مختلف مذہبوں کا فیصلہ روز قیامت ہوگا صابئین کا بیان مع اختلاف سورۃ بقرہ کی تفسیر میں گزر چکا ہے یہاں فرماتا ہے کہ ان مختلف مذہب والوں کا فیصلہ قیامت کے دن صاف ہوجائے گا ۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو جنت دے گا اور کفار کو جہنم واصل کرے گا ۔ سب کے اقوال وافعال ظاہر وباطن اللہ پر عیاں ہیں
17۔ 1 مجوسی سے مراد ایران کے آتش پرست ہیں جو دو خداؤں کے قائل ہیں، ایک ظلمت کا خالق ہے، دوسرا نور کا، جسے وہ اہرمن اور یزداں کہتے ہیں۔ 17۔ 2 ان میں مذکورہ گمراہ فرقوں کے علاوہ جتنے بھی اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرنے والے ہیں، سب آگئے۔ 17۔ 3 ان میں سے حق پر کون ہے، باطل پر کون، یہ تو ان دلائل سے واضح ہوجاتا ہے جو اللہ اپنے قرآن میں نازل فرماتے ہیں اور اپنے آخری پیغمبر کو بھی اسی مقصد کے لئے بھیجا تھا، یہاں فیصلے سے مراد وہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ باطل پرستوں کو قیامت والے دن دے گا، اس سزا سے بھی واضح ہوجائے گا کہ دنیا میں حق پر کون تھا اور باطل پر کون کون۔ 17۔ 4 یہ فیصلہ محض حاکمانہ اختیارات کے زور پر نہیں ہوگا، بلکہ عدل و انصاف کے مطابق ہوگا، کیونکہ وہ باخبر ہستی ہے، اسے ہر چیز کا علم ہے۔
[١٦] یعنی کسی بھی اللہ کے رسول پر ایمان لائے۔ کیونکہ تمام انبیا و رسل کے اصول دین ایک ہی رہے ہیں۔ (تفصیل کے لئے اسی سورة کی آیت نمبر ٩٢، ٩٣ کے حواشی ملاحظہ فرما لیجئے) اس لحاظ سے ہر نبی پر ایمان لانے والے مسلمان ہوئے اور اسلام اور ایمان کا صرف یہ فرق ہے کہ اسلام کا تعلق ظاہری اعمال سے ہوتا ہے اور ایمان کا دل سے۔ اللہ اور اس کے رسول کی جس قدر اطاعت کی جائے، ایمان اتنا ہی پختہ ہوتا جاتا ہے اور جتنا ایمان پختہ ہوتا جاتا ہے اطاعت کی مزید توفیق نصیب ہوتی رہتی ہے۔ گویا اسلام اور ایمان دونوں ایک دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرے کے ممدو معاون ہوتے ہیں۔- [١٧] حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہر جو لوگ ایمان لائے تھے وہ بھی مسلمان ہی تھے اور بنی اسرائیل کی قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی میں انھیں یہود نہیں کہا جاتا تھا۔ یہود تو وہ اس وقت کہلائے جب ان کے۔۔ میں بھی ان کے بدعی عقائد بھی شامل ہوگئے اور انہوں نے کتاب اللہ میں تحریف تک کر ڈالی۔ بعض لوگوں کے خیال کے مطابق ان کی نسبت یعقوب کے بڑے بیٹے یہودا کی طرف ہے۔ مگر یہ توجیہہ دو لحاظ سے درست معلوم نہیں ہوتی ایک یہ کہ اس لحاظ سے یہودی ایک قبیلہ نو کہلا سکتے ہیں ایک مذہب نہیں کہلا سکتے ہیں۔ حالانکہ یہودی ایک مذہب کا نام ہے کسی قبیلہ کا نام نہیں اور دوسرے اس لحاظ سے یہودیوں میں تمام بنی اسرائیل شامل ہیں صرف یہودا کی اولاد کی اولاد نہیں۔ اور بعض علماء کے خیال کے مطابق بنی اسرائیل حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک بنی اسرائیل ہی کہلائے تھے۔ بعد میں نصاریٰ کے مقابلہ میں ان کا نام یہودی پڑگیا۔- [١٨] صابی دراصل وہ ستارہ پرست اور سورج پرست قوم ہے جس نے اپنے معبودوں کی حمایت میں حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالا تھا۔ یہ لوگ اپنے آپ کو حضرت نوح کا پیروکار بتلاتے ہیں اور باقی بعد میں آنے والے سب انبیاء کے منکر ہیں۔ بعد میں صباء کا لفظ دین میں تبدیل کرنے یا آبائی مذہب سے سے روگردانی کرنے کے معنوں میں استعمال ہونے لگا اور ایک گالی کی حیثیت اختیار کر گیا۔ چناچہ مشرکین مکہ بھی اسلام لانے والوں کو اسی محبت سے نوازتے تھے اور کہتے تھے کہ فلاں شخص صابی ہوگیا ہے۔ یعنی بےدین اور لا مذہب ہوگیا ہے۔ جیسا کہ ہندوستان میں توحید کی طرح رجوع کرنے والوں کو وہانی کے لقب سے نوازا جانے لگا ہے۔- [١٩] حضرت عیسیٰ اور ان پر نازل شدہ کتاب انجیل کے پیروکار۔ ابتداً ان کا نام ناصری یا گلیلی تھا۔ حضرت عیسیٰ ناصرہ ضلع گلیل میں پیدا ہوئے تھے۔ چناچہ یہود انھیں ایک بدعتی فرقہ کی حیثیت سے ناصری یا گلیلی کہہ کر پکارتے تھے۔ قرآن میں ان کا نام نصاریٰ مذکور ہے۔ اور اسے بھی ناصرہ سے منسوب قرار دیا جاسکتا ہے اور اس کی دوسری توجیہہ یہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکار یا حواریوں نے (نَحْنُ اَنْصَار اللّٰهِ 52) 3 ۔ آل عمران :52) کا اقرار کیا تھا۔ لہذا یہ لوگ نصاریٰ کہلائے۔ بعد میں انہوں نے اپنے لئے عیسائی کا لقب پسند کرلیا ان لوگوں نے بھی بعد میں بہت سے بدعی عقائد شامل کر لئے جیسے عقیدہ تثلیث، الوہیت مسیح اور کفار مسیح وغیرہ - [٢٠] مجوسی بھی آتش پرست اور ستارہ پرست لوگ تھے اور صابی فرقہ کی طرح اپنے آپ کو حضرت نوح کے پیروکار بتلاتے ہیں اور باقی پیغمبروں کے منکر ہیں۔ ان کے نزدیک نیکی اور بدی کے خدا الگ الگ ہیں۔ نیکی کا خدا یا خالق یزدان ہے اور بدی کا خدا یا خالق اہرمن ہے۔ یہ لوگ اپنی الہامی کتابوں کا نام للہ ند اوستا بتلاتے ہیں۔ مزوک نے ان کے مذہب اور اخلاق کو بری طرح مسخ کرکے رکھ دیا تھا حتیٰ کہ حقیقی بہن سے نکاح بھی ان کے ہاں جائز قرار دیا گیا۔- [٢١] مشرک سے مراد مشرکین مکہ اور دوسرے ممالک کے مشرکین ہیں۔ جو مندرجہ بالا گروہوں کے ناموں میں سے کسی نام سے منسوب نہیں۔ اگرچہ موحد مسلمانوں کے سوا مندرجہ بالا سب مذاہب میں شرک کی کوئی نہ کوئی قسم ضرور پائی جاتی ہے۔- [٢٢] اس کا یہ مطلب نہیں کہ قیامت سے پہلے ہمیں یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ اختلاف کہاں واقع ہوتا ہے اور کون سا فرقہ کس قدر حق پر ہے۔ کیونکہ اصول دین ہمیشہ ایک ہی رہے ہیں اور تمام الہامی کتابوں میں مذکور ہیں اگرچہ تورات اور انجیل یا بائیبل میں تحریف ہوچکی ہے۔ پھر بھی ان اصول دین کا سراغ لگایا جاسکتا ہے اور یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ فلاں فرقہ کا فلاں عقیدہ درست ہے اور فلاں باطل ہے۔ مگر یہاں اس اتبا میں کوئی بھی فرقہ مذہبی تعصب کی بنا پر حق کو تسلیم کرلینے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ لہذا قیامت کے دن خود اللہ تعالیٰ نہ صرف یہ کہ ان باتوں کا فیصلہ کر دے گا بلکہ اس فیصلہ کا نفاذ بھی کردے گا۔
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ هَادُوْا ۔۔ : گزشتہ آیات میں ایمان والوں کے علاوہ مختلف لوگوں کا ذکر ہوا، کچھ قیامت کے منکر، کچھ کنارے پر رہ کر عبادت کرنے والے، کچھ اللہ کے ساتھ شریک بنانے والے وغیرہ۔ اس پر سوال پیدا ہوا کہ اتنے مختلف عقائد کے لوگ جو اپنی اپنی بات پر اس قدر پختہ ہیں کہ واضح دلائل کے باوجود اپنی بات نہیں چھوڑتے، آخر کبھی ان کے جھگڑے کا فیصلہ بھی ہوگا ؟ فرمایا، ان کے جھگڑے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی قیامت کے دن فرمائے گا، جب مومن جنت اور کافر جہنم میں جائیں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا میں ان کے حق یا باطل پر ہونے کا فیصلہ نہیں ہوا۔ یقیناً ہوا ہے اور قرآن مجید کا نام فرقان اسی لیے ہے۔ یہ کلام ایسے ہی ہے جیسے بحث ختم کرنے کے لیے بات اللہ کے سپر دکر دی جاتی ہے، حالانکہ بات کرنے والے کو اپنے سچا ہونے کا اور فریق مخالف کے خطا پر ہونے کا یقین ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ ۭلَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ ۭ اَللّٰهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا ۚ وَاِلَيْهِ الْمَصِيْرُ ) [ الشورٰی : ١٥ ] ” ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال۔ ہمارے درمیان اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں، اللہ ہمیں آپس میں جمع کرے گا اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ “- 3 مومنین، یہود، نصاریٰ اور صابئین کا بیان سورة بقرہ (٦٢) میں گزر چکا ہے، وہاں ملاحظہ فرمائیں، یہاں مجوس اور مشرکین کا مزید ذکر ہے۔ مجوس سے مراد آتش پرست ہیں جو دو خالق مانتے ہیں، ایک خالق خیر (یزدان) اور ایک خالق شر (اہرمن) یہ لوگ اپنے آپ کو زرتشت کا پیرو کہتے ہیں اور کسی نبی کا نام بھی لیتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ لوگ بعد میں گمراہ ہوئے یا شروع ہی سے غلط تھے۔ مزدک نے ان کے مذہب اور اخلاق کو بری طرح مسخ کرکے رکھ دیا، حتیٰ کہ حقیقی بہن سے نکاح بھی ان کے ہاں جائز قرار دیا گیا۔ ” وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُـوْٓا “ (وہ لوگ جنھوں نے شرک کیا) سے مراد عرب اور دوسرے ملکوں کے وہ مشرک ہیں جنھوں نے مندرجہ بالا گروہوں میں سے کسی کا نام اختیار نہیں کیا تھا، مثلاً گائے اور بتوں کے پجاری ہندو۔ قرآن مجید انھیں مشرکین اور ” وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُـوْٓا “ کے نام سے ذکر کرتا ہے، اگرچہ موحد مسلمانوں کے سوا مندرجہ بالا سب مذاہب میں شرک کی کوئی نہ کوئی قسم ضرور پائی جاتی ہے۔- اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ : یعنی ان تمام گروہوں کے درمیان اللہ تعالیٰ کا فیصلہ حاکمانہ اختیار کی وجہ سے اندھا فیصلہ نہیں ہوگا، بلکہ عین عدل و انصاف ہوگا، کیونکہ ہر چیز اس کے سامنے ہے، وہ ہر چیز پر گواہ ہے اور ہر ایک کو اس کے عمل کے عین مطابق جزا یا سزا دے گا۔
خلاصہ تفسیر - اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان اور یہود اور صابئین اور نصاریٰ اور مجوس اور مشرکین، اللہ تعالیٰ ان سب کے درمیان میں قیامت کے روز (عملی) فیصلہ کر دے گا (کہ مسلمانوں کو جنت میں اور سب اقسام کافروں کو جہنم میں داخل کرے گا) بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے۔- اے مخاطب کیا تجھ کو یہ بات معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے (اپنی اپنی حالت کے مناسب) سب عاجزی کرتے ہیں جو کہ آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور (تمام مخلوقات کے مطیع و فرمانبردار ہونے کے باوجود انسان جو خاص درجہ کی عقل بھی رکھتا ہے وہ سب کے سب مطیع و فرمانبردار نہیں بلکہ) بہت سے (تو) آدمی بھی (اطاعت اور عاجزی کرتے ہیں) اور بہت سے ایسے ہیں جن پر عذاب کا استحقاق ثابت ہوگیا ہے اور (سچ یہ ہے کہ) جس کو خدا ذلیل کرے (کہ اس کو ہدایت کی توفیق نہ ہو) اس کا کوئی عزت دینے والا نہیں (اور) اللہ تعالیٰ (کو اختیار ہے اپنی حکمت سے) جو چاہے کرے۔- معارف و مسائل - پہلی آیت میں تمام اقوام عالم مومنین اور کفار پھر کفار کے مختلف العقائد گروہوں کے متعلق یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کا فیصلہ فرما دیں گے اور وہ ہر ایک کے ظاہر و باطن سے باخبر ہیں۔ فیصلہ کیا ہوگا اس کا ذکر بار بار قرآن میں آ چکا ہے کہ مومنین صالحین کے لئے ابدی اور لازوال راحت ہے اور کفار کے لئے دائمی عذاب۔ دوسری آیت میں تمام مخلوقات خواہ زندہ ذی روح ہوں یا جمادات و نباتات سب کا حق تعالیٰ کے لئے مطیع اور فرمانبردار ہونا بعنوان سجدہ بیان فرما کر بنی نوع انسان کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک مطیع و فرمانبردار سجدہ میں سب کے ساتھ شریک اور دوسرا سرکش باغی سجدہ سے منحرف۔ اور تابع فرمان ہونے کو سجدہ کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے جس کا ترجمہ خلاصہ تفسیر میں عاجزی کرنے سے کیا ہے تاکہ مخلوقات کی ہر نوع اور ہر قسم کے سجدہ کو شامل ہوجائے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کا سجدہ اس کے مناسب حال ہوتا ہے انسان کا سجدہ زمین پر پیشانی رکھنے کا نام ہے دوسری مخلوقات کا سجدہ اپنی اپنی خدمت جس کے لئے ان کو پیدا کیا گیا ہے اس کو انجام دینے کا اور خدمت کا حق ادا کرنے کا نام ہے۔- تمام مخلوقات کے مطیع و فرمانبردار ہونے کی حقیقت :- تمام کائنات و مخلوقات کا اپنے خالق کے زیر حکم اور تابع مشیت ہونا ایک تو تکوینی اور تقدیری طور پر غیر اختیاری ہے جس سے کوئی بھی مخلوق مومن یا کافر زندہ یا مردہ، جمادات یا نباتات مستثنیٰ نہیں اس حیثیت میں سب کے سب یکساں طور پر حق تعالیٰ کے زیر حکم و مشیت ہیں۔ جہان کا کوئی ذرہ یا پہاڑ اس کے اذن و مشیت کے بغیر کوئی ادنیٰ حرکت نہیں کرسکتا۔ دوسری اطاعت و فرمانبرداری اختیاری ہے کہ کوئی مخلوق اپنے قصد و اختیار سے اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کرے اس میں مومن و کافر کا فرق ہوتا ہے کہ مومن اطاعت شعار فرمانبردار ہوتا ہے کافر اس سے منحرف اور منکر ہوتا ہے۔ اس آیت میں چونکہ مومن و کافر کا فرق بیان فرمایا ہے یہ قرینہ اس کا ہے کہ اس میں سجدہ اور فرمانبرداری سے مراد صرف تکوینی و تقدیری اطاعت نہیں بلکہ اختیاری اور ارادی اطاعت ہے۔ اس میں یہ شبہ نہ کیا جائے کہ اختیاری اور ارادی اطاعت تو صرف ذوی العقول انسان اور جن وغیرہ میں ہو سکتی ہے۔ حیوانات، نباتات، جمادات میں عقل و شعور ہی نہیں تو پھر قصد و ارادہ کہاں اور اطاعت اختیاری کیسی ؟ کیونکہ قرآن کریم کی بیشمار نصوص اور تصریحات سے یہ بات ثابت ہے کہ عقل و شعور اور قصد و ارادہ سے کوئی بھی مخلوق خالی نہیں، کمی بیشی کا فرق ہے۔ انسان اور جن کو اللہ تعالیٰ نے عقل و شعور کا ایک کامل درجہ عطا فرمایا ہے اور اسی لئے ان کو احکام امر و نہی کا مکلف بنایا گیا ہے ان کے سوا باقی مخلوقات میں سے ہر نوع اور ہر صنف کو اس صنف کی ضروریات کے موافق عقل و شعور دیا گیا، انسان کے بعد سب سے زیادہ یہ عقل و شعور حیوانات میں ہے اس کے دوسرے نمبر میں نباتات ہیں، تیسرے میں جمادات ہیں۔ حیوانات کا عقل و شعور تو عام طور پر محسوس کیا جاتا ہے نباتات کا عقل و شعور بھی ذرا سا غور و تحقیق کرنے والا پہچان لیتا ہے لیکن جمادات کا عقل و شعور اتنا کم اور مخفی ہے کہ عام انسان اس کو نہیں پہچان سکتے۔ مگر ان کے خالق ومالک نے خبر دی ہے کہ وہ بھی عقل و شعور اور قصد و ارادے کے مالک ہیں۔ قرآن کریم نے آسمان و زمین کے بارے میں فرمایا ہے (آیت) قالتا اتینا طائعین، یعنی جب اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو حکم دیا کہ تم کو ہمارے تابع فرمان رہنا ہے اپنی خوشی سے فرمانبرداری اختیار کرو ورنہ جبراً اور حکماً تابع رہنا ہی ہے تو آسمان و زمین نے عرض کیا کہ ہم اپنے ارادے اور خوشی سے اطاعت و فرمانبرداری قبول کرتے ہیں اور دوسری جگہ پہاڑ کے پتھروں کے متعلق قرآن کریم کا ارشاد ہے وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْـيَةِ اللّٰهِ ، یعنی بعض پتھر ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی خشیت و خوف کے مارے اوپر سے نیچے لڑھک جاتے ہیں۔ اسی طرح احادیث کثیرہ میں پہاڑوں کی باہم گفتگو اور دوسری مخلوقات میں عقل و شعور کی شہادتیں بکثرت ملتی ہیں۔ اس لئے اس آیت میں جس اطاعت و فرمانبرداری کو سجدہ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، اس سے اطاعت اختیاری و ارادی مراد ہے اور معنے آیت کے یہ ہیں کہ نوع انسان کے علاوہ (جن کے ضمن میں جنات بھی داخل ہیں) باقی تمام مخلوقات اپنے قصد و اختیار سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ ریز یعنی تابع فرمان ہیں صرف انسان اور جن ایسے ہیں جن میں دو حصے ہوگئے ایک مومن و مطیع سجدہ گزار دوسرے کافر و نافرمان سجدہ سے منحرف جن کو اللہ نے ذلیل کردیا ہے کہ ان کو سجدہ کی توفیق نہیں بخشی واللہ اعلم۔
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ہَادُوْا وَالصّٰبِــــِٕــيْنَ وَالنَّصٰرٰي وَالْمَجُوْسَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُـوْٓا ٠ۤۖ اِنَّ اللہَ يَفْصِلُ بَيْنَہُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ ٠ۭ اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَہِيْدٌ ١٧- هَادَ ( یہودی)- فلان : إذا تحرّى طریقة الْيَهُودِ في الدّين، قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا - [ البقرة 62] والاسم العلم قد يتصوّر منه معنی ما يتعاطاه المسمّى به . أي : المنسوب إليه، ثم يشتقّ منه . نحو : قولهم تفرعن فلان، وتطفّل : إذا فعل فعل فرعون في الجور، وفعل طفیل في إتيان الدّعوات من غير استدعاء، وتَهَوَّدَ في مشيه : إذا مشی مشیا رفیقا تشبيها باليهود في حركتهم عند القراءة، وکذا : هَوَّدَ الرّائض الدابّة : سيّرها برفق، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام .- الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرنا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا[ البقرة 62] ہم تیری طرف رجوع ہوچکے بعض نے کہا ہے لفظ یہود بھی سے ماخوذ ہے یہ اصل میں ان کا تعریفی لقب تھا لیکن ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر بطور علم جنس کے بولا جاتا ہے نہ کہ تعریف کے لئے جیسا کہ لفظ نصارٰی اصل میں سے ماخوذ ہے پھر ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد انہیں اسی نام سے اب تک پکارا جاتا ہے ھاد فلان کے معنی یہودی ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة 109] جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی کیونکہ کبھی اسم علم سے بھی مسمی ٰ کے اخلاق و عادات کا لحاظ کر کے فعل کا اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا ایک شخص فرعون کی طرح ظلم وتعدی کرتا ہے تو اس کے کے متعلق تفر عن فلان کہ فلان فرعون بنا ہوا ہے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اسہ طرح تطفل فلان کے معنی طفیلی یعنی طفیل نامی شخص کی طرح بن بلائے کسی کا مہمان بننے کے ہیں ۔ تھودا فی مشیہ کے معنی نرم رفتاری سے چلنے کے ہیں اور یہود کے تو راۃ کی تلاوت کے وقت آہستہ آہستہ جھومنے سے یہ معنی لئے کئے ہیں ۔ ھو دا لرائض الدبۃ رائض کا سواری کو نر می سے چلانا ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔- صبا - الصَّبِيُّ : من لم يبلغ الحلم، ورجل مُصْبٍ : ذو صِبْيَانٍ. قال تعالی: قالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم 29] . وصَبَا فلان يَصْبُو صَبْواً وصَبْوَةً : إذا نزع واشتاق، وفعل فعل الصِّبْيَانِ. قال : أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُنْ مِنَ الْجاهِلِينَ [يوسف 33] ، وأَصْبَانِي فصبوت، والصَّبَا : الرّيح المستقبل للقبلة . وصَابَيْتُ السّيف : أغمدته مقلوبا، وصَابَيْتُ الرّمح : أملته، وهيّأته للطّعن . والصَّابِئُونَ : قوم کانوا علی دين نوح، وقیل لكلّ خارج من الدّين إلى دين آخر :- صَابِئٌ ، من قولهم : صَبَأَ نابُ البعیر : إذا طلع، ومن قرأ : صَابِينَ «2» فقد قيل : علی تخفیف الهمز کقوله : لا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخاطِؤُنَ «3» [ الحاقة 37] ، وقد قيل : بل هو من قولهم : صَبَا يَصْبُو، قال تعالی: وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصاری[ الحج 17] . وقال أيضا : وَالنَّصاری وَالصَّابِئِينَ [ البقرة 62] .- ( ص ب و ) الصبی - نابالغ لڑکا رجل مصب عیال دار جس کے بچے نابالغ ہوں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم 29] ( وہ بولے کہ ) ہم اس سے جو کہ گود کا بچہ ہے کیونکر بات کریں ۔ صبا فلان یصبو صبوا وصبوۃ کسی چیز کی طرف مائل ہوکر بچوں کے سے کام کرنے لگا قرآن میں ہے : ۔ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُنْ مِنَ الْجاهِلِينَ [يوسف 33] تو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤ نگا اور نادانوں میں داخل ہوجاؤ نگا ۔ اصبانی فصبوت اس نے مجھے گرویدہ کیا چناچہ میں گر ویدہ ہوگیا ۔ الصبا ۔ پروائی ہوا ۔ صابیت السیف الٹی تلوار نیام میں ڈالی ۔ صابیت الرمح نیزہ مارنے کے لئے جھکا دیا ۔ الصابئون ایک فرقے کا نام ہے جو نوح (علیہ السلام) کے دین پر ہونے کا مدعی تھا اور ہر وہ آدمی جو ایک دین کو چھوڑ کر دوسرے دین میں داخل ہوجائے اسے صابئی کہا جاتا ہے صباء ناب البعیر کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں اونٹ کے کچلی نکل آئی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصاری[ الحج 17] اور ستارہ پرست اور عیسائی ۔ وَالنَّصاری وَالصَّابِئِينَ [ البقرة 62] اور عیسائی یا ستارہ پرست ۔ اور ایک قرات میں صابین ( بدوں ہمزہ کے ) ہے بعض نے کہا ہے کہ ہمزہ تخفیف کے لئے حزف کردیا گیا ہے جیسا کہ آیت : ۔ لا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخاطِؤُنَ «3» [ الحاقة 37] جس کو گنہگاروں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا ۔ میں الخاطون اصل میں خاطئون ہے ۔ اور بعض نے کہا نہیں بلکہ یہ صبا یصبو سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونا اور جھکنا کے ہیں ۔- جاس - قال تعالی: فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء 5] ، أي : توسّطوها وتردّدوا بينها، ويقارب ذلک جازوا وداسوا، وقیل : الجَوْس : طلب ذلک الشیء باستقصاء، والمجوس معروف .- ( ج وس )- آیت کریمہ : ۔ فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء 5] میں جاسوا کے معنی ہیں کہ وہ تمہارے دیار کے اندر گھس گئے اور ان میں خوب پھرے ( غارت گری اور ان میں خوب پھرے ( غارت گری اور قتل سے کنایہ ہے ) اور و اس کے معنی بھی اسی ( جاسوا ) کے قریب قریب ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ الجوس کے منعی کسی چیز کو استقصار کے ساتھ طلب کرنا کے ہوتے ہیں ۔ المجوس ۔ ایک معروف فرقے کا نام ہے ۔ - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- فصل ( جدا)- الفَصْلُ : إبانة أحد الشّيئين من الآخر : حتی يكون بينهما فرجة، ومنه قيل : المَفَاصِلُ ، الواحد مَفْصِلٌ ، قال تعالی: وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قالَ أَبُوهُمْ [يوسف 94] ، ويستعمل ذلک في الأفعال والأقوال نحو قوله : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ أَجْمَعِينَ [ الدخان 40] - ( ف ص ل ) الفصل - کے معنی دوچیزوں میں سے ایک کو دوسری سے اسی طرح علیحدہ کردینے کے ہیں کہ ان کے درمیان فاصلہ ہوجائے اسی سے مفاصل ( جمع مفصل ) ہے جس کے معنی جسم کے جوڑ کے ہیں . قرآن میں ہے : وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قالَ أَبُوهُمْ [يوسف 94] اور جب قافلہ ( مصر سے ) روانہ ہوا ۔ اور یہ اقول اور اعمال دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے قرآن میں ہے : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ أَجْمَعِينَ [ الدخان 40] کچھ شک نہیں کہ فیصلے کا دن سب کے اٹھنے کا دن ہے ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - قِيامَةُ- والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ- [ الروم 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] ،- القیامتہ - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔- شهد - وشَهِدْتُ يقال علی ضربین :- أحدهما - جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول :- أشهد . والثاني يجري مجری القسم،- فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، - ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ - شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے
(١٧) اس میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لائے اور مدینہ منورہ کے یہودی اور صائبین جو نصاری کا ایک فرقہ ہے اور نجران کے عیسائی یعنی سید وعاقب اور سورج اور آگ کی پوجا کرنے والے اور مشرکین عرب اللہ تعالیٰ ان سب کے درمیان قیامت کے روز عملی فیصلہ فرما دے گا اللہ تعالیٰ ان کے اختلاف اور ان کے اعمال سے واقف ہے۔
(اِنَّ اللّٰہَ یَفْصِلُ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِط اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَہِیْدٌ ) ” - یعنی ہرچیز اور ہر انسان کے دل کی کیفیت اس کی نگاہوں کے سامنے ہے۔
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :23 یعنی مسلمان جنہوں نے اپنے اپنے زمانے میں خدا کے تمام انبیاء ، اور اس کی کتابوں کو مانا ، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جنہوں نے پچھلے انبیاء کے ساتھ آپ پر بھی ایمان لانا قبول کیا ۔ ان میں صادق الایمان بھی شامل تھے اور وہ بھی تھے جو ماننے والوں میں شامل تو ہو جاتے تھے مگر کنارے پر رہ کر بندگی کرتے تھے ۔ اور کفر و ایمان کے درمیان تذبذب تھے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :24 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، النساء ، حاشیہ 72 ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :25 صابئی کے نام سے قدیم زمانے میں دو گروہ مشہور تھے ۔ ایک حضرت یحیٰ علیہ السلام کے پیرو ، جو بالائی عراق ( یعنی الجزیرہ ) کے علاقے میں اچھی خاصی تعداد میں پائے جاتے تھے ، اور حضرت یحیٰ کی پیروی میں اصطباغ کے طریقے پر عمل کرتے تھے ۔ دوسرے ستارہ پرست لوگ جو اپنے دین کو حضرت شیث اور حضرت ادریس علیہما السلام کی طرف منسوب کرتے تھے اور عناصر پر سیاروں کی اور سیاروں پر فرشتوں کی فرماں روائی کے قائل تھے ۔ ان کا مرکز حران تھا اور عراق کے مختلف حصوں میں ان کی شاخیں پھیلی ہوئی تھیں ۔ یہ دوسرا گروہ اپنے فلسفہ و سائنس اور جن طب کے کمالات کی وجہ سے زیادہ مشہور ہوا ہے ۔ لیکن اغلب یہ ہے کہ یہاں پہلا گروہ مراد ہے ۔ کیونکہ دوسرا گروہ غالباً نزول قرآن کے زمانے میں اس نام سے موسوم نہ تھا ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :26 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، المائدہ ، حاشیہ 36 ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :27 یعنی ایران کے آتش پرست جو روشنی اور تاریکی کے دو خدا مانتے تھے اور اپنے آپ کو زردشت کا پیرو کہتے تھے ۔ ان کے مذہب و اخلاق کو مزدَک کی گمراہیوں نے بری طرح مسخ کر کے رکھ دیا تھا ، حتیٰ کہ سگی بہن سے نکاح تک ان میں رواج پا گیا تھا ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :28 یعنی عرب اور دوسرے ممالک کے مشرکین جو مذکورہ بالا گروہوں کی طرح کسی خاص نام سے موسوم نہ تھے ۔ قرآن مجید ان کو دوسرے گروہوں سے ممیز کرنے کے لیے مشرکین اور اَلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا کے اصطلاحی ناموں سے یاد کرتا ہے ، اگرچہ اہل ایمان کے سوا باقی سب کے ہی عقائد و اعمال میں شرک داخل ہو چکا تھا ۔