27۔ 1 جو چارے کی قلت اور سفر کی دوری اور تھکاوٹ سے لاغر اور کمزور ہوجائیں گے۔ 27۔ 2 یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ مکہ کے پہاڑ کی چوٹی سے بلند ہونے والی یہ نحیف سی صدا، دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئی، جس کا مشاہدہ حج اور عمرے میں ہر حاجی اور معتمر کرتا ہے۔
[٣٥] جب کعبہ کی تعمیر مکمل ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو حکم دیا کہ لوگوں میں اعلان عام کردو کہ وہ حج کے لئے یہاں آئیں۔ حضرت ابراہیم کہنے لگے یہاں میری آواز کون سنے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم اعلان کردو۔ آواز پہنچا دینا میرا کام ہے۔ چناچہ حضرت ابراہیم نے ایک پہاڑ پر کھڑے ہو کر پکارا : لوگو اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے۔ لہذا حج کو آؤ۔ اور اللہ نے یہ آواز ہر اس شخص اور اس روح تک پہنچا دی جس کے لئے حج مقدر تھا اور اس کی روح نے اس اعلان پر لبیک کہا۔- [٣٦] یہاں ضامر کا لفظ استعمال ہوا ہے اور ضامر وہ جانور ہے جو خوراک کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ سدھارنے اور مشن کی کثرت اور کسرت کی وجہ سے دبلا پتلا اور چھریرے بدن والا ہوجائے اور سبک رو، یا سبک خرام ہو تاکہ مقابلہ میں آگے نکل سکے۔ اور جانور بھوک کی کمی کی وجہ سے دبلا ہو اسے عجف کہتے ہیں۔ عرب میں ضامر کا لفظ عموماً اونٹ کے لئے مختص ہوگیا خواہ وہ نر ہو یا مادہ اور اونٹ کا نام بطور خاص اس لیے لیا گیا کہ اس زمانہ میں اور اس علاقہ میں اونٹ ہی آمدورفت اور نقل و حرکت کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔
وَاَذِّنْ فِي النَّاس بالْحَجِّ ۔۔ : حج کا لفظی معنی قصد ہے، مراد اللہ کے گھر کا قصد ہے، اس نیت سے کہ وہ قولی، بدنی اور مالی عبادات ادا کریں گے جو اللہ تعالیٰ نے یہاں مقرر فرمائی ہیں۔ ” رِجَالًا “ ” رَاجِلٌ“ کی جمع ہے، جیسے ” نَاءِمٌ“ کی جمع ” نِیَامٌ“ ہے، یعنی پیدل چلنے والے۔ ” ضَامِرٍ “ سواری کا وہ جانور جسے چارے کی قلت اور سفر نے تھکا کر دبلا کردیا ہو۔ ” فَجٍّ “ دو پہاڑوں کے درمیان کھلے راستے کو کہتے ہیں، مکہ کے راستے میں اکثر پہاڑوں سے گزر ہوتا ہے، اس لیے اس کے راستوں کو ” فَجٍّ “ کہہ دیا ہے۔ ” عَمِيْقٍ “ کا لفظی معنی گہرا ہے، مراد دور کا سفر ہے، دور کی مسافت کو کنویں کی گہرائی سے مشابہت دی ہے۔ پنجابی میں اسے ” ڈونگھے پینڈے “ کہتے ہیں۔ - 3 حج کے اعلان سے پہلے اپنے گھر کو طواف، قیام، رکوع اور سجدہ کرنے کے لیے آنے والوں کی خاطر پاک صاف کرنے کا حکم دیا۔ معلوم ہوا مہمانوں کی آمد سے پہلے گھر کی صفائی ہونی چاہیے۔- 3 اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو کعبہ کی تعمیر کے بعد حکم دیا کہ لوگوں میں حج کا اعلان کرو، وہ تمہارے پاس پیدل اور ان بیشمار سواریوں پر سوار ہو کر آئیں گے، جو بہت گہرے اور دور دراز راستوں کو طے کرتی ہوئی آئیں گی اور سفر کی دوری کی وجہ سے لاغر ہوچکی ہوں گی۔ ” كُلِّ ضَامِرٍ “ سے مراد لاغر سواریوں کی کثرت ہے، کیونکہ ہر لاغر سواری تو مکہ نہیں جاتی۔ عربی میں ” کُلٌّ“ کا لفظ کثرت کے لیے بھی آتا ہے، جیسا کہ عنترہ کے ان شعروں میں ” کُلٌّ“ کا لفظ تین دفعہ کثرت کے معنی میں آیا - جَادَتْ عَلَیْہِ کُلُّ بَکْرَۃِ حَرَّۃٍ- فَتَرَکْنَ کُلَّ قَرَارَۃٍ کَالدِّرْھَمِ- سَحًّا وَ تَسْکَابًا فَکُلَّ عَشِیَّۃٍ- یَجْرِيْ عَلَیْھَا الْمَاءُ لَمْ یَتَصَرَّمِ- (ابن عاشور) - ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ اعلان کیسے کیا ؟ اس کے متعلق تفسیر ابن کثیر میں ہے : ” جب اللہ تعالیٰ نے حج کی دعوت کے لیے اعلان کرنے کا حکم دیا تو ذکر کیا جاتا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کی، پروردگار میں لوگوں تک یہ پیغام کیسے پہنچاؤں، میری تو آواز ہی ان تک نہیں پہنچے گی ؟ فرمایا، تم منادی کرو، پیغام پہنچانا ہمارا کام ہے۔ تو آپ نے اپنے مقام پر، بعض نے کہا پتھر پر، بعض نے کہا صفا پر اور بعض نے کہا جبل ابی قبیس پر کھڑے ہو کر اعلان کیا : ” لوگو تمہارے رب نے گھر بنایا ہے، تم اس کا حج کرو۔ “ کہا جاتا ہے کہ پہاڑ جھک گئے، حتیٰ کہ یہ آواز زمین کے کناروں تک پہنچ گئی اور جو ماؤں کے شکم یا باپوں کی پشت میں تھے ان کے کانوں میں بھی پہنچ گئی۔ ہر پتھر، اینٹ یا درخت جس نے اسے سنا اس نے بھی اور جس شخص کے متعلق اللہ نے قیامت تک حج کرنا لکھا تھا، سب نے جواب میں کہا : ” لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ “ یہ ان روایتوں کا مضمون ہے جو ابن عباس، مجاہد، عکرمہ، سعید بن جبیر اور کئی ایک سلف سے آئی ہیں۔ (واللہ اعلم) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے انھیں پورے طول سے نقل کیا ہے۔ “ - ابن کثیر (رض) کے بیان سے ظاہر ہے کہ اس کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی بات مروی نہیں، اوپر نقل کردہ روایات میں ” ذکر کیا جاتا ہے “ ، ” بعض نے کہا “ ، ” کہا جاتا ہے “ اور ” واللہ اعلم “ کے الفاظ ابن کثیر کی ان روایات کی صحت میں تردد کو ظاہر کر رہے ہیں۔ تابعین نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اس اعلان کے وقت وہاں موجود نہیں تھے اور نہ انھوں نے اپنا ذریعہ بتایا ہے۔ رہی ابن عباس (رض) کی روایت تو اس کے متعلق تفسیر ابن کثیر کے محقق دکتور حکمت بن بشیر لکھتے ہیں کہ اسے ابن ابی شیبہ (مصنف : ١١؍٥١٨) اور حاکم (المستدرک : ٢؍٣٨٨) دونوں نے جریر عن قابوس عن ابیہ عن ابن عباس کے طریق سے مختصراً بیان کیا ہے، حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے، لیکن قابوس ” لَیِّنُ الْحَدِیْثِ “ (کمزور حدیث والا) ہے، جیسا کہ تقریب میں ہے۔ ابن عباس (رض) سے یہ روایت ثابت بھی ہو تو معلوم نہیں انھوں نے یہ کہاں سے لی ہے ؟ کیونکہ نہ خود اس وقت موجود تھے اور نہ انھوں نے اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے ابراہیم (علیہ السلام) کی آواز ساری دنیا اور تمام ارواح تک پہنچانا کچھ مشکل نہیں، مگر یہ بات کسی معتبر طریقے سے ثابت ہونا ضروری ہے۔ ابن عاشور (رض) لکھتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) ” رَحَّالَۃٌ“ تھے، یعنی بہت سفر کیا کرتے تھے، چناچہ انھوں نے حسب استطاعت اس حکم پر عمل کیا اور ہر اس مقام پر حج کا اعلان کیا جہاں وہ اپنے سفروں کے دوران گزرے یا پہنچے۔ پھر ان کے بعد ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ اعلان فرمایا، اب دنیا کا کوئی کونا ایسا نہیں جہاں یہ اعلان نہ پہنچا ہو اور جہاں سے لوگ سفر کرکے حج کے لیے نہ پہنچتے ہوں۔ سعودی حکومت کا اندازہ ہے کہ دس پندرہ سال تک حاجیوں کی تعداد سالانہ ایک کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ سارا سال عمرہ کے لیے آنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ” يَاْتُوْكَ رِجَالًا “ (تیرے پاس آئیں گے) سے معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) ہر سال حج کے موقع پر خود وہاں موجود ہوتے تھے، یا مراد ہے کہ حج پر جانے والا ہر شخص ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت پر گویا انھی کے پاس جاتا ہے۔
تیسرا حکم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ دیا گیا کہ وَاَذِّنْ فِي النَّاس بالْحَجِّ ، یعنی لوگوں میں اعلان کر دیجئے کہ اس بیت اللہ کا حج تم پر فرض کردیا گیا ہے۔ بغوی۔ ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو فرضیت حج کے اعلان کا حکم ہوا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ (یہاں تو جنگلی میدان ہے کوئی سننے والا نہیں) جہاں آبادی ہے وہاں میری آواز کیسے پہنچے گی ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کی ذمہ داری صرف اعلان کرنے کی ہے اس کے ساری دنیا میں پہنچانے اور پھیلانے کی ذمہ داری ہم پر ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے مقام ابراہیم پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا جس کو اللہ تعالیٰ نے بہت اونچا کردیا اور بعض روایات میں ہے کہ آپ نے جبل ابی قبیس پر چڑھ کر یہ اعلان کیا، کانوں میں انگلیاں رکھ کر داہنے اور بائیں اور شرقاً و غرباً ہر طرف یہ ندا دی کہ اے لوگو تمہارے رب نے اپنا بیت بنایا ہے اور تم پر اس بیت کا حج فرض کیا ہے تو تم سب اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرو۔ - اس روایت میں یہ بھی ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ آواز اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میں پہنچا دی اور صرف اس وقت کے زندہ انسانوں تک ہی نہیں بلکہ جو انسان آئندہ تا قیامت پیدا ہونے والے تھے بطور معجزہ ان سب تک یہ آواز پہنچا دی گئی اور جس جس کی قسمت میں اللہ تعالیٰ نے حج کرنا لکھ دیا ہے ان میں سے ہر ایک نے اس آواز کے جواب میں لبیک اللہم لبیک کہا یعنی حاضر ہونے کا اقرار کیا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ حج کے تلبیہ کی اصل بنیاد یہی ندا ابراہیمی کا جواب ہے۔ (قرطبی و مظہری)- آگے آیت میں اس تاثیر کا ذکر ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کے اعلان کو تمام انسانوں تک منجانب اللہ پہنچانے سے قیامت تک کے لئے قائم ہوگئی وہ یہ ہے يَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّعَلٰي كُلِّ ضَامِرٍ يَّاْتِيْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ ، یعنی اطراف عالم سے لوگ بیت اللہ کی طرف چلے آویں گے کوئی پیادہ کوئی سوار، اور سواری سے آنے والے بھی دور دراز ملکوں سے آئیں گے جس سے ان کی سواریاں بھی لاغر ہوجائیں گی۔ چناچہ اس وقت سے آج تک کہ ہزارہا سال گزر چکے ہیں بیت اللہ کی طرف حج کے لئے آنے والوں کی یہی کیفیت ہے۔ بعد میں آنے والے سب انبیاء اور ان کی امتیں بھی اس کی پابند رہیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد طویل دور جاہلیت کا گزرا ہے اس میں بھی عرب کے باشندے اگرچہ بت پرستی کی بلاء میں مبتلا ہوگئے تھے مگر حج کے ارکان کے اسی طرح پابند تھے جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) سے منقول و ماثور چلا آتا تھا۔
وَاَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّعَلٰي كُلِّ ضَامِرٍ يَّاْتِيْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ ٢٧ۙ- اذن ( تأذين)- : كل من يعلم بشیءٍ نداءً ، قال عالی: ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ [يوسف 70] ، فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ [ الأعراف 44] ، وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ [ الحج 27] اذنتہ بکذا او اذنتہ کے ایک معنی ہیں یعنی اطلاع دینا اور اعلان کرنا اور اعلان کرنے والے کو مؤذن کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ ( سورة يوسف 70) تو ایک پکارنے والے نے آواز دی کہ اے قافلے والو ۔ فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ ( سورة الأَعراف 44) تو اس وقت ان ایک پکارنے والا پکارا دیگا ۔ وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ ( سورة الحج 27) اور لوگوں میں حج کے لئے اعلان کردو ۔- حج - أصل الحَجِّ القصد للزیارة، قال الشاعریحجّون بيت الزّبرقان المعصفراخصّ في تعارف الشرع بقصد بيت اللہ تعالیٰ إقامة للنسک، فقیل : الحَجّ والحِجّ ، فالحَجُّ مصدر، والحِجُّ اسم، ويوم الحجّ الأكبر يوم النحر، ويوم عرفة، وروي : «العمرة الحجّ الأصغر» - ( ح ج ج ) الحج ( ن ) کے اصل معنی کسی کی زیارت کا قصد اور ارادہ کرنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (99) یحجون سب الزیتون المعصفرا وہ زبر قان کے زر رنگ کے عمامہ کی زیارت کرتے ہیں ۔ اور اصطلاح شریعت میں اقامت نسک کے ارادہ سے بیت اللہ کا قصد کرنے کا نام حج ہے ۔ الحج ( بفتح الما) مصدر ہے اور الحج ( بکسرالحا) اسم ہے اور آیت کریمہ :۔ ويوم الحجّ الأكبر يوم میں حج اکبر سے مراد یوم نحر یا یوم عرفہ ہے ۔ ایک روایت میں ہے :۔ العمرۃ الحج الاصغر عمر حج اصغر ہے ۔- رِّجْلُ- : العضو المخصوص بأكثر الحیوان، قال تعالی:- وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة 6] ، واشتقّ من الرِّجْلِ رَجِلٌ ورَاجِلٌ للماشي - بالرِّجْل، ورَاجِلٌ بيّن الرُّجْلَةِ «1» ، فجمع الرَّاجِلُ رَجَّالَةٌ ورَجْلٌ ، نحو : ركب، ورِجَالٌ نحو : رکاب لجمع الرّاكب . ويقال : رَجُلٌ رَاجِلٌ ، أي : قويّ علی المشي، جمعه رِجَالٌ ، نحو قوله تعالی:- فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة 239] ، الرجل ۔ پاؤں ۔ اس کی جمع ارجل آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة 6] اپنے سروں کا مسح کرلیا کرو اور اپنے پاؤں بھی ٹخنوں تک دھو لیا کرو ۔ راجل ورجل پا پیادہ چلنے والا یہ بھی الرجل بمعنی پاؤں سے مشتق ہے اور راجل کی جمع رجالۃ اور رجل آتی ہے جیسے رکب جو کہ راکب کی جمع ہے اور راجل کی جمع رجال بھی آجاتی ہے جیسے راکب ورکاب ۔ اور رجل راجل اسے کہتے ہیں جو چلنے پر قدرت رکھتا ہو اس کی جمع رجال آجاتی ہے قرآن میں ہے : ۔ فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة 239] تو پاؤں پیدل یا سوار ۔- ضمر ( ضمیر)- الضَّامِرُ من الفرس : الخفیف اللّحم من الأعمال لا من الهزال . قال تعالی: وَعَلى كُلِّ ضامِرٍ- [ الحج 27] ، يقال : ضَمَرَ ضُمُوراً «2» ، واضْطَمَرَ فهو مُضْطَمِرٌ ، وضَمَّرِّتُهُ أنا، والمِضْمَارُ : الموضع الذي يُضْمَرُ فيه . والضَّمِيرُ : ما ينطوي عليه القلب، ويدقّ علی الوقوف عليه، وقد تسمّى القوّة الحافظة لذلک ضَمِيراً.- ( ض م ر ) الضامر اس چھر یرے گھوڑے کو کہتے ہیں جس کا دبلا پن لاغری کی وجہ سے نہ ہو بلکہ اس ریا ضت کی وجہ سے ہو جو سدھا نے کے لئے اس سے کرائی جاتی ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَعَلى كُلِّ ضامِرٍ [ الحج 27] دبلی سواریوں پر ۔ ضمر ضمورا واضتمر فھو مضتمیر کے معنی لاغر ہوجانا کے ہیں اور ضمرتہ کے معنی لاغر کردینا کے ۔ المضمار ( گھوڑ دوڑ کا میدان جہاں گھوڑوں کو دوڑانے کی مشق کرائی جاتی ہے ۔ الضمیر وہ بات جو تمہارے دل میں ہو اور اس پر اطلاع پانا دشوار ہو اسی وجہ سے کبھی ضمیر کا لفظ قوت حافظہ پر بھی بولاجاتا ہے ۔- فجج - الفَجُّ : شُقَّةٌ يکتنفها جبلان، ويستعمل في الطّريق الواسع، وجمعه فِجَاجٌ. قال : مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ [ الحج 27] ، فِيها فِجاجاً سُبُلًا[ الأنبیاء 31] . والفَجَجُ : تباعد الرّکبتین، وهو أَفَجُّ بيّن الفجج، ومنه : حافر مُفَجَّجٌ ، وجرح فَجٌّ: لم ينضج .- ( ف ج ج ) الفج دو پہاڑوں کے درمیان کشادگی کو کہتے ہیں اس کے بعد وسیع راستہ کے معنی میں استعمال ہونا لگا ہے ۔ اس کی جمع فجاج ہے قرآن میں ہے : مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ [ الحج 27] دور ( دراز ) راستوں سے ۔ فِيها فِجاجاً سُبُلًا[ الأنبیاء 31] اسمیں کشادہ رستے الگ انسان کے دونوں گھنٹوں میں کشادگی ہونا اور ایسے آدمی کو جس کے گھنٹوں میں کشادگی ہو افج کہتے ہیں ۔ اسی سے حافر مفج سے یعنی وہ گھوڑا جس کی ٹانگوں کے درمیان کشادگی ہو اور خام زخم کو جوج فیج کہ جاتا ہے ۔- عمق - قال تعالی: مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ [ الحج 27] ، أي : بعید . وأصل العُمْقِ : البعد سفلا، يقال : بئر عَمِيقٌ ومَعِيقٌ «5» : إذا کانت بعیدة القعر .- ( ع م ق ) العمق ۔ دراصل اس کے معنی نیچے کی طرف دوری یعنی گہرائی کے ہیں اس لئے بہت گہرے کنویں کو بئر عمیق ومعیق کہا جاتا ہے ۔ ( راستے کی صفت ہو تو اس کے معنی دور رداز راستہ کے ہوتے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ [ الحج 27] دور رداز راستے سے ۔
فرضیت حج - قول باری ہے (واذن فی الناس بالحج اور لوگوں کو حج کے لئے اذن عام دے دو ۔ ) معمر نے لیث سے اور انہوں نے مجاہد سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ اس حکم پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا۔” باری تعالیٰ میں انہیں کس طرح حج کے لئے بلائوں ؟ “ حکم ہوا ۔” یہ اعلان کرو، لوگو حاضر ہو جائو، لوگو حاضر ہو جائو۔ “ اسی سے تلبیہ لبیک اللھم لبیک بنا۔ عطاء بن الصائب نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت کی ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ کی تعمیر مکمل کرلی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیج کر لوگوں کو حج کے لئے بلانے کو کہا۔ چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ اعلان کیا۔” لوگو تمہارے رب نے عبادت کے لئے ایک گھر بنادیا ہے اور تمہیں اس کے حج کا حکم دیا ہے۔ “ حضرت ابراہیم ع لیہ السلام کی اس آواز کو سج چی نے بھی سنا خواہ وہ چٹان تھی یا درخت یا ٹیلہ تھا یا مٹی کا ڈھیر یا کوئی اور چیز سب نے اس پکار کے جواب میں ” لبیک اللھم لبیک کہا۔ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس وقت ہی حج کی فرضیت ہوگئی تھی۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو حج کے لئے بلائیں۔ اللہ کا یہ حکم وجوب پر محمول ہوا تھا۔ اب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حج کی فرضیت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تک باقی رہی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ بعض انبیاء کے ذریعے اس کی فرضیت منسوخ کردی گئی ہوتا ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعقل یہ مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت سے قبل دو مرتبہ حج کیا تھا اور ہجرت کے بعد ایک مرتبہ حجتہ الوداع ادا کیا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ حج کے دوران بہت سے ایسے افعال کرتے تھے جو انہوں نے اپنے طور پر درست افعال کے ساتھ خلط ملط کردیئے تھے۔ ان کا تلبیہ بھی مشرکانہ تھا۔ حج کی وہ فرضیت جس کا حکم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے میں آگیا تھا اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تک باقی تھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعثت کے بعد ہجرت سے پہلے جو دو حج کئے تھے ان میں پہلا حج فرض کے طور پر کیا گیا تھا۔ اگر حج کی فرضیت بعض انبیاء کی زبانی منسوخ کردی گئی تھی تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اسے فرض کردیا تھا چناچہ ارشاد ہے (وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا ۔ لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے)- ایک قول کے مطابق اس آیت کا نزول 9 ھ میں ہوا تھا۔ ایک قول کے مطابق 10 ھ ہوا تھا۔ یہ وہی سال ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج ادا کیا تھا یہ بات زیادہ درست ہے اس لئے کہ ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ آپ نے فرض حج کی ادائیگی میں اس کے مقررہ وقت سے تاخیرکر دی ہوگی اس لئے کہ آپ اللہ کے حکم کی تعمیل میں تمام لوگوں سے بڑھ کر شد و مد سے کام لینے والے اور ادائے فرض میں سب سے آگے نکل جانے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء سابقین کا ذکر کرتے ہوئے ان کی اس بنا پر تعریف کی ہے کہ وہ نیکیوں کی طرف سبقت کرتے تھے۔ چناچہ ارشاد ہے گا نو ایسارعون فی الخیرات و یدعوننا رغباً و رھباً وکانوا لنا خاشعین ۔ وہ نیک کاموں میں دوڑنے والے تھے اور ہمیں شوق اور خوف کے ساتھ پکارتے رہتے تھے اور ہمارے سامنے دب کر رہتے تھے) اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیک کاموں میں مسابقت کے لحاظ سے انبیائے سابقین سے کسی طرح پیچھے رہنے والے نہیں تھے بلکہ اس معاملہ میں آپ کا درجہ ہر نبی کے درجے سے بڑھ کر تھا۔ اس لئے کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) پر آپ کو فضیلت حاصل تھی اور نبوت کے اندر آپ کا درجہ سب سے بلند تھا اس بنا پر یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ نے جواب کے وقت سے حج کی ادائیگی کو مئوخر کردیا ہو۔ خاص طور پر جب کہ آپ نے دوسروں کو اس کی ادائیگی میں تعجیل کا حکم دیا ہے چناچہ حضرت ابن عباس نے آپ سے یہ روایت کی ہے کہ (من ادا دالحج فلیستعجل جو شخص حج کا ارادہ کرلے اسے اس کی ادائیگی میں تعجیل کرنی چاہیے۔ )- اب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس سے یہ بات بالکل بعید تھی کہ آپ دوسروں کو تو حج کی ادائیگی میں تعجیل کا حکم دیں اور خود اس کی ادائیگی کو اس کے وجوب کے وقت سے مئوخر کردیتے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کی ادائیگی کو اس کے وجوب کے وقت سے موخر نہیں کیا تھا۔ اگر حج کی فرضیت قول باری (وللہ علی الناس حج البیت) کی بنا پر ہوئی ہے تو اس آیت کے نزول کی تاریخ یا تو 9 ھ ہے یا 10 ھ اگر پہلی بات ہے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک عذر کی بنا پر اس کی ادائیگی میں تاخیر کردی تھی۔ وہ عذ ر یہ تھا کہ اس سال حج اس وقت واقع ہوا تھا جس میں عرب کے لوگ نسئی یعنی حج کے مہینوں کو آگے پیچھے کر کے اس کی ادائیگی کرتے تھے جس کی بنا پر حج اپنے درست وقت پر ادا نہیں ہوتا تھا۔ 9 ھ میں بھی اتفاق سے یہی صورت حال تھی اور حج اپنے اس اصل وقت میں ادا نہیں ہو رہا تھا جس میں اللہ نے اس کی ادائیگی فرض کی تھی۔ اس عذر کی بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سال اس کی ادائیگی موخر رکھی تاکہ اگلے سال آپ کا حج ٹھیک اسی وقت ادا ہو جس میں اللہ تعالیٰ نے اس کی ادائیگی فرض کی تھی۔ تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ اس میں شریک ہو کر آپ کی اقتدا کریں۔ اگر آیت کا زمانہ نزول 10 ھ ہے تو پھر یہ وہی سال ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فریضہ حج ادا فرمایا تھا۔ اگر حج کا فریضہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے سے آپ کی بعثت تک باقی رہا تھا تو اس صورت میں آپ نے اپنی بعثت کے بعد اور ہجرت سے قبل پہلی مرتبہ جو حج کیا تھا وہ فرض حج کی ادائیگی تھی اس کے سوا باقی ماندہ تمام حج نفل کے طور پر ادا ہوئے تھے ان دونوں صورتوں میں یہ بات ثابت نہیں ہوگی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کی فرضیت کے بعد پہلی فرصت میں اس کی ادائیگی میں تاخیر کردی تھی۔ - پیدل حج کرنے کا بیان - موسیٰ بن عبیدہ نے محمد بن کعب سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا ” مجھے کسی چیز کی حسرت نہیں صرف ایک چیز کی تمنا ہے کہ مجھے پیدل حج کرنے کا موقع مل جاتا اس لئے کہ ارشاد باری ہے (یاتوک رجالاً وہ تمہارے پاس پیدل آئیں گے) ابن ابی نجیع نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) نے پیدل حج کیا۔ القاسم بن الحکم العرنی نے عبید اللہ الرصافی سے انہوں نے عبداللہ بن عتبہ بن عمیر سے کہ حضرت ابن عباس سے فرمایا : مجھے ایک چیز کے سوا کسی چیز کا افسوس نہیں جو میری جوانی میں مجھ سے رہ گئی تھی اور وہ یہ کہ میں نے پیدل حج ادا نہیں کیا حسن بن عل ی نے پچیس مرتبہ مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ تک پیدل چل کر حج کیا جبکہ سواریوں کے عمدہ جانور ان کے ساتھ ہوتے، انہوں نے تین مرتبہ اللہ کے ساتھ اپنا مال آدھا آدھا تقسیم کرلیا تھا۔ وہ اپنے ایک پائوں اپنے لئے رکھ لیتے اور ایک دے دیتے۔ “ عبدالرزاق نے عمرو بن زر سے اور انہوں نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ لوگ حج پر جاتے تو سواریوں پر سوار نہ ہوتے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (یاتوک رجالاً و علی کل ضا مریا تین من کل فج عمیق کہ وہ تمہارے پاس ہر دور و دراز کے مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں۔- ابن جریج نے روای ت کی ہے، انہیں العلاء نے بیان کیا کہ میں نے محمد بن علی کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ حضرت حسن بن علی حج کا سفر پیدل کرتے اور سواریوں کے جانوران کے ساتھ چلتے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (یاتوک رجالاً و علی کل ضامر) اس امر کا مقتضی ہے کہ حج کے لئے پیدل اور سواری کے ذریعہ سفر کی اباحت ہے۔ آیت میں اس امر پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے کہ ان میں افضل کو نسی صورت ہے۔ تاہم سلف سے جو روایتیں ہم نے نقل کی ہیں کہ انہوں نے پیدل حج کو پسند کیا تھا۔ نیز یہ کہ ان حضرات نے آیت کی بھی یہی تاویل کی تھی یہ دونوں چیزیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ پیدل حج افضل ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک روایت منقول ہے جو ا سامر کی مزید وضاحت کرتی ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر کی والدہ نے بیت اللہ تک پیدل سفر کی نذر مان لی اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں سوار ہو کر سفر کرنے اور اپنی نذر کے بدلے قربانی دینے کا حکم دیا یہ رویت اس پر دلالت کرتی ہے کہ پیدل چلنا بھی تقرب الٰہی کا ذریعہ تھا اور اسے عبادت شمار کیا جاتا تھا ۔ عذر کی وجہ سے یہ عبادت ان پر لازم ہوگئی تھی۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے ترک پر یک ہدی یعنی قربانی کا جانور واجب نہ کردیتے۔ قول باری (یاتین من کل نج عمیق) کی تفسیر میں جویبر سے ضحاک سے روایت کی ہے کہ اس سے ” بلد بعید “ یعنی دور دراز مقام مراد ہے۔ قتادہ کا قول ہے دور دراز مکان “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ فج راستے کو کہتے ہیں۔ گویا اللہ نے یہ فرمایا کہ وہ لوگ جو دور دراز رستہ طے کر کے آئیں۔ بعض اہل لغت کا قول ہے کہ عمق اس طوالت کو کہتے ہیں جو سطح زمین دور تک چلی گئی ہو اور سا گہرائی کو بھی جو زمین کے اندر تک چلی گئی ہو ۔ رئو بہ کا مصرعہ ہے۔- ع وقاتم اعماق خاوی المخترق - اور ایسا رساتہ جو سخت گرد و غبار والا ہے اور زمین میں دور تک چلا گیا ہے اس گزر گاہ پر کوئی چلنے والا نہیں ہے۔- شاعر نے یہاں عمق سے وہ دوری مراد لی ہے جو سطح زمین پر راستے کی شکل میں ہوتی ہے اس سے عمیق دور دراز کو کہیں گے کیونکہ سطح زمین پر یہ دور تک چلی جاتی ہے۔ - ایک شاعر کا مصرعہ ہے۔- ع یقطعن بعد النازح العمیق - یہ اونٹنیاں ایک دور دراز فاصلے کو قطع کرتی ہیں۔- یہاں شاعر نے عمیق سے بعید یعنی دور دراز مراد لی ہے۔ ام حکیم بنت امیہ نے ام المومنین حضرت ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا۔” میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوء یسنا تھا کہ (من اھل بالمسجد الا قصی بعمرۃ او بحجۃ غفرلہ ما تقدم من ذنبہ جس شخص نے مسجد اقصی سے حج یا عمرے کا احرام باندھ لیا اس کے پچھلے تما مگناہ معاف ہوگئے) ابو اسحق نے اسود سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن مسعود نے کوفہ سے عمرے کا احرام باندھا تھا۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ انہوں نے سردیوں میں شام کے علاقے سے احرام باندھ لیا تھا۔ حضرت ابن عمر نے بیت مقدس سے اور حضرت عمران بن حصین نے بصرہ سے احرام باندھا تھا۔ عمرو بن مرہ نے عبداللہ بن سلمہ سے روایت کی ہے کہ حضرت علی سے قول باری (واتموا الحج والعمرۃ للہ اور اللہ کے لئے حج اور عمرہ پورا کرو) کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا۔” یہ کہ تم اپنے گھر سے ہی ان دونوں کے لئے احرام باندھ لو۔ ” حضرت عمر نیز حضرت علی کا قول ہے۔ میرے خیال میں عمرہ کرنے والا جس جگہ سے چلتا ہے اسے وہیں سے احرام باندھنا چاہیے۔ “ مکحول سے منقول ہے کہ حضرت ابن عمر سے پوچھا گیا کہ ایک شخص سمر قند یا خراسان یا بصرہ یا کوفہ سے احرام باندھتا ہے اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟ حضرت ابن عمر نے جواب میں فرمایا :” کاش ہم اس مقا مپر جو ہمارے لئے میقات کے طور پر مقرر کیا گیا ہو اسلام لاتے۔ “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس روایت میں حضرت ابن عمر نے مذکورہ بالا مقامات سے احرام باندھ لینے کو مسافت کی طوالت کی بن اپر ناپسند نہیں کیا بلکہ اس بنا پر ناپسند کیا کہ احرام باندھنے والا کہیں خلاف احرام کوئی فعل نہ کر بیٹھے۔ - حج کے اندر تجارت کرنے کا بیان - قول باری ہے (لیشھد وا منافع لھم تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو ان کے لئے یہاں رکھے گئے ہیں) ابن ابی نجیع نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ اس سے تجارت مراد ہے۔ نیز وہ تمام امور مراد ہیں جن کا دنیا اور آخرت سے تعلق ہوتا ہے۔ عاصم بن ابی النجود نے ابو ر زین سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ منافع سے وہ منڈیاں مراد ہیں جو لگا کرتی تھیں، منافع کا ذکر صرف دنیا کے سلسلے میں ہوتا ہے۔ ابو جعفر سے مروی ہے کہ منافع سے مغفرت اور بخشش مراد ہے۔- اصل مقصود دینی منافع ہیں دنیاوی منافع بالتبع ہیں - ابوبکر جصاص کہتے ہیں ظاہر آیت اس امر کا موجب ہے کہ اس میں منافع دین مراد ہیں اگرچہ تجارت مراد لینا بھی جائز ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (واذن فی الناس بالحج یا توک رجالاً و علی کل ضامر یا تین من کل فج عمیق لیشھدوا منا فع لھم) یہ قول باری اس چیز کا مقتضی ہے کہ لوگوں کو بلایا گیا اور حج کا حکم دیا گیا تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے ان فوائد کا مشاہدہ کریں جو ان کے لئے رکھے گئے ہیں اب یہ بات محال ہے کہ اس سے صرف دنیاوی فوائد مراد لئے جائیں اس لئے کہ اگر یہ بات ہوتی تو حج کے لئے لوگوں کو بلانا دنیاوی منافع کی خاطر ہوتا حالانکہ حج نام ہے طواف وسعی کا، وقوف عرفات و مزدلفہ کا اور قربانی کے جانوروں کو ذبح کرنے اور دیگر مناسک کا۔ ان امور میں دنیاوی منافع بالتیع داخل ہیں اور دنیاوی منافع اٹھانے کی رخصت اور اجازت ہے یہ بات نہیں کہ دنیاوی منافع ہی مقصود بالحج ہیں۔ ارشاد باری ہے۔ (لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلاً من ربکم۔ تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو) اس آیت میں حج کے دوران تجارت کی رخصت و اجازت عطا کردی گئی ہے۔ اس سلسلے میں روایات کا ذکر ہم نے سورة بقرہ کی تفسیر کے موقع پر کردیا ہے۔
(٢٧) اور اپنی اولاد میں حج کی فرضیت کا اعلان کر دو ، اس اعلان سے لوگ تمہارے پاس چلے آئیں گے، پیدل بھی اور جو اونٹنیاں سفر کی وجہ سے دبلی ہوگئی ہیں ان پر سوار ہو کر جو کہ دور دراز رستوں سے پہنچی ہوں گی۔- شان نزول : ( آیت) ” وعلی کل ضامر “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ حج کے زمانہ میں لوگ سواری پر سوار نہیں ہوتے تھے، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی یعنی لوگ تمہارے پاس چلے آئیں گے پیادہ بھی اور کمزور اونٹنیوں پر بھی سوار ہونے اور کرایہ پر سواری کرنے کی اجازت دی۔
آیت ٢٧ (وَاَذِّنْ فِی النَّاس بالْحَجِّ ) ” - اس حکم کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کیسے اعلان کیا ہوگا ‘ کس طرح لوگوں کو پکارا ہوگا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اس پیغام اور پکار کو کہاں کہاں تک پہنچایا ہوگا ‘ یہ معاملہ اللہ اور ان کے درمیان ہے۔- (یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ ) ” - پہاڑوں کے درمیان کے راستہ کو ” فَجّ “ کہتے ہیں۔ اس سے مکہ کی مضافاتی وادیوں اور گھاٹیوں کی طرف اشارہ ہے کہ آپ ( علیہ السلام) کی اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے دور و نزدیک سے لوگ آئیں گے۔ ان میں پیدل بھی ہوں گے اور سوار بھی۔ وہ دورو نزدیک کے گہرے پہاڑی راستوں کو عبور کرتے ہوئے یہاں پہنچیں گے۔ لاغر اونٹنیوں کے ذکر سے دور دراز کے سفر مراد ہیں کہ طویل سفر کی وجہ سے ان کی اونٹنیاں لاغر ہوچکی ہوں گی۔
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :46 اصل میں لفظ : ضامر ، استعمال ہوا ہے جو خاص طور پر دبلے اونٹوں کے لیے بولتے ہیں ۔ اس سے ان مسافروں کی تصویر کھینچنا مقصود ہے جو دور دراز مقامات سے چلے آ رہے ہوں اور راستے میں ان کے اونٹ چارہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے دبلے ہو گئے ہوں ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :47 یہاں وہ حکم ختم ہوتا ہے جو ابتداءً حضرت ابراہیم کو دیا گیا تھا ، اور آگے کا ارشاد اس پر اضافہ ہے جو بطور تشریح مزید کیا گیا ہے ۔ ہماری اس رائے کی وجہ یہ ہے کہ اس کلام کا خاتمہ اس قدیم گھر کا طواف کریں پر ہوا ہے ، جو ظاہر ہے کہ تعمیر خانہ کعبہ کے وقت نہ فرمایا گیا ہو گا ۔ ( حضرت ابراہیم کی تعمیر خانہ کعبہ کے متعلق مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو ، سورہ بقرہ ، آیات 125 ۔ 129 ۔ آل عمران ، آیات 96 ۔ 97 ۔ ابراہیم ، آیات 35 ۔ 41 ) ۔