82۔ 1 جنات بھی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تابع تھے جو ان کے حکم سے سمندروں میں غوتے لگاتے اور موتی اور جواہر نکال لاتے، اسی طرح دیگر عمارتی کام، جو آپ چاہتے کرتے تھے۔ 82۔ 2 یعنی جنوں کے اندر جو سرکشی اور فساد کا مادہ ہے، اس سے ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کی حفاظت کی اور وہ ان کے آگے سرتابی کی مجال نہیں رکھتے تھے۔
[٧١] جو حضرات معجزات کی تاویل کرنے کے عادی ہیں اور جب تک وہ انھیں طبعی امور کے تابع نہ بنالیں انھیں چین نہیں آتا۔ وہ اس آیت میں شیطانوں سے مراد دیہاتی طاقتور انسان لیتے ہیں۔ حالانکہ دیہاتی طاقتور لوگ بھی انسان ہی ہوتے ہیں ان کے دیہاتی یا طاقتور ہونے سے ان کی نوع نہیں بدل جاتی۔ دنیا میں جتنی بھی فلک بوس عمارتیں ہیں یا بھاری کام ہوتے ہیں۔ یہ سب کام دیہاتی طاقتور ہی سرانجام دیتے ہیں۔ یہ شہری نازنینوں کا کام نہیں ہوتا۔ اور دیہاتی طاقتور ہر بادشاہ بلکہ ہر سرماہ دار کو آسانی سے میسر آسکتے ہیں۔ پھر اس میں حضرت سلیمان کی کیا خصوصیت رہی جن کے خادمین میں اللہ نے بطور خاص جنوں کا نام لیا ہے۔- [٧٢] یعنی ہم نے ان شیطانوں کو سلیمان کے تابع فرمان بنا رکھا تھا۔ وہ نہ ان کی حکم عدولی کرسکتے تھے اور نہ ان کے ہاں سے بھاگ سکتے تھے اور یہ سلیمان کا کوئی ذاتی کمال نہ تھا۔ بلکہ شیطان ان کے تابع فرمان رہنے پر اس لئے مجبور تھے کہ ہم خود ان کے محافظ تھے۔
وَمِنَ الشَّيٰطِيْنِ مَنْ يَّغُوْصُوْنَ لَهٗ : اللہ تعالیٰ نے ہوا کے علاوہ کئی شیطان جن بھی سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیے۔ گویا عناصر اربعہ میں سے ہوا کے علاوہ آگ سے بنی ہوئی کچھ مخلوق بھی ان کے تابع فرمان کردی گئی، پھر اس مخلوق کے ذریعے سے غوطہ خوری کے ساتھ بہت سے سمندری منافع حاصل کرنے کی استطاعت بخشی اور انھی کے ذریعے سے مٹی اور اس سے نکلنے والے پتھر وغیرہ سے ہر وہ چیز بنانا ان کی دسترس میں کردیا جو وہ بنانا چاہتے تھے۔ گویا تسخیر عناصر کی عجیب نعمت انھیں عطا فرمائی گئی۔ (بقاعی) بعض منحرف مفسرین کا کہنا ہے کہ شیاطین کا لفظ جن و انس دونوں پر آجاتا ہے، جیسا کہ سورة انعام (١١٢) میں ” شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ “ کا ذکر ہے، اس لیے دراصل یہ سرکش اور قوی قسم کے دیہاتی لوگ تھے، جن سے سلیمان (علیہ السلام) غوطہ خوری اور عمارات کی تعمیر کا کام لیتے تھے۔ مگر سورة سبا میں صراحت ہے : (وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَّعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِاِذْنِ رَبِّهٖ ۭ وَمَنْ يَّزِغْ مِنْهُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَاب السَّعِيْرِ 12 يَعْمَلُوْنَ لَهٗ مَا يَشَاۗءُ مِنْ مَّحَارِيْبَ وَتَمَاثِيْلَ وَجِفَانٍ كَالْجَــوَابِ وَقُدُوْرٍ رّٰسِيٰتٍ ۭ اِعْمَلُوْٓا اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًا ۭ وَقَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرُ ) [ سبا : ١٢، ١٣ ] ” اور جنوں میں سے کچھ وہ تھے جو اس کے سامنے اس کے رب کے اذن سے کام کرتے تھے اور ان میں سے جو ہمارے حکم سے کجی کرتا ہم اسے بھڑکتی آگ کا کچھ عذاب چکھاتے تھے۔ وہ اس کے لیے بناتے تھے جو وہ چاہتا تھا، بڑی بڑی عمارتیں، مجسّمے اور حوضوں جیسے لگن اور ایک جگہ جمی ہوئی دیگیں۔ اے داؤد کے گھر والو شکر ادا کرنے کے لیے عمل کرو۔ اور بہت تھوڑے میرے بندوں میں سے پورے شکر گزار ہیں۔ “ سورة سبا (١٤) ہی میں ذکر ہے کہ ان جنوں کے متعلق بعض لوگوں کا عقیدہ تھا کہ وہ غیب دان ہیں مگر جنوں کو سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کا علم اس وقت تک نہ ہوا جب تک دیمک نے ان کی لاٹھی کو کھا نہیں لیا، پھر جب سلیمان (علیہ السلام) گرے تو جنوں کی حقیقت کھل گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلیل عذاب (عمارتیں وغیرہ بنانے کے کام) میں نہ رہتے۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے غوطہ خوری اور دوسرے دشوار کاموں کے لیے جنوں میں سے کچھ شیاطین کو سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کیا تھا، ورنہ دیہاتی سرکش اور قوی انسان تو سلیمان (علیہ السلام) سے پہلے بھی عمارتیں بناتے تھے اور اب بھی بناتے ہیں، پھر سلیمان (علیہ السلام) کی وہ بےمثال سلطنت کیا ہوئی جس جیسی سلطنت ان کے بعد کسی کے لائق ہی نہیں ہے۔- وَيَعْمَلُوْنَ عَمَلًا دُوْنَ ذٰلِكَ : اس کی تفصیل کچھ پچھلے فائدے میں گزری ہے، کچھ سورة سبا (١٢ تا ١٤) میں آئے گی۔ - وَكُنَّا لَهُمْ حٰفِظِيْنَ : یعنی اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی قدرت سے سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا اور خود ان کی حفاظت فرمائی کہ نہ وہ بھاگ سکتے تھے، نہ ان کی نافرمانی کرسکتے تھے، نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتے تھے اور نہ کوئی چیز یا کوئی کام خراب کرسکتے تھے، کیونکہ جو ان کے حکم سے ذرا بھی سرتابی کرتا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے بھڑکتی ہوئی آگ سے سزا دی جاتی، فرمایا : (وَمَنْ يَّزِغْ مِنْهُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَاب السَّعِيْرِ ) [ سبا : ١٢ ] ” اور ان میں سے جو ہمارے حکم سے کجی کرتا ہم اسے بھڑکتی آگ کا کچھ عذاب چکھاتے تھے۔ “ اور جو زیادہ ہی سرکشی دکھانے والے تھے انھیں بیڑیوں میں اکٹھے جکڑنے کا بندوبست موجود تھا، فرمایا : (وَّاٰخَرِيْنَ مُقَرَّنِيْنَ فِي الْاَصْفَادِ ) [ ص : ٣٨ ] ” اور کچھ اوروں کو بھی (تابع کردیا) جو بیڑیوں میں اکٹھے جکڑے ہوئے تھے۔ “ ظاہر ہے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا، ورنہ انسان کی کیا بساط کہ اتنی خوفناک قوتوں کو قابو میں رکھ سکے۔- 3 اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سلیمان (علیہ السلام) کے تابع جو جن کیے گئے تھے وہ کافر تھے، کیونکہ شیطان کا کفر معلوم ہے۔ اگر وہ مسلمان ہوتے تو خود ہی اللہ کے پیغمبر کے تابع ہوجاتے، پھر ان کی خاص حفاظت کی ضرورت نہ تھی۔ - 3 سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کے بعد اگر کوئی شخص کوئی جن پکڑ لے، جیسا کہ ابوہریرہ (رض) نے زکوٰۃِ فطر کی حفاظت کرتے ہوئے تین دفعہ شیطان کو پکڑا تھا، تو اللہ کی طرف سے اس کے لیے ان کے نقصان سے حفاظت کا کوئی ذمہ نہیں۔ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سرکش جن کو پکڑ کر چھوڑ دیا تھا، ابوہریرہ (رض) یہ واقعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان فرماتے ہیں : ( إِنَّ عِفْرِیْتًا مِّنَ الْجِنِّ تَفَلَّتَ عَلَيَّ الْبَارِحَۃَ لِیَقْطَعَ عَلَیَّ صَلاَتِيْ فَأَمْکَنَنِيَ اللّٰہُ مِنْہُ فَأَخَذْتُہُ فَأَرَدْتُ أَنْ أَرْبُطَہُ عَلٰی سَارِیَۃٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ حتَّی تَنْظُرُوْا إِلَیْہِ کُلُّکُمْ ، فَذَکَرْتُ دَعْوَۃَ أَخِيْ سُلَیْمَانَ : (رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ ) [ ص : ٣٥ ] فَرَدَدْتُہُ خَاسِءًا ) ” ایک سرکش جن گزشتہ رات مجھ پر حملہ آور ہوا، تاکہ مجھ پر میری نماز قطع کر دے، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قابو دے دیا اور میں نے اسے پکڑ لیا اور ارادہ کیا کہ اسے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دوں، تاکہ تم سب اسے دیکھو، پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان ( (علیہ السلام) ) کی دعا یاد آگئی : ( رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ ۚ ) ” اے میرے رب مجھے بخش دے اور مجھے ایسی حکومت عطا فرما جو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو۔ “ تو میں نے اسے دفع دور کرتے ہوئے پیچھے دھکیل دیا۔ “ [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : ( ووھبنا - لداوٗد سلیمان ۔۔ ) : ٣٤٢٣ ]
سلیمان (علیہ السلام) کیلئے تسخیر جنات و شیاطین : - وَمِنَ الشَّيٰطِيْنِ مَنْ يَّغُوْصُوْنَ لَهٗ وَيَعْمَلُوْنَ عَمَلًا دُوْنَ ذٰلِكَ ۚ وَكُنَّا لَهُمْ حٰفِظِيْنَ ، یعنی ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کے لئے مسخر کردیا شیاطین جن میں سے ایسے لوگوں کو جو دریاؤں میں غوطہ لگا کر سلیمان (علیہ السلام) کے لئے جواہرات نکال کر لاتے تھے اور اس کے علاوہ دوسرے کام بھی کرتے تھے جن میں سے بعض کا ذکر دوسری آیات میں آیا ہے۔ يَعْمَلُوْنَ لَهٗ مَا يَشَاۗءُ مِنْ مَّحَارِيْبَ وَتَمَاثِيْلَ وَجِفَانٍ كَالْجَــوَابِ ، یعنی بناتے ہیں حضرت سلیمان کے لئے محرابیں اور شاندار مکانات اور مورتیں اور پتھر کے بڑے بڑے پیالے جو حوض کی طرح کام دیں ان سے سلیمان بڑی مشقت کے کام بھی لیتے تھے اور عجیب و غریب صنعتوں کے بھی، اور ہم ہی ان کے محافظ تھے۔- الشَّيٰطِيْنِ ، وہ آگ کے بنے ہوئے اجسام لطیفہ ہیں جو عقل و شعور رکھتے ہیں اور انسان کی طرح احکام شرع کے مکلف ہیں۔ اس نوع کے لئے اصل لفظ جن یا جنات استعمال ہوتا ہے ان میں جو ایمان قبول نہ کریں کافر رہیں ان کو شیاطین کہا جاتا ہے ظاہر یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے مسخر تو سبھی جنات تھے خواہ مومن یا کافر، مگر مومنین تو تسخیر کے بغیر بھی سلیمان (علیہ السلام) کے احکام کی تعمیل ایک مذہبی فریضہ کی حیثیت سے کرتے تھے ان کے لئے تسخیر کے ذکر کی ضرورت نہیں۔ اس لئے تسخیر میں صرف شیاطین یعنی کفار جنات کا ذکر فرمایا کہ وہ باوجود اپنے کفر و سرکشی کے زبردستی حضرت سلیمان کے تابع فرمان رہتے تھے اور شاید اسی لئے آیت کے آخر میں یہ جملہ بڑھایا گیا کہ ہم ہی ان کے محافظ تھے ورنہ کفار جنات سے تو ہر وقت یہ خطرہ تھا کہ وہ کوئی نقصان نہ پہنچا دیں مگر حفاظت خداوندی کا پہرہ ان پر لگا ہوا تھا اس لئے کوئی گزند نہ پہنچا سکتے تھے۔- ایک لطیفہ :- حضرت داؤد (علیہ السلام) کے لئے تو حق تعالیٰ نے سب سے زیادہ سخت اور کثیف اجسام کو مسخر فرمایا جن میں پہاڑ اور لوہا جیسی سخت چیزیں شامل ہیں، اس کے بالمقابل سلیمان (علیہ السلام) کیلئے ایسے اجسام لطیفہ کو مسخر فرمایا جو دیکھنے میں بھی نہ آسکیں جیسے ہوا اور جنات اس میں حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا ہر قسم کی مخلوقات پر حاوی ہونا ضروری کیا گیا ہے (تفسیر کبیر للرازی)
وَمِنَ الشَّيٰطِيْنِ مَنْ يَّغُوْصُوْنَ لَہٗ وَيَعْمَلُوْنَ عَمَلًا دُوْنَ ذٰلِكَ ٠ۚ وَكُنَّا لَہُمْ حٰفِظِيْنَ ٨٢ۙ- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - غوص - الغَوْصُ : الدّخول تحت الماء، وإخراج شيء منه، ويقال لكلّ من انهجم علی غامض فأخرجه له : غَائِصٌ ، عينا کان أو علما . والغَوَّاصُ : الذي يكثر منه ذلك، قال تعالی: وَالشَّياطِينَ كُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ [ ص 37] ، وَمِنَ الشَّياطِينِ مَنْ يَغُوصُونَ لَهُ [ الأنبیاء 82] ، أي : يستخرجون له الأعمال الغریبة والأفعال البدیعة، ولیس يعني استنباط الدّرّ من الماء فقط .- ( غ و ص ) الغوص کے معنی پانی میں غوطہ لگا کر کوئی چیز نکال لانے کے ہیں اور جو شخص کسی پیچیدہ مسئلہ کی تہ تک پہنچ جائے یا نیچے کی تہ سے کوئی چیز نکال لائے اسے غائص کہاجاتا ہے اسی سے عواص صیغہ مبالغہ ہے جس کے معنی غوطہ خور کے ہیں ۔ وَالشَّياطِينَ كُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ [ ص 37] اور شیطان کو بھی ( ان کی زیر فرمان کیا ) وہ سب عمارتیں بنانے والے اور غوطہ مارنے والے تھے۔ وَمِنَ الشَّياطِينِ مَنْ يَغُوصُونَ لَهُ [ الأنبیاء 82] اور شیاطین ( کی جماعت کو بھی ان کے تابع کردیا تھا کہ ان ) میں سے بعض انکے لئے غوطے مارتے تھی ۔ میں پانی کے اندر سے موتی نکالنے والے غوطہ خوری مراد نہیں ہیں بلکہ نادر کام کرنے والے اور عجیب و غریب صنعتیں ایجاد کرنے والے بھی ان میں داخل ہیں ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔
(٨٢) اور شیاطین یعنی جنات میں سے بھی ہم نے ایسوں کو مسخر کردیا تھا جو سلیمان (علیہ السلام) کے لیے دریاؤں میں غوطہ لگایا کرتے تھے تاکہ جواہرات اور موتی سمندروں میں سے نکال کر ان کے پاس لائیں اور وہ اس غوطہ زنی کے علاوہ سلیمان (علیہ السلام) کے لیے تعمیرات کے بھی کام کیا کرتے تھے اور ان جنات کے سنبھالنے والے ہم تھے تاکہ ان میں سے کوئی کسی پر زیادتی نہ کرے۔
آیت ٨٢ (وَمِنَ الشَّیٰطِیْنِ مَنْ یَّغُوْصُوْنَ لَہٗ ) ” - یعنی جناتّ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے حکم سے سمندروں میں غوطے لگاتے تھے اور ان کی تہوں سے موتی اور دوسری مفید چیزیں نکال کر لاتے تھے۔- (وَکُنَّا لَہُمْ حٰفِظِیْنَ ) ” - گویا وہ جن حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تابع تھے تو یہ بھی ہماری ہی قدرت کا کمال تھا۔
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :75 سورہ سَبَا میں اس کی تفصیل یہ آئی ہے : وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ یَّعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْہِ بِاِذْنِ رَبِّہ وَمَنْ یَّزِغُ مِنْھُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ ۔ ہ ۔ یَعْمَلُوْنَ لَہ مَا یَشَآءُ مِنْ مَّحَارِیْبَ وَ تَمَاثِیْلَ وَجِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَقُدُوْرٍ رَّاسِیَاتٍ .................... فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْہِ الْمَوْتَ مَا دَلَّہُمْ عَلٰ مَوْتِہٖ اِلَّا دَآبَّۃُ الْاَرْضِ تَاْکَلُ مِنْسَاَتَہ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوْا فِی الْعَذَابِ الْمُھِیْنِ اور جنوں میں سے ایسے جن ہم نے اس کے لیے مسخر کر دیے تھے جو اس کے رب کے حکم سے اس کے آگے کام کرتے تھے ، اور جو ہمارے حکم سے کوئی ان میں سے انحراف کرتا تو ہم اس کو بھڑکتی ہوئی آگ کا مزا چکھاتے ۔ وہ اس کے لیے جیسے وہ چاہتا قصر اور مجسمے اور حوض جیسے بڑے بڑے لگن اور بھاری جمی ہوئی دیگیں بناتے تھے ......................... پھر جب ہم نے سلیمان کو وفات دے دی تو ان جنوں کو اس کی موت پر مطلع کرنے والی کوئی چیز نہ تھی مگر زمین کا کیڑا ( یعنی گھن ) جو اس کے عصا کو کھا رہا تھا ۔ پس جب وہ گر پڑا تو جنوں کو پتہ چل گیا کہ اگر وہ واقعی غیب داں ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں اتنی مدت تک مبتلا نہ رہتے ۔ اس آیت سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ جو شیاطین حضرت سلیمان کے لیے مسخر ہوئے تھے ، اور جو ان کے لیے مختلف خدمات انجام دیتے تھے ، وہ جن تھے ، اور جن بھی جن جن کے بارے میں مشرکین عرب کا یہ عقیدہ تھا ، اور جو خود اپنے بارے میں بھی یہ غلط فہمی رکھتے تھے کہ انکو علم غیب حاصل ہے ۔ اب ہر شخص جو قرآن مجید کو آنکھیں کھول کر پڑھے ، اور اس کو اپنے تعصبات اور پیشگی قائم کیے ہوئے نظریات کا تابع بنائے بغیر پڑھے ، یہ خود دیکھ سکتا ہے کہ جہاں قرآن مطلق شیطان اور جن کے الفاظ استعمال کرتا ہے وہاں اس کی مراد کونسی مخلوق ہوتی ہے ، اور قرآن کی رو سے وہ کون سے جن ہیں جن کو مشرکین عرب عالم الغیب سمجھتے تھے ۔ جدید زمانے کے مفسرین یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں کہ وہ جن اور شیاطین جو حضرت سلیمان کے لیے مسخر کیے گئے تھے ، انسان تھے اور آس پاس کی قوموں میں سے فراہم ہوئے تھے ۔ لیکن صرف یہی نہیں کہ قرآن کے الفاظ میں ان کی اس تاویل کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے ، بلکہ قرآن میں جہاں جہاں بھی یہ قصہ آیا ہے وہاں کا سیاق و سباق اور انداز بیان اس تاویل کو راہ دینے سے صاف انکار کرتا ہے ۔ حضرت سلیمان کے لیے عمارتیں بنانے والے اگر انسان ہی تھے تو آخر یہ انہی کی کونسی خصوصیت تھی جس کو اس شان سے قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے ۔ اہرام مصری سے لے کر نیویارک کی فلک شگاف عمارتوں تک کس چیز کو انسان نے نہیں بنایا ہے اور کس بادشاہ یا رئیس یا ملک التجار کے لیے وہ جن اور شیاطین فراہم نہیں ہوئے جو آپ حضرت سلیمان کے لیے فراہم کر رہے ہیں ؟
36: شریر جنات سے مراد وہ جنات ہیں جو ایمان نہیں لائے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا تھا، اور وہ ان کے حکم سے دریا میں غوطے لگا کر موتی نکالتے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو لا کردیتے تھے۔ اور اس کے سوا اور کام بھی کرتے تھے جن کی کچھ تفصیل ان شاء اللہ سورۃ سبا : 13 میں آئے گی۔