مسجدالحرام سے روکنے والے اللہ تعالیٰ کافروں کے اس فعل کی تردید کرتا ہے جو وہ مسلمانوں کو مسجد الحرام سے روکتے تھے وہاں انہیں احکام حج ادا کرنے سے باز رکھتے تھے باوجود اس کے اولیاء اللہ کے ہونے کا دعوی کرتے تھے حالانکہ اولیاء وہ ہیں جن کے دلوں میں اللہ کا ڈر ہو اس سے معلوم ہوتا کہ یہ ذکر مدینے شریف کا ہے ۔ جیسے سورۃ بقرہ کی آیت ( یسألونک عن الشہر الحرام الخ ) ، میں ہے یہاں فرمایا کہ باوجود کفر کے پھر یہ بھی فعل ہے کہ اللہ کی راہ سے اور مسجد الحرام سے مسلمانوں کو روکتے ہیں جو درحقیقت اس کے اہل ہیں ۔ یہی ترتیب اس آیت کی ہے ( الذین امنوا وتطمئن قلوبہم بذکر اللہ الخ ) ، یعنی ان کی صفت یہ ہے کہ ان کے دل ذکر اللہ سے مطمئن ہوجاتے ہیں ۔ مسجدالحرام جو اللہ نے سب کے لئے یکساں طور پر باحرمت بنائی ہے مقیم اور مسافر کے حقوق میں کوئی کمی زیادتی نہیں رکھی ۔ اہل مکہ مسجدالحرام میں اترسکتے ہیں اور باہر والے بھی ۔ وہاں کی منزلوں میں وہاں کے باشندے اور بیرون ممالک کے لوگ سب ایک ہی حق رکھتے ہیں ۔ اس مسئلے میں امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ تو فرمانے لگے مکے کی حویلیاں ملکیت میں لائی جاسکتی ہیں ۔ ورثے میں بٹ سکتی ہیں اور کرائے پر بھی دی جاسکتی ہیں ۔ دلیل یہ دی کہ اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا کہ کل آپ اپنے ہی مکان میں اترے گے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ عقیل نے ہمارے لئے کون سی حویلی چھوڑی ہے ؟ پھر فرمایا کافر مسلمان کا ورث نہیں ہوتا اور نہ مسلمان کافر کا ۔ اور دلیل یہ ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت صفوان بن امیہ کامکان چار ہزار درہم میں خرید کر وہاں جیل خانہ بنایا تھا ۔ طاؤس اور عمرو بن دینار بھی اس مسئلے میں امام صاحب کے ہم نوا ہیں ۔ امام اسحاق بن راہویہ اس کے خلاف کہتے ہیں کہ ورثے میں بٹ نہیں سکتے نہ کرائے پر دئیے جاسکتے ہیں ۔ اسلاف میں سے ایک جماعت یہ کہتی ہے مجاہد اور عطاکا یہی مسلک ہے ۔ اس کی دلیل ابن ماجہ کی یہ حدیث ہے حضرت علقمہ بن فضلہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صدیقی اور فاروقی خلافت میں مکے کی حویلیاں آزاد اور بےملکیت استعمال کی جاتی رہیں اگر ضرورت ہوتی تو رہتے ورنہ اوروں کو بسنے کے لئے دے دیتے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں نہ تو مکہ شریف کے مکانوں کا بیچناجائز ہے نہ ان کا کرایہ لینا ۔ حضرت عطا بھی حرم میں کرایہ لینے کو منع کرتے تھے ۔ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ شریف کے گھروں کے دروازے رکھنے سے روکتے تھے کیونکہ صحن میں حاجی لوگ ٹھیرا کرتے تھے ۔ سب سے پہلے گھر کا دروازہ سہیل بن عمرو نے بنایا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی وقت انہیں حاضری کا حکم بھیجا انہوں نے آکر کہا مجھے معاف فرمایا جائے میں سوداگر شخص ہوں میں نے ضرورتاً یہ دروازے بنائے ہیں تاکہ میرے جانور میرے بس میں رہیں ۔ آپ نے فرمایا پھرخیر ہم اسے تیرے لئے جائز رکھتے ہیں ۔ اور روایت میں حکم فاروقی ان الفاظ میں مروی ہے کہ اہل مکہ اپنے مکانوں کے دروازے نہ رکھو تاکہ باہر کے لوگ جہاں چاہیں ٹھیریں ۔ عطا فرماتے ہیں شہری اور غیروطنی ان میں برابر ہیں جہاں چاہیں اتریں ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مکے شریف کے لوگ گھروں کا کرایہ کھانے والا اپنے پیٹ میں آگ بھرنے والا ہے ۔ امام احمد رحمتہ اللہ علیہ نے ان دونوں کے درمیان کا مسلک پسند فرمایا یعنی ملکیت کو اور ورثے کو تو جائز بتایا ہاں کرایہ کو ناجائز کہا ہے اس سے دلیلوں میں جمع ہوجاتی ہے ۔ واللہ اعلم بالحاد میں با زائد ہے جیسے تنبت بالدہن میں ۔ اور اعشی کے شعر ( ضمنت برزق عیالنا ارماحنا الخ ) ، میں یعنی ہمارے گھرانے کی روزیاں ہمارے نیزوں پر موقوف ہیں الخ ، اور شعروں کے اشعار میں با کا ایسے موقعوں پر زائد آنا مستعمل ہوا ہے لیکن اس سے بھی عمدہ بات یہ ہے کہ ہم کہیں کہ یہاں کا فعل بہم کے معنی کا متضمن ہے اس لئے با کے ساتھ متعدی ہوا ہے ۔ الحاد سے مراد کبیرہ شرمناک گناہ ہے ۔ بظلم سے مراد قصدا ہے تاویل کی روسے نہ ہونا ہے ۔ اور معنی شرک کے غیر اللہ کی عبادت کے بھی کئے گئے ہیں ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ حرم میں اللہ کے حرام کئے ہوئے کام کو حلال سمجھ لینا جیسے گناہ قتل بےجا ظلم وستم وغیرہ ۔ ایسے لوگ درد ناک عذابوں کے سزاوار ہیں ۔ حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ جو بھی یہاں برا کام کرے یہ حرم شریف کی خصوصیت ہے کہ غیروطنی لوگ جب کسی بدکام کا ارادہ بھی کرلیں تو بھی انہیں سزا ہوتی ہے چاہے اسے عملا نہ کریں ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اگر کوئی شخص عدن میں ہو اور حرم میں الحاد وظلم کا ارادہ رکھتا ہو تو بھی اللہ اسے دردناک عذاب کا مزہ چکھائے گا ۔ حضرت شعبہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس نے تو اس کو مرفوع بیان کیا تھا لیکن میں اسے مرفوع نہیں کرتا ۔ اس کی اور سند بھی ہے جو صحیح ہے اور موقوف ہونا بہ نسبت مرفوع ہونے کے زیادہ ٹھیک ہے عموما قول ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہی مروی ہے ، واللہ اعلم ۔ اور روایت میں ہے کسی پر برائی کے صرف سے برائی نہیں لکھی جاتی لیکن اگر دور دراز مثلا عدن میں بیٹھ کر بھی یہاں کے کسی شخص کے قتل کا ارادہ کرے تو اللہ اسے دردناک عذاب میں مبتلا کرے گا ۔ حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہاں یا نہیں کہنے پر یہاں قسمیں کھانا بھی الحاد میں داخل ہے ۔ سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ اپنے خادم کو یہاں گالی دینا بھی الحاد میں ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے امیر شخص کا یہاں آکر تجارت کرنا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مکے میں اناج کا بیچنا ۔ ابن حبیب بن ابو ثابت فرماتے ہیں گراں فروشی کے لئے اناج کو یہاں روک رکھنا ۔ ابن ابی حاتم میں بھی فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی منقول ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ آیت عبداللہ بن انیس کے بارے میں اتری ہے اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہاجر اور ایک انصار کے ساتھ بھیجا تھا ایک مرتبہ ہر ایک اپنے اپنے نسب نامے پر فخر کرنے لگا اس نے غصے میں آکر انصاری کو قتل کردیا اور مکے کی طرف بھاگ کھڑا ہوا اور دین اسلام چھوڑ بیٹھا ۔ تو مطلب یہ ہوگا کہ جو الحاد کے بعد مکہ کی پناہ لے ۔ ان آثار سے گویہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کام الحاد میں سے ہیں لیکن حقیقتا یہ ان سب سے زیادہ اہم بات ہے بلکہ اس سے بڑی چیز پر اس میں تنبیہہ ہے ۔ اسی لئے جب ہاتھی والوں نے بیت اللہ شریف کی خرابی کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر پرندوں کے غول کے غول بھیج دئے جنہوں نے ان پر کنکریاں پھینک کر ان کا بھس اڑا دیا اور وہ دوسروں کے لئے باعث عبرت بنا دئے گئے ۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک لشکر اس بیت اللہ کے غزوے کے ارادے سے آئے گا جب وہ بیدا میں پہنچیں گے تو سب کے سب مع اول آخر کے دھنسادئے جائیں گے ، الخ ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں آپ یہاں الحاد کرنے سے بچیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ یہاں ایک قریشی الحاد کرے گا اس کے گناہ اگر تمام جن وانس کے گناہوں سے تولے جائیں تو بھی بڑھ جائیں دیکھو خیال رکھو تم وہی نہ بن جانا ۔ ( مسند احمد ) اور روایت میں یہ بھی ہے کے نصیحت آپ نے انہیں حطیم میں بیٹھ کر کی تھی ۔
25۔ 1 روکنے والوں سے مراد کفار مکہ ہیں جنہوں نے 6 ہجری میں مسلمانوں کو مکہ جاکر عمرہ کرنے سے روک دیا تھا، اور مسلمانوں کو حدیبیہ سے واپس آنا پڑا تھا۔ 25۔ 2 اس میں اختلاف ہے کہ مسجد حرام سے مراد خاص مسجد (خانہ کعبہ) ہی ہے یا پورا حرم مکہ۔ کیونکہ قرآن میں بعض جگہ پورے حرم مکہ کے لیے بھی مسجد حرام کا لفظ بولا گیا ہے۔ ، یعنی جزء بول کر کل مراد لیا گیا ہے۔ جو شخص بھی کسی جگہ سے حج یا عمرے کے لئے مکہ جائے تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہے ٹھہر جائے، وہاں رہنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھروں میں ٹھہرانے سے نہ روکیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ مکانات اور زمینیں ملک خاص ہوسکتی ہیں اور ان میں مالکانہ تصرفات یعنی بیچنا، کرائے پر دینا جائز ہے۔ البتہ وہ مقامات جن کا تعلق مناسک حج سے ہے، مثلاً منی، مزدلفہ اور عرفات کے میدان یہ وقف عام ہیں۔ ان میں کسی کی ملکیت جائز نہیں۔ یہ مسئلہ قدیم فقہاء کے درمیان خاصہ مختلف فیہ رہا ہے۔ تاہم آجکل تقریباً تمام کے تمام علماء ہی ملکیت خاص کے قائل ہوگئے ہیں۔ اور یہ مسئلہ سرے سے اختلافی ہی نہیں رہا۔ مولانا مفتی محمد شفیع مرحوم نے بھی امام ابوحنیفہ اور فقہاء کا مسلک مختار اسی کو قرار پایا ہے۔ (ملاحظہ معارف القرآن جلد 6 صفحہ 253) 25۔ 3 الحاد کے لفظی معنی تو کج روی ہے ہیں یہاں یہ عام ہے، کفر و شرک سے لے کر ہر قسم کے گناہ کے لئے حتٰی کہ بعض عملا الفاظ قرآنی کے پیش نظر اس بات تک قائل ہیں کہ حرم میں اگر کسی گناہ کا ارادہ بھی کرلے گا، (چاہے اس پر عمل نہ کرسکے) تو وہ بھی اس وعید میں شامل ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ محض ارادے پر مؤاخذہ نہیں ہوگا، جیسا کہ دیگر آیات سے واضح ہے۔ تاہم ارادہ اگر عزم مصمم کی حد تک ہو تو پھر گرفت ہوسکتا ہے۔ (فتح القدیر) 25۔ 4 یہ بدلہ ہے ان لوگوں کا جو مذکورہ گناہوں کے مرتکب ہوں گے۔
[٣٠] کفار مکہ ہیں، جنہوں نے مسلمانوں پر یہ پابندیاں لگا رکھی تھیں کہ وہ نہ بیت اللہ میں نماز ادا کرسکتے ہیں۔ نہ طواف کرسکتے ہیں اور نہ حج وعمرہ کے ارکان بجا سکتے ہیں۔ ایک تو وہ خود مشرک اور کافر تھے۔ کعبہ کو بھی بتوں کی نجاستوں سے بھر رکھا تھا۔ پھر مزید یہ کہ توحید پرستوں پر سب راہیں مسدود کر رکھی تھیں۔ چودہ سو مسلمان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں عمرہ کرنے آئے۔ تو ان سے جنگ کی ٹھان لی۔ اور حدیبیہ کے مقام تک پہنچ کر ان سے عمرہ کرنے سے روک دیا گیا اور مسلمانوں پر یہ پابندیاں فتح مکہ تک بدستور بحال رہیں۔ فتح مکہ کے بعد جب کفر کا زور ٹوٹ گیا تو یہ پابندیاں از خود ہی ختم ہوگئیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق ہی ارشاد ہوا ہے کہ آخرت میں انھیں دردناک عذاب کا مزا چکھنا ہوگا۔- [٣١] یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے حقوق ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ اور باہر سے آنے والے لوگوں کو برابر کے حصہ دار قرار دیا ہے۔ اور آیا ان حقوق کا اور ان کی برابری کا تعلق صرف بیت الحرام یا کعبہ سے ہے یا پورے حرم مکہ سے۔- جہاں تک صرف بیت اللہ کا تعلق ہے اور اس میں نماز، طواف اور ارکان حج بجا لانے کا تعلق ہے تو اس میں اہل مکہ اور بیرونی حضرات کے اس حق عبادت میں کسی کو بھی اختلاف نہیں۔ اہل مکہ کو قطعاً یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ بیرونی حضرات کو حرم میں داخل ہونے، نمازیں ادا کرنے، طواف کرنے یا ارکان حج وعمرہ بجا لانے سے روکیں۔ کیونکہ اس حق میں اہل مکہ اور بیرونی حضرات سب برابر کے حصہ دار ہیں۔ اختلاف اس بات میں ہے کہ آیا اس حق کا تعلق پورے حرم مکہ سے بھی ہے یا نہیں ؟ یعنی کیا پورے حرم مکہ کے دروازے باہر سے آنے والے حضرات کے لئے کھلے رہنے چاہئیں کہ وہ جب چاہیں حرم مکہ کے اندر جس جگہ چاہیں آکر ڈیرے ڈال دیں اور رہیں سہیں اور ان سے کوئی کرایہ وغیرہ بھی وصول نہ کیا جائے ؟ اور اس اختلاف کی وجہیں دو ہیں۔ ایک یہ ارکان حج میں سے بیشتر کا تعلق صرف بیت اللہ سے نہیں بلکہ حرم مکہ سے ہے۔ صفا، مروہ، منیٰ ، مزدلفہ، عرفات، مشرالحرام سب بیت اللہ کی حدود سے باہر ہیں جبکہ حرم مکہ میں داخل ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود بعض مقامات پر مسجد الحرام کا ذکر کرکے اس سے حرم مکہ مراد لیا ہے۔ مثلاً ارشاد باری ہے :- (ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ يَكُنْ اَھْلُهٗ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۭ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ ١٩٦ۧ) 2 ۔ البقرة :196) یعنی یہ رعایت اس شخص کے لئے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں اور یہ تو ظاہر ہے کہ کوئی شخص مسجد الحرام کے اندر رہائش پذیر نہیں ہوتا۔ یہاں لازماً مسجد الحرام سے مراد حرم مکہ ہی ہوسکتی ہے۔- اسی طرح ایک دوسرے مقام پر فرمایا :- (وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِيْ جَعَلْنٰهُ للنَّاسِ سَوَاۗءَۨ الْعَاكِفُ فِيْهِ وَالْبَادِ 25 ) 22 ۔ الحج :25) اور مسجد حرام سے روکنا اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا ماہ حرام میں جنگ کرنے سے بڑا گناہ ہے - پھر اس سے اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا حرم میں زمین اور مکان کی خریدو فروخت اور اس سے آگے ان کی ملکیت و وراثت بھی جائز ہے یا نہیں۔ اور یہ بات تو احادیث سے ثابت ہے کہ اسلام سے پہلے مکہ کے مکانات اور زمینوں پر لوگوں کے حقوق ملکیت و وراثت اور حقوق بیع و اجارہ قائم تھے جو اسلام کے بعد بھی قائم رہے اور اسلام نے انھیں منسوخ نہیں کیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت کے بعد عقیل نے آپ کے مکان پر قبضہ کرلیا۔ پھر اسے بیچ بھی دیا۔ چناچہ حجہ ن الوادع کے دوران آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کہاں قیام فرمائیں گے تو آپ نے فرمایا : عقیل نے ہمارے لئے مکان چھوڑا کب ہے کہ اس میں رہیں (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب توریث دور مکہ و بیہا شرایہا)- نیز عمر کے زمانہ میں نافع بن عبدالحارث نے مکہ میں صفوان بن امیہ سے ایک گھر جیل خانہ بنانے کے لئے اس شراط پر خریدا کہ اگر حضرت عمر (رض) اس خریداری کو منظور کریں گے تو بیع پوری ہوگی۔ بصورت دیگر صفوان کو چار سو دینار کرایہ کے مل جائیں گے (بخاری۔ کتاب فی الخصویات۔ باب الربط والحبس فی الحرم) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حرم میں مکانوں کی خریدو فروخت بھی جائز ہے اور کرایہ لینا بھی۔- ان سب امور کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مکہ اور منیٰ میں مکانوں کا کرایہ نہ لینا مستحب ہے۔ تاہم اس کے جواز سے انکار مشکل ہے۔ اور امام بخاری کا اپنا موقف یہ ہے کہ حرم مکہ میں مکانوں کی خریدو فروخت اور وراثت وغیرہ سب کچھ جائز ہے جبکہ عنوان باب توریث دور مکہ و بیعہا و سزانہار سے معلوم ہو رہا ہے۔- [٢٣] یعنی جو شخص جان بوجھ کر مکہ میں بےدینی یا شرارت کی کوئی بات کرے گا یا اس کے احترام کو ملحوظ نہیں رکھے گا جو اس کو کسی دوسرے مقام پر یہی جرائم کرنے کی نسبت سے دوگنی سزا ملے گی۔ مکہ کی حرمت کے پیش نظر وہاں جو کام کرنے ممنوع ہیں وہ ہیں۔- حرم مکہ کو اللہ نے امن کی جگہ قرار دیا ہے۔ لہذا وہاں :- ١۔ نہ وہاں فوج کشی جائز ہے نہ بدال و قتال حتیٰ کہ بلاضرورت کوئی ہتھیار اٹھانا بھی ممنوع ہے۔ اگر کوئی مجرم بھی حرم میں پناہ لے لے تو جب تک حرم میں ہے۔ اس سے تعرض نہ کیا جائے گا۔- ٢۔ حرم مکہ کے جانور بھی محفوظ و مامون ہیں۔ نہ ان کا شکار کیا جاسکتا ہے اور نہ انھیں شکار کے لئے ہانکا جاسکتا ہے۔ البتہ موذی جانور کو حرم میں بھی مارنے کی اجازت ہے۔- ٣۔ حرم مکہ کے پودے درخت اور گھاس وغیرہ بھی محفوظ و مامون ہیں۔ التبہ بعض اقتصادی ضروریات کے پیش نظر۔۔ گھاس کاٹنے کی اجازت دی گئی۔- ٤۔ حرم مکہ سے کوئی گری پڑی چیز بھ ی اٹھانا روا نہیں۔ الایہ کہ اٹھانے والا مالک کو پہنچانتا ہو اور وہ اسے پہنچا دے۔- مندرجہ بالا امور میں پیشتر کام ایسے ہیں جو دوسرے مقامات پر کرنے جائز ہیں مگر حرم مکہ میں کعبہ کی حرمت کی وجہ سے کرنے جائز نہیں۔ پھر ایسے کام مثلاً الحاد، بےدینی اور شرارت کے کام جو دوسرے مقامات پر بھی ممنوع ہیں انھیں اگر حرم مکہ میں کیا جائے تو یہ جرم کتنا شدید ہوجائے گا ؟ پھر اس نسبت سے اس کی سزا میں بھی اضافہ ہوگا۔
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ : ابن عاشور (رض) نے فرمایا کہ یہ ” هُدُوْٓا اِلٰى صِرَاطِ الْحَمِيْدِ “ کے مقابلے میں ہے کہ اہل ایمان کو اللہ (اَلْحَمِیْد) کے راستے کی ہدایت عطا ہوئی، جب کہ کفار کا یہ حال ہے کہ وہ خود بھی راہ ہدایت اختیار کرنے کا انکار کرچکے ہیں اور لوگوں کو بھی اللہ کے راستے (اسلام) اور مسجد حرام سے مسلسل روک رہے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ مومنوں کے لیے جنت اور کافروں کے لیے عذاب الیم ہے۔ ” كَفَرُوْا “ ماضی ہے اور ” َيَصُدُّوْنَ “ مضارع، یعنی وہ کافر تو گزشتہ زمانے سے ہوچکے، البتہ ان کا لوگوں کو اسلام سے اور مسجد حرام سے روکنے کا عمل مسلسل جاری ہے۔ ماضی پر مضارع کے عطف کی ایک اور مثال اس آیت میں ہے : ( اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ ۭ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ ) [ الرعد : ٢٨ ] کفار مسلمانوں کو ہجرت سے پہلے بھی مسجد حرام میں آنے، نماز پڑھنے اور طواف کرنے سے روکتے تھے، (علق : ٩، ١٠) اور ہجرت کے بعد بھی جب وہ سن ٦ ہجری میں عمرہ کرنے کے لیے آئے تو کفار نے انھیں عمرہ کرنے سے منع کردیا۔ دیکھیے سورة فتح (٢٥، ٢٦) اور بقرہ (٢١٧) نتیجہ یہ کہ اللہ کے راستے سے روکنے کی وجہ سے کفار عذاب الیم کے حق دار ٹھہرے جب کہ مسلمان اللہ کے راستے (صِرَاطِ الْحَمِيْدِ ) پر چلنے کی وجہ سے جنت میں داخل ہوں گے۔ - وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِيْ جَعَلْنٰهُ للنَّاسِ ۔۔ : اگرچہ اللہ کے راستے سے روکنے میں مسجد حرام سے روکنا بھی شامل تھا مگر اسے علیحدہ ذکر فرمایا۔ مقصود مسجد حرام کی عظمت کو نمایاں کرنا ہے اور اس مناسبت سے اس کی تعمیر، حج کی ابتدا، طواف اور دوسرے چند احکام، پھر قربانی، اس کی حکمت اور اہمیت کی طرف منتقل ہونا ہے۔- ” اَلعَاکِفُ “ کا لفظی معنی ” اپنے آپ کو روک کر رکھنے والا “ ہے اور مراد مکہ کا باشندہ ہے، کیونکہ اس کے مقابلے میں ” الْبَاد “ آ رہا ہے، یعنی ” بادیہ “ (باہر) سے آنے والا۔ کفار کے ظلم کا بیان ہے کہ وہ اس مسجد سے لوگوں کو روکتے ہیں جس میں عبادت، طواف، عمرہ اور حج کے لیے آنا سب لوگوں کا برابر حق ہے، خواہ مکہ کے رہائشی ہوں یا باہر سے آنے والے۔ جبیر بن مطعم (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یَا بَنِيْ عَبْدِ مَنَافٍ لَا تَمْنَعُوْا أَحَدًا طَافَ بِھٰذَا الْبَیْتِ وَصَلَّی أَیَّۃَ سَاعَۃٍ شَاءَ مِنْ لَیْلٍ أَوْ نَھَارٍ ) [ ترمذي، الحج، باب ما جاء في الصلاۃ بعد العصر۔۔ : ٨٦٨ ] ” اے بنی عبد مناف کسی شخص کو مت روکو جو رات یا دن کی کسی گھڑی میں اس گھر کا طواف کرنا چاہے یا (اس میں) نماز پڑھنا چاہے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ مسجد حرام میں نماز کے ممنوعہ اوقات میں بھی نماز اور طواف جائز ہے۔- 3 تیسیر القرآن میں ہے کہ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے حقوق ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ اور باہر سے آنے والے لوگوں کو برابر کے حصے دار قرار دیا ہے اور آیا ان حقوق کا اور ان کی برابری کا تعلق صرف بیت الحرام یا کعبہ سے ہے یا پورے حرم مکہ سے ؟ جہاں تک صرف بیت اللہ کا تعلق ہے اور اس میں نماز، طواف اور ارکان حج بجا لانے کا تعلق ہے تو اس میں اہل مکہ اور بیرونی حضرات کے اس حق عبادت میں کسی کو بھی اختلاف نہیں۔ اہل مکہ کو قطعاً یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ بیرونی حضرات کو حرم میں داخل ہونے، نمازیں ادا کرنے، طواف کرنے یا ارکان حج و عمرہ بجا لانے سے روکیں، کیونکہ اس حق میں اہل مکہ اور بیرونی حضرات سب برابر کے حصے دار ہیں۔ اختلاف اس بات میں ہے کہ آیا اس حق کا تعلق پورے حرم مکہ سے بھی ہے یا نہیں ؟ یعنی کیا پورے حرم مکہ کے دروازے باہر سے آنے والے حضرات کے لیے کھلے رہنے چاہییں کہ وہ جب چاہیں حرم مکہ کے اندر موجود جس جگہ چاہیں آ کر ڈیرے ڈال دیں اور رہیں سہیں اور ان سے کوئی کرایہ وغیرہ بھی وصول نہ کیا جائے ؟ اس اختلاف کی دو وجہیں ہیں، ایک یہ کہ ارکان حج میں سے بیشتر کا تعلق صرف بیت اللہ سے نہیں بلکہ حرم مکہ سے ہے۔ صفا، مروہ، منیٰ ، مزدلفہ، مشعر حرام سب بیت اللہ کی حدود سے باہر ہیں، جب کہ حرم مکہ میں داخل ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود بعض مقامات پر مسجد حرام کا ذکر کرکے اس سے حرم مکہ مراد لیا ہے، مثلاً ارشاد باری ہے : (ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ يَكُنْ اَھْلُهٗ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ) [ البقرۃ : ١٩٦] ” یہ (رعایت) اس شخص کے لیے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں۔ “ اور یہ تو ظاہر ہے کہ کوئی شخص مسجد حرام کے اندر رہائش پذیر نہیں ہوتا، یہاں لازماً مسجد حرام سے مراد حرم مکہ ہی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے مقام پر فرمایا : وَصَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَكُفْرٌۢ بِهٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۤ وَ اِخْرَاجُ اَھْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰه) [ البقرۃ : ٢١٧ ] ” اور اللہ کی راہ سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور اس کے رہنے والوں کو اس سے نکالنا اللہ کے نزدیک (ماہ حرام میں جنگ کرنے سے) زیادہ بڑا ہے۔ “- پھر اس سے اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا حرم میں زمین اور مکان کی خریدو فروخت اور اس سے آگے ان کی ملکیت و وراثت بھی جائز ہے یا نہیں ؟ تو یہ بات تو صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ اسلام سے پہلے مکہ کے مکانات اور زمینوں پر لوگوں کے ملکیت و وراثت اور بیچنے اور کرایہ پر دینے کے حقوق قائم تھے جو اسلام کے بعد بھی قائم رہے، اسلام نے انھیں منسوخ نہیں کیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت کے بعد عقیل نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکان پر قبضہ کرلیا، پھر اسے بیچ بھی دیا، چناچہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کہاں قیام فرمائیں گے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَھَلْ تَرَکَ عَقِیْلٌ مِنْ رِبَاعٍ أَوْ دُوْرٍ ) [ بخاري، الحج، باب توریث دور مکۃ و بیعہا و شراۂ ا۔۔ : ١٥٨٨ ] ” کیا عقیل نے ہمارا کوئی مکان چھوڑا بھی ہے (جس میں ہم رہیں) ؟ “ نیز عمر (رض) کے زمانے میں نافع بن عبد الحارث نے مکہ میں صفوان بن امیہ سے ایک گھر جیل خانہ بنانے کے لیے اس شرط پر خریدا کہ اگر عمر (رض) اس خریداری کو منظور کریں گے تو بیع پوری ہوگی، بصورت دیگر صفوان کو چار سو دینار مل جائیں گے۔ [ بخاري، في الخصومات، باب الربط والحبس في الحرم، قبل ح : ٢٤٢٣ ] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حرم میں مکانوں کی خریدو فروخت جائز ہے (وہ چار سو دینار عمر (رض) کا حکم آنے تک کے عرصے کا کرایہ شمار ہوں گے یا اتنی دیر تک فروخت سے روک رکھنے کا زر تلافی) ۔ کچھ حضرات نے بخاری کی صحیح روایات کے مقابلے میں ضعیف روایات کے ساتھ مکہ کے مکانات کی خریدو فروخت اور انھیں کرایہ پر دینے کو حرام ٹھہرایا ہے، ان روایات میں سے ایک بھی صحیح سند کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں، کوئی منقطع ہے، کوئی مرسل اور کسی میں کوئی راوی ضعیف ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ کسی کے قول سے دین کا مسئلہ ثابت نہیں ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مکہ کے مکانوں کا کرایہ نہ لینا مستحب ہے، تاہم اس کے جواز سے انکار مشکل ہے اور امام بخاری (رض) کا اپنا موقف یہ ہے کہ حرم مکہ میں مکانوں کی خریدو فروخت اور وراثت وغیرہ جائز ہے، جیسا کہ عنوان ” بَابُ تَوْرِیْثِ دُوْرٍ مَکَّۃَ وَ بَیْعِھَا وَ شَرَاءِھَا “ (اس بات کا بیان کہ مکہ میں موجود مکانات میراث ہوسکتے ہیں اور ان کی خریدو فروخت جائز ہے) سے معلوم ہو رہا ہے۔ ۭ وَمَنْ يُّرِدْ فِيْهِ بِاِلْحَادٍۢ ۔۔ : ” اِلْحَادٌ“ سیدھے راستے سے ہٹ جانا۔ ظلم کا لفظ عام ہے جس میں سب سے پہلے کفر و شرک آتا ہے، پھر کوئی بھی کام کرنا جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے، یا کوئی کام ترک کرنا جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، اس میں بدعت بھی شامل ہے اور گناہ کا کوئی اور کام بھی، مثلاً حرم کی حرمت کا خیال نہ رکھنا، یعنی حرم کے جانوروں کو ذبح کرنا، اس کے درختوں کو کاٹنا، کسی کی گم شدہ چیز اٹھانا، الا یہ کہ اسے استعمال نہ کرے اور اس کا اعلان ہمیشہ کرتا رہے، اس میں ذخیرہ اندوزی کرنا۔ غرض دوسری جگہوں میں ٹیڑھی راہ اختیار کرنا عذاب الیم کا باعث ہے مگر حرم مکہ میں اس کا ارادہ بھی عذاب الیم کا باعث ہے۔
خلاصہ تفسیر - بیشک جو لوگ کافر ہوئے اور (مسلمانوں کو) اللہ کے راستہ سے اور مسجد حرام سے روکتے ہیں (تاکہ مسلمان عمرہ ادا نہ کرسکیں حالانکہ حرم کی حیثیت یہ ہے کہ اس میں کسی کی خصوصیت نہیں بلکہ) اس کو ہم نے تمام آدمیوں کے واسطے مقرر کیا ہے کہ اس میں سب برابر ہیں اس (حرم کے داخل حدود) میں رہنے والا بھی (یعنی جو لوگ وہاں مقیم ہیں) اور باہر سے آنے والا (مسافر) بھی اور جو کوئی اس میں (یعنی حرم شریف میں) ظلم کے ساتھ کوئی بےدینی کا کام کرنے کا ارادہ کرے گا تو ہم اس شخص کو عذاب درد ناک چکھا دیں گے۔- معارف و مسائل - پچھلی آیت میں مومنین اور کفار کے دو فریق کی باہمی مخاصمت کا ذکر تھا اسی مخاصمت کی ایک خاص صورت اس آیت میں بیان کی گئی ہے کہ ان میں بعض ایسے کفار بھی ہیں جو خود گمراہی پر جمے ہوئے ہیں دوسروں کو بھی اللہ کے راستہ پر چلنے سے روکتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے صحابہ کو جبکہ وہ عمرہ کا احرام باندھ کر حرم شریف میں داخل ہونا چاہتے تھے مسجد حرام میں داخل ہونے سے روک دیا حالانکہ مسجد حرام اور حرم شریف کا وہ حصہ جس سے لوگوں کی عبادت عمرہ و حج کا تعلق ہے ان کی ملک میں داخل نہیں تھا جس کی بنا پر ان کو مزاحمت اور مداخلت کا کوئی حق پہنچتا، بلکہ وہ سب لوگوں کے لئے یکساں ہے جہاں باشندگان حرم اور باہر کے مسافر اور شہری اور پردیسی سب برابر ہیں۔ آگے ان کی سزا کا ذکر ہے کہ جو شخص مسجد حرام (یعنی پورے حرم شریف) میں کوئی بےدینی کا کام کرے گا جیسے لوگوں کو حرم میں داخل ہونے سے روکنا یا دوسرا کوئی خلاف دین کام کرنا، اس کو عذاب درد ناک چکھایا جائے گا خصوصاً جبکہ اس بےدینی کے کام کے ساتھ ظلم یعنی شرک بھی ملا ہوا ہو جیسا کہ مشرکین مکہ کا حال تھا جنہوں نے مسلمانوں کو حرم میں داخل ہونے سے روکا کہ ان کا یہ عمل بھی خلاف دین ناروا تھا پھر اس کے ساتھ وہ کفر و شرک میں بھی مبتلا تھے۔ اور اگرچہ ہر خلاف دین کام خصوصاً شرک و کفر ہر جگہ ہر زمانے میں حرام اور انتہائی جرم و گناہ اور موجب عذاب ہے مگر جو ایسے کام حرم محترم کے اندر کرے اس کا جرم دوگنا ہوجاتا ہے اس لئے یہاں حرم کی تخصیص کر کے بیان کیا گیا ہے۔- وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ، سبیل اللہ سے مراد اسلام ہے معنے آیت کے یہ ہیں کہ یہ لوگ خود تو اسلام سے دور ہیں ہی دوسروں کو بھی اسلام سے روکتے ہیں۔- وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، یہ ان کا دوسرا گناہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔ مسجد حرام اصل میں اس مسجد کا نام ہے جو بیت اللہ کے گرد بنائی ہوئی ہے اور یہ حرم مکہ کا ایک اہم جزو ہے لیکن بعض مرتبہ مسجد حرام بول کر پورا حرم مکہ بھی مراد لیا جاتا ہے جیسے خود اسی واقعہ یعنی مسلمانوں کو عمرہ کے لئے حرم میں داخل ہونے سے روکنے کی جو صورت پیش آئی وہ یہی تھی کہ کفار مکہ نے آپ کو صرف مسجد میں جانے سے نہیں بلکہ حدود حرم مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا جو احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور قرآن کریم نے اس واقعہ میں مسجد حرام کا لفظ بمعنے مطلق حرم استعمال فرمایا ہے وَصَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۔- تفسیر در منثور میں اس جگہ مسجد حرام کی تفسیر میں پورا حرم مراد ہونا حضرت ابن عباس سے روایت ہے۔- حرم مکہ میں سب مسلمانوں کے مساوی حق کا مطلب :- اتنی بات پر تمام امت اور ائمہ فقہاء کا اتفاق ہے کہ مسجد حرام اور حرم شریف مکہ کے وہ تمام حصے جن سے افعال حج کا تعلق ہے جیسے صفا مروہ کے درمیان کا میدان جس میں سعی ہوتی ہے اور منیٰ کا پورا میدان اسی طرح عرفات کا پورا میدان اور مزدلفہ کا پورا میدان، یہ سب زمینیں سب دنیا کے مسلمانوں کے لئے وقف عام ہیں۔ کسی شخص کی ذاتی ملکیت ان پر نہ کبھی ہوئی ہے نہ ہو سکتی ہے۔ ان کے علاوہ مکہ مکرمہ کے عام مکانات اور باقی حرم کی زمینیں ان کے متعلق بھی بعض ائمہ فقہاء کا یہی قول ہے کہ وہ بھی وقف عام ہیں۔ ان کا فروخت کرنا یا کرایہ دینا حرام ہے ہر مسلمان ہر جگہ ٹھہر سکتا ہے مگر دوسرے فقہاء کا مختار مسلک یہ ہے کہ مکہ کے مکانات ملک خاص ہو سکتے ہیں ان کی خریدو فروخت اور ان کو کرایہ پر دینا جائز ہے۔ حضرت فاروق اعظم سے ثابت ہے کہ انہوں نے صفوان بن امیہ کا مکان مکہ مکرمہ میں خرید کر اس کو مجرموں کے لئے قید خانہ بنایا تھا۔ امام اعظم ابوحنیفہ سے اس میں دو روایتیں منقول ہیں ایک پہلے قول کے مطابق دوسری دوسرے قول کے مطابق اور فتویٰ دوسرے قول پر ہے۔ کذا فی روح المعانی۔ یہ بحث کتب فقہ میں مفصل مذکور ہے مگر اس آیت میں حرم کے جن حصوں سے روکنے کا ذکر ہے وہ حصے بہرحال سب کے نزدیک وقف عام ہیں ان سے روکنا حرام ہے آیت مذکورہ سے اسی کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔- وَمَنْ يُّرِدْ فِيْهِ بِاِلْحَادٍۢ بِظُلْمٍ ، الحاد کے معنے لغت میں سیدھے راستے سے ہٹ جانے کے ہیں۔ اس جگہ الحاد سے مراد مجاہد و قتادہ کے نزدیک کفر و شرک ہے مگر دوسرے مفسرین نے اس کو اپنے عام معنے میں قرار دیا ہے جس میں ہر گناہ اور اللہ و رسول کی نافرمانی داخل ہے یہاں تک کہ اپنے خادم کو گالی دینا برا کہنا بھی۔ اور اسی معنے کے لحاظ سے حضرت عطاء نے فرمایا کہ حرم میں الحاد سے مراد اس میں بغیر احرام کے داخل ہوجانا یا ممنوعات حرم میں سے کسی ممنوع چیز کا ارتکاب کرنا ہے جیسے حرم کا شکار مارنا یا اس کا درخت کاٹنا وغیرہ۔ اور جو چیزیں شریعت میں ممنوع ناجائز ہیں وہ سبھی جگہ گناہ اور موجب عذاب ہیں حرم کی تخصیص اس بناء پر کی گئی کہ جس طرح حرم مکہ میں نیکی کا ثواب بہت بڑھ جاتا ہے اسی طرح گناہ کا عذاب بھی بہت بڑھ جاتا ہے (قالہ مجاہد) اور حضرت عبداللہ بن مسعود سے اس کی ایک تفسیر یہ بھی منقول ہے کہ حرم کے علاوہ دوسری جگہوں میں محض گناہ کا ارادہ کرنے سے گناہ نہیں لکھا جاتا جب تک عمل نہ کرے اور حرم میں صرف ارادہ پختہ کرلینے پر بھی گناہ لکھا جاتا ہے۔ قرطبی نے یہی تفسیر ابن عمر سے بھی نقل کی ہے اور اس تفسیر کو صحیح کہا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر حج کے لئے جاتے تو دو خیمے لگاتے تھے ایک حرم کے اندر دوسرا باہر۔ حرم میں اگر اپنے اہل و عیال یا خدام و متعلقین میں کسی کو کسی بات پر سرزنش اور عتاب کرنا ہوتا تو حرم سے باہر والے خیمے میں جا کر یہ کام کرتے تھے۔ لوگوں نے مصلحت دریافت کی تو فرمایا ہم سے یہ بیان کیا جاتا تھا کہ انسان جو عتاب و ناراضی کے وقت کلا واللہ یا بلی واللہ کے الفاظ بولتا ہے یہ بھی الحاد فی الحرم میں داخل ہے۔ (مظہری)
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِيْ جَعَلْنٰہُ لِلنَّاسِ سَوَاۗءَۨ الْعَاكِفُ فِيْہِ وَالْبَادِ ٠ۭ وَمَنْ يُّرِدْ فِيْہِ بِـاِلْحَادٍؚبِظُلْمٍ نُّذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ ٢٥ۧ- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- صدد - الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً- ، [ النساء 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] - ( ص د د ) الصدود والصد - ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - سواء - ومکان سُوىً ، وسَوَاءٌ: وسط . ويقال : سَوَاءٌ ، وسِوىً ، وسُوىً أي : يستوي طرفاه، ويستعمل ذلک وصفا وظرفا، وأصل ذلک مصدر، وقال :- فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات 55] ، وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص 22] ، فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] ، أي : عدل من الحکم، وکذا قوله : إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران 64] ، وقوله : سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة 6] ،- سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون 6] ، - ( س و ی ) المسا واۃ - مکان سوی وسواء کے معنی وسط کے ہیں اور سواء وسوی وسوی اسے کہا جاتا ہے جس کی نسبت دونوں طرف مساوی ہوں اور یہ یعنی سواء وصف بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور ظرف بھی لیکن اصل میں یہ مصدر ہے قرآن میں ہے ۔ فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات 55] تو اس کو ) وسط دوزخ میں ۔ وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص 22] تو وہ ) سیدھے راستے سے ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] تو ان کا عہد ) انہیں کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو ۔ تو یہاں علی سواء سے عاولا نہ حکم مراد ہے جیسے فرمایا : ۔ إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران 64] اے اہل کتاب ) جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں ( تسلیم کی گئی ) ہے اس کی طرف آؤ ۔ اور آیات : ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة 6] انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون 6] تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگوں ان کے حق میں برابر ہے ۔- عكف - العُكُوفُ : الإقبال علی الشیء وملازمته علی سبیل التّعظیم له، والاعْتِكَافُ في الشّرع : هو الاحتباس في المسجد علی سبیل القربة ويقال : عَكَفْتُهُ علی كذا، أي : حبسته عليه، لذلکقال : سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج 25] ، وَالْعاكِفِينَ [ البقرة 125] ، فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء 71] ، يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف 138] ، ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه 97] ، وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة 187] ، وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح 25] ، أي : محبوسا ممنوعا .- ( ع ک ف ) العکوف - کے معنی ہیں تعظیما کسی چیز پر متوجہ ہونا اور اس سئ وابستہ رہنا ۔ اور اصطلاح شریعت میا الاغتکاف کے معنی ہیں عبادت کی نیت سے مسجد میں رہنا اور اس سے باہر نہ نکلنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة 187] جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو ۔ سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج 25] خواہ وہ دہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے ۔ وَالْعاكِفِينَ [ البقرة 125] اور اعتکاف کرنے والوں ۔ فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء 71] اور اس کی پوجا پر قائم رہیں۔ عکفتہ علٰی کذا کسی چیز پر روک رکھنا يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف 138] یہ اپنے بتوں کی عبادت کے لئے بیٹھے رہتے تھے ۔ ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه 97] جس معبود کی پوجا پر تو قائم اور معتکف تھا ۔ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح 25] اور قربانی کے جانوروں کو بھی روک دئے گئے ہیں ۔- بادي - ومَبْدَأُ الشیء : هو الذي منه يتركب، أو منه يكون، فالحروف مبدأ الکلام، والخشب مبدأ الباب والسریر، والنواة مبدأ النخل، يقال للسید الذي يبدأ به إذا عدّ السادات : بَدْءٌ.- والله هو المُبْدِئُ المعید «1» ، أي : هو السبب في المبدأ والنهاية، ويقال : رجع عوده علی بدئه، وفعل ذلک عائدا وبادئا، ومعیدا ومبدئا، وأَبْدَأْتُ من أرض کذا، أي : ابتدأت منها بالخروج، وقوله تعالی: بَادِئ الرأْي [هود 27] «2» أي : ما يبدأ من الرأي، وهو الرأي الفطیر، وقرئ : بادِيَ بغیر همزة، أي : الذي يظهر من الرأي ولم يروّ فيه،- ( ب د ء ) بدء ات - مبدء الشئیء ۔ جس سے کوئی چیز مرکب ہو یا اس سے بنے مثلا حروف تہجی کو مید کلام کہا جاتا اور لکڑی دروازے یا تخت کا مبدء ہے اسی طرح نواۃ ( گٹھلی ) کھجور کا مبد کہلاتی ہے ۔ یداء ( پہلا سرداروں کا شمار کیا جائے تو اس سے ابتداء ہو اور ۔ اللہ تعالیٰ کی صفت میں المبدیء والمعید آیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ہر چیز کی ابتداء اور انتہا کا سبب اصلی ذات باری تعالیٰ ہی ۔ ہے ۔ رجع عودۃ علی یدءہ ۔ یعنی جس راستہ پر آیا اسی پر واپس لوٹا ۔ فعل ذالک عائدا وبادءا او مبدآ ومعیدا ۔ سے سب سے پہلے کیا ابدات من ارض کذا فی میں نے فلاں سر زمین سے سفر شروع کیا اور آیت کریمہ : بَادِيَ الرَّأْيِ ( سورة هود 27) رائے فطری یعنی وہ رائے جو ابتدا سے قائم کرلی جائے ۔ ایک قراءت میں بادی الرای بدوں ہمزہ کے ہے اس صورت میں اس کے معنی ظاہری رائے کے ہوں گے جس میں غور وفکر سے کام نہ لیا گیا ہو ۔ - لحد - اللَّحْدُ : حفرة مائلة عن الوسط، وقد لَحَدَ القبرَ : حفره، کذلک وأَلْحَدَهُ ، وقد لَحَدْتُ الميّت وأَلْحَدْتُهُ : جعلته في اللّحد، ويسمّى اللَّحْدُ مُلْحَداً ، وذلک اسم موضع من : ألحدته، ولَحَدَ بلسانه إلى كذا : مال . قال تعالی: لِسانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ [ النحل 103] من : لحد، وقرئ : يلحدون من : ألحد، وأَلْحَدَ فلان : مال عن الحقّ ، والْإِلْحَادُ ضربان : إلحاد إلى الشّرک بالله، وإلحاد إلى الشّرک بالأسباب .- فالأوّل ينافي الإيمان ويبطله .- والثاني : يوهن عراه ولا يبطله . ومن هذا النحو قوله : وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الحج 25] ، وقوله : وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمائِهِ [ الأعراف 180] - والْإِلْحَادُ في أسمائه علی وجهين :- أحدهما أن يوصف بما لا يصحّ وصفه به . والثاني : أن يتأوّل أوصافه علی ما لا يليق به، والْتَحدَ إلى كذا : مال إليه . قال تعالی: وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَداً [ الكهف 27] أي : التجاء، أو موضع التجاء . وأَلْحَدَ السّهم الهدف : مال في أحد جانبيه .- ( ل ح د ) اللحد ۔- اس گڑھے یا شگاف کو کہتے ہیں جو قبر کی ایک جانب میں بنانا کے ہیں ۔ لحد المیت والحدہ میت کو لحد میں دفن کرنا اور لحد کو ملحد بھی کہا جاتا ہے جو کہ الحد تہ ( افعال ) اسے اسم ظرف ہے ۔ لحد بلسانہ الیٰ کذا زبان سے کسی کی طرف جھکنے یعنی غلط بات کہنا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لِسانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ [ النحل 103] مگر جس کی طرف تعلیم کی نسبت کرتے ہیں ۔ میں یلحدون لحد سے ہے اور ایک قرات میں یلحدون ( الحد سے ) ہے ۔ کہا جاتا ہے الحد فلان ۔ فلاں حق سے پھر گیا ۔ الحاد دو قسم پر ہے ۔ ایک شرک باللہ کی طرف مائل ہونا دوم شرک بالا سباب کی طرف مائل ہونا ۔ اول قسم کا الحا و ایمان کے منافی ہے اور انسان کے ایمان و عقیدہ کو باطل کردیتا ہے ۔ اور دوسری قسم کا الحاد ایمان کو تو باطل نہیں کرتا لیکن اس کے عروۃ ( حلقہ ) کو کمزور ضرور کردیتا ہے چناچہ آیات : ۔ وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الحج 25] اور جو اس میں شرارت سے کجروی وکفر کرنا چاہے اس کو ہم درد دینے والے عذاب کا مزہ چکھائیں گے ۔ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمائِهِ [ الأعراف 180] ، جو لوگ اس کے ناموں کے وصف میں کجروی اختیار کرتے ہیں ۔ میں یہی دوسری قسم کا الحاد مراد ہے اور الحاد فی اسمآ ئہ یعنی صفات خدا وندی میں الحاد کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ باری تعالیٰ کو ان اوٖاف کے ساتھ متصف ماننا جو شان الو ہیت کے منافی ہوں دوم یہ کہ صفات الہیٰ کی ایسی تاویل کرنا جو اس کی شان کے ذیبا نہ ہو ۔ التحد فلان الٰی کذا ۔ وہ راستہ سے ہٹ کر ایک جانب مائل ہوگیا اور آیت کریمہ : وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَداً [ الكهف 27] اور اس کے سوا تم کہیں پناہ کی جگہ بھی نہیں پاؤ گے میں ملتحد ا مصدر میمی بمعنی التحاد بھی ہوسکتا ہے اور اسم ظرف بھی اور اس کے معنی پناہ گاہ کے ہیں التحد السھم عن الھدف تیر نشانے سے ایک جانب مائل ہوگیا یعنی ہٹ گیا ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - ذوق - الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له :- الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] - ( ذ و ق ) الذاق ( ن )- کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔- ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )
مکہ مکرمہ کی اراضی کا حکم اور اس کے مکانات کو اجارے پر دینے کا بیان - قول باری ہے (والمسجد الحرام الذی جعلنا لا للناس سواء ن العاکف فیہ والباد اور اس مسجد حرام کی زیارت میں بھی مانع ہیں جسے ہم نے سب لوگوں کے لئے بنایا ہے جسمیں مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر ہیں) اسماعیل بن مہاجر نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (مکۃ مناخ لاتباع ربا عھا ولد تو اجر بیو تھا مکہ مکرمہ اونٹوں کے بٹھانے کی جگہ ہے یعنی لوگوں کے قیام کا مقام ہے اس کے قطعات اراضی نہ فروخت کئے جائیں اور نہ ہی اس کے مکانات کو اجاڑے پر دیا جائے گا یعنی کرائے پر چڑھایا جائے گا) سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ” صحابہ کرام حرم کے پورے علاقے کو مسجد سمجھتے تھے جس میں مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والے لوگوں کے حقوق برابر تھے۔ یزید بن ابو زیاد نے عبدالرحمٰن بن سابط سے قول باری (سواء بن العاکف فیہ والباد) کی تفسیر میں ان کا قول نقل کیا ہے کہ حج اور عمرے کی نیت سے آنے والوں کے حقوق برابر ہیں کہ وہ وہاں بنے ہوئے مکانات میں سے جہاں بھی رہنا چاہئیں رہ سکتے ہیں البتہ ان مکانات میں آباد مکینوں کو باہر نہیں نکال سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حضرت عبداللہ بن عباس نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ (العاکف فیہ) سے مقامی باشندے اور (مالباد) سے باہر سے آنے والے لوگ مراد ہیں۔ مکانات میں رہائشی حقوق کے لحاظ سے دونوں یکساں ہیں اس لئے مقامی باشندوں کے لئے باہر سے آنے والوں سے مکانات کے کرائے وصول کرنا مناسب نہیں ہے۔- جعفر بن عون اعمش سے اور انہوں نے ابراہیم نخعی سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (مکۃ حرمھا اللہ لایحل بیع رباعھا ولا اجارۃ بیو تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرمت والی جگہ قرار دیا ہے، یہاں کی اراضی کو فروخت کرنا اور یہاں کے مکانات کو اجارہ یعنی کرایہ پر دینا حلال نہیں ہے) ابو معاویہ نے اعمش سے انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ عیسیٰ بن یونس نے عمر بن سعید بن ابی حسین سے، انہوں نے عثمان بن ابی سلیمان سے اور انہوں نے علقمہ بن نضلہ سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کے زمانوں میں مکہ کی اراضی کو سوائٹ (چھوڑی ہوئی زمین) کہا جاتا تھا جو شخص محتاج ہوتا وہ بھی وہاں سکونت پذیر ہوجاتا اور جو غنی ہوتا وہ بھی نہ ہاں ٹھہر جاتا ۔ - سفیان ثوری نے منصور سے، انہوں نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر نے ایک دفعہ اعلان کیا۔” مکہ والو تم اپنے مکانات کے دروازے نہ لگوائو تاکہ باہر سے آنے والے لوگ جہاں چاہیں اپنے ڈیرے ڈال لیں۔ “ عبید اللہ نے نافع سے، انہوں نے حضرت ابن عمر سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر نے اہل مکہ کو حاجیوں پر اپنے دروازے بند کر دنیے سے منع فرما دیا تھا۔ ابن ابی نجیع نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا ۔ ” جو شخص مکہ مکرمہ کے مکانات کا کرایہ کھاتا ہے وہ آگ سے اپنا پیٹ بھرتا ہے۔ “ عثمان بن الاسود نے عطا بن ابی رباح سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” مکہ مکرمہ کے مکانات کو فروخت کرنا اور انہیں کرائے پر چڑھانا مکروہ ہے۔ “ لیث بن سعد نے قاسم سے روایت کی ہے کہ جو شخص مکہ مکرمہ کے مکانات کا کرایہ کھاتا وہ گویا آگ کھاتا ہے۔ “ معمرنے لیث سے، انہوں نے عطاء، طائوس اور مجاہد سے روایت کی ہے کہ یہ سب حضرات مکہ مکرمہ کے کسی قطعہ اراضی کو فروخت کرنا مکروہ سمجھتے تھے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سلسلے میں جو روایات مقنول ہیں ۔ ان کا ہم نے ذکر کردیا نیز صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مکہ مکرمہ کے مکانات اور قطعات اراضی کی فروخت کے سلسلے میں جو کراہت منقول ہے وہ بھی ہم نے بیان کردیا نیز یہ کہ مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر ہیں۔ یہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ان حضرات نے قول باری (والمسجد الحرام) کی تفسیر میں سارا حرم مراد لیا ہے۔ کچھ لوگوں سے مکہ مکرمہ کے مکانات کی بیع اور انہیں کرائے پر دینے کی اباحت منقول ہے۔ ابن جریج نے ہشام بن حجیر سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” مکہ مکرمہ میں میرا ایک مکان تھا جسے میں کرائے پردے دیا کرتا تھا۔ میں نے طائوس سے اس بارے میں مسئلہ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس کا کرایہ اپنے استعمال میں لے آئو۔ “ ابن ابی نجیع نے مجاہد اور عطاء سے قول باری (سواء العاکف فیہ والباد) کی تفسیر میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” مکہ مکرمہ کی تعظیم و تحریم میں دونوں یکساں ہیں۔ “ عمرو بن دینار نے عبدالرحمن بن فروخ سے رای ت کی ہے کہ نافع بن عبدالحارث نے چار ہزار درہم پر صفوان بن امیہ سے اس شرط پر حضرت عمر کا بنایا ہوا دارالسجن (قید خانہ) خریدا تھا کہ اگر حضرت عمر راضی ہوگئے تو بیع ہوجائے گی ورنہ چار ہزار صفوان کے ہوں گے۔ عبدالرحمٰن نے معمر سے روایت کرتے ہوئے یہ اضافہ کیا کہ حضرت عمر نے وہ چار ہزار کی رقم لے لی تھی۔- بقول امام ابوحنیفہ مکہ کے مکانات فروخت ہوسکتے ہیں اراضی نہیں - امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ مکہ مکرمہ کے مکانات کی عمارتوں کو فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن میں اراضی کی فروخت کو مکروہ سمجھتا ہوں۔ سلیمان نے امام محمد سے اور انہوں نے امام ابوحنیفہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا۔ میں موسم حج میں مکہ مکرمہ کے مکانات اجارہ پر دینے کو مکروہ سمجھتا ہوں۔ اسی طرح اس شخص سے کرایہ لینا مکروہ سمجھتا ہوں جو وہاں آ کر قیام کرے اور پھر واپس چلا جانے، لیکن ایسا شخص جو وہاں آ کر مقیم ہوجائے اور ایسا شخص جو وہاں آ کر پناہ لے لے ان سے کرایہ وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔ “ حسن بن زیاد نے امام ابوحنیفہ سے روایت کی ہے کہ مکہ مکرمہ کے مکانات کو فروخت کرنا جائز ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ سلف میں سے ان حضرات نے مسجد الحرام سے حرم کا پورا علقاہ صرف اس لئے مراد لیا ہے کہ شع کی جہت سے مسجد حرام کا اسم پورے حرم کو شامل ہے کیونکہ یہ بات درست نہیں ہے کہ آیت کی تاویل میں ایسے معنی لئے جائیں جن کا آیت کے الفاظ میں احتمال موجود نہ ہو۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان حضرات کو توقیف یعنی کسی شرعی دلیل کی بنا پر یہ علم ہوا تھا کہ مسجد کے اسم کا اطلاق پورے حرم پر ہوتا ہے۔ اس پر یہ قول باری (الا الذینء اھدتم عنہ المسجد الحرام )- ان لوگوں کے سوا جن کے ساتھ تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا) بھی دلالت کرتا ہے آی ت میں ایک روایت کے مطابق حدیبیہ مراد ہے جو مسجد حرام سے دور لیکن حرم سے قریب واقع ہے۔ ایک روایت کے مطابق حدیبیہ بالکل حرم کے کنارے واقع ہے۔- حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان بن الحکم نے روایت کی ہے کہ اس موقع پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خیمہ حل یعنی حرم کے باہر علاقے میں تھا ۔ اور آپ کا مصلی یعنی نماز گاہ حرم کے اندر تھا۔ یہ چیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں مسجد حرام سے پورا حرم مراد لیا ہے۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ قل قتال فیہ کبیر وصدعن سبیل اللہ وکفربہ والمسجد ا الحرام و اخراج اھلہ منہ اکبر عند اللہ لوگ پوچھتے ہیں ماہ احرام میں لڑنا کیسا ہے ؟ کہو اس میں لڑنا بہت برا ہے۔ مگر راہ خدا سے لوگوں کو روکنا اور اللہ سے کفر کرنا اور مسجد حرام کا راستہ لوگوں پر بند کرنا اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ برا ہے ) اس سے شہر مکہ سے مسلمانوں کو نکالنا مراد ہے جب مسلمان مکہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کر گئے تھے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے مسجد حرام سے پورے حرم کی تعبیر کی ہے۔ مسجد حرام سے پورا حرم مرا ہے اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے صومن یردفیہ بالحاد بظلم نذقہ من عذاب الیم اور اس میں جو بھی راستی سے ہٹ کر ظلم کا طریقہ اختیار کرے گا اسے ہم درد ناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے) اس سے مراد وہ شخص ہے جو حرم کے اندر ظلم کے ذریعے اس کی حرمت کو ختم کرنے کا مرتکب ہوگا جب یہ بات ثابت ہوگئی تو قول باری (سوا ن العاکف فیہ والباد) اس امر کا مقتضی ہوگیا کہ تمام لوگ وہاں رہنے اور ٹھہرنے کے لحاظ سے یکساں ہیں۔- اگر یہ کہا جائے کہ آی ت میں یہ احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے کہ تمام لوگ مسجد حرام کی تعظیم اور اس کی حرمت کے اعتقاد کے وجوب میں یکساں ہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت دونوں باتوں پر محمول ہے یعنی تمام لوگ مسجد حرام کی تعظیم اور حرمت نیز وہاں قیام اور سکونت کے لحاظ سے یکاسں ہیں۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ وہاں کی زمین کی فروخت جائز نہ ہو اس لئے کہ جس طرح خریدار کو وہاں سکونت اختیار کرنے کا حق ہے اسی طرح غیر مشتری کو بھی یہی حق حاصل ہے اس لئے خریدار کو اس جگہ پر قبضہ کرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا جائز نہ ہ وگا جس طرح اسے اپنے مملوکہ اشیاء سے فائدہ اٹھانا جائز ہوتا ہے یہ چیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اس پر کسی کو ملکیت نہیں ہوتی۔- مکان اجارہ پر دیا جاسکتا ہے - امام ابوحنیفہ نے وہاں کے مکانات کو اجارہ پر دینا صرف اس صورت میں جائز رکھا ہے جب عمارت اجارہ پر دینے والے کی ملکیت میں ہو اس صورت میں وہ اپنی ملکیت کی اجرت وصول کرے گا لیکن زمین کی اجرت جائز نہیں ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص کسی اور کی زمین پر کوئی عمارت تعمیر کرے تو وہ عمارت کو اجارہ پردے سکتا ہے۔ قول باری (العاکف فیہ والباد) کی تفسیر میں سلف کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ عاکف سے مراد مقامی باشندے ہیں اور بادی سے مراد باہر سے آنے والے ہیں۔- الحاد کی تشریح - قول باری ہے (ومن یردفیہ بالحاد بظلم اور اس میں جو بھی راستی سے ہٹ کر ظلم کا طریقہ اختیا رکرے گا ) حق اور راستی سے ہٹ کر باطل کی طرف میلان کو الحاد کہتے ہیں۔ قبر کے اندر بنی ہوئی لحد کو لحد اس لئے کہتے ہیں کہ یہ قبر کے ایک طرف ہوتی ہے۔ قول باری ہے (وذروا الذین یلحدون فی اسمائہ اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اللہ کے اسماء میں الحاد کرتے ہیں) نیز فرمایا (لسان الذی یلحدون الیہ اعجمی ۔ اس شخص کی زبان جس کی طرف یہ اس کی ناحق نسبت کرتے ہیں عجمی ہے) یعنی اس شخص کی زبان جس کی طرف یہ لوگ اس قرآن کی ناحق نسبت کرتے ہیں۔ قول باری (بالحاد) میں حرف باء زائد ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے (تنبت بالدلعن یہ روغن اگاتی ہے) یعنی ” تنبت الدھن “ یا جس طرح یہ قول باری ہے (فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم ۔ اللہ کی رحمت ہے کہ تم ان کے لئے نرم ہو) حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :” مکہ مکرمہ میں اپنے نوکر پر اس کی طاقت سے بڑھ کر کام لینے کے ذریعے ظلم کرنا الحاد ہے۔ حضرت عمر کا قول ہے ۔ ” مکہ مکرمہ میں طعام کا ذخیرہ کرلینا الحاد ہے۔ “ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ اس سے مکہ میں گناہوں کی طرف میلان مراد ہے۔- حسن بصری کا قول ہے کہ الحاد سے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا مراد ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ الحاد مذموم فعل ہے اس لئے کہ یہ حق اور راستی سے ہٹ جانے اور باطل کی طرف مائل ہوجانے کا نام ہے۔ باطل سے ہٹ کر حق کی طرف میلان پر الحاد کے اسم کا اطلاق نہیں ہوتا۔ الحاد ایک مذموم اسم ہے اللہ تعالیٰ نے حرم کے اندر الحا کرنے والے کو حرم کی حرمت کی عظمت کے پیش نظر درد ناک عذاب کی خصوصی طو رپر دھمکی دی ہے ۔ جن حضرات نے آیت کی تفسیر کی ہے ان کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ الحاد کی بنا پر وعید کا تعلق پورے حرم کے ساتھ ہے صرف مسجد حرام اس کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قول باری اوا المسجد الحرام الذی جعلنا لا للناس سواء ن العاکف فیہ والباد۔ میں سارا حرم مراد ہے اس لئے کہ قول باری (ومن یردفیہ بالحاد) میں ضمیر حرم کی طرف راجح ہے حالانکہ حرم کا اس سے پہلے ذکر نہیں آیا ہے صرف یہ قول باری ہے (والمسجد الحرام) اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مسجد سے اس جگہ پورا حرم مراد ہے۔ عمارہ بن ثوبان نے روایت کی ہے، انہیں موسیٰ بن زیاد نے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت یعلی بن امیہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (احتکار الطعام بمکۃ الحاد مکہ مکرمہ میں طعام کی ذخیرہ اندوزی الحاد ہے) عثمان بن الاسود نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ ” مکہ مکرمہ میں طعام کی فروخت الحاد ہے۔ جالب یعنی باہر سے مال لے کر آئے والا مقیم یعنی وہاں کے باشندے کی طرح نہیں ہے۔ “- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس میں کوئی امتناع نہیں کہ قول باری (بالحاد بظلم) سے تمام گناہ مراد ہوں اور اس طرح طعام کی ذخیرہ اندوزی نیز ظلم و شرک بھی ان میں داخل ہوجائیں۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ حرم کے اندر گناہ کا ارتکاب دوسرے مقام پر اس کے ارتکاب سے زیادہ سنگین ہوتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جن حضرات نے مکہ مکرمہ میں جا کر اقامت گزین ہونے کو مکروہ سمجھا ہے ان کا ذہن اس طرف گیا ہے کہ مکہ کے اندر گناہ کے ارتکاب پر عذاب کئی گنا ہوجاتا ہے اس بنا پر انہوں نے وہاں ترک سکونت کو ترجیح دی ہے کہ کہیں وہاں رہتے ہوئے کسی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھیں اور اس طرح کئی گنا عذاب کے سزا وار بن جائیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (یلحد بمکۃ رجل علیہ مثل نصف عذاب اھل الارض ۔ مکہ مکرمہ میں ایک شخص اگر الحاد کا مرتکب ہوگا اسے زمین کے تمام لوگوں کے عذاب کا نصف عذاب دیا جائے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ ارشاد بھی مروی ہے (اعتی الناس علی اللہ رجل قتل فی الحرم و رجل قتل غیر قاتلہ ورجل قتل بدحول الجاھلیۃ اللہ کے نزدیک تین قسم کے انسان سب سے بڑھ کر سرکش گنے جاتے ہیں۔ ایک تو وہ شخص جو حرم کے اندر قتل کا ارتکاب کرتا ہے۔ ایک وہ شخص جو اپنے قاتل کے سوا کسی اور کو قتل کر دیات ہے اور ایک وہ جو زمانہ جاہلیت کی دشمنی اور عداوت کی بنا پر زمانہ اسلام میں کسی کو قتل کردیتا ہے۔ )
(٢٥) بیشک جن لوگوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن حکیم کے ساتھ کفر کیا جیسا کہ حضرت ابو سفیان اور ان کے ساتھی (اس واقعہ تک حضرت ابوسفیان اسلام نہیں لائے تھے) اور لوگوں کو دین خداوندی اور اطاعت خداوندی سے روکتے ہیں اور مسجد حرام سے بھی روکتے ہیں جب کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام حدیبیہ کے سال عمرہ کے لیے تشریف لے جارہے تھے حالانکہ جس مقام کو ہم نے سب آدمیوں کے لیے حرم اور قبلہ بنایا ہے اس میں سب برابر ہیں اس حرم کے اندر رہنے والا بھی اور باہر سے آنے والا بھی اور جو شخص حرم میں کسی خلاف دین کام کی ظلم کے ساتھ ابتدا کرے گا تو ہم اسے دردناک عذاب دیں گے یعنی سخت ترین اس کو سزا دیں گے تاکہ اس کو پھر کسی پر ظلم کرنے کی جرأت نہ ہو، یہ آخری آیت عبداللہ بن انس بن حنظل کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس نے مدینہ منورہ میں ایک انصاری کو جان بوجھ کر قتل کردیا اور پھر اسلام سے مرتد ہو کر مکہ مکرمہ میں جا کر پناہ حاصل کی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی جو شخص قصدا قتل ظلم وشرک کا ارتکاب کر کے مکہ مکرمہ میں پناہ لے گا تو ہم اس کو درد ناک سزا دیں گے یعنی اسے کھانے پینے کو کچھ نہیں دیا جائے گا اور نہ کسی قسم کی پناہ دی جائے گی تاوقتیکہ حرم سے باہر سے نہ نکلے پھر اس پر دفعہ گرائی جائے گی۔- شان نزول : ( آیت) ” ومن یرد فیہ “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن انیس کو دو افراد کے ساتھ بھیجا ایک ان میں مہاجر تھے، دوسرے انصاری چناچہ تینوں نے آپس میں نسب پر فخر کیا، عبداللہ بن انیس کو غصہ آیا اور اس نے انصاری کو قتل کردیا پھر اسلام سے مرتد ہو کر مکہ مکرمہ بھاگ گیا، اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔
یہ دو رکوع مناسک حج کے بارے میں ہیں۔ سورة البقرۃ کے چوبیسویں اور پچیسویں رکوع میں بھی مناسک حج کا تذکرہ ہے مگر وہاں پر قربانی کا ذکر نہیں ہوا۔ صرف قبل از وقت سر منڈوانے کی صورت میں کفارے کے طور پر جانور ذبح کرنے (دم جنایت) اور حج وعمرہ کو جمع کرنے ِ (قران یا تمتع) ّ کی صورت میں دم شکر کا تذکرہ ہے۔ لیکن یہاں قربانی اور طواف کا خاص طور پر ذکر ہے۔- آیت ٢٥ (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ) ” - کفار مکہ کی مخالفانہ سر گرمیوں کی طرف اشارہ ہے جن کے باعث مسلمان نہ صرف جوار بیت اللہ کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے بلکہ ایک عرصے تک حج وعمرہ کی سعادت حاصل کرنے سے محروم بھی رہے۔- (الَّذِیْ جَعَلْنٰہُ للنَّاسِ سَوَآءَ نِ الْعَاکِفُ فِیْہِ وَالْبَادِ ط) ” - ان دونوں اقسام کے لوگوں کے لیے ” مقیم “ اور ” آفاقی “ کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ چناچہ مقیم ہو یا آفاقی حرم کے اندر سب کے حقوق برابر ہیں ‘ کسی کو کسی پر ترجیح یا برتری نہیں دی جاسکتی۔ اب بھی وہاں پر یہ مساوات برقرار ہے۔ باہر سے آنے والا کوئی شخص پہلی صف میں بیٹھا ہو تو اسے کوئی وہاں سے نہیں اٹھا سکتا۔ البتہ - کوئی ناجائز طریقے سے اپنے لیے کوئی رعایت حاصل کرلے یا حکومتی سطح پر کسی کو وی آئی پی قرار دے کر دوسروں کے حقوق متأ ثر کیے جائیں تو یہ الگ بات ہے۔- (وَمَنْ یُّرِدْ فِیْہِ بِاِلْحَادٍم بِظُلْمٍ ) ” - بیت اللہ کے اندر جو کوئی اپنی شرارت نفس کی بنا پر یا ظلم و ناانصافی کی روش پر چلتے ہوئے کسی بےدینی کے ارتکاب ‘ کوئی کجی پیدا کرنے یا لوگوں کو سیدھے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرے گا :
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :41 یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ماننے سے انکار کر دیا ۔ آگے کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ ان سے مراد کفار مکہ ہیں ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :42 یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروؤں کو حج اور عمرہ نہیں کرنے دیتے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :43 یعنی جو کسی شخص یا خاندان یا قبیلے کی جائیداد نہیں ہے ، بلکہ وقف عام ہے اور جس کی زیارت سے روکنے کا کسی کو حق نہیں ہے ۔ یہاں فقہی نقطہ نظر سے دو سوال پیدا ہوتے ہیں جن کے بارے میں فقہائے اسلام کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے ہیں : اول یہ کہ مسجد حرام سے مراد کیا ہے ؟ آیا صرف ، مسجد یا پورا حرم مکہ ؟ دوم یہ کہ اس میں عاکف ( رہنے والے ) اور باد ( باہر سے آنے والے ) کے حقوق برابر ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ ایک گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد صرف مسجد ہے نہ کہ پورا حرم ، جیسا کہ قرآن کے ظاہر الفاظ سے مترشح ہوتا ہے ۔ اور اس میں حقوق کے مساوی ہونے سے مراد عبادت کے حق میں مساوات ہے ، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ : یا بنی عبد مناف من ولی منکم من امور الناس شیئا فلا یمنعن احداً طاف بھٰذا البیت او صلی اَیَّۃَ ساعۃ شاء من لیل او نھار ۔ اے اولاد عبد مناف ، تم میں سے جو کوئی لوگوں کے معاملات پر کسی اقتدار کا مالک ہو اسے چاہیے کہ کسی شخص کو رات اور دن کے کسی وقت میں بھی خانہ کعبہ کا طواف کرنے یا نماز پڑھنے سے منع نہ کرے ۔ اس رائے کے حامی کہتے ہیں کہ مسجد حرام سے پورا حرم مراد لینا اور پھر وہاں جملہ حیثیات سے مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر قرار دینا غلط ہے ۔ کیونکہ مکہ کے مکانات اور زمینوں پر لوگوں کے حقوق ملکیت و وراثت اور حقوق بیع و اجارہ اسلام سے پہلے قائم تھے اور اسلام کے بعد بھی قائم رہے ، حتیٰ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صفوان بن امیہ کا مکان مکہ میں جیل کی تعمیر کے لیے چار ہزار درہم میں خریدا گیا ۔ لہٰذا یہ مساوات صرف عبادت ہی کے معاملہ میں ہے نہ کہ کسی اور چیز میں ۔ یہ امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے ہم خیال اصحاب کا قول ہے ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ مسجد حرام سے مراد پورا حرم مکہ ہے ۔ اس کی پہلی دلیل یہ ہے کہ خود اس آیت میں جس چیز پر مشرکین مکہ کو ملامت کی گئی ہے وہ مسلمانوں کے حج میں مانع ہونا ہے ، اور ان کے اس فعل کو یہ کہہ کر رد کیا گیا کہ وہاں سب کے حقوق برابر ہیں ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ حج صرف مسجد ہی میں نہیں ہوتا بلکہ صفا اور مروہ سے لے کر مِنٰی ، مزولفہ ، عرفات ، سب مناسک حج کے مقامات ہیں ۔ پھر قرآن میں ایک جگہ نہیں متعدد مقامات پر مسجد حرام بول کر پورا حرم مراد لیا گیا ہے ۔ مثلاً فرمایا : وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِخْرَاجُ اَھْلِہ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللہِ ، مسجد حرام سے روکنا اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک ماہ حرام میں جنگ کرنے سے بڑا گناہ ہے ۔ ( بقرہ ۔ آیت 217 ) ۔ ظاہر ہے کہ یہاں مسجد سے نماز پڑھنے والوں کو نکالا نہیں بلکہ مکہ سے مسلمان باشندوں کو نکالنا مراد ہے ۔ دوسری جگہ فرمایا : ذٰلِکَ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلُہ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، یہ رعایت اس کے لیے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں ( البقرہ ۔ آیت 196 ) ۔ یہاں بھی مسجد حرام سے مراد پورا حرم مکہ ہے نہ کہ محض مسجد ۔ لہٰذا مسجد حرام میں مساوات کو صرف مسجد میں مساوات تک محدود نہیں قرار دیا جا سکتا ، بلکہ یہ حرم مکہ میں مساوات ہے ۔ پھر یہ گروہ کہتا ہے کہ یہ مساوات صرف عبادت اور تعظیم و حرمت ہی میں نہیں ہے ، بلکہ حرم مکہ میں تمام حقوق کے اعتبار سے ہے ۔ یہ سر زمین خدا کی طرف سے وقف عام ہے لہٰذا اس پر اور اس کی عمارات پر کسی کے حقوق ملکیت نہیں ہیں ۔ ہر شخص ہر جگہ پھر سکتا ہے ، کوئی کسی کو نہیں روک سکتا اور نہ کسی بیٹھے ہوئے کو اٹھا سکتا ہے ۔ اس کے ثبوت میں یہ لوگ بکثرت احادیث اور آثار پیش کرتے ہیں ۔ مثلاً عبداللہ بن عمر کی روایت کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مکۃ مناخٌ لا نُبَاع رباعھا ولا تؤاجر بیوتھا ، مکہ مسافروں کے اترنے کی جگہ ہے ، نہ اس کی زمینیں بیچی جائیں اور نہ اس کے مکان کرائے پر چڑھائے جائیں ۔ ابراہیم نخعی کی مرسل روایت کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مکۃ حرمھا اللہ لا یحل بیع رباعھا ولا اجارۃ بیوتھا مکہ کو اللہ نے حرم قرار دیا ہے ، اس کی زمین کو بیچنا اور اس کے مکانوں کا کرایہ وصول کرنا حلال نہیں ہے ۔ ( واضح رہے کہ ابراہیم نخعی کی مرسَلات حدیث مرفوع کے حکم میں ہیں ، کیونکہ ان کا یہ قاعدہ مشہور و معروف ہے کہ جب وہ مرسل روایت کرتے ہیں تو دراصل عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے واسطے سے روایت کرتے ہیں ) مجاہد نے بھی تقریباً ان ہی الفاظ میں ایک روایت نقل کی ہے ۔ عَلْقَمہ بن نضْلَہ کی روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں مکے کی زمینیں سوائب ( افتادہ زمینیں یا شاملات ) سمجھی جاتی تھیں ، جس کو ضرورت ہوتی وہ رہتا تھا اور جب ضرورت نہ رہتی دوسرے کو ٹھہرا دیتا تھا ۔ عبداللہ بن عمر کی روایت کہ حضرت عمر نے حکم دے دیا تھا کہ حج کے زمانے میں مکے کا کوئی شخص اپنا دروازہ بند نہ کرے ۔ بلکہ مجاہد کی روایت تو یہ ہے کہ حضرت عمر نے اہل مکہ کو اپنے مکانات کے صحن کھلے چھوڑ دینے کا حکم دے رکھا تھا اور وہاں پر دروازے لگانے سے منع کرتے تھے تاکہ آنے والا جہاں چاہے ٹھہرے ۔ یہی روایت عطا کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ صرف سہیل بن عمرو کو فاروق اعظم نے صحن پر دروازے لگانے کی اجازت دی تھی کیونکہ ان کو تجارتی کاروبار کے سلسلے میں اپنے اونٹ وہاں بند کرنے ہوتے تھے ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا قول کہ جو شخص مکہ کے مکانات کا کرایہ وصول کرتا ہے وہ اپنا پیٹ آگ سے بھرتا ہے ۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول کہ اللہ نے پورے حرم مکہ کو مسجد بنا دیا ہے جہاں سب کے حقوق برابر ہیں ۔ مکہ والوں کو باہر والوں سے کرایہ وصول کرنے کا حق نہیں ہے ۔ عمر بن عبدالعزیز کا فرمان امیر مکہ کے نام کہ مکے کے مکانات پر کرایہ نہ لیا جائے کیونکہ یہ حرام ہے ۔ ان روایات کی بنا پر بکثرت تابعین اس طرف گئے ہیں ، اور فقہا میں سے امام مالک ، امام ابو حنیفہ ، سفیان ثوری ، امام احمد بن حنبل ، اور اسحاق بن رَاھَوَیہ کی بھی یہی رائے ہے کہ اراضی مکہ کی بیع ، اور کم از کم موسم حج میں مکے کے مکانوں کا کرایہ جائز نہیں ۔ البتہ بیشتر فقہاء نے مکہ کے مکانات پر لوگوں کی ملکیت تسلیم کی ہے اور ان کی بحیثیت عمارت ، نہ کہ بحیثیت زمین بیع کو بھی جائز قرار دیا ہے ۔ یہی مسلک کتاب اللہ و سنت رسول اللہ اور سنت خلفاء راشدین سے قریب تر معلوم ہوتا ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کے مسلمانوں پر حج اس لیے فرض نہیں کیا ہے کہ یہ اہل مکہ کے لیے آمدنی کا ذریعہ بنے اور جو مسلمان احساس فرض سے مجبور ہو کر وہاں جائیں انہیں وہاں کے مالکان زمین اور مالکان مکانات خوب کرائے وصول کر کر کے لوٹیں ۔ وہ ایک وقف عام ہے تمام اہل ایمان کے لیے ۔ اس کی زمین کسی کی ملک نہیں ہے ۔ ہر زائر کو حق ہے کہ جہاں جگہ پائے ٹھہر جائے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :44 اس سے ہر وہ فعل مراد ہے جو راستی سے ہٹا ہوا ہو اور ظلم کی تعریف میں آتا ہو ، نہ کہ کوئی خاص فعل ۔ اس طرح کے افعال اگرچہ ہر حال میں گناہ ہیں ، مگر حرم میں ان کا ارتکاب زیادہ شدید گناہ ہے ۔ مفسرین نے بلا ضرورت قسم کھانے تک کو الحاد فی الحرم میں شمار کیا ہے اور اس آیت کا مصداق ٹھہرایا ہے ۔ ان عام گناہوں کے علاوہ حرم کی حرمت کے متعلق جو خاص احکام ہیں ان کی خلاف ورزی بدرجہ اولیٰ اس تعریف میں آتی ہے ۔ مثلاً : حرم کے باہر جس شخص نے کسی کو قتل کیا ہو ، یا کوئی اور ایسا جرم کیا ہو جس پر حد لازم آتی ہو ، اور پھر وہ حرم میں پناہ لے لے ، تو جب تک وہ وہاں رہے اس پر ہاتھ نہ ڈالا جائے گا ۔ حرم کی یہ حیثیت حضرت ابراہیم کے زمانے سے چلی آتی ہے ، اور فتح مکہ کے روز صرف ایک ساعت کے لیے اٹھائی گئی ، پھر ہمیشہ کے لیے قائم ہو گئی ۔ اور ان کا ارشاد ہے : وَمَنْ دَخَلَہ کَانَ اٰمِناً ، جو اس میں داخل ہو گیا وہ امن میں آگیا ۔ حضرت عمر ، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس کے یہ اقوال معتبر روایات میں آئے ہیں کہ اگر ہم اپنے باپ کے قاتل کو بھی وہاں پائیں تو اسے ہاتھ نہ لگائیں ۔ اسی لیے جمہور تابعین اور حنفیہ اور حنابلہ اور اہل حدیث اس کے قائل ہیں کہ حرم کے باہر کیے ہوئے جرم کا قصاص حرم میں نہیں لیا جا سکتا ۔ وہاں جنگ اور خونریزی حرام ہے ۔ فتح مکہ کے دوسرے روز جو خطبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا اس میں آپ نے اعلان فرما دیا تھا کہ ’‘ لوگو ، اللہ نے مکے کو ابتدائے آفرینش سے حرام کیا ہے اور یہ قیامت تک کے لیے اللہ کی حرمت سے حرام ہے ۔ کسی شخص کے لیے ، جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتا ہو ، حلال نہیں ہے کہ یہاں کوئی خون بہائے ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اگر میری اس جنگ کو دلیل بنا کر کوئی شخص اپنے لیے یہاں خونریزی کو جائز ٹھہرائے تو اس سے کہو کہ اللہ نے اپنے رسول کے لیے اس کو جائز کیا تھا نہ کہ تمہارے لیے ۔ اور میرے لیے بھی یہ صرف ایک دن کی ایک ساعت کے لیے حلال کیا گیا تھا ، پھر آج اس کی حرمت اسی طرح قائم ہو گئی جیسی کل تھی ۔ وہاں کے قدرتی درختوں کو نہیں کاٹا جا سکتا ، نہ خود رو گھاس اکھاڑی جا سکتی ہے ، نہ پرندوں اور دوسرے جانوروں کا شکار کیا جا سکتا ہے ، اور نہ شکار کی غرض سے وہاں کے جانور کو بھگا یا جا سکتا ہے تاکہ حرم کے باہر اس کا شکار کیا جائے ۔ اس سے صرف سانپ بچھو اور دوسرے موذی جانور مستثنیٰ ہیں ۔ اور خودرو گھاس سے : اِذْ خر ، اور خشک گھاس مستثنیٰ کی گئی ہے ۔ ان امور کے متعلق صحیح احادیث میں صاف صاف احکام وارد ہوئے ہیں ۔ وہاں کی گری پڑی چیز اٹھانا ممنوع ہے ، جیسا کہ ابوداؤد میں آیا ہے : ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھٰی عن القطۃ الحاج ، یعنی آپ نے حاجیوں کی گری پڑی چیز اٹھانے سے منع فرمایا تھا ۔ وہاں جو شخص بھی حج یا عمرے کی نیت سے آئے وہ احرام کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا ۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ دوسری کسی غرض سے داخل ہونے والے کے لیے بھی احرام باندھ کر جانا ضروری ہے یا نہیں ۔ ابن عباس کا مذہب یہ ہے کہ کسی حال میں بلا احرام داخل نہیں ہو سکتے ۔ امام احمد اور امام شافعی کا بھی ایک ایک قول اسی کا مؤید ہے ۔ دوسرا مذہب یہ ہے کہ صرف وہ لوگ احرام کی قید سے مستثنیٰ ہیں جن کو بار بار اپنے کام کے لیے وہاں جانا آنا پڑتا ہو ۔ باقی سب کو احرام بند جانا چاہیے ۔ یہ امام احمد اور شافعی کا دوسرا قول ہے ۔ تیسرا مذہب یہ ہے کہ جو شخص میقاتوں کے حدود میں رہتا ہو وہ مکہ میں بلا احرام داخل ہو سکتا ہے ، مگر جو حدود میقات سے باہر کا رہنے والا ہو وہ بلا احرام نہیں جا سکتا ۔ یہ امام ابو حنیفہ کا قول ہے ۔
12: مسجد حرام اور اس کے آس پاس کے وہ مقامات جن میں حج کے افعال ادا ہوتے ہیں، مثلا صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی جگہ، منی، عرفات اور مزدلفہ کسی شخص کی ذات ملکیت نہیں ہیں، بلکہ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے وقف عام ہیں، اور ان کو عبادت کے لیے استعمال کرنے میں مقامی باشندے اور باہر سے آنے والے سب برابر ہیں۔ 13: ٹیڑھی راہ نکالنے سے مراد کفر و شرک حرم کے احکام کی خلاف ورزی، بلکہ ہر قسم کا گناہ ہے۔ حرم میں جس طرح ہر نیکی کا ثواب بڑھ جاتا ہے، اسی طرح بعض صحابہ کرام سے منقول ہے کہ یہاں گناہوں کا وبال بھی دوسری جگہوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔