Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

90۔ 1 حضرت زکریا (علیہ السلام) کا بڑھاپے میں اولاد کے لئے دعا کرنا اور اللہ کی طرف سے اس کا عطا کیا جانا، اس کی ضروری تفصیل سورة آل عمران اور سورة طٰہٰ میں گزر چکی ہے۔ یہاں بھی اس کی طرف اشارہ ان الفاظ میں کیا ہے۔ 90۔ 2 یعنی وہ بانجھ اور ناقابل اولاد تھی، ہم نے اس کے اس نقص کا ازالہ فرما کر اسے نیک بچہ عطا فرمایا۔ 90۔ 3 گویا قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے کہ ان باتوں کا اہتمام کیا جائے جن کا بطور خاص یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً الحاح وزاری کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں دعا و مناجات، نیکی کے کاموں میں سبقت، خوف و طمع کے ملے جلے جذبات کے ساتھ رب کو پکارنا اور اس کے سامنے عاجزی اور خشوع خضوع کا اظہار۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٠] بعض صوفی حضرات کہا کرتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت جنت کی توقع یا اس کے عذاب کے خوف سے کرتا ہے وہ اصلی محب نہیں ہے اور اپنے اس نظریہ کو اتنا پھیلایا کہ عوام الناس بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ چناچہ ایک شاعر کہتا ہے :- سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے - او خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے - حالانکہ اللہ تعالیٰ انبیاء کی یہ صفت بیان فرما رہے ہیں کہ وہ ہمیں توقع اور خوف سے پکارا کرتے تھے۔ گویا اس آیت میں ایسے متصوفین کا مکمل اور موجود ہے۔ کیونکہ انبیاء سے بڑھ کر اللہ کا محب اور کون ہوسکتا ہے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ ۡ وَوَهَبْنَا لَهٗ يَحْــيٰى وَاَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗ : بیوی کو درست کرنے سے مراد ان کا بانجھ پن دور کر کے انھیں اولاد کے قابل بنانا ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ بظاہر ترتیب تو یہ ہونی چاہیے کہ ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اس کے لیے اس کی بیوی کو درست کردیا اور اسے یحییٰ عطا کیا، کیونکہ بیوی درست ہونے کے بعد بچے کا مرحلہ آتا ہے۔ جواب اس کا یہ ہے کہ واؤ ہمیشہ ترتیب کے لیے نہیں ہوتی۔ یہاں یحییٰ (علیہ السلام) عطا کرنے کا ذکر پہلے اس لیے ہے کہ دعا بیٹا عطا کرنے کی تھی، اس کی قبولیت کے بیان کے لیے پہلے یحییٰ عطا کرنے کا ذکر ہوا، پھر اس سوال کا جواب دے دیا گیا کہ اتنی بوڑھی اور بانجھ بیوی سے بیٹا کیسے پیدا ہوگیا ؟- اِنَّهُمْ كَانُوْا يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَــيْرٰتِ : یعنی زکریا (علیہ السلام) ، ان کی بیوی اور یحییٰ (علیہ السلام) نیکیوں میں جلدی کرتے اور رغبت اور خوف کے ساتھ ہمیں پکارتے تھے اور صرف ہمارے لیے عاجزی کرنے والے تھے۔ یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ ان تمام انبیاء میں، جن کا ذکر اس سے پہلے گزرا، یہ تینوں صفات پائی جاتی تھیں۔ معلوم ہوا دعا کی قبولیت کے لیے یہ تینوں باتیں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ان بڑے لوگوں میں یہ بات نہ تھی کہ شفا بخش سکیں یا مشکل کشائی کرسکیں یا اولاد عطا کردیں، بلکہ وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور خوف اور طمع کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہی سے دعا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ بندگی میں ان کے عظیم مرتبے کے پیش نظر معجزانہ طریقے سے ان کی دعا قبول فرماتا تھا۔ - وَيَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَهَبًا : یعنی وہ ہمیں اس طرح پکارتے تھے کہ ایک طرف انھیں ہمارے اجر کی توقع رہتی تھی اور دوسری طرف ہمارے عذاب کا ڈر اور یہی بندگی کا اعلیٰ ترین مقام ہے، جیسا کہ فرمایا : (يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا ) [ السجدۃ : ١٦ ] ” وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور طمع کرتے ہوئے پکارتے ہیں۔ “ بعض صوفی حضرات کہا کرتے ہیں کہ جنت کے لالچ یا جہنم کے خوف سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا تو سودے بازی ہے، عبادت تو بس اللہ کی رضا کے لیے کرنی چاہیے، اس آیت میں ان کا رد ہے، انبیائے کرام اللہ کے قرب کے سب سے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوتے ہیں، ان کے متعلق فرمایا : (يَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَهَبًا) یعنی وہ ہمیں اس طرح پکارتے تھے کہ ایک طرف انھیں ہمارے اجر کی توقع رہتی تھی اور دوسری طرف ہمارے عذاب کا ڈر اور یہی بندگی کا اعلیٰ ترین مقام ہے۔ جاہل صوفیوں کو علم نہیں کہ جنت اللہ کی رضا سے ملے گی اور جہنم اللہ کے غضب کا نتیجہ ہے۔ رہی سودے بازی، تو وہ خود اللہ تعالیٰ نے بندوں سے کی ہے، فرمایا : (؀ۧاِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ ) [ التوبۃ : ١١١ ] ” بیشک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لیے ہیں، اس کے بدلے کہ ان کے لیے جنت ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَيَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَهَبًا، وہ رغبت و خوف یعنی راحت اور تکلیف کی ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں اور اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ اپنی عبادت و دعا کے وقت امید و بیم دونوں کے درمیان رہتے ہیں اللہ تعالیٰ سے قبول اور ثواب کی امید بھی رہتی ہے اور اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے خوف بھی (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ۝ ٠ۡوَوَہَبْنَا لَہٗ يَحْــيٰى وَاَصْلَحْنَا لَہٗ زَوْجَہٗ۝ ٠ۭ اِنَّہُمْ كَانُوْا يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَــيْرٰتِ وَيَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَہَبًا۝ ٠ۭ وَكَانُوْا لَنَا خٰشِعِيْنَ۝ ٩٠- وهب - الهِبَةُ : أن تجعل ملكك لغیرک بغیر عوض . يقال : وَهَبْتُهُ هِبَةً ومَوْهِبَةً ومَوْهِباً. قال تعالی:- وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام 84] ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ- [إبراهيم 39] ، إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] - ( و ہ ب ) وھبتہ - ( ف ) ھبۃ وموھبۃ ومو ھبا بلا عوض کوئی چیز دے دینا یا کچھ دینا قرآن میں ہے : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام 84] اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب ) بخشے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم 39] خدا کا شکر ہے جس نے مجھے بڑی عمر اسماعیل اور اسحاق بخشے ۔ إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا یعنی فر شتہ ہوں اور اسلئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں ۔ - زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی:- فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] - ( ز و ج ) الزوج - جن حیوانات میں نرا اور پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نرا اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علا وہ دوسری اشیائیں سے جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مما ثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] اور خر کار اس کی دو قسمیں کیں یعنی مرد اور عورت ۔- سرع - السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو :- أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] - ( س ر ع ) السرعۃ - اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ - دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - رغب - أصل الرَّغْبَةِ : السّعة في الشیء، يقال : رَغُبَ الشیء : اتّسع «3» ، وحوض رَغِيبٌ ، وفلان رَغِيبُ الجوف، وفرس رَغِيبُ العدو . والرَّغْبَةُ والرَّغَبُ والرَّغْبَى: السّعة في الإرادة قال تعالی:- وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء 90] ، فإذا قيل : رَغِبَ فيه وإليه يقتضي الحرص عليه، قال تعالی: إِنَّا إِلَى اللَّهِ راغِبُونَ [ التوبة 59] ، وإذا قيل : رَغِبَ عنه اقتضی صرف الرّغبة عنه والزّهد فيه، نحو قوله تعالی: وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْراهِيمَ [ البقرة 130] ، أَراغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي[ مریم 46] ، والرَّغِيبَةُ : العطاء الکثير، إمّا لکونه مَرْغُوباً فيه، فتکون مشتقّة من الرّغبة، وإمّا لسعته، فتکون مشتقّة من الرّغبة بالأصل، قال الشاعر يعطي الرَّغَائِبَ من يشاء ويمن - ( ر غ ب ) الرغبتہ - اس کے اصل معنی کسی چیز میں وسعت کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے رغب الشیءُ کسی چیز کا وسیع ہونا اور حوض رغیب کشادہ حوض کو کہتے ہیں ۔ عام محاورہ ہے ۔ فلان رغبت الجوف فلاں پیٹو ہے فرس رغیب العدو تیز رفتار اور کشادہ قدم گھوڑا الرغبۃ والرغب والرغبیٰ ارادہ اور خواہش کی وسعت کو کہتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء 90] اور وہ ہم کو ( ہمارے فضل کی توقع اور ہمارے عذاب کے ) خوف سے پکارتے ہیں ۔ اور رغب فیہ والیہ کے معنی کسی چیز پر رغبت اور حرص کرنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا إِلَى اللَّهِ راغِبُونَ [ التوبة 59] ہم تو اللہ سے لو لگائے بیٹھے ہیں ۔ لیکن رغب عن کے معنی کسی چیز سے بےرغبتی کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْراهِيمَ [ البقرة 130] اور کون ہے جو ابراہیم کے طریقے سے انحراف کرے أَراغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي[ مریم 46] اے ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے پھرا ہوا ہے ۔ اور رغیبۃ کے معنی بہت بڑے عطیہ کے ہیں ( ج رغائب ) یہ رغبت سے مشتق ہے یا تو اس لئے کہ وہ مرغوب فیہ ہوتی ہے اور یا اصل معنی یعنی وسعت کے لحاظ سے عطیہ کو رغبہ کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ( الکامل ) يعطي الرَّغَائِبَ من يشاء ويمنعوہ جسے چاہتا ہے بڑے بڑے عطا یا بخشا اور جس سے چاہتا ہے روک لیتا ہے ۔- رهب - الرَّهْبَةُ والرُّهْبُ : مخافة مع تحرّز و اضطراب، قال : لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر 13] ، وقال : جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] ، وقرئ : مِنَ الرَّهْبِ ، أي : الفزع . قال مقاتل : خرجت ألتمس تفسیر الرّهب، فلقیت أعرابيّة وأنا آكل، فقالت : يا عبد الله، تصدّق عليّ ، فملأت كفّي لأدفع إليها، فقالت : هاهنا في رَهْبِي «5» ، أي : كمّي . والأوّل أصحّ. قال تعالی: وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً- [ الأنبیاء 90] ، وقال : تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ- [ الأنفال 60] ، وقوله : وَاسْتَرْهَبُوهُمْ- [ الأعراف 116] ، أي : حملوهم علی أن يَرْهَبُوا، وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ- [ البقرة 40] ، أي : فخافون، والتَّرَهُّبُ : التّعبّد، وهو استعمال الرّهبة، والرَّهْبَانِيّةُ : غلوّ في تحمّل التّعبّد، من فرط الرّهبة . قال : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها[ الحدید 27] ، والرُّهْبَانُ يكون واحدا، وجمعا، فمن جعله واحدا جمعه علی رَهَابِينَ ، ورَهَابِنَةٌ بالجمع أليق . والْإِرْهَابُ : فزع الإبل، وإنما هو من : أَرْهَبْتُ. ومنه : الرَّهْبُ «1» من الإبل، وقالت العرب : رَهَبُوتٌ خير من رحموت «2» .- ( ر ھ ب ) الرھب - والرھبۃ ایسے خوف کو کہتے ہیں جس میں احتیاط اور اضطراب بھی شامل ہو قرآن میں : ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر 13] تمہاری ہیبت تو ( ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے بڑھکر ہے جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] اور دفع ) خوف کے لئے اپنے بازو سکیڑ لو ) ۔ اس میں ایک قرآت رھب بضمہ الراء بھی ہے ۔ جس کے معنی فزع یعنی گھبراہٹ کے ہیں متقاتل کہتے ہیں کہ رھب کی تفسیر معلوم کرنے کی غرض سے نکلا دریں اثنا کہ میں کھانا کھا رہا تھا ایک اعرابی عورت آئی ۔ اور اس نے کہا اسے اللہ کے بندے مجھے کچھ خیرات دیجئے جب میں لپ بھر کر اسے دینے لگا تو کہنے لگے یہاں میری آستین میں ڈال دیجئے ( تو میں سمجھ گیا کہ آیت میں بھی ( ھب بمعنی آستین ہے ) لیکن پہلے معنی یعنی گھبراہٹ کے زیادہ صحیح ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء 90] ہمارے فضل کی توقع اور ہمارے عذاب کے خوف سے ہمیں پکارتے رہتے ہیں ) تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ [ الأنفال 60] اس سے تم اللہ کے دشمنوں پر اور اپنے دشمنوں پر دھاک بٹھائے رکھو گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] اور ان کو دہشت میں ڈال دیا ۔ میں استر ھاب کے معنی دہشت زدہ کرنے کے ہیں ۔ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ [ البقرة 40] اور مجھ سے ہی ڈرو ۔ اور ترھب ( تفعیل کے معنی تعبد یعنی راہب بننے اور عبادت ہیں خوف سے کام لینے کے ہیں اور فرط خوف سے عبادت گذاری میں غلو کرنے رھبانیۃ کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها[ الحدید 27] اور رہبانیت ( لذت دنیا کا چوڑ بیٹھنا جو انہوں نے از خود ایجاد کی تھی ۔ اور رھبان ( صومعہ لوگ واحد بھی ہوسکتا ہے اور جمع بھی جو اس کو واحد دیتے ہیں ان کے نزدیک اس کی جمع رھا بین آتی ہے لیکن اس کی جمع رھا بتۃ بنانا زیادہ مناسب ہے الا رھاب ( افعال ) کے اصل معنی اونٹوں کو خوف زدہ کرنے کے ہیں یہ ارھبت ( فعال کا مصدر ہے اور اسی سے زھب ہے جس کے معنی لاغر اونٹنی ( یا شتر نر قوی کلاں جثہ ) کے میں مشہور محاورہ ہے : ۔ کہ رحم سے خوف بہتر ہے ۔- _ خشع - الخُشُوع : الضّراعة، وأكثر ما يستعمل الخشوع فيما يوجد علی الجوارح . والضّراعة أكثر ما تستعمل فيما يوجد في القلب ولذلک قيل فيما روي : روي : «إذا ضرع القلب خَشِعَتِ الجوارح» «2» . قال تعالی: وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء 109] ، وقال : الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون 2] ، وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء 90] ، وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه 108] ، خاشِعَةً أَبْصارُهُمْ [ القلم 43] ، أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات 9] ، كناية عنها وتنبيها علی تزعزعها کقوله : إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة 4] ، وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة 1] ، يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور 9- 10] .- ( خ ش ع ) الخشوع - ۔ ( ان ) کے معنی ضواعۃ یعنی عاجزی کرنے اور جھک جانے کے ہیں ۔ مگر زیادہ تر خشوع کا لفظ جوارح اور ضراعت کا لفظ قلب کی عاجزی پر بولا جاتا ہے ۔ اسی لئے ایک روایت میں ہے :۔ (112) اذا ضرعت القلب خشعت الجوارح جب دل میں فروتنی ہو تو اسی کا اثر جوارح پر ظاہر ہوجاتا ہے قرآن میں ہے : وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء 109] اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پید اہوتی ہے ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون 2] جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں ۔ وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء 90] اور ہمارے آگے عاجزی کیا کرتے تھے ۔ وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه 108] آوازیں پست ہوجائیں گے ۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی ۔ أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات 9] یہ ان کی نظروں کے مضطرب ہونے سے کنایہ ہے ۔ جیسا کہ زمین وآسمان کے متعلق بطور کنایہ کے فرمایا ۔ إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة 4] جب زمین بھونچال سے لرزنے لگے ۔ وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة 1] جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی ۔ يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور 9- 10] جس دن آسمان لرزنے لگے کپکپا کر۔ اور پہاڑ اڑانے لگیں ( اون ہوکر )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٠) سو ہم نے ان کی دعا قبول کرلی اور ان کو نیک بخت فرزند یحییٰ (علیہ السلام) عطا کیا اور ان کی بیوی کو اولاد کے قابل کردیا۔ یہ انبیاء کرام (علیہ السلام) یا یہ کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) اور یحییٰ (علیہ السلام) نیک کاموں کی طرف سبقت کرتے تھے اور اس طرح ہمیں پکارتے تھے یا یہ کہ جنت کی امید اور دوزخ کے خوف کے ساتھ ہماری عبادت کیا کرتے تھے اور ہمارے سامنے تواضع اور اطاعت کے ساتھ رہتے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(اِنَّہُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْْخَیْرٰتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَہَبًا ط) ” - اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا معاملہ بین الخوف والرجاء (خوف اور امید کے درمیان) والا ہوتا تھا۔ اللہ کے مواخذے سے ڈرتے بھی تھے اور اس کی رحمت کے امیدوار بھی رہتے تھے۔- (وَکَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ ) ” - اوصاف انبیاء ( علیہ السلام) کے اس خوبصورت گلدستے کے آخر میں اب حضرت مریم (سلامٌ علیہا) کا ذکر آ رہا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :86 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، آل عمران آیات 37 تا 41 مع حواشی ۔ جلد سوم ، مریم ، آیات 2 تا 15 مع حواشی ۔ بیوی کو درست کر دینے سے مراد ان کا بانجھ پن دور کر دینا اور سن رسیدگی کے باوجود حمل کے قابل بنا دینا ہے ۔ بہترین وارث تو تو ہی ہے ، یعنی تو اولاد نہ بھی دے تو غم نہیں ، تیری ذات پاک وارث ہونے کے لیے کافی ہے ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :87 اس سیاق و سباق میں انبیاء کا ذکر جس مقصد کے لیے کیا گیا ہے اسے پھر ذہن میں تازہ کر لیجیے حضرت زکریا کے واقعے کا ذکر کرنے سے یہ ذہن نشین کرنا مقصود کہ یہ سارے نبی محض بندے اور انسان تھے ، الوہیت کا ان میں شائبہ تک نہ تھا ۔ دوسروں کو اولاد بخشنے والے نہ تھے بلکہ خود اللہ کے آگے اولاد کے لیے ہاتھ پھیلانے والے تھے ۔ حضرت یونس کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ ایک نبی اولو العزم ہونے کے باوجود جب ان سے قصور سرزد ہوا تو انہیں پکڑ لیا گیا ۔ اور جب وہ اپنے رب کے آگے جھک گئے تو ان پر فضل بھی ایسا کیا گیا کہ مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکال لائے گئے ۔ حضرت ایوب کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ نبی کا مبتلائے مصیبت ہونا کوئی نرالی بات نہیں ہے ، اور نبی بھی جب مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو خدا ہی کے آگے شفا کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے ۔ وہ دوسروں کو شفا دینے والا نہیں ، خدا سے شفا مانگنے والا ہوتا ہے ۔ پھر ان سب باتوں کے ساتھ ایک طرف یہ حقیقت بھی ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ یہ سارے انبیاء توحید کے قائل تھے ، اور اپنی حاجات ایک خدا کے سوا کسی کے سامنے نہ لے جاتے تھے ، اور دوسری طرف یہ بھی جتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ غیر معمولی طور پر اپنے نبیوں کی مدد کرتا رہا ہے ، آغاز میں خواہ کیسی ہی آزمائشوں سے ان کو سابقہ پیش آیا ہو مگر آخر کار ان کی دعائیں معجزانہ شان کے ساتھ پوری ہوئی ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

42: حضرت زکریا (علیہ السلام) کی کوئی اولاد نہیں تھی، انہوں نے اللہ تعالیٰ سے بیٹے کے لئے دعا کی تو انہیں حضرت یحیی (علیہ السلام) جیسا بیٹا عطا فرمایا گیا، اس واقعے کی تفصیل سورۂ آل عمران (٣: ٣٧ تا ٤٠) میں گزرچکی ہے۔ (