80۔ 1 یعنی لوہے کو ہم نے داؤد (علیہ السلام) کے لئے نرم کردیا تھا، وہ اس سے جنگی لباس، لوہے کی زریں تیار کرتے تھے، جو جنگ میں تمہاری حفاظت کا ذریعہ ہیں۔ حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) سے پہلے بھی زریں بنتی تھیں۔ لیکن وہ سادہ بغیر کنڈوں اور بغیر حلقوں کے ہوتی تھیں، حضرت داؤد (علیہ السلام) پہلے شخص ہیں جنہوں نے کنڈے دار حلقے والی زریں بنائیں (ابن کثیر)
[٦٨] اس آیت سے معلوم ہوتا کہ زرہ سازی کے موجد حضرت داؤد (علیہ السلام) لیں۔ اس کی مزید تفصیل سورة سبا میں یوں ہے : (وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا ۭيٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَهٗ وَالطَّيْرَ ۚ وَاَلَنَّا لَهُ الْحَدِيْدَ 10 ۙ ) 34 ۔ سبأ :10) یعنی ہم نے داؤد (علیہ السلام) کے لئے لوہے کو نرم بنادیا تھا اور انھیں ہدایت کی تھی کہ پورے ناپ کی زرہیں بناویں اور اس کی کڑیوں میں اندازے کے ساتھ جوڑ لگائیں۔ آپ کے لئے لوہے کو نرم کرنے کے دو معنی لئے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کے ہاتھ لوہا موم کی طرح نرم ہوجاتا تھا اور جس طرح چاہتے اس کی زنجیریں بنا کر زرہیں تیار کرلیتے تھے اور دوسری توجیہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو لوہے کے پگھلانے کا اور ڈھلائی کا کام سکھلا دیا تھا۔ آپ کا زمانہ اندازاً ١٠٥ ق م سے ٩٤٥ ق م تک ہے۔ جبکہ یہی زمانہ لوہے کا زمانہ کہلاتا ہے۔ اس سے پیشتر جو لوہے سے تلواریں اور نیزے یا دوسری اشیاء بنائی جاتی تھیں اس کا طریق کار یہی تھا کہ لوہے کو آگ میں تپایا جاتا اور جب وہ وہ آگ کی طرح سرخ ہوجاتا تو اسے کوٹ کاٹ کر ایسی اشیاء تیار کرلی جاتی تھیں۔ لوہے کی ڈھلائی کے فن سے بھی اگرچہ چند ایک اقوام واقف ہوچکی تھی تاہم یہ سب کچھ صیغہ راز میں بھی رکھا جاتا تھا اور جنگی اغراض کے لئے لوہے کی زرہیں بنانے کا کام داؤد (علیہ السلام) نے ہی شروع کیا تھا۔ لڑائی کے دوران اپنی حفاظت کے لئے زرہ چونکہ ایک نہایت اہم ہتھیار ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ کیا تم اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کرتے ہو کہ اس نے حضرت داؤد کے ذریعہ بنی نوع انسانی کو زرہ سازی کا فن سکھلا دیا۔ واضح رہے کہ حضرت داؤد بیت المال سے کچھ بھی نہیں لیتے تھے بلکہ اپنی ہاتھ کی کمائی پر ہی گزر اوقات کرتے تھے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے :- حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : داؤد (علیہ السلام) پر زبور کا پڑھنا اتنا آسان کردیا گیا تھا کہ وہ جانور پر زین کسنے کا حکم دیتے اور ابھی زین پوری طرح کسی بھی نہیں جاتی تھی کہ آپ زبور پڑھ چکتے اور آپ کی گزر اوقات صرف اپنے ہاتھ کی کمائی پر تھی۔ (بخاری، کتاب احادیث الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ (وَاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا ١٦٣ۚ ) 4 ۔ النسآء :163)
وَعَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ ۔۔ : ” لَبُوْسٍ “ اور ” لِبَاسٌ“ ایک ہی ہے جو موقع کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے، چناچہ لڑائی کا لباس زرہ ہے۔ یہ داؤد (علیہ السلام) پر تیسرا انعام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہمراہ پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کرنے کے علاوہ ان کے لیے لوہے کو بھی نرم کردیا اور انھیں اس کی تاروں اور حلقوں سے زرہیں بنانے کا ہنر سکھایا۔ چناچہ اتنی ہلکی اور عمدہ زرہیں بنانے کے موجد وہی ہیں۔ انھی سے دوسروں نے یہ فن سیکھا۔ یہ نعمت صرف انھی پر نہیں تھی، بلکہ قیامت تک تمام لڑنے والوں کے لیے نعمت ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کا شکر لازم ہے، تو کیا تم شکر کرنے والے ہو ؟ یہ سوال دراصل شکر کے حکم کی تاکید ہے۔ داؤد (علیہ السلام) کے متعلق مزید دیکھیے سورة سبا (١٠، ١١) اور سورة صٓ (١٧ تا ٢٦) ۔
زردہ بنانے کی صنعت حضرت داؤد (علیہ السلام) کو منجانب اللہ عطا کی گئی : - وَعَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ لفظ لبوس لغت کے اعتبار سے اسلحہ میں سے ہر چیز کو کہا جاتا ہے جو انسان اوڑھ کر یا گلے میں ڈال کر استعمال کرے۔ مراد اس جگہ آہنی زرہ ہے جو جنگ میں حفاظت کے لئے پہنی جاتی ہے دوسری آیت میں ہے وَاَلَنَّا لَهُ الْحَدِيْدَ یعنی ہم نے ان کے لئے لوہے کو نرم کردیا تھا خواہ اس طرح کہ لوہا ان کے ہاتھ میں آ کر خود بخود نرم ہوجاتا ہو کہ اس کو جس طرح موڑیں مڑ جائے اور باریک یا موٹا کرنا چاہیں تو ہوجائے جیسے موم ہوتا ہے یا اس طرح کہ ان کو آگ میں پگھلا کر نرم کرنے کی تدبیر بتلا دی جو سب لوہے کے کارخانوں میں آج استعمال کی جاتی ہے۔- ایسی صنعت جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے مطلوب اور فعل انبیاء ہے :- اس آیت میں زرہ سازی کی صنعت داؤد (علیہ السلام) کو سکھانے کے ذکر کے ساتھ اس کی حکمت بھی یہ بتلائی ہے کہ لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْۢ بَاْسِكُمْ ، یعنی تاکہ یہ زرہ تمہیں جنگ کے وقت تیز تلوار کے خطرہ سے محفوظ رکھ سکے یہ ایک ایسی ضرورت ہے کہ جس سے اہل دین اور اہل دنیا سب کو کام پڑتا ہے اس لئے اس صنعت کے سکھانے کو اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک انعام قرار دیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ جس صنعت کے ذریعہ لوگوں کی ضرورتیں پوری ہوں اس کا سیکھنا سکھانا داخل ثواب ہے بشرطیکہ نیت خدمت خلق کی ہو، صرف کمائی ہی مقصد نہ ہو۔ حضرات انبیاء (علیہم السلام) سے مختلف قسم کی صنعتوں کا عمل کرنا منقول ہے حضرت آدم (علیہ السلام) سے کھیتی بونے کاٹنے کا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو صنعتکار اپنی صنعت میں نیت نیک یعنی خدمت خلق کی رکھے اس کی مثال ام موسیٰ کی سی ہوجاتی ہے کہ انہوں نے اپنے ہی بچہ کو دودھ پلایا اور معاوضہ فرعون کی طرف سے مفت میں ملا۔ اسی طرح خدمت خلق کی نیت سے صنعتکاری کرنے والے کو اپنا مقصد ثواب خدمت خلق تو حاصل ہوگا ہی صنعت کا نفع دنیوی مزید برآں اس کو ملے گا یہ حدیث حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ میں سورة طٰہٰ میں گزر چکی ہے۔- حضرت سلیمان (علیہ السلام) کیلئے ہوا کی تسخیر اور اس کے متعلقہ مسائل : - حضرت حسن بصری سے منقول ہے کہ جب حضرت سلیمان کا یہ واقعہ پیش آیا کہ لشکری گھوڑوں کے معائنہ میں مشغول ہو کر عصر کی نماز فوت ہوگئی تو اپنی اس غفلت پر افسوس ہوا اور یہ گھوڑے جو اس غفلت کا سبب بنے تھے ان کو بیکار کر کے چھوڑ دیا، چونکہ ان کا یہ عمل اللہ کی رضا جوئی کیلئے ہوا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو گھوڑوں سے بہتر اور تیز رفتار سواری ہوا کی عطا فرما دی اس واقعہ کی تفصیل اور اس سے متعلقہ آیات کی تفسیر سورة صٓ میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔
وَعَلَّمْنٰہُ صَنْعَۃَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْۢ بَاْسِكُمْ ٠ۚ فَہَلْ اَنْتُمْ شٰكِرُوْنَ ٨٠- علم ( تعلیم)- اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ، فمن التَّعْلِيمُ قوله : الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] ، عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق 4] ، وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] ، عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] ، ونحو ذلك . وقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31]- تعلیم - کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ہمیں خدا کی طرف ست جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] اور خدا کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] اور اس نے ادم کو سب چیزوں کے نام سکھائے ۔ میں آدم (علیہ السلام) کو اسماء کی تعلیم دینے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر بولنے کی صلاحیت اور استعدادرکھ دی جس کے ذریعہ اس نے ہر چیز کے لئے ایک نام وضع کرلیا یعنی اس کے دل میں القا کردیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو ان کے کام سکھا دیئے ہیں جسے وہ سر انجام دیتے رہتے ہیں اور آواز دی ہے جسے وہ نکالتے رہتے ہیٰ - صنع - الصُّنْعُ : إجادةُ الفعل، فكلّ صُنْعٍ فِعْلٌ ، ولیس کلّ فعل صُنْعاً ، ولا ينسب إلى الحیوانات والجمادات کما ينسب إليها الفعل . قال تعالی: صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل 88] ، وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود 38] ، - ( ص ن ع ) الصنع - ( ف) کے معنی کسی کام کو ( کمال مہارت سے ) اچھی طرح کرنے کے ہیں اس لئے ہر صنع کو فعل کہہ سکتے ہیں مگر ہر فعل کو صنع نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی لفظ فعل کی طرح حیوانات اور جمادات کے لئے بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل 88] یہ خدا کی صنعت کاری ہے جس نے ہر چیز کو نہایت مہارت سے محکم طور پر بنایا ۔ وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود 38] تو نوح (علیہ السلام) نے کشتی بنائی شروع کردی ۔- لبس - لَبِسَ الثّوب : استتر به، وأَلْبَسَهُ غيره، ومنه :- يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف 31] واللِّبَاسُ واللَّبُوسُ واللَّبْسُ ما يلبس . قال تعالی: قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] وجعل اللّباس لكلّ ما يغطّي من الإنسان عن قبیح، فجعل الزّوج لزوجه لباسا من حيث إنه يمنعها ويصدّها عن تعاطي قبیح . قال تعالی:- هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة 187] فسمّاهنّ لباسا کما سمّاها الشاعر إزارا في قوله :- 402-- فدی لک من أخي ثقة إزاري«1» وجعل التّقوی لِبَاساً علی طریق التّمثیل والتّشبيه، قال تعالی: وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف 26] وقوله : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء 80] يعني به : الدِّرْعَ ، وقوله : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل 112] ، وجعل الجوع والخوف لباسا علی التّجسیم والتشبيه تصویرا له، وذلک بحسب ما يقولون : تدرّع فلان الفقر، ولَبِسَ الجوعَ ،- ( ل ب س ) لبس الثوب - ۔ کے معنی کپڑا پہننے کے ہیں اور البسہ کے معنی دوسرے کو پہنانا کے ۔ قرآن میں ہے : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف 31] اور وہ سبز کپڑے پہنا کریں گے ۔ اللباس واللبوس واللبس وہ چیز جو پہنی جائے ۔ قرآن میں ہے : قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈاھانپے ۔ اور لباس کا لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے ۔ جو انسان کے برے کاموں پر پردہ ڈال سکے ۔ چناچہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کو قبائح کے ارتکاب سے روکتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة 187] وہ تمہاری پوشاک اور تم ان کی پوشاک ہو ۔ چناچہ اسی معنی میں شاعرنے اپنی بیوی کو ازار کہا ہے ۔ اے میرے قابل اعتماد بھائی پر میری ازار یعنی بیوی قربان ہو ۔ اور تمثیل و تشبیہ کے طور پر تقوی کو بھی لباس قرار دیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف 26] اور جو پر ہیزگاری کا لباس ہے ۔ اور آیت کریمہ : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء 80] اور ہم نے تمہارے لئے ان کو ایک طرح کا لباس بنانا ۔۔۔۔۔ میں لبوس سے زر ہیں مراد ہیں اور آیت کریمہ : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل 112] تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر ناشکری کا مزہ چکھا دیا ۔ میں جوں یعنی بھوک اور خوف کی تصویر کھینچے کے لئے اس لباس کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔- حصن - وتَحَصَّنَ : إذا اتخذ الحصن مسکنا، ثم يتجوّز به في كلّ تحرّز،- وقوله تعالی: إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ [يوسف 48] ، أي : تحرزون في المواضع الحصینة الجارية مجری الحصن - ( ح ص ن ) الحصن - تحصن کے اصل معنی نہ تو قلعہ کو مسکن بنا لینا کے ہیں مگر مجا زا ہر قسم کا بجاؤ حاصل کرنے پر لفظ بولا جاتا ہے ۔ اسی سے درع حصینۃ ( زرہ محکم ) اور فرس حصان ( اسپ نرو نجیب کا محاورہ ہے ۔ کیونکہ زرہ بدن کے لئے اور گھوڑا اپنے سوار کے لئے ایک طرح سے بمنزلہ قلعہ کسے ہوتا ہے ۔- اور آیت کریمہ : ۔ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ [يوسف 48] صرف وہی تھوڑا سا رہ جائیگا جو تم احتیاط سے رکھ چھوڑو گے ۔ میں تحصنون سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ قلعے جیسی محفوظ جگہوں میں حفا ظت سے رکھ چھوڑو ۔- بؤس - البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ : الشدة والمکروه، إلا أنّ البؤس في الفقر والحرب أكثر، والبأس والبأساء في النکاية، نحو : وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْساً وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا [ النساء 84] ، فَأَخَذْناهُمْ بِالْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ [ الأنعام 42] ، وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ [ البقرة 177] ، وقال تعالی: بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، وقد بَؤُسَ يَبْؤُسُ ، وبِعَذابٍ بَئِيسٍ [ الأعراف 165] ، فعیل من البأس أو من البؤس، فَلا تَبْتَئِسْ [هود 36] ، أي : لا تلزم البؤس ولا تحزن،- ( ب ء س) البؤس والباس - البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ ۔ تینوں میں سختی اور ناگواری کے معنی پائے جاتے ہیں مگر بؤس کا لفظ زیادہ تر فقرو فاقہ اور لڑائی کی سختی پر بولاجاتا ہے اور الباس والباساء ۔ بمعنی نکایہ ( یعنی جسمانی زخم اور نقصان کیلئے آتا ہے قرآن میں ہے وَاللهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا ( سورة النساء 84) اور خدا لڑائی کے اعتبار سے بہت سخت ہے اور سزا کے لحاظ سے بھی بہت سخت ہے فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ ( سورة الأَنعام 42) پھر ( ان کی نافرمانیوں کے سبب ) ہم انہیوں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ( سورة البقرة 177) اور سختی اور تکلیف میں اور ( معرکہ ) کا رزا ر کے وقت ثابت قدم رہیں ۔۔ بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ ( سورة الحشر 14) ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ بؤس یبوس ( باشا) بہادر اور مضبوط ہونا ۔ اور آیت کریمہ ۔ بِعَذَابٍ بَئِيسٍ ( سورة الأَعراف 165) بروزن فعیل ہے اور یہ باس یابوس سے مشتق ہے یعنی سخت عذاب میں اور آیت کریمہ ؛۔ فَلَا تَبْتَئِسْ ( سورة هود 36) کے معنی یہ ہیں کہ غمگین اور رنجیدہ رہنے کے عادی نہ بن جاؤ۔- شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجورح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔
(٨٠) اور ہم نے ان کو زرہ بنانے کی صنعت تم لوگوں کے نفع کے لیے سکھائی تاکہ وہ زرہ تمہیں لڑائی میں تمہارے دشمنوں کے ہتھیاروں سے بچائے، سو تم اس زرہ کی نعمت کا شکر کرو گے بھی یا نہیں۔
آیت ٨٠ (وَعَلَّمْنٰہُ صَنْعَۃَ لَبُوْسٍ لَّکُمْ ) ” - یہاں لباس سے مراد جنگی لباس یعنی زرہ بکتر ہے۔ گویا زرہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی ایجاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے لیے لوہے کو نرم کردیا تھا اور انہیں یہ ہنر براہ راست سکھایا تھا۔ - (لِتُحْصِنَکُمْ مِّنْم بَاْسِکُمْج فَہَلْ اَنْتُمْ شَاکِرُوْنَ ) ” - جنگ کے دوران زرہ بکتر تلوار ‘ نیزے اور تیروں سے ایک سپاہی کی حفاظت کرتی ہے۔
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :72 سورہ سبا میں مزید تفصیل یہ ہے : وَاَلَنَّا لَہُ الْحَدِیْدَ اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّ قَدِّرْ فِی السَّرْدِ ، اور ہم نے لوہے کو اس کے لیے نرم کر دیا ( اور اس کو ہدایت کی ) کہ پوری پوری زرہیں بنا اور ٹھیک اندازے سے کڑیاں جوڑ ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو لوہے کے استعمال پر قدرت عطا کی تھی ، اور خاص طور پر جنگی اغراض کے لیے زرہ سازی کا طریقہ سکھایا تھا ۔ موجودہ زمانے کی تاریخی و اثری تحقیقات سے ان آیات کے معنی پر جو روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں لوہے کے استعمال کا دور ( . ) 1200 ق م اور 1000 ق م کے درمیان شروع ہوا ہے ، اور یہی حضرت داؤد کا زمانہ ہے ۔ اول اول شام اور ایشیائے کو چک کی حِتّی قوم ( ) کو جس کے عروج کا زمانہ 2000 ق م سے 1200 ق م تک رہا ہے ، لوہے کے پگھلانے اور تیار کرنے کا ایک پیچیدہ طریقہ معلوم ہوا اور وہ شدت کے ساتھ اس کو دنیا بھر سے راز میں رکھ رہی ۔ مگر اس طریقے سے جو لوہا تیار ہوتا تھا وہ سونے چاندی کی طرح اتنا قیمتی ہوتا تھا کہ عام استعمال میں نہ آ سکتا تھا ۔ بعد میں فلستیوں نے یہ طریقہ معلوم کر لیا ، اور وہ بھی اسے راز ہی میں رکھتے رہے ۔ طالوت کی بادشاہی سے پہلے حتیوں اور فلستیوں نے بنی اسرائیل کو پیہم شکستیں دے کر جس طرح فلسطین سے تقریباً بے دخل کر دیا تھا ، بائیبل کے بیان کے مطابق اس کے وجوہ میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ یہ لوگ لوہے کی رتھیں استعمال کرتے تھے ۔ اور ان کے پاس دوسرے آہنی ہتھیار بھی تھے ( یشوع باب 17 ۔ آیت 16 ۔ قُضاۃ باب 1 ۔ آیت 19 ۔ باب 4 ۔ آیت 2 ۔ 3 ) ۔ 1020 ق م میں جب طالوت خدا کے حکم سے بنی اسرائیل کا فرمانروا ہوا تو اس نے پیہم شکستیں دے کر ان لوگوں سے فلسطین کا بڑا حصہ واپس لے لیا ، اور پھر حضرت داؤد ( 1004 ق م 965 ق م ) نے نہ صرف فلسطین و شرق اردن ، بلکہ شام کے بھی بڑے حصے پر اسرائیلی سلطنت قائم کر دی ۔ اس زمانہ میں آہن سازی کا وہ راز جو حتیوں اور فلستیوں کے قبضے میں تھا ، بے نقاب ہو گیا ، اور صرف بے نقاب ہی نہ ہوا بلکہ آہن سازی کے ایسے طریقے بھی نکل آئے جن سے عام استعمال کے لیے لوہے کی سستی چیزیں تیار ہونے لگیں ۔ فلسطین کے جنوب میں ادوم کا علاقہ خام لوہے ( ) کی دولت سے مالا مال ہے ، اور حال میں آثار قدیمہ کی جو کھدائیاں اس علاقے میں ہوئی ہیں ، ان میں بکثرت ایسی جگہوں کے آثار ملے ہیں جہاں لوہا پگھلانے کی بھٹیاں لگی ہوئی تھیں ۔ عَقبہ اور اَیَلہ سے متصل حضرت سلیمان کے زمانے کی بندرگاہ ، عِسْیُون جابر کے آثار قدیمہ میں جو بھٹی ملی ہے اس کے معائنے سے اندازہ کیا گیا کہ اس میں بعض وہ اصول استعمال کیے جاتے تھے جو آج جدید ترین زمانے کی ( ) میں استعمال ہوتے ہیں ۔ اب یہ ایک قدرتی بات ہے کہ حضرت داؤد نے سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر اس جدید دریافت کو جنگی اغراض کے لیے استعمال کیا ہو گا ، کیونکہ تھوڑی ہی مدت پہلے آس پاس کی دشمن قوموں نے اسی لوہے کے ہتھیاروں سے ان کی قوم پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تھا ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :73 حضرت داؤد کے متعلق مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ ، آیت 251 ، بنی اسرائیل حاشیہ 7 ۔ 63 ۔
34: سورۃ سبا :10 میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوہے کو ان ک ہاتھ میں نرم کردیا تھا اور وہ اسے جس طرح چاہتے موڑ لیتے تھے، اور لوہے کی زرہ اس طرح بناتے تھے کہ اس کے تمام خانے نہایت متوازن ہوتے تھے۔ علمائے کرام نے اس آیت کے تحت فرمایا ہے کہ اس میں ہر اس صنعت کے قابل تعریف ہونے کی طرف اشارہ ہے جو انسانوں کے لیے فائدہ مند ہو۔