Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حکم جہاد صادرہوا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب مدینے سے بھی نکالے جانے لگے اور کفار مکے سے چڑھ دوڑے تب جہاد کی اجازت کی یہ آیت اتری ۔ بہت سے سلف سے منقول ہے کہ جہاد کی یہ پہلی آیت ہے جو قرآن میں اتری ۔ اسی سے بعض بزرگوں نے استدلال کیا ہے کہ یہ سورت مدنی ہے ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے شریف سے ہجرت کی ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان سے نکلا کہ افسوس ان کفار نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو وطن سے نکالا یقینا یہ تباہ ہوں گے ۔ پھر یہ آیت اتری تو صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جان لیا کہ جنگ ہو کر رہے گی ۔ اللہ اپنے مومن بندوں کی مدد پر قادر ہے ۔ اگر چاہے تو بےلڑے بھڑے انہیں غالب کردے لیکن وہ آزمانا چاہتا ہے اسی لئے حکم دیا کہ ان کفار کی گردنیں مارو ۔ الخ ، اور آیت میں ہے فرمایا آیت ( قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ 14۝ۙ ) 9- التوبہ:14 ) ان سے لڑو اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سزا دے گا اور رسوا کرے اور ان پر تمہیں غالب کرے گا اور مومنوں کے حوصلے نکالنے کا موقع دے گا کہ ان کے کلیجے ٹھنڈے ہوجائیں ساتھ ہی جسے چاہے گا توفیق توبہ دے گا اللہ علم وحکمت والا ہے ۔ اور آیت میں ہے ( اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلَا رَسُوْلِهٖ وَلَا الْمُؤْمِنِيْنَ وَلِيْجَةً ۭ وَاللّٰهُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ 16۝ۧ ) 9- التوبہ:16 ) یعنی کیا تم نے یہ سوچ رکھا ہے کہ تم چھوڑ دیئے جاؤ گے حالانکہ اب تک تو وہ کھل کر سامنے نہیں آئے جو مجاہد ہیں ، اللہ ، رسول اور مسلمانوں کے سوا کسی سے دوستی اور یگانگت نہیں کرتے ۔ سمجھ لو کہ اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے ۔ اور آیت میں ہے کیا تم نے یہ گمان کیا ہے کہ تم جنت میں چلے جاؤگے حالانکہ اب تک مجاہدین اور صابرین دوسروں سے ممتاز نہیں ہوئے ۔ اور آیت میں فرمایا ہے آیت ( وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِيْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ ۙ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَكُمْ 31؀ ) 47-محمد:31 ) ہم تمہیں یقینا آزمائیں گے یہاں تک کہ تم میں سے غازی اور صبر کرنے والے ہمارے سامنے نمایاں ہوجائیں ۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔ پھر فرمایا اللہ ان کی مدد پر قادر ہے ۔ اور یہی ہوا بھی کہ اللہ نے اپنے لشکر کو دنیا پر غالب کردیا ۔ جہاد کو شریعت نے جس وقت مشروع فرمایا وہ وقت بھی اس کے لئے بالکل مناسب اور نہایت ٹھیک تھا جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں رہے مسلمان بہت ہی کمزور تھے تعداد میں بھی دس کے مقالبے میں ایک بمشکل بیٹھتا ۔ چنانچہ جب لیلتہ العقبہ میں انصاریوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تو انہوں نے کہا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں تو اس وقت منیٰ میں جتنے مشرکین جمع ہیں ان پر شبخون ماریں ۔ لیکن آپ نے فرمایا مجھے ابھی اس کا حکم نہیں دیا گیا ۔ یہ یاد رہے کہ یہ بزرگ صرف اسی ( ٨٠ ) سے کچھ اوپر تھے ۔ جب مشرکوں کی بغاوت بڑھ گئی ، جب وہ سرکشی میں حد سے گزر گئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ایذائیں دیتے دیتے اب آپ کے قتل کرنے کے درپے ہوگئے آپ کو جلاوطن کرنے کے منصوبے گانٹھنے لگے ۔ اسی طرح صحابہ کرام پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑ دیئے ۔ بیک بینی ودوگوش وطن مال اسباب ، اپنوں غیروں کو چھوڑ کر جہاں جس کا موقعہ بنا گھبرا کرچل دیا کچھ تو حبشہ پہنچے کچھ مدینے گئے ۔ یہاں تک کہ خود آفتاب رسالت کا طلوع بھی مدینے شریف میں ہوا ۔ اہل مدینہ محمدی جھنڈے تلے جوش خروش سے جمع لشکری صورت مرتب ہوگئی ۔ کچھ مسلمان ایک جھنڈے تلے دکھائی دینے لگے ، قدم ٹکانے کی جگہ مل گئی ۔ اب دشمنان دین سے جہاد کے احکام نازل ہوئے تو پس سب سے پہلے یہی آیت اتری ۔ اس میں بیان فرمایا گیا کہ یہ مسلمان مظلوم ہیں ، ان کے گھربار ان سے چھین لئے گئے ہیں ، بےوجہ گھر سے بےگھر کردئیے گئے ہیں ، مکے سے نکال دئیے گئے ، مدینے میں بےسرو سامانی میں پہنچے ۔ ان کا جرم بجز اس کے سوا نہ تھا کہ صرف اللہ کے پرستار تھے رب کو ایک مانتے تھے اپنے پروردگار صرف اللہ کو جانتے تھے ۔ یہ استثنا منقطع ہے گو مشرکین کے نزدیک تو یہ امر اتنا بڑا جرم ہے جو ہرگز کسی صورت سے معافی کے قابل نہیں ۔ فرمان ہے آیت ( يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِيَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ رَبِّكُمْ ۭ اِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِيْ سَبِيْلِيْ وَابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِيْ Ǻ۝ ) 60- الممتحنة:1 ) تمہیں اور ہمارے رسول کو صرف اس بنا پر نکالتے ہیں کہ تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو جو تمہارا حقیقی پروردگار ہے ۔ خندقوں والوں کے قصے میں فرمایا آیت ( وما نقموا منہم الا ان یومنوا باللہ العزیز الحمید ) یعنی دراصل ان کا کوئی قصور نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ غالب ، مہربان ، ذی احسان پر ایمان لائے تھے ۔ مسلمان صحابہ خندق کھودتے ہوئے اپنے رجز میں کہہ رہے تھے ۔ شعر ( لاہم لو لا انت ما اہتدینا ولا تصدقنا ولا صلینا فانزلن سکینتہ علینا وثبت الاقدام ان لاقینا ان الا ولی قد بغوا علینا اذا ارادوافتنتہ ابینا ) خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی موافقت میں تھے اور قافیہ کا آخری حرف آپ بھی ان کے ساتھ ادا کرتے اور ابینا کہتے ہوئے خوب بلند آواز کرتے ۔ پھر فرماتا ہے اگر اللہ تعالیٰ ایک کا علاج دوسرے سے نہ کرتا اگر ہر سیر پر سوا سیر نہ ہوتا تو زمین میں شرفساد مچ جاتا ، ہر قوی ہر کمزور کو نگل جاتا ۔ عیسائی عابدوں کے چھوٹے عبادت خانوں کو صوامع کہتے ہیں ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ صابی مذہب کے لوگوں کے عبادت خانوں کا نام ہے اور بعض کہتے ہیں مجوسیوں کے آتش کدوں کو صوامع کہتے ہیں ۔ مقامل کہتے ہیں یہ وہ گھر ہیں جو راستوں پر ہوتے ہیں ۔ بیع ان سے بڑے مکانات ہوتے ہیں یہ بھی نصرانیوں کے عابدوں کے عبادت خانے ہوتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں یہ یہودیوں کے کنیسا ہیں ۔ صلوات کے بھی ایک معنی تو یہی کئے گئے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں مراد گرجا ہیں ۔ بعض کا قول ہے صابی لوگوں کا عبادت خانہ ۔ راستوں پر جو عبادت کے گھر اہل کتاب کے ہوں انہیں صلوات کہاجاتا ہے اور مسلمانوں کے ہوں انہیں مساجد ۔ فیہا کی ضمیر کا مرجع مساجد ہے اس لئے کہ سب سے پہلے یہی لفظ ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد یہ سب جگہیں ہیں یعنی تارک الدنیا لوگوں کے صوامع ، نصرانیوں کے بیع ، یہودیوں کے صلوات اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں اللہ کا نام خوب لیا جاتا ہے ۔ بعض علماء کا بیان ہے کہ اس آیت میں اقل سے اکثر کی طرف کی ترقی کی صنعت رکھی گئی ہے پس سب سے زیادہ آباد سب سے بڑا عبادت گھر جہاں کے عابدوں کا قصد صحیح نیت نیک عمل صالح ہے وہ مسجدیں ہیں ۔ پھر فرمایا اللہ اپنے دین کے مددگاروں کا خود مددگار ہے جیسے فرمان ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ Ċ۝ ) 47-محمد:7 ) یعنی اگر اے مسلمانو تم اللہ کے دین کی امداد کروگے تو اللہ تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہیں ثابت قدمی عطا فرمائے گا ۔ کفار پر افسوس ہے اور ان کے اعمال غارت ہیں ۔ پھر اپنے دو وصف بیان فرمائے قوی ہونا کہ ساری مخلوق کو پیدا کر دیا ، عزت والا ہونا کہ سب اس کے ماتحت ہر ایک اس کے سامنے ذلیل وپست سب اس کی مدد کے محتاج وہ سب سے بےنیاز جسے وہ مدد دے وہ غالب جس پر سے اس کی مدد ہٹ جائے وہ مغلوب ۔ فرماتا ہے آیت ( وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِيْنَ ١٧١؀ښ ) 37- الصافات:171 ) یعنی ہم نے تو پہلے سے ہی اپنے رسولوں سے وعدہ کرلیا ہے کہ ان کی یقینی طور پر مدد کی جائے گی اور یہ کہ ہمارا لشکر ہی غالب آئے گا ۔ اور آیت میں ہے آیت ( كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ 21؀ ) 58- المجادلة:21 ) خدا کہہ چکا ہے کہ میں اور میرا رسول غالب ہیں ۔ بیشک اللہ تعالیٰ قوت وعزت والا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

39۔ 1 اکثر سلف کا قول ہے کہ اس آیت میں سب سے پہلے جہاد کا حکم دیا گیا، جس کے دو مقصد یہاں بیان کئے گئے ہیں۔ مظلومیت کا خاتمہ اور اعلائے کلمۃ اللہ۔ اس لئے کہ مظلومین کی مدد اور ان کی داد رسی نہ کی جائے تو پھر دنیا میں زور آور کمزوروں کو اور بےوسیلہ لوگوں کو جینے ہی نہ دیں جس سے زمین فساد سے بھر جائے۔ اور اگر باطل تو باطل کے غلبے سے دنیا کا امن و سکون اور اللہ کا نام لینے والوں کے لئے کوئی عبادت خانہ باقی نہ رہے (مذید تشریح کے لئے دیکھئے سورة بقرہ، آیت 251 کا حاشیہ) ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٥] مکہ میں جب مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جارہے تھے تو اس وقت بعض جرأت مند صحابہ نے ان کافروں سے جنگ کرنے کی اجازت طلب کی تھی مگر اس وقت اللہ نے انھیں ایسی اجازت نہیں دی۔ بکہ صبر و استقامت سے ظلم کو برداشت کرنے کی ہی تلقین کی جاتی رہی۔ پھر جب مسلمان مدینہ میں منتقل ہوگئے اور ایک چھوٹی سی اسلام مملکت کی داغ بیل پڑگئی، جو صرف مدینہ کے ایک چھوٹے سے قصبے تک محدود تھی۔ مسجد نبوی تعمیر ہوگئی جو مسلمانوں کے ہر طرح کے معاملات میں ہیڈ کو ارٹر کا کام دیتی تھی۔ مہاجرین کے مسولہ معاش کو مواخات کے ذریعہ کسی حد تک حل کرلیا گیا۔ یہودی قبائل اور مشرک قبائل سے امن و آشتی کے ساتھ آپس میں رہنے کے ماہدات طے پاگئے۔ اور مسلمان اس قبل ہوگئے کہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں۔ تو ان کو کافروں سے جہاد کرنے کی اجازت مل گئی۔ اور یہی وہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو مدافعانہ جنگ کی اجازت دی گئی اور اس اجازت کی وجہ صاف الفاظ میں بتلا دی گئی کہ یہ اجازت انھیں اس لئے دی جارہی ہے کہ ان پر مسلسل ظلم ڈھائے جاتے رہے ہیں۔ یہ اجازت سن ١ ہجری کے آخر میں ملی تھی۔ بعد میں بہت سی ایسی آیات نازل ہوئیں جن میں صرف مدافعانہ جنگ کی اجازت ہی نہیں بلکہ ہر اس قوت سے بھڑ جانے اور جہاد کرنے کا حکم دیا گیا جو اللہ کے دین کے راستہ میں مزاحم ہورہی ہو۔ - [٦٦] اس جملہ کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ اللہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ جہاد و قتال کے بغیر بھی مسلمانوں کی مدد کرکے انھیں غالب کر دے اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ مسلمانوں کو بےسروسامان، تنگدست اور مٹھی بھر جماعت کو ان کفار مکہ پر غالب کردے جو اسلحہ، مال و دولت اور تعداد ہر لحاظ سے مسلمانوں سے بہت بڑھ کر ہیں۔ مزید برآں تمام مشرک قبائلی اور یہود بھی ان کے معاون و مددگار ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ ۔۔ :” أَيْ فِی الْقِتَالِ “ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کے دفاع کا طریقہ بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ کام مسلمانوں سے لے گا، وہ اگر چاہے تو قوم نوح، عاد، ثمود، قوم لوط اور اصحاب مدین کی طرح آسمانی عذاب کے ذریعے سے کفار کو تباہ و برباد کرسکتا ہے، مگر فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کرنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے سے اللہ تعالیٰ نے کفار کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے سزا دلوانے کا طریقہ اختیار فرمایا، کیونکہ اس میں بیشمار حکمتیں ہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ 14 ۝ ۙ وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوْبِهِمْ ۭ وَيَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ ) [ التوبۃ : ١٤، ١٥ ] ” ان سے لڑو، اللہ انھیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انھیں رسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا دے گا اور ان کے دلوں کا غصہ دور کرے گا اور اللہ تعالیٰ توبہ کی توفیق دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ “ جہاد کی چند حکمتوں کے لیے دیکھیے سورة محمد (٤) ، آل عمران (١٤٠ تا ١٤٢، ١٧٩) اور توبہ (١٦) ۔- 3 یہ پہلی آیت ہے جس میں کفار سے لڑائی کی اجازت دی گئی ہے، کیونکہ مکہ میں کفار کی بیشمار زیادتیوں کے باوجود مسلمانوں کو لڑنے کی اجازت نہیں تھی، بلکہ ہاتھ روک کر رکھنے کا حکم تھا، جیسا کہ فرمایا : (اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَھُمْ كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ ) [ النساء : ٧٧ ] ” کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ “ عبد اللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں : ( لَمَّا أُخْرِجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ مَکَّۃَ قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ أَخْرَجُوْا نَبِیَّھُمْ إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ لَیُھْلِکُنَّ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی : (ۧاُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُۨ) وَھِيَ أَوَّلُ آیَۃٍ نَزَلَتْ فِي الْقِتَالِ ) [ مستدرک حاکم : ٢؍٢٤٦، ح : ٢٩٦٨۔ مسند أحمد : ١؍٢١٦، ح : ١٨٧٠ ] ” جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے نکال دیا گیا تو ابوبکر (رض) نے کہا : ” انھوں نے (مکہ والوں نے ) اپنے نبی کو نکال دیا، انا للہ و انا الیہ راجعون، وہ ضرور ہلاک کردیے جائیں گے۔ “ تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی : (ۧاُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُۨ) [ الحج : ٣٩ ] عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا : ” یہ وہ پہلی آیت ہے جو قتال کے بارے میں نازل ہوئی۔ “ جب مسلمان مدینہ منتقل ہوگئے تو چھوٹی سی اسلامی مملکت قائم ہوگئی۔ کفار نے یہاں بھی چین سے نہ بیٹھنے دیا تو اس آیت میں مسلمانوں کو بھی لڑائی کی اجازت مل گئی۔ یہ تقریباً ہجرت کے پہلے سال کے آخر کا واقعہ ہے، اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار مکہ کے خلاف کئی مہمیں بھیجیں، جن کے نتیجے میں پہلا فیصلہ کن معرکہ بدر کے مقام پر ہوا، جسے اللہ تعالیٰ نے یوم الفرقان قرار دیا اور جس میں فرشتوں کے ذریعے سے مسلمانوں کی مدد کی گئی۔ - 3 قتال (لڑائی) ایک نہایت مشکل کام ہے، بیشک موت کا وقت مقرر ہے مگر آدمی جان بچانے کے لیے لڑائی سے جان بچاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قتال فرض کرنے میں تدریج سے کام لیا، پہلے اس آیت کے ذریعے سے قتال کا اذن ملا، پھر ” قَاتِلُوْا “ کے حکم کے ساتھ قتال فرض ہوا، مگر صرف ان لوگوں سے جو لڑائی کریں، جیسا کہ فرمایا : (وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ) [ البقرۃ : ١٩٠ ] ” اور اللہ کے راستے میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی مت کرو۔ “ اس کے بعد تمام کفار سے لڑنا فرض کردیا گیا، فرمایا : (كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَھُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ) [ البقرۃ : ٢١٦ ] ” تم پر لڑنا لکھ دیا گیا ہے، حالانکہ وہ تمہیں ناپسند ہے۔ “ اور فرمایا : (فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ ) [ التوبۃ : ٥ ] ” پس جب حرمت والے مہینے نکل جائیں تو ان مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو اور انھیں پکڑو اور انھیں گھیرو اور ان کے لیے ہر گھات کی جگہ بیٹھو۔ “ اور فرمایا : (قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَلَا بالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ ) [ التوبۃ : ٢٩] ” لڑو ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یوم آخر پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں، ان لوگوں میں سے جنھیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ دیں اور وہ حقیر ہوں۔ “ ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْھَدُوْا أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَ یُقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَاۃَ فَإِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ عَصَمُوْا مِنِّيْ دِمَاءَ ھُمْ وَ أَمْوَالَھُمْ إِلَّا بِحَقِّ الإْسْلَامِ وَ حِسَابُھُمْ عَلَی اللّٰہِ ) [ بخاري، الإیمان، باب ( فإن تابوا و أقاموا الصلاۃ۔۔ : ٢٥ ] ” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمام لوگوں سے قتال (لڑائی) کروں، یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ بیشک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، پھر جب وہ یہ کام کرلیں تو انھوں نے اپنے خون اور اپنے مال مجھ سے محفوظ کرلیے مگر اسلام کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔ “ لڑائی کی تدریجاً فرضیت ایسے ہی ہے جیسے شراب تین مرحلوں میں مکمل حرام ہوئی۔ دیکھیے سورة مائدہ (٩٠) کی تفسیر۔ اسی طرح روزہ تین مرحلوں میں موجودہ صورت میں فرض ہوا۔- بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا : یعنی مسلمانوں کو قتال کی اجازت اس لیے دی گئی ہے کہ ان پر ظلم کیا گیا ہے، یہ ظلم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی کیا گیا اور مسلمانوں پر بھی۔ عروہ بن زبیر فرماتے ہیں : ( سَأَلْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرٍو عَنْ أَشَدِّ مَا صَنَعَ الْمُشْرِکُوْنَ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ رَأَیْتُ عُقْبَۃَ بْنَ أَبِيْ مُعَیْطٍ جَاءَ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَھُوَ یُصَلِّيْ ، فَوَضَعَ رِدَاءَہٗ فِيْ عُنُقِہِ فَخَنَقَہُ بِھَا خَنْقًا شَدِیْدًا، فَجَاءَ أَبُوْ بَکْرٍ حَتّٰی دَفَعَہُ عَنْہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : ( اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ يَّقُوْلَ رَبِّيَ اللّٰهُ وَقَدْ جَاۗءَكُمْ بالْبَيِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْ ) [ بخاري، فضائل أصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، باب : ٣٦٧٨ ] ” میں نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے پوچھا : ” مشرکین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب سے زیادہ سخت تکلیف کیا پہنچائی تھی ؟ “ انھوں نے فرمایا : ” میں نے (بدبخت) عقبہ بن ابی معیط کو دیکھا، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بڑھا جبکہ آپ نماز پڑھ رہے تھے، اس نے اپنی چادر آپ کی گردن میں ڈالی اور آپ کا گلا بہت سختی سے گھونٹ دیا تو ابوبکر (رض) آئے اور اسے دھکیل کر پیچھے ہٹایا اور کہا : ( اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ يَّقُوْلَ رَبِّيَ اللّٰهُ وَقَدْ جَاۗءَكُمْ بالْبَيِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْ ) [ المؤمن : ٢٨ ] ” کیا تم ایک آدمی کو اس لیے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے، میرا رب اللہ ہے، حالانکہ یقیناً وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیلیں لے کر آیا ہے۔ “ عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں : ( کَانَ أَوَّلَ مَنْ أَظْھَرَ إِسْلَامَہُ سَبْعَۃٌ : رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَبُوْ بَکْرٍ ، وَعَمَّارٌ، وَأُمُّہُ سُمَیَّۃُ ، وَصُھَیْبٌ، وَبِلاَلٌ، وَالْمِقْدَادُ ، فَأَمَّا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ وَ عَلَیْہَِ سَلَّمَ فَمَنَعَہُ اللّٰہُ بِعَمِّہِ أَبِیْ طَالِبٍ وَ أَمَّا أَبُوْ بَکْرٍ فَمَنَعَہُ اللّٰہُ بِقَوْمِہِ وَ أَمَّا سَاءِرُھُمْ ، فَأَخَذَھُمُ الْمُشْرِکُوْنَ وَأَلْبَسُوْھُمْ أَدْرَاعَ الْحَدِیْدِ وَصَھَرُوْھُمْ فِي الشَّمْسِ ، فَمَا مِنْھُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ وَقَدْ وَاتَاھُمْ عَلٰی مَا أَرَادُوْا، إِلاَّ بِلَالاً ، فَإِنَّہُ ھَانَتْ عَلَیْہِ نَفْسُہُ فِي اللّٰہِ ، وَھَانَ عَلٰی قَوْمِہِ ، فَأَخَذُوْہُ ، فَأَعْطَوْہُ الْوِلْْدَانَ ، فَجَعَلُوْا یَطُوْفُوْنَ بِہِ فِيْ شِعَابِ مَکَّۃَ وَھُوَ یَقُوْلُ : أَحَدٌ، أَحَدٌ ) [ ابن ماجہ، السنۃ، باب فضل سلمان وأبي ذر والمقداد : ١٥٠ و صححہ الحاکم والذھبي وابن حبان وغیرھم و الألباني ] ” سب سے پہلے جن لوگوں نے اپنے اسلام کا اظہار کیا وہ سات آدمی تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابوبکر، عمار، ان کی والدہ سمیہ، صہیب، بلال اور مقداد (رض) ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے چچا ابو طالب کے ذریعے سے محفوظ رکھا، ابوبکر (رض) کو اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کے ذریعے سے محفوظ رکھا۔ باقی سب کو مشرکین نے پکڑ لیا اور انھیں لوہے کی قمیصیں پہنا کر دھوپ میں جھلسنے کے لیے پھینک دیا۔ چناچہ ان میں سے جو بھی تھا اس نے اس کے مطابق کہہ دیا جو وہ چاہتے تھے سوائے بلال (رض) کے۔ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں اس کے نزدیک اس کی جان بےقدر و قیمت ٹھہری (اس نے اپنی جان کی کوئی پروا نہ کی) اور وہ ان لوگوں کی نظر میں ایسا بےقدر و قیمت ٹھہرا کہ انھوں نے اسے پکڑا اور لڑکوں کو دے دیا۔ وہ اسے مکہ کی گھاٹیوں میں پھراتے تھے اور وہ کہتا تھا : اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے۔ “ ابوبکر (رض) کو مشرکین کی بےتحاشا مار کا تذکرہ بھی کتب سیرت میں موجود ہے۔ جابر (رض) بیان کرتے ہیں : ( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِعَمَّارٍ وَأَھْلِہِ وَھُمْ یُعَذَّبُوْنَ فََقَالَ أَبْشِرُوْا آلَ عَمَّارٍ وَآلَ یَاسِرٍ فَإِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّۃُ ) [ مستدرک حاکم : ٣؍٣٨٣، ح : ٥٦٦٦ و صححہ الحاکم و وافقہ الذھبی ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمار اور اس کے خاندان کے پاس سے گزرے، جب انھیں عذاب دیا جا رہا تھا تو فرمایا : ” اے آل عمار اور آل یاسر خوش ہوجاؤ، تمہارے وعدے کی جگہ جنت ہے۔ “ خباب (رض) نے بیان کیا کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، آپ کعبہ کے سائے میں چادر کی ٹیک لگائے بیٹھے تھے اور ہمیں مشرکین کی طرف سے بہت سخت تکلیف پہنچی تھی۔ میں نے کہا : ” کیا آپ اللہ سے دعا نہیں کرتے ؟ “ آپ (سیدھے ہو کر) بیٹھ گئے اور آپ کا چہرہ (غصے سے) سرخ تھا، فرمایا : ” تم سے پہلے لوگوں کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا کہ لوہے کی کنگھیوں کے ساتھ ان کی ہڈیوں سے گوشت اور پٹھے چھیل دیے جاتے تھے، یہ چیز انھیں ان کے دین سے نہیں پھیرتی تھی اور انھیں سر کی چوٹی پر آرا رکھ کر دو حصوں میں چیر دیا جاتا، یہ چیز انھیں ان کے دین سے پھیرتی نہ تھی اور (اللہ کی قسم ) یہ کام ضرور پورا ہو کر رہے گا یہاں تک کہ سوار صنعاء سے حضر موت تک چلے گا اور اسے کسی کا خوف نہیں ہوگا سوائے اللہ کے، یا سوائے بھیڑیے کے اس کی بھیڑ بکریوں پر اور لیکن تم جلدی کرتے ہو۔ “ [ بخاري، مناقب الأنصار، باب ما لقي النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و أصحابہ من المشرکین بمکۃ : ٣٨٥٢ ] کفار نے مسلمانوں پر اس قدر ظلم کیا اور اتنی ایذائیں دیں کہ ان میں سے کچھ حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے اور کچھ مکہ ہی میں ظلم کی چکی میں پستے رہے، حتیٰ کہ انھوں نے مدینہ کی طرف ہجرت اختیار کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے۔ ابوبکر (رض) بھی ایک دفعہ ہجرت کرنے کے لیے نکلے مگر ابن الدغنہ برک الغماد سے انھیں واپس لے آئے، پھر بعد میں وہ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے۔- وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُۨ : یعنی اگرچہ ان کی تعداد بہت کم ہے، مگر اللہ تعالیٰ ان کی نصرت پر اور انھیں غالب کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔ یہاں یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ اس وقت مدینہ کی چھوٹی سی بستی میں مسلمانوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں تھی، مقابلے میں قریش تھے، جن کی سرداری پورے عرب میں مسلم تھی اور عرب کے تمام مشرک قبائل ان کی پشت پر تھے، بعد میں یہودی بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ اس موقع پر کائنات کے مالک اور شہنشاہ کا یہ فرمان کہ ” بیشک اللہ ان کی مدد کرنے پر یقیناً پوری طرح قادر ہے “ یہ جملہ ان مسلمانوں کو قوی اور قائم کردینے والا تھا جنھیں پورے عرب کے مقابلے کے لیے کہا جا رہا تھا اور کفار کو بھی تنبیہ ہے کہ ان کا مقابلہ چند مسلمانوں سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے ہے، کیونکہ مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بیان نہیں بلکہ مراد نصرت کا وعدہ ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (گو اب تک بمصالح کفار سے لڑنے کی ممانعت تھی لیکن اب) لڑنے کی ان لوگوں کو اجازت دے دیگئی جن سے (کافروں کی طرف سے) لڑائی کی جاتی ہے اس وجہ سے کہ ان پر (بہت) ظلم کیا گیا ہے (یہ علت ہے مشروعیت جہاد کی) اور (اس حالت اذن میں مسلمانوں کی قلت اور کفار کی کثرت پر نظر نہ کرنا چاہئے کیونکہ) بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان کے غالب کردینے پر پوری قدرت رکھتا ہے (آگے ان کی مظلومیت کا بیان ہے کہ) جو (بیچارے) اپنے گھروں سے بےوجہ نکالے گئے محض اتنی بات پر کہ یوں کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے (یعنی عقیدہ توحید پر کفار کا یہ تمام تر غیظ و غضب تھا کہ ان کو اس قدر پریشان کیا کہ وطن چھوڑنا پڑا آگے جہاد کی حکمت ہے) اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ تعالیٰ (ہمیشہ سے) لوگوں کا ایک دوسرے (کے ہاتھ) سے زور نہ گھٹواتا رہتا (یعنی اہل حق کو اہل باطل پر وقتاً فوقتاً غالب نہ کرتا رہتا) تو (اپنے اپنے زمانوں میں) نصاریٰ کے خلوت خانے اور عبادت خانے اور یہود کے عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) وہ مسجدیں جن میں اللہ کا نام بکثرت لیا جاتا ہے سب منہدم (اور منعدم) ہوگئے ہوتے (آگے اخلاص فی الجہاد پر غلبہ کی بشارت ہے) اور بیشک اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے گا جو کہ اللہ (کے دین) کی مدد کرے گا (یعنی اس کے لڑنے میں خالص نیت اعلاء کلمة اللہ کی ہو) بیشک اللہ تعالیٰ قوت والا (اور) غلبہ والا ہے (وہ جس کو چاہے قوت و غلبہ دے سکتا ہے آگے ان کی فضیلت ہے) یہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر ہم ان کو دنیا میں حکومت دیدیں تو یہ لوگ خود بھی نماز کی پابندی کریں اور زکوٰة دیں اور (دوسروں کو بھی) نیک کاموں کے کرنے کو کہیں اور برے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام تو خدا ہی کے اختیار میں ہے (پس مسلمانوں کی موجودہ حالت دیکھ کر یہ کوئی کیونکر کہہ سکتا ہے کہ انجام بھی ان کا یہی رہے گا بلکہ ممکن ہے کہ اس کا عکس ہوجاوے چناچہ ہوا) ۔- معارف و مسائل - کفار کے ساتھ جہاد کا پہلا حکم : - مکہ مکرمہ میں مسلمانوں پر کفار کے مظالم کا یہ حال تھا کہ کوئی دن خالی نہ جاتا کہ کوئی مسلمان ان کے دست ستم سے زخمی اور چوٹ کھایا ہوا نہ آتا ہو۔ قیام مکہ کے آخری دور میں مسلمانوں کی تعداد بھی خاصی ہوچکی تھی وہ کفار کے ظلم و جور کی شکایت اور ان کے مقابلے میں قتل و قتال کی اجازت مانگتے تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جواب میں فرماتے کہ صبر کرو مجھے ابھی تک قتال کی اجازت نہیں دی گئی یہ سلسلہ دس سال تک اسی طرح جاری رہا (قرطبی عن ابن عربی)- جس وقت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وطن مکہ چھوڑنے اور ہجرت کرنے پر مجبور کردیئے گئے اور صدیق اکبر آپ کے رفیق تھے تو مکہ مکرمہ سے نکلتے وقت آپ کی زبان سے نکلا اخرجوا نبیھم لیھلکن یعنی ان لوگوں نے اپنے نبی کو نکالا ہے اب ان کی ہلاکت کا وقت آ گیا ہے اس پر مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعد یہ آیت مذکورہ نازل ہوئی (جس میں مسلمانوں کو کفار سے قتال کی اجازت دے دیگئی) رواہ النسائی والترمذی عن ابن عباس) ۔ (قرطبی)- اور حضرت ابن عباس سے ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن حبان اور حاکم وغیرہ نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اس کو حسن فرمایا ہے روایت یہ ہے کہ ابن عباس نے فرمایا کہ یہ پہلی آیت ہے جو قتال کفار کے معاملہ میں نازل ہوئی جبکہ اس سے پہلے ستر سے زیادہ آیتوں میں قتال کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا۝ ٠ۭ وَاِنَّ اللہَ عَلٰي نَصْرِہِمْ لَقَدِيْرُۨ۝ ٣٩ۙ- وأَذِنَ :- استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة 279] .- ( اذ ن) الاذن - اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ - قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - قَدِيرُ :- هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] .- القدیر - اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٩) اب مسلمانوں کو کفار مکہ کے ساتھ لڑنے کی اجازت دے دی گئی جن سے لڑائی کی جاتی ہے اس وجہ سے کہ کفار مکہ نے ان پر بہت ظلم کیا ہے بیشک اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ان کے دشمنوں پر غالب کردینے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔- شان نزول : ( آیت ) ” اذن للذین یقتلون “۔ (الخ)- امام احمد (رح) نے اور ترمذی (رح) نے تحسین (رح) اور امام حاکم (رح) نے تصحیح کے ساتھ ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے چلے تو حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا ان لوگوں نے اپنے نبی کو نکال دیا تاکہ وہ ہلاک ہوں اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی یعنی اب لڑنے کی ان لوگوں کو اجازت دی گئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٩ (اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا ط) ” - سالہا سال سے انہیں تشدد و تعذیب کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ نت نئے طریقوں سے انہیں ستایا جا رہا تھا۔ انہیں گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ اب تک اللہ تعالیٰ نے ایک حکم کے ذریعے ان کے ہاتھ باندھ رکھے تھے۔ یہ حکم اگرچہ وحی جلی کی صورت میں قرآن میں نہیں آیا مگر سورة النساء کی آیت ٧٧ میں (کُفُّوْا اَیْدِیَکُمْ ) کے الفاظ میں تصدیق کی گئی ہے کہ انہیں اپنے ہاتھ روکنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وحی خفی کے ذریعے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا گیا تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام اہل ایمان کو اس سے مطلع فرما دیا تھا کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے ‘ تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے ‘ تمہیں زندہ بھون کر کباب کردیا جائے ‘ تم لوگ جواب میں ہاتھ نہیں اٹھاؤ گے۔ بہر حال اب تک تو یہ حکم تھا ‘ مگر اب ان کے ہاتھ کھولے جا رہے ہیں۔ اب انہیں اجازت دی جا رہی ہے کہ آئندہ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دے سکتے ہیں۔- (وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرُ نِ ) ” - تاکیداً یہاں پھر فرما دیا گیا کہ وہ اپنے آپ کو اکیلا نہ سمجھیں ‘ یقیناً اللہ ان کی مدد پر پوری طرح قادر ہے اور وہ ضرور ان کی بھرپور مدد فرمائے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :78 جیسا کہ دیباچے میں بیان کیا جا چکا ہے ، یہ قتال فی سبیل اللہ کے بارے میں اولین آیت ہے جو نازل ہوئی ۔ اس آیت میں صرف اجازت دی گئی تھی ۔ بعد میں سورہ بقرہ کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں جنگ کا حکم دے دیا گیا ، یعنی : وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ ، ( آیت 190 ) اور وَاقْتُلُوْھُمْ حَیْثُ ثَقِتُمُوْھُمْ وَاَخْرِجُوْھَمْ مِّن حَیْثَ اَخْرَجُوْکُمْ ( آیت 191 ) اور وَقَاتِلُوْھُمْ حتیٰ لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلہِ ( آیت 193 ) اور : کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَھُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ ( آیت 216 ) اور : وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَعْلَمُوْآ اَنَّ اللہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ( آیت 244 ) اجازت اور حکم میں صرف چند مہینوں کا فصل ہے ۔ اجازت ہماری تحقیق کے مطابق ذی الحجہ 1 ھ میں نازل ہوئی ، اور حکم جنگ بدر سے کچھ پہلے رجب یا شعبان 2 ھ میں نازل ہوا ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :79 یعنی اس کے باوجود کہ یہ چند مٹھی بھر آدمی ہیں ، اللہ ان کو تمام مشرکین عرب پر غالب کر سکتا ہے ۔ یہ بات نگاہ میں رہے کہ جس وقت تلوار اٹھانے کی یہ اجازت دی جا رہی تھی ، مسلمانوں کی ساری طاقت صرف مدینے کے ایک معمولی قصبے تک محدود تھی اور مہاجرین و انصار مل کر بھی ایک ہزار کی تعداد تک نہ پہنچتے تھے ۔ اور اس حالت میں چیلنج دیا جا رہا تھا قریش کو جو تنہا نہ تھے بلکہ عرب کے دوسرے مشرک قبائل بھی ان کی پشت پر تھے اور بعد میں یہودی بھی ان کے ساتھ مل گئے ۔ اس موقع پر یہ ارشاد کہ اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے نہایت بر محل تھا ۔ اس سے ان مسلمانوں کی بھی ڈھارس بندھائی گئی جنہیں پورے عرب کی طاقت کے مقابلے میں تلوار لے کر اٹھ کھڑے ہونے کے لیے ابھارا جا رہا تھا ۔ اور کفار کو بھی متنبہ کر دیا گیا کہ تمہارا مقابلہ ۔ دراصل ان مٹھی بھر مسلمانوں سے نہیں بلکہ خدا سے ہے ۔ اس کے مقابلے کی ہمت ہو تو سامنے آ جاؤ ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

23: مکہ مکرَّمہ میں تیرہ (۱۳) سال تک صبر وضبط کی تلقین کے بعد یہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو کافروں کے خلاف تلوار اُٹھانے کی اجازت دی گئی۔ اِس سے پہلے مسلمانوں کو کفار کے ظلم وستم کا کوئی جواب دینے کی اجازت نہیں تھی، بلکہ ہر زیادتی پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔