Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مومن وکافر کی مثال ۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قسم کھا کر فرماتے تھے کہ یہ آیت حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے مقابلے میں بدر کے دن جو دو کافر آئے تھے اور عتبہ اور اس کے دوساتھیوں کے بارے میں اتری ہے ۔ ( بخاری ومسلم ) صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں قیامت کے دن میں سب سے پہلے اللہ کے سامنے اپنی حجت ثابت کرنے کے لئے گھٹنوں کے بل گرجاؤں گا حضرت قیس فرماتے ہیں انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے بدر کے دن یہ لوگ ایک دوسرے کے سامنے آئے تھے علی اور حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبیدہ اور شیبہ اور عتبہ اور ولید ۔ اور قول ہے کہ مراد مسلمان اور اہل کتاب ہیں ۔ اہل کتاب کہتے تھے ہمارا نبی تمہارے نبی سے اور ہماری کتاب تمہاری کتاب سے پہلے ہے اس لئے ہم اللہ سے بہ نسبت تمہارے زیادہ قریب ہیں ۔ مسلمان کہتے تھے کہ ہماری کتاب تمہاری کتاب کا فیصلہ کرتی ہے اور ہمارے نبی خاتم الانبیاء ہیں اس لئے تم سے ہم اولی ہیں پس اللہ نے اسلام کو غالب کیا اور یہ آیت اتری ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مراد اس سے سچا ماننے والے اور جھٹلانے والے ہیں ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس آیت میں مومن وکافر کی مثال ہے جو قیامت میں مختلف تھے ۔ عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مراد جنت دوزخ کا قول ہے دوزخ کی مانگ تھی کہ مجھے سزا کی چیز بنا ۔ اور جنت کی آرزو تھی کہ مجھے رحمت بنا ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کا قول ان تمام اقوال میں شامل ہے اور بدر کا واقعہ بھی اس کے ضمن میں آسکتا ہے مومن اللہ کے دین کا غلبہ چاہتے تھے اور کفار نور ایمان کے بجھانے حق کو پست کرنے اور باطل کے ابھارنے کی فکر میں تھے ۔ ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ بھی اس کو مختار بتلاتے ہیں اور یہ ہے بھی بہت اچھا چنانچہ اس کے بعد ہی ہے کہ کفار کے لئے آگ کے ٹکڑے الگ الگ مقرر کردئے جائیں گے ۔ یہ تانبے کی صورت ہوں گے جو بہت ہی حرارت پہنچاتا ہے پھر اوپر سے گرم ابلتے ہوئے پانی کا تریڑا ڈالا جائے گا ۔ جس سے ان کے آنتیں اور چربی گھل جائے گی اور کھال بھی جھلس کر جھڑجائے گی ۔ ترمذی میں ہے کہ اس گرم آگ جیسے پانی سے ان کی آنتیں وغیرہ پیٹ سے نکل کر پیروں پر گرپڑیں گی ۔ پھر جیسے تھے ویسے ہوجائیں گے پھر یہی ہوگا ۔ عبداللہ بن سری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں فرشتہ اس ڈولچے کو اس کے کڑوں سے تھام کرلائے گا اس کے منہ میں ڈالنا چاہے گا یہ گھبرا کر منہ پھیر لے گا ۔ تو فرشتہ اس کے ماتھے پر لوہے کا ہتھوڑا مارے گا جس سے اس کا سر پھٹ جائے گا وہیں سے اس گرم آگ پانی کو ڈالے گا جو سیدھا پیٹ میں پہنچے گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان ہتھوڑوں میں جن سے دوزخیوں کی ٹھکائی ہوگی اگر ایک زمین پر لاکر رکھ دیا جائے تو تمام انسان اور جنات مل کر بھی اسے اٹھا نہیں سکتے ۔ ( مسند ) آپ فرماتے ہیں اگر وہ کسی بڑے پہاڑ پر مار دیا جائے تو وہ ریزہ ریزہ ہوجائے جہنمی اس سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے پھر جیسے تھے ویسے ہی کردئے جائیں گے اگر عساق کا جو جہنمیوں کی غذا ہے ایک ڈول دنیا میں بہا دیا جائے تو تمام اہل دنیا بدبو کے مارے ہلاک ہوجائیں ۔ ( مسند احمد ) ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے لگتے ہی ایک ایک عضو بدن جھڑ جائے گا اور ہائے وائے کا غل مچ جائے گا جب کبھی وہاں سے نکل جانا چاہیں گے وہیں لوٹا دیئے جائیں گے ۔ حضرت سلمان فرماتے ہیں جہنم کی آگ سخت سیاہ بہت اندھیرے والی ہے اس کے شعلے بھی روشن نہیں نہ اس کے انگارے روشنی والے ہیں پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ حضرت زید رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے جہنمی اس میں سانس بھی نہ لے سکیں گے ۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں واللہ انہیں چھوٹنے کی تو آس ہی نہیں رہے گی پیروں میں بوجھل بیڑیاں ہیں ہاتھوں میں مضبوط ہتھکڑیاں ہیں آگ کے شعلے انہیں اس قدر اونچا کر دیتے ہیں کہ گویا باہر نکل جائیں گے لیکن پھر فرشتوں کے ہاتھوں سے گرز کھا کر تہ میں اتر جاتے ہیں ۔ ان سے کہا جائے گا کہ اب جلنے کا مزہ چکھو ۔ جیسے فرمان ہے ان سے کہا جائے گا اس آگ کا عذاب برداشت کرو جسے آج تک جھٹلاتے رہے ۔ زبانی بھی اور اپنے اعمال سے بھی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 ھذان خصمن یہ دونوں تثنیہ کے صیغے ہیں بعض نے اس سے مراد مذکورہ گمراہ فرقے اور اس کے مقابلے میں دوسرا فرقہ مسلمان کو لیا ہے۔ یہ دونوں اپنے رب کے بارے میں جھگڑتے ہیں، مسلمان تو وحدانیت اور اس کی قدرت علی البعث کے قائل ہیں، جب کہ دوسرے اللہ کے بارے میں مختلف گمراہیوں میں مبتلا ہیں۔ اس ضمن میں جنگ بدر میں لڑنے والے مسلمان اور کافر بھی آجاتے ہیں، جس کے آغاز میں مسلمانوں میں ایک طرف حضرت حمزہ، حضرت علی اور حضرت عبیدۃ (رض) تھے اور دوسری طرف ان کے مقابلے میں کافروں میں عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ تھے (امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ دونوں ہی مفہوم صحیح اور آیت کے مطابق ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٦] یعنی جھگڑنے اور لڑائی کرنے والے دو فریقوں میں سے ایک فریق تو اللہ کے فرمانبرداروں اور مسلمانوں کا ہے اور دوسرا کافروں کا۔ اور اس کافروں کے فریق میں وہ سب گروہ شامل ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا یعنی یہودی، صابی، عیسائی، مجوس، مشرکین اور ان کے علاوہ وہ لوگ بھی جن کا اس آیت میں ذکر نہیں ہے جیسے ہندو، سکھ، بدھ مت والے، اللہ کی ہستی کے منکر یعنی نیچری اور دہریے وغیرہ سب اس دوسرے فریق شامل ہیں۔ ان دونوں فریقوں میں باعث نزاع مسئلہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات ہیں۔ فریق اول تو اللہ کی صفات بالکل اسی طرح تسلیم کرتا ہے جس طرح اللہ نے خود بتلائی ہیں۔ پھر وہ اللہ کا فرمانبردار اور اس کے حضور سجدہ ریز بھی رہتا ہے۔ دوسرے فریق میں ہر طرح کے لوگ شامل ہوجاتے ہیں۔ اور کبھی یہ فریق اول کے مقابلہ میں گٹھ جوڑ بھی کرلیتے ہیں۔ پھر یہ فریق صرف بحث و مناظرہ میں ہی ایک دوسرے کے مدمقابل نہیں بنتے بلکہ میدان جہاد و قتال میں بھی ان کی یہی صورت ہوتی ہے اور حضرت علی (رض) تو یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ آیت اتری ہی ان لوگوں کے حق میں تھی۔ جو غزوہ بدر میں مقابلہ کے فریق بنے تھے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔- قیس بن عباد کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا : قیامت کے دن میں سب سے پہلے پروردگار کے سامنے دو زانو بیٹھ کر اپنا مقدمہ پیش کروں گا قیس کہتے ہیں کہ یہ آیت ان لوگوں کے سلسلہ میں اتری۔ جو بدر کے دن مبارزت کے لئے نکلے تھے۔ یعنی (مسلمانوں کی طرف سے) علی، حمزہ اور عبیدہ بن حارث اور (کافروں کی طرف سے) شیبہ بن عتبہ، عتبہ بن ربیعہ، اور ولید بن عتبہ۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- اس حدیث میں میدان بدر مبارزت کا اجمالی سا ذکر ہوا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ جب لشکر کفار کو اس بات کا علم ہوگیا کہ تجارتی قافلہ بخیریت مکہ پہنچ گیا ہے تو سرداران قریش میں سے ایک سنجیدہ طبقہ کی رائے یہ تھی کہ اب جنگ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ جس مقصد کے لئے ہم نکلے تھے وہ حاصل ہوچکا۔ عتبہ بن ربیعہ اور حکیم بن حزام ایسے لوگوں میں سے تھے۔ اس جنگ کا ایک سبب ایک حضرمی کا قتل بھی تھا۔ جو وادی نخلہ کے واقعہ مسلمانوں سے قتل ہوگیا تھا۔ حکیم بن حزام، عقبہ بن ربیعہ کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ میرے ذہن میں ایک تجویز آئی ہے۔ اگر تم چاہو تو لوگوں کو جنگ اور خونریزی سے بچا کر بہت بڑی نیکی کما سکتے ہو۔ عتبہ نے پوچھا وہ کیا تجویز ہے ؟ حکیم بن حزام (جو بعد میں اسلام لے آئے تھے اور جلیل القدر صحابی ہیں) نے کہا کہ اس حضرمی کی دیت تم خود ادا کردو۔ تو قصاص کا اضطراب جو لوگوں میں پھیلا ہوا ہے۔ از خود ختم ہوجائے گا۔ عتبہ نے اس تجویز کو بخوشی قبول کرلیا۔ پھر یہ دونوں حضرات جنگ بندی کے سلسلہ میں ابو جہل کے پاس گئے جو ایک متکبر، سرکش اور مشتعل مزاج سردار تھا۔ اسے یہ رائے قطعاً پسند نہ آئی۔ اس نے عتبہ کو کہا کہ تم اس لئے جنگ سے فرار چاہتے ہو کہ تمہارا ایک بیٹا مسلمان ہوچکا ہے اور تم اب بزدلی دکھا رہے ہو ؟ عتبہ یہ بزدلی کا طعنہ برداشت نہ کرسکا اور کہنے لگا کہ کل معلوم ہوجائے گا کہ بزدل کون ہے ؟ دوسری طرف ابو جہل نے حضرمی کے قبیلہ کو مشتعل کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لشکر کفار میں جنگ کی عمومی فضا پیدا ہوگئی اور جنگ نہ ہونے کا امکان ختم ہوگیا۔- دوسرے دن جب دونوں لشکر مقابلہ پر آگئے تو یہی عتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور بیٹے ولید بن عتبہ کو لے کر نکلا اور ھل من مبارز (کوئی مقابلہ کے لئے سامنے آتا ہے ؟ ) کا نعرہ لگایا۔ مسلمانوں کے لشکر سے تین انصاری صحابہ مقابلہ کے لئے نکلے تو عتبہ نے چیخ کو پوچھا من انتم ؟ من القوم ؟ (یعنی تم کون لوگ اور کس قوم سے ہو ؟ ) انہوں نے اپنے نام بتلائے تو عتبہ نے کہا : تم ہمارے جوڑے نہیں ہو ہم تم سے لڑنے نہیں آئے۔ پھر چیخ کر پکارا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری توہین نہ کرو۔ ہم ان کاشت کاروں سے لڑنے نہیں آئے۔ ہمارے مقابلہ میں ان لوگوں کو بھیجو جو ہمارے ہمسر اور ہمارے جوڑ کے ہوں۔ اور ایک روایت میں آیا کہ اس موقع ہر عتبہ کے مسلمان بیٹے اور ابو حذیفہ نے اپنے باپ کے مقابلہ پر نکالنا چاہا لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں روک دیا۔ پھر حضرت حمزہ، حضرت علی (رض) اور حضرت عبیدہ بن حارث مقابلہ کے لئے نکلے۔ حضرت حمزہ نے عتبہ کو جلد ہی ٹھکانے لگا دیا اور حضرت علی (رض) نے شیبہ کو جہنم واصل کیا۔ لیکن حضرت ابو عبیدہ بن حارث کا ولید بن عتبہ سے شدید مقابلہ ہوا۔ دونوں کا بیک وقت ایک دوسرے پر کاری وار ہوا۔ حضرت ابو عبیدہ کی ٹانگیں کٹ گئیں اور وہ گرپڑے تو حضرت حمزہ اور حضرت علی (رض) آگے بڑھے اور ولید کا کام تمام کرکے ابو عبیدہ کو، جو دم توڑ رہے تھے، اٹھا کرلے آئے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے چلو وہاں پہنچ کر انہوں نے آپ سے پوچھا کہ میرے متعلق کیا ارشاد ہے ؟ آپ نے فرمایا تمہیں یقیناً جنت ملے گی اس اطلاع پر ان کے چہرے پر بشاشت آگئی اور کہا : کاش آج ابو طالب زندہ ہوتے تو وہ دیکھ لیتے کہ میں نے اپنی بات سچ کر دکھائی ہے اور اپنی جان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نچھاور کردی ہے۔- [٢٧] یعنی فریق دوم کے لئے جنہوں نے کفر اور سرکشی کی راہ اختیار کی ان کے لباس میں کسی آتش گیر مادہ سے بنے ہوئے ہوں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا : (سَرَابِيْلُهُمْ مِّنْ قَطِرَانٍ وَّتَغْشٰى وُجُوْهَهُمُ النَّارُ 50؀ۙ ) 14 ۔ ابراھیم :50) یہ لباس بھڑک کر ان کے جسموں سے چمٹ جائے گا اور سر کے اوپر سے کھولتا ہوا جو پانی ڈالا جائے گا وہ اس آگ کو بجھائے گا نہیں بلکہ مزید آگ کو بھڑکانے کا باعث بن جائے گا۔ اس سے ان کے چمڑے گل کر گرپڑیں گے تو فوراً نئی جلد پیدا کردی جائے گی۔ تاکہ ان کے عذاب میں کمی واقع نہ ہو۔ پھر یہی کھولتا ہوا پانی ان کے دماغ کی راہ سے جسم کے اندر پہنچے گا جس سے سب انتڑیاں کٹ جائیں گی۔ مسید برآن انھیں لوہے کے ہنٹروں سے پیٹا بھی جائے گا جب وہ دوزخ سے نکل بھاگنے کی کوشش کریں گے تو فرشتے انھیں ہنٹر مار مار کر پھر دوزخ میں دھکیل دیں گے اور ساتھ ہی انھیں یہ بتلاتے جائیں گے کہ یہ تمہارے ہی اعمال کا بدلہ ہے۔ اب بھاگتے کیوں ہو اور یہ دائمی عذاب کا مزا تمہیں چکھنا ہی پڑے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ڍھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّهِمْ : یہاں دو جھگڑنے والوں میں ایک فریق مسلمان اور دوسرا فریق وہ پانچوں گروہ ہیں جن کا پچھلی آیت میں ایمان والوں کے بعد ذکر ہوا ہے اور جنھیں اس آیت میں کافر قرار دیا گیا ہے۔ رب تعالیٰ کے بارے میں جھگڑنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اللہ کی توحید کے قائل ہیں اور یہ تمام لوگ توحید کے بارے میں طرح طرح کے خیالات رکھتے ہیں جو کفر ہی کی مختلف صورتیں ہیں۔ اس مخالفت کا لازمی نتیجہ مسلمانوں کی طرف سے جہاد ہے۔ پہلا غزوہ جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں دو بدو جنگ ہوئی غزوۂ بدر تھا، جس میں سب سے پہلے میدان میں نکلنے والے حمزہ بن عبد المطلب، عبیدہ بن حارث اور علی بن ابی طالب (رض) تھے، جو اپنے قریب ترین رشتہ داروں عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ کے مقابلے میں نکلے تھے۔ چناچہ اس آیت کا اولین مصداق یہی تین صحابہ کرام (رض) ہیں۔ ابوذر غفاری (رض) کے بارے میں آتا ہے : ( أَنَّہٗ کَانَ یُقْسِمُ قَسَمًا إِنَّ ھٰذِہِ الْآیَۃَ : (ڍھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّهِمْ ) نَزَلَتْ فِيْ حَمْزَۃَ وَصَاحِبَیْہِ وَعُتْبَۃَ وَصَاحِبَیْہِ یَوْمَ بَرَزُوْا فِيْ یَوْمِ بَدْرٍ ) [ بخاري، التفسیر، باب ( ھذان خصمان ۔۔ ): ٤٧٤٣۔ مسلم : ٣٠٣٣ ] ” وہ قسم کھا کر کہتے تھے کہ یہ آیت : (ڍھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّهِمْ ) ان چھ آدمیوں حمزہ اور ان کے دو ساتھی، عقبہ اور اس کے دو ساتھیوں کے بارے میں اتری تھی جو بدر کے دن ایک دوسرے کے مقابلے میں نکلے تھے۔ “ اور علی بن ابی طالب (رض) نے فرمایا : ” میں پہلا شخص ہوں جو قیامت کے دن اس جھگڑے کے لیے رحمٰن کے سامنے دونوں زانوؤں کے بل بیٹھوں گا اور اپنا مقدمہ پیش کروں گا۔ “ [ بخاري، التفسیر، باب ( ھٰذان خصمان اختصموا في ربھم ) : ٤٧٤٤ ] ان تینوں حضرات کے بعد قیامت تک آنے والے وہ تمام مجاہد بھی اس آیت میں شامل ہیں جنھوں نے توحید کی خاطر کفار سے جہاد کیا یا کریں گے۔- فَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّنْ نَّارٍ : یعنی کافروں کے لیے آگ کے کپڑے کاٹے جا چکے۔ یہاں قیامت کے دن ہونے والے کام کو ماضی کے لفظ کے ساتھ بیان فرمایا، یعنی یہ کام اتنا یقینی ہے کہ بس ہو ہی چکا۔ آگ کے یہ کپڑے قمیصوں کی صورت میں بھی ہوں گے، جیسا کہ فرمایا : (سَرَابِيْلُهُمْ مِّنْ قَطِرَانٍ ) [ إبراھیم : ٥٠ ] ” ان کی قمیصیں گندھک کی ہوں گی۔ “ اور نیچے اور اوپر والے بچھونوں اور لحافوں کی صورت میں بھی، جیسا کہ فرمایا : (لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَّمِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ ) [ الأعراف : ٤١ ] ” ان کے لیے جہنم ہی کا بچھونا اور ان کے اوپر کے لحاف ہوں گے۔ “- يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِيْمُ : ” الْحَمِيم “ انتہائی گرم (کھولتا ہوا) پانی۔ مزید دیکھیے سورة دخان (٤٨) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (جن کا ذکر اوپر آیت اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا میں ہوا ہے) یہ دو فریق ہیں (ایک مومن دوسرا کافر۔ پھر کافر گروہ کی کئی قسمیں ہیں۔ یہود، نصاریٰ ، صابئین، مجوس اور بت پرست) جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں (اعتقاد اور کبھی کبھی مباحثةً بھی) باہم اختلاف کیا (اس اختلاف کا فیصلہ قیامت میں اس طرح ہوگا کہ) جو لوگ کافر تھے ان کے (پہننے کے لئے) آگ کے کپڑے قطع کئے جاویں گے (یعنی آگ ان کے پورے بدن پر اس طرح محیط ہوگی جیسے لباس، اور ان کے سر کے اوپر سے تیز گرم پانی چھوڑا جاوے گا جس سے ان کے پیٹ کی چیزیں (یعنی آنتیں) اور کھالیں سب گل جاویں گی، (یعنی یہ کھولتا ہوا تیز پانی کچھ پیٹ کے اندر چلا جاوے گا جس سے آنتیں اور پیٹ کے اندر کے سب اجزاء اعضاء گل جاویں گے کچھ اوپر بہے گا جس سے کھال گل جاوے گی) اور ان کے (مارنے کے لئے) لوہے کے گرز ہوں گے (اور اس مصیبت سے کبھی نجات نہ ہوگی) وہ لوگ جب (دوزخ میں) گھٹے گھٹے (گھبرا جائیں گے اور) اس سے باہر نکلنا چاہیں گے تو پھر اسی میں دھکیل دیئے جاویں گے اور کہا جاوے گا کہ جلنے کا عذاب (ہمیشہ کے لئے) چکھتے رہو (کبھی نکلنا نصیب نہ ہوگا اور) اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے (بہشت کے) ایسے باغوں میں داخل کرے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ان کو وہاں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جاویں گے اور پوشاک ان کی وہاں ریشم ہوگی اور (یہ سب انعام و اکرام ان کے لئے اس سبب سے ہے کہ دنیا میں ان کو) کلمہ طیب (کے اعتقاد) کی ہدایت ہوگئی تھی اور ان کو اس (خدا) کے رستہ کی ہدایت ہوگئی تھی جو لائق حمد ہے (وہ راستہ اسلام ہے) ۔- معارف و مسائل - ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا، یہ دو فریق جن کا ذکر اس آیت میں ہے عام مومنین اور ان کے مقابلہ میں تمام گروہ کفار ہیں خواہ قرن اول کے ہوں یا قرون مابعد کے۔ البتہ نزول اس آیت کا ان دو فریق کے بارے میں ہوا ہے جو میدان بدر کے مبارزہ میں ایک دوسرے کے مقابل نبرد آزما ہوئے تھے مسلمانوں میں سے حضرت علی و حمزہ و عبیدہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور کفار میں سے عتبہ بن ربیعہ اور اس کا بیٹا ولید اور اس کا بھائی شیبہ تھے جن میں سے کفار تو تینوں مارے گئے اور مسلمانوں میں سے حضرت علی و حمزہ صحیح سالم واپس آئے اور عبیدہ شدید زخمی ہو کر آئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں میں پہنچ کر دم توڑ دیا۔ آیت کا نزول ان مبارزین بدر کے بارے میں ہونا بخاری و مسلم کی احادیث سے ثابت ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ یہ حکم ان کے ساتھ مخصوص نہیں پوری امت کیلئے عام ہے، کسی بھی زمانے میں ہو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّہِمْ۝ ٠ۡفَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَہُمْ ثِيَابٌ مِّنْ نَّارٍ۝ ٠ۭ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِہِمُ الْحَمِيْمُ۝ ١٩ۚ- خصم - الخَصْمُ مصدر خَصَمْتُهُ ، أي : نازعته خَصْماً ، يقال : خاصمته وخَصَمْتُهُ مُخَاصَمَةً وخِصَاماً ، قال تعالی: وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة 204] ، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] ، ثم سمّي المُخَاصِم خصما، واستعمل للواحد والجمع، وربّما ثنّي، وأصل المُخَاصَمَة : أن يتعلّق كلّ واحد بخصم الآخر، أي جانبه وأن يجذب کلّ واحد خصم الجوالق من جانب، وروي : ( نسیته في خصم فراشي) «1» والجمع خُصُوم وأخصام، وقوله : خَصْمانِ اخْتَصَمُوا - [ الحج 19] ، أي : فریقان، ولذلک قال : اخْتَصَمُوا وقال : لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق 28] ، وقال : وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء 96] ، والخَصِيمُ : الكثير المخاصمة، قال : هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل 4] ، والخَصِمُ : المختصّ بالخصومة، قال : بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف 58] .- ( خ ص م ) الخصم - ۔ یہ خصمتہ کا مصدر ہے جس کے معنی جھگڑنے کے ہیں کہاجاتا ہے خصمتہ وخاصمتہ مخاصمۃ وخصاما کسی سے جھگڑا کر نا قرآن میں ہے :۔ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة 204] اور وہ حالانکہ سخت جھگڑا لو ہے ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] اور جھگڑنے کے وقت بات نہ کرسکے ۔ اور مخاصم کو خصم کہا جات ہے ، اور خصم کا لفظ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی تثنیہ بھی آجاتا ہے۔ اصل میں خصم کے معنی کنارہ کے ہیں ۔ اور مخاصمت کے معنی ایک دوسرے سے کو کنارہ سے پکڑنے کے ہیں ۔ اور بوری کو کونے سے پکڑکر کھینچنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے :۔ (114) نسی تھا فی خصم فراشی کہ میں اسے اپنے بسترہ کے کونے میں بھول آیا ہوں خصم کی جمع خصوم واخصام آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ اخْتَصَمُوا[ الحج 19] دوفریق جھگڑتے ہیں ۔ میں خصما ن سے دو فریق مراد ہیں اسی لئے اختصموا آیا ہے ۔ - الاختصام - ( افتعال ) ایک دوسرے سے جھگڑنا ۔ قرآن میں ہے :۔ لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق 28] ہمارے حضور رد کد نہ کرو ۔ وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء 96] ۔۔۔۔ وہ آپس میں جھگڑیں گے ۔- الخصیم - ۔ جھگڑا لو بہت زیادہ جھگڑا کرنے والا جیسے فرمایا :۔ هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل 4] مگر وہ ( اس بارے میں ) علانیہ جھگڑنے لگا ۔ الخصم سخٹ جھگڑالو جس کا شیوہ ہ جھگڑنا ہو ۔ قرآن میں ہے :َ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف 58] حقیقت یہ ہے ۔ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑا لو،- لو ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- قطع - القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] ، - ( ق ط ع ) القطع - کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا - ثوب - أصل الثَّوْب : رجوع الشیء إلى حالته الأولی التي کان عليها، أو إلى الحالة المقدّرة المقصودة بالفکرة، وهي الحالة المشار إليها بقولهم : أوّل الفکرة آخر العمل «2» . فمن الرجوع إلى الحالة الأولی قولهم : ثَابَ فلان إلى داره، وثَابَتْ إِلَيَّ نفسي، وسمّي مکان المستسقي علی فم البئر مَثَابَة، ومن الرجوع إلى الحالة المقدرة المقصود بالفکرة الثوب، سمّي بذلک لرجوع الغزل إلى الحالة التي قدّرت له، وکذا ثواب العمل، وجمع الثوب أَثْوَاب وثِيَاب، وقوله تعالی: وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر 4]- ( ث و ب ) ثوب - کا اصل معنی کسی چیز کے اپنی اصلی جو حالت مقدمہ اور مقصود ہوتی ہے اس تک پہنچ جانا کے ہیں ۔ چناچہ حکماء کے اس قول اول الفکرۃ اٰخرالعمل میں اسی حالت کی طرف اشارہ ہے یعنی آغاز فکر ہی انجام عمل بنتا ہے ۔ چناچہ اول معنی کے لحاظ سے کہا جاتا ہے ۔ شاب فلان الی درہ ۔ فلاں اپنے گھر کو لوٹ آیا ثابت الی نفسی میری سانس میری طرف ہوئی ۔ اور کنوئیں کے منہ پر جو پانی پلانے کی جگہ بنائی جاتی ہے اسے مثابۃ کہا جاتا ہے اور غور و فکر سے حالت مقدرہ مقصود تک پہنچ جانے کے اعتبار سے کپڑے کو ثوب کہاجاتا ہے کیونکہ سوت کاتنے سے عرض کپڑا بننا ہوتا ہے لہذا کپڑا بن جانے پر گویا سوت اپنی حالت مقصود ہ کی طرف لوٹ آتا ہے یہی معنی ثواب العمل کا ہے ۔ اور ثوب کی جمع اثواب وثیاب آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر 4] اپنے کپڑوں کو پاک رکھو ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - صبب - صَبُّ الماء : إراقته من أعلی، يقال : صَبَّهُ فَانْصَبَّ ، وصَبَبْتُهُ فَتَصَبَّبَ. قال تعالی: أَنَّا صَبَبْنَا الْماءَ صَبًّا [ عبس 25] ، فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذابٍ [ الفجر 13] ، يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج 19] ، وصبا إلى كذا صبابة : مالت نفسه نحوه محبّة له، وخصّ اسم الفاعل منه بِالصَّبِّ ، فقیل : فلان صَبٌّ بکذا، والصُّبَّةُ کالصرمة «1» ، والصَّبِيبُ : الْمَصْبُوبُ من المطر، ومن عصارة الشیء، ومن الدّم، والصُّبَابَةُ والصُّبَّةُ : البقيّة التي من شأنها أن تصبّ ، وتَصَابَبْتُ الإناء : شربت صُبَابَتَهُ ، وتَصَبْصَبَ : ذهبت صبابته .- ( ص ب ب ) صب الماء کے معنی اوپر سے پانی گرانا کے ہیں محاورہ ہے صب الماء فانصب وصببتہ فتصب یعنی اس نے اوپر سے پانی گراناچنانچہ پانی گرگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ أَنَّا صَبَبْنَا الْماءَ صَبًّا [ عبس 25] بیشک ہم نے ہی ( اوپر سے ) پانی برسایافَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذابٍ [ الفجر 13] تو تمہارے پروردگار نے ان پر عذاب کا کوڑا برسایا ۔ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج 19] ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی گرایا جائیگا ۔ صب الیٰ کذا صبابۃ ۔ ع فوق - فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة،- وذلک أضرب :- الأول : باعتبار العلوّ.- نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] - الثاني : باعتبار الصّعود والحدور - . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] .- الثالث : يقال في العدد .- نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] .- الرابع : في الکبر والصّغر - مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] .- الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة .- نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] .- السادس : باعتبار القهر والغلبة .- نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] - ( ف و ق ) فوق - یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے - اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے - اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے - ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں - اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے - ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی - ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ - ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی - دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔- 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے - جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] کافروں پر فائق ۔- 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط - کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ - اشق ہونا اور صفت کا صیغہ خاص کر صب ( بروزن فعل ) آنا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ فلان صب بکذا فلاں اس پر فریفتہ ہے ۔ اور صرمۃ کی طرح صبۃ کے معنی بھی جانوروں کی ٹکڑی یا جماعت کے ہیں الصبیب بارش کا پانی ۔ کسی چیز کا عصارہ ۔ بہایا ہوا خون الصبابۃ والصبۃ کسی چیز کا باقی ماندہ جو گرانے کے لائق ہو تصاببت الاناء ( تفاعل ) میں نے برتن سے باقی ماندہ پانی بھی پی لیا ۔ تصبصب ( تفعلل کسی چیز کا باقی ماندہ بھی ختم ہوجانا ۔- حم - الحمیم : الماء الشدید الحرارة، قال تعالی: وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] ، إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ 25] ، وقال تعالی: وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [ الأنعام 70] ، وقال عزّ وجل : يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج 19] ، ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْها لَشَوْباً مِنْ حَمِيمٍ [ الصافات 67] ، هذا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ [ ص 57] ، وقیل للماء الحارّ في خروجه من منبعه :- حَمَّة، وروي : «العالم کالحمّة يأتيها البعداء ويزهد فيها القرباء» «6» ، وسمي العَرَق حمیما - علی التشبيه، واستحمّ الفرس : عرق، وسمي الحمّام حمّاما، إمّا لأنه يعرّق، وإمّا لما فيه من الماء الحارّ ، واستحمّ فلان : دخل الحمّام، وقوله عزّ وجل : فَما لَنا مِنْ شافِعِينَ وَلا صَدِيقٍ حَمِيمٍ- [ الشعراء 100- 101] ، وقوله تعالی: وَلا يَسْئَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً [ المعارج 10] ، فهو القریب المشفق، فكأنّه الذي يحتدّ حماية لذويه، وقیل لخاصة الرّجل : حامّته، فقیل :- الحامّة والعامّة، وذلک لما قلنا، ويدلّ علی ذلك أنه قيل للمشفقین من أقارب الإنسان حزانته أي : الذین يحزنون له، واحتمّ فلان لفلان : احتدّ وذلک أبلغ من اهتمّ لما فيه من معنی الاحتمام، وأحمّ الشّحم : أذابه، وصار کالحمیم، وقوله عزّ وجل : وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ [ الواقعة 43] ، للحمیم، فهو يفعول من ذلك، وقیل : أصله الدخان الشدید السّواد ، وتسمیته إمّا لما فيه من فرط الحرارة، كما فسّره في قوله : لا بارِدٍ وَلا كَرِيمٍ [ الواقعة 44] ، أو لما تصوّر فيه من لفظ الحممة فقد قيل للأسود يحموم، وهو من لفظ الحممة، وإليه أشير بقوله : لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ [ الزمر 16] ، وعبّر عن الموت بالحمام، کقولهم : حُمَّ كذا، أي : قدّر، والحُمَّى سمّيت بذلک إمّا لما فيها من الحرارة المفرطة، وعلی ذلک قوله صلّى اللہ عليه وسلم : «الحمّى من فيح جهنّم» «4» ، وإمّا لما يعرض فيها من الحمیم، أي :- العرق، وإمّا لکونها من أمارات الحِمَام، لقولهم : «الحمّى برید الموت» «5» ، وقیل : «باب الموت» ، وسمّي حمّى البعیر حُمَاماً «6» بضمة الحاء، فجعل لفظه من لفظ الحمام لما قيل : إنه قلّما يبرأ البعیر من الحمّى. وقیل : حَمَّمَ الفرخ «7» : إذا اسودّ جلده من الریش، وحمّم - ( ح م م ) الحمیم کے معنی سخت گرم پانی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا ۔ إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ 25] مگر گرم پانی اور یہی پیپ ۔ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [ الأنعام 70] اور جو کافر ہیں ان کے پینے کو نہایت گرم پانی ۔ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج 19]( اور ) ان کے سروں پر جلتا ہوا پانی دالا جائیگا ۔ ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْها لَشَوْباً مِنْ حَمِيمٍ [ الصافات 67] پھر اس ( کھانے ) کے ساتھ ان کو گرم پانی ملا کردیا جائے گا ۔ هذا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ [ ص 57] یہ گرم کھولتا ہوا پانی اور پیپ ( ہے ) اب اس کے مزے چکھیں ۔ اور گرم پانی کے چشمہ کو حمتہ کہا جاتا ہے ایک روایت میں ہے ۔ کہ عالم کی مثال گرم پانی کے چشمہ کی سی ہے جس ( میں نہانے ) کے لئے دور دور سے لوگ آتے ہیں ( اور شفایاب ہوکر لوٹتے ہیں ) اور قرب و جوار کے لوگ اس سے بےرغبتی کرتے ہیں ( اس لئے اس کے فیض سے محروم رہتے ہیں ) اور تشبیہ کے طور پر پسینہ کو بھی حمیم کہا جاتا ہے اسی سے استحم الفرس کا محاورہ ہے جس کے معنی گھوڑے کے پسینہ پسینہ ہونے کے ہیں اور حمام کو حمام یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ پسینہ آور ہوتا ہے اور یا اس لئے کہ اس میں گرم پانی موجود رہتا ہے ۔ استحم فلان ۔ حمام میں داخل ہونا ۔ پھر مجازا قریبی رشتہ دار کو بھی حمیم کہا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ انسان اپنے رشتہ داروں کی حمایت میں بھٹرک اٹھتا ہے اور کسی شخص کے اپنے خاص لوگوں کو حامتہ خاص وعام کا محاورہ ہے ۔ قرآن میں ہے : فَما لَنا مِنْ شافِعِينَ وَلا صَدِيقٍ حَمِيمٍ [ الشعراء 100- 101] تو ( آج ) نہ کوئی ہمارا سفارش کرنے والا ہے اور نہ گرم جوش دوست نیز فرمایا ۔ وَلا يَسْئَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً [ المعارج 10] اور کوئی دوست کسیز دوست کا پر سان نہ ہوگا ۔ اور اس کی دلیل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انسان کے قریبی مہر بانوں کو حزانتہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اس کے غم میں شریک رہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ احتم فلان لفلان فلاں اس کے لئے غمگین ہوا یا اس کی حمایت کے لئے جوش میں آگیا ۔ اس میں باعتبار معنی اھم سے زیادہ زور پایا جاتا ہے کیونکہ اس میں غم زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ جوش اور گرمی کے معنی بھی پائے جاتے ہیں ۔ احم الشحم چربی پگھلا ۔ یہاں تک کہ وہ گرم پانی کی طرح ہوجائے اور آیت کریمہ : وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ [ الواقعة 43] اور سیاہ دھوئیں کے سایے میں ۔ میں یحموم حمیم سے یفعول کے وزن پر ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے اصل معنی سخت سیاہ دھوآں کے ہیں اور اسے یحموم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں شیت حرارت پائی جاتی ہے جیسا کہ بعد میں سے اس کی تفسیر کی ہے اور یا اس میں حممتہ یعنی کوئلے کی سی سیاہی کا تصور موجود ہے ۔ چناچہ سیاہ کو یحموم کہا جاتا ہے اور یہ حممتہ ( کوئلہ ) کے لفظ سے مشتق ہے چناچہ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ [ الزمر 16] ان کے اوپر تو اگ کے سائبان ہوں گے اور نیچے ( ان ) کے فرش پونگے اور حمام بمعنی موت بھی آجاتا ہے جیسا کہ کسی امر کے مقدر ہونے پر حم کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور بخار کو الحمی کہنا یا تو اس لئے ہے کہ اس میں حرارت تیز ہوجاتی ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا : کہ بخار جہنم کی شدت ست ہے اور یا بخار کو حمی اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں پسینہ اترتا ہے اور یا اس لئے کہ یہ موت کی علامات میں سے ایک علامت ہے ۔ جیسا کہ عرب لوگ کہتے ہیں الحمی بریدالموت ( کہ بخار موت کا پیغام پر ہے ) اور بعض اسے باب الموت یعنی موت کا دروازہ بھی کہتے ہیں اور اونٹوں کے بخار کو حمام کہا جاتا ہے یہ بھی حمام ( موت ) سے مشتق ہے کیونکہ اونٹ کو بخار ہوجائے تو وہ شازو نادر ہی شفایاب ہوتا ہے ۔ حمم الفرخ پرندے کے بچہ نے بال وپر نکال لئے کیونکہ اس سے اس کی جلد سیاہ ہوجاتی ہے ۔ حمم وجھہ اس کے چہرہ پر سبزہ نکل آیا یہ دونوں محاورے حممتہ سے موخوز ہیں ۔ اور حمحمت الفرس جس کے معنی گھوڑے کے ہنہنانے کے ہیں یہ اس باب سے نہیں ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩۔ ٢٠۔ ٢١) یہ دو دین والے فرقے ہیں یعنی مسلمان اور یہود و نصاری جنہوں نے اپنے پروردگار کے دین کے بارے میں اختلاف کیا ان میں سے ہر ایک نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے دین سے زیادہ واقف ہوں چناچہ اللہ تعالیٰ نے انکے درمیان اس طرح فیصلہ فرما دیا کہ جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کے منکر تھے یعنی یہود و نصاری ان کے لیے آگ کے کرتے اور جبے تیار کیے جائیں گے اور ان کے سر کے اوپر سے تیز کھولتا ہوا گرم پانی ڈالا جائے گا۔- اس سے ان کے پیٹ کی چربی اور کھال وغیرہ سب گھل جائے گی اور ان کے مارنے کے لیے لوہے کے گرم گزر ہوں گے۔- شان نزول : ( آیت) ھذان خصمن “۔ (الخ)- امام بخاری (رح) ومسلم (رح) نے حضرت ابوذر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ آیت مبارکہ حضرت حمزہ (رض) ، عبیدہ (رض) علی بن ابی طالب (رض) اور عتبہ، شیبہ، ولید بن عتبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اور امام حاکم (رح) نے حضرت علی (رض) سے روایت کیا فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے غزوہ بدر میں ہم نے جو مبارزت کی، نیز امام حاکم (رح) نے دوسرے طریقے سے حضرت علی (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت مبارکہ ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے بدر کے دن جنگ کی یعنی حضرت حمزہ (رض) ، حضرت علی (رض) ، حضرت عبیدہ (رض) اور عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، اور ابن جریر (رح) نے عوفی کے واسطہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ ہم تم سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہیں اور ہماری کتاب بھی مقدم ہے اور ہمارا نبی بھی تمہارے نبی سے مقدم ہے، مسلمانوں نے ان کے جواب میں کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے قرب کے زیادہ مستحق ہیں ہم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور تمہارے نبی پر اور اللہ تعالیٰ نے جو کتاب نازل کی ہے سب پر ایمان لائے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ (ہٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّہِمْز) ” - یہ سورت چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکی زندگی کے آخری دور میں نازل ہوئی تھی ‘ اس لیے ان گروہوں سے مکہ کے دو گروہ مراد ہیں۔ یعنی ایک مؤمنین کا گروہ جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا چکا تھا اور دوسرا وہ گروہ جو اب تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت پر اڑا ہوا تھا۔ (قبل ازیں آیت ١١ کے ضمن میں وضاحت کی جا چکی ہے کہ سورة الحج مکی سورت ہے ‘ البتہ اس کی کچھ آیات ایسی ہیں جو سفر ہجرت کے دوران نازل ہوئیں تھیں۔ )- (فَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَہُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ ط) ” - کپڑے کو قطع کرنے کا ذکر کر کے لباس تیار کرنے کے عمل کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ یعنی جس طرح درزی پہلے مطلوبہ ناپ کے مطابق کپڑے کو کاٹتا ہے اور پھر لباس تیار کرتا ہے اسی طرح منکرین حق کے لیے جہنم کی آگ سے لباس تیار کیے جائیں گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :36 یہاں خدا کے بارے میں جھگڑا کرنے والے تمام گروہوں کو ان کی کثرت کے باوجود دو فریقوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے ۔ ایک فریق وہ جو انبیاء کی بات مان کر خدا کی صحیح بندگی اختیار کرتا ہے ۔ دوسرا وہ جو ان کی بات نہیں مانتا ور کفر کی راہ اختیار کرتا ہے خواہ اس کے اندر آپس میں کتنے ہی اختلافات ہوں اور اس کے کفر نے کتنی ہی مختلف صورتیں اختیار کر لی ہوں ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :37 مستقبل میں جس چیز کا پیش آنا بالکل قطعی اور یقینی ہو اس کو زور دینے کے لیے اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ گویا وہ پیش آچکی ہے ۔ آگ کے کپڑوں سے مراد غالباً وہی چیز ہے جسے سورہ ابراہیم آیت 50 میں : سَرَابِیْلُھُمْ مِنْ قَطِرَانٍ فرمایا گیا ہے ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، ابراہیم ، حاشیہ 58 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani