Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جہنم کی ہولناکیاں بت پرستوں سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اور تمہارے بت جہنم کی آگ کی لکڑیاں بنوگے جیسے فرمان ہے آیت ( وقودہا الناس والحجارۃ ) اس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر حبشی زبان میں حطب کو حصب کہتے ہیں یعنی لکڑیاں ۔ بلکہ ایک قرأت میں بجائے حصب کے حطب ہے ۔ تم سب عابد و معبود جہنمی ہو اور وہ بھی ہمیشہ کے لئے ۔ اگر یہ سچے معبود ہوتے کیوں آگ میں جلتے ؟ یہاں تو پرستار اور پرستش کئے جانے والے سب ابدی طور پردوزخی ہوگئے وہ الٹی سانس میں چیخیں گے جیسے فرمان ہے آیت ( فَاَمَّا الَّذِيْنَ شَقُوْا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيْهَا زَفِيْرٌ وَّشَهِيْقٌ ١٠٦؀ۙ ) 11-ھود:106 ) ، وہ سیدھی الٹی سانسوں سے چیخیں گے اور چیخوں کے سوا ان کے کان میں اور کوئی آواز نہ پڑے گی حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب صرف مشرک جہنم میں رہ جائیں گے انہیں آگ کے صندوقوں میں قید کردیا جائے گا جن میں آگ کے سریے ہوں گے ان میں سے ہر ایک کو یہی گمان ہوگا کہ جہنم میں اس کے سوا اور کوئی نہیں پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ( ابن جریر ) حسنیٰ سے مراد رحمت وسعادت ہیں ۔ دوزخیوں کا اور ان کے عذابوں کا ذکر کر کے اب نیک لوگوں اور ان کی جزاؤں کا ذکر ہو رہا ہے یہ لوگ باایمان تھے ان کے نیک اعمال کی وجہ سے سعادت انکے استقبال کو تیار تھی جیسے فرمان ہے آیت ( لِلَّذِيْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِيَادَةٌ ۭ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوْهَھُمْ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّةٌ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ 26؀ ) 10- یونس:26 ) نیکوں کے لئے نیک اجر ہے اور زیادتی اجر بھی ۔ فرمان ہے آیت ( هَلْ جَزَاۗءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ 60۝ۚ ) 55- الرحمن:60 ) نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہے ۔ ان کے دنیا کے اعمال نیک تھے تو آخرت میں ثواب اور نیک بدلہ ملا ، عذاب سے بچے اور رحمت رب سے سرفراز ہوئے ۔ یہ جہنم سے دور کردئیے گئے کہ اس کی آہٹ تک نہیں سنتے نہ دوزخیوں کا جلنا وہ سنتے ہیں ۔ پل صراط پردوزخیوں کو زہریلے ناگ ڈستے ہیں اور یہ وہاں ہائے ہائے کرتے ہیں جنتی لوگوں کے کان بھی اس درد ناک آواز سے ناآشنا رہیں گے ۔ اتنا ہی نہیں کہ خوف ڈر سے یہ الگ ہوگئے بلکہ ساتھ ہی راحت وآرام بھی حاصل کرلیا ۔ من مانی چیزیں موجود ۔ دوامی کی راحت بھی حاضر ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک رات اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا میں اور عمر عثمان اور زبیر اور طلحہ اور عبدالرحمن انہی لوگوں میں سے ہیں یا حضرت سعد کا نام لیا رضی اللہ عنہم ۔ اتنے میں نماز کی تکبیر ہوئی تو آپ چادر گھیسٹتے آیت ( وہم لایسمعون حسیسہا ) ۔ پڑھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوگئے اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھی ایسے ہی ہیں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہی لوگ اولیاء اللہ ہیں بجلی سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ پل صراط سے پار ہوجائیں گے اور کافر وہیں گھٹنوں کے بل گرپڑیں گے ۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد وہ بزرگان دین ہیں جو اللہ والے تھے شرکت سے بیزار تھے لیکن ان کے بعد لوگوں نے ان کی مرضی کے خلاف ان کی پوجا پاٹ شروع کردی تھی ، حضرت عزیر ، حضرت مسیح ، فرشتے ، سورج ، چاند ، حضرت مریم ، وغیرہ ۔ عبداللہ بن زبعری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا تیرا خیال ہے کہ اللہ نے آیت ( اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ 98؀ ) 21- الأنبياء:98 ) اتاری ہے ؟ اگر یہ سچ ہے تو کیا سورج چاند ، فرشتے عزیر ، عیسیٰ ، سب کہ سب ہمارے بتوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے ؟ اس کے جواب میں آیت ( وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّوْنَ 57؀ ) 43- الزخرف:57 ) اور آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓى ۙ اُولٰۗىِٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ ١٠١؀ۙ ) 21- الأنبياء:101 ) نازل ہوئی ۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن ولید بن مغیرہ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ نضر بن حارث آیا اس وقت مسجد میں اور قریشی بھی بہت سارے تھے نضر بن حارث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کر رہا تھا لیکن وہ لاجوب ہوگیا آپ نے آیت ( اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ 98؀ ) 21- الأنبياء:98 ) تلاوت فرمائی ۔ جب آپ اس مجلس سے چلے گئے تو عبد اللہ بن زبعری آیا لوگوں نے اس سے کہا آج نضر بن حارث نے باتیں کیں لیکن بری طرح چت ہوئے اور حضرت یہ فرماتے ہوئے چلے گے ۔ اس نے کہا اگر میں ہوتا تو انہیں جواب دیتا کہ ہم فرشتوں کو پوجتے ہیں یہود عزیر کو نصرانی مسیح کو تو کیا یہ سب بھی جہنم میں جلیں گے ؟ سب کو یہ جواب بہت پسند آیا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا جس نے اپنی عبادت کرائی وہ عابدوں کے ساتھ جہنم میں ہے یہ بزرگ اپنی عبادتیں نہیں کراتے تھے بلکہ یہ لوگ تو انہیں نہیں شیطان کو پوج رہے ہیں اسی نے انہیں ان کی عبادت کی راہ بتائی ہے ۔ آپ کے جواب کے ساتھ ہی قرآنی جواب اس کے بعد ہی آیت ( ان الذین سبقت ) میں اترا تو جن نیک لوگوں کی جاہلوں نے پرستش کی تھی وہ اس سے مستثنیٰ ہوگئے ۔ چنانچہ قرآن میں ہے آیت ( ومن یقل منہم انی الہ من دونہ فذالک نجزیہ جہنم ۔ الخ ) یعنی ان میں سے جو اپنی معبودیت اوروں سے منوانی چاہے اس کا بدلہ جہنم ہے ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں اور آیت ( وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّوْنَ 57؀ ) 43- الزخرف:57 ) اتری کہ اس بات کہ سنتے ہی وہ لوگ متعجب ہوگئے اور کہنے لگے ہمارے معبود اچھے یا وہ یہ تو صرف دھینگا مشتی ہے اور یہ لوگ جھگڑالو ہی ہیں وہ ہمارا انعام یافتہ بندہ تھا اسے ہم نے بنی اسرائیل کے لئے نمونہ بنایا تھا ۔ اگر ہم چاہتے تو تمہارے جانشین فرشتوں کو کردیتے حضرت عیسیٰ نشان قیامت ہیں ان کے ہاتھ سے جو معجزات صادر ہوئے وہ شبہ والی چیزیں نہیں وہ قیامت کی دلیل ہیں تجھے اس میں کچھ شک نہ کرنا چاہے ۔ میری مانتا چلاجا یہی صراط مستقیم ہے ابن زبعری کی جرات دیکھئے خطاب اہل مکہ سے ہے اور ان کی ان تصویروں اور پتھروں کے لئے کہا گیا ہے جنہیں وہ سوائے اللہ کے پوجا کرتے تھے نہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وغیرہ پاک نفس کے لئے جو غیر اللہ کی عبادت سے روکتے تھے ۔ امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں لفظ ما جو یہاں ہے وہ عرب میں ان کے لئے آتا ہے جو بےجان اور بےعقل ہوں ۔ یہ ابن زبعری اس کے بعد مسلمان ہوگئے تھے رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ بڑے مشہور شاعر تھے ۔ پہلے انہوں نے مسلمانوں کی دل کھول کر دھول اڑائی تھی لیکن مسلمان ہونے کے بعد معذرت کی ۔ موت کی گھبراہٹ ، اس گھڑی کی گھبراہٹ جبکہ جہنم پر ڈھکن ڈھک دیا جائے گا جب کہ موت کو دوزخ جنت کے درمیان ذبح کردیا جائے گا ۔ غرض کسی اندیشے کا نزول ان پر نہ ہوگا وہ ہر غم وہراس سے دور ہوں گے ، پورے مسرور ہوں گے ، خوش ہوں گے اور ناخوشی سے کوسوں الگ ہوں گے ۔ فرشتوں کے پرے کے پرے ان سے ملاقاتیں کررہے ہوں گے اور انہیں ڈھارس دیتے ہوئے کہتے ہوں گے کہ اسی دن کا وعدہ تم سے کیا گیا تھا ، اس وقت تم قبروں سے اٹھنے کے دن کے منتظر رہو ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

98۔ 1 یہ آیت مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو لات منات اور عزٰی و ہبل کی پوجا کرتے تھے یہ سب پتھر کی مورتیاں تھیں۔ جو جمادات یعنی غیر عاقل تھیں، اس لئے آیت میں مَا تَعْبُدُوْنَ کے الفاظ ہیں اور عربی میں ( مَا) غیر عاقل کے لئے آتا ہے۔ یعنی کہا جارہا ہے کہ تم بھی اور تمہارے معبود بھی جن کی مورتیاں بنا کر تم نے عبادت کے لئے رکھی ہوئی ہیں سب جہنم کا ایندھن ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٨] یعنی مشرکوں کو ان کے معبودوں یعنی بتوں سمیت جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور یہ بت عموماً پتھر کے ہوتے تھے۔ اسی مضمون کو اللہ نے سورة بقرہ میں فرمایا (يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۝) 66 ۔ التحریم :6) جہنم کا ایندھن آدمی بھی ہوں گے اور پتھر بھی اور ان معبودوں کو جہنم میں دیکھ کر ان کے پوجنے والوں کی تکلیف اور حسرت میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔ ایک اس لئے کہ جن معبودوں سے وہ کئی طرح توقعات وابستہ کئے ہوئے تھے وہ ایسے بےبس ثابت ہوئے کہ انہی کی طرح جہنم میں جل رہے ہیں اور دوسرے اس لئے وہ جہنم کا ایندھن بن کر ان پجاریوں کے آگ کے عذاب کو مزید بھڑکانے کا باعث بن رہے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ : یعنی اس وقت ان کے اعتراف جرم اور توبہ کا انھیں کچھ فائدہ نہ ہوگا (سورۂ مومن : ٨٥) بلکہ کہا جائے گا کہ تم اور جن چیزوں کی تم عبادت کرتے تھے، سب جہنم کا ایندھن ہو۔ اس میں ان کے بت بھی شامل ہیں اور وہ تمام انسان یا جن بھی جو اپنی عبادت کروا کر خوش ہوتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان سب کو جہنم کا ایندھن قرار دیا۔ بتوں کو آگ میں پھینکنے کا مقصد ان مشرکین کو ذلیل کرنا ہے کہ اپنے خداؤں کا حال دیکھ لو، جیسا کہ فرمایا : (وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ) [ البقرۃ : ٢٤ ] کہ جہنم کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ ” مَا “ کا لفظ عموماً غیر ذوی العقول کے لیے استعمال ہوتا ہے، گویا اپنی عبادت پر خوش ہونے والے انسانوں اور جنوں کو غیر ذوی العقول قرار دیا گیا۔ اگر ” مَا “ کو عاقل و غیر عاقل سب کے لیے عام مانا جائے، جیسا کہ بعض اوقات استعمال ہوتا ہے، تب بھی اللہ کے پیغمبر اور مقبول بندے اس میں شامل نہیں ہوں گے، کیونکہ آیت (١٠١) میں تمام مومنوں کے لیے جہنم سے دور رکھے جانے کی بشارت آرہی ہے۔ - اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ : ” لَھَا “ کا لفظ ” وٰرِدُوْنَ “ سے پہلے آنے سے حصر پید اہو گیا، اس لیے ترجمہ ” اس میں “ کے بجائے ” اسی میں “ داخل ہونے والے ہوگا۔ اس جملے کا فائدہ یہ ہے کہ جہنم کا ایندھن بننے کے بعد یہ مت سمجھو کہ موحدین کی طرح اس سے نکل کر جنت میں چلے جاؤ گے، نہیں بلکہ تم اسی میں داخل رہو گے۔ اس کے علاوہ ” وٰرِدُوْنَ “ کو بعد میں لانے سے دوسری آیات کے فواصل (آخری حروف) کے ساتھ موافقت بھی ہوگئی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ، یعنی تم اور تمہارے معبود بجز اللہ کے سب کے سب جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ اس آیت میں تمام معبودات باطلہ جن کی ناجائز پرستش کفار کے مختلف گروہوں نے دنیا میں کی سب کا جہنم میں داخل ہونا بیان فرمایا گیا ہے اس پر یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ ناجائز عبادت تو حضرت مسیح اور عزیر اور فرشتوں کی بھی کی گئی ہے تو سب کے جہنم میں جانے کا کیا مطلب ہوگا ؟ اس کا جواب حضرت ابن عباس نے دیا ہے ان کی روایت تفسیر قرطبی میں اس طرح ہے کہ ابن عباس نے فرمایا کہ قرآن کی ایک آیت ایسی ہے جس میں لوگ شبہات کرتے ہیں مگر عجیب اتفاق ہے کہ اس کے متعلق لوگ مجھ سے سوال نہیں کرتے، معلوم نہیں کہ شبہات کا جواب ان لوگوں کو معلوم ہوگیا ہے اس لئے سوال نہیں کرتے یا انہیں شبہ اور جواب کی طرف التفات ہی نہیں ہوا۔ لوگوں نے عرض کیا وہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ وہ آیت اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ الآیة ہے جب یہ آیت نازل ہوئی تو کفار قریش کو سخت ناگوار ہوا اور کہنے لگے کہ اس میں تو ہمارے معبودوں کی سخت توہین کی گئی ہے یہ لوگ (عالم اہل کتاب) ابن الزبعری کے پاس گئے اور اس کی شکایت کی اس نے کہا کہ اگر میں وہاں موجود ہوتا تو ان کو اس کا جواب دیتا۔ ان لوگوں نے پوچھا کہ آپ کیا جواب دیتے، اس نے کہا کہ میں ان سے کہتا کہ نصاریٰ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی اور یہود حضرت عزیر (علیہ السلام) کی عبادت کرتے ہیں ان کے بارے میں آپ کیا کہیں گے (کیا معاذ اللہ وہ بھی جہنم میں جائیں گے) کفار قریش یہ سن کر بڑے خوش ہوئے کہ واقعی یہ بات تو ایسی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتے، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی جو آگے آتی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ۝ ٠ۭ اَنْتُمْ لَہَا وٰرِدُوْنَ۝ ٩٨- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- حصب۔ ایندھن۔ ہر وہ چیزجو آگ بھڑکانے کے کام آئے اسے حصب کہتے ہیں۔ - جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ- معرّب جهنام «1» ، وقال أبو مسلم : كهنّام «2» ، والله أعلم .- ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - ورد - الوُرُودُ أصله : قصد الماء، ثمّ يستعمل في غيره . يقال : وَرَدْتُ الماءَ أَرِدُ وُرُوداً ، فأنا وَارِدٌ ، والماءُ مَوْرُودٌ ، وقد أَوْرَدْتُ الإبلَ الماءَ. قال تعالی: وَلَمَّا وَرَدَ ماءَ مَدْيَنَ [ القصص 23] والوِرْدُ : الماءُ المرشّحُ للوُرُودِ ، والوِرْدُ : خلافُ الصّدر،- ( ور د ) الورود - ۔ یہ اصلی میں وردت الماء ( ض ) کا مصدر ہے جس کے معنی پانی کا قصد کرنے کے ہے ۔ پھر ہر جگہ کا قصد کرنے پر بولا جاتا ہے اور پانی پر پہنچنے والے کو ورود اور پانی کو مردود کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَمَّا وَرَدَ ماءَ مَدْيَنَ [ القصص 23] قرآن میں ہے : ۔ اور جب مدین کے پانی کے مقام پر پہنچے الوادر اس پانی کو کہتے ہیں جو وادر ہونے کے لئے تیار کیا گیا ہو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٨) بیشک اے مکہ والو تم اور تمہارے یہ بت سب دوزخ کا ایندھن ہیں اور تم سب اور یہ تمہارے بت دوزخ میں داخل ہوں گے۔- شان نزول : ( آیت) ” انکم وما تعبدون “۔ (الخ)- امام حاکم (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو ابن زبعری نے کہا کہ چاند سورج، ستارے، فرشتے، اور حضرت عزیر (علیہ السلام) ان کی پرستش ہوتی ہے، یہ سب ہمارے معبودوں کے ساتھ دوزخ میں جائیں گے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، ( آیت ) ” ان الذین سبقت “۔ (الخ) یعنی جن حضرات کے لیے جنت مقدر ہوچکی، وہ دوزخ سے اس قدر دور رہیں گے کہ اس کی آہٹ بھی نہ سنیں گے اور دوسری یہ آیت نازل ہوئی ( آیت) ” ولما ضرب مریم مثلا “۔ تا ”۔ خصمون “۔ (الخ)

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :95 روایات میں آیا ہے کہ اس آیت پر عبداللہ بن الذَّبَعْریٰ نے اعتراض کیا کہ اس طرح تو صرف ہمارے ہی معبود نہیں ، مسیح اور عُزیر اور ملائکہ بھی جہنم میں جائیں گے ، کیونکہ دنیا میں ان کی بھی عبادت کی جاتی ہے ۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نعم ، کل من احب ان یعبد من دون اللہ فھو مع من عبدہ ، ہاں ، ہر وہ شخص جس نے پسند کیا کہ اللہ کے بجائے اس کی بندگی کی جائے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جنہوں نے اس کی بندگی کی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے خلق خدا کو خدا پرستی کی تعلیم دی تھی اور لوگ ان ہی کو معبود بنا بیٹھے ، یا جو غریب اس بات سے بالکل بے خبر ہیں کہ دنیا میں ان کی بندگی کی جا رہی ہے اور اس فعل میں ان کی خواہش اور مرضی کا کوئی دخل نہیں ہے ، ان کے جہنم میں جانے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ وہ اس شرک کے ذمہ دار نہیں ہیں ۔ البتہ جنہوں نے خود معبود بننے کی کوشش کی اور جن کا خلق خدا کے اس شرک میں واقعی دخل ہے وہ سب اپنے عابدوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے ۔ اسی طرف وہ لوگ بھی جہنم میں جائیں گے جنہوں نے اپنی اغراض کے لیے غیر اللہ کو معبود بنوایا ، کیونکہ اس صورت میں مشرکین کے اصلی معبود وہی قرار پائیں گے نہ کہ وہ جن کو ان اشرار نے بظاہر معبود بنوایا تھا ۔ شیطان بھی اسی ذیل میں آتا ہے ، کیونکہ اس کی تحریک پر جن ہستیوں کو معبود بنایا جاتا ہے ، اصل معبود وہ نہیں بلکہ خود شیطان ہوتا ہے جس کے امر کی اطاعت میں یہ فعل کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ پتھر اور لکڑی کے بتوں اور دوسرے سامان پرستش کو بھی مشرکین کے ساتھ جہنم میں داخل کیا جائے گا ، تاکہ وہاں پر آتش جہنم کے اور زیادہ بھڑکنے کا سبب بنیں اور یہ دیکھ کر انہیں مزید تکلیف ہو کہ جن سے وہ شفاعت کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے وہ ان پر الٹے عذاب کی شدت کے موجب بنے ہوئے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

46: پتھر کے جن بتوں کی یہ مشرکین عبادت کرتے تھے ان کو بھی سزا کے طور پر نہیں بلکہ اس لئے جہنم میں ڈالا جائے گا تاکہ اس بات کا عملی مظاہرہ کیا جائے کہ جن بتوں کو تم خدا سمجھتے تھے وہ آخر کار کتنے بے بس ثابت ہوئے۔46: