Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

81۔ 1 یعنی جس طرح پہاڑ اور پرندے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے لئے مسخر کردیئے تھے، اسی طرح ہوا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردی گئی تھی۔ وہ اپنے وزرا سلطنت سمیت تخت پر بیٹھ جاتے تھے اور جہاں چاہتے، مہینوں کی مسافت، لمحوں اور ساعتوں میں طے کرکے وہاں پہنچ جاتے، ہوا آپ کے تخت کو اڑا کرلے جاتی۔ بابرکت زمین سے مراد شام کا علاقہ ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٩] پہلے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کے فیصلے کا ذکر ہوا۔ بعد میں ان پر انعامات کا۔ حضرت سلیمان کو ایک معجزہ تو یہ عطا ہوا کہ تند و تیز ہوا ان کے لئے مسخر کردی گوی تھی۔ وہ ہوا کا جس طرح کا حکم دیتے وہ آپ کا تابع فرمان رہتی اور اس طرح آپ ایک ماہ کا سفر صرف چند گھنٹوں یعنی ٣ سے ٦ گھنٹوں کے درمیان کرلیا کرتے تھے۔ قرآن کریم کی تصریحات سے یہی کچھ ثابت ہے اور اس کی ایک توجیہہ، جو عام طور پر مشہور ہے، یہ کی گئی ہے کہ آپ نے ایک بہت بڑا تخت بنوایا تھا۔ جب آپ چاہتے اس پر خود بھی آپ کے۔۔ سلطنت بھی بیٹھ جاتے اور بھی جسے چاہتے اس پر بٹھا لیتے، پھر ہوا کو حکم دیتے تو وہ اس تخت کو اٹھا لیتی اور جب یہ تخت زمین سے خاصا بلند ہوجاتا تو آپ اس شام کا سفر کیا کرتے تھے اور جہاں آپ کو اترنا ہوتا تو آپ ہوا کو حکم دیتے تو وہ نرمی سے چلنے لگتی اور جہاں آپ چاہتے وہاں اتر جاتے تھے۔ اس طرح جو کام آج کے ہوائی جہاز پٹرول کے ذریعہ کرتے ہیں۔ حضرت سلیمان یہی کام ہوا سے لے لیا کرتے تھے۔ اور اس کی رفتار بھی تقریباً وہی ہوتی تھی جو آج کل ہوائی جہازوں کی ہے۔ اس دور میں یہ ایک معجزہ تھا مگر آج کے دور میں ایک عادی اور معمولی چیز بن چکا ہے اور اس سفر کی دوسری توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ حضرت داؤد کو تو اللہ تعالیٰ نے لوہے کی ڈھلائی کا کام سکھلایا تھا۔ جبکہ سلیمان کو لوہے کے علاوہ تانبے کی ڈھلائی کا فن بھی سکھلا دیا تھا اور آپ کے دور میں یہ کام آپ کی نگرانی میں وسیع پیمانہ پر ہوتا تھا۔ جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا (وَاَسَلْنَا لَهٗ عَيْنَ الْقِطْرِ 12؀) 34 ۔ سبأ :12) (یعنی ہم نے سلیمان کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کے چشمے بہا دیئے تھے) جس کا نتیجہ یہ تھا کہ آپ کے دور میں لوہے اور تانبے کی مصنوعات نے خاص ترقی کی تھی اور آپ ان کی وسیع پیمانہ پر تجارت کیا کرتے تھے۔ آپ کے بحری بیڑے یمن سے شام اور شام سے یمن آتے جاتے تھے۔ اور چونکہ ہوا آپ کے تابع فرمان تھی لہذا یہ بیڑے برق رفتاری سے سفر کرتے اور ایک ماہ کا سفر چند گھنٹوں میں طے کرلیتے تھے۔- [٧٠] یعنی ہم یہ بھی خوب جانتے ہیں کہ کون کس بات کا اہل ہے اور یہ بھی کسی چیز مثلاً ہوا سے ہی کیا کیا کام لیا جاسکتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ عَاصِفَةً : اللہ تعالیٰ نے پانی کو حکم دیا تو اس نے نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو چھوڑ کر ان کی ساری قوم کو غرق کردیا۔ آگ کو حکم دیا تو وہ ابراہیم (علیہ السلام) پر برد وسلام بن گئی۔ داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ تسبیح کے لیے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کردیا، فرمایا : (وَّسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ) [ الأنبیاء : ٧٩ ] مگر پانی یا آگ کو نوح یا ابراہیم (علیہ السلام) کے تابع فرمان نہیں کیا، نہ پہاڑوں یا پرندوں کو داؤد (علیہ السلام) کے حکم کا پابند کیا، مگر سلیمان (علیہ السلام) کا خاصہ یہ ہے کہ ہوا ان کے حکم کے تابع کردی گئی، فرمایا : (تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖٓ ) کہ وہ اس کے حکم سے چلتی تھی۔- عَاصِفَةًکا معنی ہے ” شَدِیْدَۃُ الْھُبُوْبِ “ بہت سخت تیز چلنے والی ہوا۔ سورة ص میں فرمایا : (فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيْحَ تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖ رُخَاۗءً حَيْثُ اَصَابَ ) [ ص : ٣٦ ] ” تو ہم نے اس کے لیے ہوا کو تابع کردیا، جو اس کے حکم سے بہت نرم چلتی تھی، جہاں کا وہ ارادہ کرتا تھا۔ “ اور سورة سبا میں فرمایا : (وَلِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَّ رَوَاحُهَا شَهْرٌ ) [ سبا : ١٢ ] ” اور (ہم نے) ہوا کو سلیمان کے (تابع کردیا) پہلے پہر اس کا چلنا ایک ماہ کا تھا اور پچھلے پہر اس کا چلنا بھی ایک ماہ کا۔ “ یہاں ایک سوال ہے کہ ایک جگہ اس کو تند و تیز بتایا، دوسری جگہ نہایت نرم ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اس ہوا میں دونوں خوبیاں موجود ہوتی تھیں، تند و تیز اتنی کہ صبح کے وقت چند گھنٹوں میں ایک ماہ کا سفر طے کرلیتی، اسی طرح پچھلے پہر بھی چند گھنٹوں میں اتنا ہی سفر طے کرلیتی اور نرم اور ہموار اتنی کہ سلیمان (علیہ السلام) اور ان کے ہمراہیوں کو کوئی تکلیف یا جھٹکا محسوس نہ ہوتا۔ - تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖٓ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا : قرآن مجید میں ارض مبارک شام کو کہا گیا ہے۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل۔ اس آیت میں سلیمان (علیہ السلام) کے اپنے کسی بھی سفر سے ان کے دار الحکومت شام کی طرف واپسی کا ذکر ہے، کیونکہ بعض اوقات آدمی سفر میں جاتے ہوئے بہت دور پہنچ جاتا ہے اور واپسی اس کے لیے مشکل ہوتی ہے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہوا سلیمان (علیہ السلام) کے حکم سے ارض مبارک کی طرف چلتی تھی۔ رہا سلیمان (علیہ السلام) کا دوسرے مقامات کی طرف جانا، تو اس کا ذکر سورة ص (٣٦) میں ہے کہ ہوا ان کے حکم سے اسی طرف چل پڑتی تھی جہاں ان کا ارادہ ہوتا، جیسا کہ پچھلے فائدے میں گزرا ہے۔- ہوا کو سلیمان (علیہ السلام) کے لیے مسخر کرنے سے کیا مراد ہے ؟ بعض مفسرین نے اس سے ہوا کا ان کے بحری بیڑوں کے موافق چلنا مراد لیا ہے، کیونکہ اس زمانے میں بحری جہازوں کا چلنا موافق ہوا پر موقوف تھا۔ یہ حضرات بائبل کا حوالہ دیتے ہیں۔ بعض تابعین نے کہا کہ سلیمان (علیہ السلام) اور ان کی افواج لکڑی کے بہت لمبے چوڑے چبوترے پر بیٹھ جاتے تو سلیمان (علیہ السلام) کے حکم سے ہوا انھیں اٹھا کر ان کی منزل مقصود کی طرف چل پڑتی۔ بعض نے اس طرح کے ایک مربع میل قالین کا ذکر کیا ہے۔ ظاہر ہے ان میں سے کوئی صاحب بھی موقع پر موجود نہیں تھا اور نہ انھوں نے اپنی معلومات کا کوئی ذریعہ بیان کیا ہے۔ رہی بائبل، تو اس کی حیثیت مقدمے میں تفصیل سے بیان ہوچکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة ص میں ذکر فرمایا ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) نے دعا کی تھی : (رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ ) [ صٓ : ٣٥ ] ” اے میرے رب مجھے بخش دے اور مجھے ایسی بادشاہی عطا فرما جو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو۔ “ اس دعا کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ہوا ان کے تابع کردی کہ ان کے حکم سے وہ جہاں کا ارادہ کرتے چل پڑتی تھی۔ آج کل انسان مہینوں کا سفر گھنٹوں میں ہوائی جہاز کے ذریعے سے طے کر رہا ہے، اگر سمندری سفر کی تیزی ہی مراد ہو تو یہ وہ سلطنت تو ہرگز نہیں جو سلیمان (علیہ السلام) کے بعد کسی کے لائق ہی نہیں۔ کیونکہ ہوائی جہاز سمندر ہی نہیں خشکی کو بھی عبور کرتے چلے جا رہے ہیں اور وہ تقریباً ہر ملک میں موجود ہیں۔ اس لیے ماننا پڑے گا کہ ان کے لیے ہوا کی وہ تسخیر ہوائی جہازوں اور اس قسم کے آلات کی محتاج نہ تھی، بلکہ وہ اس سے بہت اعلیٰ چیز تھی جس کی بدولت وہ ہوا کے ذریعے سے سمندروں اور خشکی پر مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرتے ہوئے جہاں چاہتے چلے جاتے تھے۔ اس کی تفصیل اگر انسان کی سمجھ میں آسکتی یا اس کی ضرورت ہوتی تو اللہ تعالیٰ بیان فرما دیتا، ہمیں اتنا ہی کافی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا۔- وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عٰلِمِيْنَ : یہ اس سوال کا جواب ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تند و تیز ہوا نہایت نرمی سے چلتی ہوئی سلیمان (علیہ السلام) کو لے کر مہینوں کا سفر پہروں میں طے کرلے ؟ فرمایا، ہم ہمیشہ سے ہر چیز کا علم رکھتے ہیں اور ہمارے لیے یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَلِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ عَاصِفَةً ، یہ جملہ سابقہ سَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ پر عطف ہے یعنی جیسے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے لئے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کردیا تھا جو ان کی آواز کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے اسی طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے ہوا کو مسخر کردیا تھا جس پر سوار ہو کر وہ جہاں چاہتے بہت جلد آسانی سے پہنچ جاتے تھے اس جگہ یہ امر قابل لحاظ ہے کہ تسخیر داؤد (علیہ السلام) میں تو لفظ مَعَ استعمال فرمایا کہ ان کے ساتھ پہاڑوں پرندوں کو مسخر کردیا تھا اور یہاں حرف لام کے ساتھ فرمایا کہ ہوا کو سلیمان (علیہ السلام) کے لئے مسخر کردیا تھا اس میں لطیف اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ دونوں تسخیروں میں فرق تھا، داؤد (علیہ السلام) جب تلاوت کرتے تو پہاڑ اور پرندے خود بخود تسبیح کرنے لگتے تھے ان کے حکم کے منتظر نہ رہتے تھے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے ہوا کو ان کے حکم کے تابع بنادیا گیا کہ جب چاہیں جس وقت چاہیں جس طرف جانا چاہیں ہوا کو حکم دے دیا اس نے پہنچا دیا پھر جہاں اترنا چاہیں وہاں اتار دیا پھر جب واپس چلنے کا حکم ہوا واپس پہنچا دیا۔ (روح عن البیضاوی)- تفسیر ابن کثیر میں تخت سلیمان (علیہ السلام) جو ہوا پر چلتا تھا اس کی کیفیت یہ بیان کی ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) نے لکڑی کا ایک بہت بڑا وسیع تخت بنوایا تھا جس پر خود مع اعیان سلطنت اور مع لشکر اور آلات حرب کے سب سوار ہوجاتے پھر ہوا کو حکم دیتے وہ اس عظیم الشان وسیع و عریض تخت کو اپنے کاندھوں پر اٹھا کر جہاں کا حکم ہوتا وہاں جا کر اتار دیتی تھی۔ یہ ہوائی تخت صبح سے دوپہر تک ایک مہینہ کی مسافت طے کرتا تھا اور دوپہر سے شام تک ایک مہینہ کی یعنی ایک دن میں دو مہینوں کی مسافت ہوا کے ذریعہ طے ہوجاتی تھی۔ ابن ابی حاتم نے حضرت سعید بن جبیر سے نقل کیا ہے کہ اس تخت سلیمانی پر چھ لاکھ کرسیاں رکھی جاتی تھی جس میں سلیمان (علیہ السلام) کے ساتھ اہل ایمان انسان سوار ہوتے تھے اور ان کے پیچھے اہل ایمان جن بیٹھتے تھے پھر پرندوں کو حکم ہوتا کہ وہ اس پورے تخت پر سایہ کرلیں تاکہ آفتاب کی تپش سے تکلیف نہ ہو پھر ہوا کو حکم دیا جاتا تھا وہ اس عظیم الشان مجمع کو اٹھا کر جہاں کا حکم ہوتا پہنچا دیتی تھی۔ اور بعض روایات میں ہے کہ اس ہوائی سفر کے وقت پورے راستہ میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) سر جھکائے ہوئے اللہ کے ذکر و شکر میں مشغول رہتے تھے دائیں بائیں کچھ نہ دیکھتے تھے اور اپنے عمل سے تواضع کا اظہار فرماتے تھے (ابن کثیر)- عَاصِفَةً ، ریح عاصفہ کے لفظی معنی سخت اور تیز ہوا کے ہیں۔ قرآن کریم کی دوسری آیت میں اس ہوا کی صفت رخاء بیان کی گئی ہے جس کے معنی نرم ہوا کے ہیں جس سے نہ غبار اڑے نہ فضا میں تلاطم پیدا ہو۔ بظاہر یہ دو متضاد صفتیں ہیں لیکن دونوں صفتوں کا جمع ہونا اس طرح ممکن ہے کہ یہ ہوا اپنی ذات میں بڑی سخت اور تیز ہو جس کی وجہ سے چند گھنٹوں میں ایک مہینہ کی مسافت طے کرسکے لیکن قدرت حق تعالیٰ نے اس کو ایسا بنادیا ہو کہ اس سے فضاء میں تلاطم نہ پیدا ہو چناچہ اس کا یہ حال بیان کیا گیا ہے کہ جس فضا میں یہ تخت روانہ ہوتا تھا وہاں کسی پرندے کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچتا تھا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ عَاصِفَۃً تَجْرِيْ بِاَمْرِہٖٓ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْہَا۝ ٠ۭ وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عٰلِمِيْنَ۝ ٨١- الرِّيحُ معروف،- وهي فيما قيل الهواء المتحرّك . وعامّة المواضع الّتي ذکر اللہ تعالیٰ فيها إرسال الرّيح بلفظ الواحد فعبارة عن العذاب، وكلّ موضع ذکر فيه بلفظ الجمع فعبارة عن الرّحمة، فمن الرِّيحِ : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر 19] ، فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب 9] ، مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران 117] ، اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم 18] . وقال في الجمع : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر 22] ، أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم 46] ، يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف 57] . وأمّا قوله :- يرسل الرّيح فتثیر سحابا «3» فالأظهر فيه الرّحمة، وقرئ بلفظ الجمع «4» ، وهو أصحّ.- وقد يستعار الرّيح للغلبة في قوله : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] ، وقیل : أَرْوَحَ الماءُ :- تغيّرت ريحه، واختصّ ذلک بالنّتن . ورِيحَ الغدیرُ يَرَاحُ : أصابته الرِّيحُ ، وأَرَاحُوا : دخلوا في الرَّوَاحِ ، ودهن مُرَوَّحٌ: مطيّب الرّيح . وروي :«لم يَرَحْ رَائِحَةَ الجنّة» «5» أي : لم يجد ريحها، والمَرْوَحَةُ :- مهبّ الرّيح، والمِرْوَحَةُ : الآلة التي بها تستجلب الرّيح، والرَّائِحَةُ : تَرَوُّحُ هواء .- ورَاحَ فلان إلى أهله إمّا أنه أتاهم في السّرعة کالرّيح، أو أنّه استفاد برجوعه إليهم روحا من - المسرّة . والرَّاحةُ من الرَّوْح، ويقال : افعل ذلک في سراح ورَوَاحٍ ، أي : سهولة . والمُرَاوَحَةُ في العمل : أن يعمل هذا مرّة، وذلک مرّة، واستعیر الرَّوَاحُ للوقت الذي يراح الإنسان فيه من نصف النّهار، ومنه قيل : أَرَحْنَا إبلَنا، وأَرَحْتُ إليه حقّه مستعار من : أرحت الإبل، والْمُرَاحُ : حيث تُرَاحُ الإبل، وتَرَوَّحَ الشجر ورَاحَ يَراحُ : تفطّر . وتصوّر من الرّوح السّعة، فقیل : قصعة رَوْحَاءُ ، وقوله : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف 87] ، أي : من فرجه ورحمته، وذلک بعض الرّوح .- الریح کے معنی معروف ہیں - ۔ یعنی ہوا متحرک کو کہتے ہیں عام طور پر جن مواضع میں ( رسال الریح صیغہ مفرد کے ساتھ مذکور ہے وہاں عذاب مراد ہے اور جہاں کہیں لفظ جمع کے ساتھ مذکور ہے وہاں رحمت مراد ہے ۔ چناچہ ریح کے متعلق فرمایا : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر 19] ہم نے ان پر ایک زنانے کی اندھی چلائی ۔ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب 9] تو ہم نے ان پر آندھی چلائی ۔ مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران 117] مثال اس ہوا کی ہے ۔ جس میں بڑی ٹھر بھی ہوا۔ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم 18] اس کو سخت ہوا لے اڑی ۔ اور ریاح ( جمع کا لفظ ) کے متعلق فرمایا : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر 22] اور ہم ہی ہوا کو چلاتے ہیں جو بادلوں کو پانی بار وار کرتی ہے ۔ أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم 46] کہ وہ ہواؤں کو اس غرض سے بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بارش کی خوشخبری پہنچائیں ۔ يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف 57] باران رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بھیجتا ہے تاکہ لوگوں کو مینہ کی آمد کی خوشخبری پہنچادیں ۔ اور آیت ير - سل الرّيح فتثیر سحابا «3»اور وہ قادرمطلق ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ ہوائیں بادلوں کو ان کی جگہ سے ابھارتی ہے ۔ میں بھی چونکہ معنی رحمت اغلب ہے اس لئے یہاں لفظ جمع کی قرات زیادہ صحیح ہے ۔ کبھی مجازا ریح بمعنی غلبہ بھی آجاتا ہے چناچہ فرمایا : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] اور تمہاری وہوا اکھڑ جائے گی ۔ محاورہ : اروح الماء پانی متغیر ہوگیا خاص کر بدبو دار ہونے کے وقت بولتے ہیں ۔ ریح الغد یرییراح جوہڑ پر ہوا کا چلنا ۔ اور اراحوا کے معنی رواح یعنی شام کے وقت میں داخل ہونے کے ہیں اور خشبودار تیل کو دھن مروح کہا جاتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ( 163) لم یرح راحئتہ الجنتہ کہ وہ جنت کی کو شبوتک نہیں پائے گا ۔ المروحبتہ ہوا چلنے کی سمت المروحتہ ( آلہ ) پنکھا ۔ الرئحتہ مہکنے والی خوشبو ۔ محاورہ ہے ۔ راح فلان الیٰ اھلہ ( 1) فلاں اپنئ اہل کیطرف ہوا کی طرح تیزی کے ساتھ گیا ۔ ۔ ( 2) اس نے اپنے اہل و عیال میں پہنچ کر راحت حاصل کی ۔ الرحتہ آرام ۔ یہ بھی روح سے موخوذ ہے ۔ مشہور محاورہ ہے ۔ افعل ذالک فی مراح وراح کہ آرام سے یہ کام کرو ۔- المراوحتہ - کے معنی ہیں دو کاموں کو باری باری کرنا ۔ اور استعارہ کے طور پر رواح سے دوپہر کو آرام کا وقت مراد لیا جاتا ہے اور اسی سے کہا جاتا ہے ۔ ارحنا ابلنا کہ ہم نے اونٹوں کو آرام دیا ( یعنی بازہ میں لے آئے ) اور پھر ارحت الابل سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ کہ میں نے اس کا حق واپس لوٹا دیا اور مراح باڑے کو کہا جاتا ہے اور تروح الشجرہ وراح یراح کے معنی درخت کے شکوفہ دار ہونے اور نئے پتے نکالنے کے ہیں اور کبھی روح سے وسعت اور فراخی کے معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے ۔ قصعتہ روحاء فراخ پیالہ اور آیت کریمہ : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف 87] اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ ۔ میں بھی وسعت رحمت مراد ہے جو لفظ روح سے مفہوم ہوتی ہے ۔- عصف - العَصْفُ والعَصِيفَةُ : الذي يُعْصَفُ من الزّرعِ ، ويقال لحطام النّبت المتکسّر : عَصْفٌ.- قال تعالی: وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ [ الرحمن 12] ، كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ [ الفیل 5] ، ورِيحٌ عاصِفٌ [يونس 22] ، وعَاصِفَةٌ ومُعْصِفَةٌ: تَكْسِرُ الشیءَ فتجعله كَعَصْفٍ ، وعَصَفَتْ بهم الرّيحُ تشبيها بذلک .- ( ع ص ف ) العصف واعصیفتہ - کھیتی کے پتے جو کاٹ لئے جاتے ہیں نیز خشک نباتات جو ٹوٹ کر چور چور ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ [ الرحمن 12] اور اناج چھلکے کے اندر ہوتا ہے ۔ ، كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ [ الفیل 5] جیسے کھا یا ہوا بھس ہو ۔ ورِيحٌ عاصِفٌ [يونس 22] ریح عاصف وعاصفتہ ومعصفتہ تند ہوا جو ہر چیز کو توڑ کر بھس کی طرح بنادے اور مجازا عصفت بھم الریح کے معنی ہیں وہ ہلاک اور برباد ہوگئے ۔ - جری - الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51]- ( ج ر ی ) جریٰ ( ض)- جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - برك - أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء .- قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96]- ( ب رک ) البرک - اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات - ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔- شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨١) اور ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کے لیے تیز ہوا کو تابع بنادیا تھا اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے، یا یہ کہ سلیمان (علیہ السلام) کے حکم سے اصطخر سے اس سرزمین کی طرف چلتی، جس میں ہم نے پھلوں وغیرہ کی برکت رکھی ہے یعنی شام، اردن، فلسطین کی طرف اور ہم ہر چیز کو جانتے ہیں، اس لیے ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ان چیزوں کو مسخر کیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :74 اس کی تفصیل سورہ سبا میں یہ آئی ہے : وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّ یْحَ غُدُوُّھَا شَھْرٌ وَ رَوَاحُھَا شَھْرٌ ، اور سلیمان کے لیے ہم نے ہوا کو مسخر کر دیا تھا ، ایک مہینے کی راہ تک اس کا چلنا صبح کو اور ایک مہینے کی راہ تک اس کا چلنا شام کو ۔ پھر اس کی مزید تفصیل سورہ ص میں یہ آتی ہے : فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِہ رَخَآءً حَیْثُ اَصَابَ ۔ پس ہم نے اس کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا جو اس کے حکم سے بسہولت چلتی تھی جدھر وہ جانا چاہتا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہوا کو حضرت سلیمان کے لیے اس طرح تابع امر کر دیا گیا تھا کہ ان کی مملکت سے ایک مہینے کی راہ تک کے مقامات کا سفر بسہولت کیا جا سکتا تھا ۔ جانے میں بھی ہمیشہ ان کی مرضی کے مطابق باد موافق ملتی تھی اور واپسی پر بھی ۔ بائیبل اور جدید تاریخی تحقیقات سے اس مضمون پر جو روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان نے اپنے دور سلطنت میں بہت بڑے پیمانے پر بحری تجارت کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔ ایک طرف عصیون جابر سے ان کے تجارتی جہاز بحر احمر میں یمن اور دوسرے جنوبی و مشرقی ممالک کی طرف جاتے تھے ، اور دوسری طرف بحر روم کے بندر گاہوں سے ان کا بیڑہ ( جسے بائیبل میں ترسیسی بیڑہ کہا گیا ہے ) مغربی ممالک کی طرف جایا کرتا تھا ۔ عصیون جابر میں ان کے زمانے کی جو عظیم الشان بھٹی ملی ہے اس کے مقابلے کی کوئی بھٹی مغربی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں ابھی تک نہیں ملی ۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہاں ادوم کے علاقہ عَرَبَہ کی کانوں سے خام لوہا اور تانبا لایا جاتا تھا اور اس بھٹی میں پگھلا کر اسے دوسرے کاموں کے علاوہ جہاز سازی میں بھی استعمال کیا جا تا تھا ۔ اس سے قرآن مجید کی اس آیت کے مفہوم پر روشنی پڑتی ہے جو سورہ سبا میں حضرت سلیمان کے متعلق آئی ہے کہ : وَاَسَلْنَا لَہ عَیْنَ الْقِطْرِ ، اور ہم نے اس کے لیے پگھلی ہوئی دھات کا چشمہ بہا دیا ۔ نیز اس تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات بھی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ حضرت سلیمان کے لیے ایک مہینے کی راہ تک ہوا کی رفتار کو مسخر کرنے کا کیا مطلب ہے ۔ اس زمانے میں بحری سفر کا سارا انحصار باد موافق ملنے پر تھا ، اور اللہ تعالیٰ کا حضرت سلیمان پر یہ کرم خاص تھا کہ وہ ہمیشہ ان کے دونوں بحری بیڑوں کو ان کی مرضی کے مطابق ملتی تھی ۔ تا ہم اگر ہوا پر حضرت سلیمان کو حکم چلانے کا بھی کوئی اقتدار دیا گیا ہو ، جیسا کہ : تَجْرِیْ بِاَمْرِہ ، ( اس کے حکم سے چلتی تھی ) کے ظاہر الفاظ سے مترشح ہوتا ہے ، تو یہ اللہ کی قدرت سے بعید نہیں ہے ۔ وہ اپنی مملکت کا آپ مالک ہے ۔ اپنے جس بندے کو جو اختیارات چاہے دے سکتا ہے ۔ جب وہ خود کسی کو کوئی اختیار دے تو ہمارا دل دکھنے کی وجہ نہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

35: حضرت داود (علیہ السلام) کے لیے اللہ تعالیٰ نے لوہے جیسی سخت چیز کو نرم کردیا تھا، اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ہوا جیسی لطیف چیز کو۔ چنانچہ وہ اپنے تخت پر بیٹھ کر ہوا کو حکم دیتے تو وہ انہیں ان کی مرضی کے مطابق جہاں چاہتے لے جاتی تھی، اور سورۃ سبا : 12 میں مذکور ہے کہ وہ ایک مہینے کا فاصلہ صبح کے سفر میں، اور ایک مہینے کا فاصلہ شام کے سفر میں طے کرلیا کرتے تھے اور برکتوں والی سرزمین سے مراد شام یا فلسطین کا علاقہ ہے، اور مطلب یہ ہے کہ جب وہ کہیں دور چلے جاتے تو وہ ہوا انہیں تیز رفتاری کے ساتھ واپس اپنے شہر میں لے آتی تھی جو فلسطین میں واقع تھا۔