88۔ 1 ہم نے یونس (علیہ السلام) کی دعا قبول کی اور اسے اندھیروں سے اور مچھلی کے پیٹ سے نجات دی اور جو بھی مومن ہمیں اس طرح شدائد اور مصیبتوں میں پکارے گا، ہم اسے نجات دیں گے۔ حدیث میں آتا ہے۔ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس مسلمان نے بھی اس دعا کے ساتھ کسی معاملے کے لئے دعا مانگی تو اللہ نے اسے قبول فرمایا (جامع ترندی نمبر 3505 وصححہ الالبانی)
[٧٨] یعنی اللہ تعالیٰ کو عاجزی سے پکارنے پر اللہ تعالیٰ کا سابقہ خطاؤں کو معاف کرکے مزید انعامات سے نوازنا حضرت یونس سے ہی مخصوص نہیں بلکہ جو بھی ایماندار لوگ ہمیں اسی طرح پکاریں گے ہم انھیں مصائب سے نجات دیں گے۔ حضرت یونس مچھلی کے پیٹ میں یہ دعا کرتے رہے (لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ ڰ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ 87ښ) 21 ۔ الأنبیاء :87) احادیث میں اس دعا کی بہت فضیلت آئی ہے اور امت نے شدائد و مصائب میں اس دعاء کو بہت مجرب پایا ہے۔
وَكَذٰلِكَ نُـــــْۨـجِي الْمُؤْمِنِيْنَ : اس کے دو معنی ہیں اور دونوں ہی مراد ہیں، ایک یہ کہ جس طرح ہم نے یونس (علیہ السلام) کی دعا قبول کرکے انھیں غم سے نجات دی اسی طرح ہم ایمان والوں کو ان کی دعائیں قبول کرکے غم سے نجات دیتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ جس طرح اس دعا کے ساتھ ہم نے یونس (علیہ السلام) کو غم سے نجات دی اسی طرح ایمان والوں کو ہم اس دعا کے ساتھ غم سے نجات دیتے ہیں۔ سعد بن ابی وقاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( دَعْوَۃُ ذِي النُّوْنِ إِذْ دَعَا وَھُوَ فِيْ بَطْنِ الْحُوْتِ ( لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ ڰ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ ) فَإِنَّہٗ لَمْ یَدْعُ بِھَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ فِيْ شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا اسْتَجَاب اللّٰہُ لَہٗ ) [ ترمذي، الدعوات، باب [ في دعوۃ ذي النون ] : ٣٥٠٥۔ مسند أحمد : ١؍١٧٠، ح : ١٦٤٤، و صححہ الألباني ]” ذو النون (یونس (علیہ السلام ) کی دعا، جو اس نے مچھلی کے پیٹ میں کی ” لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ ڰ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ “ کوئی مسلم آدمی اس کے ساتھ کسی چیز کے بارے میں دعا نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتا ہے۔ “
دعا یونس (علیہ السلام) ہر شخص کے لئے ہر زمانے میں ہر مقصد کے لئے مقبول ہے : - وَكَذٰلِكَ نُـــــْۨـجِي الْمُؤ ْمِنِيْنَ ، یعنی جس طرح ہم نے یونس (علیہ السلام) کو غم اور مصیبت سے نجات دی اس طرح ہم سب مومنین کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرتے ہیں جبکہ وہ صدق و اخلاص کے ساتھ ہماری طرف متوجہ ہوں اور ہم سے پناہ مانگیں۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ذوالنون کی وہ دعا جو انہوں نے بطن ماہی کے اندر کی تھی یعنی لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ ڰ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ ، جو مسلمان اپنے کسی مقصد کے لئے ان کلمات کے ساتھ دعا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرمادیں گے (رواہ احمد والترمذی و الحاکم و صححہ من حدیث سعد بن ابی وقاص۔ از مظہری)
فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ ٠ۙ وَنَجَّيْنٰہُ مِنَ الْغَمِّ ٠ۭ وَكَذٰلِكَ نُـــــْۨجِي الْمُؤْمِنِيْنَ ٨٨- نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔- وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔- غم - الغَمُّ : ستر الشیء، ومنه : الغَمَامُ لکونه ساترا لضوء الشمس . قال تعالی: يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ [ البقرة 210] . والغَمَّى مثله، ومنه : غُمَّ الهلالُ ، ويوم غَمٌّ ، ولیلة غَمَّةٌ وغُمَّى، قال : ليلة غمّى طامس هلالها وغُمَّةُ الأمر . قال : ثُمَّ لا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً [يونس 71] ، أي : كربة . يقال : غَمٌ وغُمَّةٌ. أي : كرب وکربة، والغَمَامَةُ : خرقة تشدّ علی أنف النّاقة وعینها، وناصية غَمَّاءُ : تستر الوجه .- ( غ م م ) الغم - ( ن ) کے بنیادی معنی کسی چیز کو چھپا لینے کی ہیں اسی سے الغمیٰ ہے جس کے معنی غبار اور تاریکی کے ہیں ۔ نیز الغمیٰ جنگ کی شدت الغمام کہتے ہیں کیونکہ وہ سورج کی روشنی کو ڈھانپ لیتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ [ البقرة 210] کہ خدا کا عذاب بادلوں کے سائبانوں میں آنازل ہوا ۔ اسی سے غم الھلال ( چاند ابر کے نیچے آگیا اور دیکھا نہ جاسکا ۔ ویوم غم ( سخت گرم دن ولیلۃ غمۃ وغمی ٰ ( تاریک اور سخت گرم رات ) وغیرہ ہا محاورات ہیں کسی شاعر نے کہا ہے ( جز ) ( 329) لیلۃ غمی ٰ طامس ھلالھا تاریک رات جس کا چاند بےنور ہو ۔ اور غمۃ الامر کے معنی کسی معاملہ کا پیچدہ اور مشتبہ ہونا ہیں ، قرآن پاک میں ہے : ۔ ثُمَّ لا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً [يونس 71] پھر تمہارا معاملہ تم پر مشتبہ نہ رہے ۔ یعنی پھر وہ معاملہ تمہارے لئے قلق و اضطراب کا موجب نہ ہو اور غم وغمۃ کے ایک ہی معنی ہیں یعنی حزن وکرب جیسے کرب وکربۃ اور غمامۃ اس چیتھڑے کو کہتے ہیں جو اونٹنی کی ناک اور آنکھوں پر باندھ دیا جاتا ہے تاکہ کسی چیز کو دیکھ یاسونگھ نہ سکے ) اور ناصیۃ غماء پیشانی کے لمبے بال جو چہرے کو چھالیں ۔
(٨٨) ہم نے ان کی دعا کو قبول کرلیا اور ان کو تاریکیوں سے نجات دی اور اسی طرح ہم اور ایمان والوں کو بھی غم و پریشانی سے دعا کے وقت نجات دیا کرتے ہیں۔
(وَکَذٰلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِیْنَ ) ” - یعنی یہ معاملہ حضرت یونس ( علیہ السلام) کے ساتھ مخصوص نہیں۔ جو اہل ایمان بھی ہم کو اسی طرح پکاریں گے ہم ان کو مصائب سے نجات دیں گے۔