وَاَدْخَلْنٰهُمْ فِيْ رَحْمَتِنَا ۭ اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ : ” صَلَحَ یَصْلَحُ صَلَاحًا “ (ف، ن، ک) درست ہونا۔ یہ فساد کی ضد ہے۔ (قاموس) اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء کی تعریف فرمائی کہ وہ پوری طرح صالح تھے، ان کا دل اللہ تعالیٰ پر ایمان، اس کی محبت اور ہر وقت اس کے ذکر سے درست تھا۔ ان کی زبان اس کے ذکر، اس کے دین کی دعوت اور ہر وقت سچ کہنے سے درست تھی اور دوسرے تمام اعضاء اس کے احکام کی اطاعت اور منع کردہ چیزوں سے اجتناب کی وجہ سے درست تھے، کیونکہ ان تینوں کے درست ہوئے بغیر کوئی شخص صالح نہیں کہلا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ صبر و صالحیت کی وجہ سے ہم نے انھیں اپنی رحمت میں داخل کرلیا اور انھیں نبوت عطا کی۔ دنیا و آخرت کی نعمتیں عطا فرمائیں، یہی کیا کم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ان کی تعریف فرمائی اور قیامت تک کے لیے انھیں حقیقی ناموری عطا فرمائی۔ (سعدی)
وَاَدْخَلْنٰہُمْ فِيْ رَحْمَتِنَا ٠ۭ اِنَّہُمْ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ ٨٦- دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔