Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے خبر دے رہا ہے کہ جو اس کے بندے اس پر بھروسہ رکھیں اس کی طرف جھکتے رہیں انہیں وہ اپنی امان نصیب فرماتا ہے ، شریروں کی برائیاں دشمنوں کی بدیاں خود ہی ان سے دور کردیتا ہے ، اپنی مدد ان پر نازل فرماتا ہے ، اپنی حفاظت میں انہیں رکھتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ ۭ وَيُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ 36؀ۚ ) 39- الزمر:36 ) یعنی کیا اللہ اپنے بندے کو کافی نہیں ؟ اور آیت میں ( وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ ۭ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا Ǽ۝ ) 65- الطلاق:3 ) جو اللہ پر بھروسہ رکھے اللہ آپ اسے کافی ہے الخ ، دغا باز ناشکرے اللہ کی محبت سے محروم ہیں اپنے عہدو پیمان پورے نہ کرنے والے اللہ کی نعمتوں کے منکر اللہ کے پیار سے دور ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

38۔ 1 جس طرح 6 ہجری میں کافروں نے اپنے غلبے کی وجہ سے مسلمانوں کو مکہ جا کر عمرہ نہیں کرنے دیا، اللہ تعالیٰ نے دو سال بعد ہی کافروں کے اس غلبہ کو ختم فرما کر مسلمانوں سے ان کے دشمنوں کو ہٹا دیا اور مسلمانوں کو ان پر غالب کردیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٤] اللہ تعالیٰ اہل حق کا فریق اس لئے بنتا ہے کہ فریق ثانی خائن اور بددیانت بھی ہے اور ناشکرا بھی۔ بددیانت اور خائن اس لحاظ سے کہ اللہ نے انھیں کعبہ کی تولیت کی امانت سپرد کی تو انہوں نے اہل حق کو کعبہ میں داخل ہونے پر پابندی عائد کردی اور ناشکرے اس لحاظ سے ہیں کہ ان کو سب نعمتیں تو اللہ نے دی ہیں مگر انہوں نے اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے اپنی ساری نیاز مندیاں اور عبادتیں بتوں کے لئے وقف کردیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ اللّٰهَ يُدٰفِعُ عَنِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : پچھلی آیات کے ساتھ اس مضمون کا تعلق یہ ہے کہ اس سورت میں اس سے پہلے کفار کا اور ان کے لیے عذاب الیم کا ذکر ہوا ہے، جو اسلام اور مسجد حرام سے لوگوں کو روکتے ہیں کہ جس میں اللہ کی عبادت کرنا ہر ایک کا حق ہے۔ پھر آیت (١٩) ” ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّهِمْ “ میں مشرکین اور موحدین کی کشمکش کا ذکر فرمایا ہے، اس کے بعد بیت اللہ کی تعمیر، حج کی ابتدا اور قربانی اور حج کے دوسرے اعمال کی فضیلت کا بیان ہوا ہے جس سے مہاجر مسلمانوں کے دل میں اپنے وطن کو دیکھنے، بیت اللہ کی زیارت اور اس کے عمرہ و حج کا شوق پیدا ہونا قدرتی تھا اور یہ خیال بھی کہ کافر کب تک ظلم کرتے رہیں گے اور مسلمانوں کو اللہ کے گھر سے روکتے رہیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اپنے آپ کو بےیارو مددگار مت سمجھیں، اللہ تعالیٰ ان کا دفاع کر رہا ہے اور کرے گا۔ بہت جلد مسلمانوں کو غلبہ عطا ہوگا اور کفار، جنھوں نے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے اور انھیں ان کے وطن مکہ معظمہ سے ہجرت پر مجبور کیا، وہ مغلوب ہوں گے۔- اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ : ” خَوَّانٍ “ ” خَانَ یَخُوْنُ “ سے اسم فاعل مبالغے کا صیغہ ہے اور ” كَفُوْرٍ “ ” کَفَرَ یَکْفُرُ “ سے اسم فاعل مبالغے کا صیغہ ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کے دفاع کی وجہ بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو بیحد خیانت کرنے والا، بہت ناشکرا ہے، جبکہ کفار میں یہ دونوں صفات پائی جاتی ہیں۔- 3 یہاں ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو بیحد خیانت کرنے والا، بہت ناشکرا ہو، تو کیا وہ عام خیانت کرنے والے اور عام ناشکرے کو پسند فرماتا ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی خیانت کرنے والے اور کسی بھی ناشکرے کو پسند نہیں کرتا، خواہ وہ صرف خائن و کافر ہو یا خوان و کفور ہو، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْخَاۗىِٕنِيْنَ ) [ الأنفال : ٥٨ ] ” بیشک اللہ خیانت کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔ “ اور فرمایا : (فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ ) [ آل عمران : ٣٢ ] ” بیشک اللہ کفر کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔ “ یہاں مبالغے کے صیغے لانے کے دو فائدے ہیں، ایک یہ کہ کفار مکہ کا حال بیان کرنا مقصود ہے کہ انھیں بیت اللہ کی تولیت کی امانت اور حرم میں سکونت کی نعمت عطا کی گئی مگر انھوں نے شرک و کفر پر اصرار کرکے اور مسلمانوں پر بےپناہ مظالم ڈھا کر، انھیں خانہ بدر کرکے اور آئندہ حج و عمرہ، نماز و طواف اور دوسری عبادات کے لیے اللہ کے گھر میں آنے سے روک دیا۔ یہ امانت میں حد سے بڑھی ہوئی خیانت اور نعمت کی بہت بڑی ناشکری ہے۔ یاد رہے کہ ” خَوَّانٍ “ میں ” كَفُوْرٍ “ سے زیادہ مبالغہ ہے۔ ” خَؤُوْنٌ“ کے بجائے ” خَوَّانٍ “ اس لیے لایا گیا ہے کہ کفر اور دوسرے نقائص کی اصل بھی خیانت ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ممکن نہیں کہ انسان میں پائے جانے والے نقائص مبالغہ سے خالی ہوں۔ خیانت ہی کو لے لیجیے آدمی جب کسی کی خیانت کی نیت کرتا ہے، پھر اس پر عمل کرتا ہے تو درحقیقت وہ پہلے اپنی جان کی خیانت کرتا ہے، پھر لوگوں کی اور رب تعالیٰ کی بھی، کفر کا بھی یہی حال ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - بلاشبہ اللہ تعالیٰ (ان مشرکین کے غلبہ اور ایذا رسانی کی قدرت کو) ایمان والوں سے (عنقریب) ہٹا دے گا (کہ پھر حج وغیرہ سے روک ہی نہ سکیں گے) بیشک اللہ تعالیٰ کسی دغا باز کفر کرنے والے کو نہیں چاہتا (بلکہ ایسے لوگوں سے ناراض ہے اس لئے انجام کار ان لوگوں کو مغلوب اور مومنین مخلصین کو غالب کرے گا)- معارف و مسائل - سابقہ آیات میں اس کا ذکر تھا کہ مشرکین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کو جو عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ کے قریب مقام حدیبیہ پر پہنچ چکے تھے حرم شریف اور مسجد حرام میں جانے اور عمرہ ادا کرنے سے روک دیا تھا اس آیت میں مسلمانوں کو اس وعدہ کے ساتھ تسلی دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ عنقریب ان مشرکین کی اس قوت کو توڑ دے گا جس کے ذریعہ وہ مسلمانوں پر ظلم کرتے ہیں یہ واقعہ ٦ ہجری میں پیش آیا تھا اس کے بعد سے مسلسل کفار مشرکین کی طاقت کمزور اور ہمت پست ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ ٨ ھ میں مکہ مکرمہ فتح ہوگیا۔ اگلی آیات میں اس کی تفصیل آ رہی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ اللہَ يُدٰفِعُ عَنِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ۝ ٣٨ۧ- دفع - الدَّفْعُ إذا عدّي بإلى اقتضی معنی الإنالة، نحو قوله تعالی: فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوالَهُمْ- [ النساء 6] ، وإذا عدّي بعن اقتضی معنی الحماية، نحو : إِنَّ اللَّهَ يُدافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا - [ الحج 38] ، وقال : وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ [ الحج 40] ، وقوله : لَيْسَ لَهُ دافِعٌ مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج 2- 3] ، أي : حام، والمُدَفَّع : الذي يدفعه كلّ أحد «3» ، والدُّفْعَة من المطر، والدُّفَّاع من السّيل .- ( د ف ع ) الدفع ( دفع کرنا ، ہٹا دینا ) جب اس کا تعدیہ بذریعہ الیٰ ہو تو اس کے معنی دے دینے اور حوالے کردینا ہوتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوالَهُمْ [ النساء 6] تو ان کا مال ان کے حوالے کردو ۔ اور جب بذریعہ عن متعدی ہو تو اس کے معنی مدافعت اور حمایت کرنا ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ اللَّهَ يُدافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا[ الحج 38] خدا تو مومنوں سے ان کے دشمنوں کو ہٹا تا تا رہتا ہے ہے ۔ وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ [ الحج 40] اور خدا لوگوں کو ایک دوسرے ( پر چڑھائی اور حملہ کرنے ) سے ہٹاتا نہ رہتا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لَيْسَ لَهُ دافِعٌ مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج 2- 3] کوئی اس کو ٹال نہ سکے گا ۔ اور وہ ) خدائے صاحب درجات کی طرف سے ( نازل ہوگا ) میں دافع کے معنی حامی اور محافظ کے ہیں ۔ المدقع ۔ ہر جگہ سے دھتکار ہوا ۔ ذلیل ار سوار ۔ الدفعۃ ۔ بارش کی بوچھاڑ ۔ الدفاع سیلاب کا زور ۔- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - خون - الخِيَانَة والنّفاق واحد، إلا أنّ الخیانة تقال اعتبارا بالعهد والأمانة، والنّفاق يقال اعتبارا بالدّين، ثم يتداخلان، فالخیانة : مخالفة الحقّ بنقض العهد في السّرّ. ونقیض الخیانة :- الأمانة وعلی ذلک قوله : لا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ- [ الأنفال 27] ،- ( خ و ن ) الخیانۃ - خیانت اور نفاق دونوں ہم معنی ہیں مگر خیانت کا لفظ عہد اور امانت کا پاس نہ کرنے پر بولا جاتا ہے اور نفاق دین کے متعلق بولا جاتا ہے پھر ان میں تداخل ہوجاتا ہے پس خیانت کے معنی خفیہ طور پر عہد شکنی کرکے حق کی مخالفت کے آتے ہیں اس کا ضد امانت ہے ۔ اور محاورہ میں دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] نہ تو خدا اور رسول کی امانت میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو ۔ - كفر ( ناشکري)- الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152]- ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] ؂ تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ معنی کفران کے متعلق فرمایا : ۔- لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٨) اور قول و فعل سے نیکی کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری سنا دیجیے یا یہ کہ خلوص کے ساتھ قربانی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔- یقینا اللہ تعالیٰ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور قرآن کریم پر ایمان رکھنے والوں سے ان کفار مکہ کے مظالم کو ہٹا دے گا بیشک اللہ تعالیٰ کسی دھوکے باز کفر کرنے والے کو نہیں چاہتا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

اب ہمیں جن آیات کا مطالعہ کرنا ہے ان میں وارد احکام حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت و تحریک کی جدوجہد میں ایک نئے موڑ ( ) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ وہی آیات ہیں جو ہجرت کے سفر کے دوران میں نازل ہوئی تھیں۔ (قبل ازیں آیت ١١ کے ضمن میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت کا حوالہ گزر چکا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس سورت کی کچھ آیات اثنائے سفر ہجرت میں نازل ہوئی تھیں) ۔۔ ان آیات کا مضمون اور مقام و محل اس پہلو سے بھی قابل غور ہے کہ سورة البقرۃ کے ٢٣ ویں رکوع میں یعنی تقریباً سورت کے وسط میں رمضان المبارک اور روزے کے احکام و فضائل کا ذکر ہے اور اس کے بعد دو رکوع (٢٤ واں اور ٢٥ واں رکوع) قتال فی سبیل اللہ اور مناسک حج کے احکام پر مشتمل ہیں۔ بالکل اسی طرح یہاں بھی اس سورت کے تقریباً وسط میں دو رکوع مناسک حج پر مشتمل ہیں اور اس کے فوراً بعد اب قتال فی سبیل اللہ کا ذکر آ رہا ہے۔ اس سے اگرچہ سورة البقرۃ اور سورة الحج کی باہمی مشابہت بھی ظاہر ہوتی ہے لیکن ایک بہت اہم حقیقت یہ واضح ہوتی ہے کہ ان دونوں مضامین (حج اور قتال فی سبیل اللہ) میں بہت گہرا ربط ہے۔ اس ربط اور تعلق کی وجہ بظاہر یہ نظر آتی ہے کہ کعبۃ اللہ جو خدائے واحد کی عبادت کے لیے بنایا گیا تھا وہ ان آیات کے نزول کے وقت مشرکین کے زیر تسلط تھا اور توحید کے اس مرکز کو انہوں نے شرک کا اڈّا بنایا ہوا تھا۔ چناچہ اس وقت امت مسلمہ کا پہلا فرض منصبی یہ قرار پایا کہ وہ اللہ کے اس گھر کو مشرکین کے تسلط سے واگزار کرا کے اسے واقعتا توحید کا مرکز بنائے۔ لیکن یہ کام دعوت اور وعظ سے ہونے والا تو نہیں تھا ‘ اس کے لیے طاقت کا استعمال ناگزیر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں مقامات پر حج بیت اللہ کے احکام کے ساتھ ساتھ قتال فی سبیل اللہ کا تذکرہ ہے۔- آیت ٣٨ (اِنَّ اللّٰہَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ط) ” - اس تحریک میں اب جو نیا دور شروع ہونے جا رہا ہے اس میں مسلح تصادم نا گزیر ہے۔ چناچہ آیت زیر نظر کا اصل پیغام یہ ہے کہ اس رزم گاہ میں اہل ایمان خود کو تنہا نہ سمجھیں۔ ان کی مدد اور نصرت کے لیے اور ان کے دشمنوں کو بیخ و بنُ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اللہ ان کی پشت پر موجود ہے۔- (اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْرٍ ) ” - یہ یقیناً مشرکین مکہ کا تذکرہ ہے ‘ جو ایک طرف خیانت کی انتہائی حدود کو پھلانگ گئے تو دوسری طرف ناشکری میں بھی ننگ انسانیت ٹھہرے۔ یہ لوگ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کی وراثت کے امین تھے۔ بیت اللہ گویا ان لوگوں کے پاس ان بزرگوں کی امانت تھی۔ یہ گھر تو تعمیر ہی اللہ کی عبادت کے لیے ہوا تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کی گواہی ان الفاظ میں دی تھی : (رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ ) (ابراہیم : ٣٧) کہ پروردگار میں اپنی اولاد کو اس گھر کے پہلو میں اس لیے بسانے جا رہا ہوں کہ یہ لوگ تیری عبادت کریں۔ پھر آپ ( علیہ السلام) نے اپنے اور اپنی اولاد کے لیے یہ دعا بھی کی تھی : (وَاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ ) ابراہیم) کہ پروردگار مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی کی لعنت سے بچائے رکھنا۔ چناچہ مشرکین مکہّ نے اللہ کے اس گھر اور توحید کے اس مرکز کو شرک سے آلودہ کر کے اللہ تعالیٰ ہی کی نافرمانی نہیں کی تھی بلکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی متبرک امانت میں خیانت کا ارتکاب بھی کیا تھا۔- دوسری طرف یہ لوگ اپنے کرتوتوں سے اللہ کی نا شکری کے مرتکب بھی ہوئے۔ وہ خوب جانتے تھے کہ پورے جزیرہ نمائے عرب میں مکہ کو جو مرکزی حیثیت حاصل ہے وہ بیت اللہ کی وجہ سے ہے۔ وہ اس حقیقت سے بھی اچھی طرح واقف تھے کہ مشرق و مغرب کے درمیان تجارتی میدان میں ان کی اجارہ داری خانہ کعبہ ہی کے طفیل قائم ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ شام (موسم گرما) اور یمن (موسم سرما) کے درمیان ان کے قافلے قبائلی حملوں اور روایتی لوٹ مار سے محفوظ رہتے تھے تو صرف اس لیے کہ وہ بیت اللہ کے متولی تھے۔ یہی وہ حقائق تھے جن کی طرف ان کی توجہ سورة القریش میں دلائی گئی ہے : (لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ ۔ اٖلٰفِہِمْ رِحْلَۃَ الشِّتَآءِ وَالصَّیْفِ فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ ۔ الَّذِیْٓ اَطْعَمَہُمْ مِّنْ جُوْعٍلا وَّاٰمَنَہُمْ مِّنْ خَوْفٍ ) ” قریش کو مانوس کرنے کے لیے انہیں سردیوں اور گرمیوں کے سفر سے مانوس کرنے کے لیے پس انہیں چاہیے کہ وہ (اس سب کچھ کے شکر میں) اس گھر کے رب کی بندگی کریں ‘ جس نے انہیں بھوک میں کھانا کھلایا ‘ اور خوف میں امن بخشا۔ “- مگر اس سب کچھ کے باوجود انہوں نے نا شکری کی انتہا کردی۔ انہوں نے اللہ کی بندگی کے بجائے بت پرستی اختیار کی اور بیت اللہ کو توحید کا مرکز بنانے کے بجائے اسے ُ بت خانے میں تبدیل کردیا۔ اس پس منظر کو ذہن نشین کر کے آیت زیر نظر کا مطالعہ کیا جائے تو سیاق وسباق بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ وہ خائن اور ناشکرے لوگ کون ہیں جنہیں اللہ پسند نہیں کرتا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :76 مدافعت دفع سے ہے جس کے اصل معنی کسی چیز کو ہٹانے اور دور کرنے کے ہیں ۔ مگر جب دفع کرنے کے بجائے مدافعت کرنا بولیں گے تو اس میں دو مفہوم اور شامل ہو جائیں گے ۔ ایک یہ کہ کوئی دشمن طاقت ہے جو حملہ آور ہو رہی ہے اور مدافعت کرنے والا اس کا مقابلہ کر رہا ہے ۔ دوسرے یہ کہ یہ مقابلہ بس ایک دفعہ ہی ہو کر نہیں رہ گیا بلکہ جب بھی وہ حملہ کرتا ہے یہ اس کو دفع کرتا ہے ۔ ان دو مفہومات کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو اہل ایمان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے مدافعت کرنے کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ کفر اور ایمان کی کشمکش میں اہل ایمان یکہ و تنہا نہیں ہوتے بلکہ اللہ خود ان کے ساتھ ایک فریق ہوتا ہے ۔ وہ ان کی تائید اور حمایت فرماتا ہے ، ان کے خلاف دشمنوں کی چالوں کا توڑ کرتا ہے اور موذیوں کے ضرر کو ان سے دفع کرتا رہتا ہے ۔ پس یہ آیت حقیقت میں اہل حق کے لیے ایک بہت بڑی بشارت ہے جس سے بڑھ کر ان کا دل مضبوط کرنے والی کوئی دوسری چیز نہیں ہو سکتی ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :77 یہ وجہ ہے اس بات کی کہ اس کشمکش میں اللہ کیوں اہل حق کے ساتھ ایک فریق بنتا ہے ۔ اس لیے کہ حق کے خلاف کشمکش کرنے والا دوسرا فریق خائن ہے ، اور کافر نعمت ہے ۔ وہ ہر اس امانت میں خیانت کر رہا ہے جو اللہ نے اس کے سپرد کی ہے ، اور ہر اس نعمت کا جواب ناشکری اور کفران اور نمک حرامی سے دے رہا ہے جو اللہ نے اس کو بخشی ہے ۔ لہٰذا اللہ اس کو ناپسند فرماتا ہے اور اس کے خلاف جد و جہد کرنے والے حق پرستوں کی تائید کرتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

22: مکہ مکرمہ میں کافروں کی طرف سے مسلمانوں پر جو ظلم توڑے جارہے تھے، شروع میں قرآن کریم ہی نے انہیں بار بار صبر سے کام لینے کا حکم دیا تھا، اب اس آیت میں یہ تسلی دی جارہی ہے کہ مسلمانوں کے لئے یہ صبر آزما مرحلہ اب ختم ہونے والا ہے اور وقت آگیا ہے کہ ان ظالموں کے ظلم کا جواب دیا جاے ؛ چنانچہ اگلی آیت میں مسلمانوں کو جہاد کی اجازت دی گئی ہے ؛ لیکن اس سے پہلے یہ خوشخبری دے دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ خود مسلمانوں کا دفاع کرے گا اس لئے وہ اب بے خوف ہو کر لڑیں اور وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں سے لڑائی ہونی ہے وہ دغا باز اور ناشکرے لوگ ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا، اس لئے وہ ان کے خلاف مسلمانوں ہی کی مدد کرے گا۔