Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تمام شریعتوں کی روح توحید فرمان ہے کہ تم سب کا دین ایک ہی ہے ۔ اوامر ونواہی کے احکام تم سب میں یکساں ہیں ۔ ہذہ اسم ہے ان کا اور امتکم خبر ہے اور امتہ واحدۃ حال ہے ۔ یعنی یہ شریعت جو بیان ہوئی تم سب کی متفق علیہ شریعت ہے ۔ جس کا اصلی مقصود توحید الٰہی ہے جیسے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ۭ اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ 51۝ۭ ) 23- المؤمنون:51 ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہم انبیاء کی جماعت اگرچہ احکامات شرع مختلف ہیں جیسے فرمان قرآن ہے آیت ( لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا 48؀ۙ ) 5- المآئدہ:48 ) ہر ایک کی راہ اور طریقہ ہے ۔ پھر لوگوں نے اختلاف کیا بعض اپنوں نبیوں پر ایمان لائے اور بعض نہ لائے ۔ قیامت کے دن سب کا لوٹنا ہماری طرف ہے ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا نیکوں کو نیک بدلہ اور بروں کو بری سزا ۔ جس کے دل میں ایمان ہو اور جس کے اعمال نیک ہوں اس کے اعمال اکارت نہ ہوں گے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اِنَّا لَا نُضِيْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلًا 30؀ۚ ) 18- الكهف:30 ) نیک کام کرنے والوں کا اجر ہم ضا ئع نہیں کرتے ۔ ایسے اعمال کی قدردانی کرتے ہیں ایک ذرے کے برابر ہم ظلم روا نہیں رکھتے تمام اعمال لکھ لیتے ہیں کوئی چیز چھوڑتے نہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

92۔ 1 امۃ سے مراد یہاں دین یا ملت یعنی تمہارا دین یا ملت ایک ہی ہے اور وہ دین ہے دین توحید، جس کی دعوت تمام انبیاء نے دی اور ملت، ملت اسلام ہے جو تمام انبیاء کی ملت رہی۔ جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہم انبیاء کی جماعت اولاد علات ہیں، (جن کا باپ ایک اور مائیں مختلف ہوں) ہمارا دین ایک ہی ہے (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٣] اس مقام پر امت کا لفظ دین کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ نیز اس آیت میں تمام بنی نوع انسان یکساں مخاطب ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ انبیاء کے دین کے اصول ہمیشہ ایک ہی رہے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ ہر چیز کا پروردگار صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ لہذا وہی عبادت کا مستحق ہے۔ اور اسی کو توحید کہتے ہیں۔ پھر اسی توحید کا لازمی نتیجہ یہ بھی تھا کہ اس توحید کو ماننے والوں اور صرف اللہ کی عبادت کرنے والوں کو اچھا بدلہ دیا جائے اور اس کے خلاف کرنے والوں یعنی مشرکوں کو سخت سزا دی جائے۔ گویا روز آخرت اور جزا و سزا پر ایمان رکھنا بھی اسی عقیدہ توحید کے تسلیم کرنے کا تقاضا ہے۔ نماز اور زکوٰۃ اور روزہ وغیرہ عبادت ہی کی اہم شکلیں ہیں۔ اور اللہ کی عبادت توقع اور خوف کے ساتھ کرنا چاہئے۔ اولاد اور رزق وغیرہ اللہ ہی سے طلب کرنا چاہئے۔ اور مشکل کے وقت صرف اللہ ہی کو پکارنا چاہئے، اسی سے فریاد کرنا چاہئے۔ انبیاء خود بھی کوئی بااختیار ہستیاں نہیں ہوتیں۔ بلکہ وہ بھی ہر معاملہ میں اللہ ہی کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ وغیرہ وغیرہ یہ اصول دین سب انبیاء میں مشترک رہے ہیں۔ وہیں جزئیات تو ان جزئیات میں اس دور کے تقاضا کے مطابق اختلاف بھی واقع ہوتا رہا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ هٰذِهٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً ۔۔ : بہت سے مفسرین نے یہاں امت سے مراد دین لیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کا قول نقل فرمایا : (اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓي اُمَّةٍ ) [ الزخرف : ٢٢ ] ” بیشک ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک امت (یعنی ایک دین) پر چلتے پایا۔ “ یعنی تمہارا دین اور ملت ایک ہی ہے اور وہ ہے دین توحید، اور ” ہٰذِهٖ “ سے مراد اس سے پہلے مذکور انبیاء، نوح، ابراہیم، اسحاق، یعقوب، لوط، داؤد، سلیمان، ایوب، اسماعیل، ادریس، ذوالکفل، یونس، زکریا، مسیح ابن مریم ہیں کہ سب کا ایک ہی دین تھا اور سب توحید پر قائم تھے۔ کسی اور کو معبود، مشکل کشا، شفا دینے والا، بگڑی بنانے والا یا اولاد عطا کرنے والا نہیں سمجھتے تھے، یہ سب لوگ ایک ہی دین پر تھے کہ میں تمہارا رب ہوں، سو میری ہی عبادت کرو۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلْأَنْبِیَاءُ إِخْوَۃٌ لِعَلاَّتٍ أُمَّھَاتُھُمْ شَتّٰی وَدِیْنُھُمْ وَاحِدٌ ) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب ( واذکر في الکتاب مریم۔۔ ) : ٣٤٤٣۔ مسلم : ١٤٥؍٢٣٦٥ ] ” ہم انبیاء کی جماعت علاتی بھائی ہیں، جن کی مائیں مختلف ہیں اور ان کا دین ایک ہے۔ “ امت کا معنی جماعت بھی ہے، مگر ایسی جماعت جس کے لوگوں کے درمیان انھیں اکٹھا رکھنے والی کوئی چیز ہو، جیسا کہ فرمایا : (وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ ) [ آل عمران : ١٠٤ ] ” اور لازم ہے کہ تمہاری صورت میں ایک جماعت ہو جو نیکی کی طرف دعوت دیں۔ “ یعنی یہ تمام انبیاء ایک ہی جماعت تھے جن کا رب ایک اور دین ایک تھا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - ربط آیات : - یہاں تک انبیاء (علیہم السلام) کے قصص اور واقعات اور ان کے ضمن میں بہت سے اصولی اور فروعی مسائل کا بیان تھا۔ اصول مثلاً توحید و رسالت اور عقیدہ آخرت، سب انبیاء (علیہم السلام) میں اصول مشترک ہیں جو ان کی دعوت کی بنیاد ہے جیسا کہ واقعات مذکورہ میں ان حضرات کی سب کوششوں کا محور توحید حق سبحانہ و تعالیٰ کا مضمون تھا۔ اگلی آیات میں بطور نتیجہ قصص توحید کا اثبات اور شرک کی مذمت کا بیان ہے۔- اے لوگو (اوپر جو انبیاء (علیہم السلام) کا طریقہ و عقیدہ توحید کا معلوم ہوچکا ہے) یہ تمہارا طریقہ ہے (جس پر تم کو رہنا واجب ہے) کہ وہ ایک ہی طریقہ ہے ( جس میں کسی نبی اور کسی شریعت کو اختلاف نہیں ہوا) اور (حاصل اس طریقہ کا یہ ہے کہ) میں تمہارا رب ہوں تو تم میری عبادت کیا کرو اور (لوگوں کو چاہئے تھا کہ جب یہ ثابت ہوچکا کہ تمام انبیاء اور تمام آسمانی کتابیں اور شریعتیں اسی طریقہ کی داعی ہیں تو وہ بھی اسی طریقہ پر رہتے مگر ایسا نہ کیا بلکہ) ان لوگوں نے اپنے دین میں اختلاف پیدا کرلیا (مگر اس کی سزا دیکھیں گے کیونکہ) سب ہمارے پاس آنے والے ہیں (اور آنے کے بعد ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ ملے گا) تو جو شخص نیک کام کرتا ہوگا اور وہ ایمان والا بھی ہوگا تو اس کی محنت اکارت جانے والی نہیں اور ہم اس کو لکھ لیتے ہیں (جس میں بھول اور خطا کا امکان نہیں رہتا اس لکھے ہوئے کے مطابق اس کو ثواب ملے گا) اور (ہم نے جو یہ کہا ہے کہ سب کے سب ہمارے پاس آنے والے ہیں اس میں منکرین یہ شبہ کرتے ہیں کہ دنیا کی اتنی عمر گزر چکی ہے اب تک تو ایسا ہوا نہیں کہ مردے زندہ ہوئے ہوں ان کا حساب ہوا ہو، ان کا یہ شبہ اس لئے غلط ہے کہ اللہ کی طرف لوٹنے کے لئے ایک دن قیامت کا مقرر ہے اس سے پہلے کوئی نہیں لوٹتا۔ یہی وجہ ہے کہ) ہم جن بستیوں کو (عذاب یا موت سے) فنا کرچکے ہیں ان کے لئے یہ بات (بامتناع شرعی) ناممکن ہے کہ وہ (دنیا میں حساب کتاب کے لئے) پھر لوٹ کر آویں (مگر یہ نہ لوٹنا دائمی نہیں بلکہ وقت موعود یعنی قیامت تک ہے) یہاں تک کہ جب (وہ وقت موعود آپہنچے گا جس کا ابتدائی سامان یہ ہوگا کہ) یاجوج ماجوج (جن کا اب سد ذوالقرنین کے ذریعہ راستہ رکا ہوا ہے وہ) کھول دیئے جاویں گے اور وہ (انتہائی کثرت کے سبب) ہر بلندی (ٹیلہ اور پہاڑ) سے نکلتے (معلوم) ہوں گے اور (اللہ کی طرف لوٹنے کا سچا وعدہ) نزدیک آپہنچا ہوگا تو بس پھر یکایک یہ حالت ہوجائے گی کہ منکروں کی نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ جاویں گی (اور وہ یوں کہتے نظر آویں گے) ہائے ہماری کم بختی ہم اس سے غفلت میں تھے (پھر کچھ سوچ کر کہیں گے کہ اس کو غفلت تو جب کہا جاسکتا کہ کسی نے ہمیں آگاہ نہ کیا ہوتا) بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) ہم ہی قصور وار تھے (حاصل یہ ہوا کہ جو لوگ قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے کے منکر تھے وہ بھی اس وقت اس کے قائل ہوجاویں گے، آگے مشرکین کے لئے وعید ہے) بلاشبہ تم اور جس کو تم خدا کے سوا پوج رہے ہو سب جہنم میں جھونکے جاؤ گے (اور) تم سب اس میں داخل ہوگے (اس میں وہ انبیاء اور فرشتے داخل نہیں ہو سکتے جن کو دنیا میں بعض مشرکین نے خدا اور معبود بنا لیا تھا کیونکہ ان میں ایک مانع شرعی موجود ہے کہ وہ اس کے مستحق نہیں اور نہ ان کا اس میں کوئی قصور ہے آگے آیت میں اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ سے بھی اس شبہ کو دفع کیا گیا ہے اور یہ بات سمجھنے کی ہے کہ) اگر (یہ تمہارے معبود) واقعی معبود ہوتے، تو اس (جہنم) میں کیوں جاتے اور (جانا بھی ایسا کہ چند روزہ نہیں بلکہ) سب (عابدین اور معبودین) اس میں ہمیشہ کو رہیں گے (اور) ان کا اس میں شور و غل ہوگا اور وہاں (اپنے شور و غل میں) کسی کی کوئی بات سنیں گے بھی نہیں (یہ تو دوزخیوں کا حال ہوا اور) جن کے لئے ہماری طرف سے بھلائی مقدر ہوچکی ہے (اور اس کا ظہور ان کے اعمال و افعال میں ہوا) وہ لوگ اس (دوزخ) سے (اس قدر) دور رکھے جاویں گے کہ اس کی آہٹ بھی نہ سنیں گے (کیونکہ یہ لوگ جنت میں ہوں گے اور جنت دوزخ میں بڑا بعد ہے) اور وہ لوگ اپنی جی چاہی چیزوں میں ہمیشہ رہیں گے (اور) ان کو بڑی گھبراہٹ (یعنی قیامت میں زندہ ہونے اور محشر کے ہولناک مناظر دیکھنے کی حالت) غم میں نہ ڈالے گی اور (قبر سے نکلتے ہی) فرشتے ان کا استقبال کریں گے (اور کہیں گے) یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا (یہ اکرام کا معاملہ اور بشارت ان کے لئے زیادہ خوشی و مسرت کا سبب ہوجائے گا اور اگر کسی روایت سے یہ ثابت ہوجائے کہ قیامت کے ہول اور خوف سے کوئی مستثنیٰ نہیں سب کو پیش آئے گا تو چونکہ نیک بندوں کیلئے اس کا زمانہ بہت قلیل ہوگا اس لئے وہ کالعدم ہے اور وہ دن (بھی) یاد کرنے کے قابل ہے جس روز ہم (نفحہ اولیٰ کے بعد) آسمانوں کو اس طرح لپیٹ دیں گے جس طرح لکھے ہوئے مضامین کا کاغذ لپیٹ دیا جاتا ہے (پھر لپیٹنے کے بعد خواہ معدوم محض کردیا جائے یا نفحہ ثانیہ تک اسی حالت پر رہے دونوں باتیں ممکن ہیں اور) ہم نے جس طرح اول بار پیدا کرنے کے وقت (ہر چیز کی) ابتداء کی تھی اسی طرح (آسانی سے) اس کو دوبارہ پیدا کردیں گے یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے ہم ضرور (اس کو پورا) کریں گے اور (اوپر جو نیک بندوں سے ثواب و نعمت کا وعدہ ہوا ہے وہ بہت قدیم اور موکد وعدہ ہے چناچہ ہم (سب آسمانی) کتابوں میں لوح محفوظ (میں لکھنے) کے بعد لکھ چکے ہیں کہ اس زمین (جنت) کے مالک میرے نیک بندے ہوں گے (قدامت اس وعدہ کی تو اس سے ظاہر ہے کہ لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے اور تاکید اس بات سے کہ کوئی آسمانی کتاب اس سے خالی نہیں)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً۝ ٠ۡۖ وَاَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ۝ ٩٢- الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] - - الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٢) کہ بغیر باپ کے لڑا پیدا ہوا اور مردوں میں سے بغیر کسی کے ہاتھ لگائے اور قریب آئے حضرت مریم (علیہ السلام) کے ولادت باسعادت ہوئی اے لوگو یہ ہے تمہارا پسندیدہ طریقہ اور وہ ایک ہی طریقہ ہے اور حاصل یہ کہ میں تمہارا رب حقیقی وحدہ لاشریک ہوں، میری ہی اطاعت کیا کرو،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩٢ (اِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃًز) ” - اُمت ابراہیم ‘ ( علیہ السلام) امت اسماعیل ‘ ( علیہ السلام) امت موسیٰ (علیہ السلام) ‘ امت عیسیٰ (علیہ السلام) ٰ ‘ امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرے تمام انبیاء کی امتیں بنیادی طور پر ایک ہی دین کی پیروکار تھیں اور یوں تمام انبیاء اور ان کے پیروکار گویا ایک ہی امت کے افراد تھے۔ اس مضمون کو سورة البقرۃ ‘ آیت ٢١٣ میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : ( کَان النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً قف) یعنی شروع میں تمام انسان ایک ہی امت تھے اور ایک ہی دین کے ماننے والے تھے۔ پھر لوگوں نے اپنی اپنی سوچ اور اپنے اپنے مفادات کے مطابق صراط مستقیم میں سے پگڈنڈیاں نکال لیں ‘ مختلف گروہوں نے نئے نئے راستے بنا لیے اور ان غلط راستوں پر وہ اتنی دور چلے گئے کہ اصل دین مسخ ہو کر رہ گیا اور اب ان مختلف گروہوں کے نظریات کی یہ مغائرت اس حد تک بڑھ چکی ہے ع ” کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی “- یعنی آج بہت سے مذاہب کی اصلی شکل کو پہچاننا بھی ممکن نہیں رہا۔ ان کے بگڑے ہوئے عقائد کو دیکھ کریقین نہیں آتا کہ کبھی ان کا تعلق بھی دین حق سے تھا۔ بہر حال حقیقت یہی ہے کہ تمام انبیا ورسل ( علیہ السلام) کا تعلق ایک ہی امت سے تھا۔ وہ سب ایک ہی اللہ کو ماننے والے تھے اور سب ایک ہی دین لے کر آئے تھے ‘ البتہ مختلف انبیاء کی شریعتوں کے تفصیلی احکامات میں باہم فرق پایا جاتا رہا ہے۔ یہ مضمون مزید وضاحت کے تحت سورة الشوریٰ میں آئے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani