ازلی مردہ لوگ جو لوگ موت کے بعد کی زندگی کے منکر ہیں اور اللہ کو اس پر قادر نہیں مانتے اور فرمان الٰہی سے ہٹ کر نبیوں کی تابعداری کو چھوڑ کر سرکش انسانوں اور جنوں کی ماتحتی کرتے ہیں ان کی جناب باری تعالیٰ تردید فرما رہا ہے ۔ آپ دیکھیں گے کہ جتنے بدعتی اور گمراہ لوگ ہیں وہ حق سے منہ پھیر لیتے ہیں ، باطل کی اطاعت میں لگ جاتے ہیں ۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑ دیتے ہیں اور گمراہ سرداروں کی مانتے ہیں وہ ازلی مردود ہے اپنی تقلید کرنے والوں کو وہ بہکاتا رہتا ہے اور آخرش انہیں عذابوں میں پھانس دیتا ہے جو جہنم کی جلانے والی آگ کے ہیں ۔ یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں اتری ہے اس خبیث نے کہا تھا کہ ذرا بتلاؤ تو اللہ تعالیٰ سونے کا ہے یا چاندی کا یا تانبے کا اس کے اس سوال سے آسمان لرز اٹھا اور اس کی کھوپڑی اڑ گئی ۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک یہودی نے ایسا ہی سوال کیا تھا اسی وقت آسمانی کڑاکے نے اسے ہلاک کردیا ۔
3۔ 1 مثلًا یہ کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے، یا اس کی اولاد ہے وغیرہ وغیرہ۔
[٢] اس صورت کے آغاز میں جو قیامت کے بپا ہونے کے وقت کی دہشت کا ذکر کیا گیا ہے یہ بطور تمہید ہے اور اس سے اصل مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرا کر ان باتوں سے پرہیز کی تلقین کی جائے جو اللہ کے غضب کا موجب بنتی ہیں۔ جیسا کہ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کے جملہ اختیارات و تصرفات کو اپنے بتوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ اس آیت میں فی اللہ سے مراد اللہ کی ہستی نہیں ہے۔ کیونکہ مشرکین اللہ کی ہستی کے قائل تھے۔ جھگڑا صرف اس بات میں تھا کہ مشرکین یہ کہتے تھے کہ ہمارے معبودوں کو بھی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے کچھ نہ کچھ اختیارات حاصل ہیں جب کہ وحی الٰہی ان کے اس عقیدے کی مکمل تردید کردیتی تھی۔- [٣] یعنی جو بھی شیطان یا شیطان سیرت انسان انھیں کسی شرکیہ فعل یا بدعی عقیدہ و عمل کی دعوت دیتا ہے تو اسے یوں تسلیم کرتے ہیں جیسے پہلے ہی اس کی اتباع کرنے کو تیار بیٹھے تھے۔ حالانکہ یہ بات طے شدہ ہے کہ جو شخص بھی شیطان کی رفاقت کا دم بھرے گا اور اس کی اتباع کرے گا تو وہ اسے ایسا گمراہ کرے گا کہ اسے جہنم میں پہنچا کے چھوڑے گا۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ ۔۔ : واؤ عطف سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے بھی کچھ لوگوں کا ذکر محذوف ہے جو آیات کے مطابق یہ ہے کہ لوگوں میں سے کوئی وہ ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے اور قیامت پر اور دوبارہ زندہ ہو کر پیش ہونے پر یقین رکھتا ہے۔- 3 اور لوگوں میں سے کوئی وہ ہے جو قیامت کا منکر ہے اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں کچھ جانے بغیر خواہ مخواہ جھگڑتا ہے اور کہتا ہے کہ جو لوگ ہڈیاں اور مٹی ہوچکے اللہ تعالیٰ انھیں دوبارہ زندہ کیسے کرے گا ؟ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے صریح حکم کے مقابلے میں اپنے قیاس اور عقل کے ڈھکوسلے پیش کرتا ہے اور اپنے اس جھگڑے میں پوری کوشش سے ہر سرکش شیطان یعنی ابلیس اور اس کی اولاد کے اور انسانوں میں سے کفر کے سرداروں کے پیچھے چلتا ہے، جو لوگوں کو حق سے روکتے ہیں۔ ” تَبِعَ یَتْبَعُ “ (ع) کا معنی پیروی کرنا ہے۔ ” يَتَّبِـعُ “ باب افتعال میں مبالغہ ہے، یعنی پوری کوشش کرکے ہر شیطان کے پیچھے چلتا ہے۔ (بقاعی)- 3 اس آیت سے معلوم ہوا کہ علم کے ساتھ جھگڑا درست بلکہ لازم ہے، جیسا کہ فرمایا : (اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ ) [ النحل : ١٢٥ ] ” اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلا اور ان سے اس طریقے کے ساتھ بحث کر جو سب سے اچھا ہے۔ “
خلاصہ تفسیر - اور بعضے آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں (یعنی اس کی ذات یا صفات یا افعال کے متعلق) بےجانے بوجھے جھگڑا کرتے ہیں اور ہر شیطان سرکش کے پیچھے ہو لیتے ہیں (یعنی گمراہی کی ایسی قابلیت ہے کہ جو شیطان جس طرح بہکاوے اس کے بہکانے میں آجاتا ہے پس اس شخص میں انتہائی درجہ کی ضلالت ہوئی کہ اس پر ہر شیطان کی دسترس ہوجاتی ہے) جس کی نسبت (خدا کے یہاں سے) یہ بات لکھی جا چکی ہے (اور طے ہوچکی ہے) کہ جو شخص اس سے تعلق رکھے گا (یعنی اس کا اتباع کرے گا) تو اس کا کام ہی یہ ہے کہ وہ اس کو (راہ حق سے) بےراہ کر دے گا اور اس کو عذاب دوزخ کا راستہ دکھلا دے گا (آگے ان مجادلین کو خطاب ہے کہ) اے لوگو اگر تم (قیامت کے روز) دوبارہ زندہ ہونے (کے امکان) سے شک میں ہو تو (ذرا مضمون آئندہ میں غور کرلو تاکہ شک رفع ہوجاوے اور وہ یہ کہ) ہم نے (اول بار) تم کو مٹی سے بنایا (کیونکہ غذا جس سے نطفہ بنتا ہے اول عناصر سے پیدا ہوتی ہے جس میں ایک جزو مٹی بھی ہے) پھر نطفہ سے (جو کہ غذا سے پیدا ہوتا ہے) پھر خون کے لوتھڑے سے (کہ نطفہ میں غلظت اور سرخی آنے سے حاصل ہوتا ہے) پھر بوٹی سے (کہ علقہ میں سختی آجانے سے حاصل ہوتا ہے) کہ (بعضی) پوری ہوتی ہے (کہ اس میں پورے اعضاء بن جاتے ہیں) اور (بعضی) ادھوری بھی (ہوتی ہے کہ بعض اعضاء ناقص رہ جاتے ہیں یہ اس طرح کی ساخت اور ترتیب اور تفاوت سے اس لئے بنایا) تاکہ ہم تمہارے سامنے (اپنی قدرت) ظاہر کردیں (اور اسی سے ظاہر ہے کہ وہ دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے) اور (تتمہ اس مضمون کا یہ ہے جس سے اور زیادہ قدرت ظاہر ہوتی ہے کہ) ہم (ماں کے) رحم میں جس (نطفہ) کو چاہتے ہیں ایک مدت معین (یعنی وضع حمل کے وقت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں (اور جس کو ٹھہرانا نہیں چاہتے ہیں وہاں اسقاط ہوجاتا ہے) پھر (اس مدت معینہ کے بعد) ہم تم کو بچہ بنا کر (ماں کے پیٹ سے) باہر لاتے ہیں پھر (اس کے بعد تین قسمیں ہوجاتی ہیں ایک قسم یہ کہ تم میں سے بعض کو جوانی تک مہلت دیتے ہیں) تاکہ تم اپنی بھری جوانی (کی عمر) تک پہنچ جاؤ اور بعضے تم میں وہ بھی ہیں جو (جوانی سے پہلے ہی) مر جاتے ہیں (یہ دوسری قسم ہوئی) اور بعضے تم میں وہ ہیں جو نکمی عمر (یعنی زیادہ بڑھاپے) تک پہنچا دیئے جاتے ہیں جس کا اثر یہ ہے کہ ایک چیز سے باخبر ہو کر پھر بیخبر ہوجاتے ہیں (جیسا اکثر بوڑھوں کو دیکھا کہ ابھی ایک بات بتلائی اور ابھی پھر پوچھ رہے ہیں۔ یہ تیسری قسم ہوئی یہ سب احوال بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت عظیمہ کی نشانیاں ہیں ایک استدلال تو یہ تھا) اور (آگے دوسرا استدلال ہے کہ) اے مخاطب تو زمین کو دیکھتا ہے کہ خشک (پڑی) ہے پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ ابھرتی ہے اور پھولتی ہے اور ہر قسم (یعنی قسم قسم کی خوشنما نباتات اگاتی ہے (سو یہ بھی دلیل ہے قدرت کاملہ کے آگے استدلال کو اور واضح کرنے کے لئے تصرفات مذکورہ کی علت اور حکمت کا بیان فرماتے ہیں یعنی) یہ (جو کچھ اوپر دونوں استدلالوں کے ضمن میں اشیاء مذکورہ کا ایجاد و اظہار مذکور ہوا یہ سب) اس سبب سے ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہی ہستی میں کامل ہے (یہ تو اس کا کمال ذاتی ہے) اور وہ ہی بےجانوں میں جان ڈالتا ہے (یہ اس کا کمال فعلی ہے) اور وہی ہر چیز پر قادر ہے (یہ اس کا کمال وصفی ہے اور یہ تینوں امور ملکر امور مذکورہ کی علت ہیں کیونکہ اگر کمالات ثلٰثہ میں سے ایک بھی غیر متحقق ہوتا تو ایجاد نہ پایا جاتا چناچہ ظاہر ہے) اور (نیز اس سبب سے ہوا کہ) قیامت آنے والی ہے اس میں ذرا شبہ نہیں اور اللہ تعالیٰ (قیامت میں) قبر والوں کو دوبارہ پیدا کرے گا (یہ امور مذکورہ کی حکمت ہیں یعنی ہم نے وہ تصرفات مذکورہ اس لئے ظاہر کئے کہ اس میں منجملہ اور حکمتوں کے ایک حکمت اور غایت یہ تھی کہ ہم کو قیامت کا لانا اور مردوں کو زندہ کرنا منظور تھا تو ان تصرفات سے ان کا امکان لوگوں پر ظاہر ہوجاوے گا پس ایجاد اشیاء مذکورہ کی تین علتیں اور دو حکمتیں مذکور ہوئیں اور سبب بالمعنی الاعم سب کو عام ہوا اس لئے بان اللہ کی باء سبییة سب پر داخل ہوگئی) اور (یہاں تک تو مجادلین کی گمراہی اور اس کے رد میں استدلال مذکور تھا آگے ان کا اضلال۔ یعنی دوسروں کو گمراہ کرنا۔ اور دونوں ضلال واضلال کا وبال عظیم مذکور ہوتا ہے) بعضے آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں (یعنی اس کی ذات یا صفات یا افعال کے مقدمہ میں) بدون واقفیت (یعنی علم ضروری) اور بدون دلیل (یعنی علم استدلالی عقلی) اور بدون کسی روشن کتاب (یعنی علم استدلالی نقلی) کے (اور دوسرے محقق کے اتباع و تقلید سے) تکبر کرتے ہوئے جھگڑا کرتے ہیں تاکہ (دوسرے لوگوں کو بھی) اللہ کی راہ سے (یعنی دین حق سے) بےراہ کردیں ایسے شخص کے لئے دنیا میں رسوائی ہے (خواہ کسی قسم کی رسوائی ہو چناچہ بعضے گمراہ قتل و قید وغیرہ سے ذلیل ہوتے ہیں بعضے مناظرہ اہل حق میں مغلوب ہو کر عقلاء کی نظر میں بےعزت ہوتے ہیں) اور قیامت کے دن ہم اس کو جلتی آگ کا عذاب چکھا دیں گے (اور اس سے کہا جاوے گا) کہ یہ تیرے ہاتھ کے کئے ہوئے کاموں کا بدلہ ہے اور یہ بات ثابت ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ (اپنے) بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں (پس تجھ کو بلا جرم سزا نہیں دی گئی) ۔- معارف و مسائل - وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ ، یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی جو بڑا جھگڑالو تھا، فرشتوں کو خدا تعالیٰ کی بیٹیاں اور قرآن کو پچھلے لوگوں کے افسانے کہا کرتا تھا اور قیامت اور دوبارہ زندہ ہونے کا منکر تھا (کذارواہ ابن ابی حاتم عن ابی مالک۔ مظہری)- نزول آیت کا اگرچہ ایک خاص شخص کے بارے میں ہوا مگر حکم اس کا سب کے لئے عام ہے جس میں اس طرح کی بری خصلتیں پائی جائیں۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللہِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّيَتَّبِعُ كُلَّ شَيْطٰنٍ مَّرِيْدٍ ٣ۙ- جدل - الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] - ( ج د ل ) الجدال - ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك - قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - مرد - قال اللہ تعالی: وَحِفْظاً مِنْ كُلِّ شَيْطانٍ مارِدٍ [ الصافات 7] والمارد والمرِيد من شياطین الجنّ والإنس : المتعرّي من الخیرات . من قولهم : شجرٌ أَمْرَدُ : إذا تعرّى من الورق، ومنه قيل : رملةٌ مَرْدَاءُ : لم تنبت شيئا، ومنه : الأمرد لتجرّده عن الشّعر . وروي : «أهل الجنّة مُرْدٌ» «4» فقیل : حمل علی ظاهره، وقیل : معناه : معرون من الشّوائب والقبائح، ومنه قيل : مَرَدَ فلانٌ عن القبائح، ومَرَدَ عن المحاسن وعن الطاعة . قال تعالی: وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة 101] أي : ارتکسوا عن الخیر وهم علی النّفاق، وقوله : مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِيرَ [ النمل 44] أي : مملّس . من قولهم : شجرةٌ مَرْدَاءُ : إذا لم يكن عليها ورق، وكأنّ المُمَرَّدَ إشارة إلى قول الشاعرفي مجدل شيّد بنیانه ... يزلّ عنه ظفر الظّافر ومَارِدٌ: حصن معروف وفي الأمثال : تَمرَّدَ ماردٌ وعزّ الأبلق قاله ملک امتنع عليه هذان الحصنان .- ( م ر د ) المارد والمرید ۔ جنوں اور انسانوں سے اس شیطان کو کہاجاتا ہے جو ہر قسم کی خیر سے عاری ہوچکا ہو ۔ قرآن پاک میں ہے : وَحِفْظاً مِنْ كُلِّ شَيْطانٍ مارِدٍ [ الصافات 7] اور ہر شیطان سرکش سے اس کی حفاظت کے لئے ۔ یہ شجر امرد سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی ہیں وہ درخت جس کے پتے نہ ہوں ۔ اور اسی سے رملۃ مرداء ہے یعنی ریت کا ٹیلہ جس پر کوئی چیز نہ اگتی ہو اور اس سے امرد اس نوجوان کو کہتے ہیں جس کے ہنوز سبزہ نہ اگاہو ۔ حدیث میں ہے اھل الجنۃ کلم مرد ) کہ اہل جنت سب کے سب امرد ہوں گے ۔ چناچہ بعض نے اس حدیث کو ظاہری معنی پر ہی حمل کیا ہے ۔ اور بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ دو ہر قسم کے عیوب سے پاک ہوں گے ۔ جیسے محاورہ ہے : مرد فلان عن القیائح فلاں ہر قسم کی قباحت سے پاک ہے ۔ مرر فلان عن المجاسن وہ محاسن سے عاری ہے ۔ مرر عن للطاعۃ ۔ سرکشی کرنا ۔ پس آیت کریمہ : وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة 101] ومن اھل المدینہ مردو ا عن النفاق کے معنی یہ ہیں ۔ کہ اہل مدینہ سے بعض لوگ ۔۔۔ نفاق پر اڑ کر ہر قسم کی خیر سے محروم ہوگئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِيرَ [ النمل 44] شیشے جڑے ہونے کی وجہ سے ہموار ۔ میں ممرد کے معنی ہموار ی چکنا کیا ہوا کے ہیں ۔ اور یہ شجرۃ مردآء سے ماخوذ ہے ۔ گویا ممرد کے لفظ سے اس کی اس صفت کی طرف اشارہ ہے جسے شاعر نے یوں بیان کیا ہے ( سریع ) (406) فی مجلدل شید بنیانہ یزل عنہ ظفرا لطائر ایک مضبوط محل میں جس پر ایسا پلا سڑ لگا گیا ہے کہ اس سے پرند کے ناخن بھی پھسل جاتے ہیں ۔ مارد ایک مشہور قلعے کا نام ہے ۔ مثل مشہور ہے مرد مارد وعزالابلق۔ مارہ ( قلعہ ) نے سرکشی کی اور ابلق ( قلعہ ) غالب رہا ۔ یعنی وہ دونوں قلعے سر نہ ہوسکے ۔ یہ مقولہ ایک باشاہ کا ہے جو ان دونوں قلعوں کو زیر نہیں کرسکا تھا ۔
(٣) اور بعض آدمی ایسے ہیں یعنی نضر بن حارث جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بغیر جانے بوجھے اور بغیر کسی حجت و دلیل کے جھگڑا کرتے ہیں اور ہر ملعون شیطان کے پیچھے ہو لیتے ہیں۔- شان نزول : ( آیت) ” ومن الناس من یجادل “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے ابومالک (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
آیت ٣ (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّیَتَّبِعُ کُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍ ) ” - آج کے نام نہاد مذہبی سکالرز اور دانشور بھی اس آیت کا مصداق ہیں ‘ جو عملی طور پر غیر مسلم مغربی تہذیب کی نقالی کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ ذہنی طور پر مغربی افکار و نظریات سے مرعوب ہیں اور ان نظریات کا ہر طریقے سے پرچار کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو حدیث کی ضرورت و اہمیت کے سرے سے منکر ہیں۔ ان کی روشن خیالی انہیں باور کراتی ہے کہ قرآنی احکام صرف ایک زمانے تک قابل قبول تھے اور انسان کے لیے ہمیشہ ان کا پابند رہنا ممکن نہیں۔ لہٰذا نئے زمانے کی ضروریات کے مطابق قرآنی آیات کو (معاذ اللہ ) کر کے اجتہاد کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر فضل الرحمن ایک ایسے ہی پاکستانی سکالر تھے ‘ جو یونیورسٹی (مانٹریال ‘ کینیڈا) سے فارغ التحصیل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ قرآن آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام بھی ہوسکتا ہے اور اللہ کا بھی۔ اسی قبیل کے ایک ایرانی سکالر سید حسین نصر بھی ہیں۔ ایسے لوگ یہودی اداروں سے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرتے ہیں اور پھر ساری عمر یہودیوں سے حق وفا داری نبھانے میں لگے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی وائٹ ہاؤس سے بھی خصوصی پذیرائی اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :4 آگے کی تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اللہ کے بارے میں ان کے جس جھگڑے پر گفتگو کی جا رہی ہے وہ اللہ کی ہستی اور اس کے وجود کے بارے میں نہیں بلکہ اس کے حقوق اور اختیارات اور اس کی بھیجی ہوئی تعلیمات کے بارے میں تھا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے توحید اور آخرت منوانا چاہتے تھے ، اور اسی پر وہ آپ سے جھگڑتے تھے ۔ ان دونوں عقیدوں پر جھگڑا آخرکار جس چیز پر جا کر ٹھہرتا وہ یہی تھی کہ خدا کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں کر سکتا ، اور یہ کہ کائنات میں آیا خدائی صرف ایک خدا ہی کی ہے یا کچھ دوسری ہستیوں کی بھی ۔