Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

93۔ 1 یعنی دین توحید اور عبادت رب کو چھوڑ کر مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئے ایک گروہ تو مشرکین اور کفار کا ہوگیا اور انبیاء و رسل کے ماننے والے بھی گروہ بن گئے، کوئی یہودی ہوگیا، کوئی عیسائی، کوئی کچھ اور اور بدقسمتی سے یہ فرقہ بندیاں خود مسلمانوں میں بھی پیدا ہوگئیں اور یہ بھی بیسیوں فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔ ان سب کا فیصلہ، جب یہ بارگاہ الٰہی میں لوٹ کر جائیں گیں۔ تو وہیں ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٤] یہ دین کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے عموماً مذہبی پیشوا قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ خواہ یہ علمائے کرام ہوں یا مشائخ عظام اور اس سے ان کا مقصد عموماً حصول مال و جاہ ہوتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیسیوں مقامات پر فرمایا کہ عالم الغیب اور حاضر و ناظر، حاجت روا اور مشکل کشا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اور یہی تمام انبیاء کا مشترکہ دین تھا۔ اب یہ حضرات یہ ثابت کرنا شروع کردیتے ہیں کہ انبیاء اور ہمارے بزرگان کرام سب ہی غیب کی خبریں جانتے ہیں اور اپنے اپنے مریدوں کے احوال پر حاضر و ناظر ہوتے ہیں۔ وہ بزرگ خواہ زندہ ہوں یا فوت ہوچکے ہوں۔ ان کو پکارا جائے یا ان سے فریاد کی جائے تو وہ بھی لوگوں کی فریادیں سنتے اور ان کی امداد کو پہنچ جاتے ہیں۔ ان باتوں پر وہ اپنا سارا زور صرف کرتے، ایسے واقعات اور قصے تراش کر انھیں عوام میں اتنا مشہور کردیتے ہیں کہ وہ الٹا توحید پرستوں کو شامت لے آتے ہیں اور اس سے ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ان کی گدیاں بحال رہیں اور نذرانے وصول ہوتے رہیں۔ لوگ ان کے در دولت پر حاضری دیتے رہیں۔ اور یہ حضرات انھیں مشکل کشائی اور حاجت روائی کے سبز باغ دکھلاتے رہیں اور قیامت کے دن شفاعت کرکے انھیں بخشوا دینے کا یقین دلاتے ہیں۔ کتاب و سنت کی رو سے یہ سب راہیں شیطانی راہیں ہیں۔ انبیاء کے مشترکہ دین کے خلاف ہیں۔ پھر بعض دفعہ علماء کی طرف سے ایسی بحثیں چھیڑ دی جاتی ہیں۔ جن کا دین سے کچھ تعلق نہیں ہوتا نہ ان کا دین میں کچھ مقام ہوتا ہے اور نہ ہی پھر ان پر کوئی عملی فائدہ مرتب ہوتا ہے مثلاً یہ کہ قرآن مخلوق ہے یا غیر مخلوق ؟ اللہ تعالیٰ جو ہر چیز پر قادر ہے وہ جھوٹ بھی بول سکتا ہے یا نہیں ؟ یا یہ کہ کوا حلال ہے یا حرام ؟ یا نصاریٰ میں یہ ایک مسئلہ مدتوں زیر بحث رہا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) خمیری روٹی کھایا کرتے تھے یا فطیری ؟ یا اصحاب کہف کی تعداد کتنی تھی ؟ پھر ایسے مسائل پر بحث و بدال اور مناظرے ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ دونوں طرف سے کتابیں بھی لکھی جاتی ہیں۔ اور یہ سب کچھ پوری قوم کے وقت کا ضیاع ہے۔ اور ایسے مسائل عموماً اس وقت علماء کی طرف سے کھڑے کئے جاتے ہیں جب قوم عملی انحطاط کا شکار ہو رہی ہو اور علماء کا عوام کی توجہ اپنی طرف مبذول رکھنا مقصود ہو۔ یہ سلسلہ بھی بالآخر فرقہ بازی پر منتج ہوجاتا ہے۔ جو کتاب و سنت کی رو سے کفر و شرک اور اللہ کا عذاب ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ :” تَقَطَّعُوْٓا “ باب تفعل سے ہے جو لازم ہے۔ اصل میں ” تَقَطَّعُْوْا فِي أَمْرِھِمْ “ تھا، یعنی وہ اپنے دین کے معاملے میں آپس میں ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ ” فِیْ “ کو حذف کرنے کی وجہ سے ” اَمْرَھُمْ “ پر نصب آگیا۔ بعض نے فرمایا کہ یہاں ” تَقَطَّعُوْٓا “ باب تفعیل (قَطَّعُوْا) کے معنی میں ہے جو متعدی ہے، یعنی انھوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ اس معنی کی بھی گنجائش ہے، مگر پہلا معنی راجح ہے۔ یعنی سب کا دین ایک اور رب ایک ہے، اس لیے لازم تھا کہ سب ایک جماعت رہتے اور اپنے نبی کی کتاب اور سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھتے، مگر وہ سب کچھ جانتے ہوئے محض باہمی ضد اور عناد کی وجہ سے دین کے بارے میں کئی فرقوں میں بٹ گئے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢١٣) اور سورة شوریٰ (١٣، ١٤) ہماری امت کا بھی یہی حال ہوا کہ وہ کتاب و سنت پر متحد ہونے کے بجائے فقہ و تصوف کے الگ الگ پیشوا بنا کر بہت سے فرقوں میں بٹ گئے، جن میں سے ہر فرقہ اپنے آپ ہی کو حق پر قرار دیتا ہے۔ سیاسی طور پر خلافت اسلامیہ کو ختم کر کے چھپن (٥٦) خود مختار ملکوں میں تقسیم ہوگئے، جن میں سے ایک بھی حقیقت میں خود مختار نہیں ہے، نتیجہ سب کے سامنے ہے۔- 3 اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو مخاطب کرکے فرمایا تھا : (اِنَّ هٰذِهٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً ڮ وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ ) یعنی یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، سو میری ہی عبادت کرو۔ اب اس آیت میں انھیں مخاطب کرنے کے بجائے ان کا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ کیا اور ” تَقَطَّعْتُمْ أَمْرَکُمْ بَیْنَکُمْ “ (تم اپنے دین کے معاملے میں آپس میں ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے) کے بجائے فرمایا : ” تَقَطَّعُوْا أَمْرَھم بَیْنَھمْ “ کہ وہ اپنے معاملے میں آپس میں ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ یہ مخاطب سے غائب کی طرف التفات ہے، گویا اللہ تعالیٰ نے انھیں مخاطب کرنے کے بعد ان کی گروہ بندی کی وجہ سے انھیں اس قابل نہیں سمجھا کہ ان سے خطاب کیا جائے، اس لیے ان کا ذکر غائب کے صیغے سے فرمایا۔- كُلٌّ اِلَيْنَا رٰجِعُوْنَ : یعنی یہ لوگ جتنے گروہ چاہیں بنالیں، آخر سب نے ہمارے پاس آنا ہے، پھر ہم سب کا فیصلہ کریں گے، فرمایا : (قُلِ اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ اَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيْ مَا كَانُوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ ) [ الزمر : ٤٦ ] ” تو کہہ اے اللہ آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے ہر چھپی اور کھلی کو جاننے والے تو ہی اپنے بندوں کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَہُمْ بَيْنَہُمْ۝ ٠ۭ كُلٌّ اِلَيْنَا رٰجِعُوْنَ۝ ٩٣ۧ- قطع - القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] ، - ( ق ط ع ) القطع - کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٣) اگر لوگوں نے اس حقیقت کے باوجود اپنے درمیان اپنے دین میں اختلاف پیدا کرلیا ہے اور یہودیوں نے علیحدہ دین اور عیسائیوں نے علیحدہ اور مجوس نے اپنا علیحدہ طریقہ اختیار کرلیا ہے تو باقی ہر ایک گروہ ہمارے پاس آنے والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩٣ (وَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَہُمْ بَیْنَہُمْ ط) ” - بقول اقبالؔ : ؂- اُڑائے کچھ ورق لالے نے ‘ کچھ نرگس نے ‘ کچھُ گل نے - چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری - یہ مضمون سورة الحجر میں اس طرح بیان ہوا ہے : (کَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَی الْمُقْتَسِمِیْنَ الَّذِیْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ فَوَرَبِّکَ لَنَسْءَلَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ ) ” (یہ اسی طرح کی تنبیہہ ہے) جس طرح ہم نے ان تفرقہ بازوں کی طرف بھیجی تھی۔ جنہوں نے اپنے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ تو (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) آپ کے رب کی قسم ہم ان سب سے پوچھ کر رہیں گے “۔ اس کیفیت کی عملی تصویر آج امت مسلمہ میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ آج ہمارے ہاں صورت حال یہ ہے کہ ہر جماعت ‘ گروہ یا مسلک کے پیروکاروں نے قرآن کا کوئی ایک موضوع اپنے لیے مخصوص کرلیا ہے اور ان لوگوں کے نزدیک بس اسی کی اہمیت ہے اور وہی کل دین ہے۔ مثلاً ایک گروہ قرآن میں سے ُ چن چن کر صرف ان آیات کو اپنی تحریر و تقریرکا موضوع بناتا ہے جن میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفعت شان اور محبت کا تذکرہ ہے۔ گویا انہوں نے قرآن کا صرف وہ حصہ اپنے لیے الاٹ کرا لیا ہے۔ ان کے مقابلے میں ایک دوسرا گروہ (قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ ) (الکہف : ١١٠) اور اس سے ملتے جلتے مضامین کی آیات پر ڈیرہ ڈال کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشریت کو نمایاں کرنے اور مشرکانہ اوہام کی نفی کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اگر کوئی گروہ اولیاء اللہ اور صوفیاء سے عقیدت کا دعوے دار ہے تو ان کی ہر گفتگو اور تقریر کا محور (اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآء اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ) (یونس ) ہی ہوتا ہے۔ الغرض ہر گروہ کے ہاں کتاب اللہ کی چند آیات پر زور ہے اور باقی تعلیمات کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ چناچہ آج کے اس دور میں قرآن کو ایک وحدت کی حیثیت سے پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے ‘ جس کے لیے ہر صاحب علم کو استطاعت بھر کوشش کرنی چاہیے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :91 تم کا خطاب تمام انسانوں کی طرف ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اے انسانو ، تم سب حقیقت میں ایک ہی امت اور ایک ہی ملت تھے ، دنیا میں جتنے نبی بھی آئے وہ سب ایک ہی دین لے کر آئے تھے ، اور وہ اصل دین یہ تھا کہ صرف ایک اللہ ہی انسان کا رب ہے اور اکیلے اللہ ہی کی بندگی و پرستش کی جانی چاہیے ۔ بعد میں جتنے مذاہب پیدا ہوئے اور اسی دین کو بگاڑ کر بنا لیے گئے ۔ اس کی کوئی چیز کسی نے لی ، اور کوئی دوسری چیز کسی اور نے ، اور پھر ہر ایک نے ایک جز اس کا لیکر بہت سی چیزیں اپنی طرف سے اس کے ساتھ ملا ڈالیں ۔ اس طرح یہ بے شمار ملتیں وجود میں آئیں ۔ اب یہ خیال کرنا کہ فلاں نبی فلاں مذہب کا بانی تھا اور فلاں نبی نے فلاں مذہب کی بنیاد ڈالی ، اور انسانیت میں یہ ملتوں اور مذہبوں کا تفرقہ انبیاء کا ڈالا ہوا ہے محض ایک غلط خیال ہے ۔ محض یہ بات کہ یہ مختلف ملتیں اپنے آپ کو مختلف زمانوں اور مختلف ملکوں کے انبیاء کی طرف منسوب کر رہی ہیں ، اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ملتوں اور مذہبوں کا یہ اختلاف انبیاء کا ڈالا ہوا ہے ۔ خدا کے بھیجے ہوئے انبیاء دس مختلف مذہب نہیں بنا سکتے تھے اور نہ ایک خدا کے سوا کسی اور کی بندگی سکھا سکتے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani