96۔ 1 یاجوج ماجوج کی ضروری تفصیل سورة کہف کے آخر میں گزر چکی ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موجودگی میں قیامت کے قریب ان کا ظہور ہوگا اور اتنی تیزی اور کثرت سے یہ ہر طرف پھیل جائیں گے کہ ہر اونچی جگہ یہ دوڑتے ہوئے محسوس ہونگے۔ ان کی فساد انگیزیوں اور شرارتوں سے اہل ایمان تنگ آجائیں گے حتٰی کی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اہل ایمان کو ساتھ کوہ طور پر پناہ گزیں ہوجائیں گے، پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بد دعا سے یہ ہلاک ہوجائیں گے اور ان کی لاشوں کی سڑاند اور بدبو ہر طرف پھیلی ہوگی، حتٰی کہ اللہ تعالیٰ پرندے بھیجے گا جو ان کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیں گے پھر ایک زور دار بارش نازل فرمائے گا، جس سے ساری زمین صاف ہو جائیگی۔ (یہ ساری تفصیلات صحیح حدیث میں بیان کی گئی ہیں تفصیل کے لئے تفسیر ابن کثیر ملاحطہ ہو)
[٨٦] اس آیت کا سابقہ آیت سے ربط یہ ہے کہ جس دن یاجوج ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور قیامت قائم ہوجائے گی۔ اس وقت لازماً ان تباہ شدہ بستی والوں کو ہمارے حضور پیش ہونا پڑے گا۔ یہ ناممکن ہے کہ وہ ہمارے حضور پیش نہ ہوں۔ اس لحاظ سے پہلا مطلب ہی زیادہ درست معلوم ہوتا ہے۔- یاجوج ماجوج کے کچھ حالات تو سورة کہف کی آیت نمبر ٩٤ کے تحت مذکور ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ۔۔ ذوالقرنین کا زمین بوس ہونا اور یاجوج ماجوج کا حملہ آور ہونا قرب قیامت کی علامات میں سے ایک علامت ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- حضرت حذیفہ بن اسید غفاری کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم آپس میں قیامت کے متعلق باتیں کر رہے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ : قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تم یہ دس نشانیاں نہ دیکھ لو گے۔ پھر آپ نے بالترتیب ان سب کا ذکر فرمایا۔ دسواں، دجال کا خروج، دابہ ن الارض کا ظاہرہونا، آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول، یاجوج ماجوج کی یورش، تین مقامات پر زمین کی دھنس جانا، مشرق میں، مغرب میں اور جزیرہ عرب میں اور ان نو نشانیوں کے بعد ایک آگ پیدا ہوگی جو لوگوں کو یمن سے نکالے گی اور انھیں ان کے اجتماع کے مقان (شام) کی طرف لے جائے گی۔ (مسلم، کتاب الفتن و شرائط الساعہ ن) - اور جب یہ دیوار ٹوٹے گی تو یاجوج ماجوج یوں حملہ آور ہوں گے جیسے کوئی شکاری جانور قفس سے آزاد ہو کر اپنے شکار پر جھپٹتا ہے یہ لوگ اپنی کثرت اور ازدھام کی وجہ سے ہر بلندی و پستی پر چھا جائیں گے۔ جدھر دیکھو انہی کا ہجوم نظر آئے گا۔ ان کا بےپناہ سیلاب ایسی شدت سے تیز فتاری سے آئے گا کہ کوئی انسانی طاقت اسے روک نہ سکے گی۔ یوں معلوم ہوگا کہ ان کی افواج پہاڑ اور ٹیلوں سے پھسلتی اور لڑھکتی چلی آرہی ہیں۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ یاجوج ماجوج دونوں قومیں آپس میں متحد ہو کر ایسی شورش بپا کریں۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ دونوں قومیں آپس میں ہی بھڑ جائیں پھر ان کی لڑائی ایک عالمگیر فساد کا موجب بن جائے۔
حَتّٰٓي اِذَا فُتِحَتْ يَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ ۔۔ : ” حَدَبٍ “ زمین کا ابھرا ہوا حصہ، اونچی جگہ، جیسے کسی کی پیٹھ ابھری ہوئی ہو تو اسے ” حَدَبَۃُ الظَّھْرِ “ کہتے ہیں۔ ” نَسَلَ “ (ض، ن) قریب قریب قدم رکھ کر نیچے کی طرف تیز دوڑنا، یعنی ہلاک ہونے والی بستیوں کے لوگوں کا دوبارہ زندہ ہونا اس وقت تک ناممکن رہے گا جب تک قیامت قائم نہ ہو، جس کی بالکل قریب نشانیوں میں سے ایک یاجوج ماجوج کا نکلنا بھی ہے۔ ان کے نکلنے کے بعد بہت جلد قیامت قائم ہوجائے گی۔ حذیفہ بن اسید غفاری (رض) بیان کرتے ہیں : ” ایک دفعہ ہم آپس میں قیامت کے بارے میں باتیں کر رہے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : ” تم آپس میں کیا ذکر کر رہے ہو۔ “ انھوں نے کہا : ” ہم قیامت کا ذکر کر رہے ہیں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّھَا لَنْ تَقُوْمَ حَتّٰی تَرَوْنَ قَبْلَھَا عَشْرَ آیَاتٍ ، فَذَکَرَ الدُّخَانَ وَالدَّجَّالَ ، وَالدَّابَّۃَ ، وَطُلُوْعَ الشَّمْسِ مِنْ مَّغْرِبِھَا، وَنُزُوْلَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَیَأْجُوْجَ وَمَأْجُوْجَ ، وَثَلاَثَۃَ خُسُوْفٍ : خَسْفٌ بالْمَشْرِقِ ، وَخَسْفٌ بالْمَغْرِبِ ، وَخَسْفٌ بِجَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ ، وَآخِرُ ذٰلِکَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنَ الْیَمَنِ تَطْرُدُ النَّاسَ إِلٰی مَحْشَرِھِمْ ) [ مسلم، الفتن، باب في الآیات التی تکون قبل الساعۃ : ٢٩٠١ ] ” قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم اس سے پہلے دس نشانیاں نہ دیکھ لو۔ “ پھر آپ نے دخان (دھوئیں) ، دجال، دابۃ الارض، سورج کے مغرب سے طلوع ہونے، عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول، یاجوج ماجوج اور تین خسوف (زمین میں دھنس جا نے) کا ذکر فرمایا۔ ایک خسف مشرق میں، ایک خسف مغرب میں اور ایک خسف جزیرۂ عرب میں ہوگا اور ان کے آخر میں ایک آگ یمن سے نکلے گی جو لوگوں کو ان کے حشر کی جگہ کی طرف ہانکے گی۔ “ یاجوج ماجوج کے کھولے جانے سے مراد قیامت کے قریب اس دیوار کا ٹوٹنا ہے جو ذوالقرنین نے لوگوں کو یاجوج ماجوج کی غارت گری سے بچانے کے لیے بنائی تھی۔ اس وقت ان کے نکلنے کا نقشہ بیان ہوا ہے کہ وہ اتنی کثرت اور تیزی سے نکلیں گے کہ ہر بلندی و پستی پر چھا جائیں گے، کسی میں ان کے مقابلے کی طاقت نہ ہوگی۔ [ مسلم، الفتن، باب ذکر الدجال : ٢٩٣٧ ] یاجوج ماجوج کی تفصیل سورة کہف (٩٣ تا ٩٩) کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔
حَتّٰٓي اِذَا فُتِحَتْ يَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَهُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ ، لفظ حَتّٰٓي سابق مضمون پر تفریع و ترتیب کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ آیت سابقہ میں یہ کہا گیا تھا کہ جو لوگ کفر پر مر چکے ہیں ان کا دوبارہ دنیا میں زندہ ہو کر لوٹنا ناممکن ہے اس عدم امکان کی انتہا یہ بتلائی گئی کہ دوبارہ زندہ ہو کر لوٹنا ناممکن اس وقت تک ہے جب تک کہ یہ واقعہ یاجوج ماجوج کا پیش نہ آجائے جو قیامت کی قریبی علامت ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ ہم چند صحابہ ایک روز آپس میں کچھ مذاکرہ کر رہے تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے، دریافت فرمایا کہ کیا مذاکرہ تمہارے درمیان جاری ہے ہم نے عرض کیا کہ قیامت کا ذکر کر رہے ہیں آپ نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک دس علامتیں اس سے پہلے ظاہر نہ ہوجائیں۔ ان دس علامتوں میں خروج یاجوج ماجوج کا بھی ذکر فرمایا۔- آیت میں یاجوج ماجوج کے لئے لفظ فُتِحَتْ یعنی کھولنا استعمال فرمایا گیا ہے جس کے ظاہری معنے یہی ہیں کہ اس وقت سے پہلے وہ کسی بندش اور رکاوٹ میں رہیں گے قرب قیامت کے وقت جب اللہ تعالیٰ کو ان کا نکلنا منظور ہوگا تو یہ بندش راستے سے ہٹا دی جاویں گی۔ اور ظاہر قرآن کریم سے یہ ہے کہ یہ رکاوٹ سد ذوالقرنین ہے جو قرب قیامت میں ختم ہوجاوے گی خواہ اس سے پہلے بھی وہ ٹوٹ چکی ہو مگر ان کے لئے بالکل راستہ ہموار اسی وقت ہوگا۔ سورة کہف میں یاجوج ماجوج اور سد ذوالقرنین کے محل وقوع اور دوسرے متعلقہ مسائل پر تفصیلی بحث ہوچکی ہے وہاں دیکھ لیا جاوے۔- مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ ، لفظ حدب ہر اونچی جگہ کو کہا جاتا ہے وہ بڑے پہاڑ ہوں یا چھوٹے چھوٹے ٹیلے۔ سورة کہف میں جہاں یاجوج ماجوج کے محل وقوع پر گفتگو کی گئی ہے اس سے معلوم ہوچکا ہے کہ ان کی جگہ دنیا کے شمالی پہاڑوں کے پیچھے ہے اس لئے خروج کے وقت اسی طرف سے پہاڑوں ٹیلوں سے امنڈتے ہوئے نظر آئیں گے۔
حَتّٰٓي اِذَا فُتِحَتْ يَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَہُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ ٩٦- فتح - الفَتْحُ : إزالة الإغلاق والإشكال، يدرک بالبصر کفتح الباب ونحوه، وکفتح القفل والغلق والمتاع، نحو قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65]- ( ف ت ح )- الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں فتح المتاع ( اسباب کھولنا قرآن میں ہے ؛وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔- أج - قال تعالی: هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] : شدید الملوحة والحرارة، من قولهم : أجيج النار وأَجَّتُهَا، وقد أجّت، وائتجّ النهار . ويأجوج ومأجوج منه، شبّهوا بالنار المضطرمة والمیاه المتموّجة لکثرة اضطرابهم «2» . وأجّ الظّليم : إذا عدا، أجيجاً تشبيهاً بأجيج النار .( ا ج ج ) الاجاج ۔ کے معنی سخت کھاری اور گرم پانی کے ہیں قرآن میں ہے :۔ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ [ الفرقان : 53] ایک کا پانی نہایت شیریں اور دوسرے کا سخت گرم ہے ۔ یہ ( اجاج ) اجیح النار ( شعلہ نار یا اس کی شدید تپش اور حرارت ) واجل تھا وقد اجت ۔ میں نے آگ بھڑکائی چناچہ وہ بھڑک اٹھی ( وغیرہ محاورات ) سے مشتق ہے ۔ ائتج النھار ۔ دن گرم ہوگیا ۔ اسی ( اج) سے يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ (18 ۔ 94) (21 ۔ 94) ہے ان کے کثرت اضطراب کی وجہ سے مشتعل آگ یا موجزن اور متلاطم پانی کے ساتھ تشبیہ دے کر یاجوج ماجوج کہا گیا ہے ۔ اج الظلیم اجیحا ۔ شتر مرغ نہایت سرعت رفتار سے چلا ۔ یہ محاورہ اشتعال نار کے ساتھ تشبیہ دے کر بولا جاتا ہے ۔- حدب - يجوز أن يكون الأصل في الحَدَبِ حدب الظهر، يقال : حَدِبَ «2» الرجل حَدَباً ، فهو أَحْدَب، واحدودب . وناقة حدباء تشبيها به، ثم شبّه به ما ارتفع من ظهر الأرض، فسمّي حَدَباً ، قال تعالی: وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ [ الأنبیاء 96] .- ( ح د ب ) حدب ( س) حدبا ۔ الرجل واحدب واحدودب کبڑا ہونا ۔ ہوسکتا ہے کہ حدب الظھر کا لفظ اس مادہ میں بنیاد کی حیثیت رکھتا ہو جس کے معنی کبڑے پیٹھ کے ہیں ۔ پھر تشبیہ کے طور ( لاغر اونٹنی کو جس کے سربنوں کی ہڈیاں نمایاں ہوں ناقۃ حدباء کہہ دیتے ہیں اور اسی سے ( مجاز) بلند اور سخت زمین کو حدب کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ [ الأنبیاء 96] اور وہ ( یاجوج ماجوج) بلندی سے دوڑ رہے ہونگے ۔- نسل - النَّسْلُ : الانفصالُ عن الشیءِ. يقال : نَسَلَ الوَبَرُ عن البَعيرِ ، والقَمِيصُ عن الإنسان، قال الشاعر۔ فَسُلِّي ثِيَابِي عَنْ ثِيَابِكِ تَنْسِلي والنُّسَالَةُ : ما سَقَط من الشَّعر، وما يتحاتُّ من - الریش، وقد أَنْسَلَتِ الإبلُ : حَانَ أن يَنْسِلَ وَبَرُهَا، ومنه : نَسَلَ : إذا عَدَا، يَنْسِلُ نَسَلَاناً : إذا أسْرَعَ. قال تعالی: وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ [ الأنبیاء 96] . والنَّسْلُ : الولدُ ، لکونه نَاسِلًا عن أبيه . قال تعالی: وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] وتَنَاسَلُوا : تَوَالَدُوا، ويقال أيضا إذا طَلَبْتَ فَضْلَ إنسانٍ : فَخُذْ ما نَسَلَ لک منه عفواً.- ( ن س ل ) النسل ۔ کے معنی کسی چیز سے الگ ہوجانے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نسل الوا بر عن البعیر اون اونٹ سے الگ ہوگئی ۔ اور نسل القمیص عن الانسان کے معنی قمیص کے بدن سے الگ ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( 422 ) فسلی ثیا بی عن ثیا بک تنسلی تو اپنے کپڑوں سے کھینچ لے تاکہ جدا ہوجائیں ۔ النسا لۃ داڑھی سے گرے ہوئے بال یا پرندہ کے پر جو جھڑ کر گر پڑتے ہیں ۔ انسلت الابل اونٹوں کی اون جھڑنے کا وقت آگیا اسی سے نسل ینسل نسلانا ہے جس کے معنی تیز دوڑ نے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ [ الأنبیاء 96] اور وہ ہر بلند ی سے دوڑ رہے ہوں گے ۔ النسل اولاد کو کہتے ہیں کیونکہ وہ بھی اپنے باپ سے جدا ہوئی ہوتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو ( بر باد ) اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کر دے ۔ اور تنا سلو ا کے معنی تو الد وا کے ہیں نیز جب کوئی انسان دوسرے سے خیرات طلب کرے تو کہا جاتا ہے : ۔ فخذ ما سنل لک منہ عفوا کہ جو کچھ ملے وہی لے لو ۔
(٩٦) یہاں تک کہ جب یاجوج ماجوج کھول دیے جائیں گے اور قیامت قائم ہوگی، تو اس وقت یہ لوگ اپنی قبروں سے نکلیں گے اور وہ یاجوج ماجوج غایت کثرت کی وجہ سے ہر ایک ٹیلا اور بلندی سے نکلتے معلوم ہوں گے اور ان کے سد ذوالقرنین (ذوالقرنین بادشاہ کی بنائی ہوئی دیوار) سے نکلنے کے وقت قیامت بالکل قریب آجائے گی۔
آیت ٩٦ (حَتّٰیٓ اِذَا فُتِحَتْ یَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَہُمْ مِّنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ ) ” - قرآن میں یا جوج اور ماجوج کا ذکر اس آیت کے علاوہ سورة الکہف میں بھی آیا ہے۔ سورة الکہف کے مطالعے کے دوران اس موضوع پر تفصیل سے بحث ہوچکی ہے۔ یاجوج اور ماجوج کی یلغار سے بچاؤ کے لیے ذوالقرنین کی تعمیر شدہ دیوار سے متعلق بہت واضح معلومات دنیا کے سامنے آچکی ہیں۔ دنیا کے نقشے میں ” دربند “ وہ جگہ ہے جہاں پر وہ دیوار تعمیر کی گئی تھی۔ دیوار اب وہاں بالفعل تو قائم نہیں ‘ مگر اس کے واضح آثار اس جگہ پر موجود ہیں۔ ان آثار سے دیوار کی کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ - آیت زیر نظر سے واضح ہوتا ہے کہ قرب قیامت کے زمانے میں یاجوج اور ماجوج کا سیلاب ایک بار پھر آنے والا ہے۔ اس سلسلے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے دوران یورپی اقوام کی یلغار ( ) بھی اس آیت کا مصداق ہے جس کے نتیجے میں انہوں نے پورے ایشیا اور افریقہ پر بتدریج قبضہ جما لیا تھا۔ یعنی ایک ہی وقت میں فرانسیسی ‘ ولندیزی اور برطانوی اقوام نے ملایا ‘ انڈونیشیا ‘ ہندوستان سمیت پورے ایشیا اور افریقہ کو غلام بنا لیا تھا۔ یہ تمام لوگ سکنڈے نیوین ممالک سے اتری ہوئی اقوام کی نسل سے تھے ‘ جن کو کہتے ہیں اور یورپ کے لوگ بھی انہیں کی اولاد سے ہیں۔ دراصل یہی وہ اقوام ہیں جو مختلف ادوار میں مہذب دنیا پر حملہ آور ہو کر ظلم و ستم اور لوٹ مار کا بازار گرم کرتی رہی ہیں۔ علامہ اقبال نے بھی اپنے اس شعر میں یورپی اقوام کے اس نوآبادیاتی استعمار ( ) کو یاجوج اور ماجوج کے تسلط سے تعبیر کیا ہے : - کھل گئے یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام - چشم مسلم دیکھ لے تفسیر حرف یَنسِلُوْن - وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بظاہر ان اقوام کی افواج کو ان مقبوضہ ممالک سے نکلنا پڑا ‘ لیکن بالواسطہ طور پر وہ اپنے کٹھ پتلی اداروں اور افراد کے ذریعے ان ممالک پر مسلسل اپنا تسلط جمائے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں ورلڈ بینک ‘ آئی ایم ایف اور بہت سے دیگر ملٹی نیشنل ادارے ان کے آلۂ کا رہیں۔ - البتہ احادیث میں قرب قیامت کے زمانے کے حالات و واقعات کی جو تفصیل ملتی ہے اس کے مطابق قیامت سے قبل ایک دفعہ پھر یاجوج اور ماجوج کا سیلاب آئے گا۔ ان تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ قرب قیامت کے زمانے میں ایک بہت خوفناک جنگ (احادیث میں اس کا نام الملحَمۃ العُظمیٰ ‘ جبکہ عیسائی روایات میں بتایا گیا ہے) ہوگی جس میں یہودی اور عیسائی مسلمانوں کے مقابل ہوں گے۔ فلسطین ‘ شام اور مشرق وسطیٰ کا علاقہ بنیادی طور پر میدان جنگ بنے گا ‘ جس کی وجہ سے اس علاقے میں بہت بڑی تباہی پھیلے گی۔ اسی زمانے میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کا نزول اور امام مہدی کا ظہور ہوگا۔ امام مہدی حضرت فاطمہ (رض) کی نسل اور حضرت حسن (رض) کی اولاد میں سے ہوں گے۔ اس سے پہلے خراسان اور مشرقی ممالک میں اسلامی حکومت قائم ہوچکی ہوگی اور ان علاقوں سے مسلمان افواج مشرق وسطیٰ میں اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے جائیں گی۔ اس جنگ میں بالآخر فتح مسلمانوں کی ہوگی۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی معجزانہ تائید ہوگی ‘ جس سے آپ ( علیہ السلام) یہودیوں کو ختم کردیں گے۔ آپ ( علیہ السلام) کی آنکھوں میں ایک خاص تاثیر (آج کی لیزر ٹیکنالوجی سے بھی مؤثر) ہوگی ‘ جس کی وجہ سے آپ ( علیہ السلام) کی نگاہ پڑتے ہی یہودی پگھلتے چلے جائیں گے۔ پھر آپ ( علیہ السلام) دجال (جو مسیح ہونے کا جھوٹا دعوے دار ہوگا) کو قتل کریں گے۔ حدیث میں آتا ہے کہ دجال بھاگنے کی کوشش میں ہوگا کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) اس کو مقام لُدّ پر جا لیں گے اور قتل کردیں گے۔ (واضح رہے کہ اسرائیل کا سب سے بڑا ایئربیس ہے۔ )- ان سب واقعات کے بعد یا جوج اور ماجوج کے سیلاب کی شکل میں ایک دفعہ پھر دنیا پر مصیبت ٹوٹ پڑے گی۔ آیت زیر نظر میں یاجوج اور ماجوج کی یلغار کے راستوں ( ) کے لیے لفظ ” حدب “ استعمال ہوا ہے ‘ جس کے معنی اونچائی کے ہیں۔ مندرجہ بالا آراء کے مطابق جن اقوام پر یاجوج اور ماجوج کا اطلاق ہوتا ہے ان سب کے علاقے ہمالیہ اور وسطی ایشیا کے پہاڑی سلسلوں کے شمال میں واقع ہیں۔ عین ممکن ہے کہ یہ لوگ ان پہاڑی سلسلوں کو عبور کرتے ہوئے جنوبی علاقوں پر یلغار کریں اور یوں ” مِنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ “ کے الفاظ کی عملی تعبیر کا نقشہ دنیا کے سامنے آجائے ۔
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :93 یاجوج و ماجوج کی تشریح سورہ کہف حاشیہ 62 ، 69 میں کی جاچکی ہے ۔ ان کے کھول دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گے کہ جیسے کوئی شکاری درندہ یکایک پنجرے یا بندھن سے چھوڑ دیا گیا ہو ۔ وعدہ حق پورا ہونے کا وقت قریب آ لگے گا کا اشارہ صاف طور پر اس طرف ہے کہ یاجوج و ماجوج کی یہ عالمگیر یورش آخری زمانہ میں ہو گی اور اس کے بعد جلدی ہی قیامت آ جائے گی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد اس معنی کو اور زیادہ کھول دیتا ہے جو مسلم نے حذیفہ بن اَسید الغِفاری کی روایت سے نقل کیا ہے کہ قیامت قائم نہ ہو گی جب تک تم اس سے پہلے دس علامتیں نہ دیکھ لو : دھواں ، دجال ، دابۃ الارض ، مغرب سے سورج کا طلوع ، عیسیٰ ابن مریم کا نزول ، یاجوج و ماجوج کی یورش ، اور تین بڑے خسوف ( زمین کا دھنسنا یا ) ایک مشرق میں ، دوسرا مغرب میں ، اور تیسرا جزیرۃ العرب میں ، پھر سب سے آخر میں یمن سے ایک سخت آگ اٹھے گی جو لوگوں کو محشر کی طرف ہانکے گی ( یعنی بس اس کے بعد قیامت آ جائے گی ) ۔ ایک اور حدیث میں یاجوج و ماجوج کی یورش کا ذکر کر کے حضور نے فرمایا اس وقت قیامت اس قدر قریب ہو گی جیسے پورے پیٹوں کی حاملہ کہ نہیں کہہ سکتے کب وہ بچہ جن دے ، رات کو یا دن کو ( کالحامل المتم لا یدری اھلھا متی تفجؤھم بولدھا لیلا او نھاراً ) لیکن قرآن مجید اور حدیث میں یا جوج ماجوج کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے یہ مترشح نہیں ہوتا کہ یہ دونوں متحد ہوں گے اور مل کر دنیا پر ٹوٹ پڑیں گے ۔ ہو سکتا ہے کہ قیامت کے قریب زمانے میں یہ دونوں آپس ہی میں لڑ جائیں اور پھر ان کی لڑائی ایک عالمگیر فساد کی موجب بن جائے ۔
45: مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو دوبارہ زندہ کرنا اس وقت ہوگا جب قیامت آئے گی، اور اس کی ایک علامت یہ ہوگی کہ یاجوج اور ماجوج کے وحشی قبیلے بہت بڑی تعداد میں دنیا پر حملہ آور ہوں گے اور ایسا محسوس ہوگا کہ وہ ہر بلند جگہ سے پھسلتے ہوئے آرہے ہیں۔