Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بلا شوہر اولاد حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قصہ بیان ہو رہا ہے ۔ قرآن میں کریم میں عموما حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قصے کے ساتھ ہی ان کا قصہ بیان ہوتا رہا ہے ۔ اس لئے کہ ان لوگوں میں پورا رابط ہے ۔ حضرت زکریا علیہ السلام پورے بڑھاپے کے عالم میں آپ کی بیوی صاحبہ جوانی سے گزری ہوئی اور پوری عمر کی بے اولاد ان کے ہاں اولاد عطا فرمائی ۔ اس قدرت کو دکھا کر پھر محض عورت بغیر شوہر کے اولاد کا عطافرمانا یہ اور قدرت کا کمال ظاہر کرتا ہے ۔ سورۃ آل عمران اور سورۃ مریم میں بھی یہی ترتیب ہے مراد عصمت والی عورت سے حضرت مریم ہیں جیسے فرمان ہے ۔ آیت ( وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهٖ وَكَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِيْنَ 12۝ۧ ) 66- التحريم:12 ) یعنی عمران کی لڑکی مریم جو پاک دامن تھیں انہیں اور ان کے لڑکے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی بےنظیر قدرت کانشان بنایا کہ مخلوق کو اللہ کی ہر طرح کی قدرت اور اس کے پیدائش وسیع اختیارات اور صرف اپنا ارادے سے چیزوں کا بنانا معلوم ہوجائے ۔ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کی قدرت کی ایک علامت تھے جنات کے لئے بھی اور انسانوں کے لئے بھی

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

91۔ 1 یہ حضرت مریم اور عیسیٰ (علیہما السلام) کا تذکرہ ہے جو پہلے گزر چکا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨١] جب اللہ تعالیٰ حضرت آدم کا پتلا بنا کر اسے سنوار لیا تو اس میں اپنی روح سے پھونکا جس سے انسان میں قوت ارادہ اختیار اور قوت تمیز و استنباط ودعیت کی گئی۔ پھر توالد و تناسل کے ذریعہ یہی اوصاف تمام اولاد آدم میں منتقل ہوئے اور یہ اوصاف ایسے ہیں جو کسی دوسری مخلوق میں نہیں پائے جاتے۔ بعد ازاں اللہ نے اپنی روح کو حضرت مریم کے ہاں بھیجا۔ یہی روح حضرت مریم کے سامنے متمثل ہو کر ایک تندرست انسان کی شکل بن گئی۔ اسی روح نے اپنے آپ کو حضرت مریم کے سامنے تیرے پروردگار کا رسول کہا اور اسی روح نے (جو مفسرین کے قول کے مطابق جبریل) حضرت مریم سے کہا کہ میں اس لئے آیا ہوں کہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا عطا کروں چناچہ اس روح نے حضرت مریم کے گریبان میں پھونک ماری جس سے حضرت مریم کو حمل قرار پا گیا۔ ( سورة مریم) اسی واقعہ کو اللہ تعالیٰ اس مقام پر بھی اور سورة تحریم کی آیت نمبر ١٢ میں ان الفاظ سے عبیر فرمایا کہ ہم نے مریم میں اپنی روح سے پھونکا اسی لئے آپ کو روح اللہ و کلمہ ن اللہ کہا جاتا ہے۔ اور ساتھ ہی ہر مقام پر یہ وضاحت فرما دی کہ حضرت مریم نے فی الواقعہ اپنی عصمت کی پوری پوری حفاظت کی تھی۔ ایسی وضاحتوں کے باوجود یہود نے حضرت مریم پر تہمت زنا لگا دی اور اس کو حضرت زکریا سے منسوب کردیا۔ صرف اس لیے کہ آپ حضرت مریم کے کفیل تھے۔ یہ تو یہود کی کارستانی تھی اور نصاریٰ دوسری انتہا کر جا پہنچے اور انہوں نے حضرت عیسیٰ کو اللہ یا اللہ کا بیٹا یا تین خداؤں میں کا تیسرا قرار دے دیا۔ گویا آپ کی اس معجزانہ پیدائش یہود و نصاریٰ غلو کا شکار ہو کر گمراہی میں مبتلا ہوگئے۔- [٨٢] بدقسمتی سے مسلمانوں میں بھی کچھ لوگ ایسے پیدا ہوچکے ہیں جو حضرت عیسیٰ کی بن باپ پیدائش کے قائل نہیں۔ اور یہ وہی طبقہ جو جدید زمانے کی عقل پرستی سے ذہنی طور پر ہر وقت مرعوب رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة مریم میں فرمایا تاکہ ہم اس (عیسیٰ کی پیدائش) کو لوگوں کے لئے ایک نشانی بنادیں (١٩: ٢١) اور اس مقام پر فرمایا کہ ہم نے حضرت مریم اور اس کے بیٹے دونوں کو جہاں والوں کے لئے نشانی بنادیا نیز سورة مومنون کی آیت نمبر ٥٠ میں فرمایا : اور ہم نے ابن مریم (حضرت عیسیٰ ) کو اور ان کی ماں کو نشانی بنادیا اب ان حضرات سے سوال یہ ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش معمول کے مطابق ماں اور باپ دونوں کے ملاپ سے ہوئی تھی تو حضرت مریم اور عیسیٰ ابن مریم دونوں کی لوگوں کے لئے یا جہان والوں کے لئے ایک نشانی کیسے بن سکتے تھے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا : یعنی اس خاتون کا بھی ذکر کر جس پر ناپاک لوگ (یہودی) تہمتیں لگاتے ہیں، حالانکہ اس نے اپنی شرم گاہ کو حرام سے محفوظ رکھا، بلکہ عبادت میں ایسی مشغول رہی کہ حلال سے بھی محفوظ رکھا، جیسا کہ فرمایا : (وَّلَمْ يَمْسَسْنِىْ بَشَرٌ) [ آل عمران : ٤٧ ] ” حالانکہ کسی بشر نے مجھے ہاتھ نہیں لگایا۔ “ اللہ تعالیٰ نے اس کی نیک شہرت کے اظہار کے لیے اس کا نام نہیں لیا، کیونکہ سب جانتے ہیں اس سے مراد مریم بنت عمران [ ہیں۔- فَنَفَخْنَا فِيْهَا مِنْ رُّوْحِنَا : مراد عیسیٰ (علیہ السلام) کی روح ہے جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور اس کے حکم سے جبریل (علیہ السلام) نے پھونکی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو عزت و شرف بخشنے کے لیے اسے اپنی روح قرار دیا اور جبریل (علیہ السلام) کے پھونکنے کو اپنا پھونکنا قرار دیا، جیسے ” بیت اللہ “ اور ” ناقۃ اللہ “ میں کعبہ کو اپنا گھر اور صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کو اپنی اونٹنی قرار دیا۔ شیخ ثناء اللہ امر تسری (رض) اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں : ” عیسائی لوگ اس آیت اور اس قسم کی اور آیات سے عموماً دلیل لایا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح (معاذ اللہ) خدا تھا، کیونکہ اس کو ” روح اللہ “ کہا گیا ہے، مگر وہ قرآن شریف کے محاورے کو غور سے نہیں دیکھتے کہ اس قسم کی اضافات سے مطلب کیا ہوتا ہے ؟ سورة سجدہ میں عام انسانوں کے لیے بھی یہی اضافت روح کی اللہ کی طرف آئی ہے، چناچہ ارشاد ہے : ( وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ ۝ۚثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِيْنٍ ۝ۚثُمَّ سَوّٰىهُ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ ) [ السجدۃ : ٧ تا ٩ ] ”(یعنی اللہ نے) انسان کی پیدائش تھوڑی سی مٹی سے شروع کی، پھر اس کی نسل ایک حقیر پانی کے خلاصے سے بنائی، پھر اسے درست کیا اور اس میں اپنی ایک روح پھونکی۔ “ اس جگہ عام انسانی پیدائش کی ابتدا اور سلسلے کا ذکر ہے۔ پس اگر آیت زیر تفسیر سے مسیح (علیہ السلام) کی الوہیت (خدا ہونا) ثابت ہوتی ہو تو اس قسم کی آیات سے تمام انسانوں کی الوہیت ثابت ہوگی، پھر اگر مسیح بھی ایسے ہی خدا اور الٰہ تھے جیسے کہ سب انسان ہیں تو خیر اس کے ماننے میں کسی کو کلام نہیں۔ پس آیت موصوفہ کے معنی وہی ہیں جو ہم نے لکھے ہیں (کہ وہ روح مخلوق تھی) (فَافْھَمْ ) ۔ “ - وَجَعَلْنٰهَا وَابْنَهَآ اٰيَةً لِّـلْعٰلَمِيْنَ : مریم اور مسیح (علیہ السلام) کا جہانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانی ہونا سورة آل عمران (٣٦ تا ٦٣) ، نساء (١٥٦ تا ١٥٩، ١٧١) اور مائدہ (٤٦، ١١٠ تا ١٢٠) میں تفصیل سے بیان ہوا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ان بی بی (مریم کے قصہ) کا بھی تذکرہ کیجئے جنہوں نے اپنے ناموس کو (مردوں سے) بچایا (نکاح سے بھی اور ناجائز سے بھی) پھر ہم نے ان میں (بواسطہ جبرئیل علیہ السلام) اپنی روح پھونک دی (جس سے ان کو بےشوہر کے حمل رہ گیا) اور ہم نے ان کو اور ان کے فرزند (عیسیٰ علیہ السلام) کو دنیا جہان والوں کے لئے (اپنی قدرت کاملہ کی) نشانی بنادیا (کہ ان کو دیکھ سن کر سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے وہ بغیر باپ کے بھی اولاد پیدا کرسکتا ہے اور بغیر ماں اور باپ کے بھی جیسا کہ آدم (علیہ السلام)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِيْہَا مِنْ رُّوْحِنَا وَجَعَلْنٰہَا وَابْنَہَآ اٰيَۃً لِّـلْعٰلَمِيْنَ۝ ٩١- حصن - وتَحَصَّنَ : إذا اتخذ الحصن مسکنا، ثم يتجوّز به في كلّ تحرّز،- وقوله تعالی: إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ [يوسف 48] ، أي : تحرزون في المواضع الحصینة الجارية مجری الحصن - ( ح ص ن ) الحصن - تحصن کے اصل معنی نہ تو قلعہ کو مسکن بنا لینا کے ہیں مگر مجا زا ہر قسم کا بجاؤ حاصل کرنے پر لفظ بولا جاتا ہے ۔ اسی سے درع حصینۃ ( زرہ محکم ) اور فرس حصان ( اسپ نرو نجیب کا محاورہ ہے ۔ کیونکہ زرہ بدن کے لئے اور گھوڑا اپنے سوار کے لئے ایک طرح سے بمنزلہ قلعہ کسے ہوتا ہے ۔- اور آیت کریمہ : ۔ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ [يوسف 48] صرف وہی تھوڑا سا رہ جائیگا جو تم احتیاط سے رکھ چھوڑو گے ۔ میں تحصنون سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ قلعے جیسی محفوظ جگہوں میں حفا ظت سے رکھ چھوڑو ۔- فرج - الفَرْجُ والفُرْجَةُ : الشّقّ بين الشّيئين کفرجة الحائط، والفَرْجُ : ما بين الرّجلین، وكنّي به عن السّوأة، وکثر حتی صار کالصّريح فيه . قال تعالی: وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَها [ الأنبیاء 91] ، لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ- [ المؤمنون 5] ، وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ [ النور 31] ، واستعیر الفَرْجُ للثّغر وكلّ موضع مخافة . وقیل : الفَرْجَانِ في الإسلام : التّرک والسّودان «1» ، وقوله : وَما لَها مِنْ فُرُوجٍ- [ ق 6] ، أي : شقوق وفتوق، قال : وَإِذَا السَّماءُ فُرِجَتْ- [ المرسلات 9] ، أي : انشقّت، والفَرَجُ : انکشاف الغمّ. يقال : فَرَّجَ اللہ عنك، وقوس فَرْجٌ: انفرجت سيتاها، ورجل فَرْجٌ: لا يكتم سرّه، وفَرَجٌ: لا يزال ينكشف فرجه «2» ، وفَرَارِيجُ الدّجاج لانفراج البیض عنها، ودجاجة مُفْرِجٌ: ذات فراریج، والْمُفْرَجُ :- القتیل الذي انکشف عنه القوم فلا يدری من قتله .- ( ف ر ج ) الفرج والفرجہ کے معنی دوچیزوں کے درمیان شگاف کے ہیں ۔ جیسے دیوار میں شگاف یا دونوں ٹانگوں کے درمیان کی کشادگی اور کنایہ کے طور پر فرج کا لفظ شرمگاہ پر بولا جاتا ہے اور کثرت استعمال کی وجہ سے اسے حقیقی معنی سمجھا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَها [ الأنبیاء 91] اور ان ( مریم ) کو ( بھی یاد کرو جنہوں نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا ۔ لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ [ المؤمنون 5] اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ [ النور 31] اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں ۔ اور استعارہ کے طور سر حد اور ہر خطرہ کی جگہ کو فرج کیا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اسلامی دور حکومت میں فرجان کا لفظ ترک اور سوڈان پر بولا جاتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَما لَها مِنْ فُرُوجٍ [ ق 6] اور اس میں کہیں شگاف تک نہیں ۔ میں فروج بمعنی شگاف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا السَّماءُ فُرِجَتْ [ المرسلات 9] اور جب آسمان پھٹ جائے ۔ میں فرجت بمعنی انشقت ہے یعنی جب آسمان شق ہوجائے گا ۔ الفرج کے معنی غم دور ہونیکے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ فرج اللہ عنک اللہ تجھ سے غم کو دور کرے اور قوس فرج اس کمان کو کہتے ہیں جس کے دونوں گوشے کشادہ ہوں ۔ جیسا کہ تانت سے علیدہ ہونے کی حالت میں اور جو شخص اپنا بھید نہ چھپائے اس کو فرج کہا جاتا ہے اور فرج اس شخص کو کہتے ہیں جس کی شرمگاہ پر ستر یعنی پردہ نہ ہو ۔ فراریج الدجامرغی کے چوزے کیونکہ وہ انڈوں سے نکتے ہیں اور چوزوں والی مرغی کو مفرج کہا جاتا ہے المفروج وہ قتیل جس سے لوگ دور ہوجائیں اور اس کے قاتل کا علم نہ ہوسکے ۔- نفخ - النَّفْخُ : نَفْخُ الرِّيحِ في الشیءِّ. قال تعالی: يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه 102] ، وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف 99] ، ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر 68] ، وذلک نحو قوله : فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر 8] ومنه نَفْخُ الرُّوح في النَّشْأَة الأُولی، قال : وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي - [ الحجر 29]- ( ن ف خ ) النفخ - کے معنی کسی چیز میں پھونکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه 102] ، اور جس دن صور پھونکا جائیگا ۔ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف 99] اور جس وقت ) صؤر پھونکا جائے گا ۔ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر 68] پھر دوسری دفعہ پھونکا جائے گا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ اور اسی سے نفخ الروح ہے جس کے معنی اس دنیا میں کسی کے اندر روح پھونکنے کے ہیں چناچہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي[ الحجر 29] اور اس میں اپنی بےبہا چیز یعنی روح پھونک دوں ۔- روح - الرَّوْحُ والرُّوحُ في الأصل واحد، وجعل الرّوح اسما للنّفس، وذلک لکون النّفس بعض الرّوح کتسمية النوع باسم الجنس، نحو تسمية الإنسان بالحیوان، وجعل اسما للجزء الذي به تحصل الحیاة والتّحرّك، واستجلاب المنافع واستدفاع المضارّ ، وهو المذکور في قوله : وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي[ الإسراء 85] ، وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، وإضافته إلى نفسه إضافة ملك، وتخصیصه بالإضافة تشریفا له وتعظیما، کقوله : وَطَهِّرْ بَيْتِيَ [ الحج 26] ، ويا عِبادِيَ [ الزمر 53]- ( رو ح )- الروح والروح دراصل ایک ہی ہیں ( روح کا اطلاق سانس پر ہوتا ہے اور سانس بھی چونکہ روح کا ایک جزء ہے اس لئے مجازا اسے روح کہہ دیا ہے جیسا کہ نوع کو اسم جنس سے تعبیر کرلیتے ہیں مثلا تسمیۃ الانسان بالحیوان اور کبھی روح کا اطلاق اس چیز پر ہوتا ہے جس کے ذریعہ زندگی حرکت منافع کا حصوال ومضرات سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي[ الإسراء 85] اور تجھ سے روح کی حقیقت دریافت کرتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ یہ میرے پروردگار کا ایک حکم ہے وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] اور میں نے اس میں اپنی ( طرف سے ) روح پھونک دی ۔ میں روح کے یہی معنی مراد ہیں اور اللہ تعالٰیے کا اسے اپنی ذات کی طرف منسوب کرنا اضافت ملک کے طور پر ہے جس سے اس کی شرافت کا اظہار مقصود ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ : وَطَهِّرْ بَيْتِيَ [ الحج 26] میں بیت کیا اضافت اپنی ذات کی طرف کی ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ويا عِبادِيَ [ الزمر 53] اے میرے بند و جنہوں نے اپنے اوپر زیادتی کی ۔ میں عباد کی نسبت بھی یا متکلم ( ذات باری تعالیٰ ) کی طرف اضافت تشریفی ہے ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩١) اور حضرت مریم (علیہ السلام) کا بھی ذکر کیجیے، جنہوں نے اپنی عزت کو بچایا پھر ان کے گریبان میں ہمارے حکم سے جبریل (علیہ السلام) نے ہماری روح پھونک دی اور ہم نے ان کو اور ان کے فرزند کو دنیا جہاں والوں کے لیے خاص کر بنی اسرائیل کے لیے اپنی قدرت کی نشانی بنا دی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩١ (وَالَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا ) ” - یعنی پوری طرح سے پاک دامن رہیں۔- (فَنَفَخْنَا فِیْہَا مِنْ رُّوْحِنَا ) ” - یعنی حرف ” کُن “ بیٹے کی پیدائش کا ذریعہ بن گیا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :88 مراد ہیں حضرت مریم علیہا السلام ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :89 حضرت آدمی علیہ السلام کے متعلق بھی یہ فرمایا گیا ہے کہ : اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَراً مِّنْ طِیْنٍ ہ فَاِذَا سَوَّیْتْہ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہ سَاجِدِیْنَ ( ص ۔ آیات 71 ۔ 72 ) میں مٹی سے ایک بشر بنا رہا ہوں ، پس ( اے فرشتو ) جب میں اسے پورا بنا لوں اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جانا ۔ اور یہی بات حضرت عیسیٰ کے متعلق مختلف مقامات پر فرمائی گئی ہے ۔ سورہ نساء میں فرمایا : رَسُوْلُ اللہِ وَ کَلِمَتُہ اَلْقٰھَا اِلٰی مَرْیَمَ وَرُوْحً مِّنْہُ ، ( آیت 171 ) اللہ کا رسول اور اس کا فرمان جو مریم کی طرف القا کیا گیا اور اس کی طرف سے ایک روح ۔ اور سورہ تحریم میں ارشاد ہوا : وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا ( آیت 12 ) اور عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی پس پھونک دیا ہم نے اس میں اپنی روح سے ۔ اس کے ساتھ یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ کی پیدائش اور حضرت آدم کی پیدائش کو ایک دوسرے کے مشابہ قرار دیتا ہے ، چنانچہ سور آل عمران میں فرمایا : اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ، خَلَقَہ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہ کَنْ فَیَکُوْنُ ( آیت 59 ) ۔ عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے جس کو اللہ نے مٹی سے بنایا پھر فرمایا ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے ۔ ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ معمولی طریقہ تخلیق کے بجائے جب اللہ تعالیٰ کسی کو براہ راست اپنے حکم سے وجود میں لا کر زندگی بخشتا ہے تو اس کو اپنی روح سے پھونکنے کے الفاظ سے تعبیر فرماتا ہے ۔ اس روح کی نسبت اللہ کی طرف غالباً اس وجہ سے کی گئی ہے کہ اس کا پھونکا جانا معجزے کی غیر معمولی شان رکھتا ہے ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، النساء ، حواشی 212 ۔ 213 ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :90 یعنی یہ دونوں ماں بیٹے خدا یا خدائی میں شریک نہ تھے بلکہ خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے ۔ نشانی وہ کس معنی میں تھے ، اس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ مریم ، حاشیہ 21 ۔ اور سورہ المومنون ، حاشیہ 43 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

43: مراد حضرت مریم (علیہ السلام) ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بیٹے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے پیدا کرکے انہیں اپنی قدرت کاملہ کی ایک عظیم نشانی بنادیا تھا۔