مسجد حرام کی اولین بنیاد توحید یہاں مشرکین کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہ گھر جس کی بنیاد اول دن سے اللہ کی توحید پر رکھی گئی ہے تم نے اس میں شرک جاری کردیا ۔ اس گھر کے بانی خلیل اللہ علیہ السلام ہیں سب سے پہلے آپ نے ہی اسے بنایا ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ فرمایا مسجد حرام ۔ میں نے کہا پھر؟ فرمایا بیت المقدس ۔ میں نے کہا ان دونوں کے درمیان کس قدر مدت کا فاصلہ ہے؟ فرمایا چالیس سال کا ۔ اللہ کا فرمان ہے آیت ( اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ 96ۚ ) 3-آل عمران:96 ) ، دو آیتوں تک ۔ اور آیت میں ہے ہم نے ابراہیم واسماعیل علیہ السلام سے وعدہ کرلیا کہ میرے گھر کو پاک رکھنا الخ بیت اللہ شریف کی بنا کا کل ذکر ہے ہم پہلے لکھ چکے ہیں اس لئے یہاں دوبارہ لکھنے کی ضرورت نہیں ۔ یہاں فرمایا اسے صرف میرے نام پر بنا اور اسے پاک رکھ یعنی شرک وغیرہ سے اور اسے خاص کردے ان کے لئے جو موحد ہیں ۔ طواف وہ عبادت ہے جو ساری زمین پر بجز بیت اللہ کے میسر ہی نہیں ناجائز ہے ۔ پھر طواف کے ساتھ نماز کو ملایا قیام ، رکوع ، سجدے ، کا ذکر فرمایا اس لئے کہ جس طرح طواف اس کے ساتھ مخصوص ہے نماز کا قبلہ بھی یہی ہے ہاں اس کی حالت میں کہ انسان کو معلوم نہ ہو یا جہاد میں ہو یا سفر میں ہو نفل نماز پڑھ رہا ہو تو بیشک قبلہ کی طرف منہ نہ ہونے کی حالت میں بھی نماز ہوجائے گی واللہ اعلم ۔ اور یہ حکم ملاکہ اس گھر کے حج کی طرف تمام انسانوں کو بلا ۔ مذکور ہے کہ آپ نے اس وقت عرض کی کہ باری تعالیٰ میری آواز ان تک کیسے پہنچے گی؟ جواب ملاکہ آپ کے ذمہ صرف پکارنا ہے آواز پہنچانا میرے ذمہ ہے ۔ آپ نے مقام ابراہیم پر یا صفا پہاڑی پر ابو قیس پہاڑ پر کھڑے ہو کر ندا کی کہ لوگو تمہارے رب نے اپنا ایک گھر بنایا ہے پس تم اس کا حج کرو ۔ پہاڑ جھک گئے اور آپ کی آواز ساری دنیا میں گونج گئی ۔ یہاں تک کہ باپ کی پیٹھ میں اور ماں کے پیٹ میں جو تھے انہیں بھی سنائی دی ۔ ہرپتھر درخت اور ہر اس شخص نے جس کی قسمت میں حج کرنا لکھا تھا باآواز لبیک پکارا ۔ بہت سے سلف سے یہ منقول ہے ، واللہ اعلم ۔ پھر فرمایا پیدل لوگ بھی آئیں گے اور سواریوں پر سوار بھی آئیں گے ۔ اس سے بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ جسے طاقت ہو اس کے لئے پیدل حج کرنا سواری پر حج کرنے سے افضل ہے اس لئے کہ پہلے پیدل والوں کا ذکر ہے پھر سواروں کا ۔ تو ان کی طرف توجہ زیادہ ہوئی اور ان کی ہمت کی قدر دانی کی گئی ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میری یہ تمنا رہ گئی کہ کاش کہ میں پیدل حج کرتا ۔ اس لئے کہ فرمان الٰہی میں پیدل والوں کا ذکر ہے ۔ لیکن اکثر بزرگوں کا قول ہے کہ سواری پر افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود کمال قدرت وقوت کے پاپیادہ حج نہیں کیا تو سواری پر حج کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری اقتدا ہے پھر فرمایا دور دراز سے حج کے لئے آئیں گے خلیل اللہ علیہ السلام کی دعا بھی یہی تھی کہ آیت ( فاجعل افئدۃ من الناس تہوی الیہم ) لوگوں کے دلوں کو اے اللہ تو ان کی طرف متوجہ کردے ۔ آج دیکھ لو وہ کونسا مسلمان ہے جس کا دل کعبے کی زیارت کا مشتاق نہ ہو؟ اور جس کے دل میں طواف کی تمنائیں تڑپ نہ رہی ہوں ۔ ( اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے )
26۔ 1 یعنی بیعت اللہ کی جگہ بتلا دی اور وہاں ہم نے ذریت ابراہیم (علیہ السلام) کو ٹھہرایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طوفان نوح (علیہ السلام) کی ویرانی کے بعد خانہ کعبہ کی تعمیر سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں سے ہوئی ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث سے بھی ثابت ہے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سب سے پہلی مسجد جو زمین میں بنائی گئی، مسجد حرام ہے، اور اس کے چالیس سال بعد مسجد اقصٰی تعمیر ہوئی (مسند احمد 5۔ 150، 166، 167 و مسلم کتاب المساجد) ف 4 یہ خانہ کعبہ کی تعمیر کی غرض بیان کی کہ اس میں صرف میری عبادت کی جائے اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ مشرکین نے اس میں جو بت سجا رکھے ہیں جن کی وہ یہاں آکر عبادت کرتے ہیں یہ ظلم صریح ہے کہ جہاں صرف اللہ کی عبادت کرنی چاہیے تھی وہاں بتوں کی عبادت کی جاتی ہے۔ 26۔ 2 کفر بت پرستی اور دیگر گندگیوں اور نجاستوں سے۔ یہاں ذکر صرف نماز پڑھنے والوں کا کیا ہے، کیونکہ یہ دونوں عبادت خانہ کعبہ کے ساتھ خاص ہیں، نماز میں رخ اس کی طرف ہوتا ہے اور طواف صرف اسی کے گرد کیا جاتا ہے۔ لیکن اہل بدعت نے اب بہت سی قبروں کا طواف بھی ایجاد کرلیا ہے اور بعض نمازوں کے لیے قبلہ بھی کوئی اور۔ اعاذنا اللہ منہما
[٣٣] حضرت آدم نے سب سے پہلے کعبہ کو تعمیر کیا تھا۔ جس کے اب نشانات بھی زمین بوس ہوچکے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آندھی چلائی جس سے اوپر کی مٹی اور ریت اڑ کر دور چلی گئی اور کعبہ کی بنیادی ننگی اور ظاہر ہوگئیں۔ انہی بنیادوں پر حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے اسماعیل کو ساتھ ملا کر کعبہ کی تعمیر شروع کی تھی۔ اور حضرت ابراہیم کو یہ ہدایت کی گئی تھی کہ اس گھر کی بنیادیں خالص توحید پر رکھو۔ کوئی شخص یہاں آکر اللہ کی عبادت کے سوا کوئی مشرکانہ رسوم بجا نہ لائے۔ لیکن مشرکین مکہ نے جو دین ابراہیمی کی پیروی کے مدعی تھے۔ اس ہدیت کی ایسی نافرمانی کی کہ وہاں تین سو ساٹھ بٹ لا کھڑے کئے بالآخر فتح مکہ کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے اس گھر کو بتوں کی نجاست سے پاک فرمایا۔- [٣٤] اللہ کے گھروں یعنی مساجد کو صاف ستھرا رکھنا اتنا افصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اولعزم انبیاء کو خصوصاً اس کام کی ہدایت کی۔ صفائی سے مراد ظاہری صفائی بھی ہے اور احادیث میں اس کی بھی تاکید آئی ہے۔ لیکن اللہ کے گھروں کی اصل پاکیزگی اور صفائی یہی ہے کہ وہاں اللہ کے سوا کسی دوسرے کو نہ پکارا جائے اور نہ ہی وہاں اللہ کے بجائے اللہ کے پیاروں کا ذکر اذکار اور کرامات بیان کی جاتی رہیں۔
ۧوَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِيْمَ مَكَانَ الْبَيْتِ : ” بَوَّاْنَا “ (تَفْعِیْل) جگہ دینا، جگہ مقرر کرنا، یعنی وہ وقت یاد کرو جب ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے بیت اللہ کی جگہ متعین کی۔ بیت اللہ اس سے پہلے تعمیر ہوچکا تھا، بلکہ زمین پر اللہ کا سب سے پہلا گھر یہی تھا اور ظاہر ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) سے بہت پہلے آدم (علیہ السلام) اور دوسرے انبیاء ( علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے۔ اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ بیت اللہ کی پہلی تعمیر آدم (علیہ السلام) نے کی یا اس سے پہلے فرشتوں نے اسے تعمیر کیا تھا۔ ایک ٹیلے پر اس کی بنیادیں موجود تھیں جس پر ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) نے کعبہ کی عمارت تعمیر فرمائی۔ صحیح بخاری میں ابن عباس (رض) کی لمبی حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کعبہ ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے ایک اونچی جگہ تعمیر ہوا تھا۔ چناچہ اس حدیث میں زمزم کے نمودار ہونے کے بعد فرشتے کے ام اسماعیل (علیہ السلام) کو تسلی دینے کا ذکر ہے : ( فَقَالَ لَھَا الْمَلَکُ لاَ تَخَافُوا الضَّیْعَۃَ فَإِنَّ ھٰھُنَا بَیْتَ اللّٰہِ ، یَبْنِيْ ھٰذَا الْغُلَامُ وَ أَبُوْہُ وَ إِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ أَھْلَہُ وَ کَانَ الْبَیْتُ مُرْتَفِعًا مِنَ الْأَرْضِ کَالرَّابِیَۃِ تَأْتِیْہِ السُّیُوْلُ فَتَأْخُذُ عَنْ یَّمِیْنِہِ وَ عَنْ شِمَالِہِ فَکَانَتْ کَذٰلِکَ حَتّٰی مَرَّتْ بِھِمْ رُفْقَۃٌ مِنْ جُرْھُمَ ) [ بخاري، الأنبیاء، باب ( یزفون ): ٣٣٦٤ ] ” تو فرشتے نے اس سے کہا، تم ضائع ہونے سے مت ڈرو، کیونکہ یہاں اللہ کا گھر ہے، یہ لڑکا اور اس کا باپ اسے بنائے گا اور اللہ اس کے رہنے والوں کو ضائع نہیں کرے گا۔ بیت اللہ زمین سے ٹیلے کی طرح بلند تھا، سیلاب آتے اور اس کے دائیں بائیں طرف ہوجاتے۔ ام اسماعیل ایسے ہی رہیں، حتیٰ کہ جرہم قبیلے کے کچھ لوگ ان کے پاس سے گزرے۔ “ اس حدیث کے آخر میں بیت اللہ کی تعمیر کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ زمزم کے نمودار ہونے کے وقت بھی ایک ٹیلے پر بیت اللہ موجود تھا مگر اس کی از سر نو تعمیر اسماعیل (علیہ السلام) کے جوان ہونے پر ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) نے کی۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١٢٧) کی تفسیر۔- اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِيْ شَيْـــــًٔا ۔۔ : ” الرُّكَّعِ “ ” رَاکِعٌ“ کی جمع ہے، جیسے ” سُجَّدٌ“ ہے۔ ” السُّجُوْد “ ” سَاجِدٌ“ کی جمع ہے، جیسے ” رَاقِدٌ“ اور ” جَالِسٌ“ کی جمع ” رُقُوْدٌ“ اور ” جُلُوْسٌ“ ہے۔ طواف کا معنی کسی چیز کے گرد پھرنا، چکر لگانا ہے۔ یعنی اس گھر کی بنیاد خالص توحید پر رکھو، ہر شخص یہاں آ کر صرف اللہ کی عبادت کرے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔ مگر کفار مکہ نے اس کے گرد تین سو ساٹھ بت رکھ دیے جن کا وہ طواف کرتے تھے، اب بھی کئی مسلمان کہلانے والے قبروں اور آستانوں کا طواف کرتے ہیں، حالانکہ طواف اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے ایک گھر کا رکھا ہے، جسے کعبۃ اللہ کہتے ہیں، اس کے سوا کسی جگہ کا یا شخص کا طواف جائز نہیں۔ کعبہ کو ” بَيْتِيَ “ (میرا گھر) کہنے میں اس کی جو شان بیان ہوئی ہے اس کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔ یعنی بیت اللہ کی تعمیر کے ساتھ ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ اور میرے گھر کو طواف، قیام، سجدہ اور رکوع کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو۔ بیت اللہ کو صاف ستھرا رکھنے سے مراد عام صفائی کے علاوہ شرک و بت پرستی سے پاک صاف رکھنا ہے۔ اس سے مشرکین کو عار دلانا مقصود ہے کہ یہ شرط تو ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت سے چلی آتی ہے کہ اس میں بت پرستی حرام ہے۔ نیز دیکھیے سورة بقرہ (١٢٥) کی تفسیر۔
خلاصہ تفسیر - اور (اس قصہ کا تذکرہ کیجئے) جب کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو خانہ کعبہ کی جگہ بتلا دی (کیونکہ اس وقت خانہ کعبہ بنا ہوا نہ تھا اور حکم دیا) کہ (اس مکان کو عبادت کے لئے تیار کرو اور اس عبادت میں) میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرنا (یہ دراصل ان کے بعد کے لوگوں کو سنانا تھا اور بناء بیت اللہ کے ساتھ شرک کی ممانعت کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ بیت اللہ کی طرف نماز اور اس کا طواف کرنے سے کسی جاہل کو یہ شبہ نہ ہوجائے کہ یہی معبود ہے) اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں کے اور (نماز میں) قیام اور رکوع و سجود کرنے والوں کے واسطے (ظاہری اور باطنی نجاسات یعنی کفر و شرک سے) پاک رکھنا (یہ بھی دراصل دوسروں کو سنانا تھا ابراہیم (علیہ السلام) سے تو اس کے خلاف کا احتمال ہی نہ تھا) اور (ابراہیم (علیہ السلام) سے یہ بھی کہا گیا کہ) لوگوں میں حج (کے فرض ہونے) کا اعلان کردو ( اس اعلان سے) لوگ تمہارے پاس (یعنی تمہاری اس مقدس عمارت کے پاس) چلے آئیں گے پیادہ بھی اور (طول سفر کی وجہ سے دبلی ہوجانے والی) اونٹنیوں پر بھی جو کہ دور دراز راستوں سے پہنچی ہوں گی (اور وہ لوگ اس لئے آویں گے) تاکہ اپنے (اپنے دینی اور دنیوی) فوائد کیلئے حاضر ہوجاویں (دینی فوائد تو معلوم و مشہور ہیں دنیوی فوائد بھی اگر مقصود نہ ہوں مثلاً خریدو فروخت اور قربانی کا گوشت وغیرہ تو یہ بھی کوئی مذموم نہیں) اور (اس لئے آویں گے) تاکہ ایام مقررہ میں (جو قربانی کے ایام دسویں سے بارہویں ذی الحجہ تک ہیں) ان مخصوص چوپاؤں پر (یعنی قربانی کے جانوروں پر ذبح کے وقت) اللہ کا نام لیں جو خدا تعالیٰ نے ان کو عطا کئے ہیں (ابراہیم (علیہ السلام) کے خطاب کا مضمون ہوچکا آگے امت محمدیہ مخاطب ہے) ان (قربانی کے) جانوروں میں سے تم بھی کھایا کرو۔ (کہ یہ جائز ہے اور مستحب یہ ہے کہ) مصیبت زدہ محتاج کو بھی کھلایا کرو پھر (قربانی کے بعد) لوگوں کو چاہئے کہ اپنا میل کچیل دور کریں (یعنی احرام کھول ڈالیں سر منڈا لیں) اور اپنے واجبات کو (خواہ نذر سے قربانی وغیرہ واجب کرلی ہو یا بلا نذر جو افعال حج کے واجب ہیں ان سب کو پورا کریں اور (انہی ایام معلومات میں) اس مامون و محفوظ گھر (یعنی بیت اللہ) کا طواف کریں (یہ طواف زیارت کہلاتا ہے) ۔- معارف و مسائل - اس سے پہلی آیت میں مسجد حرام اور حرم سے روکنے والوں پر عذاب شدید کی وعید آئی ہے آگے اس کی مناسبت سے بیت اللہ کے خاص فضائل اور عظمت کا بیان ہے جس سے ان کے فعل کی قباحت اور زیادہ واضح ہوجائے۔- بناء بیت اللہ کی ابتدا :- وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِيْمَ مَكَانَ الْبَيْتِ ، بوء کا لفظ لغت میں کسی کو ٹھکانا اور رہنے کا مکان دینے کے معنے میں آتا ہے۔ معنے آیت کے یہ ہیں کہ یہ بات قابل ذکر اور یاد رکھنے کی ہے کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اس جگہ کا ٹھکانا دیا جہاں بیت اللہ ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پہلے سے اس زمین پر آباد نہ تھے جیسا کہ روایات سے ثابت ہے کہ ان کو ملک شام سے ہجرت کرا کر یہاں لایا گیا تھا۔ اور مکان البیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ بیت اللہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے موجود تھا جیسا کہ معتبر روایات میں ہے کہ اس کی پہلی بناء تو حضرت آدم (علیہ السلام) کے زمین پر لانے سے پہلے یا اس کے ساتھ ہوئی تھی اور آدم (علیہ السلام) اور ان کے بعد کے انبیاء بیت اللہ کا طواف کرتے تھے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے طوفان کے وقت بیت اللہ کی تعمیر اٹھا لی گئی تھی بنیادیں اور اس کی معین جگہ موجود تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہیں لا کر ٹھہرایا گیا اور ان کو حکم دیا گیا اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِيْ شَيْـــــًٔا، یعنی میری عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے شرک کرنے کا کوئی احتمال نہیں۔ ان کی بت شکنی اور شرک کرنے والوں کا مقابلہ اور اس میں سخت ترین آزمائش کے واقعات پہلے ہوچکے تھے اس لئے مراد اس سے عام لوگوں کو سنانا ہے کہ شرک سے پرہیز کریں۔ دوسرا حکم یہ دیا گیا وّطَهِّرْ بَيْتِيَ (یعنی میرے گھر کو پاک کیجئے) اس وقت اگرچہ گھر موجود نہیں تھا مگر بیت اللہ دراصل در و دیوار اور تعمیر کا نام نہیں، وہ اس بقعہ مقدسہ کا نام ہے جس میں بیت اللہ پہلے بنایا گیا تھا اور اب دوبارہ بنانے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ وہ بقعہ اور مکان بہرحال موجود تھا اس کو پاک کرنے کا حکم اس لئے دیا گیا کہ اس زمانے میں بھی قوم جرہم اور عمالقہ نے یہاں کچھ بت رکھے ہوئے تھے جن کی پوجا پاٹ ہوتی تھی (ذکرہ القرطبی) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ حکم آئندہ آنے والوں کو سنانا ہو اور پاک کرنے سے مراد جیسے کفر و شرک سے پاک رکھنا ہے ایسے ہی ظاہری نجاسات اور گندگیوں سے پاک رکھنا بھی مراد ہے اور ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کا خطاب کرنے سے دوسرے لوگوں کو اہتمام کی فکر دلانا مقصود ہے کہ جب خلیل اللہ کو اس کا حکم ہوا جو خود ہی اس پر عامل تھے تو ہمیں اس کا اہتمام کتنا کرنا چاہئے۔
وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰہِيْمَ مَكَانَ الْبَيْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِيْ شَيْـــــًٔا وَّطَہِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْقَاۗىِٕمِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ ٢٦- بَوءَ- أصل البَوَاء : مساواة الأجزاء في المکان، خلاف النّبو الذي هو منافاة الأجزاء . يقال :- مكان بَوَاء : إذا لم يكن نابیا بنازله، وبَوَّأْتُ له مکانا : سوّيته فَتَبَوَّأَ ، وبَاءَ فلان بدم فلان يَبُوءُ به أي : ساواه، قال تعالی: وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّءا لِقَوْمِكُما بِمِصْرَ بُيُوتاً [يونس 87] ، وَلَقَدْ بَوَّأْنا بَنِي إِسْرائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ [يونس 93] - ( ب و ء ) البواء - ۔ کے اصل معنی کسی جگہ کے اجزا کا مساوی ( اور سازگار موافق) ہونے کے ہیں ۔ یہ نبوۃ کی ضد ہے جس کے معنی اجزاء کی ناہمواری ( ناسازگاری ) کے ہیں ۔ لہذا مکان بواء اس مقام کے کہتے ہیں ۔ جو اس جگہ پر اترنے والے کے ساز گار اور موافق ہو ۔ بوات لہ مکانا میں نے اس کے لئے جگہ کو ہموار اور درست کیا اور تبوات اس کا مطاوع ہے جس کے معنی کسی جگہ ٹھہرلے کے ہیں قرآن میں ہے ؛۔ وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا ( سورة يونس 87) اور ہم نے موسیٰ اور اس گے بھائی کی طرف دحی بھیجی کہ اپنے لوگوں کے لئے مصر میں گھر بناؤ ۔ - بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- طهر - والطَّهَارَةُ ضربان :- طَهَارَةُ جسمٍ ، وطَهَارَةُ نفسٍ ، وحمل عليهما عامّة الآیات . يقال : طَهَّرْتُهُ فَطَهُرَ ، وتَطَهَّرَ ، وَاطَّهَّرَ فهو طَاهِرٌ ومُتَطَهِّرٌ. قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] ، أي : استعملوا الماء، أو ما يقوم مقامه، قال : وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] ،- ( ط ھ ر ) طھرت - طہارت دو قسم پر ہے - ۔ طہارت جسمانی اور طہارت قلبی اور قرآن پاک میں جہاں کہیں طہارت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم دونوں قسم کی طہارت مراد ہے کہا جاتا ہے : ۔ طھرتہ فطھروتطھر واطھر فھو طاھر ومتطھر - میں نے اسے پاک کیا چناچہ وہ پاک ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو نہاکر پاک ہوجایا کرو ۔ یعنی یا جو چیز اس کے قائم مقام ہو اس کے ذریعہ طہارت کرلیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ۔ - طوف - الطَّوْفُ : المشيُ حولَ الشیءِ ، ومنه : الطَّائِفُ لمن يدور حول البیوت حافظا . يقال : طَافَ به يَطُوفُ. قال تعالی: يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدانٌ [ الواقعة 17] ، قال : فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما[ البقرة 158] ، ومنه استعیر الطَّائِفُ من الجنّ ، والخیال، والحادثة وغیرها .- قال : إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ [ الأعراف 201] ، وهو الذي يدور علی الإنسان من الشّيطان يريد اقتناصه، وقد قرئ : طيف «4» وهو خَيالُ الشیء وصورته المترائي له في المنام أو الیقظة . ومنه قيل للخیال : طَيْفٌ. قال تعالی: فَطافَ عَلَيْها طائِفٌ [ القلم 19] ، تعریضا بما نالهم من النّائبة، وقوله : أَنْ طَهِّرا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ [ البقرة 125] ، أي : لقصّاده الذین يَطُوفُونَ به، والطَّوَّافُونَ في قوله : طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلى بَعْضٍ [ النور 58] عبارة عن الخدم، وعلی هذا الوجه قال عليه السلام في الهرّة : (إنّها من الطَّوَّافِينَ عليكم والطَّوَّافَاتِ ) «5» . وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی: فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا «1» ، وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك . والطُّوفَانُ : كلُّ حادثة تحیط بالإنسان، وعلی ذلک قوله : فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف 133] ، وصار متعارفا في الماء المتناهي في الکثرة لأجل أنّ الحادثة التي نالت قوم نوح کانت ماء . قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت 14] ، وطَائِفُ القوسِ : ما يلي أبهرها «2» ، والطَّوْفُ كُنِيَ به عن العَذْرَةِ.- ( ط و ف ) الطوف ( ن ) کے معنی کسی چیز کے گرد چکر لگانے اور گھومنے کے ہیں ۔ الطائف چوکیدار جو رات کو حفاظت کے لئے چکر لگائے اور پہرہ دے طاف بہ یطوف کسی چیز کے گرد چکر لگانا گھومنا ۔ قرآن میں ہے : يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدانٌ [ الواقعة 17] نوجوان خدمت گزار جو ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہیں گے ان کے آس پاس پھیریں گے ۔ فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما[ البقرة 158] اس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے ۔ اور اسی سے بطور استعارہ جن خیال ، حادثہ وغیرہ کو بھی طائف کہاجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ [ الأعراف 201] جب ان کو شیطان کیطرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہوتا ہے ۔ میں طائف سے وہ شیطان مراد ہے جو انسان کا شکار کرنے کے لئے اس کے گرد چکر کاٹتا رہتا ہے ایک قرآت میں طیف ہے ، جس کے معنی کسی چیز کا خیال اور اس صورت کے ہے جو خواب یابیداری میں نظر آتی ہے اسی سے خیال کو طیف کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ : فَطافَ عَلَيْها طائِفٌ [ القلم 19] کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے ( راتوں رات ) اس پر ایک آفت پھر گئی ۔ میں طائف سے وہ آفت یا حادثہ مراد ہے جو انہیں پہنچا تھا ۔ اور آیت کریمہ : أَنْ طَهِّرا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ [ البقرة 125] طواف کرنے والوں ۔۔۔ کے لئے میرے گھر کو صاف رکھا کرو۔ میں طائفین سے مراد وہ لوگ ہیں جو حج یا عمرہ کرنے کے لئے ) بیت اللہ کا قصد کرتے اور اس کا طواف کرتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلى بَعْضٍ [ النور 58] اور نہ ان پر جو کام کے لئے تمہارے اردگرد پھرتے پھراتے رہتے ہیں ۔ میں طوافون سے نوکر چاکر مراد ہیں ( جنہیں خدمت گزاری کے لئے اندروں خانہ آنا جا نا پڑتا ہے ) اسی بنا پر بلی کے متعلق حدیث میں آیا ہے (33) انما من الطوافین علیکم والطوافات ۔ کہ یہ بھی ان میں داخل ہے جو تمہارے گرد پھرتے پھراتے رہتے ہیں ۔ الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو ) الطوفان وہ مصیبت یا حادثہ جو انسان کو چاروں طرف سے گھیرے اس بنا پر آیت کریمہ ؛فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف 133] تو ہم ان پر طوفان ( وغیرہ کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں ۔ میں طوفان بمعنی سیلاب بھی ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ نوح (علیہ السلام) کی قوم پر جو عذاب آیا تھا ۔ وہ پانی کی صورت میں ہی تھا اور دوسری جگہ فرمایا : فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت 14] پھر ان کو طوفان کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ طائف القوس خانہ کمان جو گوشہ اور ابہر کے درمیان ہوتا ہے ۔ الطوف ( کنایہ ) پلیدی ۔- ركع - الرُّكُوعُ : الانحناء، فتارة يستعمل في الهيئة المخصوصة في الصلاة كما هي، وتارة في التّواضع والتّذلّل، إمّا في العبادة، وإمّا في غيرها نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا[ الحج 77] ، وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَٓ [ البقرة 43] ، وَالْعاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [ البقرة 125] ، الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ [ التوبة 112] ، قال الشاعر : أخبّر أخبار القرون الّتي مضت ... أدبّ كأنّي كلّما قمت راکع - ( ر ک ع ) الرکوع اس کے اصل معنی انحناء یعنی جھک جانے کے ہیں اور نماز میں خاص شکل میں جھکنے پر بولا جاتا ہے اور کبھی محض عاجزی اور انکساری کے معنی میں آتا ہے خواہ بطور عبادت ہو یا بطور عبادت نہ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا[ الحج 77] مسلمانوں ( خدا کے حضور ) سجدے اور رکوع کرو وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ [ البقرة 43] جو ہمارے حضور بوقت نماز جھکتے ہیں تم بھی انکے ساتھ جھکا کرو ۔ وَالْعاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [ البقرة 125] مجاوروں اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں ( کے لئے ) الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ [ التوبة 112] رکوع کرنے والے اور سجدہ کرنے والے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) أخبّر أخبار القرون الّتي مضت ... أدبّ كأنّي كلّما قمت راکع میں گذشتہ لوگوں کی خبر دیتا ہوں ( میں سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے ) رینگ کر چلتا ہوں اور خمیدہ پشت کھڑا ہوتا ہوں ۔- سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )
(٢٦) اور ان لوگوں کے سامنے وہ واقعہ بھی بیان کیجیے جب کہ ہم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو خانہ کعبہ کی جگہ بتا دی یعنی ایک بادل بھیجا جو اس جگہ کے چاروں طرف رک گیا درمیان میں وحی کے ذریعے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ کی تعمیر فرمائی اور ہم نے انکو حکم دیا کہ میرے ساتھ ان بتوں میں سے کسی کو شریک مت ٹھہرانا اور میری اس مسجد کو طواف کرنے والوں کے لیے اور تمام شہروں کے نمازیوں کے لیے نماز میں قیام و سجود و رکوع کرنے والوں کے لیے خواہ وہ کسی طرح کریں بتوں کی گندگی سے پاک رکھنا۔
آیت ٢٦ (وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰہِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ ) ” - حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے نشاندہی کردی گئی کہ ٹھیک اس جگہ پر بیت اللہ کی تعمیر کی جائے۔ غالباً یہ وہی جگہ تھی جہاں حضرت آدم (علیہ السلام) نے بیت اللہ کی تعمیر کی تھی۔ بعد میں سیلاب کی وجہ سے حضرت آدم (علیہ السلام) کی تعمیر شدہ دیواریں گرگئیں اور ان کے آثار بھی ناپید ہوگئے لیکن زمین کے اندر بنیادیں موجود تھیں۔- (اَنْ لَّا تُشْرِکْ بِیْ شَیْءًا وَّطَہِّرْ بَیْتِیَ للطَّآءِفِیْنَ وَالْقَآءِمِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ ) ” (- یہی مضمون سورة البقرۃ کی اس آیت میں بھی آچکا ہے : (وَعَہِدْنَآ اِلآی اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَہِّرَا بَیْتِیَ للطَّآءِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ ” اور عہد لیا ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) سے کہ پاک رکھیں میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘ اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے “۔ دونوں آیات کے الفاظ بھی ملتے جلتے ہیں ‘ صرف یہ فرق ہے کہ سورة البقرۃ میں لفظ ” العٰکِفِیْن “ آیا ہے اور آیت زیر نظر میں اس کی جگہ ” القَاءِمِیْن “ استعمال ہوا ہے۔
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :45 بعض مفسرین نے پاک رکھو پر اس فرمان کو ختم کر دیا ہے جو حضرت ابراہیم کو دیا گیا تھا ، اور حج کے لیے اذن عام دے دو کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مانا ہے ۔ لیکن انداز کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ خطاب بھی حضرت ابراہیم ہی کی طرف ہے اور اسی حکم کا ایک حصہ ہے جو ان کو خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت دیا گیا تھا ۔ علاوہ بریں مقصود کلام بھی یہاں یہی بتانا ہے کہ اول روز ہی سے یہ گھر خدائے واحد کی بندگی کے لیے تعمیر کیا گیا تھا اور تمام خدا پرستوں کو یہاں حج کے لیے آنے کا اذن عام تھا ۔
14: جیسا کہ سورۃ بقرہ : 127 میں گذر چکا ہے، بیت اللہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے تعمیر ہو کر منہدم ہوگیا تھا، اللہ تعالیٰ نے انہٰں وہ جگہ بتائی جہاں بیت اللہ کو دوبارہ تعمیر کرنا منظور تھا۔