Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جنت کے محلات وباغات اوپر دوزخیوں کا ، ان کی سزاؤں کا ، ان کے طوق وزنجیر کا ، ان کے جلنے جھلسنے کا ، ان کے آگ کے لباس کا ذکر کرکے اب جنت کا ، وہاں کی نعمتوں کا اور وہاں کے رہنے والوں کا حال بیان فرما رہا ہے ۔ اللہ ہمیں اپنی سزاؤں سے بچائے اور جزاؤں سے نوازے آمین فرماتا ہے ایمان اور نیک عمل کے بدلے جنت مل گئی جہاں کے محلات اور باغات کے چاروں طرف پانی کی نہریں لہریں مار رہی ہونگی جہاں چاہیں گے وہیں خود بخود ان کا رخ ہوجایا کرے گا سونے کے زیوروں سے سجے ہوئے ہوں گے موتیوں میں تل رہے ہوں گے ۔ متفق علیہ حدیث میں ہے مومن کا زیور وہاں تک پہنچے گا جہاں تک وضو کا پانی پہنچتا ہے ۔ کعب احبار رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جنت میں ایک فرشتہ ہے کہ جس کا نام بھی مجھے معلوم ہے وہ اپنی پیدائش سے مومنوں کے لئے زیور بنا رہا ہے اور قیامت تک اسی کام میں رہے گا اگر ان میں سے ایک کنگن بھی دنیا میں ظاہر ہوجائے تو سورج کی روشنی اسی طرح جاتی رہے جس طرح اس کے نکلنے سے چاند کی روشنی جاتی رہتی ہے ۔ دوزخیوں کے کپڑوں کا ذکر اوپر ہو چکا ہے جنتیوں کے کپڑوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ نرم چمکیلے ریشمی کپڑے پہنے ہوئے ہوں گے جسے سورۃ دہر میں ہے کہ ان کے لباس سبزریشمی ہوں گے چاندی کے کنگن ہوں گے اور شراب طہور کے جام پر جام پی رہے ہونگے ۔ یہ ہے تمہاری جزا اور یہ تمہارے بار اور سعی کا نتیجہ ۔ صحیح حدیث میں ہے ریشم تم نہ پہنو جو اسے دنیا میں پہن لے گا وہ آخرت کے دن اس سے محروم رہے گا ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جو اس دن ریشمی لباس سے محروم رہا وہ جنت میں نہ جائے گا کیونکہ جنت والوں کا یہی لباس ہے ان کو پاک بات سکھا دی گئی ۔ جیسے فرمان ہیں آیت ( تَحِيَّتُهُمْ فِيْهَا سَلٰمٌ 23؀ ) 14- ابراھیم:23 ) ایماندار بحکم الٰہی جنت میں جائیں گے جہاں ان کا تحفہ آپس میں سلام ہوگا ۔ اور آیت میں ہے ہر دروازے سے فرشتے ان کے پاس آئیں گے اور سلام کرکے کہیں گے تمہارے صبر کا کیا ہی اچھا انجام ہوا ۔ اور جگہ فرمایا آیت ( لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِيْمًا 25۝ۙ اِلَّا قِيْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا 26؀ ) 56- الواقعة:26 ) وہاں کوئی لغو بات اور رنج دینے والی بات نہ سنیں گے بجزسلام اور سلامتی کے ۔ پس انہیں وہ مکان دے دیا گیا جہاں صرف دل لبھانے والی آوازیں اور سلام ہی سلام سنتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے وہاں مبارک سلامت کی آوازیں ہی آئیں گی برخلاف دوزخیوں کے کہ ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ سنتے ہیں ، جھڑکے جاتے ہیں سرزنش کی جارہی ہے کہ ایسے عذاب برداشت کرو وغیرہ ۔ اور انہیں وہ جگہ دی گئی کہ یہ نہال نہال ہوگئے اور بیساختہ ان کی زبانوں سے اللہ کی حمد ادا ہونے لگی ۔ کیونکہ بیشمار بےنظیر رحمتیں پالیں ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ جیسے بےقصد و بےتکلف سانس آتا جاتا رہتا ہے اسی طرح بہشتیوں کو تسبیح وحمد کا الہام ہوگا ۔ بعض مفسیریں کا قول ہے کہ طیب کلام سے مراد قرآن کریم ہے اور لا الہ الا اللہ ہے حدیث کے ورد اور اذکار ہیں اور صراط حمید سے مراد اسلامی راستہ ہے یہ تفسیر بھی پہلی تفسیر کے خلاف نہیں ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 جہنمیوں کے مقابلے میں یہ اہل جنت کا اور ان نعمتوں کا تذکرہ ہے جو اہل ایمان کو مہیا کی جائیں گی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٨] عہد نبوی میں یہ رواج عام تھا کہ شاہان وقت اور بڑے بڑے رئیس لوگ سونے اور جواہرات کے مرصلے زیور پہنتے تھے۔ حتیٰ کہ ہمارے زمانہ میں بھی ہندوستان کے مہاراجے اور نواب ایسے زیور اور ریشمی لباس پہنتے ہیں۔ یہاں یہ تصور دلانا مقصود ہے کہ اہل جنت کو وہاں ہر وہ راحت آرام اور عیش و عشرت حاصل ہوگی جس کا کوئی انسان تصور کرسکتا ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جنت کی نعمتوں کی حقیقت کو سمجھنا بھی اس وقت ناممکن ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنت کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ایسی ہوں گی جنہیں نہ کسی آنکھ نے آج تک دیکھا، نہ کانوں نے سنا۔ حتیٰ کہ کسی کے دل میں ان کا خیال تک بھی نہیں آسکتا (مسلم۔ کتاب الجنہ و صفہ ن نعیمہا)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۧاِنَّ اللّٰهَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۔۔ : ” يُحَلَّوْنَ “ ” حَلَّی یُحَلِّيْ تَحْلِیَۃً “ (تفعیل) سے مضارع مجہول ہے۔ اسی سے ” حِلْیَۃٌ“ بمعنی زیور ہے۔ ” اَسَاوِرَ “ ” أَسْوِرَۃٌ“ کی جمع ہے جو خود ” سِوَارٌ“ کی جمع ہے۔ جمع الجمع ان کنگنوں کی کثرت اور حسن و خوبی کے بیان کے لیے استعمال ہوئی ہے۔ ” مِنْ اَسَاوِرَ “ میں ” مِنْ “ تبعیض کے لیے ہے، یعنی کچھ کنگن سونے اور موتیوں کے ہوں گے اور کچھ ایسے ہوں گے جو تم نہیں جانتے، جیسا کہ فرمایا : (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ) [ السجدۃ : ١٧ ] ” پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک میں سے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے۔ “ توحید ربانی کے بارے میں باہمی معرکہ آرا گروہوں میں سے ” الَّذِيْنَ كَفَرُوْا “ کے عذاب کے ذکر کے بعد ” الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا “ کے ثواب کا ذکر ہو رہا ہے۔ ابتدا اس کی حرف تاکید ” اِنَّ “ سے ہے اور کفار کے ہر عذاب کے مقابلے میں اہل ایمان کے لیے کسی نہ کسی نعمت کا ذکر ہے۔ چناچہ ” يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا “ ، ” كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنْهَا “ کے مقابلے میں ہے۔ ” تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ “ ، ” يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِيْم “ کے مقابلے میں ہے۔ ” وَلِبَاسُهُمْ فِيْهَا حَرِيْرٌ“ ، ” قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّنْ نَّارٍ “ کے مقابلے میں ہے۔ ” يُحَلَّوْنَ فِيْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ “ ، ” وَلَهُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِيْدٍ “ کے مقابلے میں ہے اور ” هُدُوْٓا اِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ “ ، ” ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ “ کے مقابلے میں ہے، کیونکہ جنتیوں کے لیے طیب بات ” سلام “ ہے تو جہنمیوں کے لیے بری بات ” جلنے کا عذاب چکھو “ ہے۔- اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّلُؤْلُؤًا : عورتوں کے لیے سونے اور موتیوں کے زیور تو معروف بات ہے، رہے مرد تو گزشتہ زمانے میں بادشاہ اور بڑے بڑے رئیس زینت اور اپنی شان و شوکت کے اظہار کے لیے کنگن اور موتی پہنا کرتے تھے۔ اس آیت سے مقصود یہ بتانا ہے کہ اہل ایمان کو جنت میں شاہانہ لباس پہنایا جائے گا۔ مزید دیکھیے سورة کہف (٣١) ۔- وَلِبَاسُهُمْ فِيْهَا حَرِيْر : ” حَرِيْرٌ“ سے مراد خالص ریشم ہے، جس کا استعمال مردوں کے لیے دنیا میں حرام ہے۔ انس (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ لَبِسَ الْحَرِیْرَ فِی الدُّنْیَا فَلَنْ یَلْبَسَہُ فِی الْآخِرَۃِ ) [ بخاري، اللباس، باب لبس الحریر للرجال۔۔ : ٥٨٣٢۔ مسلم : ٧٣]” جس شخص نے دنیا میں ریشم پہنا وہ اسے آخرت میں ہرگز نہیں پہنے گا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اہل جنت کو کنگن پہنائے جانے کی حکمت :- یہاں یہ شبہ ہوتا ہے کہ کنگن ہاتھوں میں پہننا عورتوں کا کام اور انہیں کا زیور ہے۔ مردوں کے لئے معیوب سمجھا جاتا ہے۔ جواب یہ ہے کہ دنیا کے بادشاہوں کی یہ امتیازی شان رہی ہے کہ سر پر تاج اور ہاتھوں میں کنگن استعمال کرتے تھے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سراقہ بن مالک کو جبکہ وہ مسلمان نہیں تھے اور سفر ہجرت میں آپ کو گرفتار کرنے کے لئے تعاقب میں نکلے تھے، جب ان کا گھوڑا باذن خداوندی زمین میں دھنس گیا اور اس نے توبہ کی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا سے گھوڑا نکل گیا اس وقت سراقہ بن مالک سے وعدہ فرمایا تھا کہ کسریٰ شاہ فارس کے کنگن مال غنیمت میں مسلمانوں کے پاس آئیں گے وہ تمہیں دیئے جائیں گے اور جب فاروق اعظم کے زمانے میں فارس کا ملک فتح ہوا اور ایران کے یہ کنگن دوسرے اموال غنیمت کے ساتھ آئے تو سراقہ بن مالک نے مطالبہ کیا اور ان کو دے دیے گئے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جیسے سر پر تاج پہننا عام مردوں کا رواج نہیں، شاہی اعزاز ہے اسی طرح ہاتھوں میں کنگن بھی شاہی اعزاز سمجھے جاتے ہیں اس لئے اہل جنت کو کنگن پہنائے جائیں گے۔ کنگن کے متعلق اس آیت میں اور سورة فاطر میں تو یہ ہے کہ وہ سونے کے ہوں گے اور سورة دھر میں یہ کنگن چاندی کے بتلائے گئے ہیں اس لئے حضرات مفسرین نے فرمایا کہ اہل جنت کے ہاتھوں میں تین طرح کے کنگن پہنائے جائیں گے ایک سونے کا، دوسرا چاندی کا تیسرا موتیوں کا جیسا کہ اس آیت میں موتیوں کا بھی ذکر موجود ہے۔ (قرطبی)- ریشم کے کپڑے مردوں کے لئے حرام ہیں :- آیت مذکورہ میں ہے کہ اہل جنت کا لباس ریشم کا ہوگا مراد یہ ہے کہ ان کے تمام ملبوسات اور فرش اور پردے وغیرہ ریشم کے ہوں گے جو دنیا میں سب سے زیادہ بہتر لباس سمجھا جاتا ہے اور جنت کا ریشم ظاہر ہے کہ دنیا کے ریشم سے صرف نام کی شرکت رکھتا ہے ورنہ اس کی عمدگی اور بہتری کو اس سے کوئی مناسبت نہیں۔- امام نسائی اور بزار اور بیہقی نے بسند جید حضرت عبداللہ بن عمر سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اہل جنت کا ریشمی لباس جنت کے پھلوں میں سے نکلے گا اور حضرت جابر کی ایک روایت میں ہے کہ جنت میں ایک درخت ایسا ہوگا جس سے ریشم پیدا ہوگا اہل جنت کا لباس اسی سے تیار ہوگا (مظہری)- حدیث میں امام نسائی نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- من لبس الحریر فی الدنیا لم یلبسہ فی الاخرة و من شرب الخمر فی الدنیا لم یشربھا فی الاخرة و من شرب فی انیة الذھب و الفضة لم یشرب فیھا فی الاخرة ثم قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لباس اھل الجنة و شراب اھل الجنة وانیة اھل الجنة (از قرطبی بحوالہ نسائی)- " جو شخص ریشمی کپڑا دنیا میں پہنے گا وہ آخرت میں نہ پہنے گا اور جو دنیا میں شراب پئے گا وہ آخرت کی شراب سے محروم رہے گا اور جو دنیا میں سونے چاندی کے برتنوں میں (کھائے) پئے گا وہ آخرت میں سونے چاندی کے برتنوں میں نہ کھائے گا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ تینوں چیزیں اہل جنت کے لئے مخصوص ہیں "۔- مراد یہ ہے کہ جس شخص نے دنیا میں یہ کام کئے اور توبہ نہیں کی وہ جنت کی ان تین چیزوں سے محروم رہے گا اگرچہ جنت میں داخل بھی ہوجائے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص نے دنیا میں شراب پی، پھر اس سے توبہ نہیں کی وہ آخرت میں جنت کی شراب سے محروم رہے گا (رواہ الائمہ۔ قرطبی) نیز ایک دوسری حدیث میں حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- من لبس الحریر فی الدنیا لم یلبسہ فی الاخرة وان دخل الجنة لبسہ اھل الجنة و لم یلبسہ ھو رواہ ابو داؤد الطیالسی فی مسندہ و قال القرطبی اسنادہ صحیح۔- " جس شخص نے دنیا میں ریشم پہنا وہ آخرت میں نہ پہنے گا اگرچہ جنت میں داخل بھی ہوجائے دوسرے اہل جنت ریشم پہنیں گے یہ نہیں پہن سکے گا "۔- یہاں یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ جب ایک شخص جنت میں داخل کرلیا گیا پھر اگر وہ کسی چیز سے محروم کیا گیا تو اس کو حسرت و افسوس رہے گا اور جنت اس کی جگہ نہیں۔ وہاں کسی شخص کو کسی کا غم و افسوس نہ ہونا چاہئے اور اگر یہ حسرت و افسوس نہ ہو تو پھر اس محرومی کا کوئی فائدہ نہیں رہتا۔ اس کا جواب قرطبی نے اچھا دیا ہے کہ اہل جنت کے جس طرح مقامات اور درجات مختلف اور متفاوت اعلیٰ و ادنیٰ ہوں گے۔ ان کے تفاوت کا احساس بھی سب کو ہوگا مگر اس کے ساتھ ہی حق تعالیٰ شانہ اہل جنت کے قلوب ایسے بنا دے گا کہ ان میں حسرت و افسوس کسی چیز کا نہ رہے گا۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ اللہَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ يُحَلَّوْنَ فِيْہَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ وَّلُؤْلُؤًا۝ ٠ۭ وَلِبَاسُہُمْ فِيْہَا حَرِيْرٌ۝ ٢٣- دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- أمن - والإِيمان - يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان - قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم،- ( ا م ن ) الامن - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- جری - الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51]- ( ج ر ی ) جریٰ ( ض)- جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔- تحت - تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق 3- 4] .- ( ت ح ت) تحت - ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔- حلی - الحُلِيّ جمع الحَلْي، نحو : ثدي وثديّ ، قال تعالی: مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ الأعراف 148] ، يقال : حَلِيَ يَحْلَى «4» ، قال اللہ تعالی: يُحَلَّوْنَ فِيها مِنْ أَساوِرَ مِنْ ذَهَبٍ [ الكهف 31] ،- ( ح ل ی ) الحلی - ( زیورات ) یہ حلی کی جمع ہے جیسے ثدی کی جمع ثدی آجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ الأعراف 148] اپنے زیور کا ایک بچھڑا ( بنالیا ) وہ ایک جسم ( تھا ) جس میں سے بیل کی آواز نکلتی تھی حلی یحلٰی آراستہ ہونا اور حلی آراستہ کرنا ) قرآن میں ہے ۔ يُحَلَّوْنَ فِيها مِنْ أَساوِرَ مِنْ ذَهَبٍ [ الكهف 31] ان کو وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے ۔- وَحُلُّوا أَساوِرَ مِنْ فِضَّةٍ [ الإنسان 21] اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے ۔ اور حلیتہ کے معنی زیور کے ہیں ۔ - سور - السَّوْرُ : وثوب مع علوّ ، ويستعمل في الغضب، وفي الشراب، يقال : سَوْرَةُ الغضب، وسَوْرَةُ الشراب، وسِرْتُ إليك، وسَاوَرَنِي فلان، وفلان سَوَّارٌ: وثّاب . والْإِسْوَارُ من أساورة الفرس أكثر ما يستعمل في الرّماة، ويقال : هو فارسيّ معرّب . وسِوَارُ المرأة معرّب، وأصله دستوار «3» ، وكيفما کان فقد استعملته العرب، واشتقّ منه : سَوَّرْتُ الجارية، وجارية مُسَوَّرَةٌ ومخلخلة، قال : فَلَوْلا أُلْقِيَ عَلَيْهِ أَسْوِرَةٌ مِنْ ذَهَبٍ [ الزخرف 53] ، وَحُلُّوا أَساوِرَ مِنْ فِضَّةٍ [ الإنسان 21] ، واستعمال الْأَسْوِرَةِ في الذهب، وتخصیصها بقوله : «ألقي» ، واستعمال أَسَاوِرَ في الفضّة وتخصیصه بقوله : حُلُّوا «4» فائدة ذلک تختصّ بغیر هذا الکتاب . والسُّورَةُ : المنزلة الرفیعة، قال الشاعر : ألم تر أنّ اللہ أعطاک سُورَةً ... تری كلّ ملک دونها يتذبذب«1» وسُورُ المدینة : حائطها المشتمل عليها، وسُورَةُ القرآن تشبيها بها لکونه محاطا بها إحاطة السّور بالمدینة، أو لکونها منزلة کمنازل القمر، ومن قال : سؤرة «2» فمن أسأرت، أي : أبقیت منها بقيّة، كأنها قطعة مفردة من جملة القرآن وقوله : سُورَةٌ أَنْزَلْناها - [ النور 1] ، أي : جملة من الأحكام والحکم، وقیل : أسأرت في القدح، أي : أبقیت فيه سؤرا، أي : بقيّة، قال الشاعر : لا بالحصور ولا فيها بِسَآرٍ- «3» ويروی ( بِسَوَّارٍ ) ، من السَّوْرَةِ ، أي : الغضب .- ( س و ر ) السور - اس کے اصل معنی بلندی پر کودنے کے ہیں اور غصہ یا شراب کی شدت پر بھی سورة کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ سورة الغضب اور سورة الشراب ( شراب کی تیزی سورت الیک کے معنی ہیں میں تیری طرف چلا اور س اور نی فلان کے معنی ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے ہیں ۔ اور سورة بمعنی وثاب یعنی عربدہ گر کے ہیں اور الاسوات اسا ورۃ الفرس کا مفرد ہے جس کے معنی تیرا انداذ کے ہیں گیا ہے کہ یہ فارسی سے معرب ہے ۔ سوراۃ المرءۃ ( عورت کا بازو بند ) یہ بھی معرب ہے اور اصل میں دستور ہے ۔ بہر حال اس کی اصل جو بھی ہو اہل عرب اسے استعمال کرتے ہیں اور اس سے اشتقاق کر کے کہا جاتا ہے ۔ سورات المرءۃ میں نے عورت کو کنگن پہنائے اور جاریۃ مسورۃ ومخلقۃ اس لڑکی کو کہتے ہیں جس نے بازو بند اور پازیب پہن رکھی ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَسْوِرَةٌ مِنْ ذَهَبٍ [ الزخرف 53] سونے کے کنگن ۔۔۔۔۔ چاندی کے کنگن ۔۔۔۔۔ اور قرآن میں سونے کے ساتھ اسورۃ جمع لاکر پھر خاص کر القی کا صیغہ استعمال کرنا اور فضۃ سے قبل اساور کا لفظ لاکر اس کے متعلق حلوا کا صیغہ استعمال کرنے میں ایک خاص نکتہ ملحوظ ہے کس جس کی تفصیل دوسری کتاب میں بیان ہوگی ۔ السورۃ کے معنی بلند مرتبہ کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( الطویل ) ( 244 ) الم تر ان اللہ اعطا ک سورة تریٰ کل ملک دونھا یتذ بذب بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایسا مرتبہ بخشا ہے جس کے ورے ہر بادشاہ متذبذب نظر آتا ہے ۔ اور سورة المدینۃ کے معنی شہر پناہ کے ہیں اور سورة القرآن ( قرآن کی سورت ) یا تو سور المدینۃ سے ماخوذ ہے کیونکہ سورة بھی شہر پناہ کی طرح قرآن کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اس لئے انہیں سورة القرآن کہا جاتا ہے اور یا سورة بمعنی مرتبہ سے مشتق ہے ، اور سورة بھی مناز ل قمر کی طرح ایک منزلۃ ہے اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور یہ دونوں اشتقاق اس وقت ہوسکتے ہیں جب اس میں واؤ کو اص - لی مانا جائے لیکن اگر اسے اصل میں سورة مہموز مانا جائے تو یہ اسارت سے مشتق ہوگا جس کے معنی کچھ باقی چھوڑ دینے کے ہیں اور سورة بھی چونکہ قرآن ن کا ایک ٹکڑا اور حصہ ہوتی ہے ۔ اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ سُورَةٌ أَنْزَلْناها[ النور 1] یہ ایک ) سورة ہے جسے ہم نے نازل کیا میں سورة سے مراد احکام وحکم ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ یہ اسارت فی القدح سے مشتق ہے جس کے معنی پیالہ میں کچھ باقی چھوڑ نے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( البسیط ) ( 245 ) لا بالحصور ولا فیھا بسآ ر نہ تنگ دل اور بخیل ہے اور نہ عربدہ گر ۔ ایک روایت میں ولا بوار ہے ۔ جو شورۃ بمعنی شدت غضب سے مشتق ہے ۔- لؤلؤ - قال تعالی: يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ [ الرحمن 22] ، وقال : كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور 24] جمعه : لَآلِئٌ ، وتَلَأْلَأَ الشیء : لَمَعَ لَمَعان اللّؤلؤ، وقیل : لا أفعل ذلک ما لَأْلَأَتِ الظِّبَاءُ بأذنابها «1» .- ( ل ء ل ء ) اللؤ لوء ۔ جمع لاتی ۔ قرآن میں ہے : يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ [ الرحمن 22] دونوں دریاؤں سے ہوتی ۔۔۔ نکلتے ہیں ۔ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور 24] جیسے چھپائے ہوئے ہوتی ۔ اور تلالالشئی کے معنی کسی چیز کے موتی کی طرح چمکنے کے ہیں مشہور محاورہ ہے ۔ لاافعل ذلک مالالات الظباء باذنابھا جب تک کہ آہو اپنے دم ہلاتے رہیں گے میں یہ کام نہیں کرونگا ۔ یعنی کبھی بھی یہ کام نہیں کروں گا ۔- حَريرُ- من الثیاب : ما رقّ ، قال اللہ تعالی: وَلِباسُهُمْ فِيها حَرِيرٌ [ فاطر 33] لحریری ( ریشمی کپڑا ) ہر ایک بار کپڑے کو حریر کیا جاتا ہے فرمایا :۔ وَلِباسُهُمْ فِيها حَرِيرٌ [ فاطر 33] وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٣) اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے محلات اور درختوں کے نیچے سے ددودھ، شہد، پانی، اور شراب کی نہریں جاری ہوں گی، اور ان کو جنت میں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور لباس ریشم کا ہوگا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(یُحَلَّوْنَ فِیْہَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ وَّلُؤْلُؤًاط وَلِبَاسُہُمْ فِیْہَا حَرِیْرٌ ) ” - دنیا میں ریشم پہننا مردوں کے لیے حرام ہے مگر جنتیوں کے لباس خصوصی طور پر ریشم سے تیار کیے جائیں گے۔ اوپر والا لباس باریک ریشم کا ہوگا جبکہ اس کے نیچے گاڑھے ریشم کا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :38 اس سے یہ تصور دلانا مقصود ہے کہ ان کو شاہانہ لباس پہنانے جائیں گے ۔ نزول قرآن کے زمانے میں بادشاہ اور بڑے بڑے رئیس سونے اور جواہر کے زیور پہنتے تھے ، اور خود ہمارے زمانے میں بھی ہندوستان کے راجہ اور نواب ایسے زیور پہنتے رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani