Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ذوالکفل نبی نہیں بزرگ تھے حضرت اسماعیل حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے فرزند تھے ۔ سورۃ مریم میں ان کا واقعہ بیان ہوچکاہے ۔ حضرت ادریس علیہ السلام کا بھی ذکر گزر چکا ہے ۔ ذوالکفل بہ ظاہر تو نبی ہی معلوم ہوتے ہیں کیونکہ نبیوں کے ذکر میں ان کا نام آیا ہے اور لوگ کہتے ہیں یہ نبی نہ تھے بلکہ ایک صالح شخص تھے اپنے زمانہ کے بادشاہ تھے بڑے ہی عادل اور بامروت ، امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ اس میں توقف کرتے ہیں فاللہ اعلم ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ ایک نیک بزرگ تھے جنہوں نے اپنے زمانے کے نبی سے عہد وپیمان کئے اور ان پر قائم رہے ۔ قوم میں عدل وانصاف کیا کرتے تھے ۔ مروی ہے کہ جب حضرت یسع علیہ السلام بہت بوڑھے ہوگئے تو ارادہ کیا کہ میں اپنی زندگی میں ہی ان کا خلیفہ مقرر کردوں اور دیکھ لوں کہ وہ کیسے عمل کرتا ہے ۔ لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ تین باتیں جو شخص منظور کرے میں اسے خلافت سونپتا ہوں ۔ دن بھر روزے سے رہے رات بھر قیام کرے اور کبھی بھی غصے نہ ہو ۔ کوئی اور تو کھڑا نہ ہوا ایک شخص جسے لوگ بہت ہلکے درجے کا سمجھتے تھے کھڑا ہوا اور کہنے لگا میں اس شرط کو پوری کردوں گا ۔ آپ نے پوچھا یعنی تو دنوں میں روزے سے رہے گا اور راتوں کو تہجد پڑھتا رہے گا اور غصہ نہ کرے گا ؟ اس نے کہا ہاں ۔ یسع علیہ السلام نے فرمایا اچھا اب کل سہی ۔ دوسرے روز بھی آپ نے اسی طرح مجلس میں عام سوال کیا لیکن اس شخص کے سوا کوئی اور کھڑا نہ ہوا ۔ چنانچہ انہی کو خلیفہ بنا دیا گیا ۔ اب شیطان نے چھوٹے چھوٹے شیاطین کو اس بزرگ کے بہکانے کے لئے بھیجنا شروع کیا ۔ مگر کسی کی کچھ نہ چلی ۔ ابلیس خود چلا دوپہر کو قیلولے کے لئے آپ لیٹے ہی تھے جو خبیث نے کنڈیاں پیٹنی شروع کردیں آپ نے دریافت فرمایا کہ تو کون ہے ؟ اس نے کہنا شروع کیا کہ میں ایک مظلوم ہوں فریادی ہوں میری قوم مجھے ستارہی ہے ۔ میرے ساتھ انہوں نے یہ کیا یہ کیا اب لمبا قصہ سنانا شروع کیا تو کسی طرح ختم ہی نہیں کرتا نیند کا سارا وقت اسی میں چلا گیا اور حضرت ذوالکفل دن رات بس صرف اسی وقت ذرا سی دیر کے لئے سوتے تھے ۔ آپ نے فرمایا اچھا شام کو آنا میں تمہارا انصاف کردوں گا اب شام کو آپ جب فیصلے کرنے لگے ہر طرف اسے دیکھتے ہیں لیکن اس کا کہیں پتہ نہیں یہاں تک کہ خود جا کر ادھر ادھر بھی تلاش کیا مگر اسے نہ پایا ۔ دوسری صبح کو بھی وہ نہ آیا پھر جہاں آپ دوپہر کو دو گھڑی آرام کرنے کے ارادے سے لیٹے جو یہ خبیث آگیا اور دروازہ ٹھونکنے لگا آپ نے کھول دیا اور فرمانے لگے میں نے تو تم سے شام کو آنے کو کہا تھا ، منتظر رہا لیکن تم نہ آئے ۔ وہ کہنے لگا حضرت کیا بتاؤں جب میں نے آپ کی طرف آنے کا ارادہ کیا تو وہ کہنے لگے تم نہ جاؤ ہم تمہارا حق ادا کردیتے ہیں میں رک گیا پھر انہوں نے اب انکار کردیا اور بھی کچھ لمبے چوڑے واقعات بیان کرنے شروع کردئے اور آج کی نیند بھی کھوئی اب شام کو پھر انتظار کیا لیکن نہ اسے آنا تھا نہ آیا ۔ تیسرے دن آپ نے آدمی مقرر کیا کہ دیکھو کوئی دروازے پر نہ آنے پائے مارے نیند کے میری حالت غیر ہو رہی ہے آپ ابھی لیٹے ہی تھے جو وہ مردود پھر آگیا چوکیدار نے اسے روکا یہ ایک طاق میں سے اندر گھس گیا اور اندر سے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کیا آپ نے اٹھ کر پہرے دار سے کہا کہ دیکھو میں نے تمہیں ہدایت کردی تھی پھر بھی آپنے دروازے کے اندر کسی کو آنے دیا اس نے کہا نہیں میری طرف سے کوئی نہیں آیا ۔ اب جو غور سے آپ نے دیکھا تو دروازے کو بند پایا ۔ اور اس شخص کو اندر موجود پایا ۔ آپ پہچان گئے کہ یہ شیطان ہے اس وقت شیطان نے کہا اے ولی اللہ میں تجھ سے ہارا نہ تو نے رات کا قیام ترک کیا نہ تو اس نوکر پر ایسے موقعہ پر غصے ہوا پس اللہ نے ان کا نام ذوالکفل رکھا ۔ اس لئے کہ جن باتوں کی انہوں نے کفالت لی تھیں انہیں پورا کردکھایا ۔ ( ابن ابی حاتم ) ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی کچھ تفسیر کے ساتھ یہ قصہ مروی ہے اس میں ہے کہ بنواسرائیل کے ایک قاضی نے بوقت مرگ کہا تھا کہ میرے بعد میرا عہدہ کون سنبھالتا ہے ؟ اس نے کہا میں چنانچہ ان کا نام ذوالکفل ہوا اس میں ہے کہ شیطان جب ان کے آرام کے وقت آیا پہرے والوں نے روکا اس نے اس قدر غل مچایا کہ آپ جاگ گئے دوسرے دن بھی یہی کیا تیسرے دن بھی یہی کیا اب آپ اس کے ساتھ چلنے کے لئے آمادہ ہوئے کہ میں تیرے ساتھ چل کر تیرا حق دلواتا ہوں لیکن راستے میں سے وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر بھاگ کھڑا ہوا ۔ حضرت اشعری نے منبر پر فرمایا کہ ذوالکفل نبی نہ تھا بنواسرائیل کا ایک صالح شخص تھا جو ہر روز سو نمازیں پڑھتا تھا اس کے بعد انہوں نے اس قسم کی عبادتوں کا ذمہ اٹھایا ۔ اس لئے انہیں ذوالکفل کہا گیا ۔ ایک منقطع روایت میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ منقول ہے ۔ ایک غریب حدیث مسندامام بن حنبل میں ہے اس میں کفل کا ایک واقعہ بیان ہے ذوالکفل نہیں کہا گیا ۔ بہت ممکن ہے یہ کوئی اور صاحب ہوں ۔ واقعہ اس حدیث میں یہ ہے کہ کفل نامی ایک شخص تھا جو کسی گناہ سے بچتا نہ تھا ۔ ایک مرتبہ اس نے ایک عورت کو ساٹھ دینار دے کر بدکاری کے لئے آمادہ کیا جب اپنا ارادہ پورا کرنے کے لئے تیار ہوا تو وہ عورت رونے اور کانپنے لگی ۔ اس نے کہا میں نے تجھ سے کوئی زبردستی تو کی نہیں پھر رونے اور کانپنے کی وجہ کیا ہے؟ اس نے کہا میں نے ایسی کوئی نافرمانی آج تک اللہ تعالیٰ کی نہیں کی ۔ اس وقت میری محتاجی نے مجھے یہ برا دن دکھایا ہے ۔ کفل نے کہا تو ایک گناہ پر اس قدر پریشان ہے؟ حالانکہ اس سے پہلے تو نے کبھی ایسا نہیں کیا ۔ اسی وقت اسے چھوڑ کر اس سے الگ ہوگیا اور کہنے لگا جا یہ دینار میں نے تجھے بخشے ۔ قسم اللہ کی آج سے میں کسی قسم کی اللہ کی نافرمانی نہ کروں گا ۔ اللہ کی شان اسی رات اس کا انتقال ہوتا ہے ۔ صبح لوگ دیکھتے ہیں کہ اس کے دروازے پر قدرتی حروف سے لکھا ہوا تھا کہ اللہ نے کفل کو بخش دیا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

85۔ 1 ذوالکفل کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ نبی تھے یا نہیں ؟ بعض نے ان کی نبوت کے اور بعض ولایت کے قائل ہیں۔ امام ابن جریر نے ان کی بابت توقف اختیار کیا ہے، امام ابن کثیر فرماتے ہیں، قرآن میں نبیوں کے ساتھ ان کا ذکر ان کے نبی ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ واللہ اعلم۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٦] ذوالکفل کے حالات بھی کتاب و سنت میں کم ہی مذکور ہوئے ہیں۔ آپ کی نبوت میں اختلاف ہے۔ یعنی آپ نبی تھے یا نہیں۔ مگر چونکہ آپ کا ذکر انبیاء کے ہی درمیان آیا ہے۔ اس لیے گمان غالب یہی ہے کہ آپ نبی تھے۔ آپ الیسع کے خلیفہ تھے۔ آپ کا لقب ذوالکفل (بمعنی صاحب نصیب) اور نام بشیر بن ایوب ہے۔ شام کا علاقہ ہی آپ کی دعوت کا مرکز ہے۔ عمالقہ شاہ وقت بنی اسرائیل کا سخت دشمن تھا۔ آپ نے اس سے بنی اسرائیل کو آزاد کرایا۔ پھر وہ بادشاہ بھی مسلمان ہوگیا اور حکومت آپ کے سپرد کی۔ جس کے نتیجہ میں شام کے علاقہ میں ایک دفعہ پھر خوب اسلام پھیلا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِدْرِيْسَ وَذَا الْكِفْلِ : یعنی ان تینوں کو یاد کرو۔ ایوب (علیہ السلام) کے صبر اور ان کے حسن انجام کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے تین پیغمبروں کا ذکر فرمایا جو خاص طور پر صبر کی صفت سے آراستہ تھے۔ اسماعیل (علیہ السلام) نے ذبح کے متعلق اپنے والد ماجد کے پوچھنے پر کہا : ( سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ ) [ الصافات : ١٠٢ ] ” اگر اللہ نے چاہا تو تو مجھے ضرور صبر کرنے والوں میں سے پائے گا۔ “ اور اس نے واقعی صبر کرکے دکھایا۔ اسی طرح وادی غیر ذی زرع میں مستقل رہائش پر اور شکار اور زمزم کے ساتھ زندگی گزارنے پر صبر کیا، پھر بیت اللہ کی تعمیر میں ہر طرح کی مشقت برداشت کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد میں سید ولد آدم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیدا فرمایا۔ اسماعیل اور ادریس ( علیہ السلام) کا ذکر سورة مریم (٥٤ تا ٥٧) میں گزر چکا ہے۔ ذوالکفل کے متعلق قرآن و حدیث میں تفصیل نہیں آئی۔ ابن کثیر نے فرمایا کہ انبیاء کے ساتھ ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے نبی تھے۔ (واللہ اعلم) اس کے علاوہ تفاسیر میں ان کے متعلق بیان کردہ تمام باتیں اسرائیلیات پر مبنی اور بےاصل ہیں۔- كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِيْنَ : صبر کا لفظی معنی باندھنا ہے، یہ تین طرح کا ہوتا ہے : 1 اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر، یعنی اپنے آپ کو اس کی فرماں برداری کا پابند رکھنا۔ 2 اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے صبر، یعنی اپنے آپ کو اس سے روک کر رکھنا۔ 3 اللہ تعالیٰ کی طرف سے تقدیر میں لکھے ہوئے آلام و مصائب آنے پر اپنے آپ کو جزع فزع اور اللہ تعالیٰ یا مخلوق کے شکوہ و شکایت سے روک کر رکھنا۔ کوئی بھی شخص صابر نہیں کہلا سکتا جب تک وہ صبر کی ان تینوں قسموں سے پوری طرح آراستہ نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام پیغمبروں کے متعلق شہادت دی کہ انھوں نے صبر کا پورا حق ادا کیا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور اسمعٰیل اور ادریس اور ذوالکفل (کے قصہ) کا تذکرہ کیجئے یہ سب (احکام الٰہیہ شریعیہ اور تکوینیہ پر) ثابت قدم رہنے والے لوگوں میں سے تھے اور ہم نے ان (سب) کو اپنی رحمت (خاصہ) میں داخل کرلیا تھا بیشک یہ (سب) کمال صلاحیت والوں میں تھے۔- معارف و مسائل - حضرت ذوالکفل نبی تھے یا ولی اور ان کا قصہ عجیبہ :- آیات مذکورہ میں تین حضرات کا ذکر ہے جن میں حضرت اسمعٰیل اور حضرت ادریس (علیہما السلام) کا نبی و رسول ہونا قرآن کریم کی بہت سی آیات سے ثابت اور ان کا تذکرہ بھی قرآن میں جا بجا آیا ہے۔ تیسرے بزرگ ذوالکفل ہیں۔ ابن کثیر نے فرمایا کہ ان کا نام ان دونوں پیغمبروں کے ساتھ شامل کر کے ذکر کرنے سے ظاہر یہی ہے کہ یہ بھی کوئی اللہ کے نبی اور پیغمبر تھے مگر بعض دوسری روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ زمرہ انبیاء میں نہیں تھے بلکہ ایک مرد صالح اولیاء اللہ میں سے تھے۔ امام تفسیر ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ مجاہد سے نقل کیا ہے کہ حضرت یسع (جن کا نبی و پیغمبر ہونا قرآن میں مذکور ہے) جب بوڑھے اور ضعیف ہوگئے تو ارادہ کیا کہ کسی کو اپنا خلیفہ بنادیں جو ان کی زندگی میں وہ سب کام ان کی طرف سے کرے جو نبی کے فرائض میں داخل ہیں۔- اس مقصد کے لئے حضرت یسع (علیہ السلام) نے اپنے صحابہ کو جمع کیا کہ میں اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہوں جس کے لئے تین شرطیں ہیں جو شخص ان شرائط کا جامع ہو اس کو خلیفہ بناؤں گا۔ وہ تین شرطیں یہ ہیں کہ وہ ہمیشہ روزہ رکھتا ہو اور ہمیشہ رات کو عبادت میں بیدار رہتا ہو اور کبھی غصہ نہ کرتا ہو۔ مجمع میں سے ایک ایسا غیر معروف شخص کھڑا ہوا جس کو لوگ حقیر ذلیل سمجھتے تھے اور کہا کہ میں اس کام کے لئے حاضر ہوں۔ حضرت یسع نے دریافت کیا کہ کیا تم ہمیشہ روزہ رکھتے ہو اور ہمیشہ شب بیداری کرتے ہو اور کبھی غصہ نہیں کرتے۔ اس شخص نے عرض کیا کہ بیشک میں ان تین چیزوں کا عامل ہوں۔ حضرت الیسع (کو شاید کچھ اس کے قول پر اعتماد نہ ہوا اس لئے) اس روز اس کو رد کردیا پھر کسی دوسرے روز اس طرح مجمع سے خطاب فرمایا اور سب حاضرین ساکت رہے اور یہی شخص پھر کھڑا ہوگیا اس وقت حضرت یسع نے ان کو اپنا خلیفہ نامزد کردیا۔ شیطان نے یہ دیکھا کہ ذوالکفل اس میں کامیاب ہوگئے تو اپنے اعوان شیاطین سے کہا کہ جاؤ کسی طرح اس شخص پر اثر ڈالو کہ یہ کوئی ایسا کام کر بیٹھے جس سے یہ منصب اس کا سلب ہوجائے۔ اعوان شیطان نے عذر کردیا۔ کہ وہ ہمارے قابو میں آنے والا نہیں شیطان ابلیس نے کہا کہ اچھا تم اس کو مجھ پر چھوڑو (میں اس سے نمٹ لوں گا) حضرت ذوالکفل اپنے اقرار کے مطابق دن بھر روزہ رکھتے اور رات بھر جاگتے تھے صرف دوپہر کو قیلولہ کرتے تھے (قیلولہ دوپہر کے سونے کو کہتے ہیں) شیطان عین دوپہر کو ان کے قیلولہ کے وقت آیا اور دروازہ پر دستک دی یہ بیدار ہوگئے اور پوچھا کون ہے کہنے لگا کہ میں بوڑھا مظلوم ہوں، انہوں نے دروازہ کھول دیا۔ اس نے اندر پہنچ کر ایک افسانہ کہنا شروع کردیا کہ میری برادری کا مجھ سے جھگڑا ہے انہوں نے مجھ پر یہ ظلم کیا وہ ظلم کیا، ایک طویل داستان شروع کردی یہاں تک کہ دوپہر کے سونے کا وقت ختم ہوگیا۔ حضرت ذوالکفل نے فرمایا کہ جب میں باہر آؤں تو میرے پاس آجاؤ میں تمہارا حق دلواؤں گا۔- حضرت ذوالکفل باہر تشریف لائے اور اپنی مجلس عدالت میں اس کا انتظار کرتے رہے مگر اس کو نہیں پایا۔ اگلے روز پھر جب وہ عدالت میں فیصلہ مقدمات کے لئے بیٹھے تو اس بوڑھے کا انتظار کرتے رہے اور یہ نہ آیا۔ جب دوپہر کو پھر قیلولہ کے لئے گھر میں گئے تو یہ شخص آیا اور دروازہ کوٹنا شروع کردیا۔ انہوں نے پھر پوچھا کون ہے ؟ جواب دیا کہ ایک مظلوم بوڑھا ہے، انہوں نے پھر دروازہ کھول دیا اور فرمایا کیا میں نے کل تم سے نہیں کہا تھا کہ جب میں اپنی مجلس میں بیٹھوں تو تم آجاؤ (تم نہ کل آئے نہ آج صبح سے آئے) اس نے کہا کہ حضرت میرے مخالف بڑے خبیث لوگ ہیں جب انہوں نے دیکھا کہ آپ اپنی مجلس میں بیٹھے ہیں اور میں حاضر ہوں گا تو آپ ان کو میرا حق دینے پر مجبور کریں گے تو انہوں نے اس وقت اقرار کرلیا کہ ہم تیرا حق دیتے ہیں، پھر جب آپ مجلس سے اٹھ گئے تو انکار کردیا۔ انہوں نے پھر اس کو یہی فرمایا کہ اب جاؤ جب میں مجلس میں بیٹھوں تو میرے پاس آجاؤ۔ اسی گفت و شنید میں آج کے دوپہر کا سونا بھی رہ گیا اور وہ باہر مجلس میں تشریف لے گئے اور اس بوڑھے کا انتظار کرتے رہے (اگلے روز بھی دوپہر تک انتظار کیا وہ نہیں آیا پھر جب تیسرے روز دوپہر کا وقت ہوا اور نیند کو تیسرا دن ہوگیا تھا نیند کا غلبہ تھا) تو گھر میں آ کر گھر والوں کو اس پر مقرر کیا کہ کوئی شخص دروازے پر دستک نہ دے سکے۔ یہ بوڑھا پھر تیسرے روز پہنچا اور دروازے پر دستک دینا چاہا لوگوں نے منع کیا تو ایک روشندان کے راستے سے اندر داخل ہوگیا اور اندر پہنچ کر دروازہ بجانا شروع کردیا یہ پھر نیند سے بیدار ہوگئے اور دیکھا کہ یہ شخص گھر کے اندر ہے اور دیکھا کہ دروازہ بدستور بند ہے اس سے پوچھا، تو کہاں سے اندر پہنچا، اس وقت حضرت ذوالکفل نے پہچان لیا کہ یہ شیطان ہے اور فرمایا کہ کیا تو خدا کا دشمن ابلیس ہے ؟ اس نے اقرار کیا کہ ہاں، اور کہنے لگا کہ تو نے مجھے میری ہر تدبیر میں تھکا دیا کبھی میرے جال میں نہیں آیا، اب میں نے یہ کوشش کی کہ تجھے کسی طرح غصہ دلا دوں تاکہ تو اپنے اس اقرار میں جھوٹا ہوجائے جو یسع نبی کے ساتھ کیا ہے، اس لئے میں نے یہ سب حرکتیں کیں۔ یہ واقعہ تھا جس کی وجہ سے ان کو ذوالکفل کا خطاب دیا گیا، کیونکہ ذوالکفل کے معنی ہیں ایسا شخص جو اپنے عہد اور ذمہ داری کو پورا کرے، حضرت ذوالکفل اپنے اس عہد پر پورے اترے۔ (ابن کثیر)- مسند احمد میں ایک روایت اور بھی ہے مگر اس میں ذوالکفل کے بجائے الکفل کا نام آیا ہے۔ اسی لئے ابن کثیر نے اس روایت کو نقل کر کے کہا کہ یہ کوئی دوسرا شخص کفل نامی ہے وہ ذوالکفل جن کا ذکر اس آیت میں آیا ہے وہ نہیں۔ روایت یہ ہے :۔- حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک حدیث سنی ہے اور ایک دو مرتبہ نہیں بلکہ سات مرتبہ سے زائد سنی ہے وہ یہ کہ آپ نے فرمایا کہ کفل بنی اسرائیل کا ایک شخص تھا جو کسی گناہ سے پرہیز نہ کرتا تھا، اس کے پاس ایک عورت آئی اس نے اس کو ساٹھ دینار (گنیاں) دیں اور فعل حرام پر اس کو راضی کرلیا۔ جب وہ مباشرت کے لئے بیٹھ گیا تو یہ عورت کانپنے اور رونے لگی اس نے کہا کہ رونے کی کیا بات ہے کیا میں نے تم پر کوئی جبر اور زبردستی کی ہے۔ اس نے کہا نہیں جبر تو نہیں کیا، لیکن یہ ایسا گناہ ہے جو میں نے کبھی عمر بھر نہیں کیا اور اس وقت مجھے اپنی ضرورت نے مجبور کردیا اس لئے اس پر آمادہ ہوگئی یہ سن کر وہ شخص اسی حالت میں عورت سے الگ ہو کر کھڑا ہوگیا اور کہا کہ جاؤ یہ دینار بھی تمہارے ہیں اور اب سے کفل بھی کوئی گناہ نہیں کرے گا، اتفاق یہ ہوا کہ اسی رات میں کفل کا انتقال ہوگیا اور صبح اس کے دروازے پر غیب سے یہ تحریر لکھی ہوئی دیکھی گئی غفر اللہ للکفل یعنی اللہ نے کفل کو بخش دیا ہے۔- ابن کثیر نے یہ روایت مسند احمد کی نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ اس کو صحاح ستہ میں سے کسی نے روایت نہیں کیا اور اسناد اس کی غریب ہے اور بہرحال اگر روایت ثابت بھی ہے تو اس میں ذکر کفل کا ہے ذوالکفل کا نہیں، یہ کوئی دوسرا شخص معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم - خلاصہ کلام یہ ہے کہ ذوالکفل حضرت یسع نبی کے خلیفہ اور ولی صالح تھے، ان کے خاص محبوب اعمال کی بنا پر ہوسکتا ہے کہ ان کا ذکر اس آیت میں بزمرہ انبیاء کردیا گیا اور اس میں بھی کوئی بعد نہیں معلوم ہوتا کہ شروع میں یہ حضرت یسع کے خلیفہ ہی ہوں پھر حق تعالیٰ نے ان کو منصب نبوت عطا فرما دیا ہو۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِدْرِيْسَ وَذَاالْكِفْلِ۝ ٠ۭ كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِيْنَ۝ ٨٥ۚۖ- كفل - الْكَفَالَةُ : الضّمان، تقول : تَكَفَّلَتْ بکذا، وكَفَّلْتُهُ فلانا، وقرئ : وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا - [ آل عمران 37] «3» أي : كفّلها اللہ تعالی، ومن خفّف «4» جعل الفعل لزکريّا، المعنی: تضمّنها . قال تعالی: وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل 91] ، والْكَفِيلُ : الحظّ الذي فيه الکفاية، كأنّه تَكَفَّلَ بأمره . نحو قوله تعالی: فَقالَ أَكْفِلْنِيها[ ص 23] أي : اجعلني کفلا لها، والکِفْلُ : الكفيل، قال : يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید 28] أي : كفيلين من نعمته في الدّنيا والآخرة، وهما المرغوب إلى اللہ تعالیٰ فيهما بقوله : رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة 201]- ( ک ف ل ) الکفالۃ - ضمانت کو کہتے ہیں اور تکفلت بکذا کے معنی کسی چیز کا ضامن بننے کے ہیں ۔ اور کفلتہ فلانا کے معنی ہیں میں نے اسے فلاں کی کفالت میں دے دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا[ آل عمران 37] اور زکریا کو اس کا متکفل بنایا ۔ بعض نے کفل تخفیف فاء کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں اس کا فاعل زکریا (علیہ السلام) ہوں گے یعنی حضرت زکریا (علیہ السلام) نے ان کو پانی کفالت میں لے لیا ۔ اکفلھا زیدا اسے زید کی کفالت میں دیدیا ) قرآن میں ہے : ۔ أَكْفِلْنِيها[ ص 23] یہ بھی میری کفالت مٰن دے دو میرے سپرد کر دو الکفیل اصل میں بقدر ضرورت حصہ کو کہتے ہیں ۔ گویا وہ انسان کی ضرورت کا ضامن ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل 91] اور تم خدا کو اپنا کفیل بنا چکے ہو ۔ اور الکفل کے معنی بھی الکفیل یعنی حصہ کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید 28] وہ تمہیں اپنی رحمت سے اجر کے دو حصے عطا فرمائیگا ۔ یعنی دنیا اور عقبیی دونون جہانوں میں تمہیں اپنے انعامات سے نوزے گا ۔ اور یہی دوقسم کی نعمیتں ہیں جن کے لئے آیت رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة 201- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٥۔ ٨٦) اور اسماعیل (علیہ السلام) اور ادرس (علیہ السلام) اور ذوالکفل (علیہ السلام) کا بھی تذکرہ کیجیے یہ سب احکام الہیہ تشریعیہ، وتکوینیہ پر ثابت قدم رہنے والے لوگوں میں سے تھے، ہم ان کو آخرت میں اپنی جنت میں داخل کریں گے اور ذوالکفل (علیہ السلام) کے علاوہ یہ سب نبی تھے اور ذوالکفل (علیہ السلام) نبی نہیں تھے بلکہ ایک صالح نیکوکار شخص تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٥ (وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِدْرِیْسَ وَذَا الْکِفْلِطکُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَ ) ” - حضرت ادریس ( علیہ السلام) کا ذکر سورة مریم کی آیت ٥٦ کے ضمن میں بھی آچکا ہے کہ آپ ( علیہ السلام) حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد اور حضرت نوح (علیہ السلام) سے پہلے مبعوث ہوئے تھے۔ ان سے قبل حضرت شیث (علیہ السلام) کی بعثت بھی ہوچکی تھی۔ حضرت ذوالکفل ( علیہ السلام) کے بارے میں کہیں سے کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں کہ آپ ( علیہ السلام) کب اور کس علاقے میں مبعوث ہوئے۔ احادیث میں بھی آپ ( علیہ السلام) کا تذکرہ نہیں ملتا۔ البتہ موجودہ دور کے ایک عالم اور محقق مولانا مناظر احسن گیلانی (رح) کا خیال ہے کہ ذوالکفل سے مراد گوتم بدھ ہیں اور یہ کہ گوتم بدھ اللہ کے نبی تھے۔ ان کے اس دعویٰ کے بارے میں یقین سے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا ‘ لیکن اس سلسلے میں مولانا کے دلائل میں بہرحال بہت وزن ہے۔ گوتم بدھ کے بارے میں تاریخی اعتبار سے ہمیں اس قدر معلومات ملتی ہیں کہ وہ ریاست ” کپل وستو “ کے شہزادے تھے۔ مولانا کے مطابق ” کپل “ ہی دراصل ” کفل “ ہے یعنی ہندی کی ” پ “ عربی کی ” ف “ سے بدل گئی ہے۔ اس طرح ذوالکفل کا مطلب ہے : ” کفل (کپل ) والا “۔ یعنی کپل ریاست کا والی (سدھار کا بدھا یا گوتم بدھا) ۔ - آج جو عقائد گوتم بدھ سے منسوب کیے جاتے ہیں ‘ ان میں یقینابہت کچھ تحریف بھی شامل ہوچکی ہوگی۔ جیسے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی تعلیمات میں بھی آپ ( علیہ السلام) کے پیروکاروں نے بہت سے من گھڑت عقائد شامل کرلیے ہیں۔ ممکن ہے کہ گوتم بدھ کی اصل تعلیمات الہامی ہی ہوں اور بعد کے زمانے میں ان میں تحریف کردی گئی ہو۔ بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ اس ضمن میں مولانا مناظر احسن گیلانی کے دلائل کافی معقول اور ٹھوس ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :80 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم تفسیر سورہ مریم ، حاشیہ 33 ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :81 ذوالکفل کا لفظی ترجمہ ہے صاحب نصیب ، اور مراد ہے اخلاقی بزرگی اور ثواب آخرت کے لحاظ سے صاحب نصیب ، نہ کہ دنیوی فوائد و منافع کے لحاظ سے ۔ یہ ان بزرگ کا نام نہیں بلکہ لقب ہے ۔ قرآن مجید میں دو جگہ ان کا ذکر آیا ہے اور دونوں جگہ ان کو اسی لقب سے یاد کیا گیا ہے ، نام نہیں لیا گیا ۔ مفسرین کے اقوال اس معاملہ میں بہت مضطرب ہیں کہ یہ بزرگ کون ہیں ، کس ملک اور قوم سے تعلق رکھتے ہیں ، اور کس زمانے میں گزرے ہیں ۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ حضرت زکریا کا دوسرا نام ہے ( حالانکہ یہ صریحاً غلط ہے ، کیونکہ ان کا ذکر ابھی آگے آرہا ہے ۔ ) کوئی کہتا ہے کہ یہ حضرت الیاس ہیں ، کوئی یوشع بن نون کا نام لیتا ہے ، کوئی کہتا ہے یہ الیسع ہیں ، ( حالانکہ یہ بھی غلط ہے ، سورہ ص میں ان کا ذکر الگ کیا گیا ہے اور ذوالکفل کا الگ ) ، کوئی انہیں حضرت الیسع کا خلیفہ بتاتا ہے ، اور کسی کا قول ہے کہ یہ حضرت ایوب کے بیٹے تھے جو ان کے بعد نبی ہوئے اور ان کا اصلی نام بِشْر تھا ۔ آلوسی نے روح المعانی میں لکھا ہے کہ یہودیوں کا دعوی ہے کہ یہ حزقیال ( حِزْقیِ اِیل ) نبی ہیں جو بنی اسرائیل کی اسیری ( 597 ق ۔ م ) کے زمانے میں نبوت پر سرفراز ہوئے اور نہر خابور کے کنارے ایک بستی میں فرائض نبوت انجام دیتے رہے ۔ ان مختلف اقوال کی موجودگی میں یقین و اعتماد کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ فی الواقع یہ کون سے نبی ہیں ۔ موجودہ زمانے کے مفسرین نے اپنا میلان جزقی ایک نبی کی طرف ظاہر کیا ہے ، لیکن ہمیں کوئی معقول دلیل ایسی نہیں ملی جس کی بنا پر یہ رائے قائم کی جا سکے ۔ تاہم اگر اس کے لیے کوئی دلیل مل سکے تو یہ رائے قابل ترجیح ہو سکتی ہے ، کیونکہ بائیبل کے صحیفہ جزقی ایل کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فی الواقع وہ اس تعریف کے مستحق ہیں جو اس آیت میں کی گئی ہے ، یعنی صابر اور صالح ۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو یروشلم کی آخری تباہی سے پہلے بخت نصر کے ہاتھوں گرفتار ہو چکے تھے ۔ بخت نصر نے عراق میں اسرائیلی قیدیوں کی ایک نو آبادی دریائے خابور کے کنارے قائم کر دی تھی جس کا نام تَل اَبیب تھا ۔ اسی مقام پر 594 ق ۔ م ، میں حضرت حزقی اہل نبوت کے منصب پر سرفراز ہوئے ، جبکہ ان کی عمر 30 سال تھی ، اور مسلسل 22 سال ایک طرف گرفتار بلا اسرائیلیوں کو اور دوسری طرف یروشلم کے غافل و سرشار باشندوں اور حکمرانوں کو چونکانے کی خدمت انجام دیتے رہے ۔ اس کار عظیم میں ان کے انہماک کا جو حال تھا اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ نبوت کے نویں سال ان کی بیوی ، جنہیں وہ خود منظور نظر کہتے ہیں ، انتقال کر جاتی ہیں ، لوگ ان کی تعزیت کے لیے جمع ہوتے ہیں ۔ اور یہ اپنا دکھڑا چھوڑ کر اپنی ملت کو خدا کے اس عذاب سے ڈرانا شروع کر دیتے ہیں جو اس کے سر پر تلا کھڑا تھا ( باب 24 ۔ آیات 15 ۔ 27 ) ۔ بائیبل کا صحیفہ حزقی ایل ان صحیفوں میں سے ہے جنہیں پڑھ کر واقعی یہ محسوس ہو گا ہے کہ یہ الہامی کلام ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

39: حضرت اسماعیل اور حضرت ادریس علیہما السلام کا ذکر تو پہلے سورۂ مریم میں گزرچکا ہے، حضرت ذوالکفل کا قرآن کریم میں صرف نام آیا ہے ان کا کوئی واقعہ قرآن کریم نے بیان نہیں فرمایا، بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ بھی کوئی پیغمبر تھے، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ حضرت یسع (علیہ السلام) کے خلیفہ تھے، اور نبی تو نہیں تھے، لیکن بڑے اونچے درجے کے ولی تھے، واللہ اعلم۔