Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

79۔ 1 مفسرین نے یہ قصہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ایک شخص کی بکریاں، دوسرے شخص کے کھیت میں رات کو جا گھسیں اور اس کی کھیتی چر چگئیں۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے جو پیغمبر کے ساتھ حکمران بھی تھے فیصلہ دیا کہ بکریاں، کھیت والا لے لے تاکہ اس کے نقصان کی تلافی ہوجائے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور یہ فیصلہ دیا کہ بکریاں کچھ عرصے کے لئے کھیتی کے مالک کو دے دی جائیں، وہ ان سے فائدہ اٹھائے اور کھیتی بکری والے کے سپرد کردی جائے تاکہ وہ کھیتی کی آب پاشی اور دیکھ بھال کرکے، اسے صحیح کرے، جب وہ اس حالت میں آجائے جو بکریوں چرنے سے پہلے تھی تو کھیتی، کھیتی والے کو اور بکریاں، بکری والے کو واپس کردی جائیں۔ پہلے فیصلے کے مقابل میں دوسرا فیصلہ اس لحاظ سے بہتر تھا کہ اس میں کسی کو بھی اپنی چیز سے محروم ہونا نہیں پڑا۔ جب کہ پہلے فیصلے میں بکری والے اپنی بکریوں سے محروم کردیئے گئے تھے۔ تاہم اللہ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کی بھی تعریف کی اور فرمایا کہ ہم نے ہر ایک کو (یعنی داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) دونوں کو) علم و حکمت سے نوازا تھا۔ بعض لوگ اس سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ یہ دعویٰ صحیح نہیں۔ کسی ایک معاملے میں دو الگ الگ (متضاد) فیصلہ کرنے والے دو منصف، بیک وقت دونوں مصنفین ہوسکتے، ان میں ضرور ایک مصیب (درست فیصلہ کرنے والا) ہوگا اور دوسرا غلطی کر کے غلط فیصلہ کرنے والا، البتہ یہ الگ بات ہے کہ غلطی سے غلط فیصلہ کرنے سے گناہ گار نہیں ہوگا، بلکہ اسے ایک اجر ملے گا۔ کما فی الحدیث (فتح القدیر) ۔ 79۔ 2 اس سے مراد یہ نہیں کہ پہاڑ ان کی تسبیح کی آواز سے گونج اٹھتے تھے (کیونکہ اس میں تو کوئی اعجاز ہی باقی نہیں رہتا) 79۔ 3 یعنی پرندے بھی داؤد (علیہ السلام) کی سوز آواز سن کر اللہ کی تسبیح کرنے لگتے، مطلب یہ ہے کہ پرندے بھی داؤد (علیہ السلام) کے لئے مسخر کردیئے گئے تھے (فتح القدیر) 79۔ 3 یعنی یہ تفہیم، ابتائے حکم اور تسخی، ان سب کے کرنے والے ہم ہی تھے، اس لئے ان میں کسی کو تعجب کرنے کی یا انکار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس لئے کہ ہم جو چاہیں کرسکتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٦] اب دیکھئے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) دونوں نبی ہیں۔ اور دونوں کو اللہ نے قوت فیصلہ بھی عطا کی تھی اور علم نبوت بھی۔ اس کے باوجود حضرت داؤد سے فیصلہ میں اجتہادی غلطی ہوگئی۔ یعنی قاضی خواہ نہایت نیک نیتی سے فیصلہ کرے اس سے اجتہادی غلطی کا امکان ہے۔ اب اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :- حسن بصری کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے داؤد اور سلیمان دونوں کو قوت فیصلہ اور علم دیا تھا۔ پھر اللہ نے سلیمان کی تو تعریف کی اور داؤد پر ملامت نہیں کی اگرچہ وہ فیصلہ درست نہ تھا اور قرآن میں اللہ تعالیٰ ان دونوں پیغمبروں کا ذکر نہ کرتا تو میں سمجھتا ہوں کہ قاضی لوگ تباہ ہوجاتے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے سلیمان کی تو درست فیصلہ کی تعریف کی اور داؤد کو (ان کی اجتہادی غلطی پر) مسدود رکھا۔ (بخاری۔ کتاب الاحکام۔ باب متی۔ یستجب الرحل القضائ)- (٢) حضرت عمرو بن عاص (رض) سے روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب حاکم اجتہاد کرکے کوئی فیصلہ کرے اور وہ فیصلہ درست ہو تو اس کو دو اجر ملیں گے اور اگر (بہ تقاضائے بشریت) فیصلہ میں غلطی کر جائے تو بھی اس کو ایک اجر ملے گا (بخاری، کتاب الاعتصام۔ باب اجرالحاکم اذا اجتہاد فاصاب او اخطا)- (٣) حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک جنتی ہے اور دو جہنمی۔ جنتی وہ قاضی ہے جو حق کو پہچان جائے اور اس کے مطابق فیصلہ دے مگر جو شخص حق کو پہچاننے کے باوجود خلاف حق فیصلہ دے وہ جہنمی ہے۔ اسی طرح وہ بھی جہنمی ہے جو علم کے بغیر لوگوں کے فیصلے کرنے بیٹھ جائے۔ (ابوداؤد۔ کتاب القضائ۔ باب فیالقاضی یخطی)- حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کے متعلق ایک واقعہ احادیث میں بھی مذکور ہے جو بالکل اسی نوعیت کا ہے۔ جو درج ذیل ہے :- حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : (بنی اسرائیل میں) دو عورتیں تھیں ان کا ایک ایک بچہ تھا۔ بھیڑیا آیا اور ایک بچہ اٹھا لے گیا اب دونوں اپس میں جھگڑنے لگیں۔ ایک نے کہا کہ تیرا بچہ لے گیا اور دوسری نے کہا نہیں، تیرا بچہ لے گیا۔ آخر دونوں فیصلے کے لئے حضرت داؤد کے پاس آئیں۔ انہوں نے بچہ بڑی عمر والی کو دلا دیا۔ پھر یہ دونوں عورتیں دوبارہ فیصلہ کے لئے حضرت سلیمان کے پاس آئیں اور اپنا اپنا دعویٰ پیش کیا اس وقت حضرت سلیمان صرف گیارہ برس کے تھے۔ انہوں نے حکم دیا : ایک کلہاڑی میں اس بچہ کو آدھا آدھا کرکے دونوں کو دے دیتا ہوں۔ یہ سن کر کم عمر والی عورت بولی اللہ آپ پر رحم کرے ایسا نہ کیجئے۔ یہ بچہ اسی بڑی عمر والی کا ہے۔ پھر حضرت سلیمان نے بچہ چھوٹی عمر والی کو دلا دیا۔ (بخاری۔ کتاب الفرائض۔ ماذا ادعت المراۃ ابنا)- یعنی حضرت داؤد نے اس لحاظ سے بڑی عورت کے حق میں دے دیا کہ ایک تو وہ بڑی تھی اور دوسرے بچہ اس کے قبضہ میں تھا۔ لیکن جو فیصلہ حضرت سلیمان نے دیا وہ عین فطرت انسانی کے مطابق تھا۔ جب حضرت سلیمان نے بچے کو دو ٹکڑے کرکے ایک ایک ٹکڑا ایک کو دینے کا فیصلہ کیا تو حقیقی ماں جو چھوٹی عورت تھی فوراً اپنے بچے کے دو ٹکڑے ہونے پر تلملا اٹھی۔ اور اس نے یہ سوچ کر کہ میرا بچہ زندہ رہے خواہ میرے پاس نہ رہے فوراً کہنے لگی کہ بچہ اس بڑی عورت کا ہے۔ اسے دے دیا جائے۔ لیکن بڑی خاموشی سے یہ فیصلہ سنتی رہی۔ اس کا بچہ ہوتا تو اسے کچھ تکلیف ہوتی یہ صورت حال دیکھ کر حضرت سلیمان نے چھوٹی عورت کے حق میں فیصلہ کرکے بچہ اسے دلا دیا۔ یہ فیصلہ کے وقت ایسی باتیں سوجھ جانا حضرت سلیمان کے لئے خالصہ اللہ تعالیٰ کی دین تھی۔- [٦٧] حضرت داؤد (علیہ السلام) کی خوش الحانی زبان زدعام و خاص بن چکی ہے اور لحن داؤد کا لفظ محاوراً استعمال ہوتا ہے۔ آپ کی آواز اس قدر سریلی اور خوشگوار تھی کہ حب آپ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے گیت گاتے تو ساری کائنات مسحور ہوجاتی اور وجد میں گانے لگتی تھی۔ پہاڑوں میں گونج پیدا ہوتی اور یوں معلوم ہوتا کہ پہاڑ بھی آپ کے ساتھ ساتھ حمدوثنا کے گیت گا رہے ہیں۔ یہی حال جانوروں کا تھا جہاں آپ حمدوثنا کے گیت گارے وہاں پرندے اکٹھے ہوجاتے اور آپ کے ہمنوا بن جاتے تھے اور ان معنوں کی تائید اس حدیث سے بھی ہوجاتی ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابو موسیٰ اشعری جو نہایت خوش الحان تھے، اپنی سریلی آواز میں قرآن کی تلاوت کر رہے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہاں سے گزر ہوا تو ان کی آواز سن کر ٹھہر گئے اور دیر تک آپ کی تلاوت سنتے رہے، جب انہوں نے تلاوت ختم کی تو آپ نے فرمایا : لقد اوتی فرما رامن مومیر ال داود۔۔ یعنی اس شخص کو حضرت داؤد کی خوش الحانی کا ایک حصہ ملا ہے۔ (بخاری۔ کتاب فضائل القرآن۔ باب حسن الصوت بالقراۃ)- آپ کی خوش الحانی اور آپ کی تسبیحات میں پہاڑوں اور پرندوں کے ساتھ رہنے کا ذکر سورة سبا کی آیت نمبر ١٠ اور سورة کی آیت نمبر ١٨ میں بھی آیا ہے۔ پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح کیسی تھی اور حضرت داؤد کے وہ کس طرح ہمنوا بن جاتے تھے۔ یہ پوری کیفیت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔- چونکہ پہاڑوں اور پرندوں کا حضرت داؤد کے ساتھ مل کر تسبیحات کا پڑھنا اور ہم آہنگ ہونا ایک خرق عادت امر ہے لہذا پرویز صاحب کو ان باتوں کی تاویل کی ضرورت پڑگئی اور اپنی تفسیر عضوم القرآن میں یٰجِبَالُ (اے پہاڑو) کا مفہوم بیان فرمایا اے سرکش سردارو گویا اللہ میاں کو سرکش سرداروں کے لئے جبال کے علاوہ کوئی لفظ نہیں ملتا تھا اور سورة کی آیت نمبر ١٩ میں یہی مضمون آیا تو بمصداق دروغ گو را حافظہ بنا سد وہاں جبال کا مفہوم پہاڑی قبائل بیان فرما دیا۔ اور الطیر کا مفہوم قبیلہ طیر بیان فرمایا اور ادبی کا مفہوم بیان فرمایا کہ داؤد کے ساتھ تم بھی نہایت سرگرمی سے قانون خداوندی کی اطاعت کرو (لغات القرآن ج ١ ص ٢٨٣) حالانکہ پرویز صاحب خود اسی لغات میں اوپ کا معنی بالارادہ رجوع کرنا لکھ چکے ہیں۔ یعنی اے پہاڑو اور پرندو داؤد کی طرف بالارادہ رجوع کرو اور اس مقام پر نہایت سرگرمی سے قانون خداوندی کی اطاعت کا مفہوم بیان فرمایا۔ ذرا سوچئے کہ اس مفہوم میں قانون خداوندی قرآن کے کس لفظ کا معنی یا مفہوم ہوسکتا ہے اور نہایت سرگرمی سے اطاعت کس لفظ کا ؟ سچ فرمایا تھا اقبال نے :- احکام تیرے حق ہیں مگر اپنے مفسر - تاویل سے قرآن کو بنا دیتے ہیں باللہ ند

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فَفَهَّمْنٰهَا سُلَيْمٰنَ ، فَفَهَّمْنٰهَا کی ضمیر بظاہر مقدمہ اور اس کے فیصلہ کی طرف راجع ہے اور معنی یہ ہیں کہ جو فیصلہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ تھا اللہ تعالیٰ نے وہ حضرت سلیمان کو سمجھا دیا۔ اس مقدمہ اور فیصلہ کی صورت اوپر خلاصہ تفسیر میں آ چکی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا فیصلہ بھی ازروئے قانون شرعی غلط نہیں تھا مگر جو فیصلہ اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کو سمجھایا اس میں فریقین کی رعایت اور مصلحت تھی اس لئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ پسندیدہ قرار دیا گیا۔ امام بغوی نے حضرت ابن عباس اور قتادہ اور زہری سے اس واقعہ کی روایت اس طرح کی ہے کہ دو شخص حضرت داؤد (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے ان میں ایک شخص بکریوں والا دوسرا کھیتی والا تھا کھیتی والے نے بکریوں والے پر یہ دعوی کیا کہ اس کی بکریاں رات کو چھوٹ کر میرے کھیت میں گھس گئیں اور کھیت کو بالکل صاف کردیا کچھ نہیں چھوڑا (غالباً مدعا علیہ نے اس کا اقرار کرلیا ہوگا اور بکریوں کی پوری قیمت اس کے ضائع شدہ کھیت کی قیمت کے برابر ہوگی اس لئے) حضرت داؤد نے یہ فیصلہ سنا دیا کہ بکریوں والا اپنی ساری بکریاں کھیت والے کو دیدے (کیونکہ جو چیزیں قیمت ہی کے ذریعہ لی اور دی جاتی ہیں جن کو عرف فقہاء میں ذوات القیم کہا جاتا ہے وہ اگر کسی نے ضائع کردی تو اس کا ضمان قیمت ہی کے حساب سے دیا جاتا ہے بکریوں کی قیمت چونکہ ضائع شدہ کھیتی کی قیمت کے مساوی تھی اس لئے یہ ضابطہ کا فیصلہ فرمایا گیا) یہ دونوں مدعی اور مدعا علیہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی عدالت سے واپس ہوئے تو (دروازے پر ان کے صاحبزادے) حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی انہوں نے دریافت کیا کہ تمہارے مقدمہ کا کیا فیصلہ ہوا ؟ ان لوگوں نے بیان کردیا تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا اگر اس مقدمہ کا فیصلہ میں کرتا تو اس کے علاوہ کچھ اور ہوتا جو فریقین کے لئے مفید اور نافع ہوتا۔ پھر خود والد ماجد حضرت داؤد (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہو کر یہی بات عرض کی۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے تاکید کے ساتھ دریافت کیا کہ وہ کیا فیصلہ ہے جو دونوں کے لئے اس فیصلہ سے بہتر ہے تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ آپ بکریاں تو سب کھیت والے کو دیدیں کہ وہ ان کے دودھ اور اون وغیرہ سے فائدہ اٹھاتا رہے اور کھیت کی زمین بکریوں والے کے سپرد کردیں کہ وہ اس میں کاشت کر کے کھیت اگائے جب یہ کھیت اس حالت پر آجائے جس پر بکریوں نے کھایا تھا تو کھیت کھیت والے کو دلوا دیں اور بکریاں بکری والے کو۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اس فیصلے کو پسند فرما کر کہا کہ بس اب فیصلہ یہی رہنا چاہئے اور فریقین کو بلا کر دوسرا فیصلہ نافذ کردیا (مظہری و قرطبی وغیرہ)- کیا فیصلہ دینے کے بعد کسی قاضی کا فیصلہ توڑا اور بدلا جاسکتا ہے :- یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) جب ایک فیصلہ دے چکے تھے تو سلیمان (علیہ السلام) کو اس کے توڑنے کا کیا حق تھا ؟ اور اگر خود حضرت داؤد ہی نے ان کا فیصلہ سن کر اپنے سابق فیصلے کو توڑا اور دوسرا جاری کیا تو کیا قاضی کو اس کا اختیار ہے کہ ایک فصلہ دیدینے کے بعد اس کو توڑ دے اور فیصلہ بدل دے۔- قرطبی نے اس جگہ اس طرح کے مسائل پر بڑی تفصیل سے بحث فرمائی ہے خلاصہ اس کا یہ ہے کہ اگر کسی قاضی نے نصوص شرعیہ اور جمہور امت کے خلاف کوئی غلط فیصلہ محض اٹکل سے دے دیا ہے تو وہ فیصلہ باتفاق امت مردود و باطل ہے دوسرے قاضی کو اس کے خلاف فیصلہ دینا نہ صرف جائز بلکہ واجب اور اس قاضی کا معزول کرنا واجب ہے لیکن اگر ایک قاضی کا فیصلہ شرعی اجتہاد پر مبنی اور اصول اجتہاد کے ماتحت تھا تو کسی دوسرے قاضی کو اس فیصلہ کا توڑنا جائز نہیں کیونکہ اگر ایسا کیا جائے گا تو فساد عظیم ہوگا اور اسلامی قانون ایک کھیل بن جائے گا اور روز حلال و حرام بدلا کریں گے، البتہ اگر خود اسی فصلہ دینے والے قاضی کو بعد اس کے کہ اصول اجتہاد کے تحت وہ ایک فیصلہ نافذ کرچکا ہے اب ازروائے اجتہاد یہ نظر آئے کہ پہلے فیصلے اور پہلے اجتہاد میں غلطی ہوگئی ہے تو اس کا بدلنا جائز بلکہ بہتر ہے۔ حضرت فاروق اعظم نے جو ایک مفصل خط حضرت ابو موسیٰ اشعری کے نام قضاء اور فصل مقدمات کے اصول پر مشتمل لکھا تھا اس میں اس کی تصریح ہے کہ فیصلہ دینے کے بعد اجتہاد بدل جائے تو پہلے فیصلہ کو بدل دینا چاہئے۔ یہ خط دار قطنی نے سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔ (قرطبی ملخصاً ) اور شمس الائمہ سرخسی نے مبسوط باب القضاء میں بھی یہ خط مفصل دیا ہے۔- اور امام تفسیر مجاہد کا قول یہ ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) دونوں کے فیصلے اپنی اپنی جگہ ہیں اور حقیقت اس کی یہ ہے کہ داؤد (علیہ السلام) نے جو فیصلہ فرمایا تھا وہ ضابطہ کا فیصلہ تھا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جو فرمایا وہ درحقیقت مقدمہ کا فیصلہ نہیں، بلکہ فریقین میں صلح کرانے کا ایک طریقہ تھا اور قرآن میں والصُّلْحُ خَيْرٌ کا ارشاد وارد ہے اس لئے یہ دوسری صورت میں اللہ کے نزدیک پسندیدہ ٹھہری۔ (مظہری)- حضرت فاروق اعظم نے اپنے قاضیوں کو یہ ہدایت دے رکھی تھی کہ جب آپ کے پاس دو فریق کا مقدمہ آئے تو پہلے ان دونوں میں رضا مندی کے ساتھ کسی بات پر صلح کرانے کی کوشش کریں اگر یہ ناممکن ہوجائے تو اپنا شرعی فیصلہ جاری کریں اور حکمت اس کی یہ ارشاد فرمائی کہ حاکمانہ عدالتی فیصلے سے وہ شخص جس کے خلاف ہوا ہو دب تو جاتا ہے مگر ان دونوں میں بغض و عداوت کا بیج قائم ہوجاتا ہے۔ جو دو مسلمانوں میں نہیں ہونا چاہئے بخلاف مصالحت کی صورت کے کہ اس سے دلوں کی منافرت بھی دور ہوجاتی ہے (از معین الحکام)- مجاہد کے اس قول پر یہ معاملہ قاضی کے فیصلہ کو توڑنے اور بدلنے کا نہیں رہا بلکہ فریقین کو جو حکم سنایا تھا وہ ابھی گئے بھی نہ تھے کہ ان میں ایک صورت مصالحت کی نکل آئی اور وہ دونوں اس پر راضی ہوگئے۔- دو مجتہد اگر اپنے اپنے اجتہاد سے دو متضاد فیصلے کریں تو کیا ان میں سے ہر ایک صواب اور درست ہے یا کسی ایک کو غلط کہا جائے :- اس موقع پر مختصر یہ بحث بھی کی ہے کہ ہر مجتہد ہمیشہ مصیب ہی ہوتا ہے اور دو متضاد اجتہاد ہوں تو دونوں کو حق سمجھا جائے گا یا ان میں سے ایک فیصلہ کو خطا اور غلط قرار دیا جائے گا اس میں قدیم زمانے سے علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ آیت مذکورہ سے دونوں جماعتوں نے استدلال کیا ہے جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ دونوں اجتہاد حق ہیں اگرچہ متضاد ہوں ان کا استدلال آیت کے آخری جملے سے ہی جس میں فرمایا وَكُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا وَّعِلْمًا۔ اس میں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان دونوں کو حکمت اور علم عطا کرنے کا ارشاد ہے حضرت داؤد (علیہ السلام) پر کوئی عتاب نہیں ہے نہ ان کو یہ کہا گیا کہ ان سے غلطی ہوگئی اس سے معلوم ہوا کہ داؤد (علیہ السلام) کا فیصلہ بھی حق تھا اور سلیمان (علیہ السلام) کا فیصلہ بھی، البتہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے فیصلہ کو فریقین کے لئے اصلح ہونے کی بناء پر ترجیح دے دیگئی اور جو حضرات یہ فرماتے ہیں کہ اختلاف اجتہادی کے مواقع میں حق ایک طرف ہوتا ہے دوسرا غلط ہوتا ہے ان کا استدلال اسی آیت کے پہلے جملہ سے ہی یعنی ڎفَفَهَّمْنٰهَا سُلَيْمٰنَ کہ اس میں تخصیص کر کے حضرت سلیمان کے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم نے ان کو حق فیصلہ سمجھا دیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ داؤد (علیہ السلام) کا فیصلہ حق نہ تھا گو وہ بوجہ اپنے اجتہاد کے اس میں معذور ہوں اور ان سے اس پر کوئی مواخذہ نہ ہو۔ یہ بحث اصول فقہ کی کتابوں میں بڑی تفصیل سے آئی ہے وہاں دیکھی جاسکتی ہے یہاں صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جس شخص نے اجتہاد کیا اور کوئی حکم دینی اصول اجتہاد کے ماتحت بیان کیا۔ اگر اس کا اجتہاد صحیح ہوا تو اس کو دو اجر ملیں گے ایک اجتہاد کرنے کی محنت کا دوسرا صحیح و صواب حکم تک پہنچنے کا اور اگر یہ اجتہاد صحیح نہ ہوا اس سے خطا ہوگئی تو پھر اس کو ایک اجر اجتہاد کی محنت کا ملے گا دوسرا اجر جو اصل حکم صحیح تک پہنچنے کا تھا وہ نہ ملے گا ( یہ حدیث اکثر مستند کتب حدیث میں منقول ہے) اس حدیث سے اس اختلاف علماء کی حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ درحقیقت یہ اختلاف ایک نزاع لفظی جیسا ہے کیونکہ حق دونوں طرف ہونے کا حاصل یہ ہے کہ اجتہاد میں خطا کرنے والے مجتہد اور اس کے متبعین کے لئے بھی اجتہاد حق و صحیح ہے اس پر عمل کرنے سے ان کی نجات ہوجائے گی خواہ یہ اجتہاد اپنی ذات میں خطاء ہی ہو مگر اس پر عمل کرنے والوں کو کوئی گناہ نہیں اور جن حضرات نے یہ فرمایا ہے کہ حق دونوں میں ایک ہی ہے دوسرا غلط اور خطا ہے اس کا حاصل بھی اس سے زیادہ نہیں کہ اصل مراد حق تعالیٰ اور مطلوب خداوندی تک نہ پہنچنے کی وجہ سے اس مجتہد کے ثواب میں کمی آجائے گی اور یہ کمی اس وجہ سے ہے کہ اس کا اجتہاد حق بات تک نہ پہنچا لیکن یہ مطلب ان کا بھی نہیں ہے کہ مجتہد خاطی پر کوئی ملامت ہوگی یا اس کے متعبین کو گناہگار کہا جائے گا۔ تفسیر قرطبی میں اس مقام پر ان تمام مباحث کو پوری تفصیل سے لکھا ہے اہل علم وہاں دیکھ سکتے ہیں۔- یہ مسئلہ فقیہہ کہ اگر کسی کے جانور دوسرے آدمی کی جان یا مال کو نقصان پہنچاویں تو فیصلہ کیا ہونا چاہئے :- حضرت داؤد (علیہ السلام) کے فیصلہ سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ جانور کے مالک پر ضمان آئے گا اگر یہ واقعہ رات میں ہوا ہو لیکن یہ ضروری نہیں کہ داؤد (علیہ السلام) کی شریعت کا جو فیصلہ ہو وہی شریعت محمدیہ میں رہے اس لئے اس مسئلے میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے۔ امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ اگر رات کے وقت کسی کے جانور کسی دوسرے کے کھیت میں داخل ہو کر نقصان پہنچاویں تو جانور کے مالک پر ضمان آئے گا اور اگر دن میں ایسا ہو تو ضمان نہیں آئے گا ان کا استدلال حضرت داؤد کے فیصلہ سے بھی ہوسکتا ہے مگر شریعت محمدیہ کے اصول کے تحت انہوں نے ایک حدیث سے استدلال فرمایا ہے جو موطا امام مالک میں مرسلاً منقول ہے کہ حضرت براء بن عازب کی ناقہ ایک شخص کے باغ میں داخل ہوگئی اور اس کو نقصان پہنچا دیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فصلہ فرمایا کہ باغوں اور کھیتوں کی حفاظت رات میں ان کے مالکوں کے ذمہ ہے اور ان کی حفاظت کے باوجود اگر رات کو کسی کے جانور نقصان پہنچاویں تو جانور کے مالک پر ضمان ہے اور امام اعظم ابوحنیفہ اور فقہاء کوفہ کا مسلک یہ ہے کہ جس وقت جانوروں کے ساتھ ان کا چرانے والا یا حفاظت کرنے والا کوئی آدمی موجود ہو، اس نے غفلت کی اور جانوروں نے کسی کے باغ یا کھیت کو نقصان پہنچا دیا اس صورت میں تو جانور کے مالک پر ضمان آتا ہے خواہ یہ معاملہ رات میں ہو یا دن میں اور اگر مالک یا محافظ جانوروں کے ساتھ نہ ہوں جانور خود ہی نکل گئے اور کسی کے کھیت کو نقصان پہنچا دیا تو جانور کے مالک پر ضمانت نہیں معاملہ دن اور رات کا اس میں بھی برابر ہے امام اعظم کی دلیل وہ حدیث ہے جو بخاری و مسلم اور تمام محدثین نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جرح العجماء جبار یعنی جانور جو کسی کو نقصان پہنچاوے وہ قابل مواخذہ نہیں یعنی جانور کے مالک پر اس کا ضمان نہیں ہے (بشرطیکہ جانور کا مالک یا محافظ اس کے ساتھ نہ ہو جیسا کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے) اس حدیث میں دن رات کی تفریق کے بغیر عام قانون شرعی یہ قرار دیا گیا ہے کہ اگر جانور کے مالک نے خود اپنے قصد و ارادے سے کسی کے کھیت میں نہیں چھوڑا، جانور بھاگ کر چلا گیا تو اس کے نقصان کا ضمان جانور کے مالک پر نہیں ہوگا اور حضرت براء بن عازب کے واقعہ کی روایت کی سند میں فقہاء حنفیہ نے کلام کیا ہے اور فرمایا کہ اس کو صحیحین کی حدیث مذکور کے مقابلے میں حجت نہیں قرار دیا جاسکتا۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔- پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح : - وَّسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ۭ وَكُنَّا فٰعِلِيْنَ ، حضرت داؤد (علیہ السلام) کو حق تعالیٰ نے ظاہری کمالات میں سے ایک کمال حسن صوت کا بھی عطا فرمایا تھا، جب وہ زبور پڑھتے تھے تو پرندے ہوا میں ٹھہرنے لگتے تھے اور ان کے ساتھ تسبیح کرنے لگتے تھے اسی طرح پہاڑ اور ہر شجر و مدر سے تسبیح کی آواز نکلنے لگتی تھی۔ خوش آوازی کا کمال تو ظاہری کمالات میں سے تھا اور پرندوں اور پہاڑوں کا تسبیح میں شریک ہوجانا بتسخیر خداوندی بطور معجزہ کے تھا اور معجزہ کے لئے یہ بھی ضروری نہیں کہ پرندوں اور پہاڑوں میں حیات و شعور ہو بلکہ بطور معجزہ ہر غیر ذی شعور میں بھی شعور پیدا ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ تحقیق یہی ہے کہ پہاڑوں اور پتھروں میں بھی حیات و شعور بقدر ان کی حیثیت کے موجود ہے صحابہ کرام میں حضرت ابو موسیٰ اشعری بہت خوش آواز تھے ایک روز وہ قرآن پڑھ رہے تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ان کی طرف ہوا تو آپ ان کی تلاوت سننے کے لئے ٹھہر گئے اور سنتے رہے پھر فرمایا کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے خوش آوازی حضرت داؤد (علیہ السلام) کی عطا فرمائی ہے۔ جب ابو موسیٰ کو معلوم ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی تلاوت سن رہے تھے تو عرض کیا کہ اگر مجھے آپ کا سننا معلوم ہوجاتا تو میں اور زیادہ سنوار کر پڑھنے کی کوشش کرتا (ابن کثیر)- فائدہ :- اس سے معلوم ہوا کہ تلاوت قرآن میں حسن صوت اور اچھا لہجہ جس سے دلکشی پیدا ہو ایک درجہ میں مطلوب و محبوب ہے بشرطیکہ آج کل کے قراء کی طرح اس میں غلو نہ ہو کہ صرف آواز ہی سنوارنے اور لوگوں کو لبھانے کی فکر رہ جائے تلاوت کا اصل مقصد ہی غائب ہوجائے۔ واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَفَہَّمْنٰہَا سُلَيْمٰنَ۝ ٠ۚ وَكُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا وَّعِلْمًا۝ ٠ۡوَّسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ۝ ٠ۭ وَكُنَّا فٰعِلِيْنَ۝ ٧٩- فهم - الْفَهْمُ : هيئة للإنسان بها يتحقّق معاني ما يحسن، يقال : فَهِمْتُ كذا، وقوله : فَفَهَّمْناها سُلَيْمانَ- [ الأنبیاء 79] ، وذلک إمّا بأن جعل اللہ له من فضل قوّة الفهم ما أدرک به ذلك، وإمّا بأن ألقی ذلک في روعه، أو بأن أوحی إليه وخصّه به، وأَفْهَمْتُهُ :إذا قلت له حتی تصوّره، والِاسْتِفْهَامُ : أن يطلب من غيره أن يُفَهِّمَهُ.- ( ف ھ م ) الفھم انسان کی اس ذہنی قوت کا نام جس سے وہ مطالب کو بہتری اور عمدگی کے ساتھ اخذکر لیتا ہے اور فھمت کذا کے معنی کسی چیز کو اچھی طرح سمجھ لینے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَفَهَّمْناها سُلَيْمانَ [ الأنبیاء 79] ہم نے فیصلہ کرنے کا طریقہ سلیمان (علیہ السلام) کو سمجھادیا ۔ میں تفہیم کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو قوت فہم میں اضافہ کردیا زجس کے ذریعہ انہوں نے نزاع کی حقیقیت کو پالیا اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ وحی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ کی حقیقت ان کے قلب پر القاء کردی ۔ افھمتہ کے معنی کسی کو سمجھا نے دینے کے ہیں اور استفہام کے معنی کسی چیز کے سمجھنے کا طلب کے ہیں ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - سخر - التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] - ( س خ ر ) التسخیر - ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔- جبل - الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل :- أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] - ( ج ب ل )- قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا " ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟- سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے - طير - الطَّائِرُ : كلُّ ذي جناحٍ يسبح في الهواء، يقال : طَارَ يَطِيرُ طَيَرَاناً ، وجمعُ الطَّائِرِ : طَيْرٌ «3» ، كرَاكِبٍ ورَكْبٍ. قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] ، وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً- [ ص 19] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ- [ النمل 17] ، وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل 20] - ( ط ی ر ) الطائر - ہر پر دار جانور جو فضا میں حرکت کرتا ہے طار یطیر طیرا نا پرند کا اڑنا ۔ الطیر ۔ یہ طائر کی جمع ہے جیسے راکب کی جمع رکب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] یا پرند جو اپنے پر دل سے اڑتا ہے ۔ وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص 19] اور پرندوں کو بھی جو کہ جمع رہتے تھے ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] اور پر پھیلائے ہوئے جانور بھی ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل 17] اور سلیمان کے لئے جنون اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے ۔ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل 20] انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٩) سو ہم نے اس فیصلہ کا آسان سمجھاؤ سلیمان (علیہ السلام) کو دے دیا اور یوں ہم نے دونوں ہی کو حکمت اور نبوت عطا کی تھی اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے، اور اسی طرح پرندوں کو بھی اور ان کے کاموں کے کرنے والے ہم تھے ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٩ (فَفَہَّمْنٰہَا سُلَیْمٰنَج ) ” - فیصلے کے وقت حضرت سلیمان ( علیہ السلام) بھی شہزادے کی حیثیت سے دربار میں موجود تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقدمے کا ایک حکیمانہ حل ان کے ذہن میں ڈال دیا۔ چناچہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس مسئلے کا حل یہ بتایا کہ بکریاں عارضی طور پر کھیتی والے کو دے دی جائیں ‘ وہ ان کے دودھ وغیرہ سے فائدہ اٹھائے۔ دوسری طرف بکریوں کے مالک کو حکم دیا جائے کہ وہ اس کھیتی کو دوبارہ تیار کرے۔ اس میں ہل چلائے ‘ بیج ڈالے ‘ آبپاشی وغیرہ کا بندوبست کرے۔ پھر جب فصل پہلے کی طرح تیار ہوجائے تو اسے اس کے مالک کے سپرد کر کے وہ اپنی بکریاں واپس لے لے۔- (وَّسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَالطَّیْرَ ط) ” - حضرت داؤد (علیہ السلام) کی آواز بہت اچھی تھی۔ اسی لیے لحن داؤدی کا تذکرہ آج بھی ضرب المثل کے انداز میں ہوتا ہے۔ چناچہ جب حضرت داؤد (علیہ السلام) اپنی دلکش آواز میں زبور کے مزامیر (اللہ کی حمد کے نغمے) الاپتے تو پہاڑ بھی وجد میں آکر آپ ( علیہ السلام) کی آواز میں آواز ملاتے تھے اور اڑتے ہوئے پرندے بھی ایسے مواقع پر ان کے ساتھ شریک ہوجاتے تھے۔- (وَکُنَّا فٰعِلِیْنَ ) ” - ظاہر ہے یہ سب اللہ ہی کی قدرت کے عجائبات تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :70 اس واقعے کا ذکر بائیبل میں نہیں ہے ، اور یہودی لٹریچر میں بھی ہمیں اس کا کوئی نشان نہیں ملا ۔ مسلمان مفسرین نے اس کی جو تشریح کی ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص کے کھیت میں دوسرے شخص کی بکریاں رات کے وقت گھس گئی تھیں ۔ اس نے حضرت داؤد کے ہاں استغاثہ کیا ۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس کی بکریاں چھین کر اسے دے دی جائیں ۔ حضرت سلیمان نے اس سے اختلاف کیا اور یہ رائے دی کہ بکریاں اس وقت تک کھیت والے کے پاس رہیں جب تک بکری والا اس کے کھیت کو پھر سے تیار نہ کر دے ۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ یہ فیصلہ ہم نے سلیمان کو سمجھایا تھا ۔ مگر چونکہ مقدمے کی یہ تفصیل قرآن میں بیان نہیں ہوئی ہے اور نہ کسی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تصریح نقل ہوئی ہے ، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس طرح کے مقدمے میں یہی ثابت شدہ اسلامی قانون ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حنفیہ ، شافعیہ ، مالکیہ اور دوسرے فقہائے اسلام کے درمیان اس امر میں اختلاف واقع ہوا ہے کہ اگر کسی کا کھیت دوسرے شخص کے جانور خراب کر دیں تو کوئی تاوان عائد ہو گا یا نہیں اور عائد ہو گا تو کس صورت میں ہو گا اور کس صورت میں نہیں ، نیز یہ کہ تاوان کی شکل کیا ہو گی ۔ اس سیاق و سباق میں حضرت داؤد و سلیمان کے اس خاص واقعے کا ذکر کرنے سے مقصود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام نبی ہونے اور اللہ کی طرف سے غیر معمولی طاقتیں اور قابلیتیں پانے کے باوجود ہوتے انسان ہی تھے ، الوہیت کا کوئی شائبہ ان میں نہ ہوتا تھا ۔ اس مقدمے میں حضرت داؤد کی رہنمائی وحی کے ذریعہ سے نہ کی گئی اور وہ فیصلہ کرنے میں غلطی کر گئے ، حضرت سلیمان کی رہنمائی کی گئی اور انہوں نے صحیح فیصلہ کیا ، حالانکہ نبی دونوں ہی تھے آگے ان دونوں بزرگوں کے جن کمالات کا ذکر کیا گیا ہے وہ بھی یہی بات سمجھانے کے لیے ہے کہ یہ وہبی کمالات تھے اور اس طرح کے کمالات کسی کو خدا نہیں بنا دیتے ۔ ضمناً اس آیت سے عدالت کا یہ اصول بھی معلوم ہوا کہ اگر دو جج ایک مقدمے کا فیصلہ کریں ، اور دونوں کے فیصلے مختلف ہوں تو اگرچہ صحیح فیصلہ ایک ہی کا ہو گا ، لیکن دونوں بر حق ہوں گے ، بشرطیکہ عدالت کرنے کی ضروری استعداد دونوں میں موجود ہو ، ان میں سے کوئی جہالت اور نا تجربہ کاری کے ساتھ عدالت کرنے نہ بیٹھ جائے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں اس بات کو اور زیادہ کھول کر بیان فرما دیا ہے ۔ بخاری میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی روایات ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اذا اجتہد الحاکم فاصاب فلہ اجران و اذا اجتھد فاخطأ فلہ اجرٌ ۔ اگر حاکم اپنی حد تک فیصلہ کرنے کی پوری کوشش کرے تو صحیح فیصلہ کرنے کی صورت میں اس کے لیے دوہرا اجر ہے اور غلط فیصلہ کرنے کی صورت میں اکہرا اجر ۔ ابو داؤد اور ابن ماجہ میں بریدہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ قاضی تین قسم کے ہیں ، ایک ان میں سے جنتی ہے اور دو جہنمی ۔ جنتی وہ قاضی ہے جو حق کو پہچان جائے تو اس کے مطابق فیصلہ دے ۔ مگر جو شخص حق کو پہچاننے کے باوجود خلاف حق فیصلہ دے تو وہ جہنمی ہے ۔ اور اسی طرح وہ بھی جہنمی ہے جو علم کے بغیر لوگوں کے فیصلے کرنے کے لیے بیٹھ جائے ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :71 مَعَ دَاوٗدَ کے الفاظ ہیں ، لِدَاوٗد کے الفاظ نہیں ہیں ، یعنی داوٗد علیہ السلام کے لیے نہیں بلکہ ان کے ساتھ پہاڑ اور پرندے مسخر کیے گئے تھے ، اور اس تسخیر کا حاصل یہ تھا کہ وہ بھی حضرت ممدوح کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتے تھے ۔ یہی بات سورہ ص میں بیان کی گئی ہے ، : اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَلَ مَعَہ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ ہ وَالطَّیْرَ مَحْشُوْرَۃٌ کُلٌّ لَّہ اَوَّابٌ ہم نے اس کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کر دیا تھا کہ صبح و شام تسبیح کرتے تھے ، اور پرندے بھی مسخر کردیے تھے جو اکٹھے ہو جاتے تھے ، سب اس کی تسبیح کو دوہراتے ۔ سورہ سبا میں اس کی مزید وضاحت یہ ملتی ہے : یَاجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہ وَالطَّیْرَ ۔ پہاڑوں کو ہم نے حکم دیا کہ اس کے ساتھ تسبیح دہراؤ اور یہی حکم پرندوں کو دیا ۔ ان ارشادات سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت داؤد جب اللہ کی حمد و ثنا کے گیت گاتے تھے تو ان کی بلند اور سریلی آواز سے پہاڑ گونج اٹھتے تھے ، پرندے ٹھہر جاتے تھے اور ایک سماں بندھ جاتا تھا ۔ اس معنی کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں ذکر آیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ، جو غیر معمولی طور پر خوش آواز بزرگ تھے ، قرآن کی تلاوت کر رہے تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے تو ان کی آواز سن کر کھڑے ہو گئے اور دیر تک سنتے رہے ۔ جب وہ ختم کر چکے تو آپ نے فرمایا : لقد اوتی مزماراً من مزامیر اٰل داوٗد ، یعنی اس شخص کو داؤد ، کی خوش آوازی کا ایک حصہ ملا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

32: چونکہ حضرت داود علیہ السلام کا فیصلہ اصل قانون کے مطابق تھا۔ اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی تجویز باہمی رضامندی سے ایک صلح کی صورت تھی، اس لئے اﷲ تعالی نے دونوں کے بارے میں یہ فرمایا کہ ہم نے علم اور حکمت دونوں کو عطا کی تھی، لیکن مصالحت کی جو صورت حضرت سلیمان علیہ السلام نے تجویز کی اس کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کی سمجھ انہیں ہم نے عطا فرمائی تھی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مقدمے کے دوران قانونی فیصلہ حاصل کرنے سے بہتر ہے کہ فریقین آپس کی رضا مندی سے مصالحت کی 33: اﷲ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو بہت دلکش آواز عطا فرمائی تھی، اور معجزے کے طور پر یہ خصوصیت بخش تھی کہ جب وہ اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرتے تو پہاڑ بھی آپ کے ساتھ ذکر اور تسبیح میں شریک ہوتے تھے، اور اڑتے ہوئے پرندے بھی رک جاتے، اور وہ بھی ذکر کرنے لگتے تھے۔