دعوت تقویٰ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو تقوے کا حکم فرماتا ہے اور آنے والے دہشت ناک امور سے ڈرا رہا ہے خصوصاً قیامت کے زلزلے سے ۔ اس سے مراد یا تو وہ زلزلہ ہے جو قیامت کے قائم ہونے کے درمیان آئے گا ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَا Ǻۙ ) 99- الزلزلة:1 ) ، زمین خوب اچھی طرح جھنجھوڑ دی جائے گی ۔ اور فرمایا آیت ( وَّحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَّاحِدَةً 14 ۙ ) 69- الحاقة:14 ) یعنی زمین اور پہاڑ اٹھا کر باہم ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے کردئے جائیں گے ۔ اور فرمان ہے آیت ( اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا Ćۙ ) 56- الواقعة:4 ) یعنی جب کہ زمین بڑے زور سے ہلنے لگے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے ۔ صور کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جب آسمان و زمین کو پیدا کرچکا تو صور کو پیدا کیا اسے حضرت اسرافیل کو دیا وہ اسے منہ میں لئے ہوئے آنکھیں اوپر کو اٹھائے ہوئے عرش کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ کب حکم الٰہی ہو اور وہ صور پھونک دیں ۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا یارسول اللہ صور کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا ایک پھونکنے کی چیز ہے بہت بری جس میں تین مرتبہ پھونکا جائے گا پہلا نفخہ گھبراہٹ کا ہوگا دوسرا بیہوشی کا تیسرا اللہ کے سامنے کھڑا ہونے کا ۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام کو حکم ہوگا وہ پھونکیں گے جس سے کل زمین وآسمان والے گھبرا اٹھیں گے سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے ۔ بغیر رکے ، بغیر سانس لئے بہت دیرتک برابر اسے پھونکتے رہیں گے ۔ اسی پہلے صور کا ذکر آیت ( وما ینظر ہولاء الا صیحتہ واحدۃ مالہا من فواق ) میں ہے اس سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے زمین کپکپانے لگے گی ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ Čۙ ) 79- النازعات:6 ) ، جب کہ زمین لرزنے لگے گی اور یکے بعد دیگرے زبردست جھٹکے لگیں گے دل دھڑکنے لگیں گے زمین کی وہ حالت ہوجائے گی جو کشتی کی طوفان میں اور گرداب میں ہوتی ہے یا جیسے کوئی قندیل عرش میں لٹک رہی ہو جسے ہوائیں چاروں طرف جھلارہی ہوں ۔ آہ یہی وقت ہوگا کہ دودھ پلانے والیاں اپنے دودھ پیتے بچوں کو بھول جائیں گی اور حاملہ عورتوں کے حمل گر جائیں گے اور بچے بوڑھے ہوجائیں گے شیاطین بھاگنے لگیں گے زمین کے کناروں تک پہنچ جائیں گے لیکن وہاں سے فرشتوں کی مار کھا کر لوٹ آئیں گے لوگ ادھر ادھر حیران پریشان زمین ایک طرف سے دوسرے کو آوازیں دینے لگیں گے اسی لئے اس دن کا نام قرآن نے یوم التناد رکھا ۔ اسی وقت زمین ایک طرف سے دوسری طرف تک پھٹ جائے گی اس وقت زمین ایک طرف سے دوسری طرف تک پھٹ جائے گی اس وقت کی گھبراہٹ کا انداز نہیں ہوسکتا اب آسمان میں انقلابات ظاہر ہوں گے سورج چاند بےنور ہوجائیں گے ، ستارے جھڑنے لگیں گے اور کھال ادھڑنے لگے گی ۔ زندہ لوگ یہ سب کچھ دیکھ رہے ہوں گے ہاں مردہ لوگ اس سے بےخبر ہونگے آیت قرآن ( وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللّٰهُ ۭ ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ 68 ) 39- الزمر:68 ) میں جن لوگوں کا استثنا کیا گیا ہے کہ وہ بیہوش نہ ہوں گے اس سے مراد شہید لوگ ہیں ۔ یہ گھبراہٹ زندوں پر ہوگی شہید اللہ کے ہاں زندہ ہیں اور روزیاں پاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس دن کے شر سے نجات دے گا اور انہیں پر امن رکھے گا ۔ یہ عذاب الٰہی صرف بدترین مخلوق کو ہوگا ۔ اسی کو اللہ تعالیٰ اس سورت کی شروع کی آیتوں میں بیان فرماتا ہے ۔ یہ حدیث طبرانی جریر ابن ابی حاتم وغیرہ میں ہے اور بہت مطول ہے اس حصے کو نقل کرنے سے یہاں مقصود یہ ہے کہ اس آیت میں جس زلزلے کا ذکر ہے یہ قیامت سے پہلے ہوگا ۔ اور قیامت کی طرف اس کی اضافت بوجہ قرب اور نزدیکی کے ہے ۔ جیسے کہاجاتا ہے اشراط الساعۃ وغیرہ واللہ اعلم ۔ یا اس سے مراد وہ زلزلہ ہے جو قیام قیامت کے بعد میدان محشر میں ہوگا جب کہ لوگ قبروں سے نکل کرمیدان میں جمع ہوں گے ۔ امام ابن جریر اسے پسند فرماتے ہیں اس کی دلیل میں بھی بہت سی حدیثیں ہیں ( ١ ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے آپ کے اصحاب تیز تیز چل رہے تھے کہ آپ نے باآواز بلند ان دونوں آیتوں کی تلاوت کی ۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کان میں آواز پڑتے ہی وہ سب اپنی سواریاں لے کر آپ کے اردگرد جمع ہوگے کہ شاید آپ کچھ اور فرمائیں گے ۔ آپ نے فرمایا جانتے ہو یہ کونسا دن ہوگا ؟ یہ وہ دن ہوگا جس دن اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام کو فرمائے گا کہ اے آدم جہنم کا حصہ نکال ۔ وہ کہیں گے اے اللہ کتنوں میں سے کتنے ؟ فرمائے گا ہرہزار میں سے نو سو نناوے جہنم کے لئے اور ایک جنت کے لئے ۔ یہ سنتے ہی صحابہ کے دل دہل گئے ، چپ لگ گئی آپ نے یہ حالت دیکھ کر فرمایا کہ غم نہ کرو ، خوش ہوجاؤ ، عمل کرتے رہو ۔ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے تمہارے ساتھ مخلوق کی وہ تعداد ہے کہ جس کے ساتھ ہو اسے بڑھا دے یعنی یاجوج ماجوج اور نبی آدم میں سے جو ہلاک ہوگئے اور ابلیس کی اولاد ۔ اب صحابہ کی گھبراہٹ کم ہوئی تو آپ نے فرمایا عمل کرتے رہو اور خوشخبری سنو اس کی قسم جس کے قبضہ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے تم تو اور لوگوں کے مقابلے پر ایسے ہی ہو جیسے اونٹ کے پہلوکا یا جانور کے ہاتھ کا داغ ۔ اسی روایت کی اور سند میں ہے کہ یہ آیت حالت سفر میں اتری ۔ اس میں ہے کہ صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان سن کر رونے لگے آپ نے فرمایا قریب قریب رہو اور ٹھیک ٹھاک رہو ہر نبوت کے پہلے جاہلیت کا زمانہ رہا ہے وہی اس گنتی کو پوری کردے گا ورنہ منافقوں سے وہ گنتی پوری ہوگی ۔ اس میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ مجھے تو امید ہے کہ اہل جنت کی چوتھائی صرف تم ہی ہوگے یہ سن کر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ اکبر کہا ارشاد ہوا کہ عجب نہیں کہ تم تہائی ہو اس پر انہوں نے پھر تکبیر کہی آپ نے فرمایا مجھے امید ہے کہ تم ہی نصفا نصف ہوگے انہوں نے پھر تکبیر کہی ۔ راوی کہتے ہیں مجھے یاد نہیں کہ پھر آپ نے دوتہائیاں بھی فرمائیں یانہیں؟ اور روایت میں ہے کہ غزوہ تبوک سے واپسی میں مدینے کے قریب پہنچ کر آپ نے تلاوت آیت شروع کی ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جنوں اور انسانوں سے جو ہلاک ہوئے اور روایت میں ہے کہ تم تو ایک ہزار اجزا میں سے ایک جز ہی ہو ۔ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو پکارے گا وہ جواب دیں گے لبیک ربنا وسعدیک پھر آواز آئے گی کہ اللہ تجھے حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد میں جہنم کا حصہ نکال پوچھیں گے اللہ کتنا ؟ حکم ہوگا ہرہزار میں سے نو سو نناوے اس وقت حاملہ کے حمل گرجائیں گے ، بچے بوڑھے ہوجائیں گے ، اور لوگ حواس باختہ ہوجائیں گے کسی نشے سے نہیں بلکہ اللہ کے عذابوں کی سختی کی وجہ سے ۔ یہ سن کر صحابہ کے چہرے متغیر ہوگئے تو آپ نے فرمایا یاجوج ماجوج میں سے نو سو ننانوے اور تم میں سے ایک ۔ تم تو ایسے ہو جیسے سفید رنگ بیل کے چند سیاہ بال جو اس کے پہلو میں ہوں ۔ یامثل چند سفید بالوں کے جو سیاہ رنگ بیل کے پہلو میں ہوں ۔ پھر فرمایا مجھے امید ہے کہ تمام اہل جنت کی گنتی میں تمہاری گنتی چوتھے حصے کی ہوگی ہم نے اس پر تکبیر کہی پھر فرمایا آدھی تعداد میں باقی سب اور آدھی تعداد صرف تمہاری ۔ اور روایت میں ہے کہ تم اللہ کے سامنے ننگے پیروں ننگے بدن بےختنہ حاضر کئے جاؤ گے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم مرد عورتیں ایک ساتھ ؟ ایک دوسرے پر نظریں پڑیں گی ؟ آپ نے فرمایا عائشہ وہ وقت نہایت سخت اور خطرناک ہوگا ( بخاری ومسلم ) مسند احمد میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا دوست اپنے دوست کو قیامت کے دن یاد کرے گا ؟ آپ نے فرمایا عائشہ تین موقعوں پر کوئی کسی کو یاد نہ کرے گا ۔ اعمال کے تول کے وقت جب تک کمی زیادتی نہ معلوم ہوجائے ۔ اعمال ناموں کے اڑائے جانے کے وقت جب تک دائیں بائیں ہاتھ میں نہ آجائیں ۔ اس وقت جب کہ جہنم میں سے ایک گردن نکلے گی جو گھیرلے گی اور سخت غیظ وغضب میں ہوگی اور کہے گی میں تین قسم کے لوگوں پر مسلط کی گئی ہوں ایک تو وہ لوگ جو اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتے رہتے ہیں دوسرے وہ جو حساب کے دن پر ایمان نہیں لاتے اور تیسرے ہرسرکش ضدی متکبر پر پھر تو وہ انہیں سمیٹ لے گی اور چن چن کر اپنے پیٹ میں پہنچا دے گی جہنم پر پل صراط ہوگی جو بال سے باریک اور تلوار سے تیز ہوگی اس پر آنکس اور کانٹے ہوں گے جسے اللہ چاہے پکڑ لے گی اس پر سے گزرنے والے مثل بجلی کے ہوں گے مثل آنکھ جھپکنے کے مثل ہوا کے مثل تیزرفتار گھوڑوں اور اونٹوں کے فرشتے ہر طرف کھڑے دعائیں کرتے ہوں گے کہ اللہ سلامتی دے اللہ بچا دے پس بعض تو بالکل صحیح سالم گزر جائیں گے بعض کچھ چوٹ کھا کر بچ جائیں گے بعض اوندھے منہ جہنم میں گریں گے ۔ قیامت کے آثار میں اور اس کی ہولناکیوں میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ جن کی جگہ اور ہے ۔ یہاں فرمایا قیامت کا زلزلہ نہایت خطرناک ہے بہت سخت ہے نہایت مہلک ہے دل دہلانے والا اور کلیجہ اڑانے والا ہے زلزلہ رعب وگھبراہٹ کے وقت دل کے ہلنے کو کہتے ہیں جیسے آیت میں ہے کہ اس میدان جنگ میں مومنوں کو مبتلا کیا گیا اور سخت جھنجھوڑ دئے گئے ۔ جب تم اسے دیکھوگے یہ ضمیرشان کی قسم سے ہے اسی لئے اس کے بعد اس کی تفسیر ہے کہ اس سختی کی وجہ سے دودھ پلانے والی ماں اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور حاملہ کے حمل ساقط ہوجائیں گے ۔ لوگ بدحواس ہوجائیں گے ایسے معلوم ہوں گے جیسے کوئی نشے میں بدمست ہو رہا ہو ۔ دراصل وہ نشے میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کے عذابوں کی سختی نے انہیں بیہوش کررکھاہوگا ۔
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ :” النَّاسُ “ کے ساتھ مسلم و کافر اور آیت کے نزول کے وقت موجود یا بعد میں قیامت تک آنے والے تمام لوگ مخاطب ہیں۔ بعض لوگ ” يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ “ کے ساتھ سورت کے آغاز کو اس کے مکی ہونے کی دلیل بناتے ہیں مگر یہ قاعدہ کلی نہیں، کیونکہ مدنی سورتوں میں بھی ” يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ “ کے ساتھ خطاب آیا ہے، مثلاً سورة بقرہ میں ہے : ( يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ ) [ البقرۃ : ٢١ ] مفسرین کے مطابق اس سورت میں مدنی آیات بھی ہیں، مثلاً آیت (٣٩) : (اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُۨ ) اور مکی بھی، مگر وہ ملی جلی ہیں، الگ الگ ہر ایک کے مکی یا مدنی ہونے کی تعیین معلوم نہیں۔ (قرطبی)- اتَّقُوْا رَبَّكُمْ : تقویٰ کا معنی بچنا بھی ہے اور ڈرنا بھی، کیونکہ آدمی جس سے ڈرتا ہے اس سے بچتا ہے، یعنی اپنے اس محسن کے عذاب سے بچو جو پیدا کرنے سے لے کر اب تک تمہاری پرورش کر رہا ہے اور تم پر بیشمار احسان کر رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہر اس چیز سے بچو جو تمہیں اس کی سزا کا حق دار بنا سکتی ہے، خواہ وہ اس کے فرائض کا ترک ہو یا اس کے حرام کردہ کاموں کا ارتکاب، ان دونوں سے بچنا ہی اس کا تقویٰ ہے۔ - اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ زَلْزَلَةَ ” زَلْزَلَ یُزَلْزِلُ “ سے ” فَعْلَلَۃٌ“ کے وزن پر مصدر ہے، بہت سخت ہلانا۔ ” السَّاعَةِ “ کا لفظی معنی گھڑی اور لمحہ ہے۔ قیامت کو ” السَّاعَةِ “ اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ایک لمحے میں برپا ہوجائے گی۔ ” اِنَّ “ ایسے موقع پر اس سے پہلے والی بات کی وجہ بیان کرنے کے لیے آتا ہے، یعنی اپنے رب سے اس لیے ڈرو کہ قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔ اس میں مزید خوف کی بات یہ ہے کہ وہ صرف انسانی پیمانے کے مطابق عظیم نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اسے عظیم فرما رہے ہیں، اب اس کی عظمت اور ہولناکی کا کوئی اندازہ ہوسکتا ہے ؟- يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ : ” تَرَوْنَهَا “ میں ” ہَا “ کی ضمیر ” زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ “ میں ” زَلْزَلَةَ “ کی طرف بھی جاسکتی ہے، معنی یہ ہوگا کہ جس دن تم اس زلزلے کو دیکھو گے اور ” السَّاعَةِ “ کی طرف بھی، اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ جس دن تم اس قیامت کو دیکھو گے۔ ” ذُھُوْلٌ“ کا معنی ہے ایسی غفلت جس کے ساتھ دہشت یا خوف بھی ہو۔ ” مُرْضِعَةٍ “ عورت جس وقت بچے کو دودھ پلا رہی ہو اس وقت اسے ” مُرْضِعَۃٌ“ کہتے ہیں۔ وہ صفات جو صرف عورتوں میں پائی جاتی ہیں ان کے ساتھ ” تاء “ نہیں لگائی جاتی، مثلاً ” حَاءِضٌ، حَامِلٌ، مُرْضِعٌ“ ان کے ساتھ ” تاء “ اس وقت لگائی جاتی ہے جب وہ اس کام میں مصروف ہوں، مثلاً کوئی بھی عورت جو کسی بھی وقت دودھ پلاتی ہے ” مُرْضِعٌ“ کہلائے گی، ” مُرْضِعَۃٌ“ اس وقت ہوگی جس وقت وہ بچے کو دودھ پلا رہی ہو۔ مطلب اس وقت کی ہولناکی بیان کرنا ہے کہ دودھ پلانے والی عورت، جسے اپنے بچے سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں ہوتی، اس زلزلہ کی وجہ سے عین دودھ پلاتے ہوئے ایسی دہشت زدہ ہوگی کہ اسے اپنے بچے تک کی ہوش نہیں ہوگی۔- وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا : حاملہ عورت کو ” حَامِلٌ“ کہتے ہیں، مگر یہ لفظ بوجھ اٹھانے والے کسی بھی شخص پر بولا جاسکتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ” حَامِلٌ“ کی جگہ ” ذَاتِ حَمْلٍ “ (حمل والی) کا لفظ استعمال فرمایا۔ دوسری جگہ فرمایا : (وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ) [ الطلاق : ٤ ] ” حمل والی (عورتوں کو طلاق ہوجائے) تو ان کی عدت یہ ہے کہ وہ حمل وضع کرلیں۔ “ مراد قیامت یا قیامت کے زلزلے کی شدت کا بیان ہے کہ ہر حمل والی اپنا حمل (جو اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ” فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ “ بہت محفوظ ٹھکانے میں ہے) اس دن کی شدت کی وجہ سے گرا دے گی۔- وَتَرَى النَّاسَ سُكٰرٰي ۔۔ : ” سُكٰرٰي “ ” سَکْرَانٌ“ یا ” سَکِرٌ“ کی جمع ہے، جیسے ” کَسْلَانٌ“ کی جمع ” کُسَالٰی “ ہے، یعنی تم لوگوں کو دیکھو گے کہ وہ نشے میں ہیں، انھیں کچھ ہوش نہیں، حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے جس کی وجہ سے انھیں کوئی ہوش نہیں رہے گا۔ مفسر قاسمی (رض) نے ” سُكٰرٰي “ کو مجاز کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے، وہ فرماتے ہیں، مجاز وہ ہوتا ہے جو کسی چیز پر بولا بھی جاسکے اور اس کی نفی بھی ہو سکے، مثلاً حمزہ، سعد اور علی شیر تھے، یہ بھی درست ہے اور یہ بھی درست ہے کہ وہ شیر نہیں تھے۔ اسی طرح کسی کو بےسمجھی کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ فلاں گدھا ہے، جب کہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ گدھا نہیں ہے۔ - زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ : مفسرین میں اختلاف ہے کہ قیامت کے اس زلزلے سے کیا مراد ہے ؟ اس میں شک نہیں کہ قرآن مجید کی سب سے معتبر تفسیر وہ ہے جو خود قرآن میں آئی ہو، اس کے بعد وہ جو صحیح سند کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آئی ہو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس زلزلے کا موقع جو صحیح حدیث میں بیان ہوا ہے، وہ ہے جو ابوسعید خدری (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے، آپ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ فرمائیں گے، اے آدم وہ عرض کریں گے، لبیک وسعدیک بار بار حاضر ہوں، بار بار حاضر ہوں اور بھلائی ساری تیرے ہاتھ میں ہے۔ اللہ فرمائیں گے، آگ والی جماعت نکال کر الگ کر دو ۔ وہ کہیں گے، اور آگ والی جماعت کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے، ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ تو اس وقت بچہ بوڑھا ہوجائے گا : (وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكٰرٰي وَمَا هُمْ بِسُكٰرٰي وَلٰكِنَّ عَذَاب اللّٰهِ شَدِيْدٌ) ” اور ہر حمل والی اپنا حمل گرا دے گی اور تو لوگوں کو نشے والے دیکھے گا، حالانکہ وہ نشے والے نہیں ہوں گے اور لیکن اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔ “ تو یہ بات صحابہ پر بہت سخت گزری، انھوں نے کہا : ” یا رسول اللہ وہ آدمی ہم میں سے کون ہوگا ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” خوش ہوجاؤ کہ یاجوج ماجوج میں سے ایک ہزار ہوں گے اور تم میں سے ایک ہوگا۔ “ پھر فرمایا : ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تو امید رکھتا ہوں کہ تم اہل جنت کا تہائی حصہ ہو گے۔ “ راوی نے کہا، یہ سن کر ہم نے اللہ کی حمد کی اور تکبیر کہی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یقیناً میں امید رکھتا ہوں کہ تم اہل جنت کا نصف ہو گے۔ دوسری امتوں کے مقابلے میں تمہاری مثال سیاہ بیل کی جلد میں ایک سفید بال کی سی ہے یا جس طرح گدھے کے بازو کے اندرونی جانب ایک گول نشان ہوتا ہے۔ “ [ بخاري، الرقاق، باب ( ان زلزلۃ الساعۃ شیء عظیم ) ۔۔ : ٦٥٣٠۔- مسلم، الإیمان، باب قولہ : یقول اللہ لآدم أخرج بعث النار۔۔ : ٢٢٢ ] - یہ صحیح حدیث دلیل ہے کہ اس آیت میں مذکور زلزلے سے مراد وہ وقت ہے جب آدم (علیہ السلام) کو ایک ہزار میں سے نو سو نناوے آدمی جہنم کے لیے نکال کر الگ کرنے کا حکم ہوگا۔ اس وقت لوگوں پر ایسا زلزلہ طاری ہوگا، وہ ایسے شدید ہلائے جائیں گے اور اس قدر خوف زدہ ہوں گے کہ جس کا ذکر اس آیت میں آیا ہے۔ بعض لوگ اس حدیث کو آیت کا مصداق قرار دینے پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس وقت نہ کوئی حاملہ ہوگی اور نہ دودھ پلانے والی، تو حاملہ حمل کیسے گرائے گی اور دودھ پلانے والی اپنے بچے سے کیسے غافل ہوگی ؟ اس لیے اس آیت سے وہ وقت مراد نہیں، بلکہ ایک صاحب نے تسلیم کرکے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے، اسے ماننے سے انکار کردیا ہے۔ کوئی ایسے حضرات کو سمجھائے کہ کیا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کا علم نہیں تھا، پھر انھوں نے یہ کیوں فرمایا ؟ دراصل ایسے حضرات نے کلام کے اسلوب کو سمجھا ہی نہیں، یہ تو اس وقت کی ہولناکی اور شدت سے استعارہ ہے کہ اگر اس وقت حاملہ عورتیں ہوں تو سب کا حمل گرجائے گا اور اگر دودھ پلانے والیاں ہوں تو وہ اپنے بچے سے غافل ہوجائیں گی۔ اس سوال کا اس سے بھی مضبوط جواب یہ ہے کہ جابر (رض) نے فرمایا، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا : ( یُبْعَثُ کُلُّ عَبْدٍ عَلٰی مَا مَاتَ عَلَیْہِ ) [ مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمھا، باب الأمر بحسن الظن باللہ۔۔ : ٢٨٧٨ ] ” ہر بندہ اس حالت پر اٹھے گا جس پر فوت ہوا تھا۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ دودھ پلانے والیاں اور حمل والیاں صرف پہلے نفخہ کے وقت ہی اس حال میں نہیں ہوں گی بلکہ قیامت والے دن اٹھتے وقت بھی ان کی یہی حالت ہوگی۔ اس سے منکرین حدیث کا سوال سرے سے ختم ہوجاتا ہے۔ ابن جریر، بقاعی اور بہت سے مفسرین نے فرمایا کہ صحیح حدیث کے بعد کوئی اور تفسیر معتبر نہیں ہے۔ بعض مفسرین نے اس کا مصداق قیامت کا پہلا نفخہ لیا ہے اور صور میں تین نفخے بتائے ہیں، ایک نفخۂ فزع، ایک نفخۂ صعق اور ایک نفخۂ بعث۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے وہ زلزلہ مراد ہے جو پہلے نفخہ یعنی نفخۂ فزع سے پیدا ہوگا، کیونکہ قیامت کو تو نہ کوئی حاملہ ہوگی اور نہ دودھ پلانے والی۔ اس نفخے سے ہر چیز درہم برہم ہوجائے گی، اس وقت جو بھی دودھ پلانے والی عورت ہوگی وہ اپنے بچے کو دودھ پلانے سے غافل ہوجائے گی۔ علقمہ اور شعبی کا بھی یہی قول ہے۔ طبری نے ابوہریرہ (رض) سے اس قول پر مشتمل مرفوع حدیث یہ کہہ کر نقل کی ہے کہ اس کی اسناد میں نظر ہے (کیونکہ اس میں دو راوی مجہول ہیں) ۔ طبری فرماتے ہیں : ” یہ قول ہی اصل قول ہوتا اگر صحیح احادیث اس کے خلاف نہ آتیں، کیونکہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی وحی اور قرآن کے معانی کا سب سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ “ علاوہ ازیں تحقیق یہی ہے کہ نفخے دو ہی ہیں، تین نفخوں والی یہ روایت ثابت نہیں۔ امام بقاعی اور صاحب احسن التفسیر نے ایک بہت اچھی بات فرمائی ہے : ” عین ممکن ہے کہ ” وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكٰرٰي وَمَا هُمْ بِسُكٰرٰي وَلٰكِنَّ عَذَاب اللّٰهِ شَدِيْدٌ“ سے یہ زلزلہ بھی مراد ہو جو آدم (علیہ السلام) کو اہل نار کے الگ نکالنے کے حکم کے وقت پیدا ہوگا اور اس سے پہلے کے زلزلے بھی (یعنی صور میں پہلی پھونک کا زلزلہ اور دوبارہ پھونک کا زلزلہ، جس سے سب لوگ زندہ ہو کر محشر کی طرف دوڑیں گے) کیونکہ قیامت کا دن بہت لمبا (پچاس ہزار سال کا) ہے تو ہر زلزلے کی نسبت قیامت کی طرف درست ہے۔ “ اب اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس طویل دن میں کتنے زلزلے برپا ہوں گے جو سب کے سب ” وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكٰرٰي وَمَا هُمْ بِسُكٰرٰي وَلٰكِنَّ عَذَاب اللّٰهِ شَدِيْدٌ“ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل و کرم سے اپنی پناہ میں رکھے۔
خلاصہ تفسیر - اے لوگو اپنے رب سے ڈرو (اور ایمان و اطاعت اختیار کرو کیونکہ) یقیناً قیامت کا زلزلہ بڑی بھاری چیز ہوگی (جس کا آنا ضروری ہے اس روز کے شدائد سے بچنے کی اب فکر کرو جس کا طریقہ تقویٰ ہے آگے اس زلزلہ کی شدت کا بیان ہے) جس روز تم لوگ اس (زلزلہ) کو دیکھو گے اس روز (یہ حال ہوگا کہ) تمام دودھ پلانے والیاں (ہیبت و دہشت کی وجہ سے) اپنے دودھ پیتے (بچہ) کو بھول جاویں گی اور تمام حمل والیاں اپنا حمل (دن پورے ہونے سے پہلے) ڈال دیں گی اور تجھ کو (اے مخاطب) لوگ نشہ کی سی حالت میں دکھائی دیں گے حالانکہ وہ نشہ میں نہ ہوں گے (کیونکہ وہاں کسی نشہ کی چیز استعمال کرنے کا کوئی امکان و احتمال ہی نہیں) لیکن اللہ کا عذاب ہی سخت چیز ہے (جس کے خوف کی وجہ سے ان کی حالت نشہ والے کی سی ہوجاوے گی) ۔- معارف و مسائل - خصوصیات سورت :- اس سورت کے مکی یا مدنی ہونے میں مفسرین کا اختلاف ہے حضرت ابن عباس ہی سے دونوں روایتیں منقول ہیں۔ جمہور مفسرین کا قول یہ ہے کہ یہ سورت آیات مکیہ اور مدنیہ سے مخلوط سورت ہے۔ قرطبی نے اسی کو اصح قرار دیا ہے۔ نیز فرمایا کہ اس سورت کے عجائب میں سے یہ بات ہے کہ اس کی آیات کا نزول بعض کا رات میں، بعض کا دن میں، بعض کا سفر میں، بعض کا حضر میں، بعض کا مکہ میں، بعض کا مدینہ میں، بعض کا جنگ و جہاد کے وقت اور بعض کا صلح و امن کی حالت میں ہوا ہے اور اس میں بعض آیتیں ناسخ ہیں اور بعض منسوخ، بعض محکم ہیں بعض متشابہ کیونکہ تمام اصناف تنزیل پر مشتمل ہے۔- يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ ، یہ آیت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بحالت سفر نازل ہوئی تو آپ نے بلند آواز سے اس کی تلاوت شروع فرمائی۔ رفقاء سفر صحابہ کرام آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سن کر جمع ہوگئے۔ آپ نے صحابہ کرام کو خطاب کر کے فرمایا کہ زلزلہ قیامت جس کا ذکر اس آیت میں ہے آپ جانتے ہیں کہ کس دن میں ہوگا صحابہ کرام نے عرض کیا اللہ اور رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ وہ دن ہوگا جس میں اللہ تعالیٰ آدم (علیہ السلام) سے خطاب کر کے فرماویں گے کہ جہنم میں جانے والوں کو اٹھائیے۔ آدم (علیہ السلام) دریافت کریں گے کہ وہ جہنم میں جانے والے کون لوگ ہیں تو حکم ہوگا کہ ہر ایک ہزار میں نو سو ننانوے، اور فرمایا کہ یہی وہ وقت ہوگا کہ ہول اور خوف سے بچے بوڑھے ہوجاویں گے اور حمل والی عورتوں کا حمل ساقط ہوجاوے گا۔ صحابہ کرام یہ سن کر سہم گئے اور پوچھنے لگے پھر یا رسول اللہ ہم میں سے وہ کون ہوگا جو نجات پائے تو فرمایا کہ تم بےفکر رہو جہنم میں جانے والا یاجوج ماجوج میں سے ایک ہزار اور تم میں سے ایک ہوگا۔ یہ مضمون صحیح مسلم وغیرہ کی روایات میں ابو سعید خدری سے مروی ہے اور بعض روایات میں ہے کہ اس روز تم ایسی دو مخلوقوں کے ساتھ ہوگے کہ وہ جب کسی جماعت کے ساتھ ہوں تو وہی تعداد میں غالب اور اکثر رہیں گے۔ ایک یاجوج ماجوج اور دوسرے ابلیس اور اس کی ذریت اور اولاد آدم میں سے جو لوگ پہلے مر چکے ہیں (اس لئے نو سو ننانوے میں بڑی تعداد انہیں کی ہوگی) تفسیر قرطبی وغیرہ میں یہ سب روایات نقل کی ہیں۔- زلزلہ قیامت کب ہوگا : - قیامت قائم ہونے اور لوگوں کے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد یا اس سے پہلے، بعض نے فرمایا کہ یہ قیامت سے پہلے اسی دنیا میں ہوگا اور قیامت کی آخری علامت میں شمار ہوگا جس کا ذکر قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں آیا ہے۔ اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَا۔ وَّحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَّاحِدَةً ۔ اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا وغیرہ۔ اور بعض حضرات نے حدیث مذکور جس میں آدم (علیہ السلام) کو خطاب کرنے کا ذکر ہے اس سے استدلال کرتے ہوئے یہ قرار دیا ہے کہ زلزلہ حشر و نشر اور دوبارہ زندہ ہونے کے بعد ہوگا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ دونوں میں کوئی منافات نہیں۔ قیامت سے پہلے زلزلہ ہونا بھی آیات قرآن اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور حشر و نشر کے بعد ہونا اس حدیث مذکور سے ثابت ہے واللہ اعلم۔- اس زلزلہ قیامت کی جو کیفیت آگے آیت میں ذکر کی گئی ہے کہ تمام حمل والی عورتوں کے حمل ساقط ہوجاویں گے اور دودھ پلانے والی عورتیں اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جاویں گی۔ اگر یہ زلزلہ اسی دنیا میں قبل القیامة ہے تو ایسا واقعہ پیش آنے میں کوئی اشکال نہیں اور اگر حشر و نشر قیامت کے بعد ہے تو اس کی توجیہ یہ ہوگی کہ جو عورت اس دنیا میں حالت حمل میں مری ہے قیامت کے روز اسی حالت میں اس کا حشر ہوگا۔ اور جو دودھ پلانے کے زمانے میں مر گئی ہے وہ اسی طرح بچے کے ساتھ اٹھائی جائے گی (کما ذکرہ القرطبی) واللہ اعلم
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ ٠ۚ اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ ١- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- زلزل - : الاضطراب، وتكرير حروف لفظه تنبيه علی تكرير معنی الزّلل فيه، قال : إِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها[ الزلزلة 1] ، وقال : إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ [ الحج 1] ، وَزُلْزِلُوا زِلْزالًا شَدِيداً [ الأحزاب 11] ، أي : زعزعوا من الرّعب .- التزلزل اس کے معنی اضطراب کے ہیں اور اس میں تکرار حروف تکرار معنی پر دال ہے قرآن میں ہے : ۔ إِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها[ الزلزلة 1] جب زمین بڑے زور سے ہلائی جائے گی ۔ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ [ الحج 1] بیشک قیامت کا زلزلہ بڑی ( سخت ) مصیبت ہوگی ۔ وَزُلْزِلُوا زِلْزالًا شَدِيداً [ الأحزاب 11] اور وہ ( دشمنوں کے رعب سے ) خوب ہی جھڑ جھڑائے گئے ۔- ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔
(١) یہ خطاب خاص وعام دونوں طریقوں پر ہوتا ہے باقی اس مقام پر عام ہے کہ اے لوگو اپنے رب سے ڈرو اور اس کی اطاعت کرو کیوں کہ قیامت کا زلزلہ ایک بڑی خوفناک چیز ہوگی۔
آیت ١ (یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْج اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ ) ” - سورۃ الانبیاء کا اختتام ” الفزع الاکبر “ (قیامت کی عظیم پریشانی ) کے تذکرے پر ہوا تھا۔ اب سورة الحج کا آغاز بھی اسی کیفیت کے ذکر سے ہو رہا ہے۔
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :1 یہ زلزلہ قیامت کی ابتدائی کیفیات میں سے ہے اور اغلب یہ ہے کہ اس کا وقت وہ ہو گا جبکہ زمین یکایک الٹی پھرنی شروع ہو جائے گی اور سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو گا ۔ یہ بات قدیم مفسرین میں سے عَلْقَمہ اور شعبی نے بیان کی ہے کہ: یکون ذٰلک عند طلوع الشمس من مغربھا ۔ اور یہی بات اس طویل حدیث سے معلوم ہوتی ہے جو ابن جریر اور طبرانی اور ابن ابی حاتم وغیرہ نے حضرت ابو ہریرہ کی روایت سے نقل کی ہے ۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ نفخ صور کے تین مواقع ہیں ۔ ایک نفخ فَزَع ، دوسرا نفخ صَعْق اور تیسرا نفخ قیام لرب العالمین ۔ یعنی پہلا نفخ عام سراسیمگی پیدا کرے گا ، دوسرے نفخ پر سب مر کر گر جائیں گے اور تیسرے نفخ پر سب لوگ زندہ ہو کر خدا کے حضور پیش ہو جائیں گے ۔ پھر پہلے نفح کی تفصیلی کیفیت بیان کرتے ہوئے آپ بتاتے ہیں کہ اس وقت زمین کی حالت اس کشتی کی سی ہو گی جو موجوں کے تھپیڑے کھا کر ڈگمگا رہی ہو ، یا اس معلق قندیل کی سی جس کو ہوا کے جھونکے بری طرح جھنجھوڑ رہے ہوں ۔ اس وقت زمین کی آبادی پر جو کچھ گزرے گی اس کا نقشہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر کھینچا گیا ہے ۔ مثلاً : فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃً وَحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَّاحِدَۃً فَیَوْمَئِذٍ وَّ قَعَتِ الْوَاقِعَۃُ ( الحاقہ ) پس جب صور میں ایک پھونک ماردی جائے گی اور زمین اور پہاڑ اٹھا کر ایک ہی چوٹ میں توڑ دیے جائیں گے تو وہ واقعہ عظیم پیش آ جائے گا ۔ اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَھَا وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَالَھَا ( الزلزال ) جب کہ زمین پوری کی پوری ہلا ماری جائے گی ، اور وہ اپنے پیٹ کے بوجھ نکال پھینکے گی ، اور انسان کہے گا یہ اس کو کیا ہو رہا ہے ۔ یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَۃُ تَتْبَعُھَا الرَّادِفَۃ قُلُوْ بٌ یُّوْمَئِذٍ وَّاجِفَۃٌ اَبْصَارُھَا خَاشِعَۃٌ ( النٰزعات 1 ) جس روز ہلا مارے گا زلزلے کا ایک جھٹکا اور اس کے بعد دوسرا جھٹکا ، اس دن دل کانپ رہے ہوں گے اور نگاہیں خوف زدہ ہوں گی ۔ اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا وَّ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا فَکَانَتْ ھَبَآءً مَّنْبَثًّا ( الواقعہ 1 ) جس روز زمین جھنجھوڑ ڈالی جائے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر غبار کی طرح اڑنے لگیں گے ۔ فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَاِ السَّمَآءُ مُنْفَطِرٌ بِہ ( المزمل ۔ 1 ) اگر تم نے پیغمبر کی بات نہ مانی تو کیسے بچو گے اس دن کی آفت سے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا اور جس کی شدت سے آسمان پھٹا پڑتا ہو گا ۔ اگرچہ بعض مفسرین نے اس زلزلے کا وقت وہ بتایا ہے جبکہ مردے زندہ ہو کر اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے اور اس کی تائید میں متعدد احادیث بھی نقل کی ہیں ، لیکن قرآن کا صریح بیان ان روایات کو قبول کرنے میں مانع ہے قرآن اس کا وقت وہ بتا رہا ہے جبکہ مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتے پلاتے چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوں گی ، اور پیٹ والیوں کے پیٹ گر جائیں کے ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ آخرت کی زندگی میں نہ کوئی عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہو گی اور نہ کسی حاملہ کے وضع حمل یا اسقاط کا کوئی موقع ہو گا ، کیونکہ قرآن کی واضح تصریحات کی رو سے وہاں سب رشتے منقطع ہو چکے ہوں گے اور ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت سے خدا کے سامنے حساب دینے کے لیے کھڑا ہوگا ۔ لہٰذا قابل ترجیح وہی روایات ہے جو ہم نے پہلے نقل کی ہے ۔ اگرچہ اس کی سند ضعیف ہے مگر قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کو دور کر دیتی ہے ۔ اور یہ دوسری روایات گو سنداً قوی تر ہیں ، لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدم مطابقت ان کو ضعیف کر دیتی ہے ۔