Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

چاند سورج ستارے سب سجدہ ریز ۔ مستحق عبادت صرف وحدہ لاشریک اللہ ہے اس کی عظمت کے سامنے ہر چیز سر جھکائے ہوئے ہے خواہ بخوشی خواہ بےخوشی ۔ ہر چیز کا سجدہ اپنی وضع ہر چیز کا سجدہ اپنی وضع میں ہے ۔ چنانچہ قرآن نے سائے کا دائیں بائیں اللہ کے سامنے سربہ سجود ہونا بھی آیت ( اَوَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ يَّتَفَيَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْيَمِيْنِ وَالشَّمَاۗىِٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَهُمْ دٰخِرُوْنَ 48؀ ) 16- النحل:48 ) میں بیان فرمایا ہے ۔ آسمانوں کے فرشتے ، زمین کے حیوان ، انسان ، جنات ، پرند ، چرند ، سب اس کے سامنے سربہ سجود ہیں اور اس کی تسبیح اور حمد کررہے ۔ سورج چاند ستارے بھی اس کے سامنے سجدے میں گرے ہوئے ہیں ۔ ان تینوں چیزوں کو الگ اس لئے بیان کیا گیا کہ بعض لوگ ان کی پرستش کرتے ہیں حالانکہ وہ خود اللہ کے سامنے جھکے ہوئے ہیں اسے لئے فرمایا سورج چاند کو سجدے نہ کرو اسے سجدے کرو جو ان کا خالق ہے بخاری ومسلم میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا جانتے ہو کہ یہ سورج کہاں جاتا ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ اللہ کو علم ہے اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ۔ آپ نے فرمایا یہ عرش تلے جاکر اللہ کو سجدہ کرتا ہے پھر اس سے اجازت طلب کرتا ہے وقت آرہا ہے کہ اس سے ایک دن کہہ دیا جائے گا کہ جہاں سے آیا ہے وہیں واپس چلا جا ۔ سنن ابی داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ ، اور مسند احمد میں گرہن کی حدیث میں ہے کہ سورج چاند اللہ کی مخلوق ہے وہ کسی کی موت پیدائش سے گرہن میں نہیں آتے بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی میں سے جس کس پر تجلی ڈالتا ہے تو وہ اس کے سامنے جھک جاتا ہے ۔ ابو العالیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں سورج چاند اور کل ستارے غروب ہو کر سجدے میں جاتے ہیں اور اللہ سے اجازت مانگ کر داہنی طرف سے لوٹ کر پھر اپنے مطلع میں پہنچتے ہیں ۔ پہاڑوں اور درختوں کا سجدے میں ان کے سائے کا دائیں بائیں پڑنا ہے ۔ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا خواب بیان کیا کہ میں نے دیکھا ہے کہ گویا میں ایک درخت کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں ۔ میں جب سجدے میں گیا تو وہ درخت بھی سجدے میں گیا اور میں نے سنا کہ وہ اپنے سجدے میں یہ پڑھ رہا تھا ۔ دعا ( اللہم اکتب لی بہا عندک اجرا وضع عنی بہا وزرا واجعلہا لی عندک ذخرا و تقبلہا منی کماتقبلتہامن عبدک ) داود ۔ یعنی اے اللہ اس سجدے کی وجہ سے میرے لئے اپنے پاس اجروثواب لکھ اور میرے گناہ معاف فرما اور میرے لئے اسے ذخیرہ آخرت کر اور اسے قبول فرما جسے کہ تو نے اپنے بندے داؤد علیہ السلام کا سجدہ قبول فرمایا تھا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ کا بیان ہے کہ پھر میں نے دیکھا کہ ایک دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدے کی آیت پڑھی ۔ سجدہ کیا اور یہی دعا آپ نے اپنے اس سجدے میں پڑھی جسے میں سن رہا تھا ( ترمذی وغیرہ ) تمام حیوانات بھی اسے سجدہ کرتے ہیں ۔ چنانچہ مسند احمد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اپنے جانور کی پیٹھ کو اپنا منبر نہ بنا لیا کرو بہت سی سواریاں اپنے سوار سے زیادہ اچھی ہوتی ہیں اور زیادہ ذکر اللہ کرنے والی ہوتی ہیں اور اکثر انسان بھی اپنی خوشی سے عبادت الٰہی بجا لاتے ہیں اور سجدے کرتے ہیں ہاں وہ بھی ہیں جو اس سے محروم ہیں تکبر کرتے ہیں ۔ سرکشی کرتے ہیں اللہ جسے ذلیل کرے اسے عزیز کون کرسکتا ہے ؟ رب فاعل خودمختار ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے کہا یہاں ایک شخص ہے جو اللہ کے ارادوں اور اس کی مشیت کو نہیں مانتا ۔ آپ نے اسے فرمایا اے شخض بتا تیری پیدائش اللہ تعالیٰ نے تیری چاہت کے مطابق کی یا اپنی ؟ اس نے کہا اپنی چاہت کے مطابق ۔ فرمایا یہ بھی بتا کہ جب تو چاہتا ہے مریض ہو جاتا ہے یا جب اللہ چاہتا ہے ؟ اس نے کہا جب وہ چاہتا ہے ۔ پوچھا پھر تجھے شفا تیری چاہت سے ہوتی ہے یا اللہ کے ارادے سے ؟ جواب دیا اللہ کے ارادے سے ۔ فرمایا اچھا یہ بھی بتاکہ اب وہ جہاں چاہے گا تجھے لے جائے گا یا جہاں تو چاہے گا ؟ کہاجہاں وہ چاہے ۔ فرمایا پھر کیا بات باقی رہ گئی ؟ سن اگر تو اس کے خلاف جواب دیتا تو واللہ میں تیرا سراڑادیتا ۔ مسلم شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب انسان سجدے کی آیت پڑھ کر سجدہ کرتا ہے تو شیطان الگ ہٹ کر رونے لگتا ہے کہ افسوس ابن آدم کو سجدے کا حکم ملا اس نے سجدہ کرلیا جنتی ہوگیا میں نے انکار کردیا جہنمی بن گیا ۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یارسول صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ حج کو اور تمام سورتوں پر یہ فضیلت ملی کہ اس میں دو آیتیں سجدے کی ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں اور جو ان دونوں پر سجدہ نہ کرے اسے چاہے کہ اسے پڑھے ہی نہیں ۔ ( ترمذی وغیرہ ) امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ حدیث قوی نہیں لیکن امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا یہ قول قابل غور ہے کیونکہ اس کے راوی ابن لہیہ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی سماعت کی اس میں تصریح کردی ہے اور ان پر بڑی جرح وتدلیس کی ہے جو اس سے اٹھ جاتی ہے ۔ ابو داؤد میں فرمان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ سورۃ حج کو قرآن کی اور سورتوں پر یہ فضیلت دی گئی ہے اس میں دوسجدے ہیں ۔ امام ابو داؤد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس سند سے تو یہ حدیث مستند نہیں لیکن اور سند سے یہ مسند بھی بیان کی گئی ہے مگر صحیح نہیں ۔ مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیبہ میں اس سورت کی تلاوت کی اور دوبار سجدہ کیا اور فرمایا اسے ان سجدوں سے فضیلت دی گئی ۔ ( ابوبکر بن عدی ) حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے قرآن میں پندرہ سجدے پڑھائے ، تین مفصل میں دو سورۃ حج میں ۔ ( ابن ماجہ وغیرہ ) یہ سب روایتیں اس بات کو پوری طرح مضبوط کردیتی ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 بعض مفسرین نے اس سجدے سے ان تمام چیزوں کا احکام الٰہی کے تابع ہونا مراد لیا ہے، کسی میں مجال نہیں کہ وہ حکم الٰہی سے سرتابی کرسکے۔ ان کے نزدیک وہ سجدہ اطاعت و عبادت مراد نہیں۔ جب کہ بعض مفسرین نے اسے مجاز کے بجائے حقیقت پر مبنی کیا ہے کہ ہر مخلوق اپنے اپنے انداز سے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہے مثلا ( من فی السموات) سے مراد فرشتے ہیں ومن فی الارض سے ہر قسم کے حیوانات، انسان، جنات، چوپائے اور پرندے اور دیگر اشیاء ہیں یہ سب اپنے اپنے انداز سے سجدہ اور تسبیح کرتی ہیں (وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ ) 17 ۔ الاسراء :44) سورة بنی اسرائیل۔ سورج چاند اور ستاروں کا بطور خاص اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ مشرکین ان کی عبادت کرتے رہے ہیں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا تم ان کو سجدہ کرتے ہو یہ تو اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے والے ہیں اور اس کے ماتحت ہیں اس لیے تم انھیں سجدہ مت کرو اس ذات کو سجدہ کرو جو ان کا خالق ہے (حم سجدہ 37) صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا جانتے ہو سورج کہاں جاتا ہے میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی بہتر جانتے ہیں فرمایا سورج جاتا ہے اور عرش کے نیچے جاکر سجدہ ریز ہوجاتا ہے پھر اسے (طلوع ہونے کا) حکم دیا جاتا ہے ایک وقت آئے گا کہ اسے کہا جائے گا واپس لوٹ جا یعنی جہاں سے آیا ہے وہیں چلا جا۔ (صحیح بخاری) اسی طرح صحابی کا واقعہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے خواب میں اپنے ساتھ درخت کو سجدہ کرتے دیکھا (ترمذی) اور پہاڑوں اور درختوں کے سجدے میں ان سایوں کا دائیں بائیں پھرنا یا جھکنا بھی شامل ہے جس طرف اشارہ سورة الرعد اور النحل 47، 48 میں بھی کیا گیا ہے۔ 18۔ 2 یہ سجدہ اطاعت و عبادت ہی ہے جس کو انسانوں کی ایک بڑی تعداد کرتی ہے اور اللہ کی رضا کی مستحق قرار پاتی ہے۔ 18۔ 3 یہ وہ ہیں جو سجدہ اطاعت سے انکار کرکے کفر اختیار کرتے ہیں، ورنہ تکوینی احکام یعنی سجدہ انقیاد میں تو انھیں بھی مجال انکار نہیں۔ 18۔ 4 کفر اختیار کرنے کا نتیجہ ذلت و رسوائی اور آخرت کا دائمی عذاب ہے، جس سے بچا کر کافروں کو عزت دینے والا کوئی نہیں ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٣] ساری کائنات میں انسان اور جن ہی مکلف مخلوق ہیں اور انھیں کو قوت ارادہ و اختیار دیا گیا ہے باقی مخلوق تکوینی طور پر اللہ کے حضور ہر وقت سجدہ ریز رہتی ہے اور ان کے سجدہ کا مطلب یہ ہے کہ جس کام پر اللہ نے انھیں لگا دیا ہے یا جو خدمت ان کے ذمہ کردی ہے اور جو قوانین ان کے لئے مقرر کردیئے ہیں ان سے وہ سرمو تجاوز نہیں کرتے اور انسانوں میں سے بھی ایک کثیر طبقہ ایسا ہے جس نے اپنے ارادہ کو اللہ کی مرضی کے تابع بنادیا ہے اور برضا ورغبت اللہ کی فرمانبرداری کرتے ہیں اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ تاہم انسانوں کا ایک کثیر طبقہ ایسا بھی ہے جس نے اس اختیار کا غلط استعمال کیا اور باقی تمام مخلوق کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی بجائے اللہ کے احکام کے مقابلہ میں سرکشی کی راہ اختیار کی۔ اور اس امتحان میں ناکام رہا جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا تھا۔ ایسے لوگوں کو یقیناً اس سرکشی کی سزا عذاب الیم کی صورت میں بھگتنا پڑے گی۔- [٢٤] یعنی اللہ کے احکام روگردانی اور اس کے حضور سجدہ سے سرکشی کا لازمی نتیجہ ذلت اور رسوائی ہے۔ اور اللہ کے نافرمانوں کو بسا اوقات دنیا میں ہی یہ برا نتیجہ دیکھنا پڑتا ہے اور اگر دنیا میں بچ بھی جائے تو آخرت میں اسے ضروری اس نتیجہ سے دورچار ہونا پڑے گا۔ اور کوئی طاقت اسے اس سزا سے بچا نہ سکے گی۔- [٢٥] اس سورة حج میں دو سجدہ ہائے تلاوت ہیں۔ اس آیت نمبر ١٨ پر پہلا سجدہ ہے اور یہی سجدہ متفق علیہ ہے جو ہر پڑھنے والے اور سننے والے کو ادا کرنا چاہئے تاکہ وہ بھی کائنات کی جملہ اشیاء کے سجدہ میں ان کے ہم آہنگ اور شریک ہوجائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَسْجُدُ لَهٗ ۔۔ : پچھلی آیت میں جن گروہوں کا ذکر ہوا اہل ایمان کے علاوہ سب نے اللہ کے ساتھ شریک بنا رکھے ہیں۔ یہود نے عزیر (علیہ السلام) کو اور نصاریٰ نے مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دے رکھا ہے۔ صابی ستارہ پرست، مجوس آتش پرست اور مشرکین بت پرست ہیں۔ اس آیت میں فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کی عبادت اور اسے سجدہ کرنے پر متفق ہے ؟ انسان جسے اللہ تعالیٰ نے عقل جیسی نعمت عطا فرمائی، اس کا حق تو یہ تھا کہ اس کے سارے افراد اوروں سے زیادہ اس کی عبادت اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہونے پر متفق ہوتے، مگر اس کے بہت سے افراد غیر اللہ کی عبادت کی وجہ سے عذاب الٰہی کے حق دار ٹھہرے ہیں۔- ” اَلَمْ تَرَ “ سے مراد ” أَلَمْ تَعْلَمْ “ ہے، یعنی کیا تجھے معلوم نہیں ؟ کیونکہ آسمانوں اور زمین میں بسنے والے تمام افراد کو اللہ کے لیے سجدہ کرتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا۔ مزید دیکھیے سورة فیل کی آیت (١) : (اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ ) کی تفسیر۔ ” اَلَمْ تَرَ “ کے اولین مخاطب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور آپ کے بعد آپ کی امت کا ہر فرد۔- بعض مفسرین نے یہاں سجدے سے مراد انقیاد لیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے سامنے ساری مخلوق عاجز اور بےبس ہے۔ چاہے یا نہ چاہے، اسے اس کے سامنے گردن جھکانا اور اس کے ” کُنْ فَیَکُوْنُ “ والے حکم کو ماننا پڑتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ وہ ” کُنْ “ کہے اور کوئی اس سے منہ پھیر سکے۔ مگر یہاں سجدے کا صرف یہ معنی مراد لینا درست نہیں، کیونکہ یہ سجدہ تو ساری مخلوق کے ساتھ ساتھ ہر انسان اور جن بھی کرتا ہے، بلکہ یہاں مراد وہ سجدہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق بہت سے لوگ کرتے ہیں اور بہت سے لوگوں پر عذاب واجب ہوچکا ہے، یعنی وہ سجدہ نہیں کرتے۔ اگر تکوینی سجدہ مراد ہو تو مومن و کافر کسی کی مجال نہیں کہ اس کے حکم سے سرتابی کرے۔ آدمی ایک ٹانگ اٹھا سکتا ہے، ذرا دونوں اٹھا کر تو دکھائے ؟ اپنی بھوک یا پیاس کو روک لے۔ پیشاب پاخانہ کی حاجت سے بےنیاز ہو کر دکھائے۔ دل کی دھڑکن، خون کی گردش، بچپن، جوانی، بڑھاپا، بیماری، ضعف، انحطاط، موت، غرض اللہ کے کسی تکوینی حکم کے مقابلے میں سجدے سے سر اٹھا کر دکھائے ؟ معلوم ہوا اس سجدے سے وہ سجدہ مراد ہے جو انسان اپنی خوشی سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق وہ تمام چیزیں جن کا اس آیت میں ذکر ہے اپنی خوشی سے اللہ کے لیے سجدہ کرتی ہیں، جب کہ لوگوں میں سے بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے یہ سجدہ خوشی سے کرتے ہیں اور بہت سے نہیں کرتے۔ جن و انس کے علاوہ باقی ساری مخلوق دونوں طرح سے اللہ کے لیے سجدہ ریز ہے، تکوینی طور پر بھی اور اطاعت و عبادت کے لیے بھی، جبکہ انسان تکوینی طور پر اللہ کے حکم کے سامنے سجدہ ریز ہے، اطاعت و عبادت کے طور پر بہت سے انسان سجدہ کرتے ہیں، بہت سے نہیں کرتے۔- یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز کا تکوینی حکم کے تابع ہونا تو سمجھ میں آتا ہے، مگر عبادت کے لیے باقاعدہ سجدہ کرنا سمجھ میں نہیں آتا، کیونکہ پہاڑ، درخت، سورج، چاند اور ستارے تو بےجان چیزیں ہیں، وہ سجدہ کیا کریں گی ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں میں احساس اور شعور رکھا ہے اور اس نے ہر چیز کو اپنے سامنے رکوع و سجود اور قیام و تسبیح کا طریقہ بھی سکھا رکھا ہے، حتیٰ کہ جب اس نے زمین و آسمان کو حکم دیا کہ خوشی یا ناخوشی سے حاضر ہوجاؤ تو دونوں نے کہا، ہم خوشی سے حاضر ہیں۔ دیکھیے سورة حم السجدہ (١١) اور فرمایا : (ۧاَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّيْرُ صٰۗفّٰتٍ ۭ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَتَسْبِيْحَهٗ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِمَا يَفْعَلُوْن) [ النور : ٤١ ] ” کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ، اس کی تسبیح کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور پرندے پر پھیلائے ہوئے، ہر ایک نے یقیناً اپنی نماز (جس میں قیام اور رکوع و سجود سب کچھ ہوتا ہے) اور اپنی تسبیح جان لی ہے اور اللہ اسے خوب جاننے والا ہے جو وہ کرتے ہیں۔ “ اور دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٤٤) ، احزاب (٧٢) ، حشر (٢١) ، نحل (٤٨) ، حم السجدہ (٢١) اور سورة بقرہ (٧٤) خلاصہ یہ ہے کہ یہاں ” یسجد “ کے سجدے سے مراد عبادت کا سجدہ ہے، جو کچھ لوگ کرتے ہیں اور کچھ لوگ نہیں کرتے اور ” اَلنَّاس “ کے علاوہ باقی تمام چیزوں کے سجدے سے دونوں سجدے مراد ہیں، تکوینی بھی اور عبادت کا سجدہ بھی۔- 3 اللہ تعالیٰ نے اپنی بیشمار مخلوق میں سے چند کا خاص طور پر نام لے کر ذکر فرمایا کہ وہ اللہ کے لیے سجدہ کرتی ہیں۔ اس میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان تمام اشیاء میں سے ہر ایک کو کسی نہ کسی مشرک نے اپنا معبود بنا رکھا ہے۔ سورج، چاند اور ستاروں کی پرستش صابئین کرتے ہیں۔ عرب کے مشرکین شعریٰ اور دوسرے ستاروں کی پوجا کرتے تھے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کو ان کی عبادت سے منع فرمایا تھا۔ پہاڑوں کے پتھروں کی پوجا بت پرست کرتے ہیں، اسی طرح کئی درختوں کی بھی عبادت ہوتی ہے، جیسے کئی قبر پرست اور بت پرست اپنے اپنے دربار کے درختوں کو بھی کرنی والا سمجھتے ہیں اور ان کے پتے یا ٹہنی توڑنے کو بہت بڑا گناہ سمجھتے ہیں۔ کئی جانوروں کو بھی معبود بنایا گیا ہے، جیسے ہندو گائے، سانپ، بندر اور کئی جانوروں کی پوجا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ سب تو اللہ تعالیٰ کے لیے سجدہ کرتے اور اسے اپنا رب مانتے ہیں، پھر عقل سے کس قدر عاری ہیں وہ لوگ جو اللہ کو سجدہ کرنے کے بجائے ان کو سجدہ کرتے ہیں جو خود اللہ کے لیے سجدہ کرتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر انسان کی اور ذلت کیا ہوگی ؟- وَمَنْ يُّهِنِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّكْرِمٍ : ” يُّهِنِ “ پر ” مَنْ “ آنے کی وجہ سے نون پر جزم آگئی، دو ساکنوں کی وجہ سے ” یاء “ گرگئی تو ” یُھِنْ “ ہوگیا، پھر آگے ملانے کے لیے نون کو کسرہ دے دیا۔ یعنی جسے اللہ تعالیٰ اس کے شرک و کفر کی شامت کے نتیجے میں انسانی عز و شرف سے محروم کر کے جانوروں سے بھی بدتر بنا دے (اعراف : ١٧٩) اور جہنم کے دائمی عذاب میں مبتلا کرکے ہمیشہ کے لیے ذلیل و رسوا کر دے تو اسے اس ذلت سے نکال کر کوئی عزت عطا کرنے والا نہیں، فرمایا : (وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ) [ آل عمران : ٢٦ ] ” اور تو جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کردیتا ہے۔ “- اِنَّ اللّٰهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاۗءُ : ” اِنَّ “ (ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ) اپنے سے پہلے جملے کی علت بیان کرنے کے لیے آتا ہے۔ یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو عزت اور کسی کو ذلت کیوں دیتا ہے ؟ فرمایا، وہ اپنی مرضی کا مالک ہے، جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ مزید دیکھیے سورة انبیاء کی آیت (٢٣) کی تفسیر۔ - 3 اس آیت پر سجدہ ہے اور سورة حج کے اس سجدہ پر سب کا اتفاق ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ يَسْجُدُ لَہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَاۗبُّ وَكَثِيْرٌ مِّنَ النَّاسِ۝ ٠ۭ وَكَثِيْرٌ حَقَّ عَلَيْہِ الْعَذَابُ۝ ٠ۭ وَمَنْ يُّہِنِ اللہُ فَمَا لَہٗ مِنْ مُّكْرِمٍ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ يَفْعَلُ مَا يَشَاۗءُ۝ ١٨ۭ۞- سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )- شمس - الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] ، وقال :- الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها .- ( ش م س ) الشمس - کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔- قمر - القَمَرُ : قَمَرُ السّماء . يقال عند الامتلاء وذلک بعد الثالثة، قيل : وسمّي بذلک لأنه يَقْمُرُ ضوء الکواکب ويفوز به . قال : هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] - ( ق م ر ) القمر - ۔ چاند جب پورا ہورہا ہو تو اسے قمر کہا جاتا ہے اور یہ حالت تیسری رات کے بعد ہوتی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ چاندکو قمر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ستاروں کی روشنی کو خیاہ کردیتا ہے اور ان پر غالب آجا تا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا ۔- نجم - أصل النَّجْم : الكوكب الطالع، وجمعه :- نُجُومٌ ، ونَجَمَ : طَلَعَ ، نُجُوماً ونَجْماً ، فصار النَّجْمُ مرّة اسما، ومرّة مصدرا، فَالنُّجُوم مرّة اسما کالقلُوب والجُيُوب، ومرّة مصدرا کالطُّلوع والغروب، ومنه شُبِّهَ به طلوعُ النّبات، والرّأي، فقیل : نَجَمَ النَّبْت والقَرْن، ونَجَمَ لي رأي نَجْما ونُجُوماً ، ونَجَمَ فلانٌ علی السّلطان : صار - عاصیا، ونَجَّمْتُ المالَ عليه : إذا وَزَّعْتُهُ ، كأنّك فرضت أن يدفع عند طلوع کلّ نَجْمٍ نصیباً ، ثم صار متعارفا في تقدیر دفعه بأيّ شيء قَدَّرْتَ ذلك . قال تعالی: وَعَلاماتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل 16] ، وقال : فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات 88] أي : في علم النُّجُوم، وقوله : وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم 1] ، قيل : أراد به الكوكب، وإنما خصّ الهُوِيَّ دون الطّلوع، فإنّ لفظة النَّجْم تدلّ علی طلوعه، وقیل : أراد بِالنَّجْم الثُّرَيَّا، والعرب إذا أطلقتْ لفظَ النَّجم قصدتْ به الثُّرَيَّا . نحو : طلع النَّجْمُ غُدَيَّه ... وابْتَغَى الرَّاعِي شُكَيَّه «1»- وقیل : أراد بذلک القرآن المُنَجَّم المنزَّل قَدْراً فَقَدْراً ، ويعني بقوله : هَوى نزولَهُ ، وعلی هذا قوله : فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] فقد فُسِّرَ علی الوجهين، والتَّنَجُّم : الحکم بالنّجوم، وقوله تعالی: وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن 6] فَالنَّجْمُ : ما لا ساق له من النّبات، وقیل : أراد الکواكبَ.- ( ن ج م ) النجم - اصل میں طلوع ہونے ولاے ستارے کو کہتے ہیں اس کی جمع نجوم آتی ہے ۔ اور نجم ( ن ) نجوما ونجاما کے معنی طلوع ہونے کے ہیں نجم کا لفظ کبھی اسم ہوتا ہے اور کبھی مصدر اسی طرح نجوم کا لفظ کبھی قلوب وجیوب کی طرح جمع ہوتا ہے اور کبھی طلوع و غروب کی طرح مصدر اور تشبیہ کے طور پر سبزہ کے اگنے اور کسی رائے کے ظاہر ہونے پر بھی نجم النبت والقرن ونجم لی رای نجما کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ نجم فلان علی السلطان بادشاہ سے لغایت کرنا نجمت المال علیہ اس کے اصل منعی تو ستاروں کے طلوع کے لحاظ سے قرض کی قسطیں مقرر کرنے کے ہیں ۔ مثلا فلاں ستارے کے طلوع پر مال کی اتنی قسط ادا کرتا رہوں گا ۔ مگر عرف میں لطلق اقساط مقرر کرنے پر بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل 16] اور لوگ ستاروں سے بھی رستے معلوم کرتے ہیں ۔ فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات 88] تب انہوں نے ستاروں کی طرف ایک نظر کی ۔ یعنی علم نجوم سے حساب نکالا ۔ اور آیت کریمہ ؛ ۔ وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم 1] تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نجم سے مراد ستارہ ہے اور طلع کی بجائے ھوی کا لفظ لانے کی وجہ یہ ہے کہ طلوع کے معنی پر تو لفظ نجم ہی دلالت کر رہا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ جنم سے مراد ثریا یعنی پر دین ہے کیونکہ اہل عرب جب مطلق النجم کا لفظ بولتے ہیں تو پر دین ہی مراد ہے جیسا کہ مقولہ ہے طلع النجم غد یہ وابتغی الراعی سکیہ صبح کا ستارہ طلوع ہوا اور چر واہے نے اپنا مشکیزہ سنبھالا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آیت مذکورہ میں النجم سے مراد نجوم القرآن ہیں ۔ کیونکہ وہ بھی تد ریجا معین مقدار میں نازل ہوتا رہا ہے اور ھوی سے اس کا نزول مراد ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ میں بھی مواقع النجوم کی دو طرح تفسیر بیان کی گئی ہے یعنی بعض نے مواقع النجوم سے مراد ستاروں کے منازل لئے ہیں اور بعض نے نجوم القرآن مراد لئے ہیں ۔ التنجم علم نجوم کے حساب سے کوئی پیش گوئی کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدے کر رہے ہیں ۔ میں نجم سے بےتنہ نباتات یعنی جڑی بوٹیاں مراد ہیں اور بعض نے ستارے مراد لئے ہیں ۔- شجر - الشَّجَرُ من النّبات : ما له ساق، يقال : شَجَرَةٌ وشَجَرٌ ، نحو : ثمرة وثمر . قال تعالی: إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] ، وقال : أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة 72] ، وقال : وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن 6] ، لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة 52] ، إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان 43] . وواد شَجِيرٌ: كثير الشّجر، وهذا الوادي أَشْجَرُ من ذلك، والشَّجَارُ الْمُشَاجَرَةُ ، والتَّشَاجُرُ : المنازعة . قال تعالی: حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] . وشَجَرَنِي عنه : صرفني عنه بالشّجار، وفي الحدیث : «فإن اشْتَجَرُوا فالسّلطان وليّ من لا وليّ له» «1» . والشِّجَارُ : خشب الهودج، والْمِشْجَرُ : ما يلقی عليه الثّوب، وشَجَرَهُ بالرّمح أي : طعنه بالرّمح، وذلک أن يطعنه به فيتركه فيه .- ( ش ج ر ) الشجر - ( درخت وہ نبات جس کا تنہ ہو ۔ واحد شجرۃ جیسے ثمر و ثمرۃ ۔ قرآن میں ہے : إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے ۔ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة 72] کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدہ کررہے ہیں ۔ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة 52] ، تھوہر کے درخت سے إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان 43] بلاشبہ تھوہر کا درخت گنجان درختوں والی وادی ۔ بہت درختوں والی جگہ ۔ ھذا الوادی اشجر من ذالک اس وادی میں اس سے زیادہ درخت ہیں ۔ الشجار والمشاجرۃ والتشاجر باہم جھگڑنا اور اختلاف کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] اپنے تنازعات میں ۔ شجرنی عنہ مجھے اس سے جھگڑا کرکے دور ہٹا دیا یا روک دیا حدیث میں ہے ۔ (189) فان اشتجروا فالسلطان ولی من لا ولی لہ اگر تنازع ہوجائے تو جس عورت کا ولی نہ ہو بادشاہ اس کا ولی ہے الشجار ۔ ہودہ کی لکڑی چھوٹی پالکی ۔ المشجر لکڑی کا اسٹینڈ جس پر کپڑے رکھے یا پھیلائے جاتے ہیں ۔ شجرہ بالرمح اسے نیزہ مارا یعنی نیزہ مار کر اس میں چھوڑ دیا ۔- دب - الدَّبُّ والدَّبِيبُ : مشي خفیف، ويستعمل ذلک في الحیوان، وفي الحشرات أكثر، ويستعمل في الشّراب ويستعمل في كلّ حيوان وإن اختصّت في التّعارف بالفرس : وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] - ( د ب ب ) دب - الدب والدبیب ( ض ) کے معنی آہستہ آہستہ چلنے اور رینگنے کے ہیں ۔ یہ لفظ حیوانات اور زیادہ نر حشرات الارض کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور شراب اور مگر ( لغۃ ) ہر حیوان یعنی ذی حیات چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] اور زمین پر چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمے ہے ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- هان - الْهَوَانُ علی وجهين :- أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن»- الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ به - فيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل .- ( ھ و ن ) الھوان - اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت سے مروی ہے کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے - دوم ھان بمعنی ذلت - اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کت اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] تو کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے ولاا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] کہ بی مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] اور تم اسے ایک ہل کہ بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ قاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔- كرم - الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی:- فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] .- والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ :- أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ- [ الذاریات 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] منطو علی المعنيين .- ( ک ر م ) الکرم - ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ - الا کرام والتکریم - کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے - - شاء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . وعند بعضهم : الشَّيْءُ عبارة عن الموجود «2» ، وأصله : مصدر شَاءَ ، وإذا وصف به تعالیٰ فمعناه : شَاءَ ، وإذا وصف به غيره فمعناه الْمَشِيءُ ، وعلی الثاني قوله تعالی: قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ- [ الرعد 16] ، فهذا علی العموم بلا مثنويّة إذ کان الشیء هاهنا مصدرا في معنی المفعول . وقوله : قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام 19] ، فهو بمعنی الفاعل کقوله : فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون 14] . والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) «3» ، والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادة- الإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ- [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» ، وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترک ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ما سوی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجودات اور معدومات سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، بعض نے کہا ہے کہ شے صرف موجود چیز کو کہتے ہیں ۔ یہ اصل میں شاء کا مصدر ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق شے کا لفظ استعمال ہو تو یہ بمعنی شاء یعنی اسم فاعل کے ہوتا ہے ۔ اور غیر اللہ پر بولا جائے تو مشیء ( اسم مفعول ) کے معنی میں ہوتا ہے ۔ پس آیت کریمہ : ۔ قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [ الرعد 16] خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ۔ میں لفظ شی چونکہ دوسرے معنی ( اسم مفعول ) میں استعمال ہوا ہے اس لئے یہ عموم پر محمول ہوگا اور اس سے کسی قسم کا استثناء نہیں کیا جائیگا کیونکہ شی مصدر بمعنی المفعول ہے مگر آیت کریمہ : ۔ قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام 19] ان سے پوچھو کہ سب سے بڑھ کر ( قرین انصاف ) کس کی شہادت ہے میں شے بمعنی اسم فاعل ہے اور اللہ تعالیٰ کو اکبر شھادۃ کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری ایت ۔ فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون 14] ( تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے ) میں ذات باری تعالیٰ کو احسن الخالقین کہا گیا ہے ۔ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قرآن میں سجدہ ہائے تلاوت کی تعداد - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ سلف اور فقہاء امصار کا سورة حج کے پہلے سجدے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے سب کا قول ہے کہ پہلا سجدہ واجب ہے البتہ سورة حج کے دوسرے سجدے نیز مفصل یعنی سورة قاف سے لے کر آخر قرآن تک کے سجدوں کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ قرآن میں چودہ سجدے ہیں۔ ان میں سے ایک سورة حج کا پہلا سجدہ اور مفصل کے تین سجدے ہیں۔ سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ قرآن کے عزائم سجود یعنی واجب سجدے گیارہ ہیں۔ مفصل کے اندر کوئی سجدہ نہیں ہے۔ لیث بن سعد کا قول ہے :” میرے نزدیک یہ بات مستحب ہے کہ قرآن میں تمام مقامات سجود پر سجدہ کیا جائے۔ اسی طرح مفصل کے مقامات سجود اور حم کی آیت (ا ن کنتم ایاہ تعبدون) پر سجدہ کیا جائے۔ “ امام شافعی کا قول ہے کہ قرآن میں سجدوں کی تعداد چودہ ہے۔ سورة ص کا سجدہ اس میں شامل نہیں ہے اس لئے کہ وہ سجدئہ شکر ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ امام شافعی نے سورة حج کے آخری سجدے کو سجدہ شمار کیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے سورة ص میں سجدہ کیا تھا۔ حم کے سجدے کے بارے میں حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ ” میں سجدہ کی دو آیتوں میں سے آخری آیت پر سجدہ کرتا ہوں۔ “ ان کا یہ قول ہمارے اصحاب کے قول کے مطابق ہے۔ حضرت زید بن ثابت نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة النجم میں سجدہ نہیں کیا تھا جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود کا کہنا ہے کہ آپ نے سجدہ کیا تھا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت زید بن ابت کی روای تکے مطابق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سورة النجم میں سجدہ نہ کرنا اس پر دلالت نہیں کرتا کہ وہ سجدہ واجب نہیں ہے۔ اس لئے کہ عین ممکن ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس لئے سجدہ نہ کیا ہو کہ آی تسجدہ کی تلاوت کا وقت ان اوقات میں سے ہو جن میں سجدہ کرنے کی ممانعت ہے اور اس بنا پر آپ نے اس سجدے کو جائز وقت تک کے لئے مئوخر کردیا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اس آیت سجدہ کی تلاوت کے وقت بےوضو ہوں اور با وضو ہونے تک اسے موخر کردیا ہو۔ حضرت ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ (اذا السماء انشقت) اور (اقرا جاسم ربک الذی خلق) کی آیات سجود پر سجدہ کیا تھا۔- سورئہ حج کے دوسرے سجدے میں اختلاف ائمہ - سورئہ حج کے آخری سجدہ کے بارے میں سلف کے اندر اختلاف رائے ہے۔ حضرت عمر حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر نیز حضرت ابوالدرداء، حضرت عمار اور حضرت ابو موسیٰ اشعری سے مروی ہے کہ ان حضرات نے سورة حج میں دو سجدوں کا قول کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ یہ سورت دو سجدوں کی بنا پر دوسری سورتوں پر فضیلت رکھتی ہے۔ خارجہ بن مصعب نے ابو حمزہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے ان کا قول نقل کیا ہے کہ سورة حج میں ایک سجدہ ہے۔ سفیا ن بن عینیہ نے عبدالاعلی سے انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ پہلا سجدہ عزائم میں سے ہے یعنی واجب ہے اور دوسرا سجدہ تعلیم ہے۔ منصور نے حسن سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا۔” سورة حج میں ایک سجدہ ہے “ حسن، ابراہیم، سعید بن جبیر، سعید بن مسیب اور جابر بن زید سے مروی ہے کہ سورة حج میں ایک ہی سجدہ ہے۔ ہم نے پہلے حضرت ابن عباس سے منقول روایت کا ذکر کیا ہے کہ سورة حج میں دو سجدے ہیں۔ سعید بن جبیر کی روایت میں حضرت ابن عباس نے یہ بیان کیا کہ پہلا سجدہ واجب اور دوسرا سجدہ تعلیم ہے۔ اس کا مفہوم ۔ واللہ اعلم … یہ ہے کہ پہلا سجدہ ہی وہ سجدہ ہے جسے آیت تلاوت کرنے پر بجالانا واجب ہے اور دوسرا سجدہ اگرچہ اس میں سجدہ کا لفظ موجود وہ صرف نماز کی تعلیم کے لئے ہے جس میں رکوع اور سجود کی ادائیگی ہوتی ہے۔ اس کا مفہوم اس روایت کے مفہوم کی طرح ہے جو سفیان نے عبدالکریم سے اور انہوں نے مجاہد سے نقل کی ہے۔ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ سورة حج کے آخر میں جو سجدہ ہے وہ صرف نصیحت و موعظت کے لئے ہے وہ حقیقت میں سجدہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ (ارکعوا واسجدوا رکوع اور سجدود نہ کرو) اور ہم رکوع و سجود کرتے ہیں۔- اس طرح حضرات ابن عباس کے قول کا وہی مفہوم ہے جو مجاہد کے قول کا ہے۔ ایسا معلوم ہتا ہے کہ سلف میں سے جن حضرات سے یہ مروی ہے کہ سورة حج میں دو سجدے ہیں۔ ان کی مراد یہ ہے کہ اس صورت میں دو مقامات پر سجدے کا ذکر ہے، پہلا سجدہ ہی واجب ہے دوسرا سجدہ واجب نہیں جیسا کہ اس بارے میں حضرت ابن عباس کی رائے ہے۔ سورة حج کی دوسری آیت سجدہ مقامات سجود میں سے نہیں۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اس آیت میں سجدے کے ساتھ رکوع کا بھی ذکر ہوا ہے جب کہ رکوع اور سجود کو یکجا کرنا نماز کے ساتھ مخصوص ہے اس لئے دراصل اس آیت میں نماز کا حکم ہے اور نماز کا حکم جس میں سجدہ بھی اشمل ہے مقام سجدہ نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قول باری (اقیموا الصلوۃ نماز قائم کرو) مقام سجدہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اشراد ہے (یا مریم اقنتی لربک واسجدی وارکعی مع الراکعی معی الرکعین ۔ اے مریم اپنے رب کی اطاعت گزار بن جائو اور سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو) یہ آیت مقام سجدہ نہیں ہے۔ اسی طرح ارشاد باری ہے (فسبح بحمد ربک وکن من الساجدین) اپنے رب کے حمد کی تسبیح کر اور سجدہ کرنے والوں میں سے بن جا) یہ آیت بھی مقام سجدہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس میں نماز پڑھنے کا حکم جس طرح قول باری (وارکعوا مع الراکعین) میں نماز پڑھنے کا حکم ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٨) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو قرآن کریم کے ذریعے اس عجیب بات کا علم نہیں ہوا کہ اللہ کے سامنے سب اپنی اپنی حالت کے مطابق عاجزی کرتے ہیں جو مخلوقات کہ آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں جیسا کہ مومنین اور سورج چاند اور ستارے پہاڑ اور درخت اور چوپائے (مگر انسان باوجود سب سے زیادہ عاقل ہونے کے ان میں سے) بہت سے تو فرمانبردار ہیں، ان کے لیے جنت ثابت ہوگئی، اور وہ مومنین ہیں اور بہت ایسے ہیں (کہ بوجہ تابعدار نہ ہونے کے ان پر دوزخ کے عذاب کا حق ثابت ہوگیا جیسا کہ کافر جس کو اللہ بدبختی میں مبتلا کر کے ذلیل و خوار کرے اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں کہ اس کو سعادت دے دے۔- یا یہ کہ جسے اللہ تعالیٰ برائیوں کے ذریعے ذلیل کرے اسے مغفرت خداوندی کے بغیر کوئی عزت دینے والا نہیں اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے جو چاہے سو کرے خواہ کسی کو اہل بدبختوں میں سے بنائے یا سعادت والوں میں سے اور خواہ کسی کو اہل معرفت میں سے کرے یا غیرمعرفت میں سے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَآبُّ وَکَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ ط) ” - انسانوں کے علاوہ باقی تمام مخلوقات قانون خداوندی اور تکوینی نظام کے اصول و ضوابط کی پابند اور ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی میں مصر وف عمل ہیں ‘ البتہ اس سلسلے میں انسانوں کا معاملہ مختلف ہے۔ وہ سب کے سب ایک سے نہیں ہیں۔ انسانوں کو جو محدود آزادی ملی ہے اس سے فائدہ اٹھا کر کچھ لوگ اللہ سے بغاوت کردیتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کو چھوڑ کر دوسری چیزوں مثلاً سورج ‘ چاند اور درختوں تک کی پرستش شروع کردیتے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو ہدایت اور اپنی معرفت عطا فرماتا ہے وہ صرف اسی کے سامنے سربسجود ہوتے ہیں۔- (وَمَنْ یُّہِنِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ مُّکْرِمٍ ط) ” - اللہ نے تو انسان کو ” خلیفۃ اللّٰہ فی الارض “ کا مقام عطا کیا تھا ‘ اسے مسجود ملائک بنایا تھا۔ اب اگر کوئی انسان اپنے آپ کو خود ہی اس مقام رفیع سے نیچے گرا دے اور مخلوق کے سامنے اپنا سر جھکا کر خود کو ذلیل و رسوا کرلے تو اسے تکریم انسانی کیونکر حاصل ہوگی - (اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُ ) ” - اس آیت کے اندر مختلف چیزوں کے تذکرے میں اوپر سے نیچے کی طرف ایک خوبصورت ترتیب و تدریج پائی جاتی ہے۔ سورج سب سے بڑا ہے ‘ اس کے بعد چاند ‘ اس کے بعد ستارے جو بظاہر چاند سے چھوٹے نظر آتے ہیں۔ پھر نیچے زمین پر پہاڑ سب سے بلند ہیں ‘ پھر درخت ‘ پھر چوپائے اور آخر پر انسان۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :30 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، الرعد ، حاشیہ 24 ۔ 25 ، الجحل ، حاشیہ 41 ۔ 42 ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :31 یعنی فرشتے ، اَجرام فلکی ، اور وہ سب مخلوقات جو زمین کے ماوراء دوسرے جہانوں میں ہیں ، خواہ وہ انسان کی طرح ذی عقل و ذی اختیار ہوں ، یا حیوانات ، نباتات ، جمادات اور ہوا اور روشنی کی طرح بے عقل و بے اختیار ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :32 یعنی وہ جو محض مجبوراً ہی نہیں بلکہ بالارادہ اور بطوع و رغبت بھی اس کو سجدہ کرتے ہیں ۔ ان کے مقابلے میں دوسرا انسانی گروہ جس کا بعد کے فقرے میں ذکر آ رہا ہے ، وہ ہے جو اپنے ارادے سے خدا کے آگے جھکنے سے انکار کرتا ہے ، مگر دوسری بے اختیار مخلوقات کی طرح وہ بھی قانون فطرت کی گرفت سے آزاد نہیں ہے اور سب کے ساتھ مجبوراً سجدہ کرنے والوں میں شامل ہے ۔ اس کے مستحق عذاب ہونے کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں بغاوت کی روش اختیار کرتا ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :33 مطلب یہ ہے کہ اگرچہ ان مختلف گروہوں کے جھگڑے کا فیصلہ تو قیامت ہی کے روز چکایا جائے گا ۔ لیکن کوئی آنکھیں رکھتا ہو تو وہ آج بھی دیکھ سکتا ہے کہ حق پر کون ہے اور آخری فیصلہ کس کے حق میں ہونا چاہیے ۔ پوری کائنات کا نظام اس بات پر شاہد ہے کہ زمین سے آسمانوں تک ایک ہی خدا کی خدائی پورے زور اور پوری ہمہ گیری کے ساتھ چل رہی ہے ۔ زمین کے ایک ذرے سے لے کر آسمان کے بڑے بڑے سیاروں تک سب ایک قانون میں جکڑے ہوئے ہیں جس سے بال برابر بھی جنبش کرنے کا کسی کو یارا نہیں ہے ۔ مومن تو خیر دل سے اس کے آگے سر جھکاتا ہے ، مگر وہ دہریہ جو اس کے وجود تک کا انکار کر رہا ہے اور وہ مشرک جو ایک ایک بے اختیار ہستی کے آگے جھک رہا وہ بھی اس کی اطاعت پر اسی طرح مجبور ہے جس طرح ہوا اور پانی ۔ کسی فرشتے ، کسی جن ، کسی نبی اور ولی ، اور کسی دیوی یا دیوتا کے پاس خدائی کی صفت اور اختیارات کا ادنیٰ شائبہ تک نہیں ہے کہ اس کو الوہیت اور معبودیت کا مقام دیا جا سکے ، یا خداوند عالم کا ہم جنس یا مثیل ٹھیرایا جا سکے ۔ کسی قانون بے حاکم اور فطرت بے صانع اور نظام بے ناظم کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اتنی بڑی کائنات کو وجود میں لا سکے اور باقاعدگی کے ساتھ خود ہی چلاتا رہے اور قدرت و حکمت کے وہ حیرت انگیز کرشمے دکھا سکے جو اس کائنات کے گوشے گوشے میں ہر طرف نظر آ رہے ہیں ۔ کائنات کی یہ کھلی کتاب سامنے ہوتے ہوئے بھی جو شخص انبیاء کی بات نہیں مانتا اور مختلف خود ساختہ عقیدے اختیار کر کے خدا کے بارے میں جھگڑتا ہے اس کا بر سر باطل ہونا آج بھی اسی طرح ثابت ہے جس طرح قیامت کے روز ثابت ہو گا ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :34 یہاں ذلت اور عزت سے مراد حق کا انکار اور اس کی پیروی ہے ، کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ ذلت اور عزت ہی کی شکل میں ظاہر ہونا ہے ۔ جو شخص کھلے کھلے اور روشن حقائق کو آنکھیں کھول کر نہ دیکھے ، اور سمجھانے والے کی بات بھی سن کر نہ دے وہ خود ہی ذلت و خواری کو اپنے اوپر دعوت دیتا ہے ، اور اللہ وہی چیز اس کے نصیب میں لکھ دیتا ہے جو اس نے خود مانگی ہے ۔ پھر جب اللہ ہی نے اس کو پیروی حق کی عزت نہ دی تو اب کون ہے جو اس کو اس عزت سے سرفراز کردے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :35 یہاں سجدہ تلاوت واجب ہے ، اور سورہ حج کا یہ سجدہ متفق علیہ ہے سجدہ تلاوت کی حکمت اور اس کے احکام کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ 157 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

11: اِن مخلوقات کے سجدہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب چیزیں اﷲ تعالیٰ کی تابع فرمان ہیں، اور ہر چیز اُس کے ہر حکم کے آگے سر جھکائے ہوئے ہے۔ نیز اس سے عبادت کا سجدہ بھی مراد ہوسکتا ہے، کیونکہ اتنی سمجھ کائنات کی ہر چیز میں موجود ہے کہ اُسے اﷲ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، اور اُسی کی عبادت کرنی چاہئے، البتہ ہر چیز کے سجدے کی صورت مختلف ہے۔ اس پوری کائنات میں اِنسان ہی ایسی مخلوق ہے جس کے تمام افراد عبادت کا یہ سجدہ نہیں کرتے، بلکہ بہت سے کرتے ہیں، بعض نہیں کرتے، اس لئے اِنسانوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ ’’بہت سے اِنسان بھی‘‘۔ یاد رہے کہ یہ سجدہ کی آیت ہے، جو شخص اصل عربی میں یہ آیت تلاوت کرے یا سنے اُس پر سجدہ کرنا واجب ہے۔