Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

دنیا اور آخرت کے فائدے دنیا اور آخرت کے فوائد حاصل کرنے کے لئے آئیں ۔ اللہ کی رضا کے ساتھ ہی دنیاوی مفاد تجارت وغیرہ کا فائدہ اٹھائیں ۔ جیسے فرمایا آیت ( لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ ۭ فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۠ وَاذْكُرُوْهُ كَمَا ھَدٰىكُمْ ۚ وَاِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّاۗلِّيْنَ ١٩٨؁ ) 2- البقرة:198 ) موسم حج میں تجارت کرنا ممنوع نہیں ۔ مقررہ دنوں سے مراد ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کسی دن کا عمل اللہ کے نزدیک ان دنوں کے عمل سے افضل نہیں ۔ لوگوں نے پوچھا جہاد بھی نہیں ؟ فرمایا جہاد بھی نہیں ، بجز اس مجاہد کے عمل کے جس نے اپنی جان ومال اللہ کی راہ میں قربان کردیا ہو ( صحیح بخاری ) میں نے اس حدیث کو اس کی تمام سندوں کے ساتھ ایک مستقل کتاب میں جمع کردیا ہے ۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کسی دن کا عمل اللہ کے نزدیک ان دنوں سے بڑا اور پیارا نہیں پس تم ان دس دنوں میں لا الہ اللہ اور الحمد اللہ بکثرت پڑھا کرو ۔ انہی دنوں کی قسم آیت ( ولیال عشر ) کی آیت میں ہے ۔ بعض سلف کہتے ہیں آیت ( وَوٰعَدْنَا مُوْسٰي ثَلٰثِيْنَ لَيْلَةً وَّاَتْمَمْنٰهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيْقَاتُ رَبِّهٖٓ اَرْبَعِيْنَ لَيْلَةً ١٤٢؁ ) 7- الاعراف:142 ) سے بھی مراد یہی دن ہیں ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان دنوں بازار میں آتے اور تکبیر پکارتے ، بازار والے بھی آپ کے ساتھ تکبیر پڑھنے لگتے ۔ ان ہی دس دنوں میں عرفہ کا دن ہے جس دن کے روزے کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ گذشتہ اور آئندہ دوسال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ( صحیح مسلم شریف ) ان ہی دس دنوں میں قربانی کا دن یعنی بقرعید کا دن ہے جس کا نام اسلام میں حج اکبر کا دن ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے نزدیک یہ سب دنوں سے افضل ہے ۔ الغرض سارے سال میں ایسی فضیلت کے دن اور نہیں جیسے کہ حدیث شریف میں ہے ۔ یہ دس دن رمضان شریف کے آخری دس دنوں سے بھی افضل ہیں ۔ کیونکہ نماز روزہ صدقہ وغیرہ جو رمضان کے اس آخری عشرے میں ہوتا ہے وہ سب ان دنوں میں بھی ہوتا ہے مزید برآں ان میں فریضہ حج ادا ہوتا ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ رمضان شریف کے آخری دن افضل ہیں کیونکہ انہیں میں لیلۃ القدر ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ تیسرے قول درمیانہ ہے کہ دن تو یہ افضل اور راتیں رمضان المبارک کے آخری دس دنوں کی افضل ہیں ۔ اس قول کے مان لینے سے مختلف دلائل میں جمع ہوجاتی ہیں واللہ اعلم ۔ ایام معلومات کی تفسیر میں ایک دوسرا قول یہ ہے کہ یہ قربانی کا دن اور اس کے بعد کے تین دن ہیں ۔ حضرت ابن عمر اور ابراہیم نخعی رحمتہ اللہ علیہ سے یہی مروی ہے اور ایک روایت سے امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب بھی یہی ہے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ بقرہ عید اور اس کے بعد کے دو دن ۔ اور ایام معدودات سے بقرہ عید اور اس کے بعد کے تین دن ۔ اس کی اسناد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک صحیح ہے ۔ سدی رحمتہ اللہ علیہ بھی یہی کہتے ہیں امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے اور اس کی اور اس سے پہلے کے قول کی تائید فرمان باری آیت ( عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ 28؀ۡ ) 22- الحج:28 ) سے ہوتی ہے کیونکہ اس سے مراد جانوروں کی قربانی کے وقت اللہ کا نام لینا ہے ۔ چوتھا قول یہ ہے کہ یہ عرفے کا دن بقرہ عید کا دن اور اس کے بعد کا ایک دن ہے امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب یہی ہے ۔ حضرت اسلم سے مروی ہے کہ مراد یوم نحر اور ایام تشریق ہیں بہیمتہ الانعام سے مراد اونٹ گائے اور بکری ہیں ۔ جیسے سورۃ الانعام کی آیت ( ثَمٰنِيَةَ اَزْوَاجٍ ۚ مِنَ الضَّاْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ ۭقُلْ ءٰۗالذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَيَيْنِ اَمَّا اشْـتَمَلَتْ عَلَيْهِ اَرْحَامُ الْاُنْثَيَيْنِ ۭ نَبِّـــــُٔـوْنِيْ بِعِلْمٍ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ١٤٣؀ۙ ) 6- الانعام:143 ) میں مفصل موجود ہے ۔ لیکن یہ قول غریب ہے ۔ اکثر بزرگوں کا مذہب ہے کہ یہ رخصت ہے یا استحباب ہے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قربانی کی تو حکم دیا کہ ہر اونٹ کے گوشت کا ایک ٹکڑا نکال کر پکالیا جائے پھر آپ نے وہ گوشت کھایا اور شوربا پیا ۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں اسے پسند کرتا ہوں کہ قربانی کا گوشت قربانی کرنے والا کھا لے کیونکہ اللہ کا فرمان ہے ۔ ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مشرک لوگ اپنی قربانی کا گوشت نہیں کھاتے تھے اس کہ برخلاف مسلمانوں کو اس کے گوشت کے کھانے کی اجازت دی گئی اب جو چاہے کھائے جو چاہے نہ کھائے ۔ حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مشرک لوگ اپنی قربانیوں کا گوشت نہیں کھاتے تھے اس کے برخلاف مسلمانوں کو اس گوشت کے کھانے کی اجازت دی گئی اب جو چاہے کھائے جو چاہے نہ کھائے حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت عطا رحمتہ اللہ علیہ سے بھی اسی طرح منقول ہے ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہاں کا یہ حکم آیت ( وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا ۭوَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا Ą۝ ) 5- المآئدہ:2 ) کی طرح ہے یعنی جب تم احرام سے فارغ ہوجاؤ تو شکار کھیلو ۔ اور سورۃ جمعہ میں فرمان ہے آیت ( فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ 10؀ ) 62- الجمعة:10 ) جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ مطلب یہ ہے کہ ان دونوں آیتوں میں حکم ہے شکار کرنے کا اور زمین میں روزی تلاش کرنے کے لئے پھیل جانے کا لیکن یہ حکم وجوبی اور فرضی نہیں اسی طرح اپنی قربانی کے گوشت کو کھانے کا حکم بھی ضروری اور واجب نہیں ۔ امام ابن جریر بھی اس قول کو پسند فرماتے ہیں ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قربانی کے گوشت کے دوحصے کردئیے جائیں ایک حصہ خود قربانی کرنے والے کا دوسرا حصہ فقیر فقراء کا ۔ بعض کہتے ہیں تین کرنے چاہیئں تہائی اپنا تہائی ہدیہ دینے کے لئے اور تہائی صدقہ کرنے کے لئے ۔ پہلے قول والے اوپر کی آیت کی سند لاتے ہیں اور دوسرے قول والے آیت ( وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ۭ كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ 36؀ ) 22- الحج:36 ) کو دلیل میں پیش کرتے ہیں اس کا پورا بیان آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں آیت ( البائس الفقیر ) سے مطلب وہ بےبس انسان ہے جو احتیاج ہونے پر بھی سوال سے بچتا ہو ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو دست سوال دارز نہ کرتا ہو ، کم بینائی والا ہو ، احکام حج پھر وہ احرام کھول ڈالے سر منڈوالیں کپڑے پہن لیں ، ناخن کٹوا ڈالیں ، وغیرہ احکام حج پورے کرلیں ۔ نذریں پوری کرلیں حج کی قربانی کی اور جو ہو ۔ پس جو شخص حج کے لئے نکلا اس کے ذمے طواف بیت اللہ ، طواف صفا مروہ ، عرفات کے میدان میں جانا ، مزدلفے کی حاضری ، شیطانوں کو کنکر مارنا وغیرہ سب کچھ لازم ہے ۔ ان تمام احکام کو پورے کریں اور صحیح طور پر بجا لائیں اور بیت اللہ شریف کا طواف کریں جو یوم النحر کو واجب ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حج کا آخری کام طواف ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا جب آپ دس ذی الحجہ کو منی کی طرف واپس آئے تو سب سے پہلے شیطانوں کو سات سات کنکریاں ماریں ۔ پھر قربانی کی ، پھر سر منڈوایا ، پھر لوٹ کر بیت اللہ آکر طواف بیت اللہ کیا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بخاری ومسلم میں مروی ہے کہ لوگوں کو حکم کیا گیا ہے کہ ان کا آخری کام طواف بیت اللہ ہو ۔ ہاں البتہ حائضہ عورتوں کو رعایت کردی گئی ہے بیت العتیق کے لفظ سے استدلال کرکے فرمایا گیا ہے کہ طواف کرنے والے کو حطیم بھی اپنے طواف کے اندر لے لینا چاہے ۔ اس لئے کہ وہ بھی اصل بیت اللہ شریف میں سے ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنا میں یہ داخل تھا گو قریش نے نیا بناتے وقت اسے باہر چھوڑ دیا لیکن اس کی وجہ بھی خرچ کی کمی تھی نہ کہ اور کچھ ۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حطیم کے پیچھے سے طواف کیا اور فرمایا بھی دیا کہ حطیم بیت اللہ شریف میں داخل ہے ۔ اور آپ نے دونوں شامی رکنوں کو ہاتھ نہیں لگایا نہ بوسہ دیا کیونکہ وہ بناء ابراہیمی کے مطابق پورے نہیں ۔ اس آیت کے اترنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حطیم کے پیچھے سے طواف کیا ۔ پہلے اس طرح کی عمارت تھی کہ یہ اندر تھا اسی لئے اسے پرانا گھر کہا گیا یہی سب سے پہلا اللہ کا گھر ہے اور وجہ یہ بھی ہے کہ یہ طوفان نوح میں سلامت رہا ۔ اور یہ بھی وجہ ہے کہ کوئی سرکش اس پر غالب نہیں آسکا ۔ یہ ان سب کی دستبرد سے آزاد ہے جس نے بھی اس سے برا قصد کیا وہ تباہ ہوا ۔ اللہ نے اسے سرکشوں کے تسلط سے آزاد کرلیا ہے ۔ ترمذی میں اسی طرح کی ایک مرفوع حدیث بھی ہے جو حسن غریب ہے اور ایک اور سند سے مرسلاًبھی مروی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 یہ فائدے دینی بھی ہیں کہ نماز، طواف اور مناسک حج وعمرہ کے ذریعے سے اللہ کی مغفرت و رضا حاصل کی جائے اور دنیاوی بھی کہ تجارت اور کاروبار سے مال و اسباب دنیا میسر آجائے۔ 28۔ 2 بہیمۃ الانعام پالتو جانوروں سے مراد اونٹ، گائے، بکری (اور بھیڑ دنبے) ہیں۔ ان پر اللہ کا نام لینے کا مطلب ان کو ذبح کرنا جو اللہ کے نام لے کر ہی کیا جاتا ہے اور ایام معلومات سے مراد، ذبح کے ایام ایام تشریق ہیں، جو یوم (10 ذولالحجہ) اور تین دن اس کے بعد ہیں۔ یعنی 11، 12 اور 13 ذوالحجہ تک قربانی کی جاسکتی ہے۔ عام طور پر ایام معلومات سے عشرہ ذوالحجہ اور ایام معدودات سے ایام تشریق مراد لئے جاتے ہیں۔ تاہم یہاں معلومات جس سیاق میں آیا ہے، اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایام تشریق مراد ہیں۔ واللہ اعلم۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٧] یہ فائدے صرف دینی ہی نہیں بلکہ اس احتیاع حج سے کئی قسم کے سیاسی، اقتصادی، معاشی اور تمدنی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اور تمام مسلمانوں کو ایک مرکز وحد میسر آتا ہے۔ یہ حج ہی کی برکت تھی کہ قریش مکہ کو جو بیت اللہ کے متولی تھے پورے عرب میں ایک امتیازی مقام حاصل تھا۔ اور یہ حج کی برکت تھی کہ لوٹ مار کے دور میں بھی کم از کم چار مہینے لوگ امن وامان سے سفر کرسکتے تھے۔ یہ حج ہی کی برکت تھی کہ مکہ ایک عالمی تجارتی منڈی بن گیا تھا۔ اس تجارت سے اگرچہ بیرونی حضرات بھی خاصا فائدہ اٹھاتے تھے۔ تاہم سب سے زیادہ فائدہ۔۔ مکہ ہی کو پہنچتا تھا اور یہ حج کی برکت ہے کہ یہاں سے اٹھائی ہوئی آواز دنیا کے کونے کونے میں پہنچ جاتی تھی۔- [٣٨] ایام معلومات سے بعض علماء نے یکم سے دس ذی الحجہ تک کے دن مراد لئے ہیں۔ مگر یہ اس صورت میں جبکہ اللہ کے ذکر کو عام سمجھا جائے اور اگر اللہ کا نام لینے کو قربانی کے جانوروں سے متعلق سمجھا جائے تو یہ بعض کے نزدیک ١٠ ذی الحجہ اور اس کے بعد دو دن ہیں۔ اور بعض کے نزدیک تین دن یعنی ١٣ ذی الحجہ کی عصر تک ان کے نزدیک قربانی کرنا جائز ہے۔- بھیمہ الانعام سے مراد اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری وغیرہ ہیں، جن کی قربانی دی جاتی ہیں اور یہ اسی صورت میں حلال ہوں گے جبکہ ذبح کرتے وقت ان پر اللہ کا نام لیا جائے۔ اگر اللہ کے سوا کسی اور کا نام بھی لیا جائے یا عمداً اللہ کا نام چھوڑ دیا جائے تو ایسے ذبح شدہ جانور کا کھانا حلال اور جائز نہ ہوگا۔ اور اگر ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا بھول جائے تو قربانی جائز اور حلال ہی رہے گی جب یاد آئے اسی وقت ہی اللہ کا نام لے لیا جائے۔ اگرچہ ذبح کے وقت کی کئی دعائیں منقول ہیں۔ تاہم مختصر سے مختصر الفاظ جو قربانی کے وقت کہے جاسکتے ہیں، یہ ہیں بسم اللہ اللہ اکبر - [٣٩] جاہلی دور میں کئی کام ایسے تھے۔ جنہیں نیکی کے کام اور معروف سمجھ کر بجا لایا جاتا تھا۔ مگر اسلام نے ان میں اصلاح کی۔ جیسے سفر حج میں حجارت نہ کرنا، پیدل روانہ ہونا، مشکل کے وقت بھی قربانی کے جانور پر سوار نہ ہونا، سفر سے واپسی پر گھر کے پچھواڑے سے داخل ہونا، ننگے ہو کر طواف کرنا، صفا و مردہ کے طواف کو اچھا نہ سمجھنا، عرفات کے قیام کو ضروری نہ سمجھنا، ایسے ہی امور میں سے ایک یہ بات تھی کہ وہ قربانی کے گوشت سے خود کچھ نہیں کھاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ الفاظ کہہ کر ان کی غلط فہمی کا ازالہ فرما دیا۔- [٤٠] اس کا یہ مطلب نہیں کہ قربانی کے گوشت سے غنی قسم کے لوگ کھا ہی نہیں سکتے۔ بلکہ یہ ہے کہ محتاجوں اور فقراء و مساکین کو ضرور شامل کیا جائے۔ اور خود کھانے کا بھی یہ مطلب نہیں کہ اس میں سے ضرور ضرور کھایا جائے بلکہ یہ ہے کہ قربانی کا گوشت خود کھانے میں کچھ حرج نہیں ہے۔ اور اس سلسلہ میں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کا قول یہ ہے کہ ایک حصہ خود رکھ لو۔ ایک حصہ اپنے ہمسایہ اور رشتہ داروں میں تقسیم کردو اور ایک حصہ فقراء مساکین میں۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ یہ تینوں حصے برابر برابر ہوں۔ بلکہ حسب ضرورت اس میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے اور بہتر یہ ہے کہ اپنے لئے حصہ تیسرے سے کم رکھا جائے اور فقراء کے لئے تیسرے حصہ سے زیادہ۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لِّيَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ : یعنی لوگ پیدل اور سوار ہو کر حج کے لیے آئیں گے، تاکہ وہ اپنے بہت سے فائدوں میں حاضر ہوں۔ حج کا اصل مقصد تو عبادت کے ذریعے سے دینی اور اخروی فوائد حاصل کرنا ہے، لیکن ضمناً اس میں بہت سے دنیوی اور ملی فوائد بھی پائے جاتے ہیں۔ ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج و عمرہ کے دینی و دنیوی فوائد دونوں ذکر فرمائے ہیں، چناچہ فرمایا : ( تَابِعُوْا بَیْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ فَإِنَّھُمَا یَنْفِیَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوْبَ کَمَا یَنْفِی الْکِیْرُ خَبَثَ الْحَدِیْدِ وَالذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ ) [ ترمذي، الحج، باب ما جاء في ثواب الحج والعمرۃ : ٨١٠، عن عبد اللّٰہ بن مسعود (رض) ] ” حج اور عمرہ پے در پے کیا کرو، کیونکہ یہ فقر اور گناہوں کو اس طرح دور کرتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے اور سونے چاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ “ دینی فوائد میں بہت بڑا فائدہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کا حصول ہے۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلْعُمْرَۃُ إِلَی الْعُمْرَۃِ کَفَّارَۃٌ لِمَا بَیْنَھُمَا وَالْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَہُ جَزَاءٌ إِِلَّا الْجَنَّۃُ ) [ بخاري، الحج، باب وجوب العمرۃ و فضلھا : ١٧٧٣۔ مسلم : ١٣٤٩ ]” عمرہ سے لے کر عمرہ، دونوں کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزا جنت کے سوا کچھ نہیں۔ “ گناہوں کی معافی بھی بہت بڑا نفع ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ حَجَّ لِلّٰہِ فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمِ وَلَدَتْہٗ أُمُّہٗ ) [ بخاري، الحج، باب فضل الحج المبرور : ١٥٢١، عن أبي ہریرہ ۔ مسلم : ١٣٥٠ (رح) ّ ] ” جو شخص حج کرے، نہ کوئی شہوانی فعل کرے اور نہ کوئی نافرمانی کرے تو واپس اس طرح (گناہوں سے پاک ہو کر) جائے گا جس طرح اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرو بن عاص (رض) سے فرمایا تھا : ( أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ یَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہٗ وَأَنَّ الْھِجْرَۃَ تَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَھَا وَأَنَّ الْحَجَّ یَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہٗ ) [ مسلم، الإیمان، باب کون الإسلام یھدم ما قبلہ ۔۔ : ١٢١ ] ” کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں کہ اسلام اپنے سے پہلے (گناہوں) کو گرا دیتا ہے اور یہ کہ ہجرت اپنے سے پہلے (گناہوں) کو گرا دیتی ہے اور یہ کہ حج اپنے سے پہلے (گناہوں) کو گرا دیتا ہے۔ “ - حج کے فوائد میں سے سب سے بڑا فائدہ تمام دنیا کے مسلمانوں کا جمع ہونا اور اس بات کا مظاہرہ ہے کہ ہم سب ایک امت ہیں، کالے، گورے، سرخ اور زرد کسی کو کسی پر رنگ یا زبان کی وجہ سے برتری حاصل نہیں، سب بھائی بھائی ہیں۔ اس موقع پر سب کا ایک دوسرے کے حالات سے آگاہ ہونا اور مشکل میں گرفتار اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے سوچنا اور اس کا بندوبست کرنا ہے۔ ان فوائد میں سے ایک فائدہ اس موقع پر تجارت، صنعت، مزدوری وغیرہ کے ذریعے سے حلال روزی کمانا بھی ہے، چناچہ فرمایا : (لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ ) [ البقرۃ : ١٩٨ ] ” تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اپنے رب کا کوئی فضل تلاش کرو۔ “ یہ مسلمانوں کی بین الاقوامی مصنوعات اور پیداوار سے آگاہی اور تمام دنیا کی باہمی تجارت منظم کرنے کا بہترین موقع ہے۔ اسی طرح اس موقع پر دنیا بھر کے علماء سے ملاقات اور دین و دنیا کے علوم میں اضافہ بھی حج کے فوائد میں سے بہت بڑا فائدہ ہے۔ پھر اس سفر کے دوران دنیا کے مختلف علاقوں اور لوگوں کے حالات سے واقفیت بھی بہت بڑا علم ہے جو حج کی برکات میں سے عظیم برکت ہے۔ خلاصہ یہ کہ حج مسلمانوں کے بیشمار سیاسی، اقتصادی، معاشی اور تمدنی فوائد کا جامع ہے۔- وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ ۔۔ : قرآن مجید کی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ چوپاؤں پر اللہ تعالیٰ کا نام لینے سے مراد انھیں ” بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ “ پڑھ کر ذبح کرنا ہے۔ دیکھیے سورة انعام (١١٨ تا ١٢١) یہاں حج کا ایک مقصد یہ بیان فرمایا کہ حج کرنے والے حضرات چند معلوم دنوں میں ان پالتو چوپاؤں پر اللہ کا نام ذکر کریں جو اس نے انھیں دیے ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے چوپاؤں کی نعمت بھی یاد دلائی ہے۔ یہ ” اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ “ (چند معلوم دن) کون سے ہیں ؟ بعض بڑے بڑے جلیل القدر حضرات نے اس سے مراد ذوالحجہ کے پہلے دس دن اور سورة بقرہ (٢٠٣) میں ” اَيَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ “ سے مراد ایام تشریق لیے ہیں ؟ مگر بقول مفسر امین شنقیطی صاحب اضواء البیان : ” ان حضرات کی جلالت قدر کے باوجود ان کا موقف درست نہیں، بلکہ درست بات ان حضرات کی ہے جو اس سے یوم النحر (دس ذوالحجہ) اور اس کے بعد والے دو یا تین دن مراد لیتے ہیں۔ کیونکہ اس آیت میں چند معلوم دنوں میں قربانی کا ذکر ہے، جب کہ ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں صرف ایک دن (دس ذوالحجہ) کو قربانی ہوتی ہے (حالانکہ ” مَعْلُوْمٰت “ کم از کم تین ہونے چاہییں) ۔ خلاصہ یہ کہ ان ” اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ “ سے مراد وہ دن ہیں جن میں قربانی کی جاتی ہے اور وہ یوم النحر اور اس کے بعد دو دن یا تین دن ہیں۔ “ یوم النحر کے بعد پورے ایام تشریق (١١، ١٢، ١٣) یعنی چار دن میں قربانی کی دلیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان ہے : ( کُلُّ أَیَّام التَّشْرِیْقِ ذَبْحٌ ) ” ایام تشریق سارے ذبح کے دن ہیں۔ “ شیخ البانی (رض) نے ” مَنَاسِکُ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ “ میں فرمایا کہ اسے احمد نے روایت کیا اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے اور یہ میرے نزدیک اپنے مجموع طرق کے ساتھ قوی ہے، اسی لیے میں نے اسے سلسلہ صحیحہ (٢٤٧٦) میں درج کیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ان چار دنوں میں اللہ کی عطا کردہ بہت بڑی نعمت پالتو جانوروں کو اس کے نام پر قربان کرنا حج کے مقاصد میں سے ایک بہت بڑا مقصد ہے۔ ابوبکر صدیق (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا : ( أَیُّ الْحَجِّ أَفْضَلُ ؟ قَالَ الْعَجُّ وَ الثَّجُّ ) [ ترمذي، الحج، باب ما جاء في فضل التلبیۃ والنحر : ٨٢٧ ] ” حج کی کون سی چیز افضل ہے ؟ “ فرمایا : ”(لبیک کے ساتھ) آواز بلند کرنا اور خون بہانا (قربانی کرنا) ۔ “ - فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا ۔۔ : اس سے پہلے حج کرنے والوں کا ذکر غائب کے صیغوں کے ساتھ ہے، اب انھیں مخاطب کرلیا ہے کہ چوپائے جو میں نے تمہیں عطا کیے اور تم نے میرے نام پر قربان کیے، اب میری اس نعمت کا تقاضا ہے کہ خود بھی کھاؤ اور تنگ دست فقیر کو بھی کھلاؤ۔ ” الْبَاۗىِٕسَ “ کا معنی ہے جو مالی طور پر تنگدست ہو۔ فقیر بھی وہی ہے، صرف فقیر کی بدحالی پر رحم کو ابھارنے کے لیے ” الْفَقِيْر “ سے پہلے ” الْبَاۗىِٕسَ “ ذکر فرمایا، کیونکہ فقیر کا لفظ تو عام استعمال ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ غنی کو نہیں کھلا سکتے، بلکہ یہ فقراء کو کھلانے کی تاکید کے لیے ہے، اغنیاء کو کھلانے کا ذکر آیت (٣٦) میں آ رہا ہے۔ خود کھانے کا حکم اس لیے دیا کہ مشرکین اپنی قربانی میں سے نہیں کھاتے تھے۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ خود کھانے کا حکم وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب یا رخصت کے لیے ہے، یعنی تمہیں خود بھی کھانے کی اجازت ہے، ضروری نہیں کہ کھاؤ۔ بہرحال امر کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہو سکے تو اپنی قربانی کا گوشت خود بھی کھانا چاہیے، جیسا کہ جابر (رض) بیان کرتے ہیں : ( أَنَّ الْبُدْنَ الَّتِيْ نَحَرَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَتْ مِءَۃَ بَدَنَۃٍ نَحَرَ بِیَدِہٖ ثَلاَثًا وَّ سِتِّیْنَ وَنَحَرَ عَلِيٌّ مَا غَبَرَ وَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ کُلِّ بَدَنَۃٍ بِبَضْعَۃٍ فَجُعِلَتْ فِيْ قِدْرٍ ثُمَّ شَرِبَا مِنْ مَرْقِھَا ) [ مسند أحمد : ٣؍٣٣١، ح : ١٤٥٦١ ] ” وہ اونٹ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نحر کیے، ایک سو اونٹ تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے تریسٹھ (٦٣) اونٹ نحر کیے اور باقی علی (رض) نے کیے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر اونٹ کا ایک ایک ٹکڑا لینے کا حکم دیا جو ایک دیگ میں ڈالے گئے، پھر دونوں نے اس کا کچھ شوربا پیا۔ “ شعیب ارناؤوط نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

لِّيَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ ، یعنی ان کی یہ حاضری دور دراز سفر طے کر کے اپنے ہی منافع کیلئے ہے قرآن میں منافع کو بصیغہ نکرہ لا کر اس کے عموم کی طرف اشارہ کردیا ہے جس میں دینی منافع تو بیشمار ہیں ہی دنیوی منافع بھی بہت مشاہدہ میں آتے ہیں۔ کم از کم اتنی بات خود قابل تعجب و حیرت ہے کہ حج کے سفر پر عموماً بڑی رقم خرچ ہوتی ہے جو بعض لوگ ساری عمر محنت کر کے تھوڑی تھوڑی بچا کر جمع کرتے ہیں اور یہاں بیک وقت خرچ کر ڈالتے ہیں لیکن ساری دنیا کی تاریخ میں کوئی ایک واقعہ ایسا نہیں بتایا جاسکتا کہ کوئی شخص حج یا عمرہ میں خرچ کرنے کی وجہ سے فقیر و محتاج ہوگیا ہو۔ اس کے سوا دوسرے کاموں مثلاً بیاہ شادی کی رسموں میں مکان تعمیر کرنے میں خرچ کر کے ہزاروں آدمی محتاج و فقیر ہونے والے ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سفر حج وعمرہ میں یہ خصوصیت بھی رکھی ہے کہ اس سے کوئی شخص دنیوی فقر و فاقہ میں مبتلا نہیں ہوتا بلکہ بعض روایات میں ہے کہ حج وعمرہ میں خرچ کرنا افلاس و محتاجی کو دور کردیتا ہے غور کیا جائے تو اس کا بھی مشاہدہ عموماً پایا جائے گا اور حج کے دینی منافع تو بہت ہیں ان میں سے ایک یہی کچھ کم نہیں جو حضرت ابوہریرہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص نے اللہ کے لئے حج کیا اور اس میں بےحیائی کی باتوں سے اور گناہ کے کاموں سے بچتا رہا تو وہ حج سے ایسی حالت میں واپس آئے گا کہ گویا یہ اپنی ماں کے پیٹ سے آج برآمد ہوا ہے یعنی جیسے ابتداء ولادت میں بچہ بےگناہ معصوم ہوتا ہے یہ بھی ایسا ہی ہوجائے گا۔ رواہ البخاری و مسلم (مظھری) بیت اللہ کے پاس جمع ہونے والے حجاج کے آنے کا ایک فائدہ تو اوپر مذکور ہوا کہ وہ اپنے دینی اور دنیوی منافع اور فوائد کا مشاہدہ کرلیں۔ دوسرا فائدہ یہ بتلایا گیا کہ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ ، یعنی تاکہ وہ اللہ کا نام ذکر کریں ایام معلومات میں ان چوپایہ جانوروں پر جو اللہ نے ان کو عطا فرمائے ہیں۔ اس میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ قربانی کے گوشت اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد پر نظر نہ ہونی چاہئے بلکہ اصل چیز اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے جو ان دنوں میں قربان کرنے کے وقت جانوروں پر کیا جاتا ہے جو روح عبادت ہے۔ قربانی کا گوشت ان کے لئے حلال کردیا گیا یہ مزید انعام ہے۔ اور ایام معلومات سے مراد وہی دن ہیں جن میں قربانی جائز ہے یعنی ذی الحجہ کی دسویں، گیا رہویں، بارہویں تاریخیں۔ اور مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ کے الفاظ عام ہیں اس میں ہر طرح کی قربانی داخل ہے خواہ واجب ہو یا مستحب فَكُلُوْا مِنْهَا، یہاں لفظ کلوا اگرچہ بصیغہ امر آیا ہے مگر مراد اس سے وجوب نہیں بلکہ اباحت اور جواز ہے جیسا قرآن کی آیت ۭوَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا میں شکار کا حکم بمعنے اجازت ہے۔- مسئلہ :- مکہ معظمہ اور زمانہ حج میں مختلف قسم کے جانور ذبح کئے جاتے ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جو کسی جرم کی سزا کے طور پر جانور کی قربانی واجب ہوجاتی ہے جیسے کسی نے حرم شریف کے اندر شکار مار دیا تو اس پر اس کی جزاء میں کسی جانور کی قربانی واجب ہوتی ہے جس کی تفصیل کتب فقہ میں ہے کہ کون سے جانور کے بدلے میں کس طرح کا جانور قربان کرنا ہے۔ اسی طرح جو کام احرام کی حالت میں ممنوع ہیں اگر کسی نے وہ کام کرلیا تو اس پر بھی جانور ذبح کرنا لازم اور واجب ہوجاتا ہے جس کو فقہاء کی اصطلاح میں دم جنایت کہا جاتا ہے اس میں بھی کچھ تفصیل ہے، بعض ممنوعات کے کرلینے سے گائے یا اونٹ ہی کی قربانی دینا ضروری ہوتا ہے اور بعض کیلئے بکرے دنبے کی کافی ہوتی ہے بعض میں دم واجب نہیں ہوتا صرف صدقہ دینا کافی ہوتا ہے ان تفصیلات کی یہ جگہ نہیں، احقر نے اپنے رسالہ احکام الحج میں بقدر ضرورت لکھ دیا ہے۔ یہ قسم دم کی جو کسی جنایت اور جرم کی سزا کے طور پر لازم ہوا ہے اس کا گوشت کھانا خود اس شخص کیلئے جائز نہیں بلکہ یہ صرف فقراء و مساکین کا حق ہے کسی دوسرے مالدار آدمی کو بھی اس کا کھانا جائز نہیں۔ اس پر تمام فقہاء امت کا اتفاق ہے۔ باقی قسمیں قربانی کی خواہ واجب ہوں یا نفلی، واجب میں حنفیہ مالکیہ شافعیہ کے نزدیک دم تمتع اور دم قرآن بھی داخل ہے ان سب کا گوشت قربانی کرنے والا اس کے احباب و اعزاء اگرچہ اغنیاء ہوں وہ بھی کھا سکتے ہیں اس آیت میں اسی کا بیان ہے اور پوری تفصیل اس کے مسائل کی کتب فقہ میں دیکھی جائے۔ عام قربانی کا گوشت ہو یا خاص حج کی قربانیاں ان سب کا حکم یہی ہے کہ قربانی کرنے والا خود اور ہر مسلمان غنی ہو یا فقیر اس میں سے کھا سکتا ہے لیکن مستحب یہ ہے کہ کم از کم ایک تہائی حصہ غرباء فقراء کو دے دیا جائے۔ اسی امر مستحب کا بیان آیت کے اگلے جملے میں اس طرح فرمایا ہے وَاَطْعِمُوا الْبَاۗىِٕسَ الْفَقِيْرَ ، بائس کے معنے بہت تنگدست مصیبت زدہ اور فقیر کے معنے حاجت مند کے ہیں مطلب یہ ہے کہ قربانی کے گوشت میں سے ان کو بھی کھلانا اور دینا مستحب اور مطلوب ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لِّيَشْہَدُوْا مَنَافِعَ لَہُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللہِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَہُمْ مِّنْۢ بَہِيْمَۃِ الْاَنْعَامِ۝ ٠ۚ فَكُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوا الْبَاۗىِٕسَ الْفَقِيْرَ۝ ٢٨ۡ- نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔- ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، - ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - بهم - البُهْمَة : الحجر الصلب، وقیل للشجاع بهمة تشبيها به، وقیل لكلّ ما يصعب علی الحاسة إدراکه إن کان محسوسا، وعلی الفهم إن کان معقولا : مُبْهَم .- ويقال : أَبْهَمْتُ كذا فَاسْتَبْهَمَ ، وأَبْهَمْتُ الباب : أغلقته إغلاقا لا يهتدی لفتحه، والبَهيمةُ :- ما لا نطق له، وذلک لما في صوته من الإبهام، لکن خصّ في التعارف بما عدا السباع والطیر .- فقال تعالی: أُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِيمَةُ الْأَنْعامِ [ المائدة 1] ، ولیل بَهِيم، فعیل بمعنی مُفْعَل «3» ، قد أبهم أمره للظلمة، أو في معنی مفعل لأنه يبهم ما يعنّ فيه فلا يدرك، وفرس بَهِيم : إذا کان علی لون واحد لا يكاد تميّزه العین غاية التمييز، ومنه ما روي أنه : «يحشر الناس يوم القیامة بُهْماً» «4» أي : عراة، وقیل : معرّون مما يتوسّمون به في الدنیا ويتزینون به، والله أعلم .- والبَهْم : صغار الغنم، والبُهْمَى: نبات يستبهم منبته لشوکه، وقد أبهمت الأرض : كثر بهمها «5» ، نحو : أعشبت وأبقلت، أي : كثر عشبها .- ( ب ھ م ) البھمۃ کے معنی ٹھوس چنان کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر بہادر آدمی کو بھمۃ کہا جاتا ہے نیز ہر وہ حسی یا عقلی چیز جسکا عقل و حواس سے ادراک نہ ہوسکے اسے مبھم کہا جاتا ہے ۔ ابھمت کذا مبہم کرنا اس کا مطاوع استبھم ہے ۔ ابھمت الباب دروازے کو اس طرح بند کرنا کہ کھل نہ سکے ۔ البھیمۃ چوپایہ جانور کیونکہ اس کی صورت مبہم ہوتی ہے ۔ مگر عرف میں درند اور پرند کے علاوہ باقی جانوروں کو بہیمہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے أُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِيمَةُ الْأَنْعامِ [ المائدة 1] تمہارے لئے چار پاے جانور ( جو چرنے والے ہیں ) حلال کردیئے گئے ہیں ۔ سیاہ رات فعیل بمعنی مععل ہے اور تاریکی کے باعث اس کا معاملہ بھی چونکہ مبہم ہوتا ہے اس لئے اسے بھیم کہا جاتا ہے یا فعیل بمعنی مفعل ہے چونکہ وہ چیزوں کو اندر چھپا لیتی ہے اس لئے اسے بھیم کہا جاتا ہے فرس بھیم یک رنگ گھوڑا جس کی اچھی طرح پہچان نہ ہو سکے اسی سی ایک رایت میں ہے کے دن لوگ ننگے بدن اٹھیں گے بعض نے کہا ہے کہ دنیای زیب وزینت اور آرائش سے عاری ہوں گے واللہ اعلم "۔ البھم ۔ بھیڑ بکری کے بچے ۔ واحد بھمۃ البھمی ایک قسم کی گھاس میں جس کے پیچدار ہونے کی وجہ اس کی جڑیں معلوم نہیں ہوسکتیں کہ کہاں میں ابھمت الارج زمین میں بھمی گھاس کا بکثرت ہونا جیسا کہ کے معنی گھاس اور سبزی کے بکثرت ہونے کے ہیں ۔- نعم ( جانور)- [ والنَّعَمُ مختصٌّ بالإبل ] ، وجمْعُه : أَنْعَامٌ ، [ وتسمیتُهُ بذلک لکون الإبل عندهم أَعْظَمَ نِعْمةٍ ، لكِنِ الأَنْعَامُ تقال للإبل والبقر والغنم، ولا يقال لها أَنْعَامٌ حتی يكون في جملتها الإبل ] «1» . قال : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] ، وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] ، وقوله : فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس 24] فَالْأَنْعَامُ هاهنا عامٌّ في الإبل وغیرها . - ( ن ع م ) نعام - النعم کا لفظ خاص کر اونٹوں پر بولا جاتا ہے اور اونٹوں کو نعم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے لئے سب سے بڑی نعمت تھے اس کی جمع انعام آتی ہے لیکن انعام کا لفظ بھیڑ بکری اونٹ اور گائے سب پر بولا جاتا ہے مگر ان جانوروں پر انعام کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے ۔ جب اونٹ بھی ان میں شامل ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے ۔ وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] اور چار پایوں میں بوجھ اٹھا نے والے ( یعنی بڑے بڑے بھی ) پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے بھی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں ۔ مل کر نکلا ۔ میں انعام کا لفظ عام ہے جو تمام جانوروں کو شامل ہے ۔- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- طعم - الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ- [ المائدة 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] ، طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل 13] ، طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان 44] ، وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون 3] ، أي : إِطْعَامِهِ الطَّعَامَ ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا - [ الأحزاب 53] ، وقال تعالی: لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا - [ المائدة 93] ، قيل : وقد يستعمل طَعِمْتُ في الشّراب کقوله :- فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة 249] ، وقال بعضهم : إنّما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ تنبيها أنه محظور أن يتناول إلّا غرفة مع طَعَامٍ ، كما أنه محظور عليه أن يشربه إلّا غرفة، فإنّ الماء قد يُطْعَمُ إذا کان مع شيء يمضغ، ولو قال : ومن لم يشربه لکان يقتضي أن يجوز تناوله إذا کان في طَعَامٍ ، فلما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ بَيَّنَ أنه لا يجوز تناوله علی كلّ حال إلّا قدر المستثنی، وهو الغرفة بالید، وقول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم في زمزم : «إنّه طَعَامُ طُعْمٍ وشِفَاءُ سُقْمٍ» «3» فتنبيه منه أنه يغذّي بخلاف سائر المیاه، واسْتَطْعَمَهُ فَأْطْعَمَهُ. قال تعالی: اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف 77] ، وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ- [ الحج 36] ، وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان 8] ، أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ- [يس 47] ، الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش 4] ، وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ- [ الأنعام 14] ، وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات 57] ، وقال عليه الصلاة والسلام :- «إذا اسْتَطْعَمَكُمُ الإمامُ فَأَطْعِمُوهُ» «1» أي : إذا استفتحکم عند الارتیاج فلقّنوه، ورجلٌ طَاعِمٌ: حَسَنُ الحالِ ، ومُطْعَمٌ: مرزوقٌ ، ومِطْعَامٌ: كثيرُ الإِطْعَامِ ، ومِطْعَمٌ: كثيرُ الطَّعْمِ ، والطُّعْمَةُ : ما يُطْعَمُ.- ( ط ع م ) الطعم - ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے ۔ طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل 13] اور گلوگیرکھانا ہے ۔ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان 44] گنہگار کا کھانا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون 3] اور فقیر کو کھانا کھلانے کے لئے لوگوں کو ترغیب نہیں دیتا ۔ میں طعام بمعنی اوطعام یعنی کھانا کھلانا کے ہے فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب 53] اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا[ المائدة 93] جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور انپر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھاچکے ۔ بعض نے کہا ہے کہ کبھی طعمت بمعنی شربت آجاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة 249] جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا توہ وہ مجھ دے نہیں ہے اور جو شخص اس سے پانی نہ پیے گا ( اس کی نسبت تصور کیا جائے گا کہ ) میرا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں من لم یشربہ بجائے ومن لم یطعمہ کہہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح چلو بھر سے زیادہ محض پانی کا استعمال ممنوع ہے اسی طرح طعام کے ساتھ بھی اس مقدار سے زائد پانی پینا ممنوع ہے کیونکہ جو پانی کھانے کے ساتھ پیاجاتا ہے اس پر بھی طعمت کا لفظ بولا جاسکتا ہے ۔ لہذا اگر من لمیشربہ لایا جاتا تو اس سے کھانے کے ساتھ پانی پینے کی ممانعت ثابت نہ ہوتی اس کے برعکس یطعمہ کے لفظ سے یہ ممانعت بھی ثابت ہوجاتی اور معین مقدار سے زائد پانی کا پینا بہر حالت ممنوع ہوجاتا ہے ۔ اور ایک حدیث (20) میں آنحضرت نے زم زم کے پانی کے متعلق انہ طعام طعم و شفاء سقم ( کہ یہ کھانے کا کھانا اور بیماری سے شفا ہے ) فرماکر تنبیہ کی ہے کہ بیر زمزم کے پانی میں غذائیت بھی پائی جاتی ہے جو دوسرے پانی میں نہیں ہے ۔ استطعمتہ فاطعمنی میں نے اس سے کھانا مانگا چناچہ اس نے مجھے کھانا کھلایا ۔ قرآن میں ہے : اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف 77] اور ان سے کھانا طلب کیا ۔ وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج 36] اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان 8] اور وہ کھانا کھلاتے ہیں أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس 47] بھلا ہم ان لوگوں کو کھانا کھلائیں جن کو اگر خدا چاہتا تو خود کھلا دیتا ۔ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش 4] جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا ۔ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام 14] دہی سب کو کھانا کھلاتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا ۔ وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات 57] اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھانا کھلائیں ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا (21) اذا استطعمکم الامام فاطعموہ یعنی جب امام ( نماز میں ) تم سے لقمہ طلب کرے یعنی بھول جائے تو اسے بتادو ۔ رجل طاعم خوش حال آدمی رجل مطعم جس کو وافروزق ملا ہو مطعم نیک خورندہ ۔ مطعام بہت کھلانے والا ، مہمان نواز طعمۃ کھانے کی چیز ۔ رزق ۔- فقر - الفَقْرُ يستعمل علی أربعة أوجه :- الأوّل : وجود الحاجة الضّرورية، وذلک عامّ للإنسان ما دام في دار الدّنيا بل عامّ للموجودات کلّها، وعلی هذا قوله تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ- [ فاطر 15] ، وإلى هذا الفَقْرِ أشار بقوله في وصف الإنسان : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء 8] .- والثاني : عدم المقتنیات، وهو المذکور في قوله : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة 273] ، إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ- [ النور 32] . وقوله : إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة 60] .- الثالث : فَقْرُ النّفس، وهو الشّره المعنيّ بقوله عليه الصلاة والسلام : «كاد الفَقْرُ أن يكون کفرا» «1» وهو المقابل بقوله : «الغنی غنی النّفس» «1» والمعنيّ بقولهم : من عدم القناعة لم يفده المال غنی.- الرابع : الفَقْرُ إلى اللہ المشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : ( اللهمّ أغنني بِالافْتِقَارِ إليك، ولا تُفْقِرْنِي بالاستغناء عنك) «2» ، وإيّاه عني بقوله تعالی: رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ- [ القصص 24] ، وبهذا ألمّ الشاعر فقال :- 354-- ويعجبني فقري إليك ولم يكن ... ليعجبني لولا محبّتک الفقر ويقال : افْتَقَرَ فهو مُفْتَقِرٌ وفَقِيرٌ ، ولا يكاد يقال : فَقَرَ ، وإن کان القیاس يقتضيه . وأصل الفَقِيرِ : هو المکسورُ الْفِقَارِ ، يقال : فَقَرَتْهُ فَاقِرَةٌ ، أي داهية تکسر الفِقَارَ ، وأَفْقَرَكَ الصّيدُ فارمه، أي : أمكنک من فِقَارِهِ ، وقیل : هو من الْفُقْرَةِ أي : الحفرة، ومنه قيل لكلّ حفیرة يجتمع فيها الماء : فَقِيرٌ ، وفَقَّرْتُ للفسیل : حفرت له حفیرة غرسته فيها، قال الشاعر : ما ليلة الفقیر إلّا شيطان فقیل : هو اسم بئر، وفَقَرْتُ الخَرَزَ : ثقبته، وأَفْقَرْتُ البعیر : ثقبت خطمه .- ( ف ق ر ) الفقر کا لفظ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ زندگی کی بنیادی ضروریات کا نہ پایا جانا اس اعتبار سے انسان کیا کائنات کی ہر شے فقیر و محتاج ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ [ فاطر 15] لوگو تم سب خدا کے محتاج ہو ۔ اور الانسان میں اسی قسم کے احتیاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء 8] اور ہم نے ان کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ کھانا نہ کھائیں ۔ ضروریات زندگی کا کما حقہ پورا نہ ہونا چناچہ اس معنی میں فرمایا : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة 273] تو ان حاجت مندوں کے لئے جو خدا کے راہ میں رے بیٹھے ہیں ۔إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النور 32] اگر وہ مفلس ہونگے تو خدا ان گو اپنے فضل سے خوشحال کردے گا ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں اور محتاجوں ۔۔۔ کا حق ہے ۔ فقرالنفس : یعنی مال کی ہوس۔ چناچہ فقر کے اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا : کا دالفقر ان یکون کفرا ۔ کچھ تعجب نہیں کہ فقر کفر کی حد تک پہنچادے اس کے بلمقابل غنی کے معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا الغنیٰ عنی النفس کو غنا تو نفس کی بےنیازی کا نام ہے ۔ اور اسی معنی میں حکماء نے کہا ہے ۔ من عدم القناعۃ لم یفدہ المال غنی جو شخص قیامت کی دولت سے محروم ہوا سے مالداری کچھ فائدہ نہیں دیتی ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف احتیاج جس کی طرف آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا (73) اللھم اغننی بالافتقار الیک ولا تفتونی بالاستغناء عنک ( اے اللہ مجھے اپنا محتاج بناکر غنی کر اور اپنی ذات سے بےنیاز کرکے فقیر نہ بنا ) اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص 24] کہ پروردگار میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے (342) ویعجبنی فقری الیک ولم یکن لیعجبنی لولا محبتک الفقر مجھے تمہارا محتاج رہنا اچھا لگتا ہے اگر تمہاری محبت نہ ہوتی تو یہ بھلا معلوم نہ ہوتا ) اور اس معنی میں افتقر فھو منتقر و فقیر استعمال ہوتا ہے اور فقر کا لفظ ) اگر چہ قیاس کے مطابق ہے لیکن لغت میں مستعمل نہیں ہوتا ۔- الفقیر - دراصل اس شخص کو کہتے ہیں جس کی ریڑھ ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو چناچہ محاورہ ہے ۔ فقرتہ فاقرہ : یعنی مصیبت نے اس کی کمر توڑدی افقرک الصید فارمہ : یعنیشکار نے تجھے اپنی کمر پر قدرت دی ہے لہذا تیر ماریئے بعض نے کہا ہے کہ یہ افقر سے ہے جس کے معنی حفرۃ یعنی گڑھے کے ہیں اور اسی سے فقیر ہر اس گڑھے کو کہتے ہیں جس میں بارش کا پانی جمع ہوجاتا ہے ۔ فقرت اللفسیل : میں نے پودا لگانے کے لئے گڑھا کھودا شاعر نے کہا ہے ( الرجز) (343) مالیلۃ الفقیر الاالشیطان کہ فقیر میں رات بھی شیطان کی مثل ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں الفقیر ایک کنویں کا نام ہے۔ فقرت الخرز : میں نے منکوں میں سوراخ کیا ۔ افقرت البیعر اونٹ کی ناک چھید کر اس میں مہار ڈالنا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

حج کے اندر تجارت کرنے کا بیان - قول باری ہے (لیشھد وا منافع لھم تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو ان کے لئے یہاں رکھے گئے ہیں) ابن ابی نجیع نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ اس سے تجارت مراد ہے۔ نیز وہ تمام امور مراد ہیں جن کا دنیا اور آخرت سے تعلق ہوتا ہے۔ عاصم بن ابی النجود نے ابو ر زین سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ منافع سے وہ منڈیاں مراد ہیں جو لگا کرتی تھیں، منافع کا ذکر صرف دنیا کے سلسلے میں ہوتا ہے۔ ابو جعفر سے مروی ہے کہ منافع سے مغفرت اور بخشش مراد ہے۔- اصل مقصود دینی منافع ہیں دنیاوی منافع بالتبع ہیں - ابوبکر جصاص کہتے ہیں ظاہر آیت اس امر کا موجب ہے کہ اس میں منافع دین مراد ہیں اگرچہ تجارت مراد لینا بھی جائز ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (واذن فی الناس بالحج یا توک رجالاً و علی کل ضامر یا تین من کل فج عمیق لیشھدوا منا فع لھم) یہ قول باری اس چیز کا مقتضی ہے کہ لوگوں کو بلایا گیا اور حج کا حکم دیا گیا تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے ان فوائد کا مشاہدہ کریں جو ان کے لئے رکھے گئے ہیں اب یہ بات محال ہے کہ اس سے صرف دنیاوی فوائد مراد لئے جائیں اس لئے کہ اگر یہ بات ہوتی تو حج کے لئے لوگوں کو بلانا دنیاوی منافع کی خاطر ہوتا حالانکہ حج نام ہے طواف وسعی کا، وقوف عرفات و مزدلفہ کا اور قربانی کے جانوروں کو ذبح کرنے اور دیگر مناسک کا۔ ان امور میں دنیاوی منافع بالتیع داخل ہیں اور دنیاوی منافع اٹھانے کی رخصت اور اجازت ہے یہ بات نہیں کہ دنیاوی منافع ہی مقصود بالحج ہیں۔ ارشاد باری ہے۔ (لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلاً من ربکم۔ تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو) اس آیت میں حج کے دوران تجارت کی رخصت و اجازت عطا کردی گئی ہے۔ اس سلسلے میں روایات کا ذکر ہم نے سورة بقرہ کی تفسیر کے موقع پر کردیا ہے۔- ایام معلومات کا بیان - قوی باری ہے (ویذکروا اسم اللہ فی ایام معلومات علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام اور چند مقررہ دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں) حضرت علی اور حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ ایام معلومات سے یوم نحر (دسویں ذی الحجہ) اور بعد کے دو دن مراد ہیں۔ ان تین دنوں میں سے جس دن بھی چاہو قربانی ذبح کرلو۔ حضرت ابن عمر کا قول ہے ۔ ایام معلومات، ایام نحر ہیں اور ” ایام معدودات “ ایام تشریق ہیں۔ طحاوی نے اپنے شیخ احمد بن ابی عمرا ن سے اور انہوں نے بشر بن الولید لکندی القاضی سے روایت کی ہے کہ ابوالعباس طوسی نے امام ابویوسف سے ایام معلوم کے متعلق تحریری طور پر استفسار کیا۔ امام صاحب نے اس کے خط کا جو با مجھے ان الفاظ میں لکھوایا۔” ایام معلومات کی تفسیر میں صحابہ کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ حضرت علی اور حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ ان سے ایام النحر مراد ہیں اور میرا بھی یہی مسلک ہے۔ اس لئے کہ ارشاد باری ہے (علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام اور یہ بات ایام نحر میں ہوتی ہے ایام نحر سے ذی الحجہ کی دسویں گیارہوں اور بارہویں تاریخ مراد ہے) حضرت ابن عباس ، حسن اور ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ ایام معلومات سے ذوالحجہ کا پہلا عشرہ اور ایام معدودات سے ایام تشریق مراد ہیں۔ معمر نے قتادہ سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ ابن ابی لیلیٰ نے الحکم سے، انہوں نے مقسم سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ آپ نے قول باری (واذکروا اللہ فی ایام معلومات اور مقرر دنوں میں اللہ کو یاد کرو) کی تفسیر میں فرمایا کہ یوم النحر اور بعد کے مزید تین دن مراد ہیں۔- ابو الحسن الکرخی نے ذکر کیا ہے کہ احمد القاری نے امام محمد سے روایت کی ہے اور انہوں نے امام ابوحنیفہ سے کہ ایام معلومات ذی الحجہ کے دس دن ہیں۔ امام محمد سے مروی ہے کہ یہ ایام نحر ہیں یعنی یوم الاضحی (دسویں ذی الحجہ) اور بعد کے دو دن طحاوی نے ذکر کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ایام معلومات ذی الحجہ کے پہلے دس دن اور ایام معدودات ایام تشریق ہیں۔ لیکن ابو الحسن کرخی نے ان حضرات سے اس سلسلے میں جو روایت کی ہے وہ زیادہ صحیح ہے۔ ایک قول ہے کہ ایام تشریق کو ایام معدودات (گنتی کے چند دن) اس لئے کہا گیا ہے کہ ان کی تعداد قلیل ہے جس طرح یہ قول باری ہے (وشروہ بثمن بخس دراھم معدودۃ اور انہوں نے اسے تھوڑی سی قیمت پر چند درہمں کے عوض بیچ ڈلاا) اللہ تعالیٰ نے ان درہموں کی قلت تعداد پر انہیں محدود کے نام سے موسوم کیا۔ ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں کو معلومات اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کے ذریعے لوگوں کو ان کا علم اور ان کا حساب رکھنے پر ابھارا گیا ہے اس لئے کہ ان کے اوآخر میں حج کی ادائیگی ہوتی ہے۔ گویا ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اس ماہ کی ابتدا معلوم کرنے کے لئے اس کے ہلال کی جستجو کریں تاکہ ہم دس دنوں کا درست حساب رکھ سکیں اور اس طرح آخری دن یوم النحر واقع ہوجائے۔ اس کے ذریعے امام ابوحنیفہ کے مسلک کے حق میں استدلال کیا جاسکتا ہے کہ تکبیرات تشریق پہلے عشرہ کے دنوں کے اندر محدود ہوتا ہے ۔ یہ تکبیرات یوم عرفہ اور یوم النحر کو پڑھی جاتی ہیں اور یہ دونوں دن ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں دخل ہیں۔- اگر یہ کہا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا (علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام) تو اس قول بایر کی اس امر پر دلالت ہوئی کہ ایام النحر مراد ہیں جیسا کہ حضرت علی سے مروی ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آی ت میں یہ احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ” لما رزقھم من بھیمۃ الانعام “ مراد لیا ہو جس طرح یہ قول باری ہے (لتکبروا اللہ علی ماھداکم ، تاکہ تم اس ہدایت کی بنا پر جو اس نے تمہیں دی اس کی کبریائی بیان کرو) اس کے معنی ” لما ھلاکم “ یا جس طرح ہم کہتے ہیں ” نشر اللہ علی نعمہ “ (ہم اللہ تعالیٰ نے اس سے یوم النحر مراد لیا ہو اس طرح قول باری (علی مارزقھم ) سے یوم النحر مراد ہے اور اس پر سالوں کی تکرار کی بنا پر یہ ایک یوم ایام بن گیا ہے۔ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ ایام نحر میں تمام ہدایا یعنی قربانی کے جانوروں کو ذبح کرنا دوسرے ایام کی بہ نسبت افضل ہے۔ خواہ یہ ہدایات نفلی ہوں یا شکار وغیرہ کے بدل اور سزا کے طور پر ہوں۔- ایام النحر - ایام النحر کے متعلق اہل علم میں اخلتلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ اور بعد کے دو دن ایام نحر ہیں۔ امام شافعی کا قول ہے کہ دسویں تاریخ اور بعد کے تین دن ایام نحر ہیں اور یہی ایام تشریق بھی ہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب کے قول کے مطابق حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر، حضرت انس بن مالک، حضرت ابوہریرہ، سعید بن جبیر اور سعید بن المسیب سے اقوال منقول ہیں۔ امام شافعی کے قول کے مطابق حسن بصری اور عطاء بن ابی رباح سے اقوال منقول ہیں۔ ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ نحر کے صرف دو دن ہیں جبکہ ابن سیرین کا قول ہے کہ نحر کا صرف ایک دن ہوتا ہے۔ یحییٰ بن ابی کثیر نے ابو سلمہ اور سلیمان بن یسار سے ان کا قول نقل کیا ہے کہ اضحیٰ یعنی قربانی کے ایام محرم کا چاند نکلتے تک ہوتے ہیں۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ درج بالا سطور میں ہم نے جن صحابہ کرام کے اقوال نقل کئے ہیں۔ ان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایام النحر تین دن ہیں۔ ان حضرات کا یہ قول بکثرت نقل ہوا ہے اب ان حضرات کے بعد آنے والوں کے لئے ان کے خلاف مسلک اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ ان حضرات کے ہم چشموں میں سے کسی سے بھی اس مسلک کے خلاف کوئی روایت منقول نہیں ہے۔ اس لئے اس کی حجیت ثابت ہوگئی ۔ نیز ایام نحر کی تعیین کا ذریعہ توقیف یعنی شرعی اور نقلی دلالت ہے یا پھر اتفاق امت کیونکہ اس تک رسائی قیاس کے ذریعے نہیں ہوسکتی۔ ہم نے جن صحابہ کرام کا ذکر کیا ہے جب اس بارے میں ان کا قول ہے کہ یہ تین دن ہیں تو یہی چیز ایام النحر کی تعیین کے لئے توقیف بن گئی۔ جس طرح ہم نے حیض کی مدت کی مقدار، نیز مہر کی مقدار اور نماز کی فرضیت کی تکمیل کے سلسلے میں تشہید کی مقدار نیز اسی قسم کی مقداروں کے متعلق ذکر کیا ہے جن کے اثبات کا ذریعہ یا تو توقیف ہے یا امت کا اتفاق ۔ جب اس بارے میں کسی ایک صحابی کا قول بھی مل جائے گا اس کی حجیت ثابت ہوجائے گی تو اسے توقیف قرار دیا جائے گا۔ نیز ایام النحر اور ایام التشریق میں فرق کا ثبوت ہوگیا ہے اس لئے کہ ایام النحر اگر ایام التشریق ہوتے تو پھر ان کے درمیان کوئی فرق نہ ہوتا۔ اور ان میں سے ایک کا ذکر دوسرے کے ذکر کے قائم مقام بن جاتا ۔ جب ہم نے یوم النحر اور ایام تشریق میں رمی جمار کا عمل پایا اور یوم النحر میں جانوروں کے ذبح کا عمل دیکھا پھر کچھ لوگوں نے یہ کہا کہ ایام النحر ایام التشریق کے آخر تک رہتے ہیں جبکہ ہم نے کہا کہ یوم النحر کے بعد دو دنوں تک نحر کے ایام ہیں تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ ہم ان دونوں کے درمیان ضرور فرق کریں تاکہ ان دونوں پر دلالت کرنے والے الفاظ میں سے ہر ایک کا علیحدہ فائد ہ حاصل ہو۔ وہ اس طرح کہ ایام التشریق کا ایک دن ایسا ہو جس کا ایام النحر میں شمار نہ ہوتا ہو اور یہ ایام التشریق کا آخری دن ہے۔- ایام التشریق - جن حضرات کے نزدیک ایام تشریق کے آخری دن یعنی تیرہویں ذی الحجہ تک قربانی کا جواز ہے انہوں نے اس روای ت سے استدلال کیا ہے جسے سلیمان بن موسیٰ نے ابن ابی الحسین سے ، انہوں نے حضرت جبیر بن مطعم سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : عرفات کا سارا میدان موقف یعنی کھڑے ہونے کی جگہ ہے لیکن بطن عرفہ سے پرے پرے رہو۔ سارا مزدلفہ مئوقف ہے لیکن وادی محسر سے پرے پرے رہو۔ مکہ کے تمام راستے اور کوچے قربانی کے جانور ذبح کرنے کی جگہیں ہیں اور تشریق کے تمام ایام ذبح کے ایام ہیں۔ “ امام احمد بن حنبل سے اس حدیث کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ ابن ابنی حسین کا حضرت جبیر بن مطعم سے سماع ثابت نہیں ہے اور ابن ابی حسین کی اکثر روایتوں میں سہو واقع ہوگیا ہے۔- ایک قول کے مطابق اس روایت کی اصل وہ روایت ہے جسے محزمہ بن بکیرین عبد اللہ بن الاشجع نے اپنے والد سے نقل کی ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے اسامہ بن زید کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے عبداللہ بن ابی حسین کو سنا تھا کہ وہ عطاء بن ابی باح کی طرف سے بیان کر رہے تھے اور عطا وہاں موجود تھے اور عبد اللہ کی بات سن رہے تھے۔ عطاء کا کہنا تھا کہ ہمیں نے حضرت جابربن عبداللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا منحر ہیں۔ “ اصل روایت یہ ہے اس میں یہ بات مذکور نہیں ہے کہ ” تشریق کے تمام ایام ذبح کے ایام ہیں “ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جس روایت میں یہ ا لفاظ مذکور ہیں وہ یا تو حضرت جبیر بن مطعم کا اپنا کلام ہے یا ان سے نیچے کسی راوی کا اس لئے کہ حضرت جابر بن عبداللہ نے ان الفاظ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ نیز جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ نحر عمل ان دنوں میں ہوگا جن پر ایام کے اسم کا اطلاق ہوتا ہو اور یہ بات واضح ہے کہ ایام کے اسم کا کم از کم تین دنوں پر طلاق ہوتا ہے جیسا کہ اسم جمع کے اطلاق کا قاعدہ ہے اس لئے ضروری ہوگیا کہ تین دنوں کا ثبوت ہوجائے ، رہ گیا اس سے زائد دن تو چونکہ اس پر کوئی دلالت قائم نہیں اس لئے اس کا ثبوت نہیں۔- ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنے کا بیان - قول باری ہے (ویذکرو اسم اللہ فی ایام معلومات علی ، راز قھم من بھیمۃ الانعام اور چند مقررہ دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں ج اس نے انہیں بخشے ہیں اگر آیت میں مذکورہ ذکر اللہ سے ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا مراد ہے تو یہ چیز اس پر درست کرتی ہے کہ جانور پر شرعی ذبح کے لئے بسم اللہ پڑھنا بھی یک شرط ہے۔ اس لئے کہ آیت اس کے وجوب کی مقتضی ہے ۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (واذن فی الناس رب الحج) تا قول باری الشھدو منافع لھم ویذکروا اسم اللہ فی ایام معلومات ) منافع حج کے ان مناسک کا نام تھا جن کی ادائیگی احرام کی بنا پر واجب ہوگئی تھی۔ اس لئے ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا کلبی واجب ہونا چاہیے کیونکہ حج کے لئے حضرت ابراہیم ع لیہ السلام کی طرف سے اعلا ن عام جس طرح تمام مناسک حج پر مشتمل تھا اسی طرح جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنے پر بھی مشتمل تھا۔ اگر تسمیہ سے وہ ذکر اللہ مراد ہے جو رمی جمار کے موقعوں پر کیا جاتا ہے یا تکبیرات تشریق کی صورت میں ہوتا ہے، تو ان صورتوں میں ذکر اللہ کے وجوب پر آیت کی دلالت ہوگی۔ اگر یہ تمام معافی مراد لے لئے جائیں تو اس میں کوئی امتناع نہیں ہے۔ یعنی حج قران اور حج تمتع کے احرام کی بنا پر واجب ہونے والی قربانی ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا، اسی طرح احرام کی وجہ سے کسی قسم کے دم یعنی قربانی کے وجوب کی صورت میں ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا نیز تکبیرات تشریق کہنا اور رمی جمار کے موقعہ پر ذکر اللہ کرنا یہ تمام صورتیں مراد لے لی جائیں اس لئے کہ آیت میں ان تمام صورتوں کے مراد ہونے میں کوئی امتناع نہیں ہے۔ - معمر نے ایوب سے، انہوں نے نافع سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عمر جب قربانی کا جانور ذبح کرتے تو ” لا الہ الا اللہ واللہ اکبر “ کہتے ہیں۔ اعمش نے ابو ظبیان سے روایت کی ہے انہوں نے حضرت ابن عباس سے پوچھا کہ آپ نحر کرتے وقت کیا پڑھتے ہیں ؟ حضرت ابن عباس نے جواب میں فرمایا کہ میں ” اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ “ پڑھتا ہوں۔ سفیان نے ابوبکر الزبیدی سے اور انہوں نے عاصم بن شریف سے روایت کی ہے کہ حضرت علی نے دسویں ذی الحجہ کو ایک مینڈھا ذبح کیا اور اس موقع پر یہ دعا پڑھی ۔ بسم اللہ واللہ اکبر اللھم منک ولک ومن علی لک (اللہ کے نام کے ساتھ اللہ سب سے بڑا ہے، اے اللہ۔ یہ قربانی تیری ہی طرف سے اور تیرے ہی لئے ہے اور مجھ پر تیرا احسان ہے۔- قربانی کا گوشت کھانے کا بیان - قول باری ہے (ویذکروا اسم اللہ فی ایام معلومات علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام فکلوا منھا اور چند مقررہ دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں۔ خود بھی کھائیں) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت کھانے کے ایجاب کی مقتضی ہے تاہم سلف کے تمام حضرات اس امر پر متفق ہیں کہ قربانی کا گوشت کھانا واجب نہیں ہے اس لئے کہ قول باری (علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام) سے یا تو اضاحی (دسویں ذی الحجہ کو ذبح ہونے والے جانور) حج تمتع اور حج قران کی قربانیاں اور نفلی قربانی مراد ہے یا وہ جانور مراد ہیں جن کی قربانی محرم کے کسی خلاف احرام فعل پر واجب ہوتی ہے مثلاً شکار پکڑنے کی سزا کے طور پر واجب ہونے والی قربانی وغیرہ نیز محرم کا سلا ہوا لباس پہن لینا، خوشبو لگا لینا، تکلیف کی بنا پر سر کے بال اتروا لینا یا احصار کی حالت میں آ جانا ویرہ کی صورتوں میں واجب ہونے والی قربانیاں، جرمانوں اور سزائوں کی صورت میں واجب ہونے والی قربانیوں کا گوشت کھانا ممنوع ہے۔ قران اور تمتع کی قربانیوں نیز نفلی قربانی کا گوشت کھانا واجب نہیں ہے اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمتع اور قران کی قربانیوں کے متعلق لوگوں کے دو اقوال ہیں ایک قول کے مطابق گوشت کھانے کی اجازت نہیں ہے اور دوسرے قول کے مطابق گوشت کھانے کی اباحت ہے لیکن واجب نہیں ہے۔ سلف اور ان کے بعد آنے والے فقہاء کے مابین اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قول باری (فکلوا منھا) کا حکم وجوب پر محمول نہیں ہے۔ عطاء بن ابی رباح ، حسن بصری، ابراہیم نخعی اور مجاہد کا قول ہے کہ اگر چاہے تو کھالے اور اگر چاہے تو نہ کھائے۔ مجاہد کا قول ہے کہ اس حکم کی نہ ہی حیثیت ہے جو قول باری صواذا احللتم فاصطادوا اور جب تم احرام کھول دو تو شکار کرو) کے حکم کی ہے۔- ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ مشرکین قربانی کے اونٹوں کا گوشت نہیں کھاتے تھے۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی (فکلوا منھا) اب قربانی کرنے والا اگر چاہے تو گوشت کھالے اور اگر چاہے تو نہ کھائے۔ یونس بن بکیر نے ابوبکر الہذلی سے اور انہوں نے حسن بصری سے روایت کی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ قربانی کا جانور ذبح کرتے تو اس کے خون سے کعبہ کی دیواروں کو ترکہ دیتے اور گوشت کے ٹکڑے کر کے انہیں پتھروں اور چٹانوں پر رکھ دیتے اور یہ کہتے کہ جس جانور کو ہم نے اللہ کے لئے خاص کردیا اس میں سے کچھ لینا ہمارے لئے درست نہیں ہے البتہ اس کا گوشت درندے اور پرندے کھا لیں تو کھالیں جب اسلام آیا تو لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ زمانہ جاہلیت میں قربانی کے گوشت کو ہم اس طرح ٹھکانے لگاتے تھے، اب بھی ہم ایسا ہی کرلیں کیونکہ یہ تو اللہ کے لئے ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (فکلوا منھا واطعموا البائس الفقیر۔ خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ ” اب ایسا نہ کرو اس لئے کہ یہ اللہ کا نہیں ہوتا۔ “ حسن کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قربانی کا گوشت کھانا ان پر لازم نہیں کردیا اگر تمہاری مرضی ہو تو کھالو ورنہ نہ کھائو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق یہ مروی ہے کہ آپ نے قربانی کا گوشت کھایا تھا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت اس امر کا مقتضی ہے کہ اس میں مذکورہ جانور جن کو ذبح کرتے وقت ہمیں بسم اللہ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے وہ حج قران اور حج تمتع کی بنا پر ذبح ہونے والے جانور ہیں۔ آیت کم از کم دم قران، دم تمتع اور قربان کئے جانے والے دوسرے تمام جانوروں کو شامل ہے ۔ اگرچہ اس کا ظاہر دم قران اور دم تمتع کا مقتضی ہے۔ اس کی دلیل نسق تلاوت میں یہ قول باری ہے (فکلوا منھا واطعموا البائس الفقیر ثم لیقضوا تفثھم ولیو فوا نذور ھم ولیطوفوا بالبیت العتیق۔ خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذر پوری کریں اور اس قدیم گھر کا طواف کریں) آیت میں مذکورہ افعال پر دم قران اور دم تمتع کے سوا اور کوئی قربانی مترتب نہیں ہوتی اور لازم نہیں آتی۔ کیونکہ تمام قربانیاں ان افعال سے قبل اور ان کے بعد دینا جائز ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت سے قران اور تمتع کی قربانیاں مراد ہیں۔ امام شافعی کا خیال ہے کہ قران اور تمتع کی قربانیوں کا گوشت نہیں کھایا جائے گا لیکن ظاہر آیت ان کے اس قول کے بطلان کا مقتضی ہے۔ حضرت جابر ، حضرت انس اور دیگر حضرات کی روایت ہے کہ حجتہ الوداع میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قارن تھے۔ حضرت جابر اور حضرت ابن عباس نے روایت کی ہے کہ آپ حجتہ الوداع میں قربانی کے سو اونٹ ساتھ لے گئے تھے جن میں سے ساٹھ اونٹوں کو اپنے دست مبارک سے نحر کیا تھا اور باقی ماندہ اونٹوں کے نخر کے لئے دوسروں کو حکم دیا تھا چناچہ بھی نحر کیا گیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر قربانی کے گوشت کا ایک ایک ٹکڑا لے کر ایک ہانڈی میں پکوایا تھا اور گوشت تناول کرنے کے بعد شور بہ بھی پیا تھا۔ اس طرح آپ نے قران کی قربانی کا گوشت کھایا تھا۔ نیز جب یہ بات ثابت ہوگا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قارن تھے اور آپ کا طریق کار یہ تھا کہ ہمیشہ اعمال کی افضل ترین صورت پر عمل پیرا ہوتے تھے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حج قران حج افراد سے افضل ہے اور اس کی بنا پر واجب ہونے والا جانور قربانی کے طور پر ذبح کیا جاتا ہے، احرام میں کسی نقص کے پیدا ہون کے نتیجے میں اس کی کمی پورا کرنے کے طور پر ذبح نہیں کیا جاتا۔ جب یہ جانور قربانی کے طور پر ذبح کیا جاتا ہے تو اس کا گوشت کھا لینا اسی طرح جائز ہے جس طرح نفلی قربانی اور اضحیہ کا گوشت کھانا جائز ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ جب حضرت حفضہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ لوگوں نے تو احرام کھول دیا ہے اور آپ عمرے کا احرام نہیں کھول رہے ہیں تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا (انی سقت الھدی فلا احل الا یوم النحر ولو استقبلت من امری ما استدبرتہ ماسقت الھدی ولجعل تھا عمرۃ میں اپنے ساتھ ہدی یعنی قربانی کے جانور لایا ہوں اس لئے یوم النحر پر ہی احرام کھولوں گا، اگر مجھے اپنے معاملہ کا پہلا سے انداز ہ ہوجاتا جس طرح بعد میں ہوا ہے تو میں قربانی کے جانور اپنے ساتھ نہ لاتا اور صرف عمرہ کا احرام باندھ لیتا ) اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نفلی طور پر قربانی کے جانور ساتھ لائے ہوتے تو احرام کھولنے سے کوئی چیز مانع نہ ہوتی۔ اس لئے کہ نفلی طور پر قربانی کا جانور ساتھ لانے سے احرام کھولنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔- اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر قارن تھے تو حج کا احرام آپ کے لئے احرام کھلونے سے مانع تھا اس سلسلے میں قربانی کے جانور کا کوئی دخل نہیں تھا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس وقت حج کا احرام یوم النحر سے پہلے احرام کھولنے سے مانع نہیں تھا کیونکہ اس وقت حج فسخ کردینا جائز تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان صحابہ کرام کو جنہوں نے حج کا حرام باندھا تھا وہ ادا کر کے احرام کھول دینے کا حکم دیا تھا۔ اس طرح اس وقت یہ تمام حضرات اس شخص کی طرح تھے جس نے حج تمتع کے ارادے سے صرف عمرے کا احرام باندھا تھا۔ عمرہ کرنے کے بعد سے لے کر حج کا احرام باندھنے تک احرام کھلونے میں صرف اسی صورت میں رکاوٹ ہوتی ہے جب ایسا شخص اپنے ساتھ قربانی کا جانور لایا ہو۔ یہ بات اس کے لئے احرام کھولنے میں مانع ہوتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بھی قران کی وج ہ سے یہی صورت پیش آتی تھی۔ قربانی کے جانور ساتھ لانا آپ کے لئے احرام کھولنے سے مانع بن گیا تھا۔ حج کا احرام مانع نہیں بنا تھا۔ اس بات کے اندر ہمارے قول کی صحت کی دلیل موجود ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ہمراہ قربانی کے جو جانور لائے تھے وہ قران کی قربانی کے جانور تھے نفلی قربانی کے جانور نہیں تھے۔ اس لئے کہ نفلی قربانی کے جانوروں کو احرام کھولنے کی ممانعت میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قارن ہونے پر آپ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے (اتانی ات من ربی فی ھذا الوادی المبارک وقال قل حجۃ وعموۃ) اس وادی مبارک میں میرے پاس میرے رب کا فرستادہ آیا اور مجھ سے کہہ گیا کہ میں حج اور عمرہ کہوں) یعنی حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھوں۔ اور یہ چیز تو بالکل محال ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی میں کوئی قدم اٹھائے ہوں۔ حضرت ابن عمر کی یہ روایت کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج افراد کیا تھا، ان حضرات کی روایت کی معارض نہیں ہے جنہوں نے یہ بیان کیا ہے کہ آپ نے حج قران کیا تھا۔ اس لئے کہ قران کے راوی کو ایک زائد احرام کا علم ہوگیا تھا جس کا دوسرے راوی کو علم نہیں ہوا تھا۔ اس لئے اس کی روایت اولیٰ ہوگی یا یہ بھی ممکن ہے کہ حج افراد کے راوی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلبیہ کہتے ہوئے سنا ہو لیکن اس تلبیہ میں عمرے کا لفظ ان کے کانوں میں نہ پڑا ہو یا کہ اس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حج کا لفظ کہتے ہوئے سنا ہو۔ عمرے کا لفظ نہ سن سکا ہو اور پھر اپنی طرف سے یہ خیال کر بیٹھا ہو کہ آپ نے حج افراد کا احرام باندھا ہے اس لئے کہ قارن کو تلبیہ میں صرف لفظ حج کہنا جائز ہے ، عمرے کا لفظ اگر وہ نہ کہے تو کوئی حرج نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر وہ صرف لفظ عمرہ کہے تو بھی جائز ہے اور اگر دونوں لفظ کہے تو بھی درست ہے۔ جب یہ گنجائش موجود تھیں او بعض حضرات نے آپ کو حج کا تلبیہ کہتے ہوئے اور بعض نے حج اور عمرے دونوں کا تلبیہ کہتے ہوئے سنا تو اس صورت میں وہ روایت اولیٰ ہوگی جس میں دونوں باتیں مذکور ہیں پھر حضرت ابن عمر کے اس قول میں کہ آپ نے حج افراد کیا تھا، یہ احتمال موجود ہے کہ ان کی مراد یہ ہو کہ آپ نے حج کے افعال الگ سے ادا کئے تھے، یہ کہہ کر گویا حضرت ابن عمر نے یہ واضح کردیا کہ آپ نے حج اور عمرہ کے افعال الگ الگ ادا کئے تھے اور دونوں احراموں کے ذریعے صرف حج کی ادائیگی پر اقتصار نہیں کیا تھا بلکہ آپ نے عمرہ بھی ادا کیا تھا۔ حضرت ابن عمر کی اس وضاحت سے ان لوگوں کا قول باطل ہوگیا جو قران کی صورت میں حج اور عمرہ دونوں کے لئے صرف ایک طواف اور ایک سعی پر اکتفا کرلینے کے جواز کے قائل ہیں۔- صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت سے قران اور تمتع کی قربانیوں کا گوشت کھانا مروی ہے عطاء بن ابی رباح نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : نذر، فدیہ اور جرمانے کے طور پر ذبح ہونے والے جانوروں کے گوشت کے سوا دوسری تمام قربانیوں کا گوشت کھایا جائے گا۔ “ عبید اللہ بن عمر نے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نذر اور شکار کے جرمانے کے طور پر ذبح ہونے والے جانوروں کے سوا قربانی کے ہر جانور کا گوشت کھایا جائے گا۔ ہشام نے حسن اور عطاء سے روایت کی ہے کہ جزا یعنی جرمانے کے طور پر قربان کئے جانے والے جانور کے گوشت کے سوا ہر قربانی کا گوشت کھایا جائے گا۔ ان صحابہ کرام اور تابعین عظام نے دم قران اور دم تمتع کا گوشت کھانے کی اجازت دی ہے اور یہ ہمیں یہ علم نہیں کہ سلف میں سے کسی نے بھی اس کی ممانعت کی ہو۔- بائس اور فقیر میں فرق - قول باری (واطعموا البائس الفقیر) کی تفسیر کے سلسلے میں طلحہ بن عمرو نے عطا سے روایت کی ہے کہ ” جو شخص تجھ سے سوال کرے۔ “ ابن ابی نجیع نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ بائس وہ شخص ہوتا ہے جو ہاتھ پھیلا کر سوال کرتا ہے۔ ایسے شخص کو بائس کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ اس پر یئوس یعنی تنگدستی کا اتنا دبائو اور اثر ہوتا ہے کہ وہ دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اس کے فقر اور تنگدستی کی یہ حالت بطور مبالغہ بیان کی گئی ہے۔ بائس مسکین کے ہم معنی ہوتا ہے اس لئے کہ مسکین وہ شخص ہے جو حاجتمندی اور تنگدستی کی انتہا کو پہنچا ہوا ہو۔ یہ شخص ایسا ہوتا ہے کہ اس پر اس انتہا کی بنا پر بایں معنی ایک قسم کا سکون طاری ہوجاتا ہے کہ اس کے لئے دوڑ دھوپ اور تلاش معاش کی کوئی سبیل باقی نہیں رہتی۔ ایسے شخص کو کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ایک قول کے مطابق یہ وہ شخص ہے جو لوگوں سے مانگتا ہے۔- آیت زیر بحث تمام ہدایا (مکہ مکرمہ میں ذبح کے لئے ساتھ جانے والے جانور) اور اضاحی (عید قربان پر ذبح ہونے والے جانور) کو شامل ہے اور اس بات کی مقتضی ہے کہ ان کا گوشت کھانا مباح ہے اور گوشت کا کچھ حصہ صدقہ کردینا مندوب و مستحب ہے۔ ہمارے اصحاب نے صدقہ کے لئے گوشت کے تہائی حصے کا اندازہ مقرر کیا ہے۔ اس لئے کہ قول باری ہے (فکلوا منھا واطعموا البائس الفقیر) اور عید قربان پر ذبح ہونے والے جانوروں کے گوشت کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (فکلوا وادحروا کھائو اور ذخیرہ کرلو) اس لئے ہمارے اصحاب نے اس گوشت کے تین حصے کر کے ایک حصہ کھانے کے لئے ، ایک حصہ ذخیرہ کرنے کے لئے اور ایک حصہ فقیر و مسکین کو دینے کے لئے مقرر کردیا۔- گوشت اور چرم قربانی کے احکام - قول باری (فکلوا منھا واطعموا البائس الفقیر) میں قربانی کے گوشت کی فروخت کی ممانعت پر دلالت ہو رہی ہے اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد (فکلوا وادخروا) بھی دلالت کرتا ہے اس کے اندر بیع کی ممانعت ہے۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو سفیان نے عبدالکریم جزری سے کی ہے۔ انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے اور انہوں نے حضرت علی سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں آپ کے قربانی کے جانوروں کے گوشت کی نگرانی کروں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ان کی کھالیں اور ان کے جل (اونٹ کی پیٹھ پر ڈالا جانے والا کپڑا یعنی جھول) تقسیم کردینے کا حکم دیا اور یہ فرمایا کہ قصائی کو ان کی کھالیں نہ دوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ کہا کہ ہم خود اپنے پاس سے اونٹ ذبح کرنے والے کو اس کی اجرت دیں گے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجرت کے طور پر کھال دینے سے منع کردیا۔ اس بات میں بیع کی ممانتع بھی موجود ہے۔ اس لئے کہ قصائی کو قربانی کا کوئی حصہ اجرت کے طور پر دینا بیع کی بنا پر ہوگا۔ جب اس کا گوشت کھانا جائز ہوگیا تو اس سے یہ دلالت بھی حاصل ہوگئی کہ اس کی کھال سے فائدہ اٹھانا جائز ہے بشرطیکہ یہ بیع کے طور پر نہ ہو۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ قربانی کی کھالوں سے فائدہ اٹھانا درست ہے۔ یہ بات حضرت عمر، حضرت ابن عباس اور حضرت عائشہ سے مروی ہے۔- شعبی کا قول ہے کہ مسروق اپنی قربانی کی کھال کا مصلی بنا کر اس پر نماز پڑھا کرتے تھے۔ ابراہیم نخعی عطاء، طائوس اور شعبی سے منقول ہے کہ اس کی کھال سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قضائی کو اس کی اجرت میں قربانی کے جانور کی کوئی چیز دینے سے منع فرما دیا اور یہ کہا کہ ” ہم خود اپنے پاس سے اس کی اجرت ادا کریں گے۔ “ تو اس سے دو باتوں پر دلالت ہوئی۔ ایک تو یہ ہے کہ ممانعت اس بات کی ہے کہ قصائی کو اجرت کے طور پر قربانی کا کوئی جز نہ بنادیا جائے۔ اس لئے حضرت علی سے مروی اس روایت کے بعض طرق میں یہ ا لفاظ موجود ہیں۔” مجھے آپ نے حکم دیا کہ میں قصائی کی اجرت ان میں سے نہ دوں۔ “ بعض طرق کے الفاظ یہ ہیں۔ مجھے حکم دیا ہے کہ میں ذبح کرنے کی اجرت کے طور پر ان جانوروں میں سے کچھ نہ دوں۔ “ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ جزاء یعنی قصائی کو اجرت کی جہت کے بغیر گوشت دے دینا جائز ہے جس طرح دوسرے تمام لوگوں کو دینا جائز ہے اس میں اونٹوں کو نحر کرنے کے لئے اجرت پر کسی کو لینا جائز ہے اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا۔ ” ہم اسے خود اپنے پاس سے دیں گے۔ “ یہی بات ہر معلوم کام کے لئے اجارے کے جواز کی بنیاد ہے۔ ہمارے اصحاب نے بکری ذبح کرنے کے لئے کسی کو اجرت پر لینا جائز قرار دیا ہے۔ امام ابوحنیفہ نے قصاص میں قاتل کو قتل کرنے کے لئے کرایہ کے قاتل حاصل کرنے کی ممانعت کی ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ ذبح ایک معلوم و متعین عمل ہے جبکہ قتل ایک مبہم اور غیر معلوم عمل ہے۔ اس میں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آیا اسے ایک دو ضرب یا اس سے زائد ضربات لگا کر قتل کرے گا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٨) تاکہ اپنے فوائد اخروی اور دنیوی کے لیے حاضر ہوں، فوائد آخرت دعا اور اللہ کی عبادت اور فوائد دنیا نفع اور تجارت تاکہ ایام مقررہ یعنی ایام تشریق میں ان مخصوص قربانی کے جانوروں پر اللہ تعالیٰ کا نام لیں جو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دیے ہیں اور قربانی کے جانوروں میں سے تم خود بھی کھایا کرو، اور مصیبت زدہ محتاج کو بھی کھلایا کرو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ (لِّیَشْہَدُوْا مَنَافِعَ لَہُمْ ) ” - (وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِّنْم بَہِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ ج) ” - ” اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ “ سے مراد قربانی (١٠ ‘ ١١ اور ١٢ ذو الحجہ) کے دن ہیں۔ یعنی ایام نحر میں وہ لوگ اللہ کا نام لے کر جانور ذبح کریں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :48 اس سے مراد صرف دینی فائدے ہی نہیں ہیں بلکہ دنیوی فائدے بھی ہیں ۔ یہ اسی خانہ کعبہ اور اس کے حج کی برکت تھی کہ حضرت ابراہیم کے زمانہ سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک ڈھائی ہزار برس کی مدت میں عربوں کو ایک مرکز وحدت حاصل رہا جس نے ان کی عربیت کو قبائلیت میں بالکل گم ہو جانے سے بچائے رکھا ۔ اس کے مرکز سے وابستہ ہونے اور حج کے لیے ہر سال ملک کے تمام حصوں سے آتے رہنے کی بدولت ان کی زبان ایک رہی ، ان کی تہذیب ایک رہی ، ان کے اندر عرب ہونے کا احساس باقی رہا ، اور ان کو خیالات ، معلومات اور تمدنی طریقوں کی اشاعت کے مواقع ملتے رہے ۔ پھر یہ بھی اسی حج کی برکت تھی کہ عرب کی اس عام بدامنی میں کم از کم چار مہینے ایسے امن کے میسر آ جاتے تھے جن میں ملک کے ہر حصے کا آدمی سفر کر سکتا تھا اور تجارتی قافلے بھی بخیریت گزر سکتے تھے ۔ اس لیے عرب کی معاشی زندگی کے لیے بھی حج ایک رحمت تھا ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، آل عمران ، حواشی ، 80 ۔ 81 ۔ المائدہ ، حاشیہ 113 ۔ اسلام کے بعد حج کے دینی فائدوں کے ساتھ اس کے دنیوی فائدے بھی کئی گنے زیادہ ہو گئے ۔ پہلے وہ صرف عرب کے لیے رحمت تھا ۔ اب وہ ساری دنیا کے اہل توحید کے لیے رحمت ہو گیا ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :49 جانوروں سے مراد مویشی جانور ہیں ، یعنی اونٹ ، گائے ، بھیڑ ، بکری ، جیسا کہ سور انعام 142 ۔ 144 میں بصراحت بیان ہوا ہے ۔ ان پر اللہ کا نام لینے سے مراد اللہ کے نام پر اور اس کا نام لے کر انہیں ذبح کرنا ہے ، جیسا کہ بعد کا فقرہ خود بتا رہا ہے ۔ قرآن مجید میں قربانی کے لیے بالعموم جانور پر اللہ کا نام لینے کا استعارہ استعمال کیا گیا ہے ، اور ہر جگہ اس سے مراد اللہ کے نام پر جانور کو ذبح کرنا ہی ہے ۔ اس طرح گویا اس حقیقت پر متنبہ کیا گیا ہے کہ اللہ کا نام لیے بغیر ، یا اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر جانور کو ذبح کرنا کفار و مشرکین کا طریقہ ہے ۔ مسلمان جب کبھی جانور کو ذبح کرے گا اللہ کا نام لے کر کرے گا ، اور جب کبھی قربانی کرے گا اللہ کے لیے کرے گا ۔ ایام معلومات ( چند مقرر دنوں ) سے مراد کون سے دن ہیں ؟ اس میں اختلاف ہے ۔ ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد ذی الحجہ کے پہلے دس دن ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ ، حسن بصری ، ابراہیم نَخعی ، قتادہ اور متعدد دوسرے صحابہ و تابعین سے یہ قول منقول ہے ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بھی اسی طرف گئے ہیں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کا بھی ایک قول اسی کی تائید میں ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد یوم النحر ( یعنی ، 10 ذی الحجہ ) اور اس کے بعد کے تین دن ہیں ۔ اس کی تائید میں ابن عباس رضی اللہ عنہ ، ابن عمر رضی اللہ عنہ ، ابراہیم نخعی ، حسن اور عطاء کے اقوال پیش کیے جاتے ہیں ، اور امام شافعی رحمہ اللہ و احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک ایک قول اس کے حق میں منقول ہوا ہے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد تین دن ہیں ، یوم النحر اور دو دن اس کے بعد ۔ اس کی تائید میں حضرات عمر ، علی ، ابن عمر ، ابن عباس ، انس بن مالک ، ابو ہریرہ ، سعید بن مُسیّت اور سعید بن حبیر رضی اللہ عنہم کے اقوال منقول ہوئے ہیں ۔ فقہاء میں سے سفیان ثوری ، امام مالک ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ نے یہی قول اختیار کیا ہے اور مذہب حنفی و مالکی میں اسی پر فتویٰ ہے ۔ باقی کچھ شاذ اقوال بھی ہیں ، مثلاً کسی نے یکم محرم تک قربانی کے ایام کو دراز کیا ہے ، کسی نے صرف یوم النحر تک اسے محدود کر دیا ہے ، اور کسی نے یوم النحر کے بعد صرف ایک دن مزید قربانی کا مانا ہے ۔ لیکن یہ کمزور اقوال ہیں جن کی دلیل مضبوط نہیں ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :50 بعض لوگوں نے اس ارشاد کا یہ مطلب لیا ہے کہ کھانا اور کھلانا دونوں واجب ہیں ، کیونکہ حکم بصیغہ امر دیا گیا ہے ۔ دوسرا گروہ اس طرف گیا ہے کہ کھانا مستحب ہے اور کھلانا واجب ۔ یہ رائے امام شافعی رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کی ہے ۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ کھانا اور کھلانا دونوں مستحب ہیں ۔ کھانا اس لیے مستحب ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں لوگ اپنی قربانی کا گوشت خود کھانا ممنوع سمجھتے تھے ، اور کھلانا اس لیے پسندیدہ کہ اس میں غریبوں کی امداد اعانت ہے ۔ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے ۔ ابن جریر نے حسن بصری ، عطاء ، مجاہد اور ابراہیم نخعی کے یہ اقوال نقل کیے ہیں کہ : فَکُلُوْا مِنْھَا ۔ میں صیغۂ امر کے استعمال سے کھانے کا وجوب ثابت نہیں ہوتا ۔ یہ امر ویسا ہی ہے جیسے فرمایا: و اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا ، جب تم حالت احرام سے نکل آؤ تو پھر شکار کرو ( المائدہ ۔ آیت 2 ) اور : فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلوٰۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ ، پھر جب نماز ختم ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ ( الجمعہ ۔ آیت 10 ) ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ احرام سے نکل کر شکار کرنا اور نماز جمعہ کے بعد زمین میں پھیل جانا واجب ہے ۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ پھر ایسا کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے ۔ اسی طرح یہاں بھی چونکہ لوگ اپنی قربانی کا گوشت خود کھانے کو ممنوع سمجھتے تھے اس لیے فرمایا گیا کہ نہیں ، اسے کھاؤ ، یعنی اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے ۔ تنگ دست فقیر کو کھلانے کے متعلق جو فرمایا گیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غنی کو نہیں کھلایا جا سکتا ، دوست ، ہمسائے ، رشتہ دار ، خواہ محتاج نہ ہوں ، پھر بھی انہیں قربانی کے گوشت میں سے دینا جائز ہے ۔ یہ بات صحابہ کرام کے عمل سے ثابت ہے ۔ عَلْقمہ کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے میرے ہاتھ قربانی کے جانور بھیجے اور ہدایت فرمائی کہ یوم النحر کو انہیں ذبح کرنا ، خود بھی کھانا ، مساکین کو بھی دینا ، اور میرے بھائی کے گھر بھی بھیجنا ۔ ابن عمر کا بھی یہی قول ہے کہ ایک حصہ کھاؤ ، ایک حصہ ہمسایوں کو دو ، اور ایک حصہ مساکین میں تقسیم کرو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

15: حج کے کاموں میں ایک اہم کام جانوروں کی قربانی ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا نام لے کر انہیں ذبح کیا جائے۔ یہ اس کی طرف اشارہ ہے۔