24۔ 1 یعنی جنت ایسی جگہ ہے جہاں پاکیزہ باتیں ہی ہونگی، وہاں بےہودہ اور گناہ کی بات نہیں ہوگی۔ 24۔ 2 یعنی ایسی جگہ کی طرف جہاں ہر طرف اللہ کی حمد اور اس کی تسبیح کی صدائے دل نواز گونج رہی ہوگی۔ اگر اس کا تعلق دنیا سے ہو تو مطلب قرآن اور اسلام کی طرف رہنمائی ہے جو اہل ایمان کے حصے میں آتی ہے۔
[٢٩] اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ ہے کہ اس آیت کو اس دنیا سے متعلق سمجھا جائے۔ اس صورت میں جو مطلب ہوگا وہ ترجمہ سے ہی واضح ہوجاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اسے آخرت سے متعلق سمجھا جائے جیسا کہ پہلے اہل جنت کا ذکر چل رہا ہے۔ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کی ایسے مقام کی طرف راہنمائی کی جائے گی جہاں فرشتے انھیں سلام کہیں گے۔ مبارک باد پیش کریں گے۔ وہاں کسی قسم کی بک بک اور جھک جھک نہ ہوگی اور یہ ایسی راہ ہوگی جہاں پہنچ کر اہل جنت ستودہ صفات اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا میں ہی ہمیشہ مشغول رہا کریں گے۔
وَهُدُوْٓا اِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ : یعنی دنیا میں انھیں پاکیزہ بات کلمۂ توحید ” لا الٰہ الا اللہ “ کی ہدایت عطا ہوئی اور انھیں تمام تعریفوں والے پروردگار کے راستے اسلام کی ہدایت ملی۔ اسی طرح آخرت میں انھیں اس مقام کی طرف لے جایا جائے گا جہاں وہ پاکیزہ کلام ہی سنیں گے، کوئی لغو یا گناہ کی بات کان میں نہیں پڑے گی۔ نہ جھگڑا ہوگا اور نہ کوئی بک بک، ہر طرف سے سلام کی آواز آئے گی، فرمایا : (لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِيْمًا 25 ۙاِلَّا قِيْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا) [ الواقعۃ : ٢٥، ٢٦ ] ” وہ اس میں نہ بےہودہ گفتگو سنیں گے اور نہ گناہ میں ڈالنے والی بات، مگر یہ کہنا کہ سلام ہے، سلام ہے۔ “ سلام کے علاوہ اللہ کی حمدہو گی اور اس کی تسبیح۔ دیکھیے سورة فاطر (٣٣ تا ٣٥) اور زمر (٧٣، ٧٤) ۔- وَهُدُوْٓا اِلٰى صِرَاطِ الْحَمِيْدِ : اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ اہل جنت کو یہ سعادت حمد الٰہی کی وجہ سے حاصل ہوگی، فرمایا : (دَعْوٰىھُمْ فِيْهَا سُبْحٰنَكَ اللّٰهُمَّ وَتَحِيَّتُھُمْ فِيْهَا سَلٰمٌ ۚ وَاٰخِرُ دَعْوٰىھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ) [ یونس : ١٠ ] ” ان کی دعا ان میں یہ ہوگی ” پاک ہے تو اے اللہ “ اور ان کی آپس کی دعا ان (باغات) میں سلام ہوگی اور ان کی دعا کا خاتمہ یہ ہوگا کہ سب تعریف اللہ کے لیے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ “
وَهُدُوْٓا اِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ ، حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس سے مراد کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ ہے۔ بعض نے فرمایا قرآن مراد ہے (قرطبی) صحیح یہ ہے کہ یہ سب چیزیں اس میں داخل ہیں۔
وَہُدُوْٓا اِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ ٠ۚۖ وَہُدُوْٓا اِلٰى صِرَاطِ الْحَمِيْدِ ٢٤- طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔- صرط - الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . - سرط - السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من :- سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام :- 231-- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه - «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه .- ( ص ر ط ) الصراط - ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو - ( س ر ط) السراط - کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔- حمید - إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد،- ( ح م د ) حمید - اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی ۔
(٢٤) ان کو دنیا میں کلمہ طیب یعنی ” لا الہ الا اللہ “۔ کی ہدایت ہوگئی تھی اور ان کو اس اللہ کے رستہ کی ہدایت ہوگئی تھی جو لائق حمد وستایش ہے یہ اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاری اور مسلمانوں کے درمیان ان کے اختلاف کے بارے میں فیصلہ فرمایا ہے۔
آیت ٢٤ (وَہُدُوْٓا اِلَی الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ ج ) ” - یہاں بہترین بات سے مراد کلمہ طیبہ : لَااِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہوسکتا ہے یا پھر یہ کلمہ : سُبْحَان اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ الاَّ باللّٰہِ ۔- (وَہُدُوْٓا اِلٰی صِرَاطِ الْحَمِیْدِ ) ” - انہیں اللہ تعالیٰ کے راستے کی ہدایت دی گئی ہے جو سب تعریفوں کے لائق ہے اور وہ اس راستے پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رحمت (فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌ ج وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ ) ( الواقعہ ) کے اندر پہنچ جائیں گے۔
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :39 اگرچہ پاکیزہ بات کے الفاظ عام ہیں ، مگر مراد ہے وہ کلمہ طیبہ اور عقیدہ صالحہ جس کو قبول کرنے کی بنا پر وہ مومن ہوئے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :40 جیسا کہ دیباچے میں بیان کیا گیا ہے ، ہمارے نزدیک یہاں سورے کا وہ حصہ ختم ہو جاتا ہے جو مکی دور میں نازل ہوا تھا ۔ اس حصے کا مضمون اور انداز بیان وہی ہے جو مکہ سورتوں کا ہوا کرتا ہے ، اور اس میں کوئی علامت بھی ایسی نہیں ہے جس کی بنا پر یہ شبہ کیا جا سکے کہ شاید یہ پورا حصہ ، یا اس کا کوئی جز مدینے میں نازل ہوا ہو ۔ صرف آیت : ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّھِمْ ( یہ دو فریق ہیں جن کے درمیان اپنے رب کے بارے میں جھگڑا ہے ) کے متعلق بعض مفسرین نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے ۔ لیکن اس قول کی بنیاد صرف یہ ہے کہ ان کے نزدیک ان دو فریقوں سے مراد جنگ بدر کے فریقین ہیں ، اور یہ کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے ۔ سیاق و سباق میں کہیں کوئی چیز ایسی نہیں پائی جاتی جو اس اشارے کو اس جنگ کے فریقین کی طرف پھیرتی ہو ۔ الفاظ عام ہیں ، اور سیاق عبارت صاف بتا رہا ہے کہ اس سے مراد کفر و ایمان کی اس نزاع عام کے فریقین ہیں جو ابتدا سے چلی آ رہی ہے اور قیامت تک جاری رہے گی ۔ جنگ بدر کے فریقین سے اس کا تعلق ہوتا تو اس کی جگہ سورہ انفال میں تھی نہ کہ اس سورے میں اور اس سلسلہ کلام میں ۔ یہ طریق تفسیر اگر صحیح مان لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ قرآن کی آیات بالکل منتشر طریقہ پر نازل ہوئیں اور پھر ان کو بلا کسی ربط و مناسبت کے بس یونہی جہاں چاہا لگا دیا گیا ۔ حالانکہ قرآن کا نظم کلام خود اس نظریے کی سب سے بڑی تردید ہے ۔