا بھی کچھ زیادہ نقصان نہیں ہوتا تھا۔ لہذا سلیمان (علیہ السلام) کے اس فیصلہ کو حضرت داؤد نے بھی درست تسلیم کیا اور اپنے فیصلہ سے رجوع کرلیا۔ یہی وہ فیصلہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ فیصلہ سلیمان (علیہ السلام) کو ہم نے سمجھایا تھا۔
وَدَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ اِذْ يَحْكُمٰنِ فِي الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ ۔۔ : ” نَفَشَتْ “ کا معنی ہے جانوروں کا رات کو کھیت میں پھیل جانا اور اس کی کھیتی اور پودوں کو کھا جانا۔ ” غَنَمُ “ کا لفظ بھیڑ بکری دونوں پر آتا ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) کو عطا کردہ نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ پہلے وہ نعمت ذکر فرمائی جو دونوں کو عطا ہوئی تھی اور جو بعد میں آنے والی تمام نعمتوں سے افضل ہے، چناچہ فرمایا : (وَكُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا وَّعِلْمًا) ” حُكْمًا “ سے مراد قوت فیصلہ ہے اور ” عِلْمًا “ سے مراد علم شریعت ہے۔- 3 ان آیات کی تفسیر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہیں آئی، البتہ ابن جریر نے ابن مسعود (رض) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے اس آیت کے متعلق فرمایا : ( کَرْمٌ قَدْ أَنْبَتَتْ عَنَاقِیْدُہُ فَأَفْسَدَتْہُ الْغَنَمُ قَالَ فَقَضَی دَاوٗدُ بالْغَنَمِ لِصَاحِبِ الْکَرْمِ فَقَالَ سُلَیْمَانُ غَیْرُ ھٰذَا یَا نَبِیَّ اللّٰہِ قَالَ وَمَا ذٰلِکَ ؟ قَالَ تَدْفَعُ الْکَرْمَ اِلٰی صَاحِبِ الْغَنَمِ فَیَقُوْمُ عَلَیْہِ حَتّٰی یَعُوْدَ کَمَا کَانَ وَتَدْفَعَ الْغَنَمَ اِلٰی صَاحِبِ الْکَرْمِ فَیُصِیْبَ مِنْھَا حَتّٰی إِذَا عَادَ الْکَرْمَ کَمَا کَانَ دَفَعْتَ الْکَرْمَ اِلٰی صَاحِبِہِ وَدَفَعْتَ الْغَنَمَ اِلٰی صَاحِبِھَا قَال اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ : (فَفَهَّمْنٰهَا سُلَيْمٰنَ ۚ وَكُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا وَّعِلْمًا ) ” یہ انگور کی بیلیں تھیں جن کے گچھے نکل چکے تھے، جنھیں بھیڑ بکریوں نے اجاڑ دیا تھا۔ فرماتے ہیں کہ داؤد (علیہ السلام) نے فیصلہ فرمایا کہ بھیڑ بکریاں انگور کی بیلوں کے مالک کو دے دی جائیں، تو سلیمان (علیہ السلام) نے کہا : ” اے اللہ کے نبی اس کا فیصلہ اور ہے۔ “ انھوں نے پوچھا : ” وہ کیا ہے ؟ “ عرض کی : ” آپ انگور کی بیلیں بھیڑ بکریوں والے کے حوالے کردیں، وہ ان کی نگہداشت کرے جب تک وہ دوبارہ پہلے جیسی نہ ہوجائیں اور بھیڑ بکریاں انگور کی بیلوں والے کے حوالے کردیں وہ اس وقت تک ان سے فائدہ اٹھاتا رہے اور جب انگوروں کی بیلیں پہلی حالت پر لوٹ آئیں تو آپ انگوروں کی بیلیں اس کے مالک کے سپرد اور بھیڑ بکریاں اس کے مالک کے سپرد کردیں۔ “ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” تو ہم نے وہ (فیصلہ) سلیمان کو سمجھا دیا اور ہم نے ہر ایک کو حکم اور علم عطا کیا۔ “ ابن کثیر کے محقق دکتور حکمت بن بشیر نے فرمایا : ” حاکم نے اسے روایت کرکے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ [ مستدرک : ٢؍ ٥٨٨، ح : ٤١٣٨ ] (اس سند میں ابو اسحاق کی تدلیس موجود ہے) ۔ “ دکتور حکمت بن بشیر لکھتے ہیں : ” طبری نے صحیح سند کے ساتھ مجاہد کا یہی قول نقل فرمایا ہے اور قتادہ اور ابن زید کا یہی قول صحیح سند کے ساتھ مسند عبد الرزاق میں بھی مروی ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے یہ واقعہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم داؤد اور سلیمان کے فیصلے کے وقت حاضر تھے، یعنی ہمیں اس کی ایک ایک جزئی کا پورا علم ہے۔ اگرچہ ابن مسعود (رض) نے یہ تفسیر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سننے کی صراحت نہیں کی، تاہم واقعہ کی صورت وہی معلوم ہوتی ہے جو انھوں نے بیان کی ہے۔ اس لیے بھی کہ بائبل میں اس واقعہ کا ذکر نہیں اور نہ یہ یہودی لٹریچر میں معروف ہے اور پھر عبداللہ بن مسعود (رض) اسرائیلیات بیان کرنے میں معروف بھی نہیں ہیں۔- 3 داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) دونوں میں سے ہر ایک کا فیصلہ ان کا اجتہاد تھا، کیونکہ اگر وہ وحی سے ہوتا تو داؤد (علیہ السلام) کے فیصلے کے بعد اور فیصلے کی گنجائش نہ ہوتی۔ انبیاء بھی اجتہاد فرماتے ہیں مگر ان کے اجتہاد اور دوسرے لوگوں کے اجتہاد میں یہ فرق ہے کہ انبیاء کے اجتہاد میں اگر کوئی خطا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کردیتا ہے، جیسا کہ یہاں سلیمان (علیہ السلام) کے فیصلے کے ساتھ اس کی اصلاح فرما دی اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا : (عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ ۚ لِمَ اَذِنْتَ ) [ التوبۃ : ٤٣ ] ” اللہ نے تجھے معاف کردیا، تو نے انھیں کیوں اجازت دی۔ “ اور فرمایا : (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ ) [ التحریم : ١ ] ” اے نبی تو کیوں حرام کرتا ہے جو اللہ نے تیرے لیے حلال کیا ہے ؟ “ اگر کسی بات پر اللہ تعالیٰ خاموشی اختیار فرمائے، تو وہ اللہ تعالیٰ کی موافقت کی وجہ سے حق ہوتی ہے اور وحی کا حکم رکھتی ہے، یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : ( وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى ۭاِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى) [ النجم : ٣، ٤ ] کا۔ انبیاء ( علیہ السلام) کے سوا کسی مجتہد کی خطا کی بذریعہ وحی اصلاح نہیں ہوتی، اس لیے ان کے اجتہادات شریعت میں حجت نہیں ہیں۔- 3 مسئلہ : اگر کسی کے جانور دن کے وقت کسی دوسرے کے کھیت یا باغ کو چر جائیں تو جانور والے پر کوئی تاوان نہیں ہے اور اگر رات کے وقت چر جائیں تو جس قدر نقصان ہو اس قدر تاوان جانور والے کے ذمے ہوگا، جیسا کہ براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ میری ایک اونٹنی تھی جو بہت نقصان کیا کرتی تھی، ایک دفعہ وہ ایک باغ میں داخل ہوگئی اور وہاں نقصان کردیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بارے میں بات کی گئی تو آپ نے فیصلہ فرمایا : ” دن کے وقت باغات کی نگرانی اور حفاظت ان کے مالکوں کے ذمے ہے اور رات کے وقت جانوروں کی نگرانی ان کے مالکوں کے ذمے ہے اور رات کے وقت جانور جو نقصان کر جائیں تو وہ ان کے مالکوں کے ذمے ہے (کہ اسے پورا کریں) ۔ “ [ أبو داوٗد، الإجارۃ، باب المواشی تفسد زرع قوم : ٣٥٧٠۔ ابن ماجہ : ٢٣٣٢۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ١؍٢٣٧، ح : ٢٣٨ ] بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ جانور والے پر کسی صورت تاوان نہیں ہے اور دلیل میں ” اَلْعَجْمَاءُ جُرْحُھَا جُبَارٌ“ (جانور کا کسی کو زخمی کردینا معاف ہے) پیش کرتے ہیں، حالانکہ اس حدیث میں صرف زخم کے معاف ہونے کا ذکر ہے، کھیت کے نقصان کے معاف ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا براء بن عازب (رض) والی حدیث میں اور اس میں کوئی تعارض نہیں ہے کہ براء (رض) کی حدیث کو منسوخ کہا جائے۔ (قرطبی)- 3 اس آیت سے اس حدیث کی تائید ہوتی ہے جو عمرو بن العاص (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَھَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَہٗ أَجْرَانِ وَإِذَا حَکَمَ فَاجْتَھَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَہٗ أَجْرٌ ) [ بخاري، الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب أجر الحاکم إذا اجتھد۔۔ : ٧٣٥٢ ] ” جب حاکم فیصلہ کرے اور پوری کوشش کرے، پھر درست فیصلہ کرے تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور جب وہ فیصلہ کرے اور پوری کوشش کرے، پھر خطا کر جائے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔ “ یہاں اللہ تعالیٰ نے اگرچہ ”ڎفَفَهَّمْنٰهَا سُلَيْمٰنَ “ (ہم نے وہ فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا) کہہ کر سلیمان (علیہ السلام) کے فیصلے کی تائید فرمائی، مگر داؤد اور سلیمان دونوں کے متعلق فرمایا : (ۚ وَكُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا وَّعِلْمًا ) کہ ہم نے ہر ایک کو حکم اور علم عطا کیا۔- 3 ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سلیمان (علیہ السلام) کے کمال فہم و ذکاوت کا ایک اور واقعہ روایت کیا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کَانَتِ امْرَأَتَانِ مَعَھُمَا ابْنَاھُمَا جَاء الذِّءْبُ فَذَھَبَ بابْنِ إِحْدَاھُمَا فَقَالَتْ صَاحِبَتُھَا إِنَّمَا ذَھَبَ بابْنِکِ ، وَقَالَتِ الْأُخْرَی إِنَّمَا ذَھَبَ بابْنِکِ ، فَتَحاکَمَتَا إِلٰی دَاوٗدَ فَقَضَی بِہِ لِلْکُبْرٰی، فَخَرَجَتَا عَلٰی سُلَیْمَانَ بْنِ دَاوٗدَ عَلَیْھِمَا السَّلاَمُ فَأَخْبَرَتَاہٗ فَقَالَ اءْتُوْنِيْ بالسِّکِّیْنِ أَشُقُّہُ بَیْنَھُمَا، فَقَالَتِ الصُّغْرٰی لاَ تَفْعَلْ یَرْحَمُکَ اللّٰہُ ، ھُوَ ابْنُھَا، فَقَضَی بِہِ لِلْصُّغْرٰی ) [ بخاري، الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : ( ووھبنا لداوٗد سلیمان ۔۔ ) : ٣٤٢٧۔ مسلم : ١٧٢٠۔ نسائی : ٥٤٠٥ ] ” دو عورتیں تھیں جن کے پاس ان کے بیٹے تھے۔ بھیڑیا آیا اور ان میں سے ایک کے بیٹے کو لے گیا۔ وہ اپنی ساتھی عورت سے کہنے لگی کہ وہ تو تمہارا بیٹا لے گیا ہے۔ دوسری کہنے لگی، وہ تمہارا بیٹا ہی لے گیا ہے۔ چناچہ وہ دونوں فیصلے کے لیے داؤد (علیہ السلام) کے پاس گئیں۔ انھوں نے اس کا فیصلہ بڑی کے حق میں کردیا۔ دونوں جاتے ہوئے سلیمان بن داؤد ( علیہ السلام) کے پاس سے گزریں تو انھیں یہ بات بتائی، انھوں نے فرمایا : ” میرے پاس چاقو لاؤ، میں اسے دونوں کے درمیان چیر دوں۔ “ تو چھوٹی نے کہا : ” ایسا نہ کریں، اللہ آپ پر رحم کرے، یہ اسی کا بیٹا ہے۔ “ چناچہ انھوں نے اس کا فیصلہ چھوٹی کے حق میں کردیا۔ “ امام نسائی نے اس حدیث پر باب باندھا ہے کہ حاکم کے لیے گنجائش ہے کہ جو کام اس نے نہیں کرنا، اس کے متعلق کہے کہ میں ایسا کرتا ہوں، تاکہ حق واضح ہوجائے۔- 3 اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض اوقات بیٹا باپ سے زیادہ بات سمجھ لیتا ہے، اس میں کفار عرب کے لیے بھی سبق ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رہنمائی کے باوجود آبا و اجداد کی رسوم چھوڑنے پر تیار نہ تھے اور ان مقلدین کے لیے بھی جنھوں نے چار اماموں کے بعد اجتہاد کا دروازہ قیامت تک کے لیے بند کردیا ہے۔ بتائیے اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے فیض عام کی توہین اور کیا ہوگی ؟- وَّسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ : اس سے پہلے ابراہیم اور نوح (علیہ السلام) کی خاطر آگ اور پانی کو مسخر کرنے کا ذکر فرمایا تھا۔ اب داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) دونوں پر مشترکہ نعمت حکم و علم کا ذکر کرنے کے بعد دونوں کو عطا کردہ نعمتیں الگ الگ ذکر فرمائیں۔ چناچہ داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر اور پابند کردیا اور انھیں اتنی خوبصورت آواز عطا فرمائی کہ جب وہ اللہ کی کتاب زبور پڑھتے یا تسبیح کرتے تو پہاڑ اور پرندے بھی ان کے ساتھ تسبیح کرتے۔ سورة سبا میں فرمایا : (يٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَهٗ وَالطَّيْرَ ) [ سبا : ١٠ ] ” اے پہاڑو اس کے ساتھ تسبیح کو دہراؤ اور پرندوں کو بھی (یہی حکم دیا) ۔ “ سورة صٓ میں فرمایا : (اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ 18ۙوَالطَّيْرَ مَحْشُوْرَةً ۭ كُلٌّ لَّهٗٓ اَوَّابٌ ) [ ص : ١٨، ١٩ ] ” بیشک ہم نے پہاڑوں کو اس کے ہمراہ مسخر کردیا، وہ دن کے پچھلے پہر اور سورج چڑھنے کے وقت تسبیح کرتے تھے اور پرندوں کو بھی، جب کہ وہ اکٹھے کیے ہوتے، سب اس کے لیے رجوع کرنے والے تھے۔ “ سبحان اللہ وہ کیسا حسین منظر ہوگا جب اللہ کے نبی داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ پہاڑ اور پرندے بھی مصروف تسبیح ہوتے ہوں گے۔ بعض لوگوں نے پہاڑوں کی تسبیح کا مطلب داؤد (علیہ السلام) کی بلند اور سریلی آواز سے ان کا گونج اٹھنا اور پرندوں کی تسبیح سے مراد ان کا ٹھہر جانا قرار دیا ہے، مگر درحقیقت یہ پہاڑوں اور پرندوں کی ان کے ہمراہ تسبیح کو ناممکن سمجھ کر اس کا انکار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ چیز داؤد (علیہ السلام) پر خاص نعمت کے طور پر ذکر فرمائی ہے، پہاڑوں کی گونج تو ہر بلند آواز سے پیدا ہوتی ہے، اچھی ہو یا بری، اس میں داؤد (علیہ السلام) کی خصوصیت کیا ہوئی ؟ اس لیے صحیح معنی یہی ہے کہ پہاڑ اور پرندے فی الواقع ان کے ہمراہ تسبیح کرتے تھے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٤٤) ۔ ۭ وَكُنَّا فٰعِلِيْنَ : یعنی تعجب مت کرو کہ وہ پہاڑ اور پرندے کیسے بولتے اور تسبیح کرتے تھے، یہ سب کچھ ہمارے کرنے سے ہوتا تھا۔ (کبیر)
خلاصہ تفسیر - اور داؤد اور سلیمان (علیہما السلام کے قصہ) کا تذکرہ کیجئے جبکہ دونوں (حضرات) کسی کھیت کے بارے میں (جس میں غلہ تھا یا انگور کے درخت تھے کذا فی الدر المنثور) فیصلہ کرنے لگے جبکہ اس (کھیت میں کچھ لوگوں) کی بکریاں رات کے وقت جا پڑیں ( اور اس کو چر گئیں) اور ہم اس فیصلہ کو جو (مقدمہ والے) لوگوں کے متعلق ہوا تھا دیکھ رہے تھے سو ہم نے اس فیصلہ (کی آسان صورت) کی سمجھ سلیمان کو دے دی اور (یوں) ہم نے دونوں (ہی) کو حکمت اور علم عطا فرمایا تھا (یعنی داؤد (علیہ السلام) کا فیصلہ بھی خلاف شرع نہ تھا صورت مقدمہ کی یہ تھی کہ جس قدر کھیت کا نقصان ہوا تھا اس کی لاگت بکریوں کی قیمت کے برابر تھی۔ داؤد (علیہ السلام) نے ضمان میں کھیت والے کو وہ بکریاں دلوا دیں اور اصل قانون شرعی کا یہی مقتضا تھا جس میں مدعی یا مدعا علیہ کی رضا کی شرط نہیں مگر چونکہ اس میں بکری والوں کا بالکل ہی نقصان ہوتا تھا اس لئے سلیمان (علیہ السلام) نے بطور مصالحت کے جو کہ موقوف تھی جانبین کی رضا مندی پر یہ صورت جس میں دونوں کی سہولت اور رعایت تھی تجویز فرمائی کہ چند روز کے لئے بکریاں تو کھیت والے کو دی جاویں کہ ان کے دودھ وغیرہ سے اپنا گزر کرے اور بکری والوں کو وہ کھیت سپرد کیا جاوے کہ اس کی خدمت آب پاشی وغیرہ سے کریں جب کھیت پہلی حالت پر آجاوے کیھت اور بکریاں اپنے اپنے مالکوں کو دے دیجاوی۔ کذا فی الدر المنثور عن مرة و ابن مسعود و مسروق و ابن عباس و مجاہد و قتادہ و الزہری۔ پس اس سے معلوم ہوگیا کہ دونوں فیصلوں میں کوئی تعارض نہیں کہ ایک کی صحت دوسرے کی عدم صحت کو مققضی ہو اس لئے كُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا وَّعِلْمًا بڑھا دیا گیا) اور (یہاں تک تو کرامت عامہ کا ذکر تھا جو دونوں حضرات میں مشترک تھی آگے دونوں حضرات کی خاص خاص کرامتوں کا بیان ہے) ہم نے داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ تابع کردیا تھا پہاڑوں کو کہ (ان کی تسبیح کے ساتھ) وہ (بھی) تسبیح کیا کرتے تھے اور (اسی طرح) پرندوں کو بھی (جیسا سورة سبا میں ہے يٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَهٗ وَالطَّيْرَ ) اور (کوئی اس بات پر تعجب نہ کرے کیونکہ ان کاموں کے) کرنے والے ہم تھے (اور ہماری قدرت کا عظیم ہونا ظاہر ہے پھر ان معجزات میں تعجب ہی کیا ہے) اور ہم نے ان کو زرہ (بنانے) کی صنعت تم لوگوں کے (نفع کے) واسطے سکھلائی (یعنی) تاکہ وہ (زرہ) تم کو (لڑائی میں) ایک دوسرے کی زد سے بچائے (اور اس نفع عظیم کا مقتضا یہ ہے کہ تم شکر کرو) سو تم (اس نعمت کا) شکر کرو گے بھی (یا نہیں) اور ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کا تیز ہوا کو تابع بنادیا تھا کہ وہ ان کے حکم سے اس سر زمین کی طرف کو چلتی جس میں ہم نے برکت کر رکھی ہے (مراد ملک شام ہے جو ان کا مسکن تھا کذا فی الدر عن السدی ویدل علیہ عمارتہ بیت المقدس یعنی جب ملک شام سے کہیں چلے جاتے اور پھر آتے تو یہ آنا اور اسی طرح جانا بھی ہوا کے ذریعہ سے ہوتا تھا جیسا در منثور میں بروایت و تصحیح حاکم حضرت ابن عباس سے اس کی کیفیت مروی ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) مع اعیان ملک کے کرسیوں پر بیٹھ جاتے پھر ہوا کو بلا کر حکم دیتے وہ سب کو اٹھا کر تھوڑی دیر میں ایک ایک ماہ کی مسافت قطع کرتی) اور ہم ہر چیز کو جانتے ہیں (ہمارے علم میں سلیمان کو یہ چیزیں دینے میں حکمت تھی اس لئے عطا فرمائی) اور بعضے بعضے شیطان (یعنی جن) ایسے تھے کہ سلیمان (علیہ السلام) کے لئے (دریاؤں میں) غوطے لگاتے تھے (تاکہ موتی نکال کر ان کے پاس لا دیں) اور وہ اور کام بھی اس کے علاوہ (سلیمان کے لئے) کیا کرتے تھے اور (گو وہ جن بڑے سرکش اور شریر تھے مگر) ان کے سنبھالنے والے ہم تھے (اس لئے وہ چوں نہیں کرسکتے تھے) - معارف ومسائل - نَفَشَتْ فِيْهِ غَنَمُ الْقَوْمِ ، لفظ نفش کے معنی عربی لغت کے اعتبار سے یہ ہیں کہ رات کے وقت کوئی جانور کسی کے کھیت پر جا پڑے اور نقصان پہنچائے۔
وَدَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ اِذْ يَحْكُمٰنِ فِي الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِيْہِ غَنَمُ الْقَوْمِ ٠ۚ وَكُنَّا لِحُـكْمِہِمْ شٰہِدِيْنَ ٧٨ۤۙ- داود - داود اسم أعجميّ.- ( د و د ) داؤد ) (علیہ السلام) یہ عجمی نام ہے اور عجمہ وعلمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے )- حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔- حرث - الحَرْث : إلقاء البذر في الأرض وتهيّؤها للزرع، ويسمّى المحروث حرثا، قال اللہ تعالی:- أَنِ اغْدُوا عَلى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صارِمِينَ [ القلم 22] ، وتصوّر منه معنی العمارة التي تحصل عنه في قوله تعالی: مَنْ كانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ، وَمَنْ كانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيا نُؤْتِهِ مِنْها وَما لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ [ الشوری 20] ، وقد ذکرت في ( مکارم الشریعة) كون الدنیا مَحْرَثا للناس، وکونهم حُرَّاثاً فيها وكيفية حرثهم «1» .- وروي : «أصدق الأسماء الحارث» «2» وذلک لتصوّر معنی الکسب منه، وروي : «احرث في دنیاک لآخرتک» «3» ، وتصوّر معنی التهيّج من حرث الأرض، فقیل : حَرَثْت النّار، ولما تهيّج به النار محرث، ويقال : احرث القرآن، أي : أكثر تلاوته، وحَرَثَ ناقته : إذا استعملها، وقال معاوية «4» للأنصار : ما فعلت نواضحکم ؟ قالوا : حرثناها يوم بدر . وقال عزّ وجلّ : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ [ البقرة 223] ، وذلک علی سبیل التشبيه، فبالنساء زرع ما فيه بقاء نوع الإنسان، كما أنّ بالأرض زرع ما به بقاء أشخاصهم، وقوله عزّ وجل : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ، يتناول الحرثین .- ( ح ر ث ) الحرث ( ن ) کے معنی زمین میں بیج ڈالنے اور اسے زراعت کے لئے تیار کرنے کے پاس اور کھیتی کو بھی حرث کہاجاتا ہے ۔ قرآں میں ہے ؛۔ أَنِ اغْدُوا عَلى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صارِمِينَ [ القلم 22] کہ اگر تم کو کاٹنا ہے تو اپنی کھیتی پر سویری ہی جا پہنچو۔ اور کھیتی سے زمین کی آبادی ہوئی ہے اس لئے حرث بمعنی آبادی آجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ مَنْ كانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ، وَمَنْ كانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيا نُؤْتِهِ مِنْها وَما لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ [ الشوری 20] جو شخص آخرت کی کھیتی کا طلب گار ہے اس کو ہم اس میں سے دے دیں گے ۔ اور جو دنیا کی کھیتی کا کو خواستگار ہو اس کو ہم اس میں سے دے دیں گے اور اس کا آخرت میں کچھ حصہ نہ ہوگا ۔ اور ہم اپنی کتاب مکارم الشریعہ میں دنیا کے کھیتی اور لوگوں کے کسان ہونے اور اس میں بیج بونے کی کیفیت تفصیل سے بیان کرچکے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے (72) اصدق الاسماء الحارث کہ سب سے سچا نام حارث ہے کیونکہ اس میں کسب کے معنی پائے جاتے ہیں ایک دوسری روایت میں ہے (75) اثرث فی دنیاک لآخرتک کہ اس دنیا میں آخرت کے لئے کاشت کرلو ۔ حرث الارض ( زمین کرنا ) سے تھییج بھڑکانا کے معنی کے پیش نظر حرثت النار کہا جاتا ہے میں نے آگ بھڑکائی اور جس لکڑی سے آگ کریدی جاتی ہے اسے محرث کہا جاتا ہے ۔ کسی کا قول ہے ۔ احرث القرآن یعنی قرآن کی خوب تحقیق سے کام لو ۔ حرث ناقتہ اونٹنی کو کام اور محنت سے دبلا کردیا ۔ حضرت معاویہ نے انصار سے دریافت کیا کہ تمہارے پانی کھیچنے والے اونٹ کیا ہوئے تو انہوں نے جواب دیا :۔ حرثنا ھا یوم بدر کہ ہم نے بدر کے دن انہیں دبلا کردیا ۔ اور آیت کریمہ ؛ نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ [ البقرة 223] تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ ۔ میں استعارۃ عورتوں کو حرث کہا ہے کہ جس طرح زمین کی کاشت پر افراد ا انسبائی بقا کا مدار ہے اس طرح نوع انسان اور اس کی نسل کا بقا عورت پر ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو ( برباد ) اور انسانوں اور حیوانوں کی ) نسل کو قابو کردے ۔ دونوں قسم کی کھیتی کو شامل ہے۔- نفش - النَّفْشُ نَشْرُ الصُّوفِ. قال تعالی: كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوشِ [ القارعة 5] ونَفْشُ الغَنَمِ : انْتِشَارُهَا، والنَّفَشُ بالفتح : الغَنَمُ المُنْتَشِرَةُ. قال تعالی: إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ [ الأنبیاء 78] والإِبِلُ النَّوَافِشُ : المُتَرَدِّدَةُ لَيْلًا فِي المَرْعَى بِلَا رَاعٍ.- ( ن ف ش ) النفش ( ن ) کے معنی اون دھنکنے اور پھیلانے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوشِ [ القارعة 5] جیسے دھنکی ہوئی ہوئی رنگ برنگ کی اون ۔ نفس الغنم رات کے وقت بکریوں کا بغیر چرا ہے کے ( چر نے کے لئے منتشر ہونا ۔ النفس ( بفتح لفا اسم وہ بکریاں جو ارت کو بغیر چرواہے کے چرنے کے لئے منتشر ہوگئی ہوں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ [ الأنبیاء 78] جس میں کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو چر گئیں الابل النوا فش رات کو بغیر چر واہا ہے کہ چرنے والے اونٹ ۔- غنم - الغَنَمُ معروف . قال تعالی: وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما [ الأنعام 146] . والغُنْمُ : إصابته والظّفر به، ثم استعمل في كلّ مظفور به من جهة العدی وغیرهم . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنفال 41] ، فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالًا طَيِّباً [ الأنفال 69] ، والمَغْنَمُ : ما يُغْنَمُ ، وجمعه مَغَانِمُ. قال : فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ كَثِيرَةٌ [ النساء 94] .- ( غ ن م ) الغنم - بکریاں ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما [ الأنعام 146] اور گائیوں اور بکریوں سے ان کی چربی حرام کردی تھی ۔ الغنم کے اصل معنی کہیں سے بکریوں کا ہاتھ لگنا ۔ اور ان کو حاصل کرنے کے ہیں پھر یہ لفظ ہر اس چیز پر بولا جانے لگا ہے ۔ جو دشمن یا غیر دشمن سے حاصل ہو ۔ قرآن میں ہے : وَاعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنفال 41] اور جان رکھو کہ جو چیز تم کفار سے لوٹ کر لاؤ ۔ فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالًا طَيِّباً [ الأنفال 69] جو مال غنیمت تم کو ہے اسے کھاؤ کہ تمہارے لئے حلال طیب ہے ۔ المغنم مال غنیمت اس کی جمع مغانم آتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ كَثِيرَةٌ [ النساء 94] سو خدا کے پاس بہت سی غنیمتں ہیں ۔- شهد - وشَهِدْتُ يقال علی ضربین :- أحدهما - جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول :- أشهد . والثاني يجري مجری القسم،- فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، - ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ - شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے
ایک کھیت کے بارے میں سلیمان کا فیصلہ - قول باری ہے (وداود و سلیمان اذ یحکما ن فی الحرث اذ نفشت فیہ غنم القوم و کنا لحکمھم شاھدین ففھمنا ھا سلیمان وکلا اتینا حکماً و علماً اور اس نعمت سے ہم نے دائود و سلیمان کو سرفراز کیا۔ یاد کرو وہ موقع جب کہ وہ دونوں ایک کھیت کے مقدمے میں فیصد کر رہے تھے جس میں رات کے وقت دوسرے لوگوں کی بکریاں پھیل گئی تھیں اور ہم ان کی عدالت کو دیکھ رہے تھے۔ اس وقت ہم نے صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا حالانکہ حکم اور علم ہم نے دونوں ہی کو عطا کیا تھا) ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق مروزی نے روایت بیان کی، انہیں الحسن بن ابی ربیع جرجانی نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے اور انہوں نے قتادہ سے کہ قول باری (نفشت فیہ غنم القوم) کا مفہوم ہے کہ لوگوں کی بکریاں کھیت میں گھس گئی تھیں۔ معمر کہتے ہیں کہ زہری نے فرمایا : نفش صرف رات کے وقت ہوتا ہے اور ھمل دن کے وقت۔ “ قتادہ کا قول ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ یہ بکریاں کھیت والے اپنے قبضے میں کرلیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے صحیح فیصلہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو سمجھا دیا ۔ جب آپ کو حضرت دائود (علیہ السلام) کے فیصلے کی خبر ملی تو آپ نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا کہ کھیت والے ان بکریوں کو پکڑ لیں گے اور انہیں ایک سال تک اپنے قبضے میں رکھ کر ا ن کے دودھ ان کے بچوں اور ان کے اون سے فائدہ اٹھائیں گے۔- ابو اسحاق نے مرہ سے اور انہوں نے مسروق سے قول باری (وداودو سلیماق) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ اگنور کی بیلوں کا کھیت تھی، رتا کے وقت بکریاں اس میں پھیل گئیں۔ کھیت والوں نے حضرت دائود (علیہ السلام) کے پاس استغاثہ دائر کردیا، آپ نے فیصلہ دیا کہ بکریاں کھیت والوں کے حوالے کردی جائیں، پھر یہ لوگ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس سے گزرے اور ان سے اس فیصلے کا ذکر کیا۔ آپ نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ بکریاں کھیت والوں کے حوالے کردی جائیں گی۔ وہ ان سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے، بکریوں والے کھیت میں کام کریں گے یہاں تک کہ جب اس جیسی فصل تیا رکر لیں گے جو بکریوں کے چرجانے کے وقت تھی تو بکریاں ان کے حوالے کردی جائیں گی۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی (ففھمنا ھا سلیمان) علی بن زید نے حسن سے، انہوں نے احنف سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت دائود اور سلیمان (علیہما السلام) کے اس واقعہ کے سلسلے میں اس قسم کی روایت کی ہے۔- کسی کے مویشی کسی اور کے کھیت میں چر جائیں تو کیا فیصلہ ہوگا ؟- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ بعض حضرات کا قول ہے کہ اگر رات کے وقت بھیڑ بکریاں کسی شخص کا کھیت چر جائیں اور اسے اجاڑ دیں تو ان کے مالک پر اس نقصان کا تاوان عائد ہوگا لیکن اگر دن کے وقت بھیڑ بکریاں کھیت میں گھس کر فصل کو اجاڑ دیں تو مالک پر کوئی تاوان عائد نہیں ہوگا۔ ہمارے اصحاب کے نزدیک ایسا واقعہ خواہ دن کے وقت پیش آئے یا رتا کے وقت مالک پر کوئی تاوان عائد نہیں ہوگا بشرطیکہ مالک نے ان جانوروں کو خود نہ بھیجا ہو۔ جو لوگ پہلے مسلک کے قائل ہیں انہوں نے حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کے اس واقعہ سے استدلال کیا ہے۔ ان دونوں حضرات نے تاوان لینے پر اتفاق کیا تھا، ان کا استدلال اس روایت سے بھی ہے جسے ہمیں ابو دائود نے بیان کیا ہے، انہیں احمد بن محمد بن ثابت مروزی نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمر نے زہری سے، انہوں نے حرام بن محیصہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے کہ حضرت براء بن عازب کی ایک اونٹنی کسی شخص کے باغ میں داخل ہوگئی اور اسے اجاڑ دیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا فیصلہ سنایا کہ اموال کے مالکوں پر دن کے وقت ان کی حفاظت لازم ہے اور مویشیوں کے مالکوں پر رات کے وقت انہیں باندھ کر رکھنا ضروری ہے۔- ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں محمود بن خالد نے ، انہیں ا لفریابی نے زہری سے، انہوں نے حرام بن محیصہ انصاری سے اور انہوں نے حضرت براء بن عازب سے، وہ کہتے ہیں کہ ان کی ایک منہ زور اور بد خواونٹنی تھی ایک دن وہ ایک باغ میں گھس گئی اور وہاں تباہی مچا دی۔ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلے میں گفتگو کی۔ آپ نے یہ فصلہ سنایا کہ باغ کے مالکوں کی ذمہ داری ہے کہ دن کے وقت باغ کی حفاظت کریں اور مویشیوں کے مالکوں کی ذمہ داری ہے کہ رات کے وقت انہیں سنبھلایں یعنی باندھ کر رکھیں۔ اگر رات کے وقت کوئی چوپایہ کسی کا کچھ نقصان کرے گا تو اس کے مالک پر اس کا تاوان عائد ہوگا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ پہلی حدیث میں حرام بن محیصہ نے اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ حضرت براء بن عازب کی ایک اونٹنی تھی اور اس حدیث میں حرام بن محیصہ نے براہ راست حضرت براء سے روایت کی ہے، پہلی حدیث میں رات کے وقت چوپائے سے پہنچنے والے نقصان کے تاوان کا ذکر نہیں ہے اس میں صرف حفاظت کا ذکر ہے۔ یہ بات متن حدیث نیز اس کی سند میں اضطراب پر دلالت کرتی ہے۔ سفیان بن حسین نے زہری سے اور انہوں نے حرام بن محیصہ سے روایت کی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی قسم کا کوئی تاوان عائد نہیں کیا آپ نے اس موقع پر آیت (وداود و سلیمان اذا بحکمان فی الحرث) کی تلاوت فرمائی تھی۔- اہل علم کے مابین اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حضرت دائود اور سلیمان (علیہما السلام) نے اس سلسلے میں جو فیصلہ سنایا تھا وہ اب منسوخ ہے۔ وہ اس طرح کہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے بکریاں کھیت کے مالک کے حوالے کرنے کا فیصلہ دیا تھا جبکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ان بکریوں سے پیدا ہونے والے بچے اور بکریوں کا اون اس کے حوالے کرنے کا فیصلہ سنایا تھا اور مسلمانوں کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جس شخص کی بکریاں کسی کے کھیت میں گھس جائیں تو اس پر ان بکریوں کو نہ ان کے بچوں کو اور نہ ہی ان کا دودھ اور اون کھیت کے مالک کے حوالے کردینا واجب ہوتا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ دونوں فیصلے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی شریعت کی بنا پر منسوخ ہوچکے ہیں۔- اگر یہ کہا جائے کہ یہ واقعہ کئی احکام کو متضمن ہے، ایک یہ کہ بکریوں کے مالک پر تاوان و اجب ہوگیا، دوسرے یہ کہ تاوان کی کیفیت بیان کردی گئی۔ تاوان کی کیفیت تو منسوخ ہوگئی لیکن نفس تاوان منسو خ نہیں ہوا اس کے نسخ کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی ایک حدیث کی بنا پر تاوان کے نسخ کا ثبوت بھی مہیا ہوگیا ہے اس حدیث کو اہل علم نے قبول کر کے اس پر عمل بھی کیا ہے۔- حضرت ابوہریرہ اور ہزیل بن شرحبیل نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (العجاء جبار چوپائے کی وجہ سے پہنچنے والے نقصان کا کوئی تاوان نہیں) بعض طرق میں یہ الفاظ ہیں (جرح العجماء جبار چوپائے کے لگائے ہوئے زخم کا کوئی تاوان نہیں) اس حدیث پر عمل پیرا ہونے میں فقہاء کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے یعنی اگر کوئی چوپایہ رسی تڑا کر بھاگ نکلے اور کسی انسان یا مال کو نقصان پہنچا دے تو اس کے مالک پر کوئی تاوان عائد نہیں ہوگا بشرطیکہ مالک نے خود اسے نہ چھوڑا ہو جب اس حدیث پر سب کے نزدیک عمل ہوتا ہے اور اس کا عموم دن اور رات کے دوران پہنچنے والے نقصان کے تاوان کی نفی کرتا ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کے واقعہ کے سلسلہ میں جس حکم کا ذکر کیا گیا ہے وہ اب منسوخ ہے نیز حضرت بزء بن عازب کے واقعہ کے سلسلے میں رات کی صورت میں تاوان کے ایجاب کا جو ذکر ہے وہ بھی منسوخ ہے۔ تاوان کے موجب تمام اسباب میں رات یا دن کے لحاظ سے تاوان کے ایجاب یا اس کی نفی کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ جب سب کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ دن کے وقت چوپائے کی وجہ سے پہنچنے والے نقصان کا کوئی تاوان نہیں تو اس سے یہ ضروی ہوگیا کہ رات کے وقت کا حکم بھی ایسا ہی ہو۔- حضرت براء بن عازب کی روایت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تاوان واجب کردیا تھا۔ ممکن ہے کہ آپ نے تاوان صرف اس لئے واجب کردیا ہو کہ خود مالک نے اونٹنی کو ادھر جانے کے لئے کھول دیا تھا۔ سب کو یہ بات معلوم ہے کہ رتا کے وقت مویشیوں کو فصلوں اور باغات کے درمیان ہانک کرلے جانے کی صورت میں کچھ جانوروں کا فصلوں میں گھس جانا یقینی ہوتا ہے خواہ ہانک کرے جانے والے کو اس کا علم نہ بھی ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس روایت کے ذریعے ایسے ہی مویشیوں کا حکم بیان کردیا جب ان کی وجہ سے کسی کھیت اور فصل کو نقصان پہنچ گیا ہو اس روایت کا فائدہ یہ ہوا کہ اس کے ذریعے مویشیوں کو فصلوں کے بیچ سے ہانک کرلے جانے اور انہیں فصلوں میں چھوڑنے کی صورت میں تاوان واجب ہوجائے گا خواہ ہانکنے والے کو اس کا علم بھی نہ ہو، اس صورت میں علم ہوجانے اور نہ ہونے کی دونوں حالتوں کا حکم یکساں ہوگا۔ یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کا واقعہ بھی اسی نوعیت کا ہو کہ مالک نے رات کے وقت ان بکریوں کو چھوڑا ہو اور ہانک کرلے جا رہا ہو کہ بکریاں کھیت میں پھیل گئی ہوں اور اسے اس کا علم نہ ہوا ہو اور پھر اسی وجہ سے دونوں حضرت نے مال کپر تاوان واجب کردیا ہو۔ جب اس واقعہ میں یہ احتمال پیدا ہوگیا تو اب اختلافی نکتے پر اس کی دلالت ثابت نہیں ہوگی۔- اجتہادی فیصلے - اگر کوئی مجتہد کسی پیش آمدہ واقعہ کے متعلق اپنے اجتہاد کی روشنی میں کوئی حکم بیان کرتا ہے تو اس بارے میں اختلاف کرنے والے دو گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک گروہ کا قول ہے کہ حق ایک ہوتا ہے جبکہ دوسرے گروہ کا قول ہے کہ اس حکم سے اختلاف کرنے والے تمام لوگوں کے اقوال حق ہوتا ہے۔ یہ گروہ نے اپنے قول کے حق میں آیت سے استدلال کیا ہے۔ وہ اس طرح کہ جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ ایک کے قول میں ہوتا ہے ان کا خیال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا (ففھمنا سلیمان) تو اس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو مسئلہ کے درست فہم کے ساتھ مخصوص کردیا۔ حضرت دائود (علیہ السلام) کے بارے میں یہ بات نہیں فرمائی۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اللہ کے نزدیک حق تک رسائی حاصل کرنے والے تھے، دائود (علیہ السلام) نہیں تھے کیونکہ اگر حق دونوں حضرات کے قول میں ہوتا تو پھر صرف حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی تخصیص نہیں ہوتی اور حضرت دائود (علیہ السلام) کو نظر انداز کر کے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی تخصیص کا کوئی معنی نہ ہوتا۔ دوسرا گروہ جو ہر مجتہد کی رائے اور اس کے لگائے ہوئے حکم کو درست سمجھتا ہے اس کا کہنا یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود (علیہ السلام) کے دیئے ہوئے فیصلے پر ا ن کی تعفیف نہیں کی اور نہ ہی انہیں مخطی قرار دیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ دونوں حضرات اپنے اپنے قول میں مصیب اور حق راس تھے۔ تفہیم کے ساتھ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی تخصیص اس پر دلالت نہیں کرتی کہ حضرت دائود (علیہ السلام) غلطی پر تھے۔ وہ اس طرح کہ یہ کہنا درست ہے کہ حضرت سلیمان کو مطلوب کی حقیقت تک رسائی ہوگئی تھی اس لئے تفہیم کے ساتھ ان کی تخصیص کردی گئی اس کے برعکس حضرت دائود کو عین مطلوب تک رسائی نہیں ہوئی تھی اگرچہ انہیں جس چیز کا مکلف بنایا گیا تھا اس میں وہ مصیبت اور حق رسا تھے۔- بعض لوگوں کا یہ قول ہے کہ حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) دونوں نے بطریق نص فیصلہ سنایا تھا اس میں ان کے اجتہاد کو کوئی دخل نہیں تھا لیکن حضرت دائود نے قطعیت کے ساتھ حکم نہیں لگایا تھا اور نہ ہی انہوں نے اپنے اس فیصلے کو نافذ کیا تھا یا یہ کہ آپ کا یہ قول فتوی کے طور پر تھا اس فتویٰ پر مبنی فیصلے کو نافذ کرنے کے طورپر نہیں تھا یا یہ کہ فیصلہ ایک شرط کے ساتھ مشروط تھا جس کی ابھی تفصیل بیان نہیں ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو وحی کے ذریعے اس فیصلے سے آگاہ کردیا جو فیصلہ انہوں نے اس جھگڑے کے سلسلے میں سنایا تھا اور اس کے ذریعے اس حکم کو منسوخ کردیا جس کے نفاذ کا حضرت دائود (علیہ السلام) ارادہ کئے ہوئے تھے۔ ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ آیت میں اس امر پر کوئی دلالت موجود نہیں کہ ان دونوں حضرات نے رائے اور اجتہاد کی بنیاد پر اپنے اپنے فیصلے سنائے تھے۔ ان کے نزدیک قول باری (ففھمنا ھا سلیمان) کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو ناسخ حکم کی تفہیم عطا کردی تھی۔ یہ قول ان حضرات کا ہے جو اس بات کے جواز کے قائل نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اجتہاد اور رائے کی بنیاد پر حکم دیا کرتے تھے بلکہ ان کے نزدیک آپ نص کی بنیاد پر حکم لگایا کرتے تھے۔
(٧٨) اور حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو بھی ہم نے نبوت اور حکمت کے ساتھ اعزاز عطا کیا ان کا وہ واقعہ قابل ذکر ہے جب کہ وہ کسی قوم کے انگوروں کے باغ کے بارے میں فصلہ کرنے لگے جس کھیت میں رات کے وقت کچھ لوگوں کی بکریاں چلی گئی تھیں اور اس کھیت کو کھا گئی تھیں، اور ہم حضرت داؤد (علیہ السلام) و سلیمان (علیہ السلام) کے فیصلہ کو جاننے والے تھے
آیت ٧٨ (وَدَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ اِذْ یَحْکُمٰنِ فِی الْْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْہِ غَنَمُ الْقَوْمِ ج) ” - کسی شخص نے اپنی کھیتی میں بڑی محنت سے فصل تیار کی تھی مگر کسی دوسرے قبیلے کی بکریوں کے ریوڑ نے کھیت میں گھس کر تمام فصل تباہ کردی۔ اب یہ مقدمہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی عدالت میں پیش ہوا۔
31: واقعہ یہ ہوا تھا کہ ایک شخص کی بکریوں نے رات کے وقت دوسرے کے کھیت میں گھس کر ساری فصل تباہ کردی تھی۔ کھیت والا مقدمہ لے کر حضرت داود (علیہ السلام) کے پاس آیا۔ حضرت داود (علیہ السلام) نے فیصلہ یہ فرمایا کہ بکریوں کے مالک کا فرض تھا کہ وہ رات کے وقت بکریوں کو باندھ کر رکھتا، اور چونکہ اس کی غلطی سے کھیت والے کا نقصان ہوا اس لیے بکری والا اپنی اتنی بکریاں کھیت والے کو دے جو قیمت میں تباہ ہونے والی فصل کے برابر ہوں۔ یہ فیصلہ عین شریعت کے مطابق تھا، لیکن جب یہ لوگ باہر نکلنے لگے تو دروازے پر حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ان سے پوچھا کہ میرے والد نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ انہوں نے بتا دیا تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرے ذہن میں ایک اور صورت آ رہی ہے جس میں دونوں کا فائدہ ہے۔ حضرت داود (علیہ السلام) نے ان کی یہ بات سن لی تو انہیں بلا کر پوچھا کہ وہ کیا صورت ہے؟ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بکری والا کچھ عرصے کے لیے اپنی بکریاں کھیت والے کو دیدے جن کے دودھ وغیرہ سے کھیت والا فائدہ اٹھاتا رہے اور کھیت والا اپنا کھیت بکری والے کے حوالے کردے کہ وہ اس میں کھیتی اگائے، اور جب فصل اتنی ہی ہوجائے جتنی بکریوں کے نقصان پہنچانے سے پہلے تھی تو اس وقت بکریوں والا کھیت والے کو کھیت واپس کردے، اور کھیت والا اسے بکریاں واپس کردے۔ یہ ایک مصالحت کی صورت تھی جس میں دونوں کا فائدہ تھا، اس لیے حضرت داود (علیہ السلام) نے اسے پسند فرمایا، اور دونوں فریق بھی اس پر راضی ہوگئے۔