2۔ 1 آیت مذکورہ میں جس زلزلے کا ذکر ہے، جس کے نتائج دوسری آیت میں بتلائے گئے ہیں جس کا مطلب لوگوں پر سخت خوف، دہشت اور گھبراہٹ کا طاری ہونا، یہ قیامت سے قبل ہوگا اور اس کے ساتھ دنیا فنا ہو جائیگی۔ یا یہ قیامت کے بعد اس وقت ہوگا جب قبروں سے اٹھ کر میدان محشر میں جمع ہوں گے۔ بہت سے مفسرین پہلی رائے کے قائل ہیں۔ جبکہ بعض مفسرین دوسری رائے کے اور اس کی تائید میں وہ احادیث پیش کرتے ہیں مثلا اللہ تعالیٰ آدم (علیہ السلام) کو حکم دے گا کہ وہ اپنی ذریت میں سے ہزار میں 999 جہنم کے لیے نکال دے۔ یہ بات سن کر حمل والیوں کے حمل گرجائیں گے بچے بوڑھے ہوجائیں گے اور لوگ مدہوش سے نظر آئیں گے حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہونگے صرف عذاب کی شدت ہوگی یہ بات صحابہ پر بڑی گراں گزری ان کے چہرے متغیر ہوگئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دیکھ کر فرمایا (گھبراؤ نہیں) یہ 999 یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے اور تم میں سے صرف ایک ہوگا۔ تمہاری (تعداد) لوگوں میں اس طرح ہوگی جیسے سفید رنگ کے بیل کے پہلو میں کالے بال یا کالے رنگ کے بیل کے پہلو میں سفید بال ہوں اور مجھے امید ہے کہ اہل جنت میں تم چوتھائی یا تہائی یا نصف ہو گے جسے سن کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بطور مسرت کے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا (صحیح بخاری تفسیر سورة حج) پہلی رائے بھی بےوزن نہیں ہے بعض ضعیف احادیث سے ان کی بھی تائید ہوتی ہے اس لئے زلزلہ اور اس کی کیفیات سے مراد اگر فزع اور ہولناکی کی شدت ہے (ظاہر یہی ہے) تو سخت گھبراہٹ اور ہولناکی کی یہ کیفیت دونوں موقعوں پر ہی ہوگی اس لیے دونوں ہی رائیں صحیح ہوسکتی ہیں کیونکہ دونوں موقعوں پر لوگوں کی کیفیت ایسی ہوگی جیسی اس آیت میں اور صحیح بخاری کی روایت میں بیان کی گئی ہے۔
[١] علم ہئیت کے موجودہ نظریہ کے مطابق ہماری زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ سورج سے زمین کا فاصلہ ٩ کروڑ ٣٠ لاکھ میل ہے۔ اور زمین سورج کے گرد قصے عرصہ میں ایک چکر ختم کرتی ہے اسے ہم سال کا عرصہ کہتے ہیں۔ اس حساب سے ہماری زمین سورج کے گرد چھیاسٹھ ہزار چھ سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے۔ پھر اس فضائے بسیط میں صرف ہماری زمین ہی محو گردش نہیں بلکہ تمام سیارے اسی طرح گردش میں مصروف ہیں۔ ان سب کے مدار الگ الگ ہیں اور ان سیاروں میں کشش، جذب و انجذاب رکھ دی گئی ہے۔ جن کی وجہ سے ان میں ٹکراؤ پیدا ہیں ہوتا۔ اور یہ سب کام اللہ تعالیٰ کے کنٹرول اور اس کی تدبیر کے تحت ہو رہے ہیں۔ ہر سیارہ اور ہر چیز اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین کی اس شدت سے پابند ہے کہ ان کی رفتار سرمو فرق آتا ہے اور نہ ہی ان میں ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے اور یہ سب ایسے امور ہیں جنہیں ہر انسان بجش خود دیکھ رہا اور ان کی شہادت دے رہا ہے۔ قریب قیامت کی علامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا۔ بالفاظ دیگر سورج الٹی چال چلنے لگے گا۔ جسے ہم موجودہ نظریہ کے مطابق یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ زمین الٹی چال چلنے لگے گی اور بعض سیاروں کے الٹی چال چلنے کا نظریہ ہیئت دانوں میں مصروف ہے۔ بطلیموس نظریہ کے مطابق پانچ سیارے زحل، مشتری، مریخ، زہرہ، عطارد ایسے ہیں جو سیدھی چال چلتے چلتے الٹی چال چلنے لوتے ہیں۔ پھر کچھ مدت بعد سیدھی چال چلنے لگتے ہیں۔ اور ان سیاروں کو خمسہ متحیرہ کہتے ہیں۔ الٹی چال چلنے اور پھر سیدھی چال پر رواں ہونے کی تصدیق قرآن کریم کی درج ذیل آیت سے بھی ہوجاتی ہے۔- (فَلَآ اُقْسِمُ بالْخُنَّسِ 15 ۙ ) 81 ۔ التکوير :15) سو میں ان ستاروں کی قسم کھاتا ہوں جو سیدھی چال چلتے چلتے یکدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں (اور) ان کی جو سیدھی چال چلتے تھوڑا سے ہٹ جاتے ہیں (اور ان کی بھی) جو غائب ہوجاتے ہیں - پھر جب اللہ تعالیٰ قیامت بپا کرنے کا ارادہ فرمائے گا تو صرف اتنا ہی ہوگا کہ کسی ایک سیارہ سے کشش جذب و انجذاب کو سلب کرلے اور ہماری زمین کسی دوسرے سیارے سے ٹکڑا کر پاش پاش ہوجائے۔ اب آپ اندازہ فرمائیے کہ اگر دو ریل گاڑیاں یا دو تیز رفتار بسیں آپس میں ٹکرا جائیں تو کیا حشر بپا ہوتا ہے۔ اور جب ہماری زمین جو چھیاسٹھ ہزار چھ سو میل فی گھنٹہ کی سی برق رفتاری سے محو گردش ہے۔ کم و بیش اسی رفتار والے سیارے سے ٹکڑا جائے گی تو کیا حشر بپا ہوگا۔ یہی منظر ان دو آیات میں پیش کیا گیا ہے کہ اس دھماکہ کی دہشت سے ہر حاملہ کا حمل ساقط ہوجائے گا اور لوگ یوں مخبوط الحواس ہوجائیں گے جیسے کوئی نشہ آور چیز پی رکھی ہے۔ اس منظر کی ہولناکی کو بعض دوسری آیات میں یوں پیش کیا گیا ہے اس وقت زمین کو ریزہ ریزہ اور پاش پاش کردیا جائے گا (٨٩: ٢١) زمین اپنے خزانے جیسے تیل، گیسیں اور معدنیات وغیرہ اپنے اندر سے نکال کر باہر پھینک دے گی اور خالی ہوجائے گی (٨٤: ٤) پہاڑ دھنکی ہوئی روئی کی طرح اڑتے پھریں گے اور لوگ یوں بدحواس ایک دوسرے پر گرتے پڑتے ہوں گے جیسے روشنی کے گرد پتنگے گرے پڑتے ہیں (١٠١: ٤۔ ٥) غرض قیامت کے واقع ہونے پر دہشت اور ہولناکی کے منظر کو قرآن میں اور بھی بہت سے مقامات پر ذکر کیا گیا ہے۔- قیامت کا دن دراصل ایک طویل دور کا نام ہے اور از روئے قرآن اس دن کی مدت ہمارے موجودہ حساب کے مطابق پچاس ہزار سال ہے۔ اس طویل عرصہ میں کئی اوقات ایسے آئیں گے جن کی دہشت اور ہولناکی اور گھبراہٹ اسی طرح کی ہوگی۔ چناچہ درج ذیل حدیث میں جس دہشت اور گھبراہٹ کا ذکر ہے وہ یقیناً قیامت کے بپا ہونے کا موقع نہیں بلکہ کوئی اور ہی وقت ہے۔ اور اس دہشت اور گھبراہٹ کا سبب بھی قیامت کا زلزلہ یا دھماکہ نہیں بلکہ اس کا سبب جہنم میں جانے کا خدشہ ہے۔- حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آدم سے فرمائے گا اے آدم وہ کہیں گے پروردگار میں حاضر ہوں جو ارشاد ہو پھر ایک فرشتہ آواز سے پکارے گا اللہ تعالیٰ انھیں حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد سے دوزخ جانے والوں کا حصہ نکالو وہ عرض کریں گے : پروردگار دوزخ کے لئے کتنا حصہ (نکالوں ؟ ) راوی کہتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے فرمایا : ایک ہزار میں سے نو ننانوے یہ ایسا سخت وقت ہوگا کہ حاملہ اپنا حمل گرا دے گی اور بچہ بوڑھا ہوجائے گا اور تم لوگوں کو مدہوش دیکھو گے حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی برا سخت ہوگا یہ بات صحابہ پر بہت دشوار گزری اور ان کے چہرے متغیر ہوگئے تو آپ نے فرمایا کہ : نو سوننانوے تو یاجوج و ماجوج سے ہوں گے اور ایک تم سے ہوگا پھر تم تو تمام خلقت میں ایسے ہوگے جیسے کسی سفید بیل کے پہلو میں ایک کالا بال ہو یا کسی کالے بیل کے پہلو میں ایک سفید بال ہو۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ تم سب لوگ اہل جنت کا چوتھا حصہ ہوگے (یہ سن کر خوشی سے) ہم نے اللہ اکبر کہا۔ پھر آپ نے فرمایا : تم جنت کا تیسرا حصہ ہوگے ہم نے پھر اللہ اکبر پکارا۔ پھر آپ نے فرمایا : تم اہل جنت کا آدھا حصہ ہوگے ہم نے پھر اللہ اکبر کہا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)
يَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ كُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا وَتَرَى النَّاسَ سُكٰرٰي وَمَا ہُمْ بِسُكٰرٰي وَلٰكِنَّ عَذَابَ اللہِ شَدِيْدٌ ٢- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - ذهل - قال تعالی: يَوْمَ تَرَوْنَها تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ [ الحج 2] ، الذّهول : شغل يورث حزنا ونسیانا، يقال : ذَهَلَ عن کذا وأَذْهَلَهُ كذا .- ( ذ ھ ل ) الذھول ( ف) ایسی مشغولیت جو غم و نسیان کی موجب ہو کہا جاتا ہے ۔ ذھل عن کذا ۔ وہ اس سے غافل ہوگیا ۔ اذھلتہ کزا ۔ فلان چیز نے غافل کردیا ۔ قرآن میں ہے ۔ يَوْمَ تَرَوْنَها تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ [ الحج 2] ( اے مخاطب ) جس دن تو اس کو دیکھے گا ۔ ( اس دن یہ حال ہوگا کہ ) تمام دودھ پلانے والی عورتیں اپنے بچوں کو بھول جائیں گی ۔- رضع - يقال : رَضَعَ المولود يَرْضِعُ «1» ، ورَضِعَ يَرْضَعُ رَضَاعاً ورَضَاعَةً ، وعنه استعیر : لئيم رَاضِعٌ: لمن تناهى لؤمه، وإن کان في الأصل لمن يرضع غنمه ليلا، لئلّا يسمع صوت شخبه «2» ، فلمّا تعورف في ذلک قيل : رَضُعَ فلان، نحو : لؤم، وسمّي الثّنيّتان من الأسنان الرَّاضِعَتَيْنِ ، لاستعانة الصّبيّ بهما في الرّضع، قال تعالی:- وَالْوالِداتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كامِلَيْنِ لِمَنْ أَرادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضاعَةَ [ البقرة 233] ، فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَ [ الطلاق 6] ، ويقال : فلان أخو فلان من الرّضاعة، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «يحرم من الرَّضَاعِ ما يحرم من النّسب» «3» ، وقال تعالی: وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلادَكُمْ [ البقرة 233] ، أي : تسومونهنّ إرضاع أولادکم .- ( ر ض ع ) بچے کا دودھ پینا ۔ اسی سے استعارہ کے طور پر انتہائی کمینے کو لئیم راضع کہا جاتا ہے ۔ درا صل یہ لفظ اس کنجوس شخص پر بولا جاتا ہے جو انتہائی بخل کی وجہ سے رات کے وقت اپنی بکریوں کے پستانوں سے دودھ چوس لے تاکہ کوئی ضرورت مند دودھ دوہنے کی آواز سنکر سوال نہ کرے ۔ پھر اس سے رضع فلان بمعنی لئم استعمال ہونے لگا ہے راضعتان بچے کے اگلے دو دانت جن کے ذریعے وپ مال کی چھاتی سے دودھ چوستا ہے ۔ اور ارضاع ( افعال ) کے معنی دودھ پلانا کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْوالِداتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كامِلَيْنِ لِمَنْ أَرادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضاعَةَ [ البقرة 233] اور جو شخص پوری مدت تک دودھ پلانا چاہے تو اس کی خاطر مائیں اپنی اولاد کو پورے دو برس دودھ پلائیں ۔ نیز فرمایا : ۔ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَ [ الطلاق 6] اگر وہ ( بچے کو ) تمہارے لئے دودھ پلانا چاہیں تو انہیں ان کی دودھ پلائی دو ۔ عام محاورہ ہے : ۔ فلان اخوہ من الرضاعۃ : ( بضم الراء ) وہ فلاں کا رضاعی بھائی ہے ۔ حدیث میں ہے : یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من النسب ۔ جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں وہ بوجہ رضاعت کے بھی حرام ہوجاتے ہیں ۔ الاسترضاع کسی سے دودھ پلوانا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلادَكُمْ [ البقرة 233] اگر تم اپنی اولاد کو ( کسی دایہ سے ) دودھ پلوانا چاہو ۔ یعنی انہیں مزدوری دے کر دودھ پلوانے کا ارادہ ہو ۔- وضع - الوَضْعُ أعمّ من الحطّ ، ومنه : المَوْضِعُ. قال تعالی: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ- [ النساء 46] ويقال ذلک في الحمل والحمل، ويقال : وَضَعَتِ الحملَ فهو مَوْضُوعٌ. قال تعالی: وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] ، وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] فهذا الوَضْعُ عبارة عن الإيجاد والخلق، ووَضَعَتِ المرأةُ الحمل وَضْعاً. قال تعالی: فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] فأما الوُضْعُ والتُّضْعُ فأن تحمل في آخر طهرها في مقبل الحیض . ووَضْعُ البیتِ : بناؤُهُ. قال اللہ تعالی:- إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] ، وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] هو إبراز أعمال العباد نحو قوله : وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] ووَضَعَتِ الدابَّةُ تَضَعُ في سيرها وَضْعاً : أسرعت، ودابّة حسنةُ المَوْضُوعِ ، وأَوْضَعْتُهَا : حملتها علی الإسراع . قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] والوَضْعُ في السیر استعارة کقولهم : ألقی باعه وثقله، ونحو ذلك، والوَضِيعَةُ : الحطیطةُ من رأس المال، وقد وُضِعَ الرّجلُ في تجارته يُوضَعُ : إذا خسر، ورجل وَضِيعٌ بيّن الضعَةِ في مقابلة رفیع بيّن الرّفعة .- ( و ض ع ) الواضع - ( نیچے رکھ دینا ) یہ حطه سے عام ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] اور آبخورے ( قرینے سے ) رکھے ہوئے ۔ اور اسی سے موضع ہے جس کی جمع مواضع آتی - ہے جس کے معنی ہیں جگہیں یا موقعے جیسے فرمایا : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب ) کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ۔ اور وضع کا لفظ وضع حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں آتا ہے چناچہ محاورہ ہے وضعت لمرءۃ الحمل وضعا عورت نے بچہ جنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار میرے تو لڑکی ہوئی ہے ۔ لیکن الوضع والتضع کے معنی عورت کے آخر طہر میں حاملہ ہونے کے ہیں ۔ وضعت الحمل میں نے بوجھ اتار دیا اور اتارے ہوئے بوجھ کو موضوع کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی ۔ میں وضع سے مراد خلق وایجا د ( یعنی پیدا کرنا ) ہے اور وضع البیت کے معنی مکان بنانے کے آتے ہیں چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے بنایا کیا گیا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] اور عملوں کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی ۔ میں وضع کتاب سے قیامت کے دن اعمال کے دفتر کھولنا اور ان کی جزا دینا مراد ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] اور قیامت کے دن وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا ۔ وضعت ( ف ) الدابۃ فی سیر ھا : سواری تیز رفتاری سے چلی اور تیز رفتار سواری کو حسنتہ المواضع ( وحسن المواضع کہا جاتا ہے ۔ اوضع تھا میں نے اسے دوڑایا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] اور تم میں ( فساد دلوانے کی غرض ) سے دوڑے دوڑے پھرتے ۔ اور وضع کا لفظ سیر یعنی چلنے کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ القی باعہ وثقلہ : میں قیام کرنے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ الوضیعۃ :( رعایت ) کمی جو اصل قمیت میں کی جائے اس نے تجارت میں نقصان اٹھایا رجل وضیع : نہایت خسیس آدمی ( باب کرم ) یہ رفیع کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بلند قدر کے ہیں ۔ - حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- سكر - السُّكْرُ : حالة تعرض بيت المرء وعقله، وأكثر ما يستعمل ذلک في الشّراب، وقد يعتري من الغضب والعشق، ولذلک قال الشاعر :- 237-- سکران : سکر هوى، وسکر مدامة- «2» ومنه : سَكَرَاتُ الموت، قال تعالی: وَجاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ [ ق 19] ، والسَّكَرُ :- اسم لما يكون منه السّكر . قال تعالی: تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَراً وَرِزْقاً حَسَناً [ النحل 67] ، والسَّكْرُ : حبس الماء، وذلک باعتبار ما يعرض من السّدّ بين المرء وعقله، والسِّكْرُ : الموضع المسدود، وقوله تعالی: إِنَّما سُكِّرَتْ أَبْصارُنا - [ الحجر 15] ، قيل : هو من السَّكْرِ ، وقیل : هو من السُّكْرِ- ( س ک ر )- السکر ۔ اصل میں اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان اور اس کی عقل کے درمیان حائل ہوجاتی ہے اس کا عام استعمال شراب کی مستی پر ہوتا ہے اور کبھی شدت غضب یا غلبہ یا غلبہ عشق کی کیفیت کو سکر سے تعبیر کرلیا جاتا ہے اسی لئے شاعر نے کہا ہے ( 231 ) سکران ھوی وسکر مدامۃ نشے دو ہیں ایک نشہ محبت اور دوسرا نشہ شراب اور اسی سے سکرت الموت ( موت کی بیہوشی ) ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَجاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ [ ق 19] اور موت کی بےہوشی کھولنے کو طاری ہوگئی ۔ السکرۃ ( بفتح السین والکاف ) نشہ آور چیز ۔ قرآن میں ہے : ۔ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَراً وَرِزْقاً حَسَناً [ النحل 67] کہ ان سے شراب بناتے ہو اور عمدہ رزق رکھا تے ہو ) اور شراب سے انسان اور اس کی عقل کے درمیان بھی چونکہ دیوار کی طرح کوئی چیز حائل ہوجاتی ہے اس اعتبار سے سکر کے معنی پانی کو بند لگانے اور روکنے کے آجاتے ہیں اور اس بند کو جو بانی روکنے - کے لئے لگایا جائے سکر کہا جاتا ہے ( یہ فعل بمعنی مفعول ہے ) اور آیت : ۔ إِنَّما سُكِّرَتْ أَبْصارُنا[ الحجر 15] کہ ہماری آنکھیں مخمور ہوگئی ہیں ۔ میں سکرت بعض کے نزدیک سک سے ہے اور بعض نے سکرا سے لیا ہے اور پھر سکر سے سکون کے معنی لے کر پر سکون رات کو لیلۃ ساکرۃ کہا جاتا ہے ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- شدید - والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات 8] . - ( ش دد ) الشد - اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔
(٢) جس روز نفخہ اولی کے وقت تم لوگ اس زلزلہ کو دیکھو گے تو اس روز یہ حال ہوگا کہ تمام دودھ پلانے والیاں ہیبت کے مارے اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائیں گی اور تمام حمل والیاں اپنے پیٹ کے بچوں کو ایام پورا ہونے سے پہلے ہی ڈال دیں گی ،- اور اے مخاطب تجھ کو لوگ نشہ کی سی حالت میں دکھائی دیں گے حالانکہ وہ کسی نشہ آور چیز کی وجہ سے نشہ میں نہ ہوں گے لیکن اللہ کا عذاب ہے ہی سخت چیز جس کے خوف کی وجہ سے لوگوں کی حالت نشہ والوں کی سی ہوجائے گی ،
آیت ٢ (یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ ) ” - ماں کی مامتا کا جذبہ ضرب المثل ہے۔ ایک ماں اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بھی اپنے بچے کی حفاظت کرتی ہے اور اس پر کسی صورت آنچ نہیں آنے دیتی۔ اپنے بچے سے محبت کا یہ جذبہ حیوانوں میں بھی اسی شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ البتہ قیامت کا دن ایسا سخت ہوگا کہ اس کے خوف و ہراس کے باعث دودھ پلانے والی مائیں ‘ چاہے وہ انسان ہوں یا حیوان ‘ اپنے دودھ پیتے بچوں کو بھول جائیں گی۔- (وَتَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَمَا ہُمْ بِسُکٰرٰی وَلٰکِنَّ عَذَاب اللّٰہِ شَدِیْدٌ ) ” - وہ گھڑی ایسی خوف ناک ہوگی کہ اس کی دہشت سے لوگ بےسدھ پڑے نظر آئیں گے۔ بہر حال حدیث میں واضح طور پر یہ خوشخبری سنائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مؤمنین صادقین بندوں کو اس دن کی سختیوں سے دور رکھیں گے۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :2 آیت میں مُرْضِع کے بجائے مُرْضِعَہ کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ عربیت کے لحاظ سے دونوں میں فرق یہ ہے کہ مُرضِع اس عورت کو کہتے ہیں جو دودھ پلانے والی ہو ، اور مرضِعَہ اس حالت میں بولتے ہیں جبکہ وہ بالفعل دودھ پلا رہی ہو اور بچہ اس کی چھاتی منہ میں لیے ہوئے ہو ۔ پس یہاں نقشہ یہ کھینچا گیا ہے کہ جب وہ قیامت کا زلزلہ آئے گا تو مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتے پلاتے چھوڑ کر بھاگ نکلیں گی اور کسی ماں کو یہ ہوش نہ رہے گا کہ اس کے لاڈلے پر کیا گزری ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :3 واضح رہے کہ یہاں اصل مقصود کلام قیامت کا حال بیان کرنا نہیں ہے بلکہ خدا کے عذاب کا خوف دلا کر ان باتوں سے بچنے کی تلقین کرنا ہے جو اس کے غضب کی موجب ہوتی ہیں ۔ لہٰذا قیامت کی اس مختصر کیفیت کے بعد آگے اصل مقصود پر گفتگو شروع ہوتی ہے ۔