یونس علیہ السلام اور ان کی امت یہ واقعہ یہاں بھی مذکور ہے اور سورۃ صافات میں بھی ہے اور سورۃ نون میں بھی ہے ۔ یہ پیغمبر حضرت یونس بن متی علیہ السلام تھے ۔ انہیں موصل کے علاقے کی بستی نینوا کی طرف نبی بنا کر اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا ۔ آپ نے اللہ کی راہ کی دعوت دی لیکن قوم ایمان نہ لائی ۔ آپ وہاں سے ناراض ہو کرچل دئے اور ان لوگوں سے کہنے لگے کہ تین دن میں تم پر عذاب الٰہی آجائے گا جب انہیں اس بات کی تحقیق ہوگئی اور انہوں نے جان لیا کہ انبیاء علیہم السلام جھوٹے نہیں ہوتے تو یہ سب کے سب چھوٹے بڑے مع اپنے جانوروں اور مویشوں کے جنگل میں نکل کھڑے ہوئے بچوں کو ماؤں سے جدا کردیا اور بلک بلک کر نہایت گریہ وزاری سے جناب باری تعالیٰ میں فریاد شروع کر دی ۔ ادھر ان کی آہ وبکاء ادھر جانوروں کی بھیانک صدا غرض اللہ کی رحمت متوجہ ہوگئی عذاب اٹھالیا گیا ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَآ اِيْمَانُهَآ اِلَّا قَوْمَ يُوْنُسَ 98 ) 10- یونس:98 ) یعنی عذابوں کی تحقیق کے بعد کے ایمان نے کسی کونفع نہیں دیا سوائے قوم یونس کے کہ ان کے ایمان کی وجہ سے ہم نے ان پر سے عذاب ہٹالیے اور دنیا کی رسوائی سے انہیں بچا لیا اور موت تک کی مہلت دے دی ۔ حضرت یونس علیہ السلام یہاں سے چل کر ایک کشتی میں سوار ہوئے آگے جاکرطوفان کے آثار نمودار ہوئے ۔ قریب تھا کہ کشتی ڈوب جائے مشورہ یہ ہوا کہ کسی آدمی کو دریا میں ڈال دینا چاہے کہ وزن کم ہوجائے ۔ قرعہ حضرت یونس علیہ السلام کانکلا لیکن کسی نے آپ کو دریا میں ڈالنا پسند نہ کیا ۔ دوبارہ قرعہ اندازی ہوئی آپ ہی کا نام نکلا تیسری مرتبہ پھر قرعہ ڈالا اب کی مرتبہ بھی آپ ہی کا نام نکلا ۔ چنانچہ خود قرآن میں ہے آیت ( فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِيْنَ ١٤١ۚ ) 37- الصافات:141 ) اب کہ حضرت یونس علیہ السلام خود کھڑے ہوگئے کپڑے اتار کر دریا میں کود پڑے ۔ بحر اخضر سے بحکم الٰہی ایک مچھلی پانی کاٹتی ہوئی آئی اور آپ کو لقمہ کر گئی ۔ لیکن بحکم اللہ نے آپ کی ہڈی توڑی نہ جسم کو کچھ نقصان پہچایا ۔ آپ اس کے لئے غذا نہ تھے بلکہ اس کا پیٹ آپ کے لئے قید خانہ تھا ۔ اسی وجہ سے آپ کی نسبت مچھلی کی طرف کی گئی عربی میں مچھلی کو نون کہتے ہیں ۔ آپ کا غضب وغصہ آپ کی قوم پر تھا ۔ خیال یہ تھا کہ اللہ آپ کو تنگ نہ پکڑے گا پس یہاں نقدر کے یہی معنی حضرت ابن عباس مجاہد ضحاک وغیرہ نے کئے ہیں امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اس کی تائید آیت ( وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهٗ فَلْيُنْفِقْ مِمَّآ اٰتٰىهُ اللّٰهُ Ċۧ ) 65- الطلاق:7 ) سے بھی ہوتی ہے ۔ حضرت عطیہ عوفی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ معنی کئے ہیں کہ ہم اس پر مقدر نہ کریں گے قدر اور قدر دونوں لفظ ایک معنی میں بولے جاتے ہیں اس کی سند میں عربی کے شعر کے علاوہ آیت ( فَالْتَقَى الْمَاۗءُ عَلٰٓي اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ 12ۚ ) 54- القمر:12 ) بھی پیش کی جاسکتی ہے ۔ ان اندھیریوں میں پھنس کر اب حضرت یونس علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا ۔ سمندر کے نیچے کا اندھیرا پھر مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا پھر رات کا اندھیرا یہ اندھیرے سب جمع تھے ۔ آپ نے سمندر کی تہہ کی کنکریوں کی تسبیح سنی اور خود بھی تسبیح کرنی شروع کی ۔ آپ مچھلی کے پیٹ میں جاکر پہلے تو سمجھے کہ میں مرگیا پھر پیر کو ہلایا تو یقین ہوا کہ میں زندہ ہوں ۔ وہیں سجدے میں گر پڑے اور کہنے لگے بارالٰہی میں نے تیرے لئے اس جگہ کو مسجد بنایا جسے اس سے پہلے کسی نے جائے سجود نہ بنایا ہوگا ۔ حسن بصری رحمتہ اللہ فرماتے ہیں چالیس دن آپ مچھلی کے پیٹ میں رہے ۔ ابن جریر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کے قید کا ارادہ کیا تو مچھلی کو حکم دیا کہ آپ کو نگل لے لیکن اس طرح کے نہ ہڈی ٹوٹے نہ جسم پر خراش آئے جب آپ سمندر کی تہہ میں پہنچے تو وہاں تسبیح سن کر حیران رہ گئے وحی آئی کہ یہ سمندر کے جانوروں کی تسبیح ہے ۔ چنانچہ آپ نے بھی اللہ کی تسبیح شروع کردی اسے سن کر فرشتوں نے کہابار الٰہا یہ آواز تو بہت دور کی اور بہت کمزورہے کس کی ہے ؟ ہم تو نہیں پہچان سکے ۔ جواب ملا کہ یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے اس نے میری نافرمانی کی میں نے اسے مچھلی کے پیٹ کے قید خانے میں ڈال دیا ہے ۔ انہوں نے کہا پروردگار ان کے نیک اعمال تو دن رات کے ہر وقت چڑھتے ہی رہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی سفارش قبول فرمائی اور مچھلی کو حکم دیا کہ وہ آپ کو کنارے پر اگل دے ۔ تفسیر ابن کثیر کے ایک نسخے میں یہ روایت بھی ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کسی کو لائق نہیں کہ وہ اپنے تیئں یونس بن متع سے افضل کہے ۔ اللہ کے اس بندے نے اندھیریوں میں اپنے رب کی تسبیح بیان کی ہے ۔ اوپر جو روایت گزری اسکی وہی ایک سند ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضور اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب حضرت یونس علیہ السلام نے یہ دعا کی تو یہ کلمات عرش کے اردگرد گومنے لگے فرشتے کہنے لگے بہت دور دراز کی یہ آواز ہے لیکن کان اس سے پہلے آشنا ضرور ہیں آواز بہت ضعیف ہے ۔ جناب باری نے فرمایا کیا تم نے پہچانا نہیں ؟ انہوں نے کہا نہیں ۔ فرمایا یہ میرے بندے یونس کی آوازہے ۔ فرشتوں نے کہا وہی یونس جس کے پاک عمل قبول شدہ ہر روز تیری طرف چڑتھے تھے اور جن کی دعائیں تیرے پاس مقبول تھیں اے اللہ جیسے وہ آرام کے وقت نیکیاں کرتا تھا تو اس مصیبت کے وقت اس پر رحم کر ۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا کہ وہ آپ کو بغیر کسی تکلیف کے کنارے پر اگل دے ۔ استغفار موجب نجات ہے پھر فرماتا ہے کہ ہم نے ان کی دعا قبول کر لی اور غم سے نجات دے دی ان اندھیروں سے نکال دیا ۔ اسی طرح ہم ایمان داروں کو نجات دیاکرتے ہیں ۔ وہ مصیبتوں میں گھر کر ہمیں پکارتے ہیں اور ہم ان کی دستگیری فرما کرتمام مشکلیں آسان کردیتے ہیں ۔ خصوصا جو لوگ اس دعائے یونسی کو پڑھیں سیدالانبیاء رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مسند احمد ترمذی وغیرہ میں ہے حضرت سعد بن ابو وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں مسجد میں گیا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں تھے ۔ میں نے سلام کیا آپ نے مجھے بغور دیکھا اور میرے سلام کا جواب نہ دیا میں نے امیرالمومنین حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آکر شکایت کی آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلوایا ان سے کہا کہ آپ نے ایک مسلمان بھائی کے سلام کا جواب کیوں نہ دیا ؟ آپ نے فرمایا نہ یہ آئے نہ انہوں نے سلام کیا نہ یہ کہ میں نے انہیں جواب نہ دیا ہو ۔ اس پر میں قسم کھائی تو آپ نے بھی میرے مقابلے میں قسم کھالی پھر کچھ خیال کرکے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے توبہ استغفار کیا اور فرمایا ٹھیک ہے ۔ آپ نکلے تھے لیکن میں اس وقت اپنے دل سے وہ بات کہہ رہا تھا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سے سنی تھی ۔ واللہ مجھے جب وہ یاد آتی ہے میری آنکھوں پر ہی نہیں بلکہ میرے دل پر بھی پردہ پڑجاتا ہے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں آپ کو اس کی خبردیتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے اول دعا کا ذکر کیا ہی تھا جو ایک اعرابی آگیا اور آپ کو اپنی باتوں میں مشغول کرلیا بہ وقت گزرتا گیا اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھے اور مکان کی طرف تشریف لے چلے میں بھی آپ کے پیچے ہولیا جب آپ گھر کے قریب پہنچ گئے مجھے ڈر لگا کہ کہیں آپ اندر نہ چلے جائیں اور میں رہ جاؤں تو میں نے زور زور سے پاؤں مارمار کر چلنا شروع کیا میری جوتیوں کی آہٹ سن کر آپ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا کون ابو اسحاق ؟ میں نے کہا جی ہاں یارسول میں ہی ہوں ۔ آپ نے فرمایا ہاں ہاں وہ دعا حضرت ذوالنون علیہ السلام کی تھی جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں کی تھی یعنی ( لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ ڰ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ 87ښ ) 21- الأنبياء:87 ) سنو جو بھی مسلمان جس کسی معاملے میں جب کبھی اپنے رب سے یہ دعا کرے اللہ تعالیٰ اسے ضرور قبول فرماتا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے جو بھی حضرت یونس علیہ السلام اس دعا کے ساتھ دعا کرے اس کی دعا ضرور قبول کی جائے ۔ ابو سعید فرماتے ہیں اسی آیت میں اس کے بعد ہی فرمان ہے ہم اسی طرح مؤمنوں کو نجات دیتے ہیں ۔ ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کا وہ نام جس سے وہ پکارا جائے تو قبول فرمالے اور جو مانگا جائے وہ عطافرمائے وہ حضرت یونس بن متع کی دعا میں ہے ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے کہا یارسول اللہ وہ حضرت یونس کے لئے ہی خاص تھی یاتمام مسلمانوں کے لئے عام ہے فرمایا ان کے لئے خاص اور تمام مسلمانوں کے لئے عام جو بھی یہ دعا کرے ۔ کیا تو نے قرآن میں نہیں پڑھا کہ ہم نے اس کی دعا قبول فرمائی اسے غم سے چھڑایا اور اسی طرح ہم مومنوں کو چھڑاتے ہیں ۔ پس جو بھی اس دعا کو کرے اس سے اللہ کا قبولیت کا وعدہ ہوچکا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کثیر بن سعید فرماتے ہیں میں نے امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کہ ابو سعید اللہ کا وہ اسم اعظم کہ جب اس کے ساتھ اس سے دعا کی جائے اللہ تعالیٰ قبول فرمالے اور جب اس کے ساتھ اس سے سوال کیا جائے تو وہ عطا فرمائے کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ برادرزادے کیا تم نے قرآن کریم میں اللہ کا یہ فرمان نہیں پڑھا ؟ پھر آپ نے یہی دو آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا بھتیجے یہی اللہ کا وہ اسم اعظم ہے کہ جب اس کے ساتھ دعا کی جائے وہ قبول فرماتا ہے اور جب اس کے ساتھ اس سے مانگا جائے وہ عطا فرماتا ہے ۔
87۔ 1 مچھلی والے سے مراد حضرت یونس (علیہ السلام) ہیں جو اپنی قوم سے ناراض ہو کر اور انھیں عذاب الٰہی کی دھمکی دے کر، اللہ کے حکم کے بغیر وہاں سے چل دیئے تھے، جس پر اللہ نے ان کی گرفت اور انھیں مچھلی کا لقمہ بنادیا، اس کی کچھ تفصیل سورة یونس میں گزر چکی ہے اور کچھ سورة صافات میں آئے گی۔ 87۔ 2 ظلمات، ظلمۃ کی جمع ہے بمعنی اندھیرا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) متعدد اندھیروں میں گھر گئے۔ رات کا اندھیرا، سمندر کا اندھیرا اور مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا۔
[٧٧] حضرت یونس کو قرآن میں اس مقام پر ذالنون کہا گیا ہے اور سورة القلم صاحب الحوث۔ حوت اسم جنس ہے جس کا اطلاق ہر قسم کی چھوٹی بڑی مچھلی پر ہوسکتا ہے۔ جبکہ نون سب سے بڑی (وہیل مچھلی) کو کہتے ہیں۔ (مفردات القرآن) اور آپ کا یہ لقب اس لئے ہوا کہ آپ ایک مدت مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ زندہ و سلامت رہے اور اس دوران اللہ کی تسبیحات پڑھتے رہے۔- آپ اہل نینوا کی طرف مبعوث ہوئے۔ آپ کا زمانہ بعثت نویں صدی ق م ہے۔ حسب معمول قوم نے آپ کی دعوت کا انکار کیا۔ آپ نے قوم کے مستقل انکار پر اللہ کے عذاب سے ڈرایا۔ اور جب قوم نے کہا کہ جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے تو آپ نے از خود ہی انھیں چالیس دن بعد عذاب آنے کی وعید سنا دی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے چالیس دن کا کوئی وعدہ نہیں فرمایا تھا۔ پھر جب یہ مدت گزرنے کو ہوئی اور عذاب کی کوئی علامت نہ دیکھی تو غم اور غدصہ کی وجہ سے وہاں سے فرار کی راہ اختیار کی تاکہ قوم انھیں جھوٹا نہ کہے۔ کشتی میں سوار ہوئے تو وہ ہچکولے کھانے لگی۔ کشتی والوں نے قرعہ ڈالا اور اس قرعہ کے نتیجہ میں حضرت یونس کو سمندر میں پھینک دیا۔ ایک بہت بڑی مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ اس دوران آپ ہر وقت اللہ تسبیح اور اپنے گناہوں کے اعتراف پر مشغول رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس مشکل سے نجات دی۔ اور مچھلی نے آپ کو برلب ساحل اگل دیا۔ جب ذرا طاقت آئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دوبارہ اسی قوم یعنی اہل نینوا کی طرف بھیجا۔- اب دوسری طرف صورت حال یہ پیش آئی کہ جب حضرت یونس مفرور ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس کے قول کو پورا کردیا اور وقت معینہ پر اہل نینوا کو عذاب کے آثار نظر آنے لگے تو وہ سب لوگ بچے، بوڑھے، جوان عورتیں مرد مل کر کھلے میدان میں نکل آئے اور اللہ کے حضور گڑ گڑائے اور توبہ کی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ عذاب ٹال دیا۔ اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ میں یہ ایک ہی استثناء ہے کہ آیا ہوا عذاب ٹل گیا ہو۔ اب اس قوم کی طرف جب یونس آئے تو وہ پہلے ہی نرم ہوچکی تھی۔ لہذا آپ کی تبلیغ کا خاطر خواہ فائدہ ہوا۔
وَذَا النُّوْنِ : یعنی مچھلی والے کو یاد کرو۔ ” النُّوْنِ “ کی جمع ” نِیْنَانٌ“ ہے، جیسے ” حُوْتٌ“ کی جمع ” حِیْتَانٌ“ ہے۔ اس سے مراد یونس بن متی (بروزن شَتّٰی) ہیں جو نینویٰ (پہلے نون کے کسرہ اور دوسرے کے فتحہ کے ساتھ) کے رہنے والے تھے، جو موصل (عراق) کے قریب تھا۔ - اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا : ” مُغَاضِبًا “ باب مفاعلہ سے اسم فاعل ہے جس میں مشارکت ہوتی ہے، یا معنی میں مبالغہ مراد ہوتا ہے۔ یونس (علیہ السلام) نے جب اپنی قوم کو دعوت دی اور وہ مسلسل کفر کرتے رہے تو آخر اکتا کر سخت غصے کی حالت میں ان کے حق میں بددعا کی اور عذاب کی دھمکی دے کر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر انھیں چھوڑ کر نکل پڑے۔ جب کہ منصب رسالت کا تقاضا تھا کہ ان کے تمام تر غیظ و غضب اور کفر و طغیان کے باوجود انھی میں رہتے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر ہرگز انھیں چھوڑ کر نہ جاتے، جیسا کہ نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال دعوت میں گزار دیے، نہ اکتائے اور نہ ان کے حق میں بددعا کی، جب تک اللہ تعالیٰ نے انھیں یہ نہیں بتایا کہ آئندہ ان کی قوم میں سے کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا۔ دیکھیے سورة ہود (٣٦) اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا : (فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ ) [ القلم : ٤٨ ] ” پس اپنے رب کے فیصلے تک صبر کر اور مچھلی والے کی طرح نہ ہو۔ “ اور فرمایا : (فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّهُمْ ) [ الأحقاف : ٣٥ ] ” پس اولو العزم رسولوں کی طرح صبر کر اور ان کے لیے جلدی (عذاب کا) مطالبہ نہ کر۔ “ اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کے بلا اجازت نکلنے کو غلام کا بھاگ جانا قرار دیا ہے، فرمایا : (اِذْ اَبَقَ اِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ ) [ الصافات : ١٤٠ ] ” جب وہ بھری ہوئی کشتی کی طرف بھاگ کر گیا۔ “ یونس (علیہ السلام) کے واقعہ کے لیے مزید دیکھیے سورة یونس (٩٨) اور سورة صافات (١٣٩ تا ١٤٨) ۔- فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَيْهِ : ” اَنْ “ اصل میں ” أَنَّا “ سے مخفف ہے، ” نَا “ کو حذف کر کے ” أَنَّ “ کے نون کو ساکن کردیا گیا ہے، یا ” أَنْ “ حرف تفسیر ہے جو ” أَيْ “ کے معنی میں ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ ” قَدَرَ یَقْدِرُ “ کا معنی قادر ہونا، قابو پانا ہے، تو یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اللہ کا جلیل القدر پیغمبر یہ سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر قابو نہیں پا سکے گا ؟ اس کے دو جواب ہیں، ایک یہ کہ انھوں نے یہ ہرگز نہیں سمجھا کہ اللہ تعالیٰ ان پر قابو نہیں پا سکے گا، بلکہ اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کی معمولی کوتاہی پر بھی سخت خفگی کا اظہار فرماتے ہیں۔ اس آیت میں ان کی حالت کا بیان ہے کہ بلا اجازت ان کے چلے جانے سے ظاہر ہو رہا تھا جیسے وہ سمجھ رہے ہوں کہ مجھے کوئی پکڑ نہیں سکے گا۔ دوسرا جواب اس سے بہتر ہے کہ یہاں ” لَّنْ نَّقْدِرَ “ قادر ہونے کے معنی میں نہیں، بلکہ تنگی کرنے اور گرفت کرنے کے معنی میں ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اَللّٰهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَــقْدِرُ ) [ الرعد : ٢٦ ] ” اللہ رزق فراخ کردیتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے اور تنگ کردیتا ہے۔ “ اور فرمایا : ( وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهٗ فَلْيُنْفِقْ مِمَّآ اٰتٰىهُ اللّٰهُ ) [ الطلاق : ٧ ] ” اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا ہو تو وہ اس میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔ “ آیت کا معنی یہ ہوگا کہ یونس (علیہ السلام) نے سمجھا کہ ان کے بلا اجازت قوم سے نکل جانے پر ہم ان پر کوئی گرفت نہیں کریں گے۔ بعض اہل علم نے پہلے معنی کو سرے سے غلط قرار دیا ہے۔ - فَنَادٰي فِي الظُّلُمٰتِ : یہاں ایک لمبی بات حذف کردی گئی ہے، جو سورة صافات (١٣٩ تا ١٤٨) میں مذکور ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ وہ قوم سے نکلے تو سمندری سفر کے لیے ایک کشتی میں سوار ہوئے جو ضرورت سے زیادہ بھری ہوئی تھی۔ طوفان آیا اور سب کے ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہوا تو کشتی ہلکی کرنے کے لیے سامان پھینکنے کے بعد کچھ آدمیوں کو سمندر میں پھینکنے کا فیصلہ ہوا۔ قرعہ ڈالا گیا تو کئی اور آدمیوں کے ساتھ یونس (علیہ السلام) کے نام کا قرعہ نکلا، چناچہ دوسروں کے ساتھ انھیں بھی سمندر میں پھینک دیا گیا، جہاں اللہ کے حکم سے ایک بہت بڑی مچھلی نے انھیں سالم ہی نگل لیا۔ اب وہ ایسی جگہ تھے جہاں اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ یہ ایسا قید خانہ تھا جہاں نہ کوئی ملاقاتی، نہ مقدمہ لڑنے والا، نہ پیروی کرنے والا، نہ قید کی کوئی میعاد، بلکہ تا قیامت قید کا فیصلہ (اگر وہ تسبیح نہ کریں) اور نہ اللہ کے سوا امید کی کوئی روشنی۔ ان کئی اندھیروں میں انھوں نے اپنے رب کو اس حال میں آواز دی کہ وہ غم سے بھرے ہوئے تھے، فرمایا : (ۘ اِذْ نَادٰى وَهُوَ مَكْظُوْمٌ ) [ القلم : ٤٨ ] ” جب اس نے پکارا، اس حال میں کہ وہ غم سے بھرا ہوا تھا۔ “- 3 قرآن مجید میں ” الظُّلُمٰتِ “ کا لفظ ہر جگہ جمع ہی آیا ہے، واحد کہیں بھی استعمال نہیں ہوا۔ (ابن عاشور) پھر سمندر کی تاریکیوں کا کوئی حساب ہی نہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِيْ بَحْرٍ لُّـجِّيٍّ يَّغْشٰـىهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌ ۭ ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ ) [ النور : ٤٠ ] ” یا (کفار کے اعمال کی مثال) ان اندھیروں کی طرح ہے جو نہایت گہرے سمندر میں ہوں، جسے ایک موج ڈھانپ رہی ہو، جس کے اوپر ایک اور موج ہو، جس کے اوپر ایک بادل ہو، کئی اندھیرے ہوں، جن میں سے بعض بعض کے اوپر ہوں۔ “ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق سمندر کے اندھیرے جب صرف ” الظُّلُمٰتِ “ ہی نہیں بلکہ ” ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ “ ہیں تو ” الظُّلُمٰتِ “ کی جمع کا صیغہ مکمل کرنے کے لیے رات کا اندھیرا شامل کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ یونس (علیہ السلام) کی دعا دن کے وقت ہو تب بھی ” فِي الظُّلُمٰتِ “ ہی ہے۔ [ التفسیر القرآنی للشیخ - عبد الکریم الخطیب ]- اَنْ لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ : یہ ” اَنْ “ بھی اصل میں ” أَنَّہُ “ سے مخفف ہے، یا حرف تفسیر بمعنی ” أَيْ “ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے اگلی آیت میں فرمایا ہے : ( فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ ) ” تو ہم نے اس کی دعا قبول کی۔ “ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یونس (علیہ السلام) نے کچھ مانگا ہی نہیں، نہ رہائی اور نہ اس مصیبت سے چھٹکارا، تو اللہ تعالیٰ نے کون سی دعا قبول فرمائی ؟ جواب اس کا یہ ہے (واللہ اعلم) کہ انھوں نے اپنی حالت کے مطابق بہترین دعا کی ہے۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف کی کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو میرا مالک و معبود ہے، میں تیرا بندہ اور تیرا غلام ہوں، میں اور میرا سب کچھ تیرے سپرد اور تیرے تابع ہے۔ پھر اس کی تسبیح کی کہ تو ہر عیب اور کمی سے پاک ہے، میری اس آزمائش اور مصیبت میں تیرا کوئی ظلم ہے نہ زیادتی، تیری ذات ظلم سے یکسر پاک ہے۔ تو نے جو کیا مالک اور معبود ہونے کی وجہ سے تیرا حق ہے اور اس میں تیری بےشما رحکمتیں ہیں۔ آخر میں اپنے ظلم کا اعتراف کیا کہ یقیناً مجھ پر جو کچھ گزرا یہ میرے اپنی جان پر ظلم کی وجہ سے ہے۔ یہ دعا بہترین اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید کے اعتراف میں درخواست ہو رہی ہے کہ تیرے سوا کوئی مجھے اس مصیبت سے نجات نہیں دے سکتا، تسبیح کے ضمن میں اظہار ہو رہا ہے کہ تو مجھے اس مصیبت سے نکالنے سے عاجز نہیں کہ جس سے نکلنے کی بظاہر کوئی صورت نہیں اور ہمیشہ سے اپنے ظالموں میں سے ہونے کا اعتراف معافی اور بخشش مانگنے کی لطیف ترین صورت ہے۔ ایوب (علیہ السلام) نے بھی دعا کے لیے عرض حال اور اللہ کی رحمت کا واسطہ دینے پر اکتفا کیا ہے۔ مزید سورة فاتحہ کی تفسیر میں ” اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ “ کے بہترین دعا ہونے کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔ یونس (علیہ السلام) کے واقعہ کی مزید تفصیل سورة صافات اور سورة قلم میں دیکھیں۔
خلاصہ تفسیر - اور مچھلی والے (پیغمبر یعنی یونس (علیہ السلام) کے قصہ) کا تذکرہ کیجئے جب وہ (اپنی قوم سے جبکہ وہ ایمان نہ لائی) خفا ہو کر چل دیئے (اور ان کی قوم پر سے عذاب ٹلنے کے بعد بھی خود واپس نہ آئے اور اس سفر کے لئے ہمارے حکم کا انتظار نہیں کیا) اور انہوں نے (اپنے اجتہاد سے) یہ سمجھا کہ ہم (اس چلے جانے میں) ان پر کوئی داروگیر نہ کریں گے (یعنی چونکہ اس فرار کو انہوں نے اپنے اجتہاد سے جائز سمجھا اس لئے وحی کا انتظار نہ کیا لیکن چونکہ امید وحی تک وحی کا انتظار انبیاء کے لئے مناسب ہے اور یہ مناسب کام ان سے ترک ہوگیا لہٰذا ان کو یہ ابتلا پیش آیا کہ راستہ میں ان کو کوئی دریا ملا اور وہاں کشتی میں سوار ہوئے، کشتی چلتے چلتے رک گئی یونس (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ میرا یہ بلا اجازت فرار ناپسند ہوا اس کی وجہ سے یہ کشتی رکی، کشتی والوں سے فرمایا کہ مجھ کو دریا میں ڈال دو ، وہ راضی نہ ہوئے غرض قرعہ پر اتفاق ہوا تب بھی ان ہی کا نام نکلا، آخر ان کو دریا میں ڈال دیا اور خدا کے حکم سے ان کو ایک مچھلی نے نگل لیا، اخرجہ، ابن ابی حاتم عن ابن عباس کذا فی الدار المنثور) پس انہوں نے اندھیروں میں پکارا (ایک اندھیرا مچھلی کے پیٹ کا، دوسرا دریا کے پانی کا دونوں گہرے اندھیرے جو بہت سے اندھیروں کے قائم مقام، یا تیسرا اندھیرا رات کا، قالہ ابن مسعود کما فی الدر المنثور، غرض ان تاریکیوں میں دعا کی) کہ آپ کے سوا کوئی معبود نہیں (یہ توحید ہے) آپ سب نقائص سے) پاک ہیں (یہ تنزیہ ہے) میں بیشک قصور وار ہوں (یہ استغفار ہے جس سے مقصود یہ ہے کہ میرا قصور معاف کر کے اس شدت سے نجات دیجئے) سو ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ان کو اس گھٹن سے نجات دی (جس کا قصہ سورة صافات میں فَنَبَذْنٰهُ بالْعَرَاۗءِ الخ میں مذکور ہے) اور ہم اسی طرح (اور) ایمان والوں کو (بھی کرب اور غم سے) نجات دیا کرتے ہیں (جبکہ چندے غم میں رکھنا مصلحت نہ ہو)- معارف و مسائل - وَذَا النُّوْنِ ، حضرت یونس بن متی (علیہ السلام) کا قصہ قرآن کریم نے سورة یونس، سورة انبیاء پھر سورة صافات اور سورة نون میں ذکر فرمایا کہیں ان کا اصل نام ذکر فرمایا ہے کہیں ذوالنون یا صاحب الحوت کے القاب سے ذکر کیا گیا ہے۔ نون اور حوت دونوں کے معنے مچھلی کے ہیں ذوالنون اور صاحب الحوت کا ترجمہ ہے مچھلی والا، حضرت یونس (علیہ السلام) کو بتقدیر الٰہی چند روز بطن ماہی میں رہنے کا واقعہ غریبہ پیش آیا تھا اس کی مناسبت سے ان کو ذوالنون بھی کہا جاتا ہے اور صاحب الحوت کے الفاظ سے بھی تعبیر کیا گیا۔- قصہ یونس (علیہ السلام) : - تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ یونس (علیہ السلام) کو علاقہ موصل کی ایک بستی نینوی کے لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا گیا تھا۔ یونس (علیہ السلام) نے ان کو ایمان و عمل صالح کی دعوت دی، انہوں نے تمرد اور سرکشی سے کام لیا۔ یونس (علیہ السلام) ان سے ناراض ہو کر بستی سے نکل گئے اور ان کو کہہ دیا کہ تین دن کے اندر تمہارے اوپر عذاب آجائے گا۔ یونس (علیہ السلام) بستی چھوڑ کر نکل گئے تو ان کو فکر ہوئی کہ اب عذاب آ ہی جائے گا (اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب کے بعض آثار کا ان کو مشاہدہ بھی ہوگیا) تو انہوں نے اپنے شرک و کفر سے توبہ کی اور بستی کے سب مرد عورت اور بچے جنگل کی طرف نکل گئے اور اپنے مویشی جانوروں اور ان کے بچوں کو بھی ساتھ لے گئے اور بچوں کو ان کی ماؤں سے الگ کردیا اور سب نے گریہ وزاری کرنا شروع کی اور الحاح وزاری کے ساتھ اللہ سے پناہ مانگی، جانوروں کے بچوں نے جن کو ان کی ماؤں سے الگ کردیا گیا تھا الگ شور و غل کیا۔ حق تعالیٰ نے ان کی سچی توبہ اور الحاح وزاری کو قبول کرلیا اور عذاب ان سے ہٹا دیا۔ ادھر حضرت یونس (علیہ السلام) اس انتظار میں رہے کہ قوم پر عذاب آ رہا ہے وہ ہلاک ہوگئی ہوگی جب ان کو یہ پتہ چلا کہ عذاب نہیں آیا اور قوم صحیح سالم اپنی جگہ ہے تو (ان کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ اب میں جھوٹا سمجھا جاؤں گا، اور بعض روایات میں ہے کہ ان کی قوم میں یہ رسم جاری تھی کہ کسی کا جھوٹا ہونا ثابت ہوجائے تو اس کو قتل کردیا جاتا تھا (مظہری) اس سے حضرت یونس (علیہ السلام) کو اپنی جان کا بھی خطرہ لاحق ہوگیا تو) یونس (علیہ السلام) نے اپنی قوم میں واپس جانے کے بجائے کسی دوسری جگہ کو ہجرت کرنے کے قصد سے سفر اختیار کیا۔ راستہ میں دریا تھا اس کو پار کرنے کے لئے ایک کشتی میں سوار ہوئے۔ اتفاق سے کشتی ایسے گرداب میں پھنسی کہ غرق ہونے کا خطرہ لاحق ہوگیا ملاحوں نے یہ طے کیا کہ کشتی میں سوار لوگوں میں سے ایک کو دریا میں ڈال دیا جائے تو باقی لوگ غرقابی سے محفوظ رہ سکیں گے۔ اس کام کے لئے کشتی والوں کے نام پر قرعہ اندازی کی گئی اتفاق سے قرعہ حضرت یونس (علیہ السلام) کے نام پر نکل آیا (کشتی والے شاید ان کی بزرگی سے واقف تھے) ان کو دریا میں ڈالنے سے انکار کیا اور دوبارہ قرعہ ڈالا پھر بھی اس میں نام یونس (علیہ السلام) کا نکلا، ان کو پھر بھی تامل ہوا تو تیسری مرتبہ قرعہ ڈالا پھر بھی انہیں کا نام نکل آیا۔ اسی قرعہ اندازی کا ذکر قرآن کریم میں دوسری جگہ ان الفاظ سے آیا ہے فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِيْنَ یعنی قرعہ اندازی کی گئی تو یونس (علیہ السلام) ہی اس قرعہ میں متعین ہوئے۔ اس وقت یونس (علیہ السلام) کھڑے ہوگئے اور اپنے غیر ضروری کپڑے اتار کر اپنے آپ کو دریا میں ڈال دیا ادھر حق تعالیٰ نے بحر اخضر سے ایک مچھلی کو حکم دیا وہ دریاؤں کو چیرتی پھاڑتی فوراً یہاں پہنچ گئی (کما قالہ ابن مسعود) اور یونس (علیہ السلام) کو اپنے اندر لے لیا۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو یہ ہدایت فرما دی تھی کہ نہ ان کے گوشت کو کوئی نقصان پہنچے نہ ہڈی کو یہ تیری غذا نہیں بلکہ تیرا پیٹ چند روز کے لئے ان کا قید خانہ ہے (یہاں تک یہ سب واقعہ روایت ابن کثیر میں ہے بجز ان کلمات کے جو قوسین میں لئے گئے ہیں وہ دوسری کتابوں سے لئے ہوئے ہیں) قرآن کریم کے اشارات اور بعض تصریحات سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کا بغیر اللہ تعالیٰ کے صریح حکم کے اپنی قوم کو چھوڑ کر نکل جانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسند ہوا اسی پر عتاب نازل ہوا اور دریا میں پھر مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی نوبت آئی۔- حضرت یونس (علیہ السلام) نے جو قوم کو تین دن کے اندر عذاب آجانے سے ڈرایا تھا ظاہر یہ ہے کہ یہ اپنی رائے سے نہیں بلکہ وحی الٰہی سے ہوا تھا اور اس وقت قوم کو چھوڑ کر ان سے الگ ہوجانا بھی جو قدیم عادت انبیاء (علیہم السلام) کی ہے ظاہر یہ ہے کہ یہ بھی بحکم خداوندی ہوا ہوگا یہاں تک کوئی بات لغزش کی موجب عتاب نہیں تھی مگر جب قوم کی سچی توبہ اور الحاح وزاری کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرما کر ان سے عذاب ہٹا دیا اس وقت حضرت یونس (علیہ السلام) کا اپنی قوم میں واپس نہ آنا اور بقصد ہجرت سفر اختیار کرنا یہ اپنے اس اجتہاد کی بنا پر ہوا کہ اس حالت میں اگر میں واپس اپنی قوم میں گیا تو جھوٹا سمجھا جاؤں گا اور میری دعوت بےاثر بےفائدہ ہوجاوے گی بلکہ اپنی جان کا بھی خطرہ ہے اور اگر میں ان کو چھوڑ کر کہیں چلا جاؤں تو یہ بات اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل مواخذہ و گرفت نہیں ہوگی اپنے اجتہاد کی بنا پر ہجرت کا قصد کرلینا اور اللہ تعالیٰ کے صریح حکم کا انتظار نہ کرنا اگرچہ کوئی گناہ نہیں تھا مگر اللہ تعالیٰ کو یونس (علیہ السلام) کا یہ طرز عمل پسند نہ آیا کہ وحی کا انتظار کئے بغیر ایک فیصلہ کرلیا یہ اگرچہ کوئی گناہ نہیں تھا مگر خلاف اولیٰ ضرور ہوا۔ انبیاء (علیہم السلام) اور مقربان بارگاہ الٰہی کی شان بہت بلند ہوتی ہے ان کو مزاج شناس ہونا چاہئے۔ ان سے اس معاملے میں ادنیٰ کوتاہی ہوتی ہے تو اس پر بھی عتاب اور گرفت ہوتی ہے یہی معاملہ تھا جس پر عتاب ہوا۔- تفسیر قرطبی میں قشیری سے بھی یہ نقل کیا کہ ظاہر یہ ہے کہ یہ صورت غضب یونس (علیہ السلام) کی اس وقت پیش آئی جبکہ قوم سے عذاب ہٹ گیا ان کو یہ پسند نہ تھا، اور مچھلی کے پیٹ میں چند روز رہنا بھی کوئی تعذیب نہیں بلکہ تادیب کے طور پر تھا جیسے اپنے نابالغ بچوں پر زجر و تنبیہ تعذیب نہیں ہوتی تادیب ہوتی ہے تاکہ آئندہ وہ احتیاط برتیں (قرطبی) واقعہ سمجھ لینے کے بعد آیات مذکورہ کے الفاظ کی تفسیر دیکھئے۔- ذَّهَبَ مُغَاضِبًا : یعنی چلے گئے غصہ میں آ کر، ظاہر ہے کہ مراد اس سے اپنی قوم پر غصہ ہے حضرت ابن عباس سے یہی منقول ہے اور جن حضرات نے مُغَاضِبًا کا مفعول رب کو قرار دیا ہے ان کی مراد بھی مُغَاضِبًا لربہ ہے یعنی اپنے رب کے لئے غصہ میں بھر کر چل دیئے اور کفار فجار سے اللہ کے لئے غصہ کرنا عین علامت ایمان ہے (کذا فی القرطبی و البحر المحیط)- فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَيْهِ : لفظ نَّقْدِرَ میں باعتبار لغت ایک احتمال یہ ہے کہ مصدر قدرت سے مشتق ہو تو معنے یہ ہوں گے کہ انہوں نے یہ گمان کرلیا کہ ہم ان پر قدرت اور قابو نہ پاسکیں گے ظاہر ہے کہ یہ بات کسی پیغمبر سے تو کیا کسی مسلمان سے بھی اس کا گمان نہیں ہوسکتا کیونکہ ایسا سمجھنا کفر صریح ہے اس لئے یہاں یہ معنے قطعاً نہیں ہو سکے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ مصدر قدر سے مشتق ہو جس کے معنے تنگی کرنے کے ہیں جیسے قرآن کریم میں ہے، اَللّٰهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَيَقْدِرُ لَهٗ ، یعنی اللہ تعالیٰ وسعت کردیتا ہے رزق میں جس کے لئے چاہے اور تنگ کردیتا ہے جس پر چاہے۔ ائمہ تفسیر میں سے عطاء، سعید بن جبیر، حسن بصری، اور بہت سے علماء نے یہی معنے اس آیت میں لئے ہیں اور مراد آیت کی یہ قرار دی کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کو اپنے قیاس و اجتہاد سے یہ گمان تھا کہ ان حالات میں اپنی قوم کو چھوڑ کر کہیں چلے جانے کے بارے میں مجھ پر کوئی تنگی نہیں کی جائے گی۔ اور تیسرا احتمال یہ بھی ہے کہ یہ لفظ قدر بمعنے تقدیر سے مشتق ہے جس کے معنے قضاء اور فیصلہ دینے کے ہیں تو معنے آیت کے یہ ہوں گے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کو یہ گمان ہوگیا کہ اس معاملہ میں مجھ پر کوئی گرفت اور مواخذہ نہیں ہوگا۔ ائمہ تفسیر میں سے قتادہ اور مجاہد اور فراء نے اسی معنے کو اختیار کیا ہے۔ بہرحال پہلے معنے کا تو اس جگہ کوئی احتمال نہیں دوسرے یا تیسرے معنے ہو سکتے ہیں۔
وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَيْہِ فَنَادٰي فِي الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ ٠ۤۖ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِــمِيْنَ ٨٧ۚۖ- نون - النّون : الحرف المعروف . قال تعالی: ن وَالْقَلَمِ [ القلم 1] والنّون : الحوت العظیم، وسمّي يونس ذا النّون في قوله : وَذَا النُّونِ [ الأنبیاء 87] لأنّ النّون کان قد التقمه، وسمّي سيف الحارث ابن ظالم ذا النّون «2» .- ( ن و ن ) النون ۔ حرف ہجا میں سے ایک حرف کا نام ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ن وَالْقَلَمِ [ القلم 1] ان ۔ قلم اور جو ( اہل قلم ) لک تھے ہیں اس کی قسم ۔ اور نون بڑی مچھلی کو بھی کہتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : وَذَا النُّونِ [ الأنبیاء 87] اور ذالنون کو یاد کرو جب وہ ( اپنی قوم سے ناراض ہوکر ) چل دیئے ۔ میں یونس (علیہ السلام) کو ذا النون کہا ہے ۔ کیونکہ انہیں مچھلی نے نگل لیا تھا ۔ اور حارث بن ظالم کی تلوار کا نام بھی اذالنون تھا ۔- ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ - غضب - الغَضَبُ : ثوران دم القلب إرادة الانتقام، ولذلک قال عليه السلام : «اتّقوا الغَضَبَ فإنّه جمرة توقد في قلب ابن آدم، ألم تروا إلى انتفاخ أوداجه وحمرة عينيه» «2» ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به فالمراد به الانتقام دون غيره : قال فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة 90] ، وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 112] ، وقال : وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه 81] ، غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة 14] ، وقوله : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة 7] ، قيل :- هم اليهود «3» . والغَضْبَةُ کالصّخرة، والغَضُوبُ :- الكثير الغضب . وتوصف به الحيّة والنّاقة الضجور، وقیل : فلان غُضُبَّةٌ: سریع الغضب «4» ، وحكي أنّه يقال : غَضِبْتُ لفلان : إذا کان حيّا وغَضِبْتُ به إذا کان ميّتا «5» .- ( غ ض ب ) الغضب - انتقام کے لئے دل میں خون کا جوش مارنا اسی لئے آنحضرت نے فرمایا ہے اتقو ا الغضب فانہ جمرۃ توقدئی قلب ابن ادم الم ترو الی امتقاخ اوداجہ وحمرتۃ عینیہ کہ غصہ سے بچو بیشک وہ انسان کے دل میں دہکتے ہوئے انگارہ کی طرح ہے تم اس کی رگوں کے پھولنے اور آنکھوں کے سرخ ہوجانے کو نہیں دیکھتے لیکن غضب الہیٰ سے مراد انتقام ( اور عذاب ) ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة 90] تو وہ اس کے ) غضب بالائے غضب میں مبتلا ہوگئے ۔ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 112] اور وہ خدا کے غضب ہی گرمحتار ہوگئے ۔ وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه 81] اور جس پر میرا غصہ نازل ہوا ۔ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة 14] اور خدا اس پر غضب ناک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة 7] نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا ۔ میں بعض نے کہا کہ مغضوب علیھم سے یہود مراد ہیں اور غضبۃ کے معنی سخت چٹان کے ہیں ۔ المغضوب بہت زیادہ غصے ہونے والا یہ سانپ اور تزر مزاج اونٹنی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فلاں غضبۃ کے معنی ہیں فلاں بہت جلد غصے ہونے والا ہے ۔ بعض نے بیان کیا ہے کہ غضیت لفلان کے معنی کسی زندہ شخص کی حمایت میں ناراض ہونا ہیں اور غضبت بہ کے معنی کیس مردہ شخص کی حمایت کے لئے غضب ناک ہونا ۔- ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - قَدْرُ والتَّقْدِيرُ- والقَدْرُ والتَّقْدِيرُ : تبيين كمّيّة الشیء . يقال :- قَدَرْتُهُ وقَدَّرْتُهُ ، وقَدَّرَهُ بالتّشدید : أعطاه الْقُدْرَةَ.- يقال : قَدَّرَنِي اللہ علی كذا وقوّاني عليه،- فَتَقْدِيرُ اللہ الأشياء علی وجهين :- أحدهما : بإعطاء القدرة .- والثاني : بأن يجعلها علی مقدار مخصوص ووجه مخصوص حسبما اقتضت الحکمة، وذلک أنّ فعل اللہ تعالیٰ ضربان :- ضرب أوجده بالفعل، ومعنی إيجاده بالفعل أن أبدعه کاملا دفعة لا تعتريه الزّيادة والنّقصان إلى إن يشاء أن يفنيه، أو يبدّله کالسماوات وما فيها . ومنها ما جعل أصوله موجودة بالفعل وأجزاء ه بالقوّة، وقدّره علی وجه لا يتأتّى منه غير ما قدّره فيه، کتقدیره في النّواة أن ينبت منها النّخل دون التّفّاح والزّيتون، وتقدیر منيّ الإنسان أن يكون منه الإنسان دون سائر الحیوانات .- فَتَقْدِيرُ اللہ علی وجهين :- أحدهما بالحکم منه أن يكون کذا أو لا يكون کذا، إمّا علی سبیل الوجوب، وإمّا علی سبیل الإمكان . وعلی ذلک قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] .- والثاني : بإعطاء الْقُدْرَةِ عليه . وقوله :- فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات 23] ، تنبيها أنّ كلّ ما يحكم به فهو محمود في حكمه، أو يكون من قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] ، وقرئ : فَقَدَرْنا - «1» بالتّشدید، وذلک منه، أو من إعطاء القدرة، وقوله : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة 60] ، فإنه تنبيه أنّ ذلک حكمة من حيث إنه هو الْمُقَدِّرُ ، وتنبيه أنّ ذلک ليس كما زعم المجوس أنّ اللہ يخلق وإبلیس يقتل، وقوله : إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ، إلى آخرها . أي : ليلة قيّضها لأمور مخصوصة . وقوله : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ- [ القمر 49] ، وقوله : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل 20] ، إشارة إلى ما أجري من تكوير اللیل علی النهار، وتكوير النهار علی اللیل، وأن ليس أحد يمكنه معرفة ساعاتهما وتوفية حقّ العبادة منهما في وقت معلوم، وقوله : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ- [ عبس 19] ، فإشارة إلى ما أوجده فيه بالقوّة، فيظهر حالا فحالا إلى الوجود بالصّورة، وقوله : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب 38] ، فَقَدَرٌ إشارة إلى ما سبق به القضاء، والکتابة في اللّوح المحفوظ والمشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : «فرغ ربّكم من الخلق والخلق والأجل والرّزق» «1» ، والْمَقْدُورُ إشارة إلى ما يحدث عنه حالا فحالا ممّا قدّر، وهو المشار إليه بقوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] ، وعلی ذلک قوله : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر 21] ، قال أبو الحسن : خذه بقدر کذا وبقدر کذا، وفلان يخاصم بقدر وقدر، وقوله : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ- [ البقرة 236] ، أي : ما يليق بحاله مقدّرا عليه، وقوله : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى- [ الأعلی 3] ، أي : أعطی كلّ شيء ما فيه مصلحته، وهداه لما فيه خلاصه، إمّا بالتّسخیر، وإمّا بالتّعلیم کما قال : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه 50] ، والتَّقْدِيرُ من الإنسان علی وجهين : أحدهما : التّفكّر في الأمر بحسب نظر العقل، وبناء الأمر عليه، وذلک محمود، والثاني : أن يكون بحسب التّمنّي والشّهوة، وذلک مذموم کقوله : فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر 18- 19] ، وتستعار الْقُدْرَةُ والْمَقْدُورُ للحال، والسّعة في المال،- القدر ( والتقدیر کے معنی کسی چیز کی کمیت کو بیان کرنے کے ہیں۔ کہاجاتا ہے ۔ قدرتہ وقدرتہ اور قدرہ ( تفعیل ) کے معنی کسی کو قدرت عطا کرنا بھی آتے ہیں محاور ہ ہے ۔ قدرنی اللہ علی کذا وتوانی علیہ اللہ نے مجھے اس پر قدرت عطافرمائی پس ، ، تقدیرالہی ِ ، ، کی دوصورتیں ہیں اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو قدرت بخشنا یا اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو مقدار مخصوص اور طرز مخصوص پر بنانا جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے اس لئے کہ فعل دوقسم پر ہے اول ایجاد بالفعل یعنی ابتداء سے کسی چیز کو ایسا کامل وجو عطا کرنا کی جب تک مشیت الہی اس کے فنا یا تبدیل کی مقتضی نہ ہو اس میں کمی بیشی نہ ہوسکے جیسے اجرام سماویہ اور ومافیما کی تخلیق ( کہ ان میں تاقیامت کسی قسم کا تغیر نہیں ہوگا ) دوم یہ کہ اصول اشیاء کو بالفعل اور ان کے اجزاء کو بالقوۃ وجو عطافرمانا اور ان کو اس ندازہ کے ساتھ مقدر کرنا کہ اس کی خلاف ظہور پزیر نہ ہوسکیں جیسا کہ خرما کی گھٹلی کے متعلق تقیدر الہٰی یہ ہے کہ اس سے خرما کا درخت ہی اگتا ہے اور سیب بازیتون کا درخت نہیں اگ سکتا اسی طرح انسان کی منی سے انسان پی پیدا ہوتا ہے دوسرے جانور پیدا نہیں ہوسکتے ۔ پس تقدیر الہی کے دو معنی ہوئے ایک یہ کہ کسی چیز کے متعلق نفی یا اثبات کا حکم لگانا کہ یوں ہوگا اور یوں نہیں ہوگا ۔ عام اس سے کم وہ حکم برسبیل وجوب ہو یا برسبیل امکان چناچہ آیت ؛ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں دوم کی چیز پر قدرت عطا کرنے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات 23] پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ اللہ کا ہر حکم قابل ستائش ہے ۔ اور یہ آیت : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کررکھا ہے ۔ کے ہم معنی ہے اور اس میں ایک قراءت ققدر نا ( تشدیددال ) کے ساتھ بھی ہے اور اس کے معنی یا تو حکم کرنے کے ہیں اور یا اعطاء قدرت کے اور آیت کریمہ : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة 60] ہم نے تم میں مرنا ٹھہراد یا ۔ میں اس امر تنبیہ ہے کہ موت مقدر کرنے والا چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لئ یہ بھی عین حکمت کے مطابق ہے اور مجوس کا یہ علم غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے اور ابلیس مارتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس ( قرآن ) گوشب قدر میں نازل کرنا شروع کیا ۔ میں لیلۃ القدر سے خاص رات مراد ہے جسے اور مخصوصہ کی انجام دہی لے لئے اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ۔ نیز فرمایا :إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل 20] اور خدا تو رات اور دن ، کا اندازہ رکھتا ہے اس نے معلوم کیا کہ تم اس کی نباہ نہ سکوگے ۔ میں سلسلہ لیل ونہار کے اجرء کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ ان کے اوقات کی معرفت حاصل کرنا اور پھر اوقات معینہ ، میں حق عبادات ادا کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں ہے اور آیت کریمہ : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ [ عبس 19] نطفے سے بنایا پھر اس کا اندازہ مقرر کیا ۔ میں ان قویٰ کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے نطفہ میں بالقوۃ ودیعت کر رکھے ہیں اور وہ قتا فوقتا صورت کا لباس بہن کر ظہور پذیر ہوتے ہیں آیت کریمہ : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب 38] اور خدا کا حکم ٹھہرچکا ہے ۔ میں قدر کے لفظ سے ان امور کی طرف اشارہ ہے جن کا فیصلہ ہوچکا ہے اور وہ لوح محفوظ میں لکھے جا چکے ہیں جن کی طرف کہ آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : فرغ ربکم من الخلق والاجل والرزق کہ اللہ تبارک وتعالیٰ خلق ۔ عمر اور رزق سے فارغ ہوچکا ہے اور مقدور کے لفظ سے ان امور کیطرف اشارہ ہے جو وقتا فوقتا ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ جن کی طرف آیت : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] وہ ہر روز کام میں مصروف ر ہتا ہے ۔ میں اشارہ فرمایا ہے اسی معنی میں فرمایا : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر 21] اور ہم ان کو بمقدار مناسب اتارتے رہتے ہیں ۔ ابوالحسن نے کہا ہے کہ یہ قدر وقدر ( بفتح الدال وسکونہا ) دونوں طرح بولا جاتا ہے چناچہ محاورہ خذ بقدر کذا ) وقدر کذا ( کہ اتنی مقدار میں لے لو ) وفلان یخاصم بقدر وقدر اور آیت کریمہ : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة 236] یعنی ) مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپی حیثیت کے مطابق ۔ میں قدر کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص اپنی مقدور کے مطابق اخراجات ادا کرے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى[ الأعلی 3] اور جس نے ( اس کا ) اناازہ ٹھہرادیا ( پھر اس کو ) رستہ بتایا : کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو وہ سمجھ عطا فرمادیا جس میں اس کی مصلحت ہے اور اسے تعلیمی یا تسخیری طور پر ان چیزوں کی طرف ہدایت کردی ہے جن میں اس کی نجات مضمرہ جیسے فرمایا : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه 50] جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی پھر راہ دکھائی ۔ جب ، ، تقدیر ، ، کا فاعل انسان ہو تو اس کے دومعنی ہوتے ہیں ایک تقدیر محمود یعنی عقل وفکر کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی امر بچہ غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی کام کو سرا نجام دینا ۔ دوم تقدیر مذموم کہ انسان اپنی تمنا اور خواہش کے پیمانہ کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرے اور عقل وفکر سے کام نہ لے جیسے فرمایا فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر 18- 19] اس نے فکر کیا اور تجویز کی یہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی ۔ اور استعارہ کے طورپر قدرۃ اور مقدور کے معنی حالت اور وسعت مالی کے بھی آتے ہیں اور قدر کے معنی اس معین وقت یا مقام کے بھی ہوتے ہیں جو کسی کام کے لئے مقرر ہوچکا ہو چناچہ فرمایا : إِلى قَدَرٍ مَعْلُومٍ [ المرسلات 22] ایک معین وقت تک ۔ نیز فرمایا : فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها [ الرعد 17] پھر اس سے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ یعنی نالے اپنے ( ظرف کے مطابق بہ نکلتے ہیں ایک قرات میں بقدر ھا ہے جو بمعنی تقدیر یعنی اندازہ ۔۔۔ کے ہے اور آیت کریمہ : وَغَدَوْا عَلى حَرْدٍ قادِرِينَ [ القلم 25]( اور کوشش کے ساتھ سویرے ہی جاپہنچے ( گویا کھیتی پر ) قادر ہیں ۔ میں قادرین کے معنی قاصدین کے ہیں یعنی جو وقت انہوں نے مقرر کر رکھا تھا ۔ اندازہ کرتے ہوئے اس وقت پر وہاں جا پہنچے اور یہی معنی آیت کریمہ : فَالْتَقَى الْماءُ عَلى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ [ القمر 12] تو پانی ایک کام کے لئے جو مقدر ہوچکا تھا جمع ہوگیا میں مراد ہیں ۔ اور قدرت علیہ الشئی کے معنی کسی پر تنگی کردینے کے ہیں گویا وہ چیز اسے معین مقدار کے ساتھ دی گئی ہے اس کے بالمقابل بغیر حساب ( یعنی بےاندازہ ) آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق 7] اور جس کے رزق میں تنگی ہو ۔ یعنی جس پر اس کی روزی تنگ کردی گئی ہو ۔ نیز فرمایا : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم 37] خدا جس پر جاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ۔ فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء 87] اور خیال کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے اور ایک قرآت میں لن نقدر علیہ سے اور اسی سے لفظ اقدر مشتق ہے جس کے معنی کوتاہ گردن آدمی کے ہیں اوراقدر اس گھوڑے کو بھی کہتے ہیں جس کے دوڑتے وقت پچھلے پاؤں ٹھیک اس جگہ پڑیں جہاں اگلے پاؤں پڑے تھے ۔ اور آیت کریمہ وما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ [ الأنعام 91] ان لوگوں نے خدا کی قدرشناسی جیسی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ۔ یعنی لوگ اس کی حقیقت کو نہیں پاسکے اور پھر اس امر پر تنبیہ کی ہے کہ وہ اس کی کنہہ کا ادارک بھی کیسے کرسکتے ہیں جب کہ اس کی شان یہ ہے کہوالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] اور قیامت کے دن تمام زمین آں کی مٹھی میں ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : أَنِ اعْمَلْ سابِغاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ [ سبأ 11] کو کشادہ زر ہیں بناؤ اور کڑیوں کو اندازے سے جوڑ دو ۔ میں قدرفی السرد کے معنی یہ ہیں کہ مضبوطی اور محکم زر ہیں بناؤ ۔ اور مقدارالشئی اس وقت یاز مانہ وغیرہ کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کے لئے مقرر کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : يَوْمٍ كانَ مِقْدارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ [ المعارج 4] اور اس روز ( نازل ہوگا ) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ [ الحدید 29]( یہ باتیں ) اسلئے ( بیان کی گئی ہیں ) کہ اہل کتاب جان لیں کہ وہ خدا کے فضل کے ساتھ مختص ہے ( یعنی اس میں تاویل سے چارہ نہیں ہے ) القدر ( دیگ) برتن جس میں گوشت پکایا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] اور دیگیں جو ایک ہی جگہ رکھی ہیں ۔ اور قدرت اللحم کے معنی ہانڈی میں گوشت پکانے کے ہیں اور ہینڈیاں پکائے ہوئے گوشت کو قدیر کہاجاتا ہے ۔ القدار ( قصاب ) وہ شخص جو اونٹ کو نحر ( ذبح ) کرکے دیگ میں اس کا گوشت پکاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل) (351) ضرب القدار نقیعۃ القدام جیسا کہ قصاب سفر سے آنے والے کی خوشی میں دعوت کے لئے گوشت کاٹتا ہے ۔ - ظلم) تاریکی)- الظُّلْمَةُ : عدمُ النّور، وجمعها : ظُلُمَاتٌ. قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40] ، ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40] ، وقال تعالی: أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل 63] ، وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام 1] ، ويعبّر بها عن الجهل والشّرک والفسق، كما يعبّر بالنّور عن أضدادها . قال اللہ تعالی: يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ- [ البقرة 257] ، أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم 5] - ( ظ ل م ) الظلمۃ ۔- کے معنی میں روشنی کا معدوم ہونا اس کی جمع ظلمات ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40]- ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے ) جیسے دریائے عشق میں اندھیرے ۔ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40]- ( غرض ) اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک چھایا ہوا ۔ أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل 63] بتاؤ برو بحری کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے ۔ وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام 1] اور تاریکیاں اور روشنی بنائی ۔ اور کبھی ظلمۃ کا لفظ بول کر جہالت شرک اور فسق وفجور کے معنی مراد لئے جاتے ہیں جس طرح کہ نور کا لفظ ان کے اضداد یعنی علم وایمان اور عمل صالح پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة 257] ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے ۔ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم 5] کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ - سبحان - و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر - «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة .- ( س ب ح ) السبح - ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔
(٨٧) اور مچھلی والے پیغمبر یعنی حضرت یونس (علیہ السلام) کا بھی ذکر کیجیے جب کہ وہ اپنے بادشاہ سے ناراض ہو کر چل دیے اور انہوں نے یہ سمجھا کر ہم اس دن کے چلے جانے پر کوئی پکڑ نہیں کریں گے (اللہ کے حکم سے ان کو مچھلی نگل گئی) پس انہوں نے اندھیروں میں پکارا، ایک اندھیرا دریا کا، دوسرا مچھلی کے پیٹ کا، تیسرا مچھلی کی آنتوں کا، غرض کہ ان تاریکیوں میں دعا کی کہ آپ کے سوا کوئی معبود نہیں آپ پاک ہیں، میں آپ کے حضور توبہ کرتا ہوں، بیشک میں قصور وار ہوں کہ بغیر آپ کے حکم کے ناراض ہوا۔
آیت ٨٧ (وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا) ” - یعنی حضرت یونس ( علیہ السلام) ۔ آپ ( علیہ السلام) کو ” مچھلی والا “ اس لیے فرمایا گیا ہے کہ آپ ( علیہ السلام) کو مچھلی نے نگل لیا تھا۔ آپ ( علیہ السلام) کو شہر نینوا کی طرف مبعوث فرمایا گیا تھا۔ آپ ( علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بت پرستی سے روکا اور حق کی طرف بلایا۔ آپ ( علیہ السلام) نے بار بار دعوت دی ‘ ہر طرح سے تبلیغ و تذکیر کا حق ادا کیا ‘ مگر اس قوم نے آپ ( علیہ السلام) کی کسی بات کو نہ مانا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عذاب بھیجنے کا فیصلہ ہوگیا۔ اس موقع پر آپ ( علیہ السلام) حمیتِ حق کے جوش میں قوم سے برہم ہو کر ان کو عذاب کی خبر سنا کر وہاں سے نکل آئے۔ اس سلسلے میں بنیادی طور پر آپ ( علیہ السلام) سے ایک ” سہو “ سرزد ہوگیا کہ آپ ( علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت آنے سے پہلے ہی اپنے مقام بعثت سے ہجرت کرلی ‘ جبکہ اللہ کی باقاعدہ اجازت کے بغیر کوئی رسول اپنے مقام بعثت کو چھوڑ نہیں سکتا۔ اسی اصول اور قانون کے تحت ہم دیکھتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام مسلمانوں کو مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی تھی ‘ مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اس وقت تک ہجرت نہیں فرمائی جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے باقاعدہ اس کی اجازت نہیں مل گئی۔- بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے قوانین بہت سخت ہیں اور اللہ کے مقرب بندوں کا معاملہ تو اللہ کے ہاں خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ان آیات کا مطالعہ اور ترجمہ کرتے ہوئے ہمیں یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ معاملہ اللہ عزوجل اور اس کے ایک جلیل القدر رسول ( علیہ السلام) کے مابین ہے۔ اسے ہم الفاظ کے بظاہر مفہوم پر محمول نہیں کرسکتے۔ حضرت یونس ( علیہ السلام) وہ رسول ہیں جن کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مجھے یونس ابن متیّٰ پر بھی فضیلت نہ دو “۔ بہر حال حضرت یونس ( علیہ السلام) حمیتِ حق کے باعث اپنی قوم پر غضبناک ہو کر وہاں سے نکل کھڑے ہوئے۔- (فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ ) ” - واللہ اعلم یہ الفاظ بہت سخت ہیں۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے ان الفاظ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ مطلب نہیں کہ معاذ اللہ ‘ یونس (علیہ السلام) فی الواقع ایسا سمجھتے تھے کہ وہ بستی سے نکل کر گویا اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہی نکل گئے ‘ بلکہ آپ ( علیہ السلام) کے طرز عمل سے یوں لگتا تھا۔ یعنی صورت حال ایسی تھی کہ دیکھنے والا یہ سمجھ سکتا تھا کہ شاید آپ ( علیہ السلام) نے ایسا سمجھا تھا کہ اللہ ان کو پکڑ نہیں سکے گا ‘ لیکن ظاہر ہے کہ اس کا کوئی امکان نہیں کہ حضرت یونس ( علیہ السلام) کے دل میں ایسا کوئی خیال گزرا ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کامل بندوں کی ادنیٰ ترین لغزش کا ذکر بھی بہت سخت پیرایہ میں کرتا ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) نے لکھا ہے کہ اس سے کاملین کی تنقیص نہیں ہوتی ‘ بلکہ جلالت شان ظاہر ہوتی ہے کہ اتنے بڑے ہو کر ایسی چھوٹی سی فروگزاشت بھی کیوں کرتے ہیں ع ” جن کے رتبے ہیں سوا ‘ ان کی سوا مشکل ہے “- (فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ ) ” - آپ ( علیہ السلام) اپنے علاقے سے نکلنے کے بعد ایک کشتی میں سوار ہوئے اور وہاں ایسی صورت حال پیدا ہوئی کہ آپ ( علیہ السلام) کو دریا میں چھلانگ لگانا پڑی اور ایک بڑی مچھلی نے آپ ( علیہ السلام) کو نگل لیا۔ مچھلی کے پیٹ اور قعر دریا کی تاریکیوں میں آپ ( علیہ السلام) تسبیح کرتے اور اللہ کو پکارتے رہے :- (اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَق اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ) ” - اے اللہ مجھ سے غلطی ہوگئی ہے ‘ میں خطاکارہوں ‘ تو مجھے معاف کر دے یہ آیت ” آیت کریمہ “ کہلاتی ہے۔ روایات میں اس آیت کے بہت فضائل بیان ہوئے ہیں۔ کسی مصیبت یا پریشانی کے وقت یہ دعا صدق دل سے مانگی جائے تو کبھی قبولیت سے محروم نہیں رہتی۔
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :82 مراد ہیں حضرت یونس علیہ السلام ۔ کہیں ان کا نام لیا گیا ہے اور کہیں ذوالنون اور صاحب الحوت یعنی مچھلی والے کے القاب سے یاد کیا گیا ہے ۔ مچھلی والا انہیں اس لیے نہیں کہا گیا کہ وہ مچھلیاں پکڑتے یا بیچتے تھے ، بلکہ اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے ایک مچھلی نے ان کو نگل لیا تھا ، جیسا کہ سورہ صافات آیت 142 میں بیان ہوا ہے ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، یونس ، حواشی 98 تا 100 ۔ الصٰفّٰت ، حوشی 77 تا 85 ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :83 یعنی وہ اپنی قوم سے ناراض ہو کر چلے گئے قبل اس کے کہ خدا کی طرف سے ہجرت کا حکم آتا اور ان کے لیے اپنی ڈیوٹی چھوڑنا جائز ہوتا ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :84 انہوں نے خیال کیا کہ اس قوم پر تو عذاب آنے والا ہے ، اب مجھے کہیں چل کر پناہ لینی چاہیے تا کہ خود بھی عذاب میں نہ گھر جاؤں ۔ یہ بات بجائے خود تو قابل گرفت نہ تھی مگر پیغمبر کا اذن الہٰی کے بغیر ڈیوٹی سے ہٹ جانا قابل گرفت تھا ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :85 یعنی مچھلی کے پیٹ میں سے جو خود تاریک تھا ، اور اوپر سے سمندر کی تاریکیاں مزید ۔
40: حضرت یونس (علیہ السلام) کا واقعہ پیچھے سورۂ یونس : 97 میں گذر چکا ہے کہ وہ اللہ کا حکم آنے سے پہلے وہ اپنی بستی کو چھوڑ گئے تھے، اﷲ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی، اور اس کی وجہ سے ان پر یہ آزمائش آئی کہ جس کشتی میں وہ سوار ہوئے تھے۔ انہیں اس میں سے دریا میں اتار دیا گیا۔ اور ایک مچھلی انہیں نگل گئی، جس کے پیٹ میں وہ تین دن رہے، اس آیت میں اندھیریوں سے مراد مچھلی کو حکم دیا کہ وہ انہیں ایک کنارے پر لا کر پھینک دے، اور اس طرح انہیں اس گھٹن سے نجات ملی، واقعے کی مزید تفصیل ان شاء اللہ سورۂ صافات : 139 تا 148 میں گذر چکی ہے۔